سرورق
غلط نامہ دیوان کمال راسخ
قائل ہوں دل سے وحدت رب جلیل کا
فیض بازار محبت ان دنوں تازہ ہوا
صورتوں میں شاہد معنی کو پنہاں کر دیا
شہادت کسکے حصہ کی ہے جو بن کسکے لہنے کا
سرخ موباف میں کیا لعل تھے کالا ہوتا
کیا جانے دل کو عشق نے کیا کچھ پڑھا دیا
جیتے جی میں تیری رفتار پہ مرجاؤں گا
قاتل شہید غم کا لہو بہ بہا گیا
پیکر درد وغم وحسرت و خرماں ہونا
دفنا کے مجھ کو غیر پہ وہ مبتلا ہوا
چارہ گر شوق شہادت کا بیاں ہو جائیگا
ضرور تھا تمہیں بسمل کا مان رکھ لینا
فاقہ مستی میں خریدار ہوں پیمانوں کا
بوسۂ ابرو خدارا مل گیا
گلشن میں اب کے لطف ہے دور ایاغ کا
میں ہجر کی کہانی جو شب کہکے رہ گیا
تم چلے تنکر زمانے کو تماشا ہو گیا
نوک پر لیکے جگر یار کا پیکاں نکلا
گیسو کھلے نصیب سیاہی میں آگیا
جیتے جی میں تیری رفتار پہ مرجاؤں گا
دے دیا دل بندہ پرور یا مقدر یا نصیب
ردیف بائے موحدہ
ناز کیوں فریاد کیوں کیا وجہ باعث کیا سبب
غیر کے بس میں ہے وہ غنچہ دہن آجکی رات
ردیف تائے فارسی
درد فرقت سے دل پرآئی چوٹ
ردیف بائے ہندی
خفا ہیں تم سے دشمن کیا سبب کیا وجہ کیا باعث
ردیف ثائے مثلثہ
دہانی کپڑے پہنے گلشن میں ہے وہ مہ پار ہ آج
ردیف جیم عربی
مل چکے تم بندہ پرور روز کل ہے روزآج
ردیف جیم فارسی
مجھ کو یہ شکوی کہ ہے کیونکر گوارا جھوٹ سچ
دلنشیں ہر تری ہے درد نہانی کی طرح
ردیف حائے حطی
نرالی ہے زمانے سے بت خود کام کی تسبیح
ردیف خائے معجمہ
ہے چمن سبز ارغواں ہے سرخ سرخ
وہ آنکھ ہو کے لڑتے ہیں دو چار دن کے بعد
ردیف دال غیر منقوطہ
ہے رہا ہو کے بھی صیاد کی یاد
ردیف ذال منقوطہ
قاتل سے جالڑی ہے نگاہ بلا پسند
ضعف سے ہے تن لاغرکاغذ
ردیف رائے غیر منقوطہ
جان نکلی ہے گر انباری حسرت لیکر
پڑا ہے عکس خط روئے یار ساغر پر
حسن پر ناز ہے وہ مجھ کو بلاتے کیوں کر
کوئی یہ زاہد سے کہہ دے جاکر بتوں سے کای لیگا دل لگا کر
رکھنے لگے وہ دانت دل داغدار پر
مٹے ہوئے ہیں تمہیں پر تمہارے دھیان سے دور
بھروسا خضر کو ہوگا حیات جاودانی پر
روؤں تو ہو جہاں میں پانی کمر کمر
ہے بہار زندگانی چند روز
ردیف زائے منقوطہ
ردیف سین مہملہ
مشتاق قتل بیٹھے ہیں اس تیغ زن کے پاس
ردیف شین منقوطہ
ہوں سراپا جستجو خانہ بدوش
ہے فلک کو تری بیدا دکی حرص
ردیف ضاد منقوطہ
ردیف صاد مہملہ
وصل کے وعدے پہ دین دل ایسی کیا گوں کیا غرض
ردیف طائے مہملہ
میں نے کہا کہ دعوے عشق اے صنم غلط
ردیف ظائے منقوطہ
تم سے جب دل پھٹ گیا کیسی مروت کیا لحاظ
درد دل کی فتنہ گر کو کیا خبر کیا اطلاع
ردیف عین منقوطہ
ردیف غین منقوطہ
داغ ہجراں دل میں ہیں جلتے ہیں روز وشب چراغ
ردیف فاء
پڑتی ہے ضعف سے تم پر نگاہ شوق
یہ کہتا گیا ہے وہ غارت گر دل
ردیف قاف
خدنگ غم سے چھلنی ہے جگر اول سے آخر تک
ردیف کاف عربی
طبعت تم سے بھر جائیگی کل پرسوں اترسوں تک
ناصح نہ بن عدو راے کمبخت الگ الگ
ردیف کاف فارسی
شادی سے پھول پھول کے ہیں لاکھ من کے پھول
ردیف لام
نہ گن زخم تن بسمل حساب دوستاں دردل
ہوں عندلیب پر بہ قفس بستہ خستہ دل
کیا ہے تمہیں انتخاب اول اول
ردیف میم
کر رہے ہیں مشورہ دو چار دیوانوں سے ہم
نہ دیکھو ہم کو نگاہیں چراچرا کر تم
سوال قتل پردہ صورت تصویر ہے گم صم
خیال کعبۂ ابرو سے ہوں محراب طاعت میں
ردیف نون
مخزن لعل دور شہوار آنکھیں ہو گئیں
وہ بلاتے بھی نہیں گھر سے نکلتےبھی نہیں
روبرو جب وہ ہوئے بیکار آنکھیں ہوگئیں
وہ دل کھول کر گالیاں دے رہے ہیں
فلک تک رسا میرے نالے ہوئے ہیں
میں وہ طالب ہوں کہ مطلوب بنا جاتا ہوں
تیری گالی کا گلہ کیوں کر کروں
لڑتے لڑتے غیر سے بیباک آنکھیں ہو گئیں
جنوں سے رکھتے ہیں ان بن گریباں آستیں دامن
جگر میں ہیں بہت چھالے بہت سے دل میں پھوڑے ہیں
ردیف واؤ
شدکمند دل رگ جاں موئے تو گیسوئے تو
سرببالا میکشد سودائے من
نہ جانے کوئی ہم کیا ہیں نہ سمجھے کوئی کیا تم ہو
بات پردے کی ہے ڈھونڈھو کوئی کو نارات کو
ہماری قبر پہ دو پھول ڈالتے جاؤ
مرتے مرتے لیچلا ہوں میں تمہاری آرزو
بیتاب دلکو قول کے چھلے سے باندھ لو
دشت پیما تھے زور شور کے پانو
وعظ جواب دے مجھ پورا ثواب ہو
عشق حضور کو مرے پلے سے باندھ دو
ہے تمہیں ہم سے بیر ہونے دو
منہ دیکھتے رہو جو ذرا بے حجاب ہو
ردیف ہائے ہوز
تم نے منہ دیکھابڑ ھی تنویر پشت آئینہ
تیرے ہاتھوں سے ہوئی توقیر پشت آئینہ
اس کے رخ پر پڑی ہماری آنکھ
وہ دور سے دکھا گئے مہندی لگا کے ہاتھ
سمجھ رکھا ہے کیا تم فغاں بیکار نکلے گی
ردیف یائے تحتانی
عدم کے گھاٹ تک یو تیغ قاتل کی روانی ہے
دھبا ہے روئے ماہ میں گالوں کے سامنے
بٹھا رکھا ہے پردے میں حیا نے
رنگ میں بھیگی ہوئی ہے سادی چولی آپ کی
آنکھ اس بت کے تصور سے لڑی رہتی ہے
مجمع حسرت وحرماں دل مضطر میں رہے
نالے سنکر سنکر دل ناکام کے
زباں کو لطف ذکر خنجر قاتل سے ملتا ہے
مبارک ہے وہ غم شادی کے ہوں سامان جس غم سے
صدقے قدرت کے کارخانے کے
حال فرقت جو کہا کہنے لگا چل چھوٹے
یہاں ہے تو وہاں تو ہے نہاں ہے تو عیاں تو ہے
نیم جاں میں نے تری چال پہ راہی کردی
وہی صورت ہے ہونے کی جو حالت ہے نہ ہونے کی
نہ پوچھو شب ہجر کٹتی ہے کیونکر نہ میں کہہ سکوں گا نہ تم سن سکو گے
جنوں میرے تھے لیا چاہتا ہے
پیر مغاں نے باغ میں بھٹی بنائی ہے
وہ فرماتے ہیں دل لیکر ہمیں اک چیز پائی ہے
عکس عارض سے تمہاری آرسی پانی ہوئی
پابند ہیں جنوں میں ہم اپنے خیال کے
زخم پنہاں لب کشا ہے داد خواہی کے لئے
دل تھام کر جو میں نے کلیجے سے آہ کی
قاتل سے کہہ رہا ہوں کنارے لگا مجھے
ہنستا ہوں کہ بیٹھے ہیں مرے دل پہ نشانے
ترے قد سے دب کر گڑی رہ گئی
یہ حصے ہیں لب و عارض کے چشم و زلف کے تل کے
عشق میں کون پہاڑوں سے پڑا سر پھوڑے
نزاکت نے مجھے محروم رکھا ہے شہادت سے
مٹا جارہا ہے جہاں جانے والے
زمانہ کرےگا غلامی تمہاری
کھا کھا کے میوے سرخ ہوئی لاڈلی ہوئی
حسرت مرگ شب غم دل ناکام میں ہے
یہاں تک روئی ہے حسرت ہماری
ظاہر میں ہے گر لالہ تو باطن میں حنا ہے
برائے یار مے گردم بہر کوے بہر سوے
من زوں چوں آہ سوزاں میزنم
کیا بات ہے تری کہ زباں ہو دہاں نہ ہو
اشعار متفرقات
ہے نظم دلہن تو نوجوانی میں ہوں
رباعیات ذوالقوافی
قصیدہ
جہاں فیض جہاں عطا جہان کرم
قطعات تاریخ دیوان کمال راسخ از شاعران خوش بیان
خدا بخشے عجب طرز بیاں تھی
یہ کمال راسخ مرحوم ہے
چمکے ہوئے ہیں ہر سو کیا گوہر مضامین
راز اوستاد کا چھپا دیوان
ترتیب پاچکا ہے دیوان دوسرا بھی
کب چھپا ہائے دوسرا دیوان
مطلع طرخ سخن پر تھی نگاہ عشاق
چھپتے ہی دیوان راسخ کے ہوا ہے شور وغل
فکر تاریخ تھی جو دیوان کی
مخزن علم وہنر مولوی عبد الرحمن
جسکا شہر ہ تھا اک زمانہ میں
اللہ اللہ کیسا دیواں ہے
نرالی طرز سے لکھا یہ دیواں
گلزار فصاحت میں بہا ر آئی ہے کیسی
منیر اب سمجھی ہم نے قدر راسخؔ
قطعات تاریخ وفات مولانا راسخ مرحوم
حضرت راسخ کام بھی ہے غنیمت دہر میں
چشمہا شد ابر صورت اشکبار
رہ گیا شوق ملاقات افسوس
آج ہوئی ہے دلی خالی
روتے ہیں چھوٹے بڑے سب زار زار
سرورق
غلط نامہ دیوان کمال راسخ
قائل ہوں دل سے وحدت رب جلیل کا
فیض بازار محبت ان دنوں تازہ ہوا
صورتوں میں شاہد معنی کو پنہاں کر دیا
شہادت کسکے حصہ کی ہے جو بن کسکے لہنے کا
سرخ موباف میں کیا لعل تھے کالا ہوتا
کیا جانے دل کو عشق نے کیا کچھ پڑھا دیا
جیتے جی میں تیری رفتار پہ مرجاؤں گا
قاتل شہید غم کا لہو بہ بہا گیا
پیکر درد وغم وحسرت و خرماں ہونا
دفنا کے مجھ کو غیر پہ وہ مبتلا ہوا
چارہ گر شوق شہادت کا بیاں ہو جائیگا
ضرور تھا تمہیں بسمل کا مان رکھ لینا
فاقہ مستی میں خریدار ہوں پیمانوں کا
بوسۂ ابرو خدارا مل گیا
گلشن میں اب کے لطف ہے دور ایاغ کا
میں ہجر کی کہانی جو شب کہکے رہ گیا
تم چلے تنکر زمانے کو تماشا ہو گیا
نوک پر لیکے جگر یار کا پیکاں نکلا
گیسو کھلے نصیب سیاہی میں آگیا
جیتے جی میں تیری رفتار پہ مرجاؤں گا
دے دیا دل بندہ پرور یا مقدر یا نصیب
ردیف بائے موحدہ
ناز کیوں فریاد کیوں کیا وجہ باعث کیا سبب
غیر کے بس میں ہے وہ غنچہ دہن آجکی رات
ردیف تائے فارسی
درد فرقت سے دل پرآئی چوٹ
ردیف بائے ہندی
خفا ہیں تم سے دشمن کیا سبب کیا وجہ کیا باعث
ردیف ثائے مثلثہ
دہانی کپڑے پہنے گلشن میں ہے وہ مہ پار ہ آج
ردیف جیم عربی
مل چکے تم بندہ پرور روز کل ہے روزآج
ردیف جیم فارسی
مجھ کو یہ شکوی کہ ہے کیونکر گوارا جھوٹ سچ
دلنشیں ہر تری ہے درد نہانی کی طرح
ردیف حائے حطی
نرالی ہے زمانے سے بت خود کام کی تسبیح
ردیف خائے معجمہ
ہے چمن سبز ارغواں ہے سرخ سرخ
وہ آنکھ ہو کے لڑتے ہیں دو چار دن کے بعد
ردیف دال غیر منقوطہ
ہے رہا ہو کے بھی صیاد کی یاد
ردیف ذال منقوطہ
قاتل سے جالڑی ہے نگاہ بلا پسند
ضعف سے ہے تن لاغرکاغذ
ردیف رائے غیر منقوطہ
جان نکلی ہے گر انباری حسرت لیکر
پڑا ہے عکس خط روئے یار ساغر پر
حسن پر ناز ہے وہ مجھ کو بلاتے کیوں کر
کوئی یہ زاہد سے کہہ دے جاکر بتوں سے کای لیگا دل لگا کر
رکھنے لگے وہ دانت دل داغدار پر
مٹے ہوئے ہیں تمہیں پر تمہارے دھیان سے دور
بھروسا خضر کو ہوگا حیات جاودانی پر
روؤں تو ہو جہاں میں پانی کمر کمر
ہے بہار زندگانی چند روز
ردیف زائے منقوطہ
ردیف سین مہملہ
مشتاق قتل بیٹھے ہیں اس تیغ زن کے پاس
ردیف شین منقوطہ
ہوں سراپا جستجو خانہ بدوش
ہے فلک کو تری بیدا دکی حرص
ردیف ضاد منقوطہ
ردیف صاد مہملہ
وصل کے وعدے پہ دین دل ایسی کیا گوں کیا غرض
ردیف طائے مہملہ
میں نے کہا کہ دعوے عشق اے صنم غلط
ردیف ظائے منقوطہ
تم سے جب دل پھٹ گیا کیسی مروت کیا لحاظ
درد دل کی فتنہ گر کو کیا خبر کیا اطلاع
ردیف عین منقوطہ
ردیف غین منقوطہ
داغ ہجراں دل میں ہیں جلتے ہیں روز وشب چراغ
ردیف فاء
پڑتی ہے ضعف سے تم پر نگاہ شوق
یہ کہتا گیا ہے وہ غارت گر دل
ردیف قاف
خدنگ غم سے چھلنی ہے جگر اول سے آخر تک
ردیف کاف عربی
طبعت تم سے بھر جائیگی کل پرسوں اترسوں تک
ناصح نہ بن عدو راے کمبخت الگ الگ
ردیف کاف فارسی
شادی سے پھول پھول کے ہیں لاکھ من کے پھول
ردیف لام
نہ گن زخم تن بسمل حساب دوستاں دردل
ہوں عندلیب پر بہ قفس بستہ خستہ دل
کیا ہے تمہیں انتخاب اول اول
ردیف میم
کر رہے ہیں مشورہ دو چار دیوانوں سے ہم
نہ دیکھو ہم کو نگاہیں چراچرا کر تم
سوال قتل پردہ صورت تصویر ہے گم صم
خیال کعبۂ ابرو سے ہوں محراب طاعت میں
ردیف نون
مخزن لعل دور شہوار آنکھیں ہو گئیں
وہ بلاتے بھی نہیں گھر سے نکلتےبھی نہیں
روبرو جب وہ ہوئے بیکار آنکھیں ہوگئیں
وہ دل کھول کر گالیاں دے رہے ہیں
فلک تک رسا میرے نالے ہوئے ہیں
میں وہ طالب ہوں کہ مطلوب بنا جاتا ہوں
تیری گالی کا گلہ کیوں کر کروں
لڑتے لڑتے غیر سے بیباک آنکھیں ہو گئیں
جنوں سے رکھتے ہیں ان بن گریباں آستیں دامن
جگر میں ہیں بہت چھالے بہت سے دل میں پھوڑے ہیں
ردیف واؤ
شدکمند دل رگ جاں موئے تو گیسوئے تو
سرببالا میکشد سودائے من
نہ جانے کوئی ہم کیا ہیں نہ سمجھے کوئی کیا تم ہو
بات پردے کی ہے ڈھونڈھو کوئی کو نارات کو
ہماری قبر پہ دو پھول ڈالتے جاؤ
مرتے مرتے لیچلا ہوں میں تمہاری آرزو
بیتاب دلکو قول کے چھلے سے باندھ لو
دشت پیما تھے زور شور کے پانو
وعظ جواب دے مجھ پورا ثواب ہو
عشق حضور کو مرے پلے سے باندھ دو
ہے تمہیں ہم سے بیر ہونے دو
منہ دیکھتے رہو جو ذرا بے حجاب ہو
ردیف ہائے ہوز
تم نے منہ دیکھابڑ ھی تنویر پشت آئینہ
تیرے ہاتھوں سے ہوئی توقیر پشت آئینہ
اس کے رخ پر پڑی ہماری آنکھ
وہ دور سے دکھا گئے مہندی لگا کے ہاتھ
سمجھ رکھا ہے کیا تم فغاں بیکار نکلے گی
ردیف یائے تحتانی
عدم کے گھاٹ تک یو تیغ قاتل کی روانی ہے
دھبا ہے روئے ماہ میں گالوں کے سامنے
بٹھا رکھا ہے پردے میں حیا نے
رنگ میں بھیگی ہوئی ہے سادی چولی آپ کی
آنکھ اس بت کے تصور سے لڑی رہتی ہے
مجمع حسرت وحرماں دل مضطر میں رہے
نالے سنکر سنکر دل ناکام کے
زباں کو لطف ذکر خنجر قاتل سے ملتا ہے
مبارک ہے وہ غم شادی کے ہوں سامان جس غم سے
صدقے قدرت کے کارخانے کے
حال فرقت جو کہا کہنے لگا چل چھوٹے
یہاں ہے تو وہاں تو ہے نہاں ہے تو عیاں تو ہے
نیم جاں میں نے تری چال پہ راہی کردی
وہی صورت ہے ہونے کی جو حالت ہے نہ ہونے کی
نہ پوچھو شب ہجر کٹتی ہے کیونکر نہ میں کہہ سکوں گا نہ تم سن سکو گے
جنوں میرے تھے لیا چاہتا ہے
پیر مغاں نے باغ میں بھٹی بنائی ہے
وہ فرماتے ہیں دل لیکر ہمیں اک چیز پائی ہے
عکس عارض سے تمہاری آرسی پانی ہوئی
پابند ہیں جنوں میں ہم اپنے خیال کے
زخم پنہاں لب کشا ہے داد خواہی کے لئے
دل تھام کر جو میں نے کلیجے سے آہ کی
قاتل سے کہہ رہا ہوں کنارے لگا مجھے
ہنستا ہوں کہ بیٹھے ہیں مرے دل پہ نشانے
ترے قد سے دب کر گڑی رہ گئی
یہ حصے ہیں لب و عارض کے چشم و زلف کے تل کے
عشق میں کون پہاڑوں سے پڑا سر پھوڑے
نزاکت نے مجھے محروم رکھا ہے شہادت سے
مٹا جارہا ہے جہاں جانے والے
زمانہ کرےگا غلامی تمہاری
کھا کھا کے میوے سرخ ہوئی لاڈلی ہوئی
حسرت مرگ شب غم دل ناکام میں ہے
یہاں تک روئی ہے حسرت ہماری
ظاہر میں ہے گر لالہ تو باطن میں حنا ہے
برائے یار مے گردم بہر کوے بہر سوے
من زوں چوں آہ سوزاں میزنم
کیا بات ہے تری کہ زباں ہو دہاں نہ ہو
اشعار متفرقات
ہے نظم دلہن تو نوجوانی میں ہوں
رباعیات ذوالقوافی
قصیدہ
جہاں فیض جہاں عطا جہان کرم
قطعات تاریخ دیوان کمال راسخ از شاعران خوش بیان
خدا بخشے عجب طرز بیاں تھی
یہ کمال راسخ مرحوم ہے
چمکے ہوئے ہیں ہر سو کیا گوہر مضامین
راز اوستاد کا چھپا دیوان
ترتیب پاچکا ہے دیوان دوسرا بھی
کب چھپا ہائے دوسرا دیوان
مطلع طرخ سخن پر تھی نگاہ عشاق
چھپتے ہی دیوان راسخ کے ہوا ہے شور وغل
فکر تاریخ تھی جو دیوان کی
مخزن علم وہنر مولوی عبد الرحمن
جسکا شہر ہ تھا اک زمانہ میں
اللہ اللہ کیسا دیواں ہے
نرالی طرز سے لکھا یہ دیواں
گلزار فصاحت میں بہا ر آئی ہے کیسی
منیر اب سمجھی ہم نے قدر راسخؔ
قطعات تاریخ وفات مولانا راسخ مرحوم
حضرت راسخ کام بھی ہے غنیمت دہر میں
چشمہا شد ابر صورت اشکبار
رہ گیا شوق ملاقات افسوس
آج ہوئی ہے دلی خالی
روتے ہیں چھوٹے بڑے سب زار زار
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.