سرورق
ترتیب
تعارف
مقدمہ
لطف تخلص کے دیگر شعراء
لطف کا تغزل
دل کی واشد کے لیے سیر چمن کو جائیں کیا
غزلیں
زیب لوح عرش سچ مصرع ہے بسم اللہ کا
کس کو بہلاتے ہو شیشہ کا گلو ٹوٹ گیا
بزم میں آنا جوں ہی شب اس کا بیبا کاند تھا
خدا ہی جانے رہا یا نہ امتیاز رہا
چمن کو کل جوتری میکش کا دھیان رہا
کون سی شب نہ قلق سے یہاں مرجانا تھا
نہ چاک سینے میں جب تک ہوں لاکھا پیدا
کشور دل تو سدا کا نہیں ویرانہ تھا
نہ زلف کا سر مو ہو ترے بیاں پیدا
ہوں کشتہ حسن بز کے میں رنگ ڈھنگ کا
کون سا خلطانہ تم کو ایک عالم سے رہا
ایک دن حال دل زار نہ دیکھا نہ سنا
لاکھا ہے گل صبا سے کھلا اب کے باغ کا
سر شک آتا تھا ہمدم کل تلک تو آہ رنگیں سا
تصوّر میں اس انداز آفریں کے دل جو بھر آیا
بہنے سے ایک پل بھی نہیں اشک رہ گیا
کل سے اے مہ ہوں تجھے وابستہ غم دیکھتا
جس کے لیے جہاں سے میں یکسر بگڑ گیا
ہم سے ہے اگر وہ مہ تاباں چھپے گا
گماں اپنا صواب اندیش و سرتا پا خطا نکلا
ہے اس شدت سے رنینگتی کوئے یار کا چرچا
اڑا کیوں رنگ چہرے کا یہ فرمائیے صاحب
ازبس نہ ہوا ہم سے سر انجام محبت
جس سے میں گر سنہ وصل اپنا سمجھوں تھا
اے اہل محبت کوئی بھولے سے بھی ہر گز
ادبیو قا اڑائی یہ کس سے جفا کی طرح
یہ ہے ستم کی طرز اگر اور جفا کی طرح
خجل ہم کو ہوا صیاد کر بند
مطلق نہیں ہے تجھ کو خیال وفائے دل
ہر اک کہے ہے مجھ سے کہو ماجرائے دل
لے ہم سے اک نگاہ پہ گروہ نگار دل
سنا ہے دشمن جاں دوستو کسی کا دل
کیونکر نہ بھلا ہمدم ہو زندگی اب مشکل
شمع نازاں ہے فقط سر سے بھڑک جانے میں آگ
کہتے ہیں ختم لعل پہ یہ سنگ رنگ ڈھنگ
ہیں بگڑتے ان دنوں اغیار ہم سے ہر طرف
بے نیازوں سے کرے جم جو طلب جام کے دام
تیرے آگے یار نو یار کہن دونوں ہیں ایک
یہ زلف ہے یا قہر کی شب کچھ نہیں معلوم
اس عشق کی دولت نہ فقط جاں سے گیے ہم
یاروں نے یہ تو (کہیے) کیا کیا سمجھا ئیاں ہیں
آپ تو بات میں بگڑتے ہیں
دی دل خستہ نے اس زلف گرہ گیر میں جان
تم ہو بزم عیش ہے واں اور صحبت داریاں
غم کے خوض جلے وہ گریباں وآستیں
نہیں یہ شیشہ مت اے محتسب مچادھویں
دل تک ہاتھ بھی لانے کی یاں طاقت اب ہیہات نہیں
دل لگانے کو جو جاتے جانب گلزار ہو
دیکھ کر سرد کو کل یاد جو آئی مجھ کو
غبار بیکسی سے کیا ضرر پاکیزہ جوہر کو
نہ کر اے بلبل دل سوختہ صیاّد کا شکوہ
نہیں معلوم کیا اس سینۂ سوزاں میں پنہاں ہے
وہ بھلے جن کی محبت میں سدا بنتی ہے
کمر امل وقا کی قتل پر جو دلربا باندھے
یوں ابر ہوا ہر خس وخاشاک سے باندھے
گھر آئے گر میرے تو کچھ دور نہیں ہے
خاکساری کا جو مزا سمجھے
جس دن سے ہم جنوں کے ہیں داماں لگے ہوئے
خورشید کی بھی آنکھ فلک پر جھپک گئی
سب کنارہ گیر اپنے اور بیگانے ہوئے
وہ صفائی کبھی جو ہم سے ملاقات میں تھی
پھر ہوا کس مثرہ کو ربط اس دل پاش پاش سے
روشن ضمیر کیونکہ نہ ہوں دل کے داغ سے
خوبی کا تیری بسکہ اک عالم گواہ ہے
نہ اتنا کیجئے طلب گار کون آپ کا ہے
روزے اے جان جہاں آنے کو فرماتے رہے
دیکھنا جن صورتوں کا شکل تھی آرام کی
کیوں دل پہ میرے جادو ان آنکھوں کا نہ ٹھن جاوے
نہیں اہل زمیں ہی تنگ میرے نالۂ شب سے
چھڑا یا ہند ہم سے تر دماغوں کے نہو روں نے
کیا سبب بتلائیں ہنستے ہنستے باہم رک گئے
کیوں مجھے اس دل بیکس کا نہ شیون مارے
ادھر سے جتنی یکانگت کی ادھر سے اتنیہوئی جدائی
سینکڑوں گل ہوئے خوش رنگ چمن میں کھل کے
قصائد در مدح میر عالم
جہاں وابستہ احساں ہے کس انصاف پرور کا
در مدح ارسطو جاہ
قصیدہ در مدح
در تہنیت کیواں جاہ بہادر
در مدح ارسطو جاہ
رباعیاں
متفرق اشعار
فرہنگ
مزا علی لطفؔ حیات اور کارنامے کے بارے می ںچند مشاہیر کے ثاثرات
سرورق
ترتیب
تعارف
مقدمہ
لطف تخلص کے دیگر شعراء
لطف کا تغزل
دل کی واشد کے لیے سیر چمن کو جائیں کیا
غزلیں
زیب لوح عرش سچ مصرع ہے بسم اللہ کا
کس کو بہلاتے ہو شیشہ کا گلو ٹوٹ گیا
بزم میں آنا جوں ہی شب اس کا بیبا کاند تھا
خدا ہی جانے رہا یا نہ امتیاز رہا
چمن کو کل جوتری میکش کا دھیان رہا
کون سی شب نہ قلق سے یہاں مرجانا تھا
نہ چاک سینے میں جب تک ہوں لاکھا پیدا
کشور دل تو سدا کا نہیں ویرانہ تھا
نہ زلف کا سر مو ہو ترے بیاں پیدا
ہوں کشتہ حسن بز کے میں رنگ ڈھنگ کا
کون سا خلطانہ تم کو ایک عالم سے رہا
ایک دن حال دل زار نہ دیکھا نہ سنا
لاکھا ہے گل صبا سے کھلا اب کے باغ کا
سر شک آتا تھا ہمدم کل تلک تو آہ رنگیں سا
تصوّر میں اس انداز آفریں کے دل جو بھر آیا
بہنے سے ایک پل بھی نہیں اشک رہ گیا
کل سے اے مہ ہوں تجھے وابستہ غم دیکھتا
جس کے لیے جہاں سے میں یکسر بگڑ گیا
ہم سے ہے اگر وہ مہ تاباں چھپے گا
گماں اپنا صواب اندیش و سرتا پا خطا نکلا
ہے اس شدت سے رنینگتی کوئے یار کا چرچا
اڑا کیوں رنگ چہرے کا یہ فرمائیے صاحب
ازبس نہ ہوا ہم سے سر انجام محبت
جس سے میں گر سنہ وصل اپنا سمجھوں تھا
اے اہل محبت کوئی بھولے سے بھی ہر گز
ادبیو قا اڑائی یہ کس سے جفا کی طرح
یہ ہے ستم کی طرز اگر اور جفا کی طرح
خجل ہم کو ہوا صیاد کر بند
مطلق نہیں ہے تجھ کو خیال وفائے دل
ہر اک کہے ہے مجھ سے کہو ماجرائے دل
لے ہم سے اک نگاہ پہ گروہ نگار دل
سنا ہے دشمن جاں دوستو کسی کا دل
کیونکر نہ بھلا ہمدم ہو زندگی اب مشکل
شمع نازاں ہے فقط سر سے بھڑک جانے میں آگ
کہتے ہیں ختم لعل پہ یہ سنگ رنگ ڈھنگ
ہیں بگڑتے ان دنوں اغیار ہم سے ہر طرف
بے نیازوں سے کرے جم جو طلب جام کے دام
تیرے آگے یار نو یار کہن دونوں ہیں ایک
یہ زلف ہے یا قہر کی شب کچھ نہیں معلوم
اس عشق کی دولت نہ فقط جاں سے گیے ہم
یاروں نے یہ تو (کہیے) کیا کیا سمجھا ئیاں ہیں
آپ تو بات میں بگڑتے ہیں
دی دل خستہ نے اس زلف گرہ گیر میں جان
تم ہو بزم عیش ہے واں اور صحبت داریاں
غم کے خوض جلے وہ گریباں وآستیں
نہیں یہ شیشہ مت اے محتسب مچادھویں
دل تک ہاتھ بھی لانے کی یاں طاقت اب ہیہات نہیں
دل لگانے کو جو جاتے جانب گلزار ہو
دیکھ کر سرد کو کل یاد جو آئی مجھ کو
غبار بیکسی سے کیا ضرر پاکیزہ جوہر کو
نہ کر اے بلبل دل سوختہ صیاّد کا شکوہ
نہیں معلوم کیا اس سینۂ سوزاں میں پنہاں ہے
وہ بھلے جن کی محبت میں سدا بنتی ہے
کمر امل وقا کی قتل پر جو دلربا باندھے
یوں ابر ہوا ہر خس وخاشاک سے باندھے
گھر آئے گر میرے تو کچھ دور نہیں ہے
خاکساری کا جو مزا سمجھے
جس دن سے ہم جنوں کے ہیں داماں لگے ہوئے
خورشید کی بھی آنکھ فلک پر جھپک گئی
سب کنارہ گیر اپنے اور بیگانے ہوئے
وہ صفائی کبھی جو ہم سے ملاقات میں تھی
پھر ہوا کس مثرہ کو ربط اس دل پاش پاش سے
روشن ضمیر کیونکہ نہ ہوں دل کے داغ سے
خوبی کا تیری بسکہ اک عالم گواہ ہے
نہ اتنا کیجئے طلب گار کون آپ کا ہے
روزے اے جان جہاں آنے کو فرماتے رہے
دیکھنا جن صورتوں کا شکل تھی آرام کی
کیوں دل پہ میرے جادو ان آنکھوں کا نہ ٹھن جاوے
نہیں اہل زمیں ہی تنگ میرے نالۂ شب سے
چھڑا یا ہند ہم سے تر دماغوں کے نہو روں نے
کیا سبب بتلائیں ہنستے ہنستے باہم رک گئے
کیوں مجھے اس دل بیکس کا نہ شیون مارے
ادھر سے جتنی یکانگت کی ادھر سے اتنیہوئی جدائی
سینکڑوں گل ہوئے خوش رنگ چمن میں کھل کے
قصائد در مدح میر عالم
جہاں وابستہ احساں ہے کس انصاف پرور کا
در مدح ارسطو جاہ
قصیدہ در مدح
در تہنیت کیواں جاہ بہادر
در مدح ارسطو جاہ
رباعیاں
متفرق اشعار
فرہنگ
مزا علی لطفؔ حیات اور کارنامے کے بارے می ںچند مشاہیر کے ثاثرات
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔