سرورق
فہرست مندرجات
مقدمہ
جب حکم اپنی بارش رحمت کو تو کیا
دیوان عشق
کہہ سکے کس منہ سے کوئی خلاق اکبر کی ثنا
صبح شگفتگی کو غنچوں کو یاد کرنا
سبب کیا پوچھتے ہو عشق کی آشفتہ حالی کا
اگر یہ خود نمائی تجھ کوآئینہ نہ سکھلاتا
یہ اب کی فصل گل میں دل کے سرسودا کا ساماں تھا
دوست دل کا غم سے کچھ عالم نرالا ہو گیا
چمن چمن ہو کے شیدائے گل رخاں بھی پھرا
تجھ حسن کے نظارے کی کب ماہ تاب لا
خدا مجھ کو اگر آئینہ پرداز جہاں کرتا
تجھ سے دل کانپ کے لرزاں نہ ہوا تھا سو ہوا
خوبوں کے شبستاں میں ہے تو شمع سری کا
نہیں گلگشت گلستاں میں وہ جاناں میرا
خنداں جو شکر لب کو گلستاں میں دیکھا
دیا کس شوق دل سے ہائے پروانہ نے جان اپنا
وہ دل جو اس پری کی ہے جلوہ گہ لقا کا
کیا نقصان مرا دل تو جفا کار اپنا
خاک ہوں دل کے لئے جل کے یہ منظور نہ تھا
نقد دل سے میں خریدار ہوں کن کا ان کا
بہت خون جگر کھا کر کیا یہ چشم تر پیدا
رونے سے دل کو ضبط میں لایا نہ جائیگا
عشق کی آگ میں اب شمع ساحل جاؤں گا
زلفوں کی کھول گرہیں گلرو دراز کرنا
ساجد ہوا اس بت کے جو میں نقش قدم کا
روتا ہے ہچکیاں لے ساقی بغیر مینا
جو دل کہ خاک راہ ہوا کوئے یار کا
بساں اشک نہ پھر خاک سر اٹھا ہو گا
الٰہی گل کرے مطلب دل رنگین بسمل کا
وہ دیوانہ ہوں گلرو کا اگر سیر چمن کرتا
جو دل کہ یار یاب ہے بزم حضور کا
ترے ہجراں کے غم میں کیا لکھوں احوال آنکھوں کا
آنکھوں کو آنسوؤں سے سروکار ہے بھلا
فردیات
آنکھوں کہو مژہ سے تم آنسو سے آشنا
بلبلا پھوٹے پہ ہو جاتا ہےآب
ہے مہررو کا عکس دیکھو دل نشین آب
ب
خورشید رو کی صحبت جو اب نہیں تو پھر کب
چشم عاشق کی صدف میں دیکھ کر یہ اشک ناب
چوتھے فلک پہ راکھے مسر افتخار صبح
مہندی کی مچھلیوں کا اٹھاویں گے کیونکہ بوجھ
ت
ث
پتنگوں کو جلانے کی ہے شمع انجمن باعث
چ
گوشواروں کو نظر یار کے کرکان کے بیچ
اس کے عارض پہ مگر زلف گل افشاں ہے آج
ج
ح
اپنی آنکھوں میں کسے ہم نے جگہ خواب کی طرح
کی ہے بلبل نے فغاں میرے دل مفتوح کی طرح
شوخ ابرو میں ترے کاٹ ہے تلوار کی طرح
چشم تر آبشار کی سی طرح
پھوٹ کر دل حباب کی سی طرح
زلف خوبوں سے مصاحب کیوں کے ہوشانے کی طرح
نذر تیرے اشک خوں کہہ عشق لاوے کس طرح
تری گلی کی اے گل یاد نیں بساری روح
خ
فقط نہ بھر کے گلوں سے کیا ہے داماں سرخ
کس قدر ہے چاک گل کا بھی گریباں العیاذ
ذ
د
کرے ہے کیوں تو عیاں آہ ناتواں فریاد
ر
ہم قفس میں بند ہیں گلشن میں آتی ہے بہار
آرزو ہے ہوں تصدق اس بت دلخواہ پر
کب ہےغربت بن وطن میں حسن کے جوہر کی قدر
میں درد دل کو مفصل کروں اگر تقریر
تھمے فوارۂ آنسو اچھل کر
مباد شغل بتوں میں خدا سے ہوں بیکار
میری آہ گرم نے ڈالا ہے کیا رونے میں شور
بیوجہ نہیں اے مہرو سنو تم جو ہر سحر
فردیات
چاہے تھا جسقدر مرا دل اس کو دیکھئے
بھید میں پایا ہوں اس ہنس ہنس کے رونے کا ہنوز
ز
س
قبر پر آیا وہ اسی لطف سے کر یاد کہ بس
ش
ص
رخسار ترے دیکھ ادھر قبلہ نما رقص
بلبل نالاں کرے اب کیوں نہ فریاد و خروش
مجھ کو نجف دکھاویں یہ ہے مرتضیٰ سے عرض
ض
کیوں نہ ہو مژگاں وابروئے بتاں سے اختلاط
ط
نزع میں ہے جان تجھ کو دیکھ جی جانے کا خط
ع
سوز دل ہر شب ہمیں اپنا ہی بتلاتی ہے شمع
ظ
غ
ہے مرے سینہ میں روشن تجھ محبت کا چراغ
ف
کس ادا سے اس کے لب میں ہے ہنسی آنے کا لطف
بہاتا اشک ہر دم چشم گریاں کے نہیں لائق
ق
لگ رہی جس طرح لالہ کے سارے بن کو آگ
یوں اشک معزز ہیں مرے یار کے نزدیک
گ
ک
گلچیں نے توڑلی کیا خالی تھی جائے گل
مجھ کو اس کے قد سے الفت ہے کمال
ل
تیرے نازک قد کے یہ گلرو لٹک جیوں شاخ گل
روشن دلوں کی جیہہ سے پیدا ہے راز دل
م
سبھی اہل چمن ہیں شاد اور تو چشم تر شبنم
دل جلوں کی کیوں نہ ہو پر نور غم کھانے سے چشم
روح رواں کو رکھتے ہین جس طرح تن میں ہم
خاطر سے غبار دھو گئے ہم
حیراں ہیں دیکھ تیری صورت کو یاں تلک ہم
بھول گئے گلشن کو بھی یاں بس کہ اے صیاد ہم
عشق سے کی یہ دل خالی نے بھر جانے میں دھوم
روتا ہے ابر تر بھی کہاں جس قدر کہ ہم
ن
ہر سحر باغ میں ہمراہ صبا جاتے ہیں
کیا سحر سامری ہے کیا خوش نگاہیاں ہیں
کیا وہ وعدۂ فردا قیامت اس کو کہتے ہیں
تجھ نقش پا سے زیب ہے عرش بریں کے تئیں
رشتۂ دم سے جان ہے تن میں
جو داغ عشق کے طاوس وار رکھتے ہیں
عاشق ہوئے ہیں جب سے ہم خود سے جارہے ہیں
جو شمع بزم کی شب زاریاں ہیں
گردش حال سے داتا کبھی دلگیر نہیں
محودیدار ترے حسن کے ہو جاتے ہیں
مجھ کو ترے فراق سا بھر کوئی غم نہیں
باغ جہاں میں سرد ساگردن گشیدہ ہوں
سر خوشی اس کے نین سے نہیں میخانے میں
ہو کے طالع کی رسائی سے غبار دامن
خیال گلبدن آکر بسا ہو جس کے پہلو میں
یہ نخل تاک میں میکش ترے جب مست ہوتے ہیں
گر چاہتا ہے عزت اے یار ہر نظر میں
میں وہ میکش ہوں نہ پیمانہ نہ مینا سمجھوں
شبنم سے صبح غنچہ گلوں کے وضو کریں
قصور فہم سے شاعر یہ کیا تعریف کرتے ہیں
شور جنوں سے جن نے نمک سا کیا نہیں
یاں تک ہے جی میں رویئے اب بیٹھکر کہیں
میں ہجر شعلہ خو میں سوز دل سے آہ بھرتا ہوں
یہ شاخ گل ان مہندی بھرے ہاتھوں پہ واریں
خلوت سرائے دل میں جسے راہ ہے نہیں
ہرگز ہی گل پہنچ نہ سکے اسکے روکے تئیں
محتسب مئے ہے مرے پاس کہاں شیشہ میں
گفتگو بھاتی ہے وہ ہے مجھ کو جس میں شور ہو
وہ اپنی رو سفیدی بوجھتے ہیں رو سیاہی کو
و
میں چھوڑنے کا ہاتھ دل زلف یار کو
چشم انصاف کے جو ہر کو مکدر نہ کرو
غم مرا دشمن جانی ہے کہو یا نہ کہو
تو رام کرنے چاہے گر آہوئے خطا کو
بس خراماں باغ میں قد کے تئیں پاتا ہے سرو
آغوش میں کھینچے ہے بتوں کے کف پاکو
دل حیراں پہ تغافل سے نہ بیداد کرو
وہ خوش خرام جو گلشن میں جلوہ فرما ہو
خورشید رو کے مہر کی جس پر نگاہ ہو
لاسکے کیوں کہ تری تاب نظر آئینہ
ھ
علی حق کا صفت ذات ہے اللہ اللہ
مئے الفت سے بھرا دل کا یہاں ہے شیشہ
گئے کیوں اشک اور لخت دل یوں رائگاں سچ کہہ
زاہد نہیں مسجد سے کم حرمت میخانہ
ہے یاد رخ سے ترے دل گلاب کا شیشہ
گر میرے خوش میں بستی نرگس ملائے آنکھ
ی
صفحہ پر کب چمن کے ہوا سے غبار ہے
کیا نام خدا یار تری خوش دہنی ہے
وہ شوخ گلستاں میں جب جلوہ گرآتا ہے
صورت کا اپنی یار پر ستار تھا سو ہے
پیام اتنا نسیم صبح میرا جاکہو گل سے
اشک گلرنگ کی یاں بس کہ گل افشانی ہے
نا م نرگس کا جہاں آیا ہے
شمع کے تیرے کرشمے نے دل افروزی کی
رستم ہزار عزم کی گو تاب لاسکے
جب شمع کے تئیں تنہا فانوس میں پاتا ہے
روئے ہے ستمگر وہ جسے تو نظر آوے
دل کا آئینہ خود نمائی سے
جل مرنے کو پروانہ اگر شمع پر آوے
نہ آئینہ ہی اس صورت کے آگے ہکا بکا ہے
تمہارے گریۂ غم کی کچھ انتہا بھی ہے
کیوں ہے کہہ آئینہ اس درجہ تو حیراں مجھ سے
میں تجھے بھولوں یہ خدا نہ کرے
ترک خواہش زر کر کیمیا گری یہ ہے
بہار دیکھے اور اس باغ کی خزاں دیکھے
ہر ایک رشک شمع ہے وہ جس کو دیکھئے
گرم جوشی کیوں نہ ہو خورشید رو کو ہم سنتے
گوہر کو کچھ نہ کور یتیمی سے باک ہے
یہ چھینتے ہیں دین ودل آنکھیں بتا مجھے
پسینہ گلبدن کا اور عطر گل برابر ہے
اس راہ میں سر دینا عشاق کو آساں ہے
آئینہ کبھی قابل دیدار نہ ہووے
تو خط کی یاد نے مجھے بے اختیار کی
رکھتا ہوں طلائی رنگ اور اشک بھی موتی ہے
جوت اس دردنداں کی الماس سے افزوں ہے
بہاروں میں تو سب آباد یکسر سب گلستاں تھے
خدا مرے دل پر خوں کو داغدار کرے
نہیں خواہاں بتاں اے عشق تیرے دل کی چاہوں کے
رونے میں ابر تر کی طرح چشم کو میرے جوش ہے
مہروش کا مرے ایسا رخ نورانی ہے
زلف پرپیچ و الم جبکہ الجھ جاتی ہے
ہے آہ گرم سرزد شعلہ ساں اب ہر بن ہوسے
جب آئینہ دل کی صفائی نظر آئی
صبا آہستہ جا کچھ کان میں گل کے بچار آئی
بوے زلف یار سے میرا معطر ہے دماغ
شعلہ خو مثل آتش افروزی
پاس آداب ترے حسن کا کرتے کرتے
گرفتاری کی لذت اور نرا آزاد کیا جانے
شکست دل کے تئیں میرے تو اے دل سخت کیا جاے
ہنسی میں تیرے مقابل تو برق ہو نہ سکے
اے مصور یار کی تصویر کھینچا چاہئے
زلف دلبر لے گئی دل گھات سے
پربلبلوں کے چمن کی طرف پکار آئی
جنوں نے مجھ کو کہا چاک جیب کر دیجے
اگر ثابت قدم ہو عشق میں جیوں شمع جل سکئے
گر یہ کو میرے ہے شرف ابر بہار سے
بیتی ہے یہ سب دل پہ ہے سب دلکی زبانی
بلا سے خلق ہو بیدرد عشق کیا غم ہے
اگر مجھ دل کی بیتابی کو حیرت سے قرار آئے
وہ مرے چشم تر کی زاری ہے
کسو کےدل کی خبر ہے تجھے ستانے کی
اگر گل میں پیارے تری بونہ ہووے
آج اس شرابی کے ہاتھ میں گلابی ہے
شام غم دیکھو شمع کا روتے روتے
جو رکھئے پاؤں پر سر اس بت مغرور خود بیں کے
گزارش کر صبا خدمت میں تو اس لا وبالی کے
سرو آزاد کو وہ قد جو نظر پڑ جاوے
ہم اسیران قفس پر ہے یہ کیا بیدادی
اگر خورشید روکے دیکھنے کی دل کو تاب آتی
شمع سا اپنے دنی سر سے گزر کر جاوے
صحرا پڑا ہے سونا مجنوں کدھر گیا ہے
مئے الفت سے تری مجھ دل میں بھری رہتی ہے
حشر میں قبر سے جب عاشق ناشاد اٹھے
پہنچے اس زلف کی کب یاس کو مشک ختنی
دل رنگیں مرا اگر عشق میں بے باک ہو جاوے
جو دیکھے لعل تجھ ہونٹوں کے تئیں خونناب بن جاوے
میرے گل کا جو کوئی لطف و کرم دیکھا ہے
جیتے ہیں خشک چشمے عالم کے بھر رہینگے
غم کے خمار کو شراب کہتے ہیں سیر باغ ہے
قفس کے کنج میں چپ ہوں تو دل فریاد کرتا ہے
وہ زلف چلیپائے رخ یار کہاں ہے
اگر آوے وہ خود بیں برسر بیداد کیا کیجے
کیا دلفریب سنتے ہو صورت ہزار ہے
وہ پیالوں میں ابھی سرشار ہو جاتا ہوں آ ساقی
مجلس کی شمع آکر جب درمیاں ہوئی ہے
کہیو سر کش سے بگولے سے تری ہستی ہے
اس پر جفا کی مجھ سے زلف آشنا ہوئی ہے
جام جم سے نہیں کچھ چشم تری کم ساقی
رباعیات
احمد کہ ہے فوق سب سے پایا اس کا
رباعی مستزاد
خاطر میں نہیں لاتے ہیں جو اہل نظر دنیا کا یہ فر
تر احمد کرنے کو جان جہاں
مثنوی من کلام میر جمال اللہ عشق
جمال آگے ترے خور دن کا جیوں مہتاب ہو جاتا
مخمس تضمین ریختہ یقین
مخمس تضمین ریختہ دردؔ
ہے عدم میں بھی تجھ الفت کا سرو کار ہنوز
بلبل تصویر ہیں خاموش و بے فریاد ہم
مخمس تضمین ریختہ سوداؔ
خانہ خراب بہت ہیں پر اس قدر کہیں
مخمس تضمین ریختہ دردؔ
فلک سے جور طلب مستعار رکھتے ہیں
YEAR1960
CONTRIBUTORRekhta
PUBLISHER Idara-e-Adabiyat-e-Urdu, Hyderabad
YEAR1960
CONTRIBUTORRekhta
PUBLISHER Idara-e-Adabiyat-e-Urdu, Hyderabad
سرورق
فہرست مندرجات
مقدمہ
جب حکم اپنی بارش رحمت کو تو کیا
دیوان عشق
کہہ سکے کس منہ سے کوئی خلاق اکبر کی ثنا
صبح شگفتگی کو غنچوں کو یاد کرنا
سبب کیا پوچھتے ہو عشق کی آشفتہ حالی کا
اگر یہ خود نمائی تجھ کوآئینہ نہ سکھلاتا
یہ اب کی فصل گل میں دل کے سرسودا کا ساماں تھا
دوست دل کا غم سے کچھ عالم نرالا ہو گیا
چمن چمن ہو کے شیدائے گل رخاں بھی پھرا
تجھ حسن کے نظارے کی کب ماہ تاب لا
خدا مجھ کو اگر آئینہ پرداز جہاں کرتا
تجھ سے دل کانپ کے لرزاں نہ ہوا تھا سو ہوا
خوبوں کے شبستاں میں ہے تو شمع سری کا
نہیں گلگشت گلستاں میں وہ جاناں میرا
خنداں جو شکر لب کو گلستاں میں دیکھا
دیا کس شوق دل سے ہائے پروانہ نے جان اپنا
وہ دل جو اس پری کی ہے جلوہ گہ لقا کا
کیا نقصان مرا دل تو جفا کار اپنا
خاک ہوں دل کے لئے جل کے یہ منظور نہ تھا
نقد دل سے میں خریدار ہوں کن کا ان کا
بہت خون جگر کھا کر کیا یہ چشم تر پیدا
رونے سے دل کو ضبط میں لایا نہ جائیگا
عشق کی آگ میں اب شمع ساحل جاؤں گا
زلفوں کی کھول گرہیں گلرو دراز کرنا
ساجد ہوا اس بت کے جو میں نقش قدم کا
روتا ہے ہچکیاں لے ساقی بغیر مینا
جو دل کہ خاک راہ ہوا کوئے یار کا
بساں اشک نہ پھر خاک سر اٹھا ہو گا
الٰہی گل کرے مطلب دل رنگین بسمل کا
وہ دیوانہ ہوں گلرو کا اگر سیر چمن کرتا
جو دل کہ یار یاب ہے بزم حضور کا
ترے ہجراں کے غم میں کیا لکھوں احوال آنکھوں کا
آنکھوں کو آنسوؤں سے سروکار ہے بھلا
فردیات
آنکھوں کہو مژہ سے تم آنسو سے آشنا
بلبلا پھوٹے پہ ہو جاتا ہےآب
ہے مہررو کا عکس دیکھو دل نشین آب
ب
خورشید رو کی صحبت جو اب نہیں تو پھر کب
چشم عاشق کی صدف میں دیکھ کر یہ اشک ناب
چوتھے فلک پہ راکھے مسر افتخار صبح
مہندی کی مچھلیوں کا اٹھاویں گے کیونکہ بوجھ
ت
ث
پتنگوں کو جلانے کی ہے شمع انجمن باعث
چ
گوشواروں کو نظر یار کے کرکان کے بیچ
اس کے عارض پہ مگر زلف گل افشاں ہے آج
ج
ح
اپنی آنکھوں میں کسے ہم نے جگہ خواب کی طرح
کی ہے بلبل نے فغاں میرے دل مفتوح کی طرح
شوخ ابرو میں ترے کاٹ ہے تلوار کی طرح
چشم تر آبشار کی سی طرح
پھوٹ کر دل حباب کی سی طرح
زلف خوبوں سے مصاحب کیوں کے ہوشانے کی طرح
نذر تیرے اشک خوں کہہ عشق لاوے کس طرح
تری گلی کی اے گل یاد نیں بساری روح
خ
فقط نہ بھر کے گلوں سے کیا ہے داماں سرخ
کس قدر ہے چاک گل کا بھی گریباں العیاذ
ذ
د
کرے ہے کیوں تو عیاں آہ ناتواں فریاد
ر
ہم قفس میں بند ہیں گلشن میں آتی ہے بہار
آرزو ہے ہوں تصدق اس بت دلخواہ پر
کب ہےغربت بن وطن میں حسن کے جوہر کی قدر
میں درد دل کو مفصل کروں اگر تقریر
تھمے فوارۂ آنسو اچھل کر
مباد شغل بتوں میں خدا سے ہوں بیکار
میری آہ گرم نے ڈالا ہے کیا رونے میں شور
بیوجہ نہیں اے مہرو سنو تم جو ہر سحر
فردیات
چاہے تھا جسقدر مرا دل اس کو دیکھئے
بھید میں پایا ہوں اس ہنس ہنس کے رونے کا ہنوز
ز
س
قبر پر آیا وہ اسی لطف سے کر یاد کہ بس
ش
ص
رخسار ترے دیکھ ادھر قبلہ نما رقص
بلبل نالاں کرے اب کیوں نہ فریاد و خروش
مجھ کو نجف دکھاویں یہ ہے مرتضیٰ سے عرض
ض
کیوں نہ ہو مژگاں وابروئے بتاں سے اختلاط
ط
نزع میں ہے جان تجھ کو دیکھ جی جانے کا خط
ع
سوز دل ہر شب ہمیں اپنا ہی بتلاتی ہے شمع
ظ
غ
ہے مرے سینہ میں روشن تجھ محبت کا چراغ
ف
کس ادا سے اس کے لب میں ہے ہنسی آنے کا لطف
بہاتا اشک ہر دم چشم گریاں کے نہیں لائق
ق
لگ رہی جس طرح لالہ کے سارے بن کو آگ
یوں اشک معزز ہیں مرے یار کے نزدیک
گ
ک
گلچیں نے توڑلی کیا خالی تھی جائے گل
مجھ کو اس کے قد سے الفت ہے کمال
ل
تیرے نازک قد کے یہ گلرو لٹک جیوں شاخ گل
روشن دلوں کی جیہہ سے پیدا ہے راز دل
م
سبھی اہل چمن ہیں شاد اور تو چشم تر شبنم
دل جلوں کی کیوں نہ ہو پر نور غم کھانے سے چشم
روح رواں کو رکھتے ہین جس طرح تن میں ہم
خاطر سے غبار دھو گئے ہم
حیراں ہیں دیکھ تیری صورت کو یاں تلک ہم
بھول گئے گلشن کو بھی یاں بس کہ اے صیاد ہم
عشق سے کی یہ دل خالی نے بھر جانے میں دھوم
روتا ہے ابر تر بھی کہاں جس قدر کہ ہم
ن
ہر سحر باغ میں ہمراہ صبا جاتے ہیں
کیا سحر سامری ہے کیا خوش نگاہیاں ہیں
کیا وہ وعدۂ فردا قیامت اس کو کہتے ہیں
تجھ نقش پا سے زیب ہے عرش بریں کے تئیں
رشتۂ دم سے جان ہے تن میں
جو داغ عشق کے طاوس وار رکھتے ہیں
عاشق ہوئے ہیں جب سے ہم خود سے جارہے ہیں
جو شمع بزم کی شب زاریاں ہیں
گردش حال سے داتا کبھی دلگیر نہیں
محودیدار ترے حسن کے ہو جاتے ہیں
مجھ کو ترے فراق سا بھر کوئی غم نہیں
باغ جہاں میں سرد ساگردن گشیدہ ہوں
سر خوشی اس کے نین سے نہیں میخانے میں
ہو کے طالع کی رسائی سے غبار دامن
خیال گلبدن آکر بسا ہو جس کے پہلو میں
یہ نخل تاک میں میکش ترے جب مست ہوتے ہیں
گر چاہتا ہے عزت اے یار ہر نظر میں
میں وہ میکش ہوں نہ پیمانہ نہ مینا سمجھوں
شبنم سے صبح غنچہ گلوں کے وضو کریں
قصور فہم سے شاعر یہ کیا تعریف کرتے ہیں
شور جنوں سے جن نے نمک سا کیا نہیں
یاں تک ہے جی میں رویئے اب بیٹھکر کہیں
میں ہجر شعلہ خو میں سوز دل سے آہ بھرتا ہوں
یہ شاخ گل ان مہندی بھرے ہاتھوں پہ واریں
خلوت سرائے دل میں جسے راہ ہے نہیں
ہرگز ہی گل پہنچ نہ سکے اسکے روکے تئیں
محتسب مئے ہے مرے پاس کہاں شیشہ میں
گفتگو بھاتی ہے وہ ہے مجھ کو جس میں شور ہو
وہ اپنی رو سفیدی بوجھتے ہیں رو سیاہی کو
و
میں چھوڑنے کا ہاتھ دل زلف یار کو
چشم انصاف کے جو ہر کو مکدر نہ کرو
غم مرا دشمن جانی ہے کہو یا نہ کہو
تو رام کرنے چاہے گر آہوئے خطا کو
بس خراماں باغ میں قد کے تئیں پاتا ہے سرو
آغوش میں کھینچے ہے بتوں کے کف پاکو
دل حیراں پہ تغافل سے نہ بیداد کرو
وہ خوش خرام جو گلشن میں جلوہ فرما ہو
خورشید رو کے مہر کی جس پر نگاہ ہو
لاسکے کیوں کہ تری تاب نظر آئینہ
ھ
علی حق کا صفت ذات ہے اللہ اللہ
مئے الفت سے بھرا دل کا یہاں ہے شیشہ
گئے کیوں اشک اور لخت دل یوں رائگاں سچ کہہ
زاہد نہیں مسجد سے کم حرمت میخانہ
ہے یاد رخ سے ترے دل گلاب کا شیشہ
گر میرے خوش میں بستی نرگس ملائے آنکھ
ی
صفحہ پر کب چمن کے ہوا سے غبار ہے
کیا نام خدا یار تری خوش دہنی ہے
وہ شوخ گلستاں میں جب جلوہ گرآتا ہے
صورت کا اپنی یار پر ستار تھا سو ہے
پیام اتنا نسیم صبح میرا جاکہو گل سے
اشک گلرنگ کی یاں بس کہ گل افشانی ہے
نا م نرگس کا جہاں آیا ہے
شمع کے تیرے کرشمے نے دل افروزی کی
رستم ہزار عزم کی گو تاب لاسکے
جب شمع کے تئیں تنہا فانوس میں پاتا ہے
روئے ہے ستمگر وہ جسے تو نظر آوے
دل کا آئینہ خود نمائی سے
جل مرنے کو پروانہ اگر شمع پر آوے
نہ آئینہ ہی اس صورت کے آگے ہکا بکا ہے
تمہارے گریۂ غم کی کچھ انتہا بھی ہے
کیوں ہے کہہ آئینہ اس درجہ تو حیراں مجھ سے
میں تجھے بھولوں یہ خدا نہ کرے
ترک خواہش زر کر کیمیا گری یہ ہے
بہار دیکھے اور اس باغ کی خزاں دیکھے
ہر ایک رشک شمع ہے وہ جس کو دیکھئے
گرم جوشی کیوں نہ ہو خورشید رو کو ہم سنتے
گوہر کو کچھ نہ کور یتیمی سے باک ہے
یہ چھینتے ہیں دین ودل آنکھیں بتا مجھے
پسینہ گلبدن کا اور عطر گل برابر ہے
اس راہ میں سر دینا عشاق کو آساں ہے
آئینہ کبھی قابل دیدار نہ ہووے
تو خط کی یاد نے مجھے بے اختیار کی
رکھتا ہوں طلائی رنگ اور اشک بھی موتی ہے
جوت اس دردنداں کی الماس سے افزوں ہے
بہاروں میں تو سب آباد یکسر سب گلستاں تھے
خدا مرے دل پر خوں کو داغدار کرے
نہیں خواہاں بتاں اے عشق تیرے دل کی چاہوں کے
رونے میں ابر تر کی طرح چشم کو میرے جوش ہے
مہروش کا مرے ایسا رخ نورانی ہے
زلف پرپیچ و الم جبکہ الجھ جاتی ہے
ہے آہ گرم سرزد شعلہ ساں اب ہر بن ہوسے
جب آئینہ دل کی صفائی نظر آئی
صبا آہستہ جا کچھ کان میں گل کے بچار آئی
بوے زلف یار سے میرا معطر ہے دماغ
شعلہ خو مثل آتش افروزی
پاس آداب ترے حسن کا کرتے کرتے
گرفتاری کی لذت اور نرا آزاد کیا جانے
شکست دل کے تئیں میرے تو اے دل سخت کیا جاے
ہنسی میں تیرے مقابل تو برق ہو نہ سکے
اے مصور یار کی تصویر کھینچا چاہئے
زلف دلبر لے گئی دل گھات سے
پربلبلوں کے چمن کی طرف پکار آئی
جنوں نے مجھ کو کہا چاک جیب کر دیجے
اگر ثابت قدم ہو عشق میں جیوں شمع جل سکئے
گر یہ کو میرے ہے شرف ابر بہار سے
بیتی ہے یہ سب دل پہ ہے سب دلکی زبانی
بلا سے خلق ہو بیدرد عشق کیا غم ہے
اگر مجھ دل کی بیتابی کو حیرت سے قرار آئے
وہ مرے چشم تر کی زاری ہے
کسو کےدل کی خبر ہے تجھے ستانے کی
اگر گل میں پیارے تری بونہ ہووے
آج اس شرابی کے ہاتھ میں گلابی ہے
شام غم دیکھو شمع کا روتے روتے
جو رکھئے پاؤں پر سر اس بت مغرور خود بیں کے
گزارش کر صبا خدمت میں تو اس لا وبالی کے
سرو آزاد کو وہ قد جو نظر پڑ جاوے
ہم اسیران قفس پر ہے یہ کیا بیدادی
اگر خورشید روکے دیکھنے کی دل کو تاب آتی
شمع سا اپنے دنی سر سے گزر کر جاوے
صحرا پڑا ہے سونا مجنوں کدھر گیا ہے
مئے الفت سے تری مجھ دل میں بھری رہتی ہے
حشر میں قبر سے جب عاشق ناشاد اٹھے
پہنچے اس زلف کی کب یاس کو مشک ختنی
دل رنگیں مرا اگر عشق میں بے باک ہو جاوے
جو دیکھے لعل تجھ ہونٹوں کے تئیں خونناب بن جاوے
میرے گل کا جو کوئی لطف و کرم دیکھا ہے
جیتے ہیں خشک چشمے عالم کے بھر رہینگے
غم کے خمار کو شراب کہتے ہیں سیر باغ ہے
قفس کے کنج میں چپ ہوں تو دل فریاد کرتا ہے
وہ زلف چلیپائے رخ یار کہاں ہے
اگر آوے وہ خود بیں برسر بیداد کیا کیجے
کیا دلفریب سنتے ہو صورت ہزار ہے
وہ پیالوں میں ابھی سرشار ہو جاتا ہوں آ ساقی
مجلس کی شمع آکر جب درمیاں ہوئی ہے
کہیو سر کش سے بگولے سے تری ہستی ہے
اس پر جفا کی مجھ سے زلف آشنا ہوئی ہے
جام جم سے نہیں کچھ چشم تری کم ساقی
رباعیات
احمد کہ ہے فوق سب سے پایا اس کا
رباعی مستزاد
خاطر میں نہیں لاتے ہیں جو اہل نظر دنیا کا یہ فر
تر احمد کرنے کو جان جہاں
مثنوی من کلام میر جمال اللہ عشق
جمال آگے ترے خور دن کا جیوں مہتاب ہو جاتا
مخمس تضمین ریختہ یقین
مخمس تضمین ریختہ دردؔ
ہے عدم میں بھی تجھ الفت کا سرو کار ہنوز
بلبل تصویر ہیں خاموش و بے فریاد ہم
مخمس تضمین ریختہ سوداؔ
خانہ خراب بہت ہیں پر اس قدر کہیں
مخمس تضمین ریختہ دردؔ
فلک سے جور طلب مستعار رکھتے ہیں
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.