سرورق
میر مہدی مجروحؔ دہلوی
فاتح کار جہاں نام ہے یزادں تیرا
ثنا وحمد ایزد ہو رقم کیا
اللہ رے نور روئے تجلی نقاب کا
ہمسر جہاں میں کب ہے رسول کریم کا
وصف کیا ہو بیاں محمد کا
ہے فلک آستاں محمد کا
یاں کیوں نہ سائباں ہو نور الہ کا
لیا جب نام ہمنام خدا کا
یہ دل شایق ہے اسکے روئے روشن کی زیارت کا
وہ مرے پاس گر آئے بھی تو پھر کیا ہوگا
کوئی آسماں کیا سوا ہو گیا
موسیٰ نہ غش میں آئیو اک بار دیکھنا
نہ وہ نالوں کی شورش ہے نہ غل ہے آہ وزاری کا
بے عدو وعدہ قتل کا نہ ہوا
بہتر ہے کہ اس کا نہ انداز دیکھنا
آنا ترا یہاں نہ مروت سے دور تھا
غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو بر ا جانا
ہجر میں طرفہ ماجرا دیکھا
گوہر اک حال ہے واں ہم سے چھپایا جاتا
عدو پر ہے یہ لطف و مبدم کیا
کل نشہ میں تھا وہ بت مسجد میں گر آجاتا
تصور رخ جاناں میں شب یہ حال ہوا
چھپانا ان سے دل کو فائدہ کیا
حرف الباء
اس سے نبھنے کے کچھ نہیں اسباب
مانگیں نہ ہم بہشت نہ ہو واں اگر شراب
حرف رخصت لب شیریں پہ نہ لانا صاحب
حرف البائے فارسی
لڑکے اغیار سے جا ہیں آپ
محمد عطر ریحاں رسالت
ردیف تائے فوقانی
ابھی موجود ہے دار محبت نہ کر منصور اظہار محبت
ایذا ہے درد ہجر سے پائی تمام رات
غیر سے ملنے نہ صاحب سحر وشام بہت
اپنی ہستی ہے خواب کی صورت
منہ پہ رکھنے لگے نقاب بہت
نہیں اچھی الگ جانے کی عادت
ردیف تائے ہندی
دل کو میرے اڑا لیا جھٹ پٹ
ردیف ثاے مثلثہ
فکر تعمیر سقف وخانہ عبث
ردیف جیم عربی
شب مہ روشنی فشاں ہے آج
جوش پرابر نوبہار ہے آج
ردیف جیم فارسی
بس اک چشم غضب قتل کو تلوار نہ کھینچ
خوب دیکھی ہے اس جہاں کی طرح
ردیف ہائے حطی
ردیف ہائے معجمہ
گو آپ کے بھی ہاتھ کا ہے رنگ حنا سرخ
شب معراج میں تشریف جو لائے احمد
ردیف دال مہملہ
نہ لیں شاہی غلامان محمد
ہے ابتو سامنے آنکھوں کے ہر زماں صیاد
دل نہ کس طرح سے کرے فریاد
بے دیئے بوسہ نہیں آپ کا دشنام لذیذ
ردیف ذال منقوطہ
صلوۃ اس سرور ولالا گہر پر
ردیف رائے مہملہ
ان کے پڑتے ہیں مجھ پہ بے تقصیر
توجہ کیا ہو مجھ گوشہ نشیں پر
اس کے ہیں جھانکنے کے یہ آثار
دشمن جان ہوئے ہیں وہ مری جاں ہو کر
دل بے صبر میں ہے غم کا گزار
ردیف رائے ہندی
ایک سے ربط ایک سے ہے بگاڑ
ردیف زائے معجمہ
حرف تم اپنی نزاکت پہ نہ لانا ہر گز
کون پردہ میں ہے یہ زمزمہ ساز
ردیف سین مہملہ
کسی کی بو تھی نسیم کی ہمدوش
یوں ہی گزرا بہار کا یہ برس
ردیف شین معجمہ
ردیف صاد مہملہ
اس کا غیروں سے اب بڑھا اخلاص
ردیف صاد معجمہ
جو کہ میخانہ میں آئے کچھ نہ کچھ وہ پائے فیض
لخت دل کو ہے مرے چشم گہر بار سے ربط
ردیف طاء مہملہ
اس شعلہ رو کے سامنے کس طرح جائے شمع
ردیف عین مہملہ
ردیف ظاء معجمہ
اس سے مل کر کبھی نہ پایا حظ
ردیف غین معجمہ
سچ ہے دلکش تو ہے تفرح باغ
نہ تو مے میں ہے نہ وہ ساغر سرشار میں لطف
ردیف فاء
شیخ تم جانتے ہو کیا ہے عشق
ردیف قاف
گلہ کیوں غیر کا آیا زباں تک
ردیف کاف تازی
ہم کو وحشت نے کر دیا بے باک
ردیف لام
پہنچ کیوں کر ہو اپنی اس کے گھر تک
نہیں راز ہستی جتا نے کے قابل
ذرا بہلایئے آکر یہاں دل
یا علی نائب خدا ہو تم
ردیف میم
مدت ہوئی اب کہنے میں اپنے ہے کہاں دل
اثر آہ کا گردکھائیں گے ہم
میرے دل میں تو ہرزماں ہو تم
ردیف نون
لوگ حضرت کو رسول دوسرا کہتے ہیں
بیٹھو ادب سے ہرزہ سراہو یہاں نہیں
اسیر رنج میں یا شاہ ذوالفقار ہوں میں
نہ وہ برق میں ہے نہ سیماب میں
ہے ہم شبیہ شکل مگر دیدہ ور کہاں
آہ دلسوز نہیں نالہ شرر بار نہیں
بیکار اس نگاہ کا گر نیشتر نہیں
خیال روئے آتش ناک ہے اس دیدۂ تر میں
یہ بیچینیاں سر اٹھائے ہوئے ہیں
کیا کہوں آفتیں جو چاہ میں ہیں
کیا زلیخا ہو خوش گلستاں میں
سدا عروج پہ مانند حسن یار ہوں میں
ہم تو جلتے ہیں خبر تک بھی ذرا واں تو نہیں
جس سے دن عیش میں گزریں وہ سر انجام نہیں
ہر سنگ میں بخشش ہی کی پاتا ہوں ادا میں
خانماں سوز ماسوا ہوں میں
جوش وحشت میں مزا کچھ سرو ساماں میں نہیں
گریباں چاک ہے گل بوستاں میں
میری بدخوئی کے بہانے ہیں
بسکہ اک جنس رائگاں ہوں میں
میں آہ ہوں تو خون جگر میں طپیدہ ہوں
دل کو بیچینیاں گئیں نہ کہیں
آج نکلا جو آفتاب نہیں
وہ گالیوں کی چھیڑ وہ طرار پن کہاں
شغل الفت کو جو احباب برا کہتے ہیں
ہم جو برسوں میں کبھی آتے ہیں
نہیں غیر کو ہیں سنانے کی باتیں
کیا غصہ میں آتا ہے جو کرتا ہوں گلا میں
ہے ازبسکہ بیگانگی یار میں
کب شعلہ خیز نالۂ آتش فشاں نہیں
نقص نکلیں گے ماہ کامل میں
لیکے دل اور تم کو کام نہیں
غضب میں قہر میں جو روجفا میں
دل سوزاں میں کیا آئے ہوئے ہیں
دل میں قوت جگر میں تاب کہاں
جانا زبس ضرور تھا اس جلوہ گاہ میں
یہ جو چپکے سے آئے بیٹھے ہیں
جگر برشتہ نہیں آہ شعلہ تاب نہیں
اس سے رہتی جو چار آنکھیں ہیں
مگر کام میرا ادا دیکھتے ہیں
ان کی باتوں پہ نہ جاؤ کہ یہ کیا جانتے ہیں
غبار خاطر دلدار ہوں میں
خرابی خواہ وہ ہیں شاد ہوں میں
کھٹکا رہا سحر کا شب وصل یار میں
دکھ دیئے جاؤ یاں گریز نہیں
جبہ سائی درشہ عرش معلیٰ دیکھو
ردیف الواؤ
نویدامن ہے اہل جہاں کو
کس سے تسکین دل ناشاد ہو
سانس بھی لیں نہ جس کا یہ ڈر ہو
اگر ہے برسر مہر آسماں ہو
دل درد آشنا دیا ہم کو
کام واں کیا حصول اپنا ہو
اسکے جو جو کہ فواید ہیں وہ خود دیکھتے جاؤ
تم یہ کیسے بلند ہمت ہو
نہیں ممکن کہ وصل جاناں ہو
سمجھا ہے وہ اپنا سارخ رشک قمر کو
ردیف ہائے ہوز
خاتم انبیا رسول اللہ
سایہ ہو کس طرح لب معجز نما کے ساتھ
غموں کے زور جان زار سے پوچھ
چھپ کے میں نے نہ پھر دیکھایا منہ
شب معراج شاہ انس وجاں ہے
ردیف یائے تحتانی
بشر کا کس کو حضرت پہ گماں ہے
یہ روز مولد سلطان دیں ہے
کیا کہوں میں کہ کیا محمد ہے
محمد نور ذات کبریا ہے
در خیرالوریٰ پہ جا جلدی
جس نے اے خیر الورا دیکھا تجھے
آقا علی مطاع علی مقتدا علی
گوہر تاج انما ہے علی
تجف میں رہے کہ بلا میں رہے
کیا حال دل اس شوخ ستمگر سے کہا جائے
خوشی سے کب یہاں آنے کی جا ہے
مزاہم کو ملتا ہے تکرار سے
نیچی نظروں کے وار آنے لگے
ذبح کر ڈالا مجھے رفتار سے
پھول جھڑتے ہیں زبس گفتار سے
نہ کیوں تیر نظر گزرے جگر سے
وہ کہاں جلوۂ جاں بخش بتان دہلی
ان آنکھوں نے ایسا جھمکایا مجھے
درد ہجراں مگر فزوں تر ہے
کمر کے وصف میں قاصر زباں ہے
جس کے دوزخ بھی خوشہ چیں میں ہے
ہم اپنا جو قصہ سنانے لگے
لاکھ غم میں سے سو محن میں ہے
قتل کرتا ہے تو کر خوف کسی کا کیا ہے
وہ یہاں آتے ہیں کس انداز سے
یہ جواب لطف زبانی اور ہے
کہہ تو دے جاکر کوئی فرہاد سے
کٹتی ہے یوں رہ الفت میری
گہے الفت سے دیکھا گاہ کہیں سے
سدا میرے در پے ہو آزار کے
رہیگی نہ بے آفت آئے ہوئے
دیکھ جلوے تمہارے قامت کے
مشوش جو نہ فکر جاہ میں ہے
جفا عادت کہاں تھی آسماں کی
بہت کچھ دھوم ہے روز جزا کی
کچھ ان بن ہے باغباں سے
غم سے چھٹ جانے کی حکمت ہی سہی
کیوں منہ چھپا ہے کس لئے اتنا حجاب ہے
آگے سے ذرا اس ستم آراکے گزر جائے
منہ چھپانے لگے حیا کرکے
ابھی ہے صدمۂ ہجراں کی گفتگو باقی
پھر تو معدوم زمانہ ہی سے مرنا ہو جائے
جنس ناقص ہوں نہ لاؤ سر بازار مجھے
جھیلتے کاوش مژگاں ستمگار رہے
دل لگا اس عدوئے جانی سے
ہوں خوشی کیوں نہ جان جانے سے
جو کہ غیروں کو آشنا جانے
جس کارو ہے وجہ حیرانی مری
دوا کچھ نہیں تیرے بیمار کی
وہ ہیں طالب تو پوچھنا کیا
جز عرض حال گو کوئی چارہ نہیں مجھے
سر کو تن سے مرے جدا کیجے
اب ضعف سے نہ پوچھ جو کچھ میرا حال ہے
نغمۂ ساز سناتا ہے جود مساز مجھے
پاک آئے غرق عصیاں ہو چلے
مجھے اور غیر کو باہم لڑاکے
لگی رہتی ہے ہر دم اس کے پاسے
نہ کیا غرض مدعا مل کے
واہ کس درجہ کی جفا تو نے
جس کو خورشید نے نہ کچھ کم کی
یہاں کس کو خوشی رہتی ہے اعدا کی خبر کی
لو صحبت اعدا نے کیا اور اثر بھی
جان لی اس نے یاں دھرا کیا ہے
عشق میرا بڑھائے جاتا ہے
یہ شوخی سے اس کی نظر ہوگئی
تیرا چھوڑ کر جو کہ در جائیں گے
ہے نشاں یا کہ بے نشاں میں ہے
غیر بد ظن سے یہ نہاں ہی سہی
ہر زہ گری ہیں نہ بس وہ بت ہرجائی ہے
جمال شاہد مقصد کہیں دکھا ساقی
خمسہ برغزل قدسی رحمۃ اللہ
خمسہ برغزل میر تقی صاحب میرؔ
خمسہ برغزل میر ممنون صاحب
خمسہ برغزل مرزا اسداللہ خاں صاحب غالبؔ
خمسہ برغزل حکیم مومن خاں صاحب
کیوں نہ ویران ہو دیار سخن
ترجیع بند در وفات مرزا اسداللہ خاں صاحب غالبؔ مرحوم
شہد گویا بھر ادہاں میں تھا
تھے نظامی سے نظم میں ہمسر
اہل دہلی کی تھی بری تقدیر
ان کی شفقت جویاد آتی ہے
ایک جاں اور لاکھ کاہش غم
جبکہ آنکھوں سے وہ نہاں ہو جائے
تھی جو ان کے مزاج میں تہذیب
کون دیتا ہے یاں کسی کی داد
انسا پیدا کہاں ہو گر سوبار
درمناقب حضرت علی مرتضی علی التحیۃ والسلام
رباعیات
قطعات عرخ دعائیہ بامام وقت
تاریخ دیوان غالبؔ
قطعہ در مدح حکیم عبد المجید خاں صاحب
قطعہ مسجد نرور علاقہ گوالیار
تاریخ وفات میر اشرف علی صاحب
قطعہ دیگر عطیہ خطاب از جانب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند
تاریخ وفات فخرالدین خانصاحب
تاریخ مسجد تعمیر کردہ جناب حکیم سلیم خاں صاحب المتخلص بہ خستہ جبیپوری
قطعہ تاریخ دیوان جناب نواب احمد علی خاں صاحب
تاریخ وفات جناب مولوی سلیم الدین خانصاحب نارنولی
قطعہ تاریخ دیوان میرزا مضطر صاحب
قطعہ درتہنیت تولد فرزند ارجمند مہاراجہ منگل سنگہ صاحب
تاریخ وفات جناب نواب ضیاء الدین احمد خاں صاحب بہادر
تاریخ تزویج حکیم محمد رشید خانصاحب حکیم غلام نبی خانصاحب
قطعہ تاریخ دیوان سید ظہیرالدین صاحب المتخلص بہ ظہیرؔ دہلوی
قطعہ تاریخ انتقال مرزا غالبؔ
قطعہ تاریخ باغ حاذق الملک جناب حکیم عبدالمجید خانصاحب
قطعہ تاریخ دیوان میرامراومیرزا صاحب المتخلص بہ انورؔ
تاریخ بناء مکان عالی جناب حکیم غلام خان صاحب
قطعہ تاریخ وفات جناب نواب محمد علی خانصاحب مرحوم رئیس جہانگیر آباد
سرورق
میر مہدی مجروحؔ دہلوی
فاتح کار جہاں نام ہے یزادں تیرا
ثنا وحمد ایزد ہو رقم کیا
اللہ رے نور روئے تجلی نقاب کا
ہمسر جہاں میں کب ہے رسول کریم کا
وصف کیا ہو بیاں محمد کا
ہے فلک آستاں محمد کا
یاں کیوں نہ سائباں ہو نور الہ کا
لیا جب نام ہمنام خدا کا
یہ دل شایق ہے اسکے روئے روشن کی زیارت کا
وہ مرے پاس گر آئے بھی تو پھر کیا ہوگا
کوئی آسماں کیا سوا ہو گیا
موسیٰ نہ غش میں آئیو اک بار دیکھنا
نہ وہ نالوں کی شورش ہے نہ غل ہے آہ وزاری کا
بے عدو وعدہ قتل کا نہ ہوا
بہتر ہے کہ اس کا نہ انداز دیکھنا
آنا ترا یہاں نہ مروت سے دور تھا
غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو بر ا جانا
ہجر میں طرفہ ماجرا دیکھا
گوہر اک حال ہے واں ہم سے چھپایا جاتا
عدو پر ہے یہ لطف و مبدم کیا
کل نشہ میں تھا وہ بت مسجد میں گر آجاتا
تصور رخ جاناں میں شب یہ حال ہوا
چھپانا ان سے دل کو فائدہ کیا
حرف الباء
اس سے نبھنے کے کچھ نہیں اسباب
مانگیں نہ ہم بہشت نہ ہو واں اگر شراب
حرف رخصت لب شیریں پہ نہ لانا صاحب
حرف البائے فارسی
لڑکے اغیار سے جا ہیں آپ
محمد عطر ریحاں رسالت
ردیف تائے فوقانی
ابھی موجود ہے دار محبت نہ کر منصور اظہار محبت
ایذا ہے درد ہجر سے پائی تمام رات
غیر سے ملنے نہ صاحب سحر وشام بہت
اپنی ہستی ہے خواب کی صورت
منہ پہ رکھنے لگے نقاب بہت
نہیں اچھی الگ جانے کی عادت
ردیف تائے ہندی
دل کو میرے اڑا لیا جھٹ پٹ
ردیف ثاے مثلثہ
فکر تعمیر سقف وخانہ عبث
ردیف جیم عربی
شب مہ روشنی فشاں ہے آج
جوش پرابر نوبہار ہے آج
ردیف جیم فارسی
بس اک چشم غضب قتل کو تلوار نہ کھینچ
خوب دیکھی ہے اس جہاں کی طرح
ردیف ہائے حطی
ردیف ہائے معجمہ
گو آپ کے بھی ہاتھ کا ہے رنگ حنا سرخ
شب معراج میں تشریف جو لائے احمد
ردیف دال مہملہ
نہ لیں شاہی غلامان محمد
ہے ابتو سامنے آنکھوں کے ہر زماں صیاد
دل نہ کس طرح سے کرے فریاد
بے دیئے بوسہ نہیں آپ کا دشنام لذیذ
ردیف ذال منقوطہ
صلوۃ اس سرور ولالا گہر پر
ردیف رائے مہملہ
ان کے پڑتے ہیں مجھ پہ بے تقصیر
توجہ کیا ہو مجھ گوشہ نشیں پر
اس کے ہیں جھانکنے کے یہ آثار
دشمن جان ہوئے ہیں وہ مری جاں ہو کر
دل بے صبر میں ہے غم کا گزار
ردیف رائے ہندی
ایک سے ربط ایک سے ہے بگاڑ
ردیف زائے معجمہ
حرف تم اپنی نزاکت پہ نہ لانا ہر گز
کون پردہ میں ہے یہ زمزمہ ساز
ردیف سین مہملہ
کسی کی بو تھی نسیم کی ہمدوش
یوں ہی گزرا بہار کا یہ برس
ردیف شین معجمہ
ردیف صاد مہملہ
اس کا غیروں سے اب بڑھا اخلاص
ردیف صاد معجمہ
جو کہ میخانہ میں آئے کچھ نہ کچھ وہ پائے فیض
لخت دل کو ہے مرے چشم گہر بار سے ربط
ردیف طاء مہملہ
اس شعلہ رو کے سامنے کس طرح جائے شمع
ردیف عین مہملہ
ردیف ظاء معجمہ
اس سے مل کر کبھی نہ پایا حظ
ردیف غین معجمہ
سچ ہے دلکش تو ہے تفرح باغ
نہ تو مے میں ہے نہ وہ ساغر سرشار میں لطف
ردیف فاء
شیخ تم جانتے ہو کیا ہے عشق
ردیف قاف
گلہ کیوں غیر کا آیا زباں تک
ردیف کاف تازی
ہم کو وحشت نے کر دیا بے باک
ردیف لام
پہنچ کیوں کر ہو اپنی اس کے گھر تک
نہیں راز ہستی جتا نے کے قابل
ذرا بہلایئے آکر یہاں دل
یا علی نائب خدا ہو تم
ردیف میم
مدت ہوئی اب کہنے میں اپنے ہے کہاں دل
اثر آہ کا گردکھائیں گے ہم
میرے دل میں تو ہرزماں ہو تم
ردیف نون
لوگ حضرت کو رسول دوسرا کہتے ہیں
بیٹھو ادب سے ہرزہ سراہو یہاں نہیں
اسیر رنج میں یا شاہ ذوالفقار ہوں میں
نہ وہ برق میں ہے نہ سیماب میں
ہے ہم شبیہ شکل مگر دیدہ ور کہاں
آہ دلسوز نہیں نالہ شرر بار نہیں
بیکار اس نگاہ کا گر نیشتر نہیں
خیال روئے آتش ناک ہے اس دیدۂ تر میں
یہ بیچینیاں سر اٹھائے ہوئے ہیں
کیا کہوں آفتیں جو چاہ میں ہیں
کیا زلیخا ہو خوش گلستاں میں
سدا عروج پہ مانند حسن یار ہوں میں
ہم تو جلتے ہیں خبر تک بھی ذرا واں تو نہیں
جس سے دن عیش میں گزریں وہ سر انجام نہیں
ہر سنگ میں بخشش ہی کی پاتا ہوں ادا میں
خانماں سوز ماسوا ہوں میں
جوش وحشت میں مزا کچھ سرو ساماں میں نہیں
گریباں چاک ہے گل بوستاں میں
میری بدخوئی کے بہانے ہیں
بسکہ اک جنس رائگاں ہوں میں
میں آہ ہوں تو خون جگر میں طپیدہ ہوں
دل کو بیچینیاں گئیں نہ کہیں
آج نکلا جو آفتاب نہیں
وہ گالیوں کی چھیڑ وہ طرار پن کہاں
شغل الفت کو جو احباب برا کہتے ہیں
ہم جو برسوں میں کبھی آتے ہیں
نہیں غیر کو ہیں سنانے کی باتیں
کیا غصہ میں آتا ہے جو کرتا ہوں گلا میں
ہے ازبسکہ بیگانگی یار میں
کب شعلہ خیز نالۂ آتش فشاں نہیں
نقص نکلیں گے ماہ کامل میں
لیکے دل اور تم کو کام نہیں
غضب میں قہر میں جو روجفا میں
دل سوزاں میں کیا آئے ہوئے ہیں
دل میں قوت جگر میں تاب کہاں
جانا زبس ضرور تھا اس جلوہ گاہ میں
یہ جو چپکے سے آئے بیٹھے ہیں
جگر برشتہ نہیں آہ شعلہ تاب نہیں
اس سے رہتی جو چار آنکھیں ہیں
مگر کام میرا ادا دیکھتے ہیں
ان کی باتوں پہ نہ جاؤ کہ یہ کیا جانتے ہیں
غبار خاطر دلدار ہوں میں
خرابی خواہ وہ ہیں شاد ہوں میں
کھٹکا رہا سحر کا شب وصل یار میں
دکھ دیئے جاؤ یاں گریز نہیں
جبہ سائی درشہ عرش معلیٰ دیکھو
ردیف الواؤ
نویدامن ہے اہل جہاں کو
کس سے تسکین دل ناشاد ہو
سانس بھی لیں نہ جس کا یہ ڈر ہو
اگر ہے برسر مہر آسماں ہو
دل درد آشنا دیا ہم کو
کام واں کیا حصول اپنا ہو
اسکے جو جو کہ فواید ہیں وہ خود دیکھتے جاؤ
تم یہ کیسے بلند ہمت ہو
نہیں ممکن کہ وصل جاناں ہو
سمجھا ہے وہ اپنا سارخ رشک قمر کو
ردیف ہائے ہوز
خاتم انبیا رسول اللہ
سایہ ہو کس طرح لب معجز نما کے ساتھ
غموں کے زور جان زار سے پوچھ
چھپ کے میں نے نہ پھر دیکھایا منہ
شب معراج شاہ انس وجاں ہے
ردیف یائے تحتانی
بشر کا کس کو حضرت پہ گماں ہے
یہ روز مولد سلطان دیں ہے
کیا کہوں میں کہ کیا محمد ہے
محمد نور ذات کبریا ہے
در خیرالوریٰ پہ جا جلدی
جس نے اے خیر الورا دیکھا تجھے
آقا علی مطاع علی مقتدا علی
گوہر تاج انما ہے علی
تجف میں رہے کہ بلا میں رہے
کیا حال دل اس شوخ ستمگر سے کہا جائے
خوشی سے کب یہاں آنے کی جا ہے
مزاہم کو ملتا ہے تکرار سے
نیچی نظروں کے وار آنے لگے
ذبح کر ڈالا مجھے رفتار سے
پھول جھڑتے ہیں زبس گفتار سے
نہ کیوں تیر نظر گزرے جگر سے
وہ کہاں جلوۂ جاں بخش بتان دہلی
ان آنکھوں نے ایسا جھمکایا مجھے
درد ہجراں مگر فزوں تر ہے
کمر کے وصف میں قاصر زباں ہے
جس کے دوزخ بھی خوشہ چیں میں ہے
ہم اپنا جو قصہ سنانے لگے
لاکھ غم میں سے سو محن میں ہے
قتل کرتا ہے تو کر خوف کسی کا کیا ہے
وہ یہاں آتے ہیں کس انداز سے
یہ جواب لطف زبانی اور ہے
کہہ تو دے جاکر کوئی فرہاد سے
کٹتی ہے یوں رہ الفت میری
گہے الفت سے دیکھا گاہ کہیں سے
سدا میرے در پے ہو آزار کے
رہیگی نہ بے آفت آئے ہوئے
دیکھ جلوے تمہارے قامت کے
مشوش جو نہ فکر جاہ میں ہے
جفا عادت کہاں تھی آسماں کی
بہت کچھ دھوم ہے روز جزا کی
کچھ ان بن ہے باغباں سے
غم سے چھٹ جانے کی حکمت ہی سہی
کیوں منہ چھپا ہے کس لئے اتنا حجاب ہے
آگے سے ذرا اس ستم آراکے گزر جائے
منہ چھپانے لگے حیا کرکے
ابھی ہے صدمۂ ہجراں کی گفتگو باقی
پھر تو معدوم زمانہ ہی سے مرنا ہو جائے
جنس ناقص ہوں نہ لاؤ سر بازار مجھے
جھیلتے کاوش مژگاں ستمگار رہے
دل لگا اس عدوئے جانی سے
ہوں خوشی کیوں نہ جان جانے سے
جو کہ غیروں کو آشنا جانے
جس کارو ہے وجہ حیرانی مری
دوا کچھ نہیں تیرے بیمار کی
وہ ہیں طالب تو پوچھنا کیا
جز عرض حال گو کوئی چارہ نہیں مجھے
سر کو تن سے مرے جدا کیجے
اب ضعف سے نہ پوچھ جو کچھ میرا حال ہے
نغمۂ ساز سناتا ہے جود مساز مجھے
پاک آئے غرق عصیاں ہو چلے
مجھے اور غیر کو باہم لڑاکے
لگی رہتی ہے ہر دم اس کے پاسے
نہ کیا غرض مدعا مل کے
واہ کس درجہ کی جفا تو نے
جس کو خورشید نے نہ کچھ کم کی
یہاں کس کو خوشی رہتی ہے اعدا کی خبر کی
لو صحبت اعدا نے کیا اور اثر بھی
جان لی اس نے یاں دھرا کیا ہے
عشق میرا بڑھائے جاتا ہے
یہ شوخی سے اس کی نظر ہوگئی
تیرا چھوڑ کر جو کہ در جائیں گے
ہے نشاں یا کہ بے نشاں میں ہے
غیر بد ظن سے یہ نہاں ہی سہی
ہر زہ گری ہیں نہ بس وہ بت ہرجائی ہے
جمال شاہد مقصد کہیں دکھا ساقی
خمسہ برغزل قدسی رحمۃ اللہ
خمسہ برغزل میر تقی صاحب میرؔ
خمسہ برغزل میر ممنون صاحب
خمسہ برغزل مرزا اسداللہ خاں صاحب غالبؔ
خمسہ برغزل حکیم مومن خاں صاحب
کیوں نہ ویران ہو دیار سخن
ترجیع بند در وفات مرزا اسداللہ خاں صاحب غالبؔ مرحوم
شہد گویا بھر ادہاں میں تھا
تھے نظامی سے نظم میں ہمسر
اہل دہلی کی تھی بری تقدیر
ان کی شفقت جویاد آتی ہے
ایک جاں اور لاکھ کاہش غم
جبکہ آنکھوں سے وہ نہاں ہو جائے
تھی جو ان کے مزاج میں تہذیب
کون دیتا ہے یاں کسی کی داد
انسا پیدا کہاں ہو گر سوبار
درمناقب حضرت علی مرتضی علی التحیۃ والسلام
رباعیات
قطعات عرخ دعائیہ بامام وقت
تاریخ دیوان غالبؔ
قطعہ در مدح حکیم عبد المجید خاں صاحب
قطعہ مسجد نرور علاقہ گوالیار
تاریخ وفات میر اشرف علی صاحب
قطعہ دیگر عطیہ خطاب از جانب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند
تاریخ وفات فخرالدین خانصاحب
تاریخ مسجد تعمیر کردہ جناب حکیم سلیم خاں صاحب المتخلص بہ خستہ جبیپوری
قطعہ تاریخ دیوان جناب نواب احمد علی خاں صاحب
تاریخ وفات جناب مولوی سلیم الدین خانصاحب نارنولی
قطعہ تاریخ دیوان میرزا مضطر صاحب
قطعہ درتہنیت تولد فرزند ارجمند مہاراجہ منگل سنگہ صاحب
تاریخ وفات جناب نواب ضیاء الدین احمد خاں صاحب بہادر
تاریخ تزویج حکیم محمد رشید خانصاحب حکیم غلام نبی خانصاحب
قطعہ تاریخ دیوان سید ظہیرالدین صاحب المتخلص بہ ظہیرؔ دہلوی
قطعہ تاریخ انتقال مرزا غالبؔ
قطعہ تاریخ باغ حاذق الملک جناب حکیم عبدالمجید خانصاحب
قطعہ تاریخ دیوان میرامراومیرزا صاحب المتخلص بہ انورؔ
تاریخ بناء مکان عالی جناب حکیم غلام خان صاحب
قطعہ تاریخ وفات جناب نواب محمد علی خانصاحب مرحوم رئیس جہانگیر آباد
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔