سرورق
فہرست
مقدمہ
سبب تالیف
در نعت سید المرسلین رحمۃ للعالمین حضرت محمد ﷺ
مثنوی در مناقب شاہزادۂ کونین ۔۔۔۔حضرت ابی عبداللہ الحسین صلواۃ اللہ علیہ
قصیدہ در مناقب امام العصر والزمان خلیفۃ الرحمٰن حضرت امام مہدی علیہ السلام
درمناقب حضرت موصوف الذکر
در مناقب ممدوح الصدر
در مناقب حضرت ممدوح الصدر
قصیدہ در مدح حضور مہاراجہ شیودان سنگھ صاحب بہادر والی ریاست الور
ایضاً در مدح مہاراجہ ممدوح الصدر
قصیدہ در مدح گردوں فر ہلا ل رکاب جناب نواب محمد حامد علی خاں صاحب
ردیف الف
فاتح کار جہاں نام ہے یزداں تیرا
ثنا وحمد ایزد ہو رقم کیا
اللہ رے نور روئے تجلی نقاب کا
ہم سر جہاں میں کب ہے رسول کریم کا
وصف کیا ہو بیاں محمد کا
ہے فلک آستاں محمد کا
یاں کیوں نہ سائبان ہو نور الہ کا
لیا جب نام ہم نام خدا کا
یہ دل شائق ہے اس کے روئے روشن کی زیارت کا
کوئی آسماں کیا سوا ہو گیا
وہ مرے پاس گر آئے بھی تو پھر کیا ہوگا؟
نہ وہ نالوں کی شورش ہے نہ غل ہے آہ وزاری کا
موسی نہ غش میں آئیو اک بار دیکھنا
بے عدو وعدہ قتل کا نہ ہوا
آنا ترا یہاں نہ مروت سے دور تھا
بہتر یہ ہے کہ اس کا نہ انداز دیکھنا
غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا
ہجر میں طرفہ ماجرا دیکھا
گو ہر اک حال ہے واں ہم سے چھپایا جاتا
عدو پر ہے یہ لطف دمبدم کیا ؟
کل نشے میں تھا وہ بت مسجد میں گر آجاتا
تصور رخ جاناں میں شب یہ حال ہوا
چھپانا ان سے دل کو فائدہ کیا؟
ردیف ب
اس سے نبھنے کے کچھ نہیں اسباب
مانگیں نہ ہم بہشت نہ ہوواں اگر شراب
حرف رخصت لب شیریں پہ نہ لانا صاحب
لڑ کے اغیار سے جدا ہیں آپ
ردیف پ
محمد عطر ریحان رسالت
ردیف ت
تن بے جاں ہوئی تھی بعد عیسیٰ
ابھی موجود ہے دار محبت
ایذا ہی درد ہجر سے پائی تمام رات
غیر سے ملیے نہ صاحب سحر وشام بہت
اپنی ہستی ہے خواب کی صورت
منہ پہ رکھنے لگے نقاب بہت
ہے یہ جان نزار کی صورت
نہیں اچھی الگ جانے کی عادت
دل کو میرے اڑا لیا جھٹ پٹ
ردیف ٹ
ردیف ث
فکر تعمیر سقف وخانہ عبث
ردیف ج
شب مہ روشنی فشاں ہے آج
جوش پر ابر نوبہار ہے آج
ردیف چ
بس ہے اک چشم غضب قتل کو تلوار نہ کھینچ
خوب دیکھی ہے اس جہاں کی طرح
ردیف ح
ردیف خ
گو آپ کے بھی ہاتھ کا ہے رنگ حنا سرخ
ردیف د
شب معراج میں تشریف جو لائے احمد
نہ لیں شاہی غلامان محمد
ہے اب تو سامنے آنکھوں کے ہر زماں صیاد
دل نے کس طرح سے کرے فریاد
بے دیے بوسہ نہیں آپ کا دشنام لذیذ
ردیف ذ
صلواۃ اس سرور والا گہر پر
ردیف ر
ان کے پڑتے ہیں مجھ پہ بے تقصیر
توجہ کیا ہو مجھ گوشہ نشیں پر
اس کے ہیں جھانکنے کے یہ آثار
دشمن جاں ہوئے ہیں وہ مری جاں ہو کر
دل بے صبر میں ہے غم کا گزار
ردیف ڑ
ایک سے ربط ایک سے ہے بگاڑ
حرف تم ا پنی نزاکت پہ نہ لانا ہرگز
ردیف ز
کون پردے میں ہے یہ زمزمہ ساز
ردیف س
یوں ہی گزرا بہار کایہ برس
کس کی بو تھی نسیم کی ہم دوش
ردیف ش
ردیف ص
اس کا غیروں سے اب بڑھا اخلاص
جو کہ میخانہ میں آئے کچھ نہ کچھ وہ پائے فیض
ردیف ض
لخت دل کو ہے مرے چشم گہر بار سے ربط
ردیف ط
اس سے مل کر کبھی نہ پایا حظ
ردیف ظ
اس شعلہ رو کے سامنے کس طرح جائے شمع؟
ردیف ع
سچ ہے دل کش تو ہے تفرح باغ
ردیف غ
ردیف ف
نہ تو مے میں ہے نہ وہ ساغر سرشار میں لطف
ردیف ق
شیخ تم جانتے ہو کیا ہے عشق؟
ردیف ک
گلہ کیوں غیر کا آیا زباں تک؟
ہم کو وحشت نے کر دیا بے باک
پہنچ کیوں کر ہو اپنی اس کے گھر تک
ردیف ل
نہیں راز ہستی جتانے کے قابل
ذرا بہلائے آکر یہاں دل
مدت ہوئی کہنے میں اب اپنے ہے کہاں دل
ردیف م
یا علی نائب خدا ہو تم
اثر آہ کا گر دکھائیں گے ہم
میرے دل میں تو ہر زماں ہو تم
لوگ حضرت کو رسول دوسرا کہتے ہیں
ردیف نون
بیٹھو ادب سے ہرزہ سرا ہو یہاں نہیں
اسیر رنج میں یا شاہ ذوالفقار ہوں میں
نہ وہ برق میں ہے نہ سیماب میں
ہے ہم شبیہ شکل مگر دیدہ ور کہاں
آہ دل سوز نہیں نالہ شرر بار نہیں
بیکار اس نگاہ کا گر نیشتر نہیں
خیال روئے آتش ناک ہے اس دیدۂ تر میں
یہ بے چینیاں سر اٹھائے ہوئے ہیں
کیا کہوں آفتیں جو چاہ میں ہیں
کیا زلیخا ہو خوش گلستاں میں
سدا عروج پہ مانند حسن یار ہوں میں
ہم تو جلتے ہیں خبر تک بھی ذرا واں تو نہیں
جس سے دن عیش میں گزریں وہ سر انجام نہیں
ہر رنگ میں بخشش ہی کی پاتا ہوں ادا میں
خانماں سوز ماسوا ہوں میں
جوش وحشت میں مزا کچھ سروساماں میں نہیں
گریباں چاک ہے گل بوستاں میں
میری بدخوئی کے بہانے ہیں
کب وہ شوخی سے باز آتے ہیں
بس کہ اک جنس رائیگاں ہوں میں
میں آہ ہوں تو خون جگر میں طپیدہ ہوں
دل کی بے چینیاں گئیں نہ کہیں
آج نکلا جو آفتاب نہیں
وہ گالیوں کی چھیڑ وہ طرار پن کہاں؟
شغل الفت کو جو احباب برا کہتے ہیں
ہم جو برسوں میں کبھی آتے ہیں
نہیں غیر کو ہیں سنانے کی باتیں
کیا غصے میں آتا ہے جو کرتا ہوں گلا میں
ہے ازبسکہ بیگانگی یار میں
کب شعلہ خیز نالۂ آتش فشاں نہیں؟
نقص نکلیں گے ماہ کامل میں
لے کے دل اور تم کو کام نہیں
غضب ہیں قہر میں جور وجفا میں
دل سوزاں میں کیا آئے ہوئے ہیں
دل میں قوت جگر میں تاب کہاں
جانا زبس ضرور تھا اس جلوہ گاہ میں
یہ جو چپکے سے آئے بیٹھے ہیں
جگر برشتہ نہیں آہ شعلہ تاب نہیں
اس سے رہتی جو چار آنکھیں ہیں
مگر کام میرا ادا دیکھتے ہیں
ان کی باتوں پہ نہ جاؤ کہ یہ کیا جانتے ہیں
غبار خاطر دل دار ہوں میں
خرابی خواہ وہ ہیں شاد ہوں میں
دکھ دیے جاؤ یاں گریز نہیں
کھٹکا رہا سحر کا شب وصل یار میں
ردیف و
جبہ سائی در عرش معلیٰ دیکھو
نوید امن ہے اہل جہاں کو
کس سے تسکین دل ناشاد ہو
اگر ہے بر سر مہر آسماں ہو
سانس بھی لیں نہ جس کا یہ ڈر ہو
دل درد آشنا دیا ہم کو
کام واں کیا حصول اپنا ہو
اس کے جو جو کہ فواید ہیں خود دیکھتے جاؤ
تم یہ کیسے بلند ہمت ہو
نہیں ممکن کہ وصل جاناں ہو
سمجھا ہے وہ اپنا سا رخ رشک قمر کو
خاتم انبیاء رسول اللہ
ردیف ہ
سایہ ہو کس طرح لب معجز نما کے ساتھ
غموں کے زور جان زار سے پوچھ
چھپ کے میں نے نہ پھر دکھایا منہ
شب معراج شاہ انس وجاں ہے
ردیف ی
بشر کا کس کو حضرت پر گماں ہے
علو حوصلہ لازم ہے اس کو
یہ روز مولد سلطان دیں ہے
کیا کہوں میں کہ کیا محمد ہے
محمد نور ذات کبریا ہے
در خیرالوارء پہ جا جلدی
جس نے اے خیرالوارء دیکھا تجھے
آقا علی مطاع علی مقتدا علی
گوہر تاج انما ہے علی
کیا حال دل اس شوخ ستم گر سے کہا جائے
نجف میں رہے کربلامیں رہے
خوشی سے کب یہاں آنے کی جا ہے
مزا ہم کو ملتا ہے تکرار سے
نیچی نظروں کے وار آنے لگے
ذبح کر ڈالا مجھے رفتار سے
پھول جھڑتے ہیں زبس گفتار سے
نہ کیوں تیر نظر گزرے جگر سے
وہ کہاں جلوۂ جاں بخش بتان دہلی
ان آنکھوں نے ایسا جھکایا مجھے
درد ہجراں مگر فزوں تر ہے
کمر کے وصف میں قاصر زباں ہے
جس کے دوزخ بھی خوشہ چیں میں ہے
لاکھ غم میں ہے سو محن میں ہے
ہم اپنا جو قصہ سنانے لگے
قتل کرتا ہے تو کر خوف کسی کا کیا ہے؟
وہ یہاں آتے ہیں کس انداز سے
کہہ تو دے جا کر کوئی فرہاد سے
یہ جو اب لطف زبانی اور ہے
کٹتی ہے یوں رہ الفت میری
گہے الفت سے دیکھا گاہ کیں سے
رہے گی نہ بے آفت آئے ہوئے
سدا میرے درپے ہیں آزار کے
دیکھ جلوے تمہارے قامت کے
مشوش جو نہ فکر جاہ میں ہے
بہت کچھ دھوم ہے روز جزا کی
جفا عادت کہاں تھی آسماں کی
کچھ ان بن ہو چلی ہے باغباں سے
غم سے چھٹ جانے کی حکمت ہی سہی
کیوں منہ چھپا ہے کسی لیے اتنا حجاب ہے؟
آگے سے ذرا اس ستم آرا کے گزر جائے
منہ چھپانے لگے حیا کر کے
ابھی ہے صدمۂ ہجراں کی گفتگو باقی
جنس ناقص ہوں نہ لاؤ سر بازار مجھے
پھر تو معدوم زمانے ہی سے مرنا ہو جائے
جھیلتے کاوش مژگان ستم گار رہے
دل لگا اس عدوئے جانی سے
ہوں خوشی کیوں نہ جان جانے سے
جو کہ غیروں کو آشنا جانے
جس کا رو ہے وجہ حیرانی مری
دوا کچھ نہیں تیرے بیمار کی
جز عرض حال گو کوئی چارہ نہیں مجھے
وہ ہیں طالب تو پوچھنا کیا ہے
سر کو تن سے مرے جدا کیجے
اب ضعف سے نہ پوچھ جو کچھ میرا حال ہے
نغمۂ ساز سناتا ہے جو دم ساز مجھے
پاک آئے غرق عصیاں ہو چلے
مجھے اور غیر کو باہم لڑا کے
لگی رہتی ہے ہر دم اس کے پاسے
نہ کیا عرض مدعا مل کے
واہ کس درجہ کی جفا تو نے
جس کو خورشید نے نہ کچھ کم کی
یاں کس کو خوشی رہتی ہے اعداء کی خبر کی!
لو صحبت اعداء نے کیا اور اثر بھی
جان لی اس نے یاں دھرا کیا ہے؟
عشق میرا بڑھائے جاتا ہے
یہ شوخی سے اس کی نظر ہو گئی
تر ا چھوڑ کر جو کہ در جائیں گے
ہے نشاں یا کہ بے نشاں میں ہے
غیر بد ظن سے یہ نہاں ہی سہی
برزہ گردی میں زبس وہ بت ہرجائی ہے
جمال شاہد مقصد کہیں دکھا ساقی
خمسہ برغزل قدسی رحمۃ اللہ
خمسہ برغزل میر تقی صاحب میرؔ
خمسہ بر غزل میر ممنون صاحب
خمسہ برغزل میرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب
خمسہ برغزل میرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب
خمسہ برغزل حکیم مومن خان صاحب
ترجیع بند
در وفات مرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب مرحوم
در مناقب حضرت علی مرتضیٰ علی التحیۃ والسلام
مطلع
رباعیات
قطعات۔ عرض دعائیہ بہ امام وقت
تاریخ دیوان غالب
قطعہ در مدح حکیم عبد المجید خاں صاحب
قطعۂ دیگر عطیہ خطاب از جانب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند
تاریخ وفات میر اشرف علی صاحب
قطعۂ مسجد نرور علاقہ گوالیار
تاریخ مسجد تعمیر کردہ جناب حکیم سلیم خاں صاحب
قطعہ در تہنیت تولد فرزند ارجمند مہاراجہ منگل سنگھ صاحب
تاریخ وفات جناب نواب ضیاء الدین خاں صاحب
تاریخ تزویج حکیم محمد رشید خاں صاحب خلف حکیم غلام نبی خانصاحب
قطعۂ تاریخ انتقال مرزا غالب
قطعۂ تاریخ باغ حاذق الملک جناب عبدالمجید خاں صاحب
قطعۂ تاریخ دیوان سید ظہیر الدین صاحب
قطعۂ تعریف قلم
قطعۂ تاریخ دیوان میر امرا ومیرزا صاحب
قطعۂ تاریخ وفات جناب نواب محمد علی خاں صاحب مرحوم
تقریظ از زمزمہ سنجی بلبل گلستاں معانی
قطعۂ تاریخ طبع دیوان مجروح از تصنیف حالی صاحب
قطعۂ تاریخ ریختہ کلک گوہر سلک نواب اکبر میرزا صاحب
قطعۂ تاریخ از زمزمہ سنجی بلبل ہندوستان ، نواب فصیح الملک بہادر
قطعۂ تاریخ از نتیجۂ طبع عالی جناب داروغہ سرفراز حسین صاحب
قطعۂ تاریخ از منشی اودھم سنگھ صاحب سردار امرت سری
قطعۂ تاریخ از نتیجۂ فکر جناب سید دلاور حسین صاحب لکھنؤی
سرورق
فہرست
مقدمہ
سبب تالیف
در نعت سید المرسلین رحمۃ للعالمین حضرت محمد ﷺ
مثنوی در مناقب شاہزادۂ کونین ۔۔۔۔حضرت ابی عبداللہ الحسین صلواۃ اللہ علیہ
قصیدہ در مناقب امام العصر والزمان خلیفۃ الرحمٰن حضرت امام مہدی علیہ السلام
درمناقب حضرت موصوف الذکر
در مناقب ممدوح الصدر
در مناقب حضرت ممدوح الصدر
قصیدہ در مدح حضور مہاراجہ شیودان سنگھ صاحب بہادر والی ریاست الور
ایضاً در مدح مہاراجہ ممدوح الصدر
قصیدہ در مدح گردوں فر ہلا ل رکاب جناب نواب محمد حامد علی خاں صاحب
ردیف الف
فاتح کار جہاں نام ہے یزداں تیرا
ثنا وحمد ایزد ہو رقم کیا
اللہ رے نور روئے تجلی نقاب کا
ہم سر جہاں میں کب ہے رسول کریم کا
وصف کیا ہو بیاں محمد کا
ہے فلک آستاں محمد کا
یاں کیوں نہ سائبان ہو نور الہ کا
لیا جب نام ہم نام خدا کا
یہ دل شائق ہے اس کے روئے روشن کی زیارت کا
کوئی آسماں کیا سوا ہو گیا
وہ مرے پاس گر آئے بھی تو پھر کیا ہوگا؟
نہ وہ نالوں کی شورش ہے نہ غل ہے آہ وزاری کا
موسی نہ غش میں آئیو اک بار دیکھنا
بے عدو وعدہ قتل کا نہ ہوا
آنا ترا یہاں نہ مروت سے دور تھا
بہتر یہ ہے کہ اس کا نہ انداز دیکھنا
غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا
ہجر میں طرفہ ماجرا دیکھا
گو ہر اک حال ہے واں ہم سے چھپایا جاتا
عدو پر ہے یہ لطف دمبدم کیا ؟
کل نشے میں تھا وہ بت مسجد میں گر آجاتا
تصور رخ جاناں میں شب یہ حال ہوا
چھپانا ان سے دل کو فائدہ کیا؟
ردیف ب
اس سے نبھنے کے کچھ نہیں اسباب
مانگیں نہ ہم بہشت نہ ہوواں اگر شراب
حرف رخصت لب شیریں پہ نہ لانا صاحب
لڑ کے اغیار سے جدا ہیں آپ
ردیف پ
محمد عطر ریحان رسالت
ردیف ت
تن بے جاں ہوئی تھی بعد عیسیٰ
ابھی موجود ہے دار محبت
ایذا ہی درد ہجر سے پائی تمام رات
غیر سے ملیے نہ صاحب سحر وشام بہت
اپنی ہستی ہے خواب کی صورت
منہ پہ رکھنے لگے نقاب بہت
ہے یہ جان نزار کی صورت
نہیں اچھی الگ جانے کی عادت
دل کو میرے اڑا لیا جھٹ پٹ
ردیف ٹ
ردیف ث
فکر تعمیر سقف وخانہ عبث
ردیف ج
شب مہ روشنی فشاں ہے آج
جوش پر ابر نوبہار ہے آج
ردیف چ
بس ہے اک چشم غضب قتل کو تلوار نہ کھینچ
خوب دیکھی ہے اس جہاں کی طرح
ردیف ح
ردیف خ
گو آپ کے بھی ہاتھ کا ہے رنگ حنا سرخ
ردیف د
شب معراج میں تشریف جو لائے احمد
نہ لیں شاہی غلامان محمد
ہے اب تو سامنے آنکھوں کے ہر زماں صیاد
دل نے کس طرح سے کرے فریاد
بے دیے بوسہ نہیں آپ کا دشنام لذیذ
ردیف ذ
صلواۃ اس سرور والا گہر پر
ردیف ر
ان کے پڑتے ہیں مجھ پہ بے تقصیر
توجہ کیا ہو مجھ گوشہ نشیں پر
اس کے ہیں جھانکنے کے یہ آثار
دشمن جاں ہوئے ہیں وہ مری جاں ہو کر
دل بے صبر میں ہے غم کا گزار
ردیف ڑ
ایک سے ربط ایک سے ہے بگاڑ
حرف تم ا پنی نزاکت پہ نہ لانا ہرگز
ردیف ز
کون پردے میں ہے یہ زمزمہ ساز
ردیف س
یوں ہی گزرا بہار کایہ برس
کس کی بو تھی نسیم کی ہم دوش
ردیف ش
ردیف ص
اس کا غیروں سے اب بڑھا اخلاص
جو کہ میخانہ میں آئے کچھ نہ کچھ وہ پائے فیض
ردیف ض
لخت دل کو ہے مرے چشم گہر بار سے ربط
ردیف ط
اس سے مل کر کبھی نہ پایا حظ
ردیف ظ
اس شعلہ رو کے سامنے کس طرح جائے شمع؟
ردیف ع
سچ ہے دل کش تو ہے تفرح باغ
ردیف غ
ردیف ف
نہ تو مے میں ہے نہ وہ ساغر سرشار میں لطف
ردیف ق
شیخ تم جانتے ہو کیا ہے عشق؟
ردیف ک
گلہ کیوں غیر کا آیا زباں تک؟
ہم کو وحشت نے کر دیا بے باک
پہنچ کیوں کر ہو اپنی اس کے گھر تک
ردیف ل
نہیں راز ہستی جتانے کے قابل
ذرا بہلائے آکر یہاں دل
مدت ہوئی کہنے میں اب اپنے ہے کہاں دل
ردیف م
یا علی نائب خدا ہو تم
اثر آہ کا گر دکھائیں گے ہم
میرے دل میں تو ہر زماں ہو تم
لوگ حضرت کو رسول دوسرا کہتے ہیں
ردیف نون
بیٹھو ادب سے ہرزہ سرا ہو یہاں نہیں
اسیر رنج میں یا شاہ ذوالفقار ہوں میں
نہ وہ برق میں ہے نہ سیماب میں
ہے ہم شبیہ شکل مگر دیدہ ور کہاں
آہ دل سوز نہیں نالہ شرر بار نہیں
بیکار اس نگاہ کا گر نیشتر نہیں
خیال روئے آتش ناک ہے اس دیدۂ تر میں
یہ بے چینیاں سر اٹھائے ہوئے ہیں
کیا کہوں آفتیں جو چاہ میں ہیں
کیا زلیخا ہو خوش گلستاں میں
سدا عروج پہ مانند حسن یار ہوں میں
ہم تو جلتے ہیں خبر تک بھی ذرا واں تو نہیں
جس سے دن عیش میں گزریں وہ سر انجام نہیں
ہر رنگ میں بخشش ہی کی پاتا ہوں ادا میں
خانماں سوز ماسوا ہوں میں
جوش وحشت میں مزا کچھ سروساماں میں نہیں
گریباں چاک ہے گل بوستاں میں
میری بدخوئی کے بہانے ہیں
کب وہ شوخی سے باز آتے ہیں
بس کہ اک جنس رائیگاں ہوں میں
میں آہ ہوں تو خون جگر میں طپیدہ ہوں
دل کی بے چینیاں گئیں نہ کہیں
آج نکلا جو آفتاب نہیں
وہ گالیوں کی چھیڑ وہ طرار پن کہاں؟
شغل الفت کو جو احباب برا کہتے ہیں
ہم جو برسوں میں کبھی آتے ہیں
نہیں غیر کو ہیں سنانے کی باتیں
کیا غصے میں آتا ہے جو کرتا ہوں گلا میں
ہے ازبسکہ بیگانگی یار میں
کب شعلہ خیز نالۂ آتش فشاں نہیں؟
نقص نکلیں گے ماہ کامل میں
لے کے دل اور تم کو کام نہیں
غضب ہیں قہر میں جور وجفا میں
دل سوزاں میں کیا آئے ہوئے ہیں
دل میں قوت جگر میں تاب کہاں
جانا زبس ضرور تھا اس جلوہ گاہ میں
یہ جو چپکے سے آئے بیٹھے ہیں
جگر برشتہ نہیں آہ شعلہ تاب نہیں
اس سے رہتی جو چار آنکھیں ہیں
مگر کام میرا ادا دیکھتے ہیں
ان کی باتوں پہ نہ جاؤ کہ یہ کیا جانتے ہیں
غبار خاطر دل دار ہوں میں
خرابی خواہ وہ ہیں شاد ہوں میں
دکھ دیے جاؤ یاں گریز نہیں
کھٹکا رہا سحر کا شب وصل یار میں
ردیف و
جبہ سائی در عرش معلیٰ دیکھو
نوید امن ہے اہل جہاں کو
کس سے تسکین دل ناشاد ہو
اگر ہے بر سر مہر آسماں ہو
سانس بھی لیں نہ جس کا یہ ڈر ہو
دل درد آشنا دیا ہم کو
کام واں کیا حصول اپنا ہو
اس کے جو جو کہ فواید ہیں خود دیکھتے جاؤ
تم یہ کیسے بلند ہمت ہو
نہیں ممکن کہ وصل جاناں ہو
سمجھا ہے وہ اپنا سا رخ رشک قمر کو
خاتم انبیاء رسول اللہ
ردیف ہ
سایہ ہو کس طرح لب معجز نما کے ساتھ
غموں کے زور جان زار سے پوچھ
چھپ کے میں نے نہ پھر دکھایا منہ
شب معراج شاہ انس وجاں ہے
ردیف ی
بشر کا کس کو حضرت پر گماں ہے
علو حوصلہ لازم ہے اس کو
یہ روز مولد سلطان دیں ہے
کیا کہوں میں کہ کیا محمد ہے
محمد نور ذات کبریا ہے
در خیرالوارء پہ جا جلدی
جس نے اے خیرالوارء دیکھا تجھے
آقا علی مطاع علی مقتدا علی
گوہر تاج انما ہے علی
کیا حال دل اس شوخ ستم گر سے کہا جائے
نجف میں رہے کربلامیں رہے
خوشی سے کب یہاں آنے کی جا ہے
مزا ہم کو ملتا ہے تکرار سے
نیچی نظروں کے وار آنے لگے
ذبح کر ڈالا مجھے رفتار سے
پھول جھڑتے ہیں زبس گفتار سے
نہ کیوں تیر نظر گزرے جگر سے
وہ کہاں جلوۂ جاں بخش بتان دہلی
ان آنکھوں نے ایسا جھکایا مجھے
درد ہجراں مگر فزوں تر ہے
کمر کے وصف میں قاصر زباں ہے
جس کے دوزخ بھی خوشہ چیں میں ہے
لاکھ غم میں ہے سو محن میں ہے
ہم اپنا جو قصہ سنانے لگے
قتل کرتا ہے تو کر خوف کسی کا کیا ہے؟
وہ یہاں آتے ہیں کس انداز سے
کہہ تو دے جا کر کوئی فرہاد سے
یہ جو اب لطف زبانی اور ہے
کٹتی ہے یوں رہ الفت میری
گہے الفت سے دیکھا گاہ کیں سے
رہے گی نہ بے آفت آئے ہوئے
سدا میرے درپے ہیں آزار کے
دیکھ جلوے تمہارے قامت کے
مشوش جو نہ فکر جاہ میں ہے
بہت کچھ دھوم ہے روز جزا کی
جفا عادت کہاں تھی آسماں کی
کچھ ان بن ہو چلی ہے باغباں سے
غم سے چھٹ جانے کی حکمت ہی سہی
کیوں منہ چھپا ہے کسی لیے اتنا حجاب ہے؟
آگے سے ذرا اس ستم آرا کے گزر جائے
منہ چھپانے لگے حیا کر کے
ابھی ہے صدمۂ ہجراں کی گفتگو باقی
جنس ناقص ہوں نہ لاؤ سر بازار مجھے
پھر تو معدوم زمانے ہی سے مرنا ہو جائے
جھیلتے کاوش مژگان ستم گار رہے
دل لگا اس عدوئے جانی سے
ہوں خوشی کیوں نہ جان جانے سے
جو کہ غیروں کو آشنا جانے
جس کا رو ہے وجہ حیرانی مری
دوا کچھ نہیں تیرے بیمار کی
جز عرض حال گو کوئی چارہ نہیں مجھے
وہ ہیں طالب تو پوچھنا کیا ہے
سر کو تن سے مرے جدا کیجے
اب ضعف سے نہ پوچھ جو کچھ میرا حال ہے
نغمۂ ساز سناتا ہے جو دم ساز مجھے
پاک آئے غرق عصیاں ہو چلے
مجھے اور غیر کو باہم لڑا کے
لگی رہتی ہے ہر دم اس کے پاسے
نہ کیا عرض مدعا مل کے
واہ کس درجہ کی جفا تو نے
جس کو خورشید نے نہ کچھ کم کی
یاں کس کو خوشی رہتی ہے اعداء کی خبر کی!
لو صحبت اعداء نے کیا اور اثر بھی
جان لی اس نے یاں دھرا کیا ہے؟
عشق میرا بڑھائے جاتا ہے
یہ شوخی سے اس کی نظر ہو گئی
تر ا چھوڑ کر جو کہ در جائیں گے
ہے نشاں یا کہ بے نشاں میں ہے
غیر بد ظن سے یہ نہاں ہی سہی
برزہ گردی میں زبس وہ بت ہرجائی ہے
جمال شاہد مقصد کہیں دکھا ساقی
خمسہ برغزل قدسی رحمۃ اللہ
خمسہ برغزل میر تقی صاحب میرؔ
خمسہ بر غزل میر ممنون صاحب
خمسہ برغزل میرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب
خمسہ برغزل میرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب
خمسہ برغزل حکیم مومن خان صاحب
ترجیع بند
در وفات مرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب مرحوم
در مناقب حضرت علی مرتضیٰ علی التحیۃ والسلام
مطلع
رباعیات
قطعات۔ عرض دعائیہ بہ امام وقت
تاریخ دیوان غالب
قطعہ در مدح حکیم عبد المجید خاں صاحب
قطعۂ دیگر عطیہ خطاب از جانب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند
تاریخ وفات میر اشرف علی صاحب
قطعۂ مسجد نرور علاقہ گوالیار
تاریخ مسجد تعمیر کردہ جناب حکیم سلیم خاں صاحب
قطعہ در تہنیت تولد فرزند ارجمند مہاراجہ منگل سنگھ صاحب
تاریخ وفات جناب نواب ضیاء الدین خاں صاحب
تاریخ تزویج حکیم محمد رشید خاں صاحب خلف حکیم غلام نبی خانصاحب
قطعۂ تاریخ انتقال مرزا غالب
قطعۂ تاریخ باغ حاذق الملک جناب عبدالمجید خاں صاحب
قطعۂ تاریخ دیوان سید ظہیر الدین صاحب
قطعۂ تعریف قلم
قطعۂ تاریخ دیوان میر امرا ومیرزا صاحب
قطعۂ تاریخ وفات جناب نواب محمد علی خاں صاحب مرحوم
تقریظ از زمزمہ سنجی بلبل گلستاں معانی
قطعۂ تاریخ طبع دیوان مجروح از تصنیف حالی صاحب
قطعۂ تاریخ ریختہ کلک گوہر سلک نواب اکبر میرزا صاحب
قطعۂ تاریخ از زمزمہ سنجی بلبل ہندوستان ، نواب فصیح الملک بہادر
قطعۂ تاریخ از نتیجۂ طبع عالی جناب داروغہ سرفراز حسین صاحب
قطعۂ تاریخ از منشی اودھم سنگھ صاحب سردار امرت سری
قطعۂ تاریخ از نتیجۂ فکر جناب سید دلاور حسین صاحب لکھنؤی
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।