سررق
ہووے کس طرح مجھ سے حمد خدا
نہیں ہے دل کو ذرا ان دنوں سکون و قرار
قدرت کا لقی سے اسنے کیا
جو رمی کا آج کل ہے فتح یاب
اضطراب دل نے مجھکو بیقرار
میل دل میرا ہو احد سے زیاد
تقریر کرے وصف کو خلاق جہاں کا
دل نے مجھ کو کنور خراب کیا
آتش دل کا جو آنکھوں سے شرارا چمکا
بزم میں آکے طرحدار نے دیوانہ کیا
رہتا ہے شوق بسکہ کنور کو شکار کا
دلا اب یہ کیسا ستانے لگا
شکوہ کس طرح کروں کی گرفتاری کا
ای دل دیوانہ تو نے مجھے سر گرداں کیا
شکر حق انجام کار اب ہو گیا
اللہ رے انداز تیری جلوہ گری کا
دلا تو اسکا بھلا کس لئے خیال کیا
یک دن جو اس سے حال میں اپنا بیاں کیا
زلف کے دام سے اب دل کو بچایا نہ گیا
اب گل عشرت نے طرفہ رنگ دکھلانے لگا
شیدا ہیں عشق میں تیرے دل شیخ و شاب کا
نہ ہو سابق وہ گلرو کسلئے قصہ کہانی
مجھ سے ناحق اس ستمگر نے کنارہ کر گیا
دل میں رکھتا تھا نہوں تجھسے کبھو یار خدا
یک شعلہ دلمیں سوز کا جب مشتعل ہوا
لازم نہیں معمول سدا اسپہ ستم کا
دل تو میرا آگے ہی تھا بسکہ بہکایا ہوا
اس شعلہ رو سے دیکھے ہم بھی عتاب کیا کیا
شب کو یاد نگہ یارنے سونے نہ دیا
جس شخص کو اس عشق کا آزار ہو گیا
جوش جنوں کا ہر جا مذکور ہی ہمارا
عشاق کی طرف بھی کبھی یار دیکھنا
میری طرف سے اسکو قاصد سلام پہنچا
گو طور ہی یہی تیرے قول قرار کا
بحر فنا میں ہیں سبھی ظاہر حباب سا
عشق میں اسکے ہوں میں جب سے گرفتار رہا
سوزدروں سے دل میرا مدت جلا گیا
بہت درد و غم میں تحمل کیا
آہ جسدن سے جدا میرا وہ گلفام ہوا
تیری نگاہ سے ہی زخمی جگر ہمارا
کب ستمگار میرے مایل آزار نہ تھا
ہجر میں اس کے جو میں برہم رہا
کہ عشق ہمنے کھویا سب خانما اپنا
غم نے تو نقش ہستی کو میرے مٹا دیا
بیاں کیا میں کروں اسکی جفا کا
خوبرو یوں پہ دل لگا دیکھا
کہ عشق آہ دل نے کیا کیا عذاب پایا
دل کو اکثر ہی پیچتاب رہا
شیدا ہی اسکے عشق میں دل یک جہاں کا
دل بھی گیا ادھر کو وہ دلبر جدھر گیا
غمزہ وناز و ادا کر جب سے وہ کافر گیا
عشق میں جان گئی تن بھی گیا یار اپنا
میں ہوں مقتول چشم جادو کا
اے دل تجھے یہ عشق میں نت خار خار کیا
کھونا ہی جاں کو جو ہی خریدار عشق کا
جس دم وہ میرے آگے سے ہو کر خفا پھرا
مجھے دیکھ جب وہ تبسم کیا
وہ عیار جب سے جھرکنے لگا
اسکی طلب میں میں بھی بہت جابجا پھرا
چہرہ سے جب اٹھاوے ہے پردہ نقاب کا
اسکی فرقت میں دلا روتا ہے کیا
دل نے اب مجھ کو بیقرار کیا
تیرے عشق میں مجھ کو سودا ہوا
ابتو وہ یار میرا ہی مجھ سے ملا ہوا
جب سے کہ میرے پہلو سے دلبر جدا ہوا
کب ستمگار میرا مایل آزار نہ تھا
کیا پوچھتے ہو حال دل بیقرار کا
دل چسپ ہے کیا کوچہ میرے جسم بدن کا
عجب پتھر ہے دل یارو جہاں میں خوش نگاہاں کا
عشق میں اضطرار ہے کتنا
عشق گویا کہ خام سودا تھا
عشق میں میں دین و دل کو کھو دیا
دیں و دل جارہا مسلماں کا
ہجر کیا کیا آفت اب لانے لگا
کہا جوں میں ہنس کر وہ گوہر میرا
فرقت میں دل افگار ہی مظلوم تمہارا
سوداے یار نے مجھے بیمار کر دیا
در پہ تیرے سب جو یہ حیراں گیا
چاہ الم میں دل نے مجھے لے دبو دیا
اس کاکل پر خم میں یوں دل نہ پھنسانا تھا
احوال کیا کہوں دل آفت رسیدہ کا
کنور اب نوپدا میں بھنستا پھرا
دورا کے بہت ہمکو تو حیران کردیا
ملتا نہیں ہی آن کے دلدار ہمارا
یار اپنا کنور ہے جو گل سا
پلا ساقی بوقت نوبہار اب
روے مہوش پہ جب نقاب ہوا
ظلم ہی کرتا ہے مجھ پر وہ ستمگر روز شب
عاشق دل شدہ سے نسبت ہشیاری کب
ای دل تجھے ہر آن غم و آہ نہیں خوب
چمن میں ہے بہار بیشمار اب
ملجا گلے سے آکے بس ای سیمبر شتاب
ساقیا جلہ کر عطاے شراب
عشوہ وناز غضب غمزہ دلدار غضب
تیری خاطر ہوں چشم تر محبوب
ہجراں میں روز و شب ہے پت دلکو اضطراب
کرنے لگا جو چشم نمائی تمام شب
پلا ساقی شراب خوشگوار اب
میرے گھر آتے نہیں ہیں لطف سے یکبار آپ
دیکھتے ہی ہو گیا مجھ کو بت عیار چپ
رات کو غیروں سے ملجاتے ہمیں آپ
جلا جاتا ہے جو نت بیخبر چپ
دل ہو رہا ہے چلکے مثال کباب آپ
اکسیر انبساط ہے دلدار کی ملاپ
نہ پوچھ گزری جو کچھ مجھ پہ بیقراری رات
عیش و عشرت میں کٹٰی یار سے کل راتکی رات
شوق سے دے تو میرے نام پہ دشنام بہت
ہے درد و الم کی ہمیں حالات غنیمت
دلا چل جس طرف چاہے خدا حافظ ہی یا قسمت
معشوق کو ہے عاشق لاچار دسے نفرت
محبت میں تیری اے دلربا مفت
اسطرح قہرو خشم سے مت کر نگار بات
مجبور ہی رہتا ہے طلبگار محبت
ہر چند بہت ہم نے کی دلدار کی منت
گلشن میں جلے کہیں اس خوبرو کی بات
جس دم چلی چمن میں میرے دلربا کی بات
دلدار میرا بسکہ ہے خوشخو شکار دوست
مرے دلدار ہو جاوے ہے ان سمجھے خفا جھت بت
نہیں وہ ملفت مطلق ہوا دل جس سے جا لت پت
بازار عشق میں ہیں جفاکاریاں پنت
یار جب ہم سے گیا شکوۂ اغیار سے چھوت
عاشق دل شدہ سمجھے ہے گلستاں کو عبث
لیتا جو کہیں یار کو میں گوشہ مین جھت پت
پھرتا ہے تو کس لئے بھلا کوبکوعبث
مت کر تو سدا اے دل نالاں الغیاث
نہ پوچھو اضطراب خاطر دلگیر کا باعث
آزردہ روز شب ہے جفا کار کا مزاج
زخم دل تازہ ہوا پھر نگہہ یار سے آج
جز وصل یار عشق کے بیمار کا علاج
عاشق دل شدہ کے حال پہ تو دھیان کر آج
شعبدے ہیں عاشق نالاں سے آج
ہجر میں دل مگر تو ہاں تک سوچ
یکدم وہ جلوہ گر ہو اگر انجمن کے بیچ
معشوق میرا میر کی خاطر کیا کوچ
درد فرقت میں جاچکی تفریح
کہتا ہے لطف میرے دلارام تن کے بیچ
وصل میں ہی دلارفاہ و فلاح
شغل ہے عشق کا فاہ و فلاح
نگہ کے تیر سے جو ہو گیا دلا مجروح
سمجھو مت وعظ کو ہر دم دلا تلخ
سخن جو آج تیرے طرفہ رنگ رنگ ہی شوخ
ہر طرف ہے وہ جلوہ گر کستاخ
دکھوں طلب میں میری فلک کیا دکھاے شوخ
دل کو عشوہ میں لے لیا گستاخ
قطرۂ اشک کو میرے ہے جگر سے پیوند
تیر مژگاں سے ہوا میری نظر میں سوراخ
رکھتا ہی دل الم سے بصد پارہ درد مند
جاوے فراق کا یہ آزار گاہ باشد
فرقت میں تیری دایم اے کج کلاہ تاچند
ہے وصال یار ہمسے روز محشر بامداد
کنج قفس میں بار ہوا اپنا باس و بود
اس طرح جو کرے ہے جور و جفا اے شاہد
جدائی میں تیری ہوں یار ناشاد
عشق میں خانماں ہو ابرباد
لکھوں سوز دروں سے اسکے آگے میں اگر کاغذ
خوبوں میں اے عزیز و مہرو وفا ہے شاذ
بستی کو دل جس سے گیا وہ اجاڑ کر
مرے آجاے گر وہ روبرو شاذ
تلخ گوئی کو تیری کیوں نہ کہوں یار لذیذ
جب سے آئی وبد میں تصویر یار
جاتا رہا وہ آگے سے اٹھ بے قرار کر
دعائے صبحگاہی کی گئی تاثیر بھی آخر
خوباں عالم اور مرا گلعذار بازو
مرغ قفس کو ہے نہیں گلزار کی خبر
جب دیکھوں ہوں میں اس بت عیار کی تصویر
جب اٹھ چلا وہ گلرو مجھ پر عتاب کر کر
اہل ودل نجائیو اس غروشان پر
کیا کیا نہ دکھ اٹھایا میں بار تیری خاطر
مت اضطراب ایدل زار و نزار کر
کیا آپ سے مجھ پہ میں دل لگا کر
ہے مدعا کچھ اپنا کرے ہی خدا کچھ اور
بس جا چکا یہ دل تو جل بل کباب ہو کر
اغیار سے ملا وہ مست شراب ہو کر
دلا عشق میں خامکاری نکر
عشاق کھیلتے ہیں سدا اپنی جان پر
دل و جان سے ہوں مفون مہ جبیں پر
بتلا تو ہمنشین دل ہو کامیاب کیونکر
لاچار ہو گیا دل زلفوں میں اب اٹک کر
اے دل شعار صبر ہی کر اضطراب چھوڑ
واہم ہی غمزدوں سے تیرے یار چھبر چھار
کیا کہوں اسکی جدائی میں کہاں تک ہوں نزار
دلا شر نہیں ہے دل کہیں تک تمام روز
رہتا ہے آہ و نالہ سے ہی اپنا کام روز
جس تک گیا نہیں ہے نسیم و صبا ہنوز
گزرے ہم آپ سے مایل نہ ہو ایار ہنوز
دکھلاتے نہ بھولے سے ہو دیدار کسی روز
مایل بطرف ظلم جفا کار ہے ہنوز
آیا نہ اسطرف جو گیا نامہ بر ہنوز
ہجراں میں دل رہے ہے سدا بیقرار روز
ہے شعلہ رو عجب ہی جفا جو زباں دراز
جاتا گلی میں اسکی ہوں میں صبح و شام روز
رہتے تھے یار کے ہی سدا ہم تو آس پاس
اوج گہر ہے میری آہ شرر بار ہنوز
ستمگر تک رسائی ہو چکی بس
کچھ قدر عاشقاں نہیں اس دلربا کے پاس
آکے ملنا ہمارا یار اے کاس
ہم عبث کرتے ہیں سدا افسوس
قتل دل عشاق ہے دل دار کی خواہش
ہم کو رہتی ہے جب نہ تب تشویش
کر لیوے ظلم جو ہے اس دلربا کی خواہش
ہوتی نہیں ہے مجھ سے تیری یاد فراموش
مجھ پر کرے ہے کس لئے جورو ستم ہمنشین
لوح خاطر میں میرے ثبت ہے دلدار کا نقش
میں پنت دل سے ہوں تیرا مخلص
کسے ہیں کیا اسے ہے اغیار سے اخلاص
اپنا ہے پنت یارو طرحدار سے اخلاص
کہتا نہیں ہے اس سے میرا نام کوئی شخص
خورشید دیکھ اسکو اپنا چھپاے عارض
ہمکو ہے یار مہرباں سے غرض
عشاق کو ہے کوچۂ دلدار سے اخلاص
ممکن نہیں کہ عشق کا پاوے شفا مریض
کوئی سمجھے ہے کہاں عاشق بیمار کی نبض
زور ہے یارو جمیلوں کے بھی دیدار کو فیض
ہم روبرو ہیں آپ کے تقصیر وار محض
عشق کی رہ میں چشم تر ہے شرط
دل آشفتہ کو تدبیر ہے شرط
غیروں سے آپ کا ہے سدا حسن اختلاط
جاتا ہے میرا برسے دلبر کا خدا حافظ
ہر رات میں کرتا ہوں میں اغیار سے لحاظ
ملتے ہیں عاشقوں سے کرو بیشتر لحاظ
جس روز سے فلک نے کیا بار کو وداع
اے دل نہ سنا مجھ کو ہر بار تو بے موقع
منہ سے اٹھاوے بارے اے گلعذار برقع
دل نے رسوا کیا دریغ دریغ
دیکھ کر وقت سحر اس کا فروغ
گر تمہارا ظلم ہے اسطرح گستاخی معاف
یار کا جب سے ہوا اسطرف آنا موقوف
جب سے خوبوں پہ ہوا یہ دل شیدا مالوف
کیا کرتا ہوں میں ہر دم تاسف
رکھتا ہے بیکلی میں ہمیں یار کا فراق
خواہش ہے دل کی زلف سیہ فام کی طرف
رکھتا ہے وصل کا یہ دل بیقرار شوق
مدت سے تیرے وصل کا ہے یار اشتیاق
آئی بہار ساقی بے رحمیاں کہاں تک
عاشقوں کے لئے بلا ہے عشق
اے یار تیرے عشق میں بیمار ہے عاشق
عشق بتاں میں ہو چکا یہ ناتواں ہلاک
کب ہو رسائی اپنی بھلا اس مکاں تلک
کر عشق بتاں طالب دشوار ہیں ہم لوگ
سوز الم نے ہمکو جلا کر کیا ہے خاک
نومید یو نہیں وصل سے رہیئے کہاں تلک
چہرہ جو بھبوکا ہے تیرا یار آج کل
کیا کہوں عشق میں کیا ہے دل بیمار کا رنگ
عاشق ہیں اسکے مکھڑے پہ سارے جہاں کے لوگ
رہتا ہے درد ہجر سے نت بیقرار دل
کیا کہوں عشق میں کیا کچھ ہے دل زار کا حال
خوش ہو اے عندلیب پھر آئی بہار گل
گلشن میں صبحدم کل تھی یہ صداے بلبل
دل مرا بیقرار ہے ہر حال
چمکا ہے عشق و حسن کا بازار آج کل
رہتا نہیں ہے دم میں کوئی ابتو یار دل
تیرے گیسو میں جس دن سے پھنسا دل
گو عشق تیرے یار ہوے دل فگار ہم
اگر سمجھو ہے شغل عشقبازی محض لاحاصل
دل کہیں انتشار ہے تاحال
سمرن ہے اپنا تیرا ہے اے گلعذار نام
اسطرح گربتوں سے کہیں دل لگاتے تم
کچھ نہیں حال دل مرا معلوم
پی مۓ عشق چھک رہے ہیں ہم
اس گلشن عالم میں بصد ناز بلے ہم
بھلا کب تک رہیں اس سے جدا ہم
رکھتے ہیں دردوغم سے دل چاک چاک ہم
ہجر میں تیرے تو جینے سے بھی بیزار ہین ہم
زلفوں میں تیری جب سے گرفتار ہوے ہم
مدت سے تیرے عشق میں نہیں بیقرار ہم
بیدلوں کو نہیں کچھ راحت و آرام سے کام
اس طرح رکھ نہ یار طلبگار کو ناکام
جال ابتر ہے چشم ہے پرنم
عاشق دل شدہ رہتا ہے سدا ہی ناکام
گھلے جاتے ہیں تیری فرقت سے ہم
تو شاعرہے جوافواہاً سنے ہم
الحد زعشق سے مین جیتے جی کب کرتا ہوں
کوچہ یار کے ہیں ہم بھی دل افگاروں میں
آپ نت کیوں عتاب کرتے ہیں
احوال دل اگر ہے بھی عشق یار میں
ہجر میں دل کو کچھ قرار نہیں
زلفوں میں تیری جب سے گرفتار ہوے ہیں
ایک ہی ہے وہ جفا کار دلازاری میں
عشق بتاں میں دلکو سدا خوں کروں ہوں میں
جدائی نے کیا کچھ دکھا یا ہمیں
تیرے عشق میں کچھ بھلائی نہیں
جس دن سے تیرے طالب دیدار ہوا میں
باغ وبرانہ ہوا وہ سر گلزار کہا
دل جب سے پھنس گیا ہے دو زلفیں یار میں
نہیں ہے مجھ کو یکدم چین ایدل اسکے ہجراں میں
یارو اغیار سدا مجھکو برا کہتے ہیں
تمنا ہے اب سبز صحرا کریں
چارۂ غم اسکے سودا میں الٰہی کیا کروں
گر زندگی یہی ہے سدا انتشار میں
پڑی ہے جب سے وہ میری نظر میں
عشق میں چین بتا ایدل خود کام کہاں
تحریر کروں اس کی اگر عشوہ گری کو
ایکدم دل کو ذرا راحت و آرام نہیں
آجا ادھر کہ دل کہیں تک قرار ہو
جذبۂ دل سے کسی کا تو طلبگار رہو
بزم میں ہم عاشقوں کے بھی کبھو آیا کرو
کیونکر ہو بھلا رام میرا بیوفا کہو
کیا کہئے یارو اس دل پر اضطرار کو
کب تک فراق یار سے یہ اضطرار ہو
تم سبھو نکا یار ہو محبوب ہو
مل گئے یار سے اغیار دیکھئے کیا ہو
عشق میں ہوں تباہ مت پوچھو
ہم پہ کرے ہے نت ستم تازہ بتازہ نوبنو
لطف و کرم سے میری طرف اے نگار دیکھو
جس دن سے لاگ لگ گئی اس خوشنما کے ساتھ
دل کو نت اضطرار سا ہے کچھ
اچھا نہ تھا کہ عشق کریں گلعذار ساتھ
دل جو خوبوں پر لگانا ہے دلا تو کیا سمجھ
کیا کہئے اسکا لطف و کرم اب جو کم ہے کچھ
بہکا پھرے ہے ہر سوکیوں اے دل شکستہ
نہ دیکھو مجھے سر گرانی کے ساتھ
ہوتا چلا دل اپنا ناچار رفتہ رفتہ
بیدلوں پر اے ستمگر کچھ بھی شفقت چاہئے
جدائی میںدل بسکہ مجبور ہے
کیا شکایت ہے بیوفائی کی
یار سے ابکے جاملا چاہئے
کاکل یار میں ہم پھنس کے عجب خوار ہوئے
تیرے سودا میں ہم خراب ہوئے
کہاں تک سدا بیقراری رہے
جدائی میں بس بیقراری رہی
دلا کیوں ملا تھا ستمگار سے
کیا قیامت عشق تیرا یار ہے
ہجر میں تلخ زندگانی ہے
ہم سدا غم سے آہ کرتے تھے
کہاں تک یہ بے اعتنائی رہے
گلشن دنیا سے دل اسدم اٹھایا چاہئے
ظلم وبدعت ہاہے دیکھا اسے اس دلدار سے
سوداے گلعذار کیا جانئے کہ کیا ہے
جب سے بندہ عشق کا بیمار ہے
تیرا پیشہ جو نت یہ جرو جفا ہے
دل میرا صیاد کا نخچیر ہے
نہ پوچھو دل ہمارا ہجراں میں کیا کرے ہے
ظالم تو درد مندوں پہ کب تک جفا کرے
مدت ہوئی کہ وصل نہیں خوشحرام سے
کوئی ایسا ہو جو مجھ کو جفا جو سے ملادیوے
یہ سر یا الیہی وصل و اس ماہ کنعان سے
کیا بلا عشق و آشنائی ہے
برا ہے جہاں کوئی بھلا کیا کرے
عشق بتاں نے یارو ہمکو کھپا دیا ہے
بیدلی اپنی پنت مشہور ہے
ان دنوں زور دل کو سودا ہے
دلا کب تلک آہ وزاری رہے
جلوہ گر جب کہ یار ہوتا ہے
اندنوں یار سے جدائی ہے
پری رخ سے ملنا تو دشوار ہے
رات دن دلکو بیقراری ہے
کہاں تک تیری انتظاری رہے
جب سے کاکل میں تیرے دلکی گرفتاری ہے
میرے سینے میں کیا کیا درد ہجراں سے گرانی ہے
اے جفا پیشہ کیا کیا تونے
جسکی خاطر میں وہ سماتا ہے
بلائے زندگانی ہی جدائی
چھوڑ دنیا کو ہم فقیر ہوئے
رات دن مجھ کو بیقراری ہے
در پہ نت اسکے جو سائی ہے
بے وفا جب سے وہ تہ بیتھا ہے
جو عشاق تھے سب ہو مر مر گئے
جان ہر چند لب پہ آئی ہے
آزردگی ہے کسی مجھ سے عشق ہی کئے
زندگی میں اب جدائی ہو چکی
وہ دلدار سے کب جدائی رہے
دیکھئے کیا وہ اب خطاب کرے
عشق میں ہر طرح ہے خواری
گیا جفاکار سے ہم جاکے دلایار ہوئے
ظالم ہے ستمگر ہے جو ظلم وہ کیا جانے
آرے دل تجھے کیا بتا تو ہوا ہے
یار خوبی میں میرا مشہور ہے
مثل ڈر اسکے سارے دنداں ہے
اگر مجھ پہ کچھ آپ کی چاہ ہے
یاد ایام کیا جوانی تھی
وہ دل لگی نہیں وہ مودت نہیں رہی
ہم بھی کیا کیا نہ جوانی میں کیا کرتے تھے
عشق میں اسکے دل فگار رہے
فدا ہے سردوگل ہی پر پر بلبل دل قمری
سنو مرے پاتک ہماری کھانی
دلدار کے آج آنیکی یاں گرم خبر ہے
عشق کر اس سے تو ہم جیتے سے بیزار ہوئے
دل ستمگر سےبھلا آہ لگایا ہمنے
مجھ پہ دلدار ستم نت ہے وہ کر جاتا ہے
عشق تیرا چنگل شہباز ہے
قاتل نے قتل کرکے مجھے عشوہ ناز سے
ہم آئے تھے در پر صدا کر چلے
دلدار کاس سفر میں ہمسے جدا گیا ہے
سب کے آگے عشق کا بدنام ہے
بازار عشق میں جو خریدار ہم ہوئے
عشق میں اسکے دل کو سودا ہے
فردیات
ہمارا فقط وہ ہی اللہ ہے
خوب تر وقت ہے بہار انکا
دل ہمارا افگار رہتا ہے
ہم جو محفل میں اسکے جاتے ہیں
اے خالق بے بدل و اے رب علا
رباعیات
جلوہ گر جب سے میرے لعبت عیار ہوا
مخمسات
مسدس
آکے اسطرح ترا مجھ سے تو انکار نہ تھا
ترجیع بند در مدح جدامد یعنی مہاراجہ بکشن بہادر
حال جد کا میرے اے اہل زماں
راہ میں تجھ سے ناگہانی ہوئی
قطعات
AUTHORاپورب کشن بہادر کنور
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER نامعلوم تنظیم
AUTHORاپورب کشن بہادر کنور
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER نامعلوم تنظیم
سررق
ہووے کس طرح مجھ سے حمد خدا
نہیں ہے دل کو ذرا ان دنوں سکون و قرار
قدرت کا لقی سے اسنے کیا
جو رمی کا آج کل ہے فتح یاب
اضطراب دل نے مجھکو بیقرار
میل دل میرا ہو احد سے زیاد
تقریر کرے وصف کو خلاق جہاں کا
دل نے مجھ کو کنور خراب کیا
آتش دل کا جو آنکھوں سے شرارا چمکا
بزم میں آکے طرحدار نے دیوانہ کیا
رہتا ہے شوق بسکہ کنور کو شکار کا
دلا اب یہ کیسا ستانے لگا
شکوہ کس طرح کروں کی گرفتاری کا
ای دل دیوانہ تو نے مجھے سر گرداں کیا
شکر حق انجام کار اب ہو گیا
اللہ رے انداز تیری جلوہ گری کا
دلا تو اسکا بھلا کس لئے خیال کیا
یک دن جو اس سے حال میں اپنا بیاں کیا
زلف کے دام سے اب دل کو بچایا نہ گیا
اب گل عشرت نے طرفہ رنگ دکھلانے لگا
شیدا ہیں عشق میں تیرے دل شیخ و شاب کا
نہ ہو سابق وہ گلرو کسلئے قصہ کہانی
مجھ سے ناحق اس ستمگر نے کنارہ کر گیا
دل میں رکھتا تھا نہوں تجھسے کبھو یار خدا
یک شعلہ دلمیں سوز کا جب مشتعل ہوا
لازم نہیں معمول سدا اسپہ ستم کا
دل تو میرا آگے ہی تھا بسکہ بہکایا ہوا
اس شعلہ رو سے دیکھے ہم بھی عتاب کیا کیا
شب کو یاد نگہ یارنے سونے نہ دیا
جس شخص کو اس عشق کا آزار ہو گیا
جوش جنوں کا ہر جا مذکور ہی ہمارا
عشاق کی طرف بھی کبھی یار دیکھنا
میری طرف سے اسکو قاصد سلام پہنچا
گو طور ہی یہی تیرے قول قرار کا
بحر فنا میں ہیں سبھی ظاہر حباب سا
عشق میں اسکے ہوں میں جب سے گرفتار رہا
سوزدروں سے دل میرا مدت جلا گیا
بہت درد و غم میں تحمل کیا
آہ جسدن سے جدا میرا وہ گلفام ہوا
تیری نگاہ سے ہی زخمی جگر ہمارا
کب ستمگار میرے مایل آزار نہ تھا
ہجر میں اس کے جو میں برہم رہا
کہ عشق ہمنے کھویا سب خانما اپنا
غم نے تو نقش ہستی کو میرے مٹا دیا
بیاں کیا میں کروں اسکی جفا کا
خوبرو یوں پہ دل لگا دیکھا
کہ عشق آہ دل نے کیا کیا عذاب پایا
دل کو اکثر ہی پیچتاب رہا
شیدا ہی اسکے عشق میں دل یک جہاں کا
دل بھی گیا ادھر کو وہ دلبر جدھر گیا
غمزہ وناز و ادا کر جب سے وہ کافر گیا
عشق میں جان گئی تن بھی گیا یار اپنا
میں ہوں مقتول چشم جادو کا
اے دل تجھے یہ عشق میں نت خار خار کیا
کھونا ہی جاں کو جو ہی خریدار عشق کا
جس دم وہ میرے آگے سے ہو کر خفا پھرا
مجھے دیکھ جب وہ تبسم کیا
وہ عیار جب سے جھرکنے لگا
اسکی طلب میں میں بھی بہت جابجا پھرا
چہرہ سے جب اٹھاوے ہے پردہ نقاب کا
اسکی فرقت میں دلا روتا ہے کیا
دل نے اب مجھ کو بیقرار کیا
تیرے عشق میں مجھ کو سودا ہوا
ابتو وہ یار میرا ہی مجھ سے ملا ہوا
جب سے کہ میرے پہلو سے دلبر جدا ہوا
کب ستمگار میرا مایل آزار نہ تھا
کیا پوچھتے ہو حال دل بیقرار کا
دل چسپ ہے کیا کوچہ میرے جسم بدن کا
عجب پتھر ہے دل یارو جہاں میں خوش نگاہاں کا
عشق میں اضطرار ہے کتنا
عشق گویا کہ خام سودا تھا
عشق میں میں دین و دل کو کھو دیا
دیں و دل جارہا مسلماں کا
ہجر کیا کیا آفت اب لانے لگا
کہا جوں میں ہنس کر وہ گوہر میرا
فرقت میں دل افگار ہی مظلوم تمہارا
سوداے یار نے مجھے بیمار کر دیا
در پہ تیرے سب جو یہ حیراں گیا
چاہ الم میں دل نے مجھے لے دبو دیا
اس کاکل پر خم میں یوں دل نہ پھنسانا تھا
احوال کیا کہوں دل آفت رسیدہ کا
کنور اب نوپدا میں بھنستا پھرا
دورا کے بہت ہمکو تو حیران کردیا
ملتا نہیں ہی آن کے دلدار ہمارا
یار اپنا کنور ہے جو گل سا
پلا ساقی بوقت نوبہار اب
روے مہوش پہ جب نقاب ہوا
ظلم ہی کرتا ہے مجھ پر وہ ستمگر روز شب
عاشق دل شدہ سے نسبت ہشیاری کب
ای دل تجھے ہر آن غم و آہ نہیں خوب
چمن میں ہے بہار بیشمار اب
ملجا گلے سے آکے بس ای سیمبر شتاب
ساقیا جلہ کر عطاے شراب
عشوہ وناز غضب غمزہ دلدار غضب
تیری خاطر ہوں چشم تر محبوب
ہجراں میں روز و شب ہے پت دلکو اضطراب
کرنے لگا جو چشم نمائی تمام شب
پلا ساقی شراب خوشگوار اب
میرے گھر آتے نہیں ہیں لطف سے یکبار آپ
دیکھتے ہی ہو گیا مجھ کو بت عیار چپ
رات کو غیروں سے ملجاتے ہمیں آپ
جلا جاتا ہے جو نت بیخبر چپ
دل ہو رہا ہے چلکے مثال کباب آپ
اکسیر انبساط ہے دلدار کی ملاپ
نہ پوچھ گزری جو کچھ مجھ پہ بیقراری رات
عیش و عشرت میں کٹٰی یار سے کل راتکی رات
شوق سے دے تو میرے نام پہ دشنام بہت
ہے درد و الم کی ہمیں حالات غنیمت
دلا چل جس طرف چاہے خدا حافظ ہی یا قسمت
معشوق کو ہے عاشق لاچار دسے نفرت
محبت میں تیری اے دلربا مفت
اسطرح قہرو خشم سے مت کر نگار بات
مجبور ہی رہتا ہے طلبگار محبت
ہر چند بہت ہم نے کی دلدار کی منت
گلشن میں جلے کہیں اس خوبرو کی بات
جس دم چلی چمن میں میرے دلربا کی بات
دلدار میرا بسکہ ہے خوشخو شکار دوست
مرے دلدار ہو جاوے ہے ان سمجھے خفا جھت بت
نہیں وہ ملفت مطلق ہوا دل جس سے جا لت پت
بازار عشق میں ہیں جفاکاریاں پنت
یار جب ہم سے گیا شکوۂ اغیار سے چھوت
عاشق دل شدہ سمجھے ہے گلستاں کو عبث
لیتا جو کہیں یار کو میں گوشہ مین جھت پت
پھرتا ہے تو کس لئے بھلا کوبکوعبث
مت کر تو سدا اے دل نالاں الغیاث
نہ پوچھو اضطراب خاطر دلگیر کا باعث
آزردہ روز شب ہے جفا کار کا مزاج
زخم دل تازہ ہوا پھر نگہہ یار سے آج
جز وصل یار عشق کے بیمار کا علاج
عاشق دل شدہ کے حال پہ تو دھیان کر آج
شعبدے ہیں عاشق نالاں سے آج
ہجر میں دل مگر تو ہاں تک سوچ
یکدم وہ جلوہ گر ہو اگر انجمن کے بیچ
معشوق میرا میر کی خاطر کیا کوچ
درد فرقت میں جاچکی تفریح
کہتا ہے لطف میرے دلارام تن کے بیچ
وصل میں ہی دلارفاہ و فلاح
شغل ہے عشق کا فاہ و فلاح
نگہ کے تیر سے جو ہو گیا دلا مجروح
سمجھو مت وعظ کو ہر دم دلا تلخ
سخن جو آج تیرے طرفہ رنگ رنگ ہی شوخ
ہر طرف ہے وہ جلوہ گر کستاخ
دکھوں طلب میں میری فلک کیا دکھاے شوخ
دل کو عشوہ میں لے لیا گستاخ
قطرۂ اشک کو میرے ہے جگر سے پیوند
تیر مژگاں سے ہوا میری نظر میں سوراخ
رکھتا ہی دل الم سے بصد پارہ درد مند
جاوے فراق کا یہ آزار گاہ باشد
فرقت میں تیری دایم اے کج کلاہ تاچند
ہے وصال یار ہمسے روز محشر بامداد
کنج قفس میں بار ہوا اپنا باس و بود
اس طرح جو کرے ہے جور و جفا اے شاہد
جدائی میں تیری ہوں یار ناشاد
عشق میں خانماں ہو ابرباد
لکھوں سوز دروں سے اسکے آگے میں اگر کاغذ
خوبوں میں اے عزیز و مہرو وفا ہے شاذ
بستی کو دل جس سے گیا وہ اجاڑ کر
مرے آجاے گر وہ روبرو شاذ
تلخ گوئی کو تیری کیوں نہ کہوں یار لذیذ
جب سے آئی وبد میں تصویر یار
جاتا رہا وہ آگے سے اٹھ بے قرار کر
دعائے صبحگاہی کی گئی تاثیر بھی آخر
خوباں عالم اور مرا گلعذار بازو
مرغ قفس کو ہے نہیں گلزار کی خبر
جب دیکھوں ہوں میں اس بت عیار کی تصویر
جب اٹھ چلا وہ گلرو مجھ پر عتاب کر کر
اہل ودل نجائیو اس غروشان پر
کیا کیا نہ دکھ اٹھایا میں بار تیری خاطر
مت اضطراب ایدل زار و نزار کر
کیا آپ سے مجھ پہ میں دل لگا کر
ہے مدعا کچھ اپنا کرے ہی خدا کچھ اور
بس جا چکا یہ دل تو جل بل کباب ہو کر
اغیار سے ملا وہ مست شراب ہو کر
دلا عشق میں خامکاری نکر
عشاق کھیلتے ہیں سدا اپنی جان پر
دل و جان سے ہوں مفون مہ جبیں پر
بتلا تو ہمنشین دل ہو کامیاب کیونکر
لاچار ہو گیا دل زلفوں میں اب اٹک کر
اے دل شعار صبر ہی کر اضطراب چھوڑ
واہم ہی غمزدوں سے تیرے یار چھبر چھار
کیا کہوں اسکی جدائی میں کہاں تک ہوں نزار
دلا شر نہیں ہے دل کہیں تک تمام روز
رہتا ہے آہ و نالہ سے ہی اپنا کام روز
جس تک گیا نہیں ہے نسیم و صبا ہنوز
گزرے ہم آپ سے مایل نہ ہو ایار ہنوز
دکھلاتے نہ بھولے سے ہو دیدار کسی روز
مایل بطرف ظلم جفا کار ہے ہنوز
آیا نہ اسطرف جو گیا نامہ بر ہنوز
ہجراں میں دل رہے ہے سدا بیقرار روز
ہے شعلہ رو عجب ہی جفا جو زباں دراز
جاتا گلی میں اسکی ہوں میں صبح و شام روز
رہتے تھے یار کے ہی سدا ہم تو آس پاس
اوج گہر ہے میری آہ شرر بار ہنوز
ستمگر تک رسائی ہو چکی بس
کچھ قدر عاشقاں نہیں اس دلربا کے پاس
آکے ملنا ہمارا یار اے کاس
ہم عبث کرتے ہیں سدا افسوس
قتل دل عشاق ہے دل دار کی خواہش
ہم کو رہتی ہے جب نہ تب تشویش
کر لیوے ظلم جو ہے اس دلربا کی خواہش
ہوتی نہیں ہے مجھ سے تیری یاد فراموش
مجھ پر کرے ہے کس لئے جورو ستم ہمنشین
لوح خاطر میں میرے ثبت ہے دلدار کا نقش
میں پنت دل سے ہوں تیرا مخلص
کسے ہیں کیا اسے ہے اغیار سے اخلاص
اپنا ہے پنت یارو طرحدار سے اخلاص
کہتا نہیں ہے اس سے میرا نام کوئی شخص
خورشید دیکھ اسکو اپنا چھپاے عارض
ہمکو ہے یار مہرباں سے غرض
عشاق کو ہے کوچۂ دلدار سے اخلاص
ممکن نہیں کہ عشق کا پاوے شفا مریض
کوئی سمجھے ہے کہاں عاشق بیمار کی نبض
زور ہے یارو جمیلوں کے بھی دیدار کو فیض
ہم روبرو ہیں آپ کے تقصیر وار محض
عشق کی رہ میں چشم تر ہے شرط
دل آشفتہ کو تدبیر ہے شرط
غیروں سے آپ کا ہے سدا حسن اختلاط
جاتا ہے میرا برسے دلبر کا خدا حافظ
ہر رات میں کرتا ہوں میں اغیار سے لحاظ
ملتے ہیں عاشقوں سے کرو بیشتر لحاظ
جس روز سے فلک نے کیا بار کو وداع
اے دل نہ سنا مجھ کو ہر بار تو بے موقع
منہ سے اٹھاوے بارے اے گلعذار برقع
دل نے رسوا کیا دریغ دریغ
دیکھ کر وقت سحر اس کا فروغ
گر تمہارا ظلم ہے اسطرح گستاخی معاف
یار کا جب سے ہوا اسطرف آنا موقوف
جب سے خوبوں پہ ہوا یہ دل شیدا مالوف
کیا کرتا ہوں میں ہر دم تاسف
رکھتا ہے بیکلی میں ہمیں یار کا فراق
خواہش ہے دل کی زلف سیہ فام کی طرف
رکھتا ہے وصل کا یہ دل بیقرار شوق
مدت سے تیرے وصل کا ہے یار اشتیاق
آئی بہار ساقی بے رحمیاں کہاں تک
عاشقوں کے لئے بلا ہے عشق
اے یار تیرے عشق میں بیمار ہے عاشق
عشق بتاں میں ہو چکا یہ ناتواں ہلاک
کب ہو رسائی اپنی بھلا اس مکاں تلک
کر عشق بتاں طالب دشوار ہیں ہم لوگ
سوز الم نے ہمکو جلا کر کیا ہے خاک
نومید یو نہیں وصل سے رہیئے کہاں تلک
چہرہ جو بھبوکا ہے تیرا یار آج کل
کیا کہوں عشق میں کیا ہے دل بیمار کا رنگ
عاشق ہیں اسکے مکھڑے پہ سارے جہاں کے لوگ
رہتا ہے درد ہجر سے نت بیقرار دل
کیا کہوں عشق میں کیا کچھ ہے دل زار کا حال
خوش ہو اے عندلیب پھر آئی بہار گل
گلشن میں صبحدم کل تھی یہ صداے بلبل
دل مرا بیقرار ہے ہر حال
چمکا ہے عشق و حسن کا بازار آج کل
رہتا نہیں ہے دم میں کوئی ابتو یار دل
تیرے گیسو میں جس دن سے پھنسا دل
گو عشق تیرے یار ہوے دل فگار ہم
اگر سمجھو ہے شغل عشقبازی محض لاحاصل
دل کہیں انتشار ہے تاحال
سمرن ہے اپنا تیرا ہے اے گلعذار نام
اسطرح گربتوں سے کہیں دل لگاتے تم
کچھ نہیں حال دل مرا معلوم
پی مۓ عشق چھک رہے ہیں ہم
اس گلشن عالم میں بصد ناز بلے ہم
بھلا کب تک رہیں اس سے جدا ہم
رکھتے ہیں دردوغم سے دل چاک چاک ہم
ہجر میں تیرے تو جینے سے بھی بیزار ہین ہم
زلفوں میں تیری جب سے گرفتار ہوے ہم
مدت سے تیرے عشق میں نہیں بیقرار ہم
بیدلوں کو نہیں کچھ راحت و آرام سے کام
اس طرح رکھ نہ یار طلبگار کو ناکام
جال ابتر ہے چشم ہے پرنم
عاشق دل شدہ رہتا ہے سدا ہی ناکام
گھلے جاتے ہیں تیری فرقت سے ہم
تو شاعرہے جوافواہاً سنے ہم
الحد زعشق سے مین جیتے جی کب کرتا ہوں
کوچہ یار کے ہیں ہم بھی دل افگاروں میں
آپ نت کیوں عتاب کرتے ہیں
احوال دل اگر ہے بھی عشق یار میں
ہجر میں دل کو کچھ قرار نہیں
زلفوں میں تیری جب سے گرفتار ہوے ہیں
ایک ہی ہے وہ جفا کار دلازاری میں
عشق بتاں میں دلکو سدا خوں کروں ہوں میں
جدائی نے کیا کچھ دکھا یا ہمیں
تیرے عشق میں کچھ بھلائی نہیں
جس دن سے تیرے طالب دیدار ہوا میں
باغ وبرانہ ہوا وہ سر گلزار کہا
دل جب سے پھنس گیا ہے دو زلفیں یار میں
نہیں ہے مجھ کو یکدم چین ایدل اسکے ہجراں میں
یارو اغیار سدا مجھکو برا کہتے ہیں
تمنا ہے اب سبز صحرا کریں
چارۂ غم اسکے سودا میں الٰہی کیا کروں
گر زندگی یہی ہے سدا انتشار میں
پڑی ہے جب سے وہ میری نظر میں
عشق میں چین بتا ایدل خود کام کہاں
تحریر کروں اس کی اگر عشوہ گری کو
ایکدم دل کو ذرا راحت و آرام نہیں
آجا ادھر کہ دل کہیں تک قرار ہو
جذبۂ دل سے کسی کا تو طلبگار رہو
بزم میں ہم عاشقوں کے بھی کبھو آیا کرو
کیونکر ہو بھلا رام میرا بیوفا کہو
کیا کہئے یارو اس دل پر اضطرار کو
کب تک فراق یار سے یہ اضطرار ہو
تم سبھو نکا یار ہو محبوب ہو
مل گئے یار سے اغیار دیکھئے کیا ہو
عشق میں ہوں تباہ مت پوچھو
ہم پہ کرے ہے نت ستم تازہ بتازہ نوبنو
لطف و کرم سے میری طرف اے نگار دیکھو
جس دن سے لاگ لگ گئی اس خوشنما کے ساتھ
دل کو نت اضطرار سا ہے کچھ
اچھا نہ تھا کہ عشق کریں گلعذار ساتھ
دل جو خوبوں پر لگانا ہے دلا تو کیا سمجھ
کیا کہئے اسکا لطف و کرم اب جو کم ہے کچھ
بہکا پھرے ہے ہر سوکیوں اے دل شکستہ
نہ دیکھو مجھے سر گرانی کے ساتھ
ہوتا چلا دل اپنا ناچار رفتہ رفتہ
بیدلوں پر اے ستمگر کچھ بھی شفقت چاہئے
جدائی میںدل بسکہ مجبور ہے
کیا شکایت ہے بیوفائی کی
یار سے ابکے جاملا چاہئے
کاکل یار میں ہم پھنس کے عجب خوار ہوئے
تیرے سودا میں ہم خراب ہوئے
کہاں تک سدا بیقراری رہے
جدائی میں بس بیقراری رہی
دلا کیوں ملا تھا ستمگار سے
کیا قیامت عشق تیرا یار ہے
ہجر میں تلخ زندگانی ہے
ہم سدا غم سے آہ کرتے تھے
کہاں تک یہ بے اعتنائی رہے
گلشن دنیا سے دل اسدم اٹھایا چاہئے
ظلم وبدعت ہاہے دیکھا اسے اس دلدار سے
سوداے گلعذار کیا جانئے کہ کیا ہے
جب سے بندہ عشق کا بیمار ہے
تیرا پیشہ جو نت یہ جرو جفا ہے
دل میرا صیاد کا نخچیر ہے
نہ پوچھو دل ہمارا ہجراں میں کیا کرے ہے
ظالم تو درد مندوں پہ کب تک جفا کرے
مدت ہوئی کہ وصل نہیں خوشحرام سے
کوئی ایسا ہو جو مجھ کو جفا جو سے ملادیوے
یہ سر یا الیہی وصل و اس ماہ کنعان سے
کیا بلا عشق و آشنائی ہے
برا ہے جہاں کوئی بھلا کیا کرے
عشق بتاں نے یارو ہمکو کھپا دیا ہے
بیدلی اپنی پنت مشہور ہے
ان دنوں زور دل کو سودا ہے
دلا کب تلک آہ وزاری رہے
جلوہ گر جب کہ یار ہوتا ہے
اندنوں یار سے جدائی ہے
پری رخ سے ملنا تو دشوار ہے
رات دن دلکو بیقراری ہے
کہاں تک تیری انتظاری رہے
جب سے کاکل میں تیرے دلکی گرفتاری ہے
میرے سینے میں کیا کیا درد ہجراں سے گرانی ہے
اے جفا پیشہ کیا کیا تونے
جسکی خاطر میں وہ سماتا ہے
بلائے زندگانی ہی جدائی
چھوڑ دنیا کو ہم فقیر ہوئے
رات دن مجھ کو بیقراری ہے
در پہ نت اسکے جو سائی ہے
بے وفا جب سے وہ تہ بیتھا ہے
جو عشاق تھے سب ہو مر مر گئے
جان ہر چند لب پہ آئی ہے
آزردگی ہے کسی مجھ سے عشق ہی کئے
زندگی میں اب جدائی ہو چکی
وہ دلدار سے کب جدائی رہے
دیکھئے کیا وہ اب خطاب کرے
عشق میں ہر طرح ہے خواری
گیا جفاکار سے ہم جاکے دلایار ہوئے
ظالم ہے ستمگر ہے جو ظلم وہ کیا جانے
آرے دل تجھے کیا بتا تو ہوا ہے
یار خوبی میں میرا مشہور ہے
مثل ڈر اسکے سارے دنداں ہے
اگر مجھ پہ کچھ آپ کی چاہ ہے
یاد ایام کیا جوانی تھی
وہ دل لگی نہیں وہ مودت نہیں رہی
ہم بھی کیا کیا نہ جوانی میں کیا کرتے تھے
عشق میں اسکے دل فگار رہے
فدا ہے سردوگل ہی پر پر بلبل دل قمری
سنو مرے پاتک ہماری کھانی
دلدار کے آج آنیکی یاں گرم خبر ہے
عشق کر اس سے تو ہم جیتے سے بیزار ہوئے
دل ستمگر سےبھلا آہ لگایا ہمنے
مجھ پہ دلدار ستم نت ہے وہ کر جاتا ہے
عشق تیرا چنگل شہباز ہے
قاتل نے قتل کرکے مجھے عشوہ ناز سے
ہم آئے تھے در پر صدا کر چلے
دلدار کاس سفر میں ہمسے جدا گیا ہے
سب کے آگے عشق کا بدنام ہے
بازار عشق میں جو خریدار ہم ہوئے
عشق میں اسکے دل کو سودا ہے
فردیات
ہمارا فقط وہ ہی اللہ ہے
خوب تر وقت ہے بہار انکا
دل ہمارا افگار رہتا ہے
ہم جو محفل میں اسکے جاتے ہیں
اے خالق بے بدل و اے رب علا
رباعیات
جلوہ گر جب سے میرے لعبت عیار ہوا
مخمسات
مسدس
آکے اسطرح ترا مجھ سے تو انکار نہ تھا
ترجیع بند در مدح جدامد یعنی مہاراجہ بکشن بہادر
حال جد کا میرے اے اہل زماں
راہ میں تجھ سے ناگہانی ہوئی
قطعات
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔