سرورق
ہو وہی عالم الٰہی لالہ ہر گوپال کا
کیا ہم کو پڑی کوئی زناخی کی گہر آیا
گرگٹ کی طرح کالا کبھی لال ہو گیا
گئی تھی دیکھنے باجی میں سمن کنڈ کا میلا
ادھرا ہوا چہرہ کل سے کما ل تیرا
انکی نوروزی پورا سال ہوا
مرے آگے نہ رو دکھڑا زناخی بار بار اپنا
دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا
سیروں مرے بدن سے لہوں نکل گیا
جان صاحب آگئی دل مجھ پہ ترا کیا پھر گیا
ہرنی کی اندھی ہونے پہ ایسی کھائی آنکھ
منہ کا بہ ستا اور وہ پینا شراب کا
کہا ناچرا کی خوب نہیں مان سے پان کا
چھوٹے دیوار سے مرے پورا کیا
پیسا تھا پاس رہتی تھی ہر آن آشنا
اے لواپتھر کا دل ہے اس بت بے پیر کا
وکہ نئی میں نے میری بھابی کو سکھپال ہو
جو دل میں ہو وہ جو روسی تدبیر نہ کہنا
کھلا جنگل میں آکے جال ان چڑیوں کے چونچوں کا
لچھمی چار پیسے جو کوئی لگائے گا
یہ بدگماں ہے دل اس نگوڑی نٹ کھٹ کا
یہ نہیں خورشید کی چشمہ میں آب وتاب اب
کورے بچوگی تم مجھے کرکے میاں خراب
کہدی مہتاب نے مہرن سے ملاقات کی بات
داغ وہ منہ زور دیگالی دیا گھوڑا عبث
ناحق خفا جو وہتے ہو مرزا تو خوش رہو
لگی ہو نوج مرے دشمنوں کے یار میں روح
پھولام میر گل بوپہنے ہزار سرخ
فتنہ انگیز اور آفت شوخ
منہ پہ کیا پوچھنا یوسف سے بوامیرے بعد
مر جاؤں تو نہ آئے وہ جدی کی گور پر
گھر میں بولی نہ سڑن سمجھے سڑن سے باہر
نماز پڑ پڑھ کے تو گیا ہوں سے اپنی تو بہ بوا کیا کر
اسکی الفت پہ کروں اپنی میں قربان عزیز
کم کیا خصم ہے جو کروں لگوار کی تلاش
مان سے ہمکو سوا ہے پیاری ساس
مجھ کو خوش آتا نہیں تیرا دوگانہ اخلاص
در گور اسکی باتوں سے ہوتا ہے دم غلط
میں لکھتے لکھتے تھک گئی آیا نہ اک جواب
دیکھ روشن جل رہا ہے کس قدر اندھا چراغ
اندھیر کیا خدا کی دوا یہ بھی شان ہے
پھر نہ اترا نہ اے پری خانم
لیں گی نہ میر موسی میرا سلام کب تک
ایک ایک رنگ میں جی دودو ہزار رنگ
جب اوے کر چکی بدنام نام ہم
جان سولی پہ رہیگی مری جیا منصور
برسوں بچی کو نہیں پیار کبھو کرتی ہیں
جب شاد شاد آے مرے تم مکان میں
جس گھڑی کھولکے پیجامہ وہ پڑ جاتے ہیں
آؤں کس طرح تری پاس دوگانا جنیاں
بیاہ خانم کا تو کردینے کو طبار ہوں میں
یہ بڑھا درد آج میں کل میں
چل نکلی آگے مرے بہت وہ بڑی نہیں
خورشید کی بال ٹوے مہتاب ہاتھ پانوں
نہ کیں جو روسی تقریر یں بزاروں
اجی ڈھونڈ کی باجی ہے یار کریں موے تیلی تنبولی کو پیار کریں
آنچ پڑوکی سہی کون اور آئیں نہ مجھے
نجاو تم پڑھو چولہے میں بھیجو میری بھائی کو
مہتاب کو میاں نہ بری آفتاب دو
مرے پیچھے پری خانم کو لگا دیتی ہو
میں کس سے رہی اوہے روکو زبان کو
رنڈوی کب تک رہوگی بہاے گہرآباد کرو
گو آبرو مرزا کی ہی گنگو سے زیادہ
رانڈ ہو گور کا یا منہ اری کمن دیکھے
جب نہ دو پیسے کمانے کی ہو تدبیر کوبے
اجی وہ اندھی سے لڑنیکو ایکبار آئی
بڑھی باجی نے ناحق ہی ستم جو مجھ پہ توڑا ہے
کہلوانہ ٹھوکریں موی دل دربدر مجھے
بلایا یار کو گہر میں جو بیخطر تو نے
جاسوسی لینی میری خبردار کب پھرے
یہاں غبارہ تو دور پار گرے
دکھا تارنگ زمانیکی اوہی کیا کیا ہے
روز پھر آتی ہے لونڈی مری جا کر خالی
انگوٹھی تو یوں مفت پائی نہ ہو گی
تم سے نسیم کیا کہوں وہ لوگ کیا ہوئے
زبردستی لڑی مجھ پری خانم کو سودا ہے
مرتی ہیں سب کی رویہ تاثیر ہو گئی
یہ تو نو اکرم کیا اوے ڈاہڑی جارنی
جس کی تھی قبضے میں پہل پایا یہ اس خونخوار سے
تمہار ادل اگر مجھ پر نہیں ہے
دوگانا پیکی وہ مجھ سے مدام رہتا ہے
بی خا آتی ہی بگڑی ہوی تقدیر کسی
سنو شیریں عجب میٹھا بتا مضموں ہمارا ہے
گہر سے تجھ نحس کا قدم نکلے
بری جو حرف تھی قسمت کے وہ تحریر میں آئے
دیوان دوم جان صاحب
خدا کی حمد میں پہلی بیاں ہو اسکی رحمت کا
مردہ دل ی شکر کرتی قاضی الحاجات کا
میکا کبھی نہ سنکا کھوٹی کھری ستائی
خالی میں تو کیا نکلے گا مہتاب کا ڈولا
نو پیسی کہاری کی تو گھر والی ہے دیگی
مردواے ترا نہ اتنا ادہی ابتر ہو گیا
تم ہوی گہر بار کی بنو بنوانساں اب
کیا نصیبن کا نکلا ہی بھونڈا بد نصیب
ہوا سر میں سمائی موئے ناشاد عبث
قیس مجنوں ہو گیا ہے عشق کی پڑھ کر حدیث
اک پیلوہ ڈھونڈ تا آیا تھا اک سوار آج
اس انقلاب نے ہر ایک کو کیا محتاج
بد تمیزی چاہیے ہر گز نہ حیوان کی طرح
مقتول جراحت کی سبب ہیں ہمہ تن سرخ
کیوں نہ موباف کی کلیاں ہوں گل اندام پسند
کیا ہوا میں نے نکالے جھاڑ کر سو بار پر
شیخانی کی یہ پوتیاں آکر ہمارے پاس
پایا نہ دل کو سینے میں سو بار کی تلاش
گزرے شب فراق اس آرام سے غرض
دل آئی پیچ میں جو ہو گیسوئے ارتباط
تو ہی جلتی ترا پروانہ بھی جل جاتا ہی شمع
کیڑا سے بھولائیں کیڑا سے بھولائیں پالینگی بھلا کب تک پالینگی بھلا کب تک
کیوں نہ پالی اوہی داغوں سے یہ میرا تن فروغ
لالوں کی لال ہوں میں دونوں جگہ وطن میں
چڑھے اترے گی تیوری بھی ماہ جبیں تو کہا کہ اہوں تو کہا کہ اہوں
مخمس
محن ہوں میں ترازو میں الفت کے ڈھنگ سے
حسن اسکا جان صاحب روح کو مرغوب ہے
کیا بناؤ نہاد ہو کی ہے جہاں کی مئے
وہ رنگ روپ جوانی کا ہو گیا کافور
واسوختی
شہر آشوب
سرورق
ہو وہی عالم الٰہی لالہ ہر گوپال کا
کیا ہم کو پڑی کوئی زناخی کی گہر آیا
گرگٹ کی طرح کالا کبھی لال ہو گیا
گئی تھی دیکھنے باجی میں سمن کنڈ کا میلا
ادھرا ہوا چہرہ کل سے کما ل تیرا
انکی نوروزی پورا سال ہوا
مرے آگے نہ رو دکھڑا زناخی بار بار اپنا
دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا
سیروں مرے بدن سے لہوں نکل گیا
جان صاحب آگئی دل مجھ پہ ترا کیا پھر گیا
ہرنی کی اندھی ہونے پہ ایسی کھائی آنکھ
منہ کا بہ ستا اور وہ پینا شراب کا
کہا ناچرا کی خوب نہیں مان سے پان کا
چھوٹے دیوار سے مرے پورا کیا
پیسا تھا پاس رہتی تھی ہر آن آشنا
اے لواپتھر کا دل ہے اس بت بے پیر کا
وکہ نئی میں نے میری بھابی کو سکھپال ہو
جو دل میں ہو وہ جو روسی تدبیر نہ کہنا
کھلا جنگل میں آکے جال ان چڑیوں کے چونچوں کا
لچھمی چار پیسے جو کوئی لگائے گا
یہ بدگماں ہے دل اس نگوڑی نٹ کھٹ کا
یہ نہیں خورشید کی چشمہ میں آب وتاب اب
کورے بچوگی تم مجھے کرکے میاں خراب
کہدی مہتاب نے مہرن سے ملاقات کی بات
داغ وہ منہ زور دیگالی دیا گھوڑا عبث
ناحق خفا جو وہتے ہو مرزا تو خوش رہو
لگی ہو نوج مرے دشمنوں کے یار میں روح
پھولام میر گل بوپہنے ہزار سرخ
فتنہ انگیز اور آفت شوخ
منہ پہ کیا پوچھنا یوسف سے بوامیرے بعد
مر جاؤں تو نہ آئے وہ جدی کی گور پر
گھر میں بولی نہ سڑن سمجھے سڑن سے باہر
نماز پڑ پڑھ کے تو گیا ہوں سے اپنی تو بہ بوا کیا کر
اسکی الفت پہ کروں اپنی میں قربان عزیز
کم کیا خصم ہے جو کروں لگوار کی تلاش
مان سے ہمکو سوا ہے پیاری ساس
مجھ کو خوش آتا نہیں تیرا دوگانہ اخلاص
در گور اسکی باتوں سے ہوتا ہے دم غلط
میں لکھتے لکھتے تھک گئی آیا نہ اک جواب
دیکھ روشن جل رہا ہے کس قدر اندھا چراغ
اندھیر کیا خدا کی دوا یہ بھی شان ہے
پھر نہ اترا نہ اے پری خانم
لیں گی نہ میر موسی میرا سلام کب تک
ایک ایک رنگ میں جی دودو ہزار رنگ
جب اوے کر چکی بدنام نام ہم
جان سولی پہ رہیگی مری جیا منصور
برسوں بچی کو نہیں پیار کبھو کرتی ہیں
جب شاد شاد آے مرے تم مکان میں
جس گھڑی کھولکے پیجامہ وہ پڑ جاتے ہیں
آؤں کس طرح تری پاس دوگانا جنیاں
بیاہ خانم کا تو کردینے کو طبار ہوں میں
یہ بڑھا درد آج میں کل میں
چل نکلی آگے مرے بہت وہ بڑی نہیں
خورشید کی بال ٹوے مہتاب ہاتھ پانوں
نہ کیں جو روسی تقریر یں بزاروں
اجی ڈھونڈ کی باجی ہے یار کریں موے تیلی تنبولی کو پیار کریں
آنچ پڑوکی سہی کون اور آئیں نہ مجھے
نجاو تم پڑھو چولہے میں بھیجو میری بھائی کو
مہتاب کو میاں نہ بری آفتاب دو
مرے پیچھے پری خانم کو لگا دیتی ہو
میں کس سے رہی اوہے روکو زبان کو
رنڈوی کب تک رہوگی بہاے گہرآباد کرو
گو آبرو مرزا کی ہی گنگو سے زیادہ
رانڈ ہو گور کا یا منہ اری کمن دیکھے
جب نہ دو پیسے کمانے کی ہو تدبیر کوبے
اجی وہ اندھی سے لڑنیکو ایکبار آئی
بڑھی باجی نے ناحق ہی ستم جو مجھ پہ توڑا ہے
کہلوانہ ٹھوکریں موی دل دربدر مجھے
بلایا یار کو گہر میں جو بیخطر تو نے
جاسوسی لینی میری خبردار کب پھرے
یہاں غبارہ تو دور پار گرے
دکھا تارنگ زمانیکی اوہی کیا کیا ہے
روز پھر آتی ہے لونڈی مری جا کر خالی
انگوٹھی تو یوں مفت پائی نہ ہو گی
تم سے نسیم کیا کہوں وہ لوگ کیا ہوئے
زبردستی لڑی مجھ پری خانم کو سودا ہے
مرتی ہیں سب کی رویہ تاثیر ہو گئی
یہ تو نو اکرم کیا اوے ڈاہڑی جارنی
جس کی تھی قبضے میں پہل پایا یہ اس خونخوار سے
تمہار ادل اگر مجھ پر نہیں ہے
دوگانا پیکی وہ مجھ سے مدام رہتا ہے
بی خا آتی ہی بگڑی ہوی تقدیر کسی
سنو شیریں عجب میٹھا بتا مضموں ہمارا ہے
گہر سے تجھ نحس کا قدم نکلے
بری جو حرف تھی قسمت کے وہ تحریر میں آئے
دیوان دوم جان صاحب
خدا کی حمد میں پہلی بیاں ہو اسکی رحمت کا
مردہ دل ی شکر کرتی قاضی الحاجات کا
میکا کبھی نہ سنکا کھوٹی کھری ستائی
خالی میں تو کیا نکلے گا مہتاب کا ڈولا
نو پیسی کہاری کی تو گھر والی ہے دیگی
مردواے ترا نہ اتنا ادہی ابتر ہو گیا
تم ہوی گہر بار کی بنو بنوانساں اب
کیا نصیبن کا نکلا ہی بھونڈا بد نصیب
ہوا سر میں سمائی موئے ناشاد عبث
قیس مجنوں ہو گیا ہے عشق کی پڑھ کر حدیث
اک پیلوہ ڈھونڈ تا آیا تھا اک سوار آج
اس انقلاب نے ہر ایک کو کیا محتاج
بد تمیزی چاہیے ہر گز نہ حیوان کی طرح
مقتول جراحت کی سبب ہیں ہمہ تن سرخ
کیوں نہ موباف کی کلیاں ہوں گل اندام پسند
کیا ہوا میں نے نکالے جھاڑ کر سو بار پر
شیخانی کی یہ پوتیاں آکر ہمارے پاس
پایا نہ دل کو سینے میں سو بار کی تلاش
گزرے شب فراق اس آرام سے غرض
دل آئی پیچ میں جو ہو گیسوئے ارتباط
تو ہی جلتی ترا پروانہ بھی جل جاتا ہی شمع
کیڑا سے بھولائیں کیڑا سے بھولائیں پالینگی بھلا کب تک پالینگی بھلا کب تک
کیوں نہ پالی اوہی داغوں سے یہ میرا تن فروغ
لالوں کی لال ہوں میں دونوں جگہ وطن میں
چڑھے اترے گی تیوری بھی ماہ جبیں تو کہا کہ اہوں تو کہا کہ اہوں
مخمس
محن ہوں میں ترازو میں الفت کے ڈھنگ سے
حسن اسکا جان صاحب روح کو مرغوب ہے
کیا بناؤ نہاد ہو کی ہے جہاں کی مئے
وہ رنگ روپ جوانی کا ہو گیا کافور
واسوختی
شہر آشوب
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.