گر کیجے رقم کچھ تری وحدت کے بیان کا
چھوٹا نہ وان تغافل اس اپنے مہر بانکا
کیونکر خدانہ بخشے گنہ اس غلام کا
گر عشق سے کچھ مجھ کو سروکار نہوتا
کرون شکوہ تو بے وسواس میں اس سے نہ آنیکا
عشق کب تک آگ سینہ میں مرے بھڑکائیگا
تیراحسن یہ رونا یونہی اگر رہیگا
ہواسے زلف ورخ میں ہے سماں اے یار رونیکا
زنگ الم کا صیقل ہو کیوں نہ یاررونا
دیکھ آئینہ میں عکس رخ جانا نہ جدا
قیامت مچھپہ سب اوسکا ترحم اور تظلم تھا
رو رو کے کیا ابتر سب کام مرے دلکا
کب میں گلشن میں باغ باغ رہا
کہاں میں کہ بھرتا ہوں دم آپ کا
اک وقت میں کا عشق کا ہمکو خیال تھا
جہاں ثابت قدم رکھنا وہاں سر سے گذرجانا
نہ میں شمع سان سر بسر جل گیا
غیروں میں جو ہمپر وہ غضب تھا
طوفان کرینگے دیدۂ پر آب دیکھنا
اپنی طرف سے ہمنے تمسے بہت نباہا
شب چاندنی میں مکھڑا کسکا دمک رہا تھا
بزم میں تو دیکھ مجھ کو تنگ کیوں ہونے لگا
عشق کا راز گرنہ کھل جاتا
اس کمان ابروپہ جو قربان ہوا
دل جلا یا بھڑک جگر اٹھا
دل کو صنم لیکے جدا ہوگیا
کیا پوچھتے ہو یارو حال تباہ میرا
لاشے کے ساتھ میرے کاہیکو کوئی چلیگا
اس عشق میں جو قدم درھیچکا
تڑپے ہے بہت یہ دل افکار ہمارا
اس کمان ابرو پہ جو قربان ہوا
دل جلا یا بھرک جگر اٹھا
لاشے کے ساتھ میرے کاہیکو کوئی چلیگا
خط کا قاصد نہ جو اب اسکے اگر لادیگا
مین ہی نہ غم کو ہستی کا سامان دیچکا
گر اسکا یہی آہ وافغان رہیگا
کرعشق یوہین دلپر جوروجفا کریگا
یہ سینہ بھی جائے قدم تھا کسیکا
جسنے کہ مئے عشق سے اک جام نپایا
کیا جانے اسکے جی پر کیا کچھ خیال گذرا
آتش غم نے ملک دل پھونک دیا جلا دیا
اور تو کون مری بات کو پہچانیگا
حجاب عشق گر ہائل نہو تا
آسان نہ سمجھیو تم نخوت سے پاک ہونا
افتادگی جو چاہے تو رکھ ہوش نقش پا
مت پوچھ کہ رحم اسکو مرے حالیہ کب تھا
کب قفس سے میں انہیں دیکھ پکارانکیا
لے صبح سے تا شام اسی نام کو جپنا
پیغام نہ ملنے کا مجھے یار نے بھیجا
جو منھ میں آیا اسکے سوغصہ سے کہہ گیا
مجھ سے ہوا نشے میں ہم آغوش آشنا
تھی مقدّر دلکی واشد دلستان کے زیر پا
اسکی ہوا میں ایدل چشم پر آب رکھنا
اتنی جاگہ نہ ملی اور کہیں مجھ کو کیا
غیروں کا تو ڈر کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
میرے آتے ہی تمہیں سیر کو جانا کیا تھا
دور سے باغ جہاں دکھلا کے دیوانا کیا
جاتا تھا اسکی کھوج میں میں بیخبر چلا
انصاف تیرے منھ سے سچ ہے کلام تیرا
تماشا کر نگاہ لطف سے اکبار نرگس کا
مطلب کچھ اور عشق سے تھا کام کچھ ہوا
ہوا نہ غم تجھے کچھ میری جانگداز یکا
یہ جو کچھ قیل وقال پہ اپنا
آشنا بیوفا نہیں ہوتا
قاصد یہی کہتا ہے شب وہ نہیں آنیکا
یہ مت کہنا کہ میرا دیکھنا کن کو نہ ملتا تھا
تیرہ بختی کو اپنی کھو نہ سکا
پڑا تھا کیا عدم میں آتش غم سے تری پالا
سر سبز ذکر کب ہو مجنون کی آفتونکا
اسکے بالوں میں جب پھلیل پڑا
جسنے ملنے پہ تمھارے دو جہاں چھوڑدیا
صبا کے ہاتھ سے خط گلعذار کا پہونچا
تونے بھی عشق کا خیال کیا
عشق نے پہلے یہ شگون کیا
نہ کچھ منھ سے کہا اسنے نہ مجھکو ہاتھ سے مارا
ہجر کارونا اسے آنکھوں سے دکھلاتا رہا
غمخانۂ دل عیش کا گھر ہو ویگا یارب
ظلمت و نور سب آجائے نظر آخر شب
ایک دل تونے کیا میرے خدا یا قسمت
تم نہ ہنستے ہو کچھ نہ کہتے ہو بات
روشن نہیں میں دیدۂ نمناک کے باعث
دل دیا ہمنے تجھ کو یار عبث
ہوا کیا خواب تم آئے یہاں آج
کوئی خدا کہے ہے کوئی رام وقت صبح
ہم گئے بھول اسے دیکھ کے پرواز کی طرح
لعل ویاقوت ایسے کب ہیں سرخ
خلق کا خٰون کر رہا ہے شوخ
مرنے کے بعد گل کے ہوا اور ہوس کےپیچ
خط اسے لکھنے کو جسوقت منگایا کاغذ
کسی کی سنتے نہیں آہ یہ بتان فریاد
جزاشک بلبل اب نہیں گل شاخسار پر
اے دل خفا نہ ہونا اپنی کدورتون پر
دیتا ہے یوں دھوانسایہ دلکا داغ جلکر
لگا رکھ دل کو میرے زلف چشم یار کی خاطر
وصل بھی ہوگا حسن تو ٹک تو استقلال کر
اے گرد باد طرف چمن ٹک گذار کر
غزل ہذا اور تعریف پل میان الماس
دورستا ہے تبو نکا فرض ہے جانا وہاں کل پر
ہے دھیان جو اپنا کہیں اے ماہ جبیں اور
جس طرح ہو کوئی حیران روے حیران دیکھ کر
ہیں تیرے برو مژہ جیسے صنم شمشیر وتیر
نہ رہا گل نہ خار ہی آخر
کیا مغرور اسکو آپ اپنا حال کہہ کر
ہم قتل ہوگئے نہیں تجھ کو خبر ہنوز
حد سے در گذرا ہمارا اس طرف عجزونیاز
ہے سینۂ پر داغ نہیں پیکر طاؤس
کی فکر ہے معاد کی اور نہ غم معاش
سر گرم مرے سینہ میں ہوتی ہے جب آتش
ہے کون کون لوں میں کس کس کا نام مخلص
اب کہاں لطف یار اور اخلاص
ہمسے کر تو کہ یا نکر اخلاص
جی لگا کر تجھ سے جو کچھ کی سوکی دلنے غرض
ہمنے لکھ لکھ کے بھیجے کیا کیا خط
نہ باغ سے غرض ہے نہ گلزار سے غرض
گل کے اْآنے سے کب میں تھا مخطوظ
قیامت سنگدل کو دل دیا تونے خدا حافظ
جانان سے دل حسن کا کہیں ہیں پھرا غلط
جب چمن سے ہوا نگار وداع
اوراق دلپہ لکھا ہے الفت کا میرے لفظ
سبکو ہے منظور اس رخسار گلگوں کی طرف
مشتعل یوں ہوا ہے دلکا داغ
ہے سرح میرے خون سے جو تیری نگار تیغ
مثل پتنگ ہو وے گا آخر نثار عشق
کہتا ہے کوئی شمع اسے کوئی داغ عشق
جب تلک تیر ترا آوے ہے نخچیر تلک
دل بچھڑ کر جو چلا اس بت مغرور تلک
ٹک دیکھ لین چمن کو چلو لالہ زار تک
رکھتا ہے صلح سب سے دل اسکا پہ مجھ سے جنگ
آباد شہر دل تھا اسی شہر یار تک
ہے بیکسی کے غم سے یہ از بس پتنگ دل
دیکھ کر باغ میں نگار کا رنگ
نتو ااہ ونالہ ہی نکلے ہے نہ اٹھے ہے کل سے صداے دل
رکھتا ہے صلح سب سے دل اسکا پہ مجھسے جنگ
ٹک دیکھ لیں چمن کو چلو لالہ زار تک
آباد شہر دل تھا اسی شہر یار تک
نتو آہ ونالہ ہے نکلے ہے نہ اٹھے ہے کل سے صداے دل
دیکھ کر باغ میں نگار کا رنگ
ہے بیکسی کے غم سے یہ از بس پتنگ دل
بندھ گیا جسکا تیرے داغ سے دل
کیا کہیں پوچھ مت کہیں ہیں ہم
نہ غرض مجھ کو ہے کافرسے نہ دیندار سے کام
خانہ دیرا نو کو ابتو کرتے ہونا شاد تم
شمع سان شب کے میہمان ہیں ہم
زلف سے تھا ہی پہ کا کل نے دیا غم پر غم
سوز دل کا ذکر اپنے منھ پہ جب لاتے ہیں ہم
نزع میں دیکھ کے تو مجھ کو نر و دم پر دم
دل غم سے ترے لگا گئے ہم
جگر سوختہ ہیں اور دل بر یان ہیں ہم
بس دل کا غبار دھو چکے ہم
جب ادھر دے بندہ پر دراپنے لاتے ہیں قدم
آن کر غمکدۂ دھر میں جو بیٹھے ہم
گل ہے زخمی بہار کے ہاتھوں
صیاد کی مرضی ہے کہ اب گل کی ہوس میں
ضعف سے نالے نہیں گو اب دل ناشاد میں
اس دل میں اپنی جان کبھی ہے کبھی نہیں
کسی موسم کی وہ باتیں جو تیری یاد کرتا ہوں
اسکے جب بزم سے ہم ہو کے بتنگ آتے ہیں
اپنے دل سے تو کبھی ہم ترا شکوا نکریں
ہم نہ ہنستے ہیں اور نہ روتے ہیں
یا صبر ہو ہمیں کو اس طرف جو نہ نکلیں
جس روز سے اس بزم میں ہشیار ہوا ہوں
تم تو کہتے ہو کہ میں جورو جفا رکھتا ہوں
بس گیا جب سے یار آنکھوں میں
پھرے ہے جب سے کہ وہ گلعذار آنکھوں میں
داغ فراق دل میں اور درد عشق جی میں
مرگئے یوں ہی تیرے ہم غم میں
مرے بن باغ میں جسوقت غنچے گل کے کھلتے ہیں
مہمان تھاکل عجب ہونے سے تیرے شوخْ محفل میں
وصل ہونے سے بھی کچھ دل کے تئیں سود نہیں
شام کو دیکھ کے اس مہہ کی جھلک پانی میں
صیاد ہمکو لے تو گیا لالہ زار میں
رہتے ہیں خوار خستہ بیماروں کے ہاتھوں
دل مرا آج میرے پاس نہیں
چل دل اسکی گلی میں روآدین
نظر کر وحدت وکثرت بہم شامل ہیں شیشہ میں
عشق کے جیسے پیچ وتاب میں ہیں
یوں جلوہ گر ہے وہ مرے چشم پر آب میں
نہ برگ ہوں میں گل کانہ لالے کا شجر ہوں
کہیں جو دل نہ لگادیں تو پھر اداس پھریں
جی نکلتا ہے ادھر اور وہ گذر کرتا نہیں
کون کرتا ہے سر زلف کی باتیں دل میں
ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں جو مہکتے جاویں
کیا قیامت ہے کہ تجھسے یار اب بنتی نہیں
نہ ہم دعا سے اب نہ وفا سے طلب کریں
دلدار دل اس طرح مبہم آئے نظر میں
دل کو اس شوخ کے کوچہ میں دھرے آتے ہیں
مزا بیہوشیٔ الفت کا ہشیاروں سے مت پوچھو
غم نے کیا ہے کسکے زار نزار دل کو
صبا اب سوگ ہے کس کا چمن میں عندلیبان کو
وصل میں جسکو بیقراری ہو
دوستان مجھ کو تم اس شوخ تلک جانے دو
وفا دار ہو یا جفا کار تم ہو
جگر کے ٹکڑے کرنے کو اور اپنے جی کے کھونے کو
مجھ کو عاشق کہکے اسکے رو برو مت کیجیو
غم نگار سے جو دل کہ داغدار نہو
کہیو صبا پہ ساقی غفلت شعار کو
ہوئے ہیں عشق کے بیمار دیکھتے کیا ہو
غیر کو تم نہ آنکھ بھر دیکھو
مجھے چون ابر تصویر اب نہں ہے رخصت گریہ
وہ پیار اب رہا نہ ترا اور نہ چاہ وہ
مجھسے اب وہ نر ہی اس بت عیار کی آنکھ
منھ دیکھتے ہی اسکا آنسو مرا بہا نہ
کہتا نہ تھا میں اے دل تو اس سے جی لگانہ
دل کے مانند کہیں ہونہ فگار آئینہ
ہوکر ترے جلوہ کے خریدار ہمیشہ
دید کی سدراہ ہے یہ مژہ
خواہ سچ جان مری بات کو تو خواہ کہ جھوٹھ
ہمدم نہ پوچھ مجھسے غرض اک بلا ہی وہ
دامن کو اسکے کھینچیں اغیار سب طرف سے
نرگس پہ کل نگہہ جو تری ٹک پلٹ گئی
مجنوں کو اپنے لیلی کا محمل عزیز ہے
سیر ہے تجھسے مری جان جدھر کو چلیے
شب جو تم جسے خفا ہو کر سحر کو اٹھ گئے
ہم نہ تنہا اس گلی سے جان کو کھو کر اٹھ گئے
شمع سان اپنی ہی ہستی سے ستم ہمنے سہے
اسکے کوچے سے صبا گر ادھر آجاتی ہے
ہوا کیا ظلم ہمپر آہ اس طاقت کے جانے سے
قفس تک کیا چلی تھی باغبان کو گل کے لانے کی
ہوئی ہے خویہا تک چشم کو حیرت سے تکنے کی
آنکھوں میں ہیں حقیر جس تس کے
پھر جگر سے آہ اٹھی اور طپش اسدم ہوئی
پھر اگر دل یہ مرا نالہ کی بنیاد کرے
گر گئے چھڑیوں سے یہ کٹ کٹ کے
پھر اگر دل یہ مرا نالہ کی بنیاد کرے
منھ اپنا خشک ہے اور چشم تر ہے
تیرا خیال ابر ودل میں اگر نہودے
دیکھیں گے پھر ان آنکھوں سے ہم روے یار بھی
ہے جاے حذر ڈر یو ذرا چشم بتاں سے
سوکی اک بات میں کہی تو ہے
ہم باغبان کے ہاتھوں یوں اجڑے اس چمن سے
کیونکر بھلا لگے نہ وہ دلدار دور سے
الٰہی یاتو یہ بیتاب دل سنبھل جاوے
تڑپنے کی نہیں نکلی ہے حسرت تیرے بسمل سے
رہنے ندیگا اس بن یہ دل تو ایکدم بھی
ترے بغیر تو نخل امید بارند ے
ہزار حیف کچھ اپنی ہمیں خبر نہ ہوئی
نہ آہ حزیں ہے نہ دل غمزدہ یان ہے
جو ہے وہ تیری چشم کا بادہ پرست ہے
کیا جانیے کہ شمع سے کیا صبح کہ گئی
کوئی نہیں کہ یار کی لادے خبر مجھے
نہ ہم میں اب تو ان ہی نہ اس دل میں تاب ہے
نالوں سے کیا حسن کے تو اسقدرکے ہے
وصل کا عیش کہاں پر غم ہجران تو ہے
کل جو تم ابیدھر سے گذرے ہم نظر کر رہگئے
صبا سے یہ کہا رو رو کے کل گلشن میں بلبل نے
مل گئے اپنے یار سے ابکی
آنکھوں سے خون اپنے یہ کہتا نہیں نجائے
گر واقعی مزاج میں تیرے غرور ہے
کیسا خاک صبر آوے اور کیا قرار ہووے
جان میں میری جان آئی تھی
یار گر اپنے پاس ہو جاوے
شب فراق میں اے کاش دم نکل جاوے
شمع سان رات کیا سنی ہمنے
عرق کو دیکھ منہ پر تیرے پیارے
میں کہا تھا کبھی سے یہ کچھ ہے
گاون کو دیکھ کے تجھ بن تو اور داغ ہوے
کبھی جو اس سے ملاقات مجھسے ہو ویگی
گر چمن میں تو اٹھ کے چل بیٹھے
شمع کہتی تھی یہی شام سے بلتے بلتے
ہم سے تو کسی کام کی بنیاد نہ ہووے
کیوں مان دنوں حسن تو اتنا جھٹک گیا ہے
نہ ہم ہوش میں مے پرستی سے گذرے
کبھی کبھی جو مرے دل میں ہوش آتا ہے
دل کی زمین سے کونسی بہتر زمین ہے
آپ کو اسنے اب ترا شاہی
تم پاس سے جو اپنے غیروں میں جاکے بیٹھے
وہ طبیعت کی کجی اور وہ رکھائی نہ گئی
اتنے آنسو تو نہ تھے دیدۂ ترکے آگے
رات غیروں کا بیان آہ وزاری کر گئے
رونے میں خون دل کے صورت ہزار دیکھی
تنہا نہ ایک نرگس ڈھل ڈھل کے دیکھتی ہے
منھ کہاں یہ کہ کہوں جائیے اور سورہیئے
جلد حسن وجمال جاتا ہے
ہم سے گر محجوب ہو کر نازنین رہ جائیں گے
بین نے دشمن سے دوستداری کی
کئی دن تیرے چھپ رہنے میں اشک آنکھوں سے برسا ہے
ترا ہر چندول پتھر سے بھی کچھ سخت ترسا ہے
نغمہ وعشق سے ہیں سبحہ وزنار ملے
تمہیں کچھ ایک نہ دنیا میں جفا کار ملے
لو دل پر اسکی تیغ سے بیداد ہوگئی
سب نقش اس فلک کے نگینے پہ آرہے
نگہ سے چشم سے نازو ادا سے
بسکہ چون بدر زمانہ یہ گھٹاتا ہے مجھے
بو الہوس ہو اسے اسے چاہے
دل ہی نہ جان دینے پر اپنی دلیر ہے
یان سے پیغام جو لیکر گئے معقول گئے
نہ فقہ نہ منطق نہ حکمت کارسالہ ہے
محبت میں تری جب مجھ کو عالم نے ملامت کی
نوجوانی کی دید کر لیجے
وہ نہیں ہم جو ڈر ہی جاوینگے
کیوں رنگ سرخ تیرا اب زرد ہو گیا ہے
دل جنھوں نے کہیں لگائے تھے
دیکھنے بیٹھا جو وہ مہ اپنے گھر کی چاندنی
صید کو دل کے جال رکھوئے
نہ خیال دل نہ فکر جان ہے
بس ہے اتنا ہی تیرا پیار مجھے
جو چاہے آپ کو تو اسے کیا نہ چاہیے
میں یہ کہتا نہیں کوئی بت دلخواہ ملے
کیا چھیڑ کے پوچھے ہے کہ گھر تیرا یہیں ہے
وہ دلبری کا اسکی جو کچھ حال ہے سو ہے
صورت نہ ہمنے دیکھی حرم کی نہ دیر کی
کہنے کی ہیں باتیں کس بن نہیں گذرتی
میں کس طرح کہوں انسان سے خطا نہووے
تیری مددسے تیرا ادراک ہوسکے ہے
دیکھ دروازے سے مجھ کو وہ پر یروہٹ گئی
صنم پاس ہے اور شب ماہ ہے
آپ میں اب کی اگر ہم آئینگے
ابروسے اور مژہ سے عالم کی جان لی ہے
ہر ایک دل وجان کے مرغوب نظر آئے
چرخ کی جس سے دوستی تونے
جو دن کو شور وافغان ہے تو شب کو آہ وزاری ہے
کہتا نہیں کہ مجھسے ہر اک خوبرو ملے
مزے نہ دیکھے کبھی ہم نے زندگانی کے
گر بخت اپنی جاگین تو اک کام کیجیے
عالم ہی تب کچھ اور تھے اور ڈھنگ اور ہی
نظروں میں اسنے مجھ سے اشارات آج کی
وہ عشق کی گرمی نہیں دو چار برس سے
اس ڈر سے میں نے زلف کی اسکی نبات کی
غفلت سے چونکنے بھی نہ پائے کہ مرگئے
اسکی جب بات کان پڑتی ہے
کہہ بیٹھ نہ دل جی ترا جس بت سے لگا ہے
یار کا دھیان ہم نہ چھوڑ ینگے
مومن و کافر پہ کیا سب کو ندا سے خیز ہے
آج دل بیقرار ہی کیا ہے
جان ودل ہیں اداس سے میرے
ہم تو ہیں تجھ زلف ہے سے سر بسر باندھے ہوئے
یوں غیر کچھ کہیں تو بلا کر بری لگے
نہ ملا وہ لفاق کے مارے
ہیکلی مجھ کو نہیں ہر گلبدن کے واسطے
تیر پر تیر لگے تو بھی نہ پیکان نکلے
جس شخص کی ہو زیست فقط نام سے تیرے
آہون سے مرے گھر میں ہوا گرم رہیگی
دلبرسےہم اپنے جب ملیں گے
جان میں جان تبھی قیس کے بس آتی ہے
مجموعہ حصہ دوم
ہے سردیوان جو بہر حمد نام اللہ کا
حور پر آنکھ نہ ڈالے کبھی شیدا تیرا
جلوہ ہے ہر رنگ میں خلاّق بے اشباہ کا
توحید میں مقام نہیں قال وقیل کا
آنکھیں بیکار ہیں دیکھیں جو نہ صورت تیری
حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا
کیا تصور کو ہے نسبت کنہ ذات پاک سے
کوئی شے جو پہونچے بحد کمال
اے دیکھنے والے اس رقم کے
ہے نجشش خدیوجہاں پرور آب میں
ملائک کی رگ جان کا ہے سہرا
جس انسان کو سگ دنیا نپا یا
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
باتیں اللہ سے کرے جو وہ گویا ہوتا
دل صاف ہوا آئنہ رو نظر آیا
چرخ پر ماہ محرم جب نمایاں ہوگیا
میں کیا کہوں جو قیصر و خاقان لیگئے
آمد شہزاد ہے گلشن ہے سارا لکھنؤ
تجھی کو جو یان جلوہ فرمانہ دیکھا
خزان کے ہاتھ سے گلشن میں خار تک نرہا
گئی تاب و توان وصبراب نالہ کنان ہوں میں
شہد میں جیسے مگس ہم حرص میں پابند ہیں
خطاے خصم نہیں کچھ یہ بخت کا ہے قصور
سردی اب کی برس ہے اتنی شدید
کیوں ہو اس قدر ہے عالم سوز
زہے نشاط اگر کیجیے اسے تحریر
علم ظنی ہے طبابت تو یہ سن رکھ ہمدم
نہایت جوش پردریا ہے اپنی طبع موزوں کا
شاعرانہ مذاق
تو سن طبع کو کرتا ہوں میں کوڑا کیا کیا
نیرنگی زمانہ
قصیدہ در مدح نصیر الدین حیدر بادشاہ
ہوے ہیں خاک میں پیوند مہر بان کیا کیا
تلوار کی تعریف
اے بحر فیض دکان عطا اے سحاب علم
حال بیتابی عیاں اشکوں سے سب پر ہوگیا
سبز باغ دہر میں برگ خزاں ہوتا نہیں
بلندیوں پر ہے اپنی پستی یہ اوج کس خاکسار میں ہے
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
بظاہر بیکسی گور غریباں پر پرستی ہے
جو عرش سے ہے فرش تلک وہ اسی میں ہے
دے مجھے خلعت شہادت کا خدا کیواسطے
اے شاہ جہاں جہاں بخش جہاں دار
پھر شجر سر سبز ہیں کہتے ہیں آتی ہے بہار
صبر وطاقت لیے جاتی ہے جدائی تیری
تپ دردن کا بیان حال کیا کرے رنجور
اے شہنشاہ فلک منظر بے مثل ونظیر
تم رنگ ہو سخن میں تم پھول ہو چمن میں
منظور ہے گذارش احوال واقعی
نہ درویشوں کا خرقہ چاہیے نہ تاج شاہانہ
ہلال آسمان بنجاے نعل اشہب خامہ
انہیں آتش کے پرکالوں میں ہے بجلی کی جوانی
مجسا رستم ہے کوئی دنیا میں کہ انصاف سے
گر کیجے رقم کچھ تری وحدت کے بیان کا
چھوٹا نہ وان تغافل اس اپنے مہر بانکا
کیونکر خدانہ بخشے گنہ اس غلام کا
گر عشق سے کچھ مجھ کو سروکار نہوتا
کرون شکوہ تو بے وسواس میں اس سے نہ آنیکا
عشق کب تک آگ سینہ میں مرے بھڑکائیگا
تیراحسن یہ رونا یونہی اگر رہیگا
ہواسے زلف ورخ میں ہے سماں اے یار رونیکا
زنگ الم کا صیقل ہو کیوں نہ یاررونا
دیکھ آئینہ میں عکس رخ جانا نہ جدا
قیامت مچھپہ سب اوسکا ترحم اور تظلم تھا
رو رو کے کیا ابتر سب کام مرے دلکا
کب میں گلشن میں باغ باغ رہا
کہاں میں کہ بھرتا ہوں دم آپ کا
اک وقت میں کا عشق کا ہمکو خیال تھا
جہاں ثابت قدم رکھنا وہاں سر سے گذرجانا
نہ میں شمع سان سر بسر جل گیا
غیروں میں جو ہمپر وہ غضب تھا
طوفان کرینگے دیدۂ پر آب دیکھنا
اپنی طرف سے ہمنے تمسے بہت نباہا
شب چاندنی میں مکھڑا کسکا دمک رہا تھا
بزم میں تو دیکھ مجھ کو تنگ کیوں ہونے لگا
عشق کا راز گرنہ کھل جاتا
اس کمان ابروپہ جو قربان ہوا
دل جلا یا بھڑک جگر اٹھا
دل کو صنم لیکے جدا ہوگیا
کیا پوچھتے ہو یارو حال تباہ میرا
لاشے کے ساتھ میرے کاہیکو کوئی چلیگا
اس عشق میں جو قدم درھیچکا
تڑپے ہے بہت یہ دل افکار ہمارا
اس کمان ابرو پہ جو قربان ہوا
دل جلا یا بھرک جگر اٹھا
لاشے کے ساتھ میرے کاہیکو کوئی چلیگا
خط کا قاصد نہ جو اب اسکے اگر لادیگا
مین ہی نہ غم کو ہستی کا سامان دیچکا
گر اسکا یہی آہ وافغان رہیگا
کرعشق یوہین دلپر جوروجفا کریگا
یہ سینہ بھی جائے قدم تھا کسیکا
جسنے کہ مئے عشق سے اک جام نپایا
کیا جانے اسکے جی پر کیا کچھ خیال گذرا
آتش غم نے ملک دل پھونک دیا جلا دیا
اور تو کون مری بات کو پہچانیگا
حجاب عشق گر ہائل نہو تا
آسان نہ سمجھیو تم نخوت سے پاک ہونا
افتادگی جو چاہے تو رکھ ہوش نقش پا
مت پوچھ کہ رحم اسکو مرے حالیہ کب تھا
کب قفس سے میں انہیں دیکھ پکارانکیا
لے صبح سے تا شام اسی نام کو جپنا
پیغام نہ ملنے کا مجھے یار نے بھیجا
جو منھ میں آیا اسکے سوغصہ سے کہہ گیا
مجھ سے ہوا نشے میں ہم آغوش آشنا
تھی مقدّر دلکی واشد دلستان کے زیر پا
اسکی ہوا میں ایدل چشم پر آب رکھنا
اتنی جاگہ نہ ملی اور کہیں مجھ کو کیا
غیروں کا تو ڈر کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
میرے آتے ہی تمہیں سیر کو جانا کیا تھا
دور سے باغ جہاں دکھلا کے دیوانا کیا
جاتا تھا اسکی کھوج میں میں بیخبر چلا
انصاف تیرے منھ سے سچ ہے کلام تیرا
تماشا کر نگاہ لطف سے اکبار نرگس کا
مطلب کچھ اور عشق سے تھا کام کچھ ہوا
ہوا نہ غم تجھے کچھ میری جانگداز یکا
یہ جو کچھ قیل وقال پہ اپنا
آشنا بیوفا نہیں ہوتا
قاصد یہی کہتا ہے شب وہ نہیں آنیکا
یہ مت کہنا کہ میرا دیکھنا کن کو نہ ملتا تھا
تیرہ بختی کو اپنی کھو نہ سکا
پڑا تھا کیا عدم میں آتش غم سے تری پالا
سر سبز ذکر کب ہو مجنون کی آفتونکا
اسکے بالوں میں جب پھلیل پڑا
جسنے ملنے پہ تمھارے دو جہاں چھوڑدیا
صبا کے ہاتھ سے خط گلعذار کا پہونچا
تونے بھی عشق کا خیال کیا
عشق نے پہلے یہ شگون کیا
نہ کچھ منھ سے کہا اسنے نہ مجھکو ہاتھ سے مارا
ہجر کارونا اسے آنکھوں سے دکھلاتا رہا
غمخانۂ دل عیش کا گھر ہو ویگا یارب
ظلمت و نور سب آجائے نظر آخر شب
ایک دل تونے کیا میرے خدا یا قسمت
تم نہ ہنستے ہو کچھ نہ کہتے ہو بات
روشن نہیں میں دیدۂ نمناک کے باعث
دل دیا ہمنے تجھ کو یار عبث
ہوا کیا خواب تم آئے یہاں آج
کوئی خدا کہے ہے کوئی رام وقت صبح
ہم گئے بھول اسے دیکھ کے پرواز کی طرح
لعل ویاقوت ایسے کب ہیں سرخ
خلق کا خٰون کر رہا ہے شوخ
مرنے کے بعد گل کے ہوا اور ہوس کےپیچ
خط اسے لکھنے کو جسوقت منگایا کاغذ
کسی کی سنتے نہیں آہ یہ بتان فریاد
جزاشک بلبل اب نہیں گل شاخسار پر
اے دل خفا نہ ہونا اپنی کدورتون پر
دیتا ہے یوں دھوانسایہ دلکا داغ جلکر
لگا رکھ دل کو میرے زلف چشم یار کی خاطر
وصل بھی ہوگا حسن تو ٹک تو استقلال کر
اے گرد باد طرف چمن ٹک گذار کر
غزل ہذا اور تعریف پل میان الماس
دورستا ہے تبو نکا فرض ہے جانا وہاں کل پر
ہے دھیان جو اپنا کہیں اے ماہ جبیں اور
جس طرح ہو کوئی حیران روے حیران دیکھ کر
ہیں تیرے برو مژہ جیسے صنم شمشیر وتیر
نہ رہا گل نہ خار ہی آخر
کیا مغرور اسکو آپ اپنا حال کہہ کر
ہم قتل ہوگئے نہیں تجھ کو خبر ہنوز
حد سے در گذرا ہمارا اس طرف عجزونیاز
ہے سینۂ پر داغ نہیں پیکر طاؤس
کی فکر ہے معاد کی اور نہ غم معاش
سر گرم مرے سینہ میں ہوتی ہے جب آتش
ہے کون کون لوں میں کس کس کا نام مخلص
اب کہاں لطف یار اور اخلاص
ہمسے کر تو کہ یا نکر اخلاص
جی لگا کر تجھ سے جو کچھ کی سوکی دلنے غرض
ہمنے لکھ لکھ کے بھیجے کیا کیا خط
نہ باغ سے غرض ہے نہ گلزار سے غرض
گل کے اْآنے سے کب میں تھا مخطوظ
قیامت سنگدل کو دل دیا تونے خدا حافظ
جانان سے دل حسن کا کہیں ہیں پھرا غلط
جب چمن سے ہوا نگار وداع
اوراق دلپہ لکھا ہے الفت کا میرے لفظ
سبکو ہے منظور اس رخسار گلگوں کی طرف
مشتعل یوں ہوا ہے دلکا داغ
ہے سرح میرے خون سے جو تیری نگار تیغ
مثل پتنگ ہو وے گا آخر نثار عشق
کہتا ہے کوئی شمع اسے کوئی داغ عشق
جب تلک تیر ترا آوے ہے نخچیر تلک
دل بچھڑ کر جو چلا اس بت مغرور تلک
ٹک دیکھ لین چمن کو چلو لالہ زار تک
رکھتا ہے صلح سب سے دل اسکا پہ مجھ سے جنگ
آباد شہر دل تھا اسی شہر یار تک
ہے بیکسی کے غم سے یہ از بس پتنگ دل
دیکھ کر باغ میں نگار کا رنگ
نتو ااہ ونالہ ہی نکلے ہے نہ اٹھے ہے کل سے صداے دل
رکھتا ہے صلح سب سے دل اسکا پہ مجھسے جنگ
ٹک دیکھ لیں چمن کو چلو لالہ زار تک
آباد شہر دل تھا اسی شہر یار تک
نتو آہ ونالہ ہے نکلے ہے نہ اٹھے ہے کل سے صداے دل
دیکھ کر باغ میں نگار کا رنگ
ہے بیکسی کے غم سے یہ از بس پتنگ دل
بندھ گیا جسکا تیرے داغ سے دل
کیا کہیں پوچھ مت کہیں ہیں ہم
نہ غرض مجھ کو ہے کافرسے نہ دیندار سے کام
خانہ دیرا نو کو ابتو کرتے ہونا شاد تم
شمع سان شب کے میہمان ہیں ہم
زلف سے تھا ہی پہ کا کل نے دیا غم پر غم
سوز دل کا ذکر اپنے منھ پہ جب لاتے ہیں ہم
نزع میں دیکھ کے تو مجھ کو نر و دم پر دم
دل غم سے ترے لگا گئے ہم
جگر سوختہ ہیں اور دل بر یان ہیں ہم
بس دل کا غبار دھو چکے ہم
جب ادھر دے بندہ پر دراپنے لاتے ہیں قدم
آن کر غمکدۂ دھر میں جو بیٹھے ہم
گل ہے زخمی بہار کے ہاتھوں
صیاد کی مرضی ہے کہ اب گل کی ہوس میں
ضعف سے نالے نہیں گو اب دل ناشاد میں
اس دل میں اپنی جان کبھی ہے کبھی نہیں
کسی موسم کی وہ باتیں جو تیری یاد کرتا ہوں
اسکے جب بزم سے ہم ہو کے بتنگ آتے ہیں
اپنے دل سے تو کبھی ہم ترا شکوا نکریں
ہم نہ ہنستے ہیں اور نہ روتے ہیں
یا صبر ہو ہمیں کو اس طرف جو نہ نکلیں
جس روز سے اس بزم میں ہشیار ہوا ہوں
تم تو کہتے ہو کہ میں جورو جفا رکھتا ہوں
بس گیا جب سے یار آنکھوں میں
پھرے ہے جب سے کہ وہ گلعذار آنکھوں میں
داغ فراق دل میں اور درد عشق جی میں
مرگئے یوں ہی تیرے ہم غم میں
مرے بن باغ میں جسوقت غنچے گل کے کھلتے ہیں
مہمان تھاکل عجب ہونے سے تیرے شوخْ محفل میں
وصل ہونے سے بھی کچھ دل کے تئیں سود نہیں
شام کو دیکھ کے اس مہہ کی جھلک پانی میں
صیاد ہمکو لے تو گیا لالہ زار میں
رہتے ہیں خوار خستہ بیماروں کے ہاتھوں
دل مرا آج میرے پاس نہیں
چل دل اسکی گلی میں روآدین
نظر کر وحدت وکثرت بہم شامل ہیں شیشہ میں
عشق کے جیسے پیچ وتاب میں ہیں
یوں جلوہ گر ہے وہ مرے چشم پر آب میں
نہ برگ ہوں میں گل کانہ لالے کا شجر ہوں
کہیں جو دل نہ لگادیں تو پھر اداس پھریں
جی نکلتا ہے ادھر اور وہ گذر کرتا نہیں
کون کرتا ہے سر زلف کی باتیں دل میں
ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں جو مہکتے جاویں
کیا قیامت ہے کہ تجھسے یار اب بنتی نہیں
نہ ہم دعا سے اب نہ وفا سے طلب کریں
دلدار دل اس طرح مبہم آئے نظر میں
دل کو اس شوخ کے کوچہ میں دھرے آتے ہیں
مزا بیہوشیٔ الفت کا ہشیاروں سے مت پوچھو
غم نے کیا ہے کسکے زار نزار دل کو
صبا اب سوگ ہے کس کا چمن میں عندلیبان کو
وصل میں جسکو بیقراری ہو
دوستان مجھ کو تم اس شوخ تلک جانے دو
وفا دار ہو یا جفا کار تم ہو
جگر کے ٹکڑے کرنے کو اور اپنے جی کے کھونے کو
مجھ کو عاشق کہکے اسکے رو برو مت کیجیو
غم نگار سے جو دل کہ داغدار نہو
کہیو صبا پہ ساقی غفلت شعار کو
ہوئے ہیں عشق کے بیمار دیکھتے کیا ہو
غیر کو تم نہ آنکھ بھر دیکھو
مجھے چون ابر تصویر اب نہں ہے رخصت گریہ
وہ پیار اب رہا نہ ترا اور نہ چاہ وہ
مجھسے اب وہ نر ہی اس بت عیار کی آنکھ
منھ دیکھتے ہی اسکا آنسو مرا بہا نہ
کہتا نہ تھا میں اے دل تو اس سے جی لگانہ
دل کے مانند کہیں ہونہ فگار آئینہ
ہوکر ترے جلوہ کے خریدار ہمیشہ
دید کی سدراہ ہے یہ مژہ
خواہ سچ جان مری بات کو تو خواہ کہ جھوٹھ
ہمدم نہ پوچھ مجھسے غرض اک بلا ہی وہ
دامن کو اسکے کھینچیں اغیار سب طرف سے
نرگس پہ کل نگہہ جو تری ٹک پلٹ گئی
مجنوں کو اپنے لیلی کا محمل عزیز ہے
سیر ہے تجھسے مری جان جدھر کو چلیے
شب جو تم جسے خفا ہو کر سحر کو اٹھ گئے
ہم نہ تنہا اس گلی سے جان کو کھو کر اٹھ گئے
شمع سان اپنی ہی ہستی سے ستم ہمنے سہے
اسکے کوچے سے صبا گر ادھر آجاتی ہے
ہوا کیا ظلم ہمپر آہ اس طاقت کے جانے سے
قفس تک کیا چلی تھی باغبان کو گل کے لانے کی
ہوئی ہے خویہا تک چشم کو حیرت سے تکنے کی
آنکھوں میں ہیں حقیر جس تس کے
پھر جگر سے آہ اٹھی اور طپش اسدم ہوئی
پھر اگر دل یہ مرا نالہ کی بنیاد کرے
گر گئے چھڑیوں سے یہ کٹ کٹ کے
پھر اگر دل یہ مرا نالہ کی بنیاد کرے
منھ اپنا خشک ہے اور چشم تر ہے
تیرا خیال ابر ودل میں اگر نہودے
دیکھیں گے پھر ان آنکھوں سے ہم روے یار بھی
ہے جاے حذر ڈر یو ذرا چشم بتاں سے
سوکی اک بات میں کہی تو ہے
ہم باغبان کے ہاتھوں یوں اجڑے اس چمن سے
کیونکر بھلا لگے نہ وہ دلدار دور سے
الٰہی یاتو یہ بیتاب دل سنبھل جاوے
تڑپنے کی نہیں نکلی ہے حسرت تیرے بسمل سے
رہنے ندیگا اس بن یہ دل تو ایکدم بھی
ترے بغیر تو نخل امید بارند ے
ہزار حیف کچھ اپنی ہمیں خبر نہ ہوئی
نہ آہ حزیں ہے نہ دل غمزدہ یان ہے
جو ہے وہ تیری چشم کا بادہ پرست ہے
کیا جانیے کہ شمع سے کیا صبح کہ گئی
کوئی نہیں کہ یار کی لادے خبر مجھے
نہ ہم میں اب تو ان ہی نہ اس دل میں تاب ہے
نالوں سے کیا حسن کے تو اسقدرکے ہے
وصل کا عیش کہاں پر غم ہجران تو ہے
کل جو تم ابیدھر سے گذرے ہم نظر کر رہگئے
صبا سے یہ کہا رو رو کے کل گلشن میں بلبل نے
مل گئے اپنے یار سے ابکی
آنکھوں سے خون اپنے یہ کہتا نہیں نجائے
گر واقعی مزاج میں تیرے غرور ہے
کیسا خاک صبر آوے اور کیا قرار ہووے
جان میں میری جان آئی تھی
یار گر اپنے پاس ہو جاوے
شب فراق میں اے کاش دم نکل جاوے
شمع سان رات کیا سنی ہمنے
عرق کو دیکھ منہ پر تیرے پیارے
میں کہا تھا کبھی سے یہ کچھ ہے
گاون کو دیکھ کے تجھ بن تو اور داغ ہوے
کبھی جو اس سے ملاقات مجھسے ہو ویگی
گر چمن میں تو اٹھ کے چل بیٹھے
شمع کہتی تھی یہی شام سے بلتے بلتے
ہم سے تو کسی کام کی بنیاد نہ ہووے
کیوں مان دنوں حسن تو اتنا جھٹک گیا ہے
نہ ہم ہوش میں مے پرستی سے گذرے
کبھی کبھی جو مرے دل میں ہوش آتا ہے
دل کی زمین سے کونسی بہتر زمین ہے
آپ کو اسنے اب ترا شاہی
تم پاس سے جو اپنے غیروں میں جاکے بیٹھے
وہ طبیعت کی کجی اور وہ رکھائی نہ گئی
اتنے آنسو تو نہ تھے دیدۂ ترکے آگے
رات غیروں کا بیان آہ وزاری کر گئے
رونے میں خون دل کے صورت ہزار دیکھی
تنہا نہ ایک نرگس ڈھل ڈھل کے دیکھتی ہے
منھ کہاں یہ کہ کہوں جائیے اور سورہیئے
جلد حسن وجمال جاتا ہے
ہم سے گر محجوب ہو کر نازنین رہ جائیں گے
بین نے دشمن سے دوستداری کی
کئی دن تیرے چھپ رہنے میں اشک آنکھوں سے برسا ہے
ترا ہر چندول پتھر سے بھی کچھ سخت ترسا ہے
نغمہ وعشق سے ہیں سبحہ وزنار ملے
تمہیں کچھ ایک نہ دنیا میں جفا کار ملے
لو دل پر اسکی تیغ سے بیداد ہوگئی
سب نقش اس فلک کے نگینے پہ آرہے
نگہ سے چشم سے نازو ادا سے
بسکہ چون بدر زمانہ یہ گھٹاتا ہے مجھے
بو الہوس ہو اسے اسے چاہے
دل ہی نہ جان دینے پر اپنی دلیر ہے
یان سے پیغام جو لیکر گئے معقول گئے
نہ فقہ نہ منطق نہ حکمت کارسالہ ہے
محبت میں تری جب مجھ کو عالم نے ملامت کی
نوجوانی کی دید کر لیجے
وہ نہیں ہم جو ڈر ہی جاوینگے
کیوں رنگ سرخ تیرا اب زرد ہو گیا ہے
دل جنھوں نے کہیں لگائے تھے
دیکھنے بیٹھا جو وہ مہ اپنے گھر کی چاندنی
صید کو دل کے جال رکھوئے
نہ خیال دل نہ فکر جان ہے
بس ہے اتنا ہی تیرا پیار مجھے
جو چاہے آپ کو تو اسے کیا نہ چاہیے
میں یہ کہتا نہیں کوئی بت دلخواہ ملے
کیا چھیڑ کے پوچھے ہے کہ گھر تیرا یہیں ہے
وہ دلبری کا اسکی جو کچھ حال ہے سو ہے
صورت نہ ہمنے دیکھی حرم کی نہ دیر کی
کہنے کی ہیں باتیں کس بن نہیں گذرتی
میں کس طرح کہوں انسان سے خطا نہووے
تیری مددسے تیرا ادراک ہوسکے ہے
دیکھ دروازے سے مجھ کو وہ پر یروہٹ گئی
صنم پاس ہے اور شب ماہ ہے
آپ میں اب کی اگر ہم آئینگے
ابروسے اور مژہ سے عالم کی جان لی ہے
ہر ایک دل وجان کے مرغوب نظر آئے
چرخ کی جس سے دوستی تونے
جو دن کو شور وافغان ہے تو شب کو آہ وزاری ہے
کہتا نہیں کہ مجھسے ہر اک خوبرو ملے
مزے نہ دیکھے کبھی ہم نے زندگانی کے
گر بخت اپنی جاگین تو اک کام کیجیے
عالم ہی تب کچھ اور تھے اور ڈھنگ اور ہی
نظروں میں اسنے مجھ سے اشارات آج کی
وہ عشق کی گرمی نہیں دو چار برس سے
اس ڈر سے میں نے زلف کی اسکی نبات کی
غفلت سے چونکنے بھی نہ پائے کہ مرگئے
اسکی جب بات کان پڑتی ہے
کہہ بیٹھ نہ دل جی ترا جس بت سے لگا ہے
یار کا دھیان ہم نہ چھوڑ ینگے
مومن و کافر پہ کیا سب کو ندا سے خیز ہے
آج دل بیقرار ہی کیا ہے
جان ودل ہیں اداس سے میرے
ہم تو ہیں تجھ زلف ہے سے سر بسر باندھے ہوئے
یوں غیر کچھ کہیں تو بلا کر بری لگے
نہ ملا وہ لفاق کے مارے
ہیکلی مجھ کو نہیں ہر گلبدن کے واسطے
تیر پر تیر لگے تو بھی نہ پیکان نکلے
جس شخص کی ہو زیست فقط نام سے تیرے
آہون سے مرے گھر میں ہوا گرم رہیگی
دلبرسےہم اپنے جب ملیں گے
جان میں جان تبھی قیس کے بس آتی ہے
مجموعہ حصہ دوم
ہے سردیوان جو بہر حمد نام اللہ کا
حور پر آنکھ نہ ڈالے کبھی شیدا تیرا
جلوہ ہے ہر رنگ میں خلاّق بے اشباہ کا
توحید میں مقام نہیں قال وقیل کا
آنکھیں بیکار ہیں دیکھیں جو نہ صورت تیری
حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا
کیا تصور کو ہے نسبت کنہ ذات پاک سے
کوئی شے جو پہونچے بحد کمال
اے دیکھنے والے اس رقم کے
ہے نجشش خدیوجہاں پرور آب میں
ملائک کی رگ جان کا ہے سہرا
جس انسان کو سگ دنیا نپا یا
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
باتیں اللہ سے کرے جو وہ گویا ہوتا
دل صاف ہوا آئنہ رو نظر آیا
چرخ پر ماہ محرم جب نمایاں ہوگیا
میں کیا کہوں جو قیصر و خاقان لیگئے
آمد شہزاد ہے گلشن ہے سارا لکھنؤ
تجھی کو جو یان جلوہ فرمانہ دیکھا
خزان کے ہاتھ سے گلشن میں خار تک نرہا
گئی تاب و توان وصبراب نالہ کنان ہوں میں
شہد میں جیسے مگس ہم حرص میں پابند ہیں
خطاے خصم نہیں کچھ یہ بخت کا ہے قصور
سردی اب کی برس ہے اتنی شدید
کیوں ہو اس قدر ہے عالم سوز
زہے نشاط اگر کیجیے اسے تحریر
علم ظنی ہے طبابت تو یہ سن رکھ ہمدم
نہایت جوش پردریا ہے اپنی طبع موزوں کا
شاعرانہ مذاق
تو سن طبع کو کرتا ہوں میں کوڑا کیا کیا
نیرنگی زمانہ
قصیدہ در مدح نصیر الدین حیدر بادشاہ
ہوے ہیں خاک میں پیوند مہر بان کیا کیا
تلوار کی تعریف
اے بحر فیض دکان عطا اے سحاب علم
حال بیتابی عیاں اشکوں سے سب پر ہوگیا
سبز باغ دہر میں برگ خزاں ہوتا نہیں
بلندیوں پر ہے اپنی پستی یہ اوج کس خاکسار میں ہے
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
بظاہر بیکسی گور غریباں پر پرستی ہے
جو عرش سے ہے فرش تلک وہ اسی میں ہے
دے مجھے خلعت شہادت کا خدا کیواسطے
اے شاہ جہاں جہاں بخش جہاں دار
پھر شجر سر سبز ہیں کہتے ہیں آتی ہے بہار
صبر وطاقت لیے جاتی ہے جدائی تیری
تپ دردن کا بیان حال کیا کرے رنجور
اے شہنشاہ فلک منظر بے مثل ونظیر
تم رنگ ہو سخن میں تم پھول ہو چمن میں
منظور ہے گذارش احوال واقعی
نہ درویشوں کا خرقہ چاہیے نہ تاج شاہانہ
ہلال آسمان بنجاے نعل اشہب خامہ
انہیں آتش کے پرکالوں میں ہے بجلی کی جوانی
مجسا رستم ہے کوئی دنیا میں کہ انصاف سے
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.