سرورق
رقم ہم سے جب نام حق ہو گیا
زعم ہی زعم تھا مجھے سر کا
عشق ابرو کا کھا کے دل چرکا
میرے سرکی جو ہو شمار بلا
بوسۂ لب میرے نہیں کام کا
زلفیں نہ شب وصال سرکا
گو انہیں روز ستم یاد آیا
کب اثر اپنی آہ کا نہ ہوا
ہمکناری کا ڈھب نہیں بنتا
کیا عشق میں تھا جو کر دیکھنا
تجھے دیکھ کر گل مہک ہی پڑا
نالہ سر آسمان سے مار آیا
ہم نے تو لا جو رنگ کو زر تھا
شب غم ہولناک یہ گھر تھا
کچھ اشکوں نے ایسا تلاطم کیا
قہر ہے تو نے یہ قلق کیا کیا
لخت دل اشک خون بہا لایا
دل کہ ہے شوق راہ بر اسکا
صرف برج قمر نہ گھر اسکا
آبلہ دل کا آخر آیا کام
غم دلدار یار ہے میرا
گرم ناز وعتاب پھر آنا
نہ ضد ہے نہ دشمن ہوا ہے کسی کا
اسکے عارض سا جو ہوتا آفتاب
قد میں ہیں سرو کے برابر آپ
ردیف تاے
واہ کیا ترے ناتواں کی بات
رقیبوں کے ذرا دس بیس سر کاٹ
مغز اے ناصح مرا کھانا عبث
ردیف ثاے
ردیف جیم
بہت رنگیں ہے اے اشک تو آج
دہن ہیچ انکا اور انکی کمر ہیچ
ردیف حاء حطی
پھاگن آیا چلی ہواے قدح
ہیں کسی کے اس قدر رخسار سرخ
ردیف خاء
ردیف دال
دے کسی کو خدا نہ دلکا درد
وہ کرتے ہیں جو روجفا پر گھمنڈ
نہ شربت نہ صہباے احمر لذیذ
ردیف الذال
ردیف الراء
شب مرے اک خروش یاہو پر
ترے دیوانے ہیں کیا شورو شر پر
آفریں میر سے جسم لاغر پر
ہمدم تو مرا دماغ تر کر
اب لے گئے یا نظر نظر کر
دی مجھے ٹھوکر جو پڑا دیکھ کر
سینہ حاضر ہے مرا سو بار توڑ
ردیف زاء ہوز
سرد میں یہ ادا نہ ایسا ناز
بس اک داغ ہے ماہ کامل کے پاس
ردیف سین
ردیف شین
ہمیں داغ غیروں کو گلہاے عیش
وصل کی شب سو ہے تو خواب خوش
بدن بھی تونے وہ پایا کہ جان خاص
ردیف صاد
مجھے شور بخشا ہے سر کے عوض
ردیف ضاد
موسم گل اور دامن کا لحاظ
ردیف ظاء
انکے رخ پر کھلا نکل کر خط
ردیف طاء
ردیف عین
گو پتنگوں کو ہے تماشا شمع
دلکی حالت پر اب جگر ہی داغ
ردیف غین
ہے ترا جسم اے پری رو صاف
ردیف الفاء
پج رہی ہے صنم کی کالی زلف
حسن اگر چاند ہے تو بالا عشق
ردیف قاف
ردیف کاف
پھول سے گال آپکا نازک
نہیں اب میری تربت کا نشاں تک
صرف اشارے کا ہے خنجر ہاتھ میں
ردیف النون
جنکے اعمال نیک ہوتے ہیں
بسکہ ہے رونق بہار شکن
پڑا عکس روے نگار آئینے میں
باغ وہ بے نقاب اگر جائیں
نازنیں تو ہے وہاں پان نہیں
وہ کیا خاک دلکی لگی جانتے ہیں
نہیں گر وفا تو جفا جانتے ہیں
سچ ہے گیسو ہلے ہی جاتے ہیں
جو نالوں کو وہ بے اثر جانتے ہیں
سوز غم سے جلے ہی جاتے ہیں
نہیں لخت دل چشم پر آب میں
تجھ کو دل کی جلن تو تھی ہی نہیں
گل جو رنگ اے نگار لائے ہیں
جب بغل میں وہ رشک ماہ نہیں
آہ تو دل سے چلی کس دھیان میں
سنکے اس کی زبان کی باتیں
ضبط کرنا دل حزیں نہ کہیں
تم نہ خنجر بہر قتل عام لو
ردیف واو
اور ہی لب ہیں مسکرانے کو
تم نے مارا قضا کا نام نہ لو
زلف میں منہ چھپا کے چلتے ہو
دل کو سمجھتا مکان آرزو
ردیف ہائے ہوز
اسکی قسمت میں ہے کسی کا ہاتھ
منہ اندھیرے ہی ہم نے دھو یا منہ
انکا منہ اور غنچے تیرا منہ
وہ نشیلے کرشمے والی آنکھ
وہ ہر چند میری عداوت میں ہے
ردیف الیاء
خلش امتلا نہیں ہوتی
اک نیم نگاہ بھی بہت ہے
غمزہ ہے او ر تیغ باری ہے
آج زلفوں کو وہ کترتا ہے
کبھی ہر گز نہ تھی طاقت زبان کی
کبھی فق بھی رنگت اگر ہو گئی
کشش دل کی شب کار گر ہو گئی
دل مضطرب کچھ ہنر جانتا ہے
کبھی ہاتھ دل پر بھی دہر جانتا ہے
لگاوٹ اسی کی بس ایجاد ہے
ہے یہی آن دلربائی کی
آگ وہ میرے دل کی داغ میں ہے
قطعات تاریخ طبع دیوان
میرے بھائی حضرت مقبول احمد محو ہیں
از نتائج افکار منشی حافظ سلطان احمد صاحب
ہوا طبع دیوان مقبول احمد
از نتائج افکار منشی یوسف حسن صاحب
از نتائج افکار چودھری محمد اعظم علی صاحب
از نتائج افکار یاد گار عرفی عبد العلی خان
از نتائج افکار یاد گار ذوق منشی اودھ بہار ی لال صاحب شوق
از نتائج افکار منشی نوروز علی صاحب
ریختہ قلم جادو رقم محمد ابراہیم خان صاحب
اللہ ری شان حضرت محو
از نتائج افکار شاعر نازک خیال مولوی احمد حسن صاحب
حضرت محو کا دیوان چھپا
دیوان جناب محو چھپ کر
دیکھ کر دیوان لاثانی جناب محو کا
دیوان جناب محو گل کرو
کس جوش میں دیوان لکھا ہے اے محو
از نتائج افکار منشی مرزا علی خان صاحب
از نتائج افکار یاد گار حضرت قدر مرحوم مولوی غلام حیدر صاحب
از نتائج افکار سید واجد علی خلف سید دوست علی بلگرامی
از نتائج افکار منشی مراد علی صاحب
از نتائج افکار مرزا آغا علی بیگ صاحب
سرورق
رقم ہم سے جب نام حق ہو گیا
زعم ہی زعم تھا مجھے سر کا
عشق ابرو کا کھا کے دل چرکا
میرے سرکی جو ہو شمار بلا
بوسۂ لب میرے نہیں کام کا
زلفیں نہ شب وصال سرکا
گو انہیں روز ستم یاد آیا
کب اثر اپنی آہ کا نہ ہوا
ہمکناری کا ڈھب نہیں بنتا
کیا عشق میں تھا جو کر دیکھنا
تجھے دیکھ کر گل مہک ہی پڑا
نالہ سر آسمان سے مار آیا
ہم نے تو لا جو رنگ کو زر تھا
شب غم ہولناک یہ گھر تھا
کچھ اشکوں نے ایسا تلاطم کیا
قہر ہے تو نے یہ قلق کیا کیا
لخت دل اشک خون بہا لایا
دل کہ ہے شوق راہ بر اسکا
صرف برج قمر نہ گھر اسکا
آبلہ دل کا آخر آیا کام
غم دلدار یار ہے میرا
گرم ناز وعتاب پھر آنا
نہ ضد ہے نہ دشمن ہوا ہے کسی کا
اسکے عارض سا جو ہوتا آفتاب
قد میں ہیں سرو کے برابر آپ
ردیف تاے
واہ کیا ترے ناتواں کی بات
رقیبوں کے ذرا دس بیس سر کاٹ
مغز اے ناصح مرا کھانا عبث
ردیف ثاے
ردیف جیم
بہت رنگیں ہے اے اشک تو آج
دہن ہیچ انکا اور انکی کمر ہیچ
ردیف حاء حطی
پھاگن آیا چلی ہواے قدح
ہیں کسی کے اس قدر رخسار سرخ
ردیف خاء
ردیف دال
دے کسی کو خدا نہ دلکا درد
وہ کرتے ہیں جو روجفا پر گھمنڈ
نہ شربت نہ صہباے احمر لذیذ
ردیف الذال
ردیف الراء
شب مرے اک خروش یاہو پر
ترے دیوانے ہیں کیا شورو شر پر
آفریں میر سے جسم لاغر پر
ہمدم تو مرا دماغ تر کر
اب لے گئے یا نظر نظر کر
دی مجھے ٹھوکر جو پڑا دیکھ کر
سینہ حاضر ہے مرا سو بار توڑ
ردیف زاء ہوز
سرد میں یہ ادا نہ ایسا ناز
بس اک داغ ہے ماہ کامل کے پاس
ردیف سین
ردیف شین
ہمیں داغ غیروں کو گلہاے عیش
وصل کی شب سو ہے تو خواب خوش
بدن بھی تونے وہ پایا کہ جان خاص
ردیف صاد
مجھے شور بخشا ہے سر کے عوض
ردیف ضاد
موسم گل اور دامن کا لحاظ
ردیف ظاء
انکے رخ پر کھلا نکل کر خط
ردیف طاء
ردیف عین
گو پتنگوں کو ہے تماشا شمع
دلکی حالت پر اب جگر ہی داغ
ردیف غین
ہے ترا جسم اے پری رو صاف
ردیف الفاء
پج رہی ہے صنم کی کالی زلف
حسن اگر چاند ہے تو بالا عشق
ردیف قاف
ردیف کاف
پھول سے گال آپکا نازک
نہیں اب میری تربت کا نشاں تک
صرف اشارے کا ہے خنجر ہاتھ میں
ردیف النون
جنکے اعمال نیک ہوتے ہیں
بسکہ ہے رونق بہار شکن
پڑا عکس روے نگار آئینے میں
باغ وہ بے نقاب اگر جائیں
نازنیں تو ہے وہاں پان نہیں
وہ کیا خاک دلکی لگی جانتے ہیں
نہیں گر وفا تو جفا جانتے ہیں
سچ ہے گیسو ہلے ہی جاتے ہیں
جو نالوں کو وہ بے اثر جانتے ہیں
سوز غم سے جلے ہی جاتے ہیں
نہیں لخت دل چشم پر آب میں
تجھ کو دل کی جلن تو تھی ہی نہیں
گل جو رنگ اے نگار لائے ہیں
جب بغل میں وہ رشک ماہ نہیں
آہ تو دل سے چلی کس دھیان میں
سنکے اس کی زبان کی باتیں
ضبط کرنا دل حزیں نہ کہیں
تم نہ خنجر بہر قتل عام لو
ردیف واو
اور ہی لب ہیں مسکرانے کو
تم نے مارا قضا کا نام نہ لو
زلف میں منہ چھپا کے چلتے ہو
دل کو سمجھتا مکان آرزو
ردیف ہائے ہوز
اسکی قسمت میں ہے کسی کا ہاتھ
منہ اندھیرے ہی ہم نے دھو یا منہ
انکا منہ اور غنچے تیرا منہ
وہ نشیلے کرشمے والی آنکھ
وہ ہر چند میری عداوت میں ہے
ردیف الیاء
خلش امتلا نہیں ہوتی
اک نیم نگاہ بھی بہت ہے
غمزہ ہے او ر تیغ باری ہے
آج زلفوں کو وہ کترتا ہے
کبھی ہر گز نہ تھی طاقت زبان کی
کبھی فق بھی رنگت اگر ہو گئی
کشش دل کی شب کار گر ہو گئی
دل مضطرب کچھ ہنر جانتا ہے
کبھی ہاتھ دل پر بھی دہر جانتا ہے
لگاوٹ اسی کی بس ایجاد ہے
ہے یہی آن دلربائی کی
آگ وہ میرے دل کی داغ میں ہے
قطعات تاریخ طبع دیوان
میرے بھائی حضرت مقبول احمد محو ہیں
از نتائج افکار منشی حافظ سلطان احمد صاحب
ہوا طبع دیوان مقبول احمد
از نتائج افکار منشی یوسف حسن صاحب
از نتائج افکار چودھری محمد اعظم علی صاحب
از نتائج افکار یاد گار عرفی عبد العلی خان
از نتائج افکار یاد گار ذوق منشی اودھ بہار ی لال صاحب شوق
از نتائج افکار منشی نوروز علی صاحب
ریختہ قلم جادو رقم محمد ابراہیم خان صاحب
اللہ ری شان حضرت محو
از نتائج افکار شاعر نازک خیال مولوی احمد حسن صاحب
حضرت محو کا دیوان چھپا
دیوان جناب محو چھپ کر
دیکھ کر دیوان لاثانی جناب محو کا
دیوان جناب محو گل کرو
کس جوش میں دیوان لکھا ہے اے محو
از نتائج افکار منشی مرزا علی خان صاحب
از نتائج افکار یاد گار حضرت قدر مرحوم مولوی غلام حیدر صاحب
از نتائج افکار سید واجد علی خلف سید دوست علی بلگرامی
از نتائج افکار منشی مراد علی صاحب
از نتائج افکار مرزا آغا علی بیگ صاحب
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔