غلط نامہ
فہرست
تعارف
آمدم بر سر مطلب
نمونہ کلام
منظر اب دل سے نہ رکھ زندہ دلی کی امید
پیش لفظ
مختلف اشعار
چنے تھے پھول مقدر سے بن گئے کاٹے
منظر کی شاعری اور ان کا دیوان
عرض حال
تبصرہ
میرے مالک تری حمد اور ثنا مشکل ہے
حمد باری تعالیٰ ونعت
غصہ قاتل کا نہ بڑھتا ہے نہ کم ہوتا ہے
غزلیات
نزع کا حال و گر گوں چارہ گر دیکھا کئے
تیرا شکوہ نہ تغافل کا گلا کرتے ہیں
ستمگر بے وفا اور عہد وپیماں بھولنے والے
مدت کے بعد ایسی سنائی خبر مجھے
قبر عاشق مٹائی جاتی ہے
کس زباں سے شکوۂ جو رستم آرا کریں
کوئی شاخ گل نہ مخصوص آشیانا چاہئے
صور محشرت ہی سہی نالہ مگر ناکام ہے
کچھ نہ کچھ تو حاصل عرض تمنا ہوگیا
کوئی درد محبت دل سے سنتا تو عیاں کرتے
بہار آنے کی خبریں آرہی ہیں پھر گلستاں سے
بیخود ایسا کیا خوف شب تنہائی نے
وہ کہانی سن کے کہتے ہیں دل ناشاد کی
مرگ عاشق پر فرشتہ موت کا بدنام تھا
شکایت رہے گی نہ شکوارہے گا
پیدا جو ہوا خوف رسوائی جانا نہ
سوز ہے کچھ میرے نالوں میں نہ کوئی ساز ہے
مرنے پہ بھی کام آئی شمع شب تنہائی
کیا کہیں کس طرح اس شوخ کی صورت دیکھی
کئے تو شب کو نالے اضطراب قلب مضطر سے
گرجذبہ وحشت کا اے دل یہی عنواں ہے
مٹانے والے ہمارا ہی گھر مٹانا تھا
نئے نئے ستم وجور آزمانے میں
ہوئی دیوانگی اس درجہ مشہور جہاں میری
لیجئے دل بھی شریک چشم پر فن ہوگیا
خون دل ہوتا ہے ہونے دیجئے
میں بتاؤں تمھیں تم بعد مرے کیا کرنا
غش آنے کا الزام اب الزام نہیں ہے
ازل سے قید ہوں ناواقف بہار ہوں میں
ہجر کی رات کسی طرح بسر ہو تو سہی
مروت کو بھی چھوڑ و خاک ڈالو عہد و پیماں پر
ستم جو چاہے ڈھاؤ خوف کیا ہے
منظرؔ نہ چھپا ان سے اگر درد کہیں ہے
ایک نعمت ترے مہجور کے ہاتھ آئی ہے
وہ جاتے ہیں لٹتا ہے گھر دیکھتے ہیں
جگر پہ بار نہیں دل کو ناگوار نہیں
سوز کہئے سوز میں ہے ساز کہئے ساز میں
بھر سکتے ہیں آہوں میں قیامت کا اثر ہم
آگیا اللہ وہ وقت آگیا میرے لیے
منظرؔ زباں پہ آہ نہ لب پر فغاں رہے
ہو کے عاشق دیکھئے بن کر پر ارماں دیکھئے
مصیبت کو راحت کا عنوان جانا
مہر باں اور نگہ ناز خدا خیر کرے
بنا لیا غم پنہاں سے دل کو دیوانہ
اب اتنا عقل سے بیگانہ ہو گیا ہوں میں
اس سے جی بھر کے ملی داد تمنا مجھ کو
کانپ اٹھیں گے اہل دل دیں گے ملک دہائیاں
اپنی تصویر ہے ہر شیشہ میں پیمانے میں
شوق دیدار بہت دید کا مقدور نہیں
کچھ اس انداز سے مانگا گیا دل
تغافل اور کرم دونوں برابر کرتے تھے
آہیں بھریں گے ہم کبھی نالہ کریں گے ہم
شب ہجر یوں دل کو بہلا رہے ہیں
غیروں میں نہیں تو گلہ بھی نہیں گر پوچھنے والا کوئی نہیں
اف وہ خود میرا مرے حال پہ خنداں ہونا
دل کی خوشی کا کوئی بھی ساماں نہ کرسکے
حسرتوں میں اب یہ اک حسرت ہمارے دل میں ہے
بہار عیش کو رنگیں کیے جا
اپنے سے فریب ان سے دھوکا توبہ توبہ توبہ توبہ
ممکن نہیں کہ سوز کسی ساز میں نہ ہو
بعد میرے آپ نے تکلیف فرمائی تو کیا
مہربانی کی بہت تکلیف فرمائی سہی
کوئی مانگ کر دل جو شرما رہا ہے
جان بھی لے لے جنوں گر رحم امکاں میں نہیں
نہ اب دل نشیں ہوں نہ پہلو نشیں ہوں
مری حد سے مجھ کو سواد یا مری حد سے مجھ کو بڑھا دیا
ستم ان کے تھے جو ر آسماں تھے
عشق میں مرنے کو بدنام کیا جاتا ہے
ہوکے مایوس دل کو موڑ گئے 85
شمع و گل نے سج تو دی محفل تری تیرے بغیر
اس کی رحمت میں اشتباہ نہ کر
موسم گل غم اسیری کا بھلا دیتا ہے
بڑی ساحر نگاہ باغباں معلوم ہوتی ہے
قصیدہ بے سمجھی ہوئی بات کے سمجھانے کا
سوز ہونا چاہیئے کچھ ساز ہونا چاہیئے
نہ لے منظر ؔ آنکھیں انہیں کیاکرے گا
شام غم کچھ کم نہ تھی یو نہیں پریشانی مجھے
نام وفا پہ دے کے جان دل نے وفا خرید لی
دل لے لیا ہے دل کی یہ دولت بھی چھین لو
گذر راہ الفت سے کرنا نہ آیا
مجھ کو نہ مرے دل کی بری گت کو دیکھئے
کیجئے بے وفائیاں شوق سے ظلم ڈھائیے
دل کے لیے کیا شاد کو ناشاد کریں گے
عہد وفا ہے روح کے ہمراہ جاں کے ساتھ
جس کی دل میں حسرتیں اور گھر می ویرانہ رہے
لہک لہک کے ترے گیت گانے والے نے
دل ہے بے قابو ذرا سی رت بدل جانے کے بعد
دل کھو کے بھی میں دل کی دوا ڈھونڈھ رہا ہوں
یہی ہے محبت کی پہچان منظرؔ
بن کر کلیم اپنے کمال وفا سے ہم
الٰہی ایسی گذر جائے زندگی میری
غم میں دہن زخم جگر چوم رہا ہوں
ان سے اور ان کے شکایات خدا خیر کرے
شاید کچھ ایسے ہوں جنھیں غم سے مفر بھی ہے
فریب کشتی عمر رواں اے دل سمجھتا ہوں
عید کا دن ہوا کرتی تھی ہر اک رات مجھے
دل سے نہ وہی اور ہیں منظرؔ نہ ہمیں اور
دید کی حسرت مچل کر رہ گئی
جنوں کے جوش میں سب عقل وہوش ہار آئے
جنوں کوئی حاضر میں حجت نہیں ہے
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
کسی بیکس پہ کیسا ہی نہ کیوں ہنگام آجائے
کبھی تو بن کے منصف اس طرح انصاف کر ہم سے
عہد شباب رفتہ کیا عہد پر فضا تھا
دیوانگی میں اشکوں سے نہ دھوکے رہ گئے
انجام محبت سے میں بیگانہ نہیں ہوں
ہوا ہے دیدار دوست جب سے کچھ اپنا زور آنکھ پر نہیں ہے
پھل جائے محبت تو محبت ہے محبت
لکھ کر بھی دی تو کیوں دی انھیں دل کی آرزو
دست وحشت تری تفریح کا ساماں ہے ابھی
کچھ ایسا محو تماشائے روز گار رہے
دل دے کے بھردو رنگ مسرت ملال میں
فصل گل ابکی جو آئے تو یہ احساں کرنا
اداس دل کی امنگیں شباب نالا ں ہے
بہاریں اور دل معصوم اسیروں کے مسلتی ہیں
وہاں بھی جو تیری زیارت نہ ہوگی
چمکا ہے یوں نصیب کا تارا کبھی کبھی
آنسو بہا کے رستی ہوئی چشم تر سے ہم
دل کھو کے اس طرح مری حالت بدل گئی
راز کھلتے ہیں ستم کے شکوۂ بیداد سے
جذبۂ بندگئ عشق کچھ ایسا دیکھا
غضب کا میکدے میں آج سوزو ساز ہے ساقی
بری حالت دل جگر ہو رہی ہے
وحشت دل ہوئی اس درجہ نمایاں مجھ سے
فریب وہم ہے منظرؔ تجھے ستاتا ہے
نا مکمل ہے محبت تیرا افسانہ ابھی
یہ بے نیاز یاں بھی گنوائیں تو کیا کریں
نہ خزاں سے ہوں مکدر نہ بہار چاہتا ہوں
تجلی یوں نہیں اوبے خبر معلوم ہوتی ہے
اتنی پیتا ہوں کہ پابندئ ہنگام نہیں
کہیں دل سپرد نظر ہو نہ جائے
ہیں بے نیاز اب غم و رنج خوشی سے ہم
الفت کا جواب الفت ہوتا تو مزا ہوتا
پئے قرار دل بے قرار کھو بیٹھے
ایک گل ہو کے برق تپاں رہ گئی
آنکھوں میں اشک ہوں گے غم ہجر یار سے
چارہ سازی کا فقط نام ہوا کرتا ہے
ان کو ہنسا رہی ہے جامہ دری ہماری
مری وحشت سے اب تو دل بھی بہلایا نہیں جاتا
سب تو سب بے مہر دل بھی وقت تنہائی نہیں
ہو جاتے ہیں روشن دیدۂ دل خورشید نظر ہو جاتی ہے
غضب ہوتا جو رہ جاتے کہیں دل میں نہاں ہو کر
ہم سے اکثر ایسے بھی کار نمایاں ہو گئے
رگوں میں دوڑنا پھرنا عذاب ہو جائے
چشم خیال آج بڑا کام کر گئی
نہ ڈھونڈھ اسیر قفس راحتیں زمانے کی
فردوس کو مخصوص چمن ہم نے بنایا
جز عشق غیر کا متحمل نہیں رہا
پائی تھی خوش خبری دل نے اثر سے پہلے
چھڑی ہے آج مجھ سے آسماں سے
سرشار عشق جھومتا مستانہ آگیا
لگا ؤ محنت برباد کو ٹھکانے سے
اف وہ عاشق کہ جو معشوق اثر ہو جائے
چار تنکوں کا نام آشیاں ہے
سب غرض مند سب ہیں فرزانے
کبھی کبھی جو ہمیں بھی قرار ہوتا ہے
لاکھ خون دل رگوں میں بجلیاں بنتا گیا
نگاہیں میری نگاہوں سے چار کر نہ سکے
مری نگاہ مرے دل کا امتحاں نہ ہوا
تیری ہر سانس میں اک سوز رہے ساز رہے
قرار ہے نہ دل بے قرار باقی ہے
الٰہی ایسا کوئی مجھ سے کام ہو جائے
جنت ملی مجھے در جانا نہ مل گیا
اب نہ ساقی ہے نہ شیشہ ہے نہ پیمانہ مرا
صبح غم میں نہ مسرت کی کسی شام میں ہے
مختلف اشعار
تجھ پہ کوئی آنچ آسکتی نہیں اردوزباں
غلط نامہ
فہرست
تعارف
آمدم بر سر مطلب
نمونہ کلام
منظر اب دل سے نہ رکھ زندہ دلی کی امید
پیش لفظ
مختلف اشعار
چنے تھے پھول مقدر سے بن گئے کاٹے
منظر کی شاعری اور ان کا دیوان
عرض حال
تبصرہ
میرے مالک تری حمد اور ثنا مشکل ہے
حمد باری تعالیٰ ونعت
غصہ قاتل کا نہ بڑھتا ہے نہ کم ہوتا ہے
غزلیات
نزع کا حال و گر گوں چارہ گر دیکھا کئے
تیرا شکوہ نہ تغافل کا گلا کرتے ہیں
ستمگر بے وفا اور عہد وپیماں بھولنے والے
مدت کے بعد ایسی سنائی خبر مجھے
قبر عاشق مٹائی جاتی ہے
کس زباں سے شکوۂ جو رستم آرا کریں
کوئی شاخ گل نہ مخصوص آشیانا چاہئے
صور محشرت ہی سہی نالہ مگر ناکام ہے
کچھ نہ کچھ تو حاصل عرض تمنا ہوگیا
کوئی درد محبت دل سے سنتا تو عیاں کرتے
بہار آنے کی خبریں آرہی ہیں پھر گلستاں سے
بیخود ایسا کیا خوف شب تنہائی نے
وہ کہانی سن کے کہتے ہیں دل ناشاد کی
مرگ عاشق پر فرشتہ موت کا بدنام تھا
شکایت رہے گی نہ شکوارہے گا
پیدا جو ہوا خوف رسوائی جانا نہ
سوز ہے کچھ میرے نالوں میں نہ کوئی ساز ہے
مرنے پہ بھی کام آئی شمع شب تنہائی
کیا کہیں کس طرح اس شوخ کی صورت دیکھی
کئے تو شب کو نالے اضطراب قلب مضطر سے
گرجذبہ وحشت کا اے دل یہی عنواں ہے
مٹانے والے ہمارا ہی گھر مٹانا تھا
نئے نئے ستم وجور آزمانے میں
ہوئی دیوانگی اس درجہ مشہور جہاں میری
لیجئے دل بھی شریک چشم پر فن ہوگیا
خون دل ہوتا ہے ہونے دیجئے
میں بتاؤں تمھیں تم بعد مرے کیا کرنا
غش آنے کا الزام اب الزام نہیں ہے
ازل سے قید ہوں ناواقف بہار ہوں میں
ہجر کی رات کسی طرح بسر ہو تو سہی
مروت کو بھی چھوڑ و خاک ڈالو عہد و پیماں پر
ستم جو چاہے ڈھاؤ خوف کیا ہے
منظرؔ نہ چھپا ان سے اگر درد کہیں ہے
ایک نعمت ترے مہجور کے ہاتھ آئی ہے
وہ جاتے ہیں لٹتا ہے گھر دیکھتے ہیں
جگر پہ بار نہیں دل کو ناگوار نہیں
سوز کہئے سوز میں ہے ساز کہئے ساز میں
بھر سکتے ہیں آہوں میں قیامت کا اثر ہم
آگیا اللہ وہ وقت آگیا میرے لیے
منظرؔ زباں پہ آہ نہ لب پر فغاں رہے
ہو کے عاشق دیکھئے بن کر پر ارماں دیکھئے
مصیبت کو راحت کا عنوان جانا
مہر باں اور نگہ ناز خدا خیر کرے
بنا لیا غم پنہاں سے دل کو دیوانہ
اب اتنا عقل سے بیگانہ ہو گیا ہوں میں
اس سے جی بھر کے ملی داد تمنا مجھ کو
کانپ اٹھیں گے اہل دل دیں گے ملک دہائیاں
اپنی تصویر ہے ہر شیشہ میں پیمانے میں
شوق دیدار بہت دید کا مقدور نہیں
کچھ اس انداز سے مانگا گیا دل
تغافل اور کرم دونوں برابر کرتے تھے
آہیں بھریں گے ہم کبھی نالہ کریں گے ہم
شب ہجر یوں دل کو بہلا رہے ہیں
غیروں میں نہیں تو گلہ بھی نہیں گر پوچھنے والا کوئی نہیں
اف وہ خود میرا مرے حال پہ خنداں ہونا
دل کی خوشی کا کوئی بھی ساماں نہ کرسکے
حسرتوں میں اب یہ اک حسرت ہمارے دل میں ہے
بہار عیش کو رنگیں کیے جا
اپنے سے فریب ان سے دھوکا توبہ توبہ توبہ توبہ
ممکن نہیں کہ سوز کسی ساز میں نہ ہو
بعد میرے آپ نے تکلیف فرمائی تو کیا
مہربانی کی بہت تکلیف فرمائی سہی
کوئی مانگ کر دل جو شرما رہا ہے
جان بھی لے لے جنوں گر رحم امکاں میں نہیں
نہ اب دل نشیں ہوں نہ پہلو نشیں ہوں
مری حد سے مجھ کو سواد یا مری حد سے مجھ کو بڑھا دیا
ستم ان کے تھے جو ر آسماں تھے
عشق میں مرنے کو بدنام کیا جاتا ہے
ہوکے مایوس دل کو موڑ گئے 85
شمع و گل نے سج تو دی محفل تری تیرے بغیر
اس کی رحمت میں اشتباہ نہ کر
موسم گل غم اسیری کا بھلا دیتا ہے
بڑی ساحر نگاہ باغباں معلوم ہوتی ہے
قصیدہ بے سمجھی ہوئی بات کے سمجھانے کا
سوز ہونا چاہیئے کچھ ساز ہونا چاہیئے
نہ لے منظر ؔ آنکھیں انہیں کیاکرے گا
شام غم کچھ کم نہ تھی یو نہیں پریشانی مجھے
نام وفا پہ دے کے جان دل نے وفا خرید لی
دل لے لیا ہے دل کی یہ دولت بھی چھین لو
گذر راہ الفت سے کرنا نہ آیا
مجھ کو نہ مرے دل کی بری گت کو دیکھئے
کیجئے بے وفائیاں شوق سے ظلم ڈھائیے
دل کے لیے کیا شاد کو ناشاد کریں گے
عہد وفا ہے روح کے ہمراہ جاں کے ساتھ
جس کی دل میں حسرتیں اور گھر می ویرانہ رہے
لہک لہک کے ترے گیت گانے والے نے
دل ہے بے قابو ذرا سی رت بدل جانے کے بعد
دل کھو کے بھی میں دل کی دوا ڈھونڈھ رہا ہوں
یہی ہے محبت کی پہچان منظرؔ
بن کر کلیم اپنے کمال وفا سے ہم
الٰہی ایسی گذر جائے زندگی میری
غم میں دہن زخم جگر چوم رہا ہوں
ان سے اور ان کے شکایات خدا خیر کرے
شاید کچھ ایسے ہوں جنھیں غم سے مفر بھی ہے
فریب کشتی عمر رواں اے دل سمجھتا ہوں
عید کا دن ہوا کرتی تھی ہر اک رات مجھے
دل سے نہ وہی اور ہیں منظرؔ نہ ہمیں اور
دید کی حسرت مچل کر رہ گئی
جنوں کے جوش میں سب عقل وہوش ہار آئے
جنوں کوئی حاضر میں حجت نہیں ہے
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
کسی بیکس پہ کیسا ہی نہ کیوں ہنگام آجائے
کبھی تو بن کے منصف اس طرح انصاف کر ہم سے
عہد شباب رفتہ کیا عہد پر فضا تھا
دیوانگی میں اشکوں سے نہ دھوکے رہ گئے
انجام محبت سے میں بیگانہ نہیں ہوں
ہوا ہے دیدار دوست جب سے کچھ اپنا زور آنکھ پر نہیں ہے
پھل جائے محبت تو محبت ہے محبت
لکھ کر بھی دی تو کیوں دی انھیں دل کی آرزو
دست وحشت تری تفریح کا ساماں ہے ابھی
کچھ ایسا محو تماشائے روز گار رہے
دل دے کے بھردو رنگ مسرت ملال میں
فصل گل ابکی جو آئے تو یہ احساں کرنا
اداس دل کی امنگیں شباب نالا ں ہے
بہاریں اور دل معصوم اسیروں کے مسلتی ہیں
وہاں بھی جو تیری زیارت نہ ہوگی
چمکا ہے یوں نصیب کا تارا کبھی کبھی
آنسو بہا کے رستی ہوئی چشم تر سے ہم
دل کھو کے اس طرح مری حالت بدل گئی
راز کھلتے ہیں ستم کے شکوۂ بیداد سے
جذبۂ بندگئ عشق کچھ ایسا دیکھا
غضب کا میکدے میں آج سوزو ساز ہے ساقی
بری حالت دل جگر ہو رہی ہے
وحشت دل ہوئی اس درجہ نمایاں مجھ سے
فریب وہم ہے منظرؔ تجھے ستاتا ہے
نا مکمل ہے محبت تیرا افسانہ ابھی
یہ بے نیاز یاں بھی گنوائیں تو کیا کریں
نہ خزاں سے ہوں مکدر نہ بہار چاہتا ہوں
تجلی یوں نہیں اوبے خبر معلوم ہوتی ہے
اتنی پیتا ہوں کہ پابندئ ہنگام نہیں
کہیں دل سپرد نظر ہو نہ جائے
ہیں بے نیاز اب غم و رنج خوشی سے ہم
الفت کا جواب الفت ہوتا تو مزا ہوتا
پئے قرار دل بے قرار کھو بیٹھے
ایک گل ہو کے برق تپاں رہ گئی
آنکھوں میں اشک ہوں گے غم ہجر یار سے
چارہ سازی کا فقط نام ہوا کرتا ہے
ان کو ہنسا رہی ہے جامہ دری ہماری
مری وحشت سے اب تو دل بھی بہلایا نہیں جاتا
سب تو سب بے مہر دل بھی وقت تنہائی نہیں
ہو جاتے ہیں روشن دیدۂ دل خورشید نظر ہو جاتی ہے
غضب ہوتا جو رہ جاتے کہیں دل میں نہاں ہو کر
ہم سے اکثر ایسے بھی کار نمایاں ہو گئے
رگوں میں دوڑنا پھرنا عذاب ہو جائے
چشم خیال آج بڑا کام کر گئی
نہ ڈھونڈھ اسیر قفس راحتیں زمانے کی
فردوس کو مخصوص چمن ہم نے بنایا
جز عشق غیر کا متحمل نہیں رہا
پائی تھی خوش خبری دل نے اثر سے پہلے
چھڑی ہے آج مجھ سے آسماں سے
سرشار عشق جھومتا مستانہ آگیا
لگا ؤ محنت برباد کو ٹھکانے سے
اف وہ عاشق کہ جو معشوق اثر ہو جائے
چار تنکوں کا نام آشیاں ہے
سب غرض مند سب ہیں فرزانے
کبھی کبھی جو ہمیں بھی قرار ہوتا ہے
لاکھ خون دل رگوں میں بجلیاں بنتا گیا
نگاہیں میری نگاہوں سے چار کر نہ سکے
مری نگاہ مرے دل کا امتحاں نہ ہوا
تیری ہر سانس میں اک سوز رہے ساز رہے
قرار ہے نہ دل بے قرار باقی ہے
الٰہی ایسا کوئی مجھ سے کام ہو جائے
جنت ملی مجھے در جانا نہ مل گیا
اب نہ ساقی ہے نہ شیشہ ہے نہ پیمانہ مرا
صبح غم میں نہ مسرت کی کسی شام میں ہے
مختلف اشعار
تجھ پہ کوئی آنچ آسکتی نہیں اردوزباں
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।