سرورق
ہم نے ہر شے ہر اک جاتراجلوا دیکھا
محمد پر جو حق شیدا نہ ہوتا
بھلا کس سے بیاں ہو مرتبہ ختم رسالت کا
بحمد اللہ ہوں میں امتی اس بندہ پرور کا
ترا شکر کیونکر ادا ہو خدایا
جلوہ گر بے پردہ جب وہ مہ لقا ہو جائیگا
گر ہماراآشنا تو ایک دم ہو جائیگا
وہ شوق ہے دل میں کہ جتایا نہیں جاتا
جو ہو شمع ہر بزم وہ یار کس کا
کس طرح اسکی دوری پھر ہم کو ہو گوارا
بنے جہاں تک ستم شعارو جہاں میں کار ثواب کرنا
اور کچھ دن جو نہ اس در پہ جگہ پاؤں گا
مجھ کو تو کچھ گلہ نہیں نزدیک و دور کا
آفتوں کا میں نشانہ ہوگیا
ترا بیمار محبت اگر اچھا نہ ہوا
خودی کا تارک فنا کا طالب جہاں میں تنہا تمہیں کو دیکھا
اپنا غم خانہ ہے لے دیکے ٹھکانا اپنا
ڈھونڈھتی پھرتی ہے مدت سے اجل گھر اپنا
بتاؤ تو کیونکر ہو جینا ہمارا
ہوا اب تو لو فاش پردا تمہارا
دم واپسیں مونہہ دکھایا تو ہوتا
یار نا پائدار ہے دنیا
اس شوخ سے اب دل کا لگانا نہیں اچھا
غیروں سے وفا کرنی یارں پہ جفا کرنا
ہے اپنے مسیحا کا مطلب دور کروں کیا
وہ بے مہر کب آشنا ہے کسی کا
بنے وہ بیوفا دشمن ہمارا
بیٹھنا محفل میں اسکی سب کو مشکل ہو گیا
ان کو دکھڑا سنا کے دیکھ لیا
جو اچھے ہیں بھلا ان کا برا کیا
اک شوخ ستمگر کے یوں داؤ میں آجانا
اثر عیاں ہے یہاں تک تو اپنے نالوں کا
زباں سے اپنی اک شکوہ تو انکا ہو نہیں سکتا
کبھی تو حال سننا چاہیئے آشفتہ حالوں کا
جبھی لطف مے کشی تھا کہ بغل میں یار ہوتا
شب معراج جو بلانا تھا
جلانا پھوکنا برباد کرنا
زمیں کو وقف سکوں ہے پایا فلک کو گرم طواف دیکھا
سمجھے تھے ہم تو یہ کہ بس اب یار ہو گیا
دل جھگڑ کرلے چلا دامن پکڑ کر لے چلا
خالی خلش غم سے جہاں ہو نہیں سکتا
اس چمن میں صبح جو اترائے گا
ہر وقت مدینہ کی جانب کو جھکا ہوتا
کھڑا ہوں کب سے میں در پر ترے مشتاق درشن کا
کیا خاک بنے یار وہ عیار کسی کا
عدو کو یار نے ڈانٹا مجھے پیار کیا
جیتے جی جنت میں ہیں اھل جوار مصطفیٰ
اسی کے ہاتھ ہے جو کچھ بھی ہے سودوزیاں اپنا
ہجر میں مرنا تو مشکل تھا پر آساں ہو گیا
کہئے نہ باربار ترا امتحان ہے اب
ردیف ب
سودائے ماسوا کی سمائی کہاں ہے اب
ہے زلیخا کے کہاں اجڑے ہوئے گھر کا جواب
مشتاق وصل یار میرا دل نہیں ہے اب
ہم نے یہ مانا چلے آتے ہیں اپنے گھر سے آپ
ردیف پ
بے مروت نہ بے وفا ہیں آپ
نہ خدا ہیں نہ ناخدا ہیں آپ
ردیف تا
شمع رخ سے ترے گھر طور ہوا آج کی رات
دے اور زیادہ اسے آزاد محبت
خاک جنت میں ہو یاروں کی بسر کی صورت
لیتا نہیں خبر وہ ستمگار الغیاث
ہوا مجھ سے مکدر یار بے تقصیر کیا باعث
ردیف ثا
ہےجلوہ نما بام پہ وہ رشک قمر آج
ردیف ج
کیسےبیٹھے ہو حریفو بے مئے وپیمانہ آج
ردیف حا
ساکت تھے ہم تو بزم میں دیوار کی طرح
فضل خدا سے بخت زسا اوج پر ہے آج
ہے یار برسر کیں مجھ سے آسماں کی طرح
ردیف دال
عیاں ہے فراخی خوان محمد
ہے اس سے عیاں رتبۂ والاے محمد
الٰہی دکھادے دیار محمد
بنا کر رخ بے مثال محمد
فصاحت شکار کلام محمد
بنائے دو عالم برائے محمد
کس اوج پہ ہے صل علی شان محمد
نہ پوچھو کہ کیا ہے ہمارا محمد
بہت مدت میں اس کوچہ سے لایا نامہ بر کاغذ
ردیف ذال
ردیف رائے
حبیب رحماں نبی ذیشان درود تم پر سلام تم پر
نالاں ہے خلق اسکو ستمگار دیکھ کر
کسکی پرواہو ہمیں تیرا سہارا ہو کر
کیوں نہ بھولیں تری عطاؤں پر
مجھ پہ جنت رہی انجام جہنم ہو کر
نہ دیکھے دوزخی دوزخ میں جا کر
بشرکیا خاک سمجھے بھید تیرا رازداں ہو کر
مرنا چاہیں جو مرا مجھ کو جلائیں کیونکر
ردیف زاء معجمہ
یا خواجہ معین الملت و دیں سلطان الہند غریب نواز
طریق عشق ہے وہ راہ پر نشیب وفراز
ردیف سین
ردیف شین معجمہ
کیا دوانی تھی جوانی افسوس
گل سے بلبل ہے رضا مند نہیں خار سے خوش
نہ کام رندی سے ہم کو نہ اتقا سے غرض
ردیف ضاد
گم اگر چہ ہو مری جان سراپا اخلاص
ردیف صاف
ردیف طاے
بے مزہ ہو کر ہوا ہم سے دوبارا اختلاط
ردیف ظاے
فرقت میں کسی کی وہ مرے دل کو ملا حظ
عالم کے خرشون سے کسی کو نہیں فراغ
ردیف غین
ہوتی نہ ہجر میں گر اشگبار شمع
ردیف عین
وہ ملتفت ہیں بزم میں اغیار کی طرف
ردیف فاے
ردیف قاف
آفت سے ظلم و قہر ہے بیڈھب بلا ہے عشق
جوروجفائے یار سے جو تنگ آئے دل
ردیف کاف
مجھ کو دیدار سے محروم رکھے گا کب تک
ردیف لام
تری یادکب تھی بھلانے کے قابل
ردیف میم
کیوں منتشر رہیں غم روز جزا سے ہم
اپنے ہاتھوں خود ہوئے ہیں سب طرح برباد ہم
وہ کس خطا پہ ہوا ہے خفا نہیں معلوم
جو جی کی اماں اب کے پائیں گے ہم
میں کیوں کہوں مجھے وضع جہاں نہیں معلوم
یاروں کو یوں بچائیں گے نار سقر سے ہم
گر چہ مولود ہوئے زمرۂ اسلام میں ہم
آزاد کس طرح ہوں بھلا بندگی سے ہم
مانا کہ ایک تجھ سا جہاں میں حسیں نہیں
ردیف نون
نہ رند شراب ہوں مے پرستو نہ شیخ عالی مقام ہوں میں
الٰہی میں دارالاماں چاہتا ہوں
قدوۂ اہل صفا ہو یا معین الدین حسن
تم شوق سے ستاؤ مجھے کچھ گلا نہیں
رضوان خود آکے سو چمن آرا مزار میں
تپ فراق سے دل کو ذرا قرار نہیں
ہر چند میرے حال پہ چشم کرم نہیں
مہر گو ماہ سے بڑھ کر ہے کہیں
تجھ پر اے دوست جو ہم جان فدا کرتے ہیں
وہ جب جاتے ہیں کیا کیا وسوسے دل میں گزرتے ہیں
باغ عالم میں جو سچ پوچھو فضا کچھ بھی نہیں
انانیت ہے جب تک آدمی میں
رہوں جو پاس تو ہوتے وہ ہم کلام نہیں
جب سے آغوش میں اپنی وہ دل آرام نہیں
محو حیرت مہ و خورشید ہیں خاموش نہیں
فلک پر مہ نوجو ہم دیکھتے ہیں
غیر سے آنکھ وہ خود کام بدلتا ہی نہیں
عدو بھی خون پر باندھے ہوئے خنجر نکلتے ہیں
جوں نور آفتاب عیاں ہے سحاب میں
دل شکستوں پہ جو الفت کی نظر کرتے ہیں
پوچھتا کیا ہے کوئی تجھ میں ہنر ہے کہ نہیں
وہ آئیں جائیں کہیں مجھ کو کیوں جلاتے ہیں
مسکین بینوا ہو غنی اک نگاہ میں
جو حسینوں سے دل لگاتے ہیں
جو اس جہان خراب میں دل بتوںسے اپنا لگا چکے ہیں
زمیں کو ہ وملک بھی ملکر اگر اٹھائیں نہ اٹھ سکے گا
اپنے گھر میں تو وہ آنے مجھے کیا دیتے ہیں
بلاتے ہیں عدو کو بھی مجھے جب یاد کرتےہیں
درد دل کس سے کہوں قابل اظہار نہیں
یہ کسکے حسن کی شہرت کے ساماں ہوتے جاتے ہیں
سنبھل اب بھی جمالی چلکے ساکن ہو مدینے میں
کیا بے نشاں نشان کسی بے نشاں کے ہیں
جس میں ہمدردی نہیں اخلاق و اہلیت نہیں
جب اپنا شغل مے رندان مے آشام کرتے ہیں
آخری وقت کی گھاٹی سے گزر جاتے ہیں
جسکو نہ تاب ضبط ہو وہ کہیں دل لگائے کیوں
ہم بھی مشتاق زیارت ہیں اٹھاتے کیوں ہو
اب جہاں جایئے بے لطف ملاقاتیں ہیں
ردیف واو
جنت ہو صلہ اسکا تو فردوس جزا ہو
وہ دل ہی کیا ہے جس کو تری جستجو نہ ہو
گلشن خلد نہ جنت کی تمنا مجھ کو
محبوب خاص حضرت یزداں نہیں توہو
مجھے یہ فکر وہ عیاریار کیسے ہو
اس مہ جبیں کے دیکھنے کی کس کو تاب ہو
لبون پہ جان ہے دل مضطرب ہے جانے کو
ابتداے اولیں ہیں آپ تو
کیا ہی ضبط جب تک ہو سکا تاتم نہ رسوا ہو
نئی ہر دم ستمگاری تو دیکھو
دیار ہند کی بھاتی نہیں آب و ہوا مجھ کو
محفل غیر میں آمادہ ہے وہ جانیکو
نزع میں یار کو بالیں پہ مرے آنے دو
جلے وہ دل کہ جسے مصطفیٰ کی چاہ نہ ہو
اسکا طالب کبھی جنت کا طلبگار نہ ہو
چلو اسلام کے آثار دیکھو
زلف کے پاس رخ رشک قمر تو دیکھو
مدت سے دل زار ہے شیدائے مدینہ
جس شخص نے دیکھا ہے محمد کا مدینہ
دیف ہائے
دکھلادے الٰہی مجھے گلزار مدینہ
تصدق ہے تجھ پر مری جان خواجہ
ہو کیوں نہ جان و دل سے عاشق فداے خواجہ
پھر دیار اپنا دکھا دے میرے پیارے خواجہ
تری کیا شان ہے اللہ اکبر یا رسول اللہ
پر تو رخسار سے ہو کر منور آئینہ
احمد پاک کی کیا شان ہے اللہ اللہ
ارماں یہ ہے جو ہند سے مکہ کو جائیں گے
یہی ہے التجا جان آفریں سے
ردیف یائے
حرم جاں ہے جو مسکن غم جاناں کیلئے
افسوس ہے مدینہ سے رکھا جدا مجھے
عمر دراز حیف کہ نذر گناہ کی
بے نوا یا بانوا ہوں یا محمد مصطفیٰ
دن بھلے ہوتے تو کاہے کو جدائی ہوتی
شفیع المذبیں جس کا لقب ہے
آج ختم عرس فخر خواجگاں ہونیکو ہے
دوزخ یہی جہاں ہے جنت یہی تو ہے
یوں تو تھے اپنی پریشانی کے ساماں اور بھی
کمی نہ ظلم میں کر عشق کا صلا ہے یہی
ہوا نہ دہر کو ایک رنگ پر قرار کبھی
ایک ایسے گل اندام سے دل اپنا لگا ہے
بچے کیونکر کوئی اسکی مکیں سے
بظاہر گو تو آنکھوں سے نہاں ہے
جو بیحجاب وہ مہوش دو چار ہو جائے
کرتے ٹھوکر سے ہیں پامال وہ تربت میری
ماناکہ بنایا تجھے بے مثل خدا نے
افسوس طبیعت کی دنائت نہیں جاتی
چکھائیو نہ مزے ہجر دلربا کے مجھے
رلا رلا کر جلا جلا کر فنا کرے گی جدائی تیری
بیجا ہے کیا ہے اس پہ طبیعت جو آئی ہے
جو الجھا ہے زلفوں میں گر دل یہی ہے
کیا ہی یہ قلب مضطر دھومیں مچا رہا ہے
فنا کر چکی تھی جدائی کسی کی
مارا مجھ کو ہی نہیں نرگس فتاں تو نے
ہم ہیں اور وحشت تنہائی ہے
گلے کرتے کرتے سحر ہوگئی
وہ بے مہر ناحق خفا ہو رہا ہے
قیامت بپا دم میں کر جائیگی
ترے بیمار غم کا اسقدر اب حال ابتر ہے
پڑے ایک عالم کو جینے کے لالے
وہ چیز کون سی ہے کہ پیدا نہیں مجھے
ملتی ہے بات بات پہ جھڑکی وہاں مجھے
کب تک سہوں الٰہی صدمے غم جہاں کے
دل مان گیا ہے کہ بجھے گی نہ بجھائی
گھر بیٹھے مفت سیر چمن کی بہار دے
رہ عشق میں جاں گنوائے بنے گی
در پہ رہنے کی اجازت ہو گئی
تم مرے سامنے آجاؤ تو بیجا کیا ہے
سنتے ہیں نام خدا وہ بت جوان ہونیکو ہے
دل تڑپتا ہے آہ وزاری ہے
دلمیں رہ رہ کے جو یوں آگ لگاے کوئی
اک ادھر بھی نظر اے حسن کی دولت والے
غیر سے انس انہیں مجھ سے ہے نفرت کیسی
کاہش غم کو مبتلا جانے
شمر قد ر حسین کیا جانے
سب سے افضل ہے تری شان رسول عربی
کشمکش سے چھوڑا دیا تو نے
کیونکر کہوں غیروں سے وہ پروا نہیں کرتے
پردہ رخ انور سے اٹھا کیوں نہیں دیتے
ملک و دولت چاہئے قصر فلک سا چاہئے
دیر وکنشت میں ہے نہ وہ بحرو بر میں ہے
توبہ ہے محبت کا اگر نام لو ں اب سے
جو کچھ ہم پر گزرتی ہے کوئی بیدرد کیا سمجھے
یا الٰہی کوئی حد بھی آخر اس بیداد کی
کیا لگاؤ دل کو تھا ناوک فگن کے تیر سے
خاک جنت میں مجھے عیش کے ساماں ہوں گے
حسینوں میں سبھی کچھ ہے جفا بھی ہے وفا بھی ہے
دیکھ کر طرفہ ادائیں تری رعنائی کی
یارب نبی کی حسرت دیدار رہ نہ جائے
منہ جانب اغیار ہے الفت کی نظر بھی
عیاں ہیں جلد سے یوں استخواں عاشق کے پنجر کے
دماغ کبرونخوت آج جنکا آسماں پر ہے
پسند آئی ہے بود وباش اس بت کو مرے دل کی
اس سراپا ناز سے جب سے شناسائی ہوئی
کیں کوششیں اگر چہ بہت کچھ حجاب کی
دنیا اگر چہ منزل عیش و سرور ہے
ہے بار بار عرض یہی کار ساز سے
رہے دبکے نہ جو سات آسماں سے
حشر برپا ہوا اس ٹھاٹھ سے بنکر نکلے
ہر اک انداز سے عاشق کو اپنی چھب دکھانی ہے
اسکو کرے جو رام بھلا کس کی تاب سے
کہہ نہیں سکتا زباں سے جو کچھ اسکے دل میں ہے
کیوں در پہ میکدہ کے ہوا ازدحام ہے
اس ٹھاٹھ سے بن ٹھن کر وہ بام پہ ہو بیٹھے
بخشش عام ہے رحمت کی گھٹا چھائی ہے
جو دل ان نگاہوں کا بسمل نہیں ہے
عرض ہے اک مری اے شاہ مدینے والے
غرور اتنا بتوزیبا نہیں ہے
ایک میں اور اتنے داغ خوں فشاں میرے لئے
وہ ہمکنار غیر ہو یہ مو نہ تکا کرے
غیاث مستغیثاں غوث اعظم قطب ربانی
کیوں سر جھکائیں در پر ہم سفلۂ دنی کے
فرقت میں یاد آتی ہے صورت جو یار کی
اے دل طلب دولت فانی کب تک
رباعیات
قحط سا قحط ہے اسوقت میں غمخوارں کا
ترجیع بند
ہے سفر درپیش اور بجنے کو ہے کوس رحیل
زاد السبیل
دیکھئے عزم دیار مصطفیٰ ہو کب تلک
جان جائے یار ہے جو نفع و نقصان ہو سو ہو
خون اسنا نبی کے دونو عالم میہماں
یہ گدائے آستاں خاص ختم المرسلیں
روز افزوں سے دل اندوہگیں کا اضطراب
یا شفیع المذنبیں خلاق عالم ہے گواہ
اضطراب قلب نے کیا ہی ستایا ہے مجھے
اور بھی اک عرض ہے اے بادشاہ نامدار
مجھ کو اس سے بحث کیا شاداب ہو خلد نعیم
مجھ سے بڑھ کر کوئی یارب جاہل وناداں نہیں
ممنون کیا مجھ کو نالوں کے اثر تونے
پاس رہو دیکھو نہیں کون لگیو اپدیس
خمسہ برغزل برخوردار قاضی بشیر احمد بی اے ایل ایل بی
اللہ نے بخشی تجھے دنیا و دیں کی سروری
قطعہ تاریخ
شد چودیوان جمالیؔ برسریرانطباع
ناظریں قدر شناسان سخن کی قلت
غزلیات فارسی وغیرہ
خود راکہ در غم تو فنا کردہ ایم ما
سجود قد سیاں خم ابروے مصطفیٰ
اے شکوہ خسروی پید است ازشان شما
فرش رہت کنم سرودستار خویش را
مے نہ پرسد ہیچگہ حال من درویش را
آن کہ دل فریب چو آن محمد است
روز تاشب بہ بند عصیانم
گر چنیں ہندوئے زلفش راہزن خواہد شدن
ازولایت شہر یار شہ نشاں آید ہم سے
اے ترک مست من مہ کنعان غلام تو
جائے اگر امروزبدہر امن وامان است
ترجیع بند
ہوس خاکبوس شاہم نیست
بہ شد بہ ورد نامت ہر کار ما محمد
عذر بے بضاعتی
AUTHORقاضی امراو علی جمالی
YEAR1918
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER ہلالی پریس، دہلی
AUTHORقاضی امراو علی جمالی
YEAR1918
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER ہلالی پریس، دہلی
سرورق
ہم نے ہر شے ہر اک جاتراجلوا دیکھا
محمد پر جو حق شیدا نہ ہوتا
بھلا کس سے بیاں ہو مرتبہ ختم رسالت کا
بحمد اللہ ہوں میں امتی اس بندہ پرور کا
ترا شکر کیونکر ادا ہو خدایا
جلوہ گر بے پردہ جب وہ مہ لقا ہو جائیگا
گر ہماراآشنا تو ایک دم ہو جائیگا
وہ شوق ہے دل میں کہ جتایا نہیں جاتا
جو ہو شمع ہر بزم وہ یار کس کا
کس طرح اسکی دوری پھر ہم کو ہو گوارا
بنے جہاں تک ستم شعارو جہاں میں کار ثواب کرنا
اور کچھ دن جو نہ اس در پہ جگہ پاؤں گا
مجھ کو تو کچھ گلہ نہیں نزدیک و دور کا
آفتوں کا میں نشانہ ہوگیا
ترا بیمار محبت اگر اچھا نہ ہوا
خودی کا تارک فنا کا طالب جہاں میں تنہا تمہیں کو دیکھا
اپنا غم خانہ ہے لے دیکے ٹھکانا اپنا
ڈھونڈھتی پھرتی ہے مدت سے اجل گھر اپنا
بتاؤ تو کیونکر ہو جینا ہمارا
ہوا اب تو لو فاش پردا تمہارا
دم واپسیں مونہہ دکھایا تو ہوتا
یار نا پائدار ہے دنیا
اس شوخ سے اب دل کا لگانا نہیں اچھا
غیروں سے وفا کرنی یارں پہ جفا کرنا
ہے اپنے مسیحا کا مطلب دور کروں کیا
وہ بے مہر کب آشنا ہے کسی کا
بنے وہ بیوفا دشمن ہمارا
بیٹھنا محفل میں اسکی سب کو مشکل ہو گیا
ان کو دکھڑا سنا کے دیکھ لیا
جو اچھے ہیں بھلا ان کا برا کیا
اک شوخ ستمگر کے یوں داؤ میں آجانا
اثر عیاں ہے یہاں تک تو اپنے نالوں کا
زباں سے اپنی اک شکوہ تو انکا ہو نہیں سکتا
کبھی تو حال سننا چاہیئے آشفتہ حالوں کا
جبھی لطف مے کشی تھا کہ بغل میں یار ہوتا
شب معراج جو بلانا تھا
جلانا پھوکنا برباد کرنا
زمیں کو وقف سکوں ہے پایا فلک کو گرم طواف دیکھا
سمجھے تھے ہم تو یہ کہ بس اب یار ہو گیا
دل جھگڑ کرلے چلا دامن پکڑ کر لے چلا
خالی خلش غم سے جہاں ہو نہیں سکتا
اس چمن میں صبح جو اترائے گا
ہر وقت مدینہ کی جانب کو جھکا ہوتا
کھڑا ہوں کب سے میں در پر ترے مشتاق درشن کا
کیا خاک بنے یار وہ عیار کسی کا
عدو کو یار نے ڈانٹا مجھے پیار کیا
جیتے جی جنت میں ہیں اھل جوار مصطفیٰ
اسی کے ہاتھ ہے جو کچھ بھی ہے سودوزیاں اپنا
ہجر میں مرنا تو مشکل تھا پر آساں ہو گیا
کہئے نہ باربار ترا امتحان ہے اب
ردیف ب
سودائے ماسوا کی سمائی کہاں ہے اب
ہے زلیخا کے کہاں اجڑے ہوئے گھر کا جواب
مشتاق وصل یار میرا دل نہیں ہے اب
ہم نے یہ مانا چلے آتے ہیں اپنے گھر سے آپ
ردیف پ
بے مروت نہ بے وفا ہیں آپ
نہ خدا ہیں نہ ناخدا ہیں آپ
ردیف تا
شمع رخ سے ترے گھر طور ہوا آج کی رات
دے اور زیادہ اسے آزاد محبت
خاک جنت میں ہو یاروں کی بسر کی صورت
لیتا نہیں خبر وہ ستمگار الغیاث
ہوا مجھ سے مکدر یار بے تقصیر کیا باعث
ردیف ثا
ہےجلوہ نما بام پہ وہ رشک قمر آج
ردیف ج
کیسےبیٹھے ہو حریفو بے مئے وپیمانہ آج
ردیف حا
ساکت تھے ہم تو بزم میں دیوار کی طرح
فضل خدا سے بخت زسا اوج پر ہے آج
ہے یار برسر کیں مجھ سے آسماں کی طرح
ردیف دال
عیاں ہے فراخی خوان محمد
ہے اس سے عیاں رتبۂ والاے محمد
الٰہی دکھادے دیار محمد
بنا کر رخ بے مثال محمد
فصاحت شکار کلام محمد
بنائے دو عالم برائے محمد
کس اوج پہ ہے صل علی شان محمد
نہ پوچھو کہ کیا ہے ہمارا محمد
بہت مدت میں اس کوچہ سے لایا نامہ بر کاغذ
ردیف ذال
ردیف رائے
حبیب رحماں نبی ذیشان درود تم پر سلام تم پر
نالاں ہے خلق اسکو ستمگار دیکھ کر
کسکی پرواہو ہمیں تیرا سہارا ہو کر
کیوں نہ بھولیں تری عطاؤں پر
مجھ پہ جنت رہی انجام جہنم ہو کر
نہ دیکھے دوزخی دوزخ میں جا کر
بشرکیا خاک سمجھے بھید تیرا رازداں ہو کر
مرنا چاہیں جو مرا مجھ کو جلائیں کیونکر
ردیف زاء معجمہ
یا خواجہ معین الملت و دیں سلطان الہند غریب نواز
طریق عشق ہے وہ راہ پر نشیب وفراز
ردیف سین
ردیف شین معجمہ
کیا دوانی تھی جوانی افسوس
گل سے بلبل ہے رضا مند نہیں خار سے خوش
نہ کام رندی سے ہم کو نہ اتقا سے غرض
ردیف ضاد
گم اگر چہ ہو مری جان سراپا اخلاص
ردیف صاف
ردیف طاے
بے مزہ ہو کر ہوا ہم سے دوبارا اختلاط
ردیف ظاے
فرقت میں کسی کی وہ مرے دل کو ملا حظ
عالم کے خرشون سے کسی کو نہیں فراغ
ردیف غین
ہوتی نہ ہجر میں گر اشگبار شمع
ردیف عین
وہ ملتفت ہیں بزم میں اغیار کی طرف
ردیف فاے
ردیف قاف
آفت سے ظلم و قہر ہے بیڈھب بلا ہے عشق
جوروجفائے یار سے جو تنگ آئے دل
ردیف کاف
مجھ کو دیدار سے محروم رکھے گا کب تک
ردیف لام
تری یادکب تھی بھلانے کے قابل
ردیف میم
کیوں منتشر رہیں غم روز جزا سے ہم
اپنے ہاتھوں خود ہوئے ہیں سب طرح برباد ہم
وہ کس خطا پہ ہوا ہے خفا نہیں معلوم
جو جی کی اماں اب کے پائیں گے ہم
میں کیوں کہوں مجھے وضع جہاں نہیں معلوم
یاروں کو یوں بچائیں گے نار سقر سے ہم
گر چہ مولود ہوئے زمرۂ اسلام میں ہم
آزاد کس طرح ہوں بھلا بندگی سے ہم
مانا کہ ایک تجھ سا جہاں میں حسیں نہیں
ردیف نون
نہ رند شراب ہوں مے پرستو نہ شیخ عالی مقام ہوں میں
الٰہی میں دارالاماں چاہتا ہوں
قدوۂ اہل صفا ہو یا معین الدین حسن
تم شوق سے ستاؤ مجھے کچھ گلا نہیں
رضوان خود آکے سو چمن آرا مزار میں
تپ فراق سے دل کو ذرا قرار نہیں
ہر چند میرے حال پہ چشم کرم نہیں
مہر گو ماہ سے بڑھ کر ہے کہیں
تجھ پر اے دوست جو ہم جان فدا کرتے ہیں
وہ جب جاتے ہیں کیا کیا وسوسے دل میں گزرتے ہیں
باغ عالم میں جو سچ پوچھو فضا کچھ بھی نہیں
انانیت ہے جب تک آدمی میں
رہوں جو پاس تو ہوتے وہ ہم کلام نہیں
جب سے آغوش میں اپنی وہ دل آرام نہیں
محو حیرت مہ و خورشید ہیں خاموش نہیں
فلک پر مہ نوجو ہم دیکھتے ہیں
غیر سے آنکھ وہ خود کام بدلتا ہی نہیں
عدو بھی خون پر باندھے ہوئے خنجر نکلتے ہیں
جوں نور آفتاب عیاں ہے سحاب میں
دل شکستوں پہ جو الفت کی نظر کرتے ہیں
پوچھتا کیا ہے کوئی تجھ میں ہنر ہے کہ نہیں
وہ آئیں جائیں کہیں مجھ کو کیوں جلاتے ہیں
مسکین بینوا ہو غنی اک نگاہ میں
جو حسینوں سے دل لگاتے ہیں
جو اس جہان خراب میں دل بتوںسے اپنا لگا چکے ہیں
زمیں کو ہ وملک بھی ملکر اگر اٹھائیں نہ اٹھ سکے گا
اپنے گھر میں تو وہ آنے مجھے کیا دیتے ہیں
بلاتے ہیں عدو کو بھی مجھے جب یاد کرتےہیں
درد دل کس سے کہوں قابل اظہار نہیں
یہ کسکے حسن کی شہرت کے ساماں ہوتے جاتے ہیں
سنبھل اب بھی جمالی چلکے ساکن ہو مدینے میں
کیا بے نشاں نشان کسی بے نشاں کے ہیں
جس میں ہمدردی نہیں اخلاق و اہلیت نہیں
جب اپنا شغل مے رندان مے آشام کرتے ہیں
آخری وقت کی گھاٹی سے گزر جاتے ہیں
جسکو نہ تاب ضبط ہو وہ کہیں دل لگائے کیوں
ہم بھی مشتاق زیارت ہیں اٹھاتے کیوں ہو
اب جہاں جایئے بے لطف ملاقاتیں ہیں
ردیف واو
جنت ہو صلہ اسکا تو فردوس جزا ہو
وہ دل ہی کیا ہے جس کو تری جستجو نہ ہو
گلشن خلد نہ جنت کی تمنا مجھ کو
محبوب خاص حضرت یزداں نہیں توہو
مجھے یہ فکر وہ عیاریار کیسے ہو
اس مہ جبیں کے دیکھنے کی کس کو تاب ہو
لبون پہ جان ہے دل مضطرب ہے جانے کو
ابتداے اولیں ہیں آپ تو
کیا ہی ضبط جب تک ہو سکا تاتم نہ رسوا ہو
نئی ہر دم ستمگاری تو دیکھو
دیار ہند کی بھاتی نہیں آب و ہوا مجھ کو
محفل غیر میں آمادہ ہے وہ جانیکو
نزع میں یار کو بالیں پہ مرے آنے دو
جلے وہ دل کہ جسے مصطفیٰ کی چاہ نہ ہو
اسکا طالب کبھی جنت کا طلبگار نہ ہو
چلو اسلام کے آثار دیکھو
زلف کے پاس رخ رشک قمر تو دیکھو
مدت سے دل زار ہے شیدائے مدینہ
جس شخص نے دیکھا ہے محمد کا مدینہ
دیف ہائے
دکھلادے الٰہی مجھے گلزار مدینہ
تصدق ہے تجھ پر مری جان خواجہ
ہو کیوں نہ جان و دل سے عاشق فداے خواجہ
پھر دیار اپنا دکھا دے میرے پیارے خواجہ
تری کیا شان ہے اللہ اکبر یا رسول اللہ
پر تو رخسار سے ہو کر منور آئینہ
احمد پاک کی کیا شان ہے اللہ اللہ
ارماں یہ ہے جو ہند سے مکہ کو جائیں گے
یہی ہے التجا جان آفریں سے
ردیف یائے
حرم جاں ہے جو مسکن غم جاناں کیلئے
افسوس ہے مدینہ سے رکھا جدا مجھے
عمر دراز حیف کہ نذر گناہ کی
بے نوا یا بانوا ہوں یا محمد مصطفیٰ
دن بھلے ہوتے تو کاہے کو جدائی ہوتی
شفیع المذبیں جس کا لقب ہے
آج ختم عرس فخر خواجگاں ہونیکو ہے
دوزخ یہی جہاں ہے جنت یہی تو ہے
یوں تو تھے اپنی پریشانی کے ساماں اور بھی
کمی نہ ظلم میں کر عشق کا صلا ہے یہی
ہوا نہ دہر کو ایک رنگ پر قرار کبھی
ایک ایسے گل اندام سے دل اپنا لگا ہے
بچے کیونکر کوئی اسکی مکیں سے
بظاہر گو تو آنکھوں سے نہاں ہے
جو بیحجاب وہ مہوش دو چار ہو جائے
کرتے ٹھوکر سے ہیں پامال وہ تربت میری
ماناکہ بنایا تجھے بے مثل خدا نے
افسوس طبیعت کی دنائت نہیں جاتی
چکھائیو نہ مزے ہجر دلربا کے مجھے
رلا رلا کر جلا جلا کر فنا کرے گی جدائی تیری
بیجا ہے کیا ہے اس پہ طبیعت جو آئی ہے
جو الجھا ہے زلفوں میں گر دل یہی ہے
کیا ہی یہ قلب مضطر دھومیں مچا رہا ہے
فنا کر چکی تھی جدائی کسی کی
مارا مجھ کو ہی نہیں نرگس فتاں تو نے
ہم ہیں اور وحشت تنہائی ہے
گلے کرتے کرتے سحر ہوگئی
وہ بے مہر ناحق خفا ہو رہا ہے
قیامت بپا دم میں کر جائیگی
ترے بیمار غم کا اسقدر اب حال ابتر ہے
پڑے ایک عالم کو جینے کے لالے
وہ چیز کون سی ہے کہ پیدا نہیں مجھے
ملتی ہے بات بات پہ جھڑکی وہاں مجھے
کب تک سہوں الٰہی صدمے غم جہاں کے
دل مان گیا ہے کہ بجھے گی نہ بجھائی
گھر بیٹھے مفت سیر چمن کی بہار دے
رہ عشق میں جاں گنوائے بنے گی
در پہ رہنے کی اجازت ہو گئی
تم مرے سامنے آجاؤ تو بیجا کیا ہے
سنتے ہیں نام خدا وہ بت جوان ہونیکو ہے
دل تڑپتا ہے آہ وزاری ہے
دلمیں رہ رہ کے جو یوں آگ لگاے کوئی
اک ادھر بھی نظر اے حسن کی دولت والے
غیر سے انس انہیں مجھ سے ہے نفرت کیسی
کاہش غم کو مبتلا جانے
شمر قد ر حسین کیا جانے
سب سے افضل ہے تری شان رسول عربی
کشمکش سے چھوڑا دیا تو نے
کیونکر کہوں غیروں سے وہ پروا نہیں کرتے
پردہ رخ انور سے اٹھا کیوں نہیں دیتے
ملک و دولت چاہئے قصر فلک سا چاہئے
دیر وکنشت میں ہے نہ وہ بحرو بر میں ہے
توبہ ہے محبت کا اگر نام لو ں اب سے
جو کچھ ہم پر گزرتی ہے کوئی بیدرد کیا سمجھے
یا الٰہی کوئی حد بھی آخر اس بیداد کی
کیا لگاؤ دل کو تھا ناوک فگن کے تیر سے
خاک جنت میں مجھے عیش کے ساماں ہوں گے
حسینوں میں سبھی کچھ ہے جفا بھی ہے وفا بھی ہے
دیکھ کر طرفہ ادائیں تری رعنائی کی
یارب نبی کی حسرت دیدار رہ نہ جائے
منہ جانب اغیار ہے الفت کی نظر بھی
عیاں ہیں جلد سے یوں استخواں عاشق کے پنجر کے
دماغ کبرونخوت آج جنکا آسماں پر ہے
پسند آئی ہے بود وباش اس بت کو مرے دل کی
اس سراپا ناز سے جب سے شناسائی ہوئی
کیں کوششیں اگر چہ بہت کچھ حجاب کی
دنیا اگر چہ منزل عیش و سرور ہے
ہے بار بار عرض یہی کار ساز سے
رہے دبکے نہ جو سات آسماں سے
حشر برپا ہوا اس ٹھاٹھ سے بنکر نکلے
ہر اک انداز سے عاشق کو اپنی چھب دکھانی ہے
اسکو کرے جو رام بھلا کس کی تاب سے
کہہ نہیں سکتا زباں سے جو کچھ اسکے دل میں ہے
کیوں در پہ میکدہ کے ہوا ازدحام ہے
اس ٹھاٹھ سے بن ٹھن کر وہ بام پہ ہو بیٹھے
بخشش عام ہے رحمت کی گھٹا چھائی ہے
جو دل ان نگاہوں کا بسمل نہیں ہے
عرض ہے اک مری اے شاہ مدینے والے
غرور اتنا بتوزیبا نہیں ہے
ایک میں اور اتنے داغ خوں فشاں میرے لئے
وہ ہمکنار غیر ہو یہ مو نہ تکا کرے
غیاث مستغیثاں غوث اعظم قطب ربانی
کیوں سر جھکائیں در پر ہم سفلۂ دنی کے
فرقت میں یاد آتی ہے صورت جو یار کی
اے دل طلب دولت فانی کب تک
رباعیات
قحط سا قحط ہے اسوقت میں غمخوارں کا
ترجیع بند
ہے سفر درپیش اور بجنے کو ہے کوس رحیل
زاد السبیل
دیکھئے عزم دیار مصطفیٰ ہو کب تلک
جان جائے یار ہے جو نفع و نقصان ہو سو ہو
خون اسنا نبی کے دونو عالم میہماں
یہ گدائے آستاں خاص ختم المرسلیں
روز افزوں سے دل اندوہگیں کا اضطراب
یا شفیع المذنبیں خلاق عالم ہے گواہ
اضطراب قلب نے کیا ہی ستایا ہے مجھے
اور بھی اک عرض ہے اے بادشاہ نامدار
مجھ کو اس سے بحث کیا شاداب ہو خلد نعیم
مجھ سے بڑھ کر کوئی یارب جاہل وناداں نہیں
ممنون کیا مجھ کو نالوں کے اثر تونے
پاس رہو دیکھو نہیں کون لگیو اپدیس
خمسہ برغزل برخوردار قاضی بشیر احمد بی اے ایل ایل بی
اللہ نے بخشی تجھے دنیا و دیں کی سروری
قطعہ تاریخ
شد چودیوان جمالیؔ برسریرانطباع
ناظریں قدر شناسان سخن کی قلت
غزلیات فارسی وغیرہ
خود راکہ در غم تو فنا کردہ ایم ما
سجود قد سیاں خم ابروے مصطفیٰ
اے شکوہ خسروی پید است ازشان شما
فرش رہت کنم سرودستار خویش را
مے نہ پرسد ہیچگہ حال من درویش را
آن کہ دل فریب چو آن محمد است
روز تاشب بہ بند عصیانم
گر چنیں ہندوئے زلفش راہزن خواہد شدن
ازولایت شہر یار شہ نشاں آید ہم سے
اے ترک مست من مہ کنعان غلام تو
جائے اگر امروزبدہر امن وامان است
ترجیع بند
ہوس خاکبوس شاہم نیست
بہ شد بہ ورد نامت ہر کار ما محمد
عذر بے بضاعتی
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔