سرورق
سوزؔ گارسان دتا سی کی نظر میں
سوز اور ان کی شاعری
ل
کتب خانۂ سالار جنگ میں دیوان سوزؔ کا ایک نسخہ
دیوان سوز
درد کش کیا کہہ سکے ساقی کوثر کی ثنا
سردیوان پر اپنے جو بسم اللہ میں لکھتا
جس نے آدم کے تئیں دم بخشا
اہل ایماں سوزؔ کو کہتے ہیں کافر ہو گیا
جس نے ہر درد کو درماں بخشا
ترا ہم نے جس کو طلبگار دیکھا
آہ ونالہ یہ مرا سینۂ سوزاں میں پھنسا
جو دل کہ تیری یاد سے معمور ہو گیا
ترے دل میں بے رحم کچھ غم نہ آیا
جنبش ابروے کچھ بتلا گیا
کسی نے روم لی قسمت میں کوئی شام لےآیا
زندگانی میں کسے آرام حاصل ہوئے گا
کعبے ہی کا اب قصد یہ گمراہ کرے گا
جب تک کہ میرے تن میں اے جان دم رہے گا
اگر میں جانتا ہے عشق میں دھڑکا جدائی کا
کریں شمار بہم دل کے یار داغوں کا
تو ہم سے جو ہم شراب ہوگا
جو ہم سے تو ملا کرے گا
جس کا تجھ سا حبیب ہووےگا
جتنا کوئی تجھ سے یار ہوگا
غم تو کہتا ہے کہ میں تجھ کو ستا جاؤں گا
کہیں تو ہم تجھ سے بات لیکن کسی کا کب تو کہا کرے گا
جگر سے نالہ دل سے آہ سینے سے فغاں نکلا
سنا تو نے کہ پھر کرتا ہے تیری چاہ دل میرا
بس دل زار خوش نہیں آتا
تجھ پہ قربان مری جان دل ودیں میرا
میں دور سے اے یارو کل اس کو دکھا دوں گا
ہے جیتے جی تو مجھے کوے یار میں رونا
ہم نے کون ومکاں دیکھ لیا
کھا گئی کس کی نظر کس کا یہ تجھ کو غم لگا
بتوں کے عشق سے واللہ کچھ حاصل نہیں ہوتا
یہ چال یا قیامت یہ حسن یا شرارا
مجھ کو تنہا چھوڑ کراے شوخ بے پروانہ جا
سر شک شمع آخر شمع محفل دن ہوگا
رات آنکھیں تھیں مندیں پر بخت ٹک بیدار تھا
مندے گر چشم ظاہر دیدۂ بیدار ہو پیدا
مبارک باد دوہم کو پیغام بہار آیا
جگر پر زخم خنجر سے ہوا اور ہی دہن پیدا
جو سوز یونہیں خلق میں بدنام رہے گا
خطرہ نہیں ہے مجھ کو اے عشق اپنے جی کا
لہوں سا گر پڑا کچھ جس گھڑی عاشق کا دم نکلا
مجھے گر حق تعالی عشق میں کچھ دسترس دیتا
دغل نکلا جو ہیں معیار پر الفت کے کس دیکھا
کیا تماشا ہے عدم میں اس جہاں سے جو گیا
آہ جس دن سے ہوا یار دل آزار جدا
تھی لانا مجالس میں نہیں دوستو شیشے کا
بات کہتے ہی اکڑ کر تو چلا
میں تو غبار دل کا یکبار دھو کے آیا
مرے احوال پر اب کون سا دشمن نہیں جلتا
مرا منہ تجھے یار کیا خوش نہیں آیا
کہوں حال گر عشق محنت فزا کا
فکر ہے ناصح برا تجھ کو گریباں چاک کا
عشق تو میرا کلیجہ کھا گیا
قاضی ہزار طرح کے قصوں میں آسکا
مت ستا مجھ کو دلا تو بھی ستایا جائے گا
زلفوں سے اگر مجھ کو سروکار نہ ہوتا
ہم سے جو بولوگے تو کیا ہوئے گا
محبت میں نہیں ہے ناصحا کچھ اختیار اپنا
بلبل نے جس کا جلوہ جاکر چمن میں دیکھا
افسوس تم اوروں سے ملو رات کو تنہا
گو کہ قمری کا ہے دل سرد گلستاں سے لگا
شعلۂ حسن سے دل کا مرے کاشانہ جلا
کسی طرح ترے دل سے حجاب نکلے گا
جلنے سے میرے کیااسے پر واہ جل گیا
برقع اٹھانے سے تمہیں انکار ہی رہا
جن نے تجھ اے جواں نہ دیکھا
جو غم دل کا مرے مہماں نہ ہوتا
گردن پہ روز خنجر فولاد ہی رہا
بغیر از عاشقی کچھ کام مجھ سے ہو نہیں سکتا
میں جس قدر کہ ترے جور سے فگار ہوا
مروت دشمنا غفلت پناہا
بس دیکھا ہم نے پیار تیرا
میرے احوال پر نظر نہ کیا
جی ناک میں آیا بت گل فام نہ آیا
جب ہوئے نصیبہ رام میرا
قضاے کار صنم سے جو میں دو چار ہوا
مجھ عبد سے کام کچھ نہ نکلا
اپنے نالے میں گر اثر ہوتا
پہلے کہتے تھے کہ ہاں ہاں سوز اچھا آشنا
نے رستم اب جہاں میں نے سام رہ گیا
عشق نے تیرے مجھے رسوا کیا
جب بادہ خوں دل ہو تو سیر چمن کجا
گل ہی نہیں غلام تبسم کی آن کا
قضا را وہ قاتل ادھر آن نکلا
جو میں جیتا ہوں تو احوال دل سب آسناؤں گا
یہ تو نہ کہو خدا نہ دیکھا
کعبۂ ودپر سب میں جا دیکھا
رات نالہ میں کیا یار سنا یا نہ سنا
دل تو پہلے تو اچک کر لے گیا
یہ تیرا عشق کب کا آشنا تھا
کبھی یہ دل ہمارا آشنا تھا
جہاں کا ایک دم کرے نظارا
بھلا عشق پھر تو ستانے لگا
جہاں تو ہے اے تیرے قربان لے جا
چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا
اوغم تو نے بہت ستایا
حسن اس کا تو آشکارا تھا
دیکھ لی تیری بھی چاہ اور میرزا
جس کا تو آشنا ہوا ہوگا
دل کے ہاتھوں سے جگر تو جل گیا میرے خدا
تری جان پرکب مرا غم رہا
ملنے کی تیرے دل میں ہیں گی ہوائیں کیا کیا
چھنایا نام وننگ وصبر وطاقت قول دے جھوٹا
نہ الفت ہے نہ شفقت ہے یہی ہر دم کا نکتورا
گردن نہ ماریو مجھے ہاں کاٹیوگلا
ہر دم شکار کرکے تو اے نازنیں نہ جا
دل کہاں ہے جو رکھوں غم کو ترے اس میں چھپا
دوڑ کر میرے گلے لگ جا ترے قرباں گیا
تب ملنے کا مجھ ساتھ تو پیغام کرے گا
ہر چند اس کو اب تک دارو مدار ہے گا
دل بیرحم اپنا حال مجھ سے کچھ نہیں کہتا
جو دل کہ تھا الٰہی اس دلربا کے گھر سا
مجلس سے ہو کے مست جو رشک بتاں اٹھا
جو قصد پینے کا غیروں میں تم شراب کیا
دلا تو کب تئیں میرا جگر جلا دے گا
مل کے اس بدخوسے جب تو خوار رسوا ہوئے گا
جھوٹ باعث ہے بیقراری کا
رسوا ہوا خراب ہوا مبتلا ہوا
گردل زار کا مسکن ترے در پر ہوتا
عاشق ہوا اسیر ہوا مبتلا ہوا
گفتگو کا تری حاصل ہی گیا
عشاق تیرے سب تھے پرزار تھا سو میں تھا
جہاں کی دوستی غیراز غبار دل نہیں پاتا
جب خیال آتا ہے اس دل میں ترے اطوار کا
عشق تھا یا کیا تھا جس سے دل اٹکتا ہی رہا
خط بو سے کو اس لب کے کچھ ارزاں نہ گرے گا
نہ دانہ ساتھ لے صیاد تو نے دام لیتا جا
لگے ہے جام جو منہ دل ہے آب شیشے کا
آہ پر آہ نالے پر نالا
قدر داں بن ہے بہت حال برا شیشے کا
کہتی ہے میرے قتل کو یہ بے وفا حنا
میں ساری رات میری جان تیری یاد کرتا تھا
دیکھ کر جو مرگئے ہیں تیرے پوروں پر حنا
جاجا میرے پاس سے تو جا جا
ایک بندہ جہاں میں ہے واللہ
دل کشتہ ہوا ہے
الٰہی محبت کو لگ جاے لوکا
محبت کو دام بلا جانتا تھا
میری آنکھوں کے تو آگے سے اب اے ماہ نہ جا
آگلے بھی میرے لگ جابے وفا
تیرے ہاتھوں میں جلا او بے وفا
جو دل چاہتا تھا سو ہونے نہ پایا
اب تو ہے سینے میں حسرت جاے دل
اس قدر نیچی نگاہ اوبے وفا
کیا ہے جب سے خالق نے زمین وآسماں پیدا
اے شمع تجھے جن نے کہ پر نور بنایا
تیرا مکھڑا مجھے دکھائے خدا
مگر سوز کے دل میں کچھ درد تھا
بل بے قاتل ترا سرا ہوں ہیا
ہے بلبل عاشق گل شمع پر عاشق ہے پروانا
کس نے تجھ کو بغل میں آج لیا
اس سے آگے تو کبھی اے سوز تو نالاں نہ تھا
نئی اک طرح اپنی عشق میں ایجاد میں کرتا
جہاں تھا رات کو دل شام کے ہوتے وہیں بھاگا
جلانا ہی موے مردوں کو جانا
جو کوئی عاشقی میں ثابت قدم نہ ہوگا
اب تو دم باقی نہیں اے جان آجا دیکھ جا
سنا کسی نے کبھی منہ سے کچھ گلا دل کا
دل پر خوں اپنا لے تو چلو جو لیا تو لیا نہ لیا نہ لیا
ہوا غرق ایسے دریا میں جسے پایاں نہیں پیدا
شرایط اپنی میں اسلام میں ہر گز نہیں پاتا
بھلا فنا کدے میں آکے سوز کیا دیکھا
دلا عزم تونے کیا ہے کہاں کا
خدا حافظ اے دل ترے پیارے جی کا
عاشق زار ترا زلف گرہ گیر ہوا
دل لے گیا شہ سوار میرا
ژالہ ساں یہ دل ہمارا آب ہو کر گل گیا
کیا دید کروں میں اس جہاں کا
یارب کدھر گیا دل غم خوار کیا ہوا
پھر موسم بہار نے نشوونما کیا
ہوا دل کو میں کہتے کہتے دوانا
دل کے ہاتھوں بہت خراب ہوا
بلبل کہیں نہ جائیو زنہار دیکھنا
یار گر صاحب وفا ہوتا
آج اس راہ دل ربا گزرا
انتظار وصل میں میں تھک گیا
زباں سے ہو سکے کب دل ربا تیری ثنا کہنا
دیکھ دل کو چھیڑ مت ظالم کہیں دکھ جائے گا
دلا دریاے رحمت قطرہ ہے آب محمد کا
جز شکر قلم صفحہ پہ خلاق جہاں کا
یہی میں پوچھتا ہوں تجھ سے جانا
ہوا ہے یار کو یہ اشتیاق آئینہ کا
نہیں پیکاں پہ جوہر نامہ ان نے تیر پر لکھا
جو غم دل کا مرے مہماں نہ ہوتا
ستمگروں سے کسی کا توزور چل نہ سکا
تو جو پوچھے ہے کہ تیرا دل بتا کس نے لیا
صنم نے قتل جب میرا کیا تھا
نہ اپنوں نے کبھو پوچھا نہ بیگانوں نے آدیکھا
آہ کے کرتے ہی جگر ہل گیا
کھولی گرہ جو غنچے کی تو نے تو کیا عجب
صاحب عصمت کو نامحرم سے لازم ہے حجاب
ب
کون سے اعمال کا بدلا ملا ہے یا نصیب
کیا ہےا تنا بھی ادھر منہ پھر اؤ صاحب
مجھ کو دھوکا دیا دکھا کے شراب
بس کہ دل میں بس رہی ہے گی صدائے عندلیب
ایک تو مجھ کو نہیں اب زندگانی کی امید
خط نہیں یہ بس کہ ہے مہرو مراصاحب حجاب
چشم عبرت کھول کر ٹک دیکھ تو اے مست خواب
یہ کہو میری طرف سے جا کے اس بیرحم کو
ہمارے پاس بھی گاہے بگاہے آیئے صاحب
تو مرے دل کو ملا دے یارب
سچ ہے یہ رونے میں ہوتا ہے اثر آخر شب
آخذا سے ڈر نہیں یہ شیشہ خالی محتسب
موتی کو بھی ترے کرے احیا قیام لب
بہت ہنستے تو ہو تم میرے رونے پر میاں صاحب
گو کہ گل جائے استخواں یا پوست
دین وکفر آنکھوں نے تیری کردیا اے یار مست
ت
تیرے عاشق کو نہیں ہے کچھ خیال خوب وزشت
رندو کہو جھک جھک کے مئے ناب سلامت
ہر شخص نہیں یار سزاوار محبت
نکل نہ گھر سے تو اے ماہتاب کی صورت
یہ لوگ عبث لیتے ہیں کیوں نام محبت
ہوا اب کی سر سبز بستاں نہایت
ہوئے ہیں غنچوں کے دل بیقرار تیرے ہاتھ
تڑپے ہے روزوشب دل مفتوں بجان دوست
دل لے چلا ہوں نذر میں اب تو براے دوست
یار بن اپنی بلا سے گو کہ آئی ہے بسنت
صاحبو تم سے راست کہتا ہوں
یا تو ہم سے کیا کرو باتیں
ث
نہ کی صحبت نے اپنی یار میں تاثیر کیا باعث
ج۔چ۔ح۔خ
سیر گلشن ہے اور سحاب ہے آج
ارباب جہاں کا ہے یہ سب نشو ونما ہیچ
رہتے تھے شاد ہم تو نہایت عدم کے بیچ
آتا نہیں جو سیر چمن کو وہ یار آج
جاں عاشق کی نہ چھوڑیں گے ترے پیار کے پینچ
رشک گل سے بھر گئے ہیں خار پیراہن کے بیچ
اگر محبوب ہو کر ہر کسی دل کا کرے لالچ
خوباں ہیں اور شمع میاں تو ہے نور صبح
وا نہیں ہوتا ہے اس کا دل کبھو گل کی طرح
دل پڑاروتا ہے روز وشب حصار تن کے بیچ
دیکھیو ٹک اس طرف اٹکھیل کے آنے کی طرح
رات کو رہتا ہوں نالاں غم سے بلبل کی طرح
گالیوں سے تیری ہم ہوتے نہیں اے ماہ تلخ
یار مجھ کو قرآن کی سوگند
د
دین ودنیا سے گزر کر جوہوا ہو یار شوخ
کیا کہوں تم سے اے خردمند
میں چاہتا نہیں دنیا میں عزوجاہ بلند
لذت بے رنج ملتی ہے زمانے سے بعید
ہوا ہے اب تو مجھ پر مہرباں درد
ہوا ہے داغ مرا دل انار کے مانند
بڑا دنیا میں وہ ہوگا خرد مند
یہ غم ہے کون سے ظالم کی اولاد
گفتم کہ غمت مرا بناشد
ذ
لکھوں جو وصف تمہارے گل رخاں کاغذ
گل بوے تو درکنار وارد
ایک دن بیٹھا تھا اپنے بام پر
بس میاں عشق پوجوں تیرے پیر
ر
ہاتھ میں نیمچا ہے یاکہ شرار
ایک تو پاؤں میں پڑی زنجیر
جگر سے دل میں دل سے آنکھ میں آنکھوں سے مژگاں پر
یارو جلدی سے کچھ کرو تدبیر
اشک خونیں تو ہوا دیدۂ ترسے باہر
بنے خوبرو بے وفائی کی خاطر
اے دل تو صبح یار کے کوچے میں جاشتاب
آج کہتے ہیں کہ آوے گا وہ جاناں باہر
روتا ہے تیرے غم میں دل زار زار زار
عرق نہیں ہے سموم ہوا سے چہرے پر
دل سے صحبت نہیں ہے اب تو برآر
ایسے جینے سے بھائی میں بیزار
جن کو نہیں ہے کچھ سروسامان روزگار
زمیں پر پانو کب رکھتا ہے عیار
رنگیں گل نشاط سے تھی شاخسار عمر
اے آہ جگر سے اب سفر کر
ٹک مری طرف تو دیکھ اے یار
جس طرح جانے مکھڑے کو پیارے نقاب کر
تیغ کو کھینچے ہے وہ غارت گردیں میرے پر
صبا حریف لے آئی ہے تو مرے دل پر
یوں دیکھ لے ہے وہ کہ ادا کو نہ ہو خبر
پھولتا ہے اب کوئی دم کو گلستاں بہار
مانگتے ہیں ہم اپنے یار کی خبر
اے شوخ بے پروا مرے اتنا مجھے رسوا نہ کر
عندلیبو خوش ہو اب گلشن میں آتی ہےبہار
بے وفا ایسی بھی تو عاشق سے عیاری نہ کر
کسی سے آج تلک ہونہیں سکی تسخیر
اپنے گھر میں مجھے بلا کر
تجھ پہ اے جان آن ہے کچھ اور
ذبج کر تکے لگا دل کو جلا کر خاک کر
قدم رکھتے ہیں یکباری زمیں پر
مجھ ساتھ تیر دوستی جب ہو گئی آخر
تب جائے کیونکے عشق کی اے یار تجھ بغیر
جو شوخ تو ہے کون ہے طناز اس قدر
کاٹتے ہیں دل کو ابروے یار کے تلوار وار
دل میں دیتا ہوں تو شبا نہ کر
بس کر اے غم جگر جلا بس کر
عاشق کو دیکھ کر نگہ آشنانہ کر
پیوں ہوں خون دل اپنا تجھے گماں ساغر
پوچھوں ہوں راہ کعبۂ ودل پر ہے داغ دیر
کوئی خرفا ہے کوئی تولی ہے
لگا ہے جب سے دل میں تیر دلدوز
ز
کرتا ہوں ترک عشق میں یوں پیش وپس ہنوز
جل گئی قمری نہیں ہے سروکو باور ہنوز
میں تو دیوانہ ہوا بنتی ہے زنجیر ہنوز
س
کیا ہم کو ہو بہار میں گلزار کی ہوس
آج دل آ پ ہی آپ کچھ ہے اداس
مت اس قدر تڑپ تو دل بیقرار بس
ش
یوں بوجھ مرے دیدۂ پر آب کی گردش
بلبل کو ہے ترے سر دیوار کا ہلاس
گو تم نے ہمیں کیا فراموش
رکھتے ہیں تیری زلف کے ہر تار کا خلش
ص
آرام پھر کہا ں ہے جو ہو دل میں جاے حرص
کبھو تو فیض کو پہنچوں میں اے مرے فیاض
ض
دیکھ لینا ہم کو تیرا یار ہے جب تب غرض
کب میں آیا تیرے مکتب میں بتا واللہ غلط
ط
اب ضرر کرنے لگا دل کو بتاں کا اختلاط
سرسبز حسن رکھتی ہے تیرا بہار خط
سمجھے تھے ہم جو دوست تجھے اے میاں غلط
ظ
اغنیا عزو جاہ سے محفوظ
تیری آنکھوں کی طرح رکھے یہ جام نشاط
تاب لاوے نہ ترے حسن کی لرزاں ہے شمع
ع
اٹھے نشے میں محبت کے خط یار سے حظ
مژگاں کی گر خلش کا بہ دل ڈھنگ ہے وسیع
آتش سے مرا بوجھ سمندر نہ ڈرے داغ
غ
اشک کے قطرے میں نیساں کا اثر رکھتی ہے شمع
نالے سے میں اپنے نہیں اے رشک پری داغ
عشق کی ہووے تو ہو ہم کو اسیری کی دماغ
ف
ایک دم تو درد کے سہنے سے مجھ کو دے فراغ
مرضی جو آئی چرخ کی بیداد کی طرف
ہوتا نہیں ہے مجھ سے تو اے بدگمان صاف
زندگی آخر ہوئی آیا نہ دلدار حیف
ایک ہی نگہ میں آب ہوا دل ہزار حیف
یوں کھب رہا ہے گل کے کلیجے میں خار حیف
گر خواب میں دیکھے تجھے کنعان میں یوسف
کدھر جاتے ہو مجھ کو چھوڑ کر اے مہرباں مشفق
دود سے آہ کے ہے گرچہ سیہ خانہ عشق
ق
دل ہوا ہے کون سی جامنزل وماواے عشق
ک
رونے کو میرے تابکجا دل سے آئے اشک
آنکھیں ہوں مری پر آب کب تک
در پر اس کے نہ جاؤں کب تک
لخت جگر جو آنکھ سے نکلے اٹک اٹک
تونے مجھ کو نہیں کیا ہےہلاک
میرے نالے سے ہے جہاں تاریک
اشک کب ہوں تیرے مستانے کے خشک
مجھ کو مت تہمت لگا بہر خدا تو اے فلک
سنبل وزلف سیہ کاکل وشب چاروں ایک
میں سکھاؤں تم کو یارو گر کرو تدبیر ایک
کوچۂ یار میں ہر ایک کو جانا مشکل
اےمرے دل تو کیوں پڑا ہے نڈھال
مرا لگتا نہیں اے باغباں تیرے چمن میں دل
کون بخشائے مرے اس سے گنہ گاری دل
کس کنے جاکے کہوں آہ گرفتاری دل
دیکھو قدرت کو بیٹھے تھے جنھوں میں مل کے مل
آتا ہے وہ مست حیا میناے صہبا در بغل
اٹھ سوز وہ دیکھ آتا ہے قاتل
ہوا کس سنگ دل کا مبتلا دل
کبھی کالے گیا وہ دلربا دل
نہ یاں دکھلائی دیتا ہے نہ واں دل
شتابی چل مرے مخمور آپی لے شراب دل
جاتا ہے دل تو جائیو ہشیار آج کل
جب تو چمن سے گھر کو چلا کرکے دید گل
خداندا کدھر گم ہو گیا دل
پاتا نہیں ہوں آج میں یارو دماغ گل
کیا جانیے ہوا ہے یہ کس کا شکار دل
دیکھ تیرے حسن کو گلشن میں مرجھاتا ہےگل
کہاں پھرتا ہے واہی ہر گھڑی تو کو بکواے دل
تو تیری یاتفنگی اے دل اے دل
میاں دل بھائی دل اور مہرباں دل
م
گر گرپڑیں بہ وضع شرابی یہ گام گام
نہ مجھ کو خاص سے مطلب ہے کچھ نہ عام سے کام
اندوہ سے تیرے مر گئے ہم
ٹرائیں سنگ سے سر ہو ہم کنار ہم تم
دید کریے جہاں کا یک دم
سنا ہے اب تو خط آیا ہے کس اسلوب دیکھیں ہم
جب سے ہوا ہے ناز تمہارا شیر چشم
پیتا ہوں یاد دوست میں ہر صبح وشام جام
خدا کے واسطے اے تند خو نہ ہو بدنام
ہٹا ہے دل پہ تو لے تجھ کو میرے جی کی قسم
دل میں کھٹکے ہے پڑا اے یار میرے خار غم
ناصحو دل کس کنے ہے کس کو سمجھاتے ہو تم
واعظ نہ کر تو بے ادبی سے کلام جام
آہ پلکیں تو خون سے گئیں جم
کیا کہوں کیسا حال ہے تجھ بن
اے گل صبا کی طرح پھرے اس چمن میں ہم
ن
ترے جیسے جیسے ستم دیکھتے ہیں
کب تلک میں راہ اس بیرحم کی دیکھا کروں
دل تو کہتا ہے کہ یارب مرا دلدار کہاں
خون ہووے نہ رقیبوں کا سو دلدار کہاں
آہ میں بے قرار کس کا ہوں
سنا ہے کوئی اب ہے طبع کا مرغوب ہم دیکھیں
من مانتی کرتاہے تو مجھ پر جفا میں کیا کہوں
ایسے ستم شعار سے کہیے تو کیا وفا کروں
دل کو مرے ہواے چاہ نہیں
کب تلک کوچہ وبازار میں رسوا ہوں میں
تجھ بنا میں زندگانی کیا کروں
کون سا دن ہو کہ میں وہ رخ زیبا دیکھوں
دل کو اس غم سے گھلاؤں کیا کروں
جگر کے میں چیلوں کو تکے کھلا دوں
کھب گیا حسن یار آنکھوں میں
روبرو جا کے یہ کہوں صاحب
برق طپیدہ یا شرر برجہیدہ ہوں
ہر پیالے پر دل مانگو ہو اور تو اب تیار نہیں
ظاہر میں گرچہ بیٹھا لوگوں کے درمیاں ہوں
ہرچند میں جہاں میں گل
کون سا منہ لے دیکھے خاکسار آئینہ میں
دل آشفتۂ عاشق ہے کہیں ہوش کہیں
جان قدموں تلے جب اہل وفا دیتے ہیں
سرخوش جوش بہار نرگس مستانہ ہوں
نام ونشاں تھا جن کا بڑا آن شان میں
کہیں ناگاہ ملتے ہیں جو وہ ہمدرد آپس میں
گرچہ میں سارے جہاں کی وضع سے بیگانہ ہوں
کہتے ہیں لوگ یار ہمارا
شہد میں جیسے مگس ہم حرص کے پابند ہیں
یہی میں پوچھتا ہوں تجھ سے جاناں
چلے اب کس طرف یکبار گی منہ موڑ کر جاناں
دیکھا تو کچھ نہ آکے جہان خراب میں
بھلہ بے عشق تیری شوکت وشان
میرے پیارے تو ہاتھ دل پہ نہ رکھ
اک عمر غم دوست سے ہم خانہ رہا میں
کچھ آپ ہی آپ میرا آج دل ڈرتا ہے کیا جانیں
ضعف سے نالہ بھی اب دل سے نکل سکتا نہیں
غمزۂ چشم شرمسار کہاں
گزر گئے اس جہاں سے یارب فقیر وامراوشاہ لاکھوں
گردوا کرنی ہے کر اے یار دن دوچارمیں
شہید عشق کے مسجود یا امام حسین
دل آشفتہ عاشق ہے کہیں ہوش کہیں
کون کہتا ہے کہ میں ہشیار ہوں یا بیہوش ہوں
بستیاں بستی ہیں اور اجڑے نگر آباد ہیں
کیا کروں دل کو اب قرار نہیں
نہ ہواے بے مروت مجھ سے ناخوشنود اٹھتا ہوں
آنکھیں جو نہ لگ جاتیں تو زار نہ ہوتا میں
دیدۂ خشک آفتاب کہاں
تو منہ سے نہ کہہ کہ اپنے گھرجاؤں
چین کب اس کو جودیکھے دل کی یہ بے تابیاں
بندگی سے تیری کچھ عار نہیں
جو ایک دم بھی میں اس شوخ سے کلام کروں
دل کو میرے ہوا ے باغ نہیں
کب تلک قیدی رہوں میں جسم کے زندان میں
میں ڈوب گیا کدھر گیا دن
دشنام بھی لبوں سے تو ہم نے سنی نہیں
دم مغموم عاشق کس طرح ہوشاد دنیا میں
مجھ کو کہتا ہے کہ تیری خو مجھے بھاتی نہیں
کون سا دل ہے کہ تیرا ستم آباد نہیں
کرے نہ باغ میں بلبل کبھی سخن تجھ بن
غبار خاک رواہ دلبر چالاک آنکھوں میں
غمزۂ چشم شرمسار کہاں
ان جفاؤں پر بھلا اب غم نہ کھاؤں کیا کروں
میں آیا جب سے دنیا میں کبھی خودکونہ سمجھا میں
آدم سے لگا سوز جگر خوں ہوے کنیں
گوکہ اے دل تجھے سرور نہیں
جس نے دیکھی ہوں تری مہر وفا دکی آنکھیں
یہ خامی ہے کہ سوز عشق سے فریاد کرتا ہوں
یہ تو معلوم کہ تم ملنے کو آؤ گے ہمیں
کب توقع تھی کہ تم پاس بٹھاؤگے ہمیں
حضرت عشق سے پھر مجھ کو پھر دلنیں
ہمیں کون پوچھے ہے صاحبو نہ سوال میں نہ جواب میں
کسے ڈھونڈھتے ہوبغل میں میاں
صنم کے ذکر سوا اور قیل وقال نہیں
دلربا اے سوز کیوں تیری طرف مائل نہیں
کینے سے مہر بدلے افلاک ایک پل میں
امید وصل جز طمع خام کچھ نہیں
اتنا ستم نہ کیجے مری جان جان جان
باندھ لیتا کیوں نہیں سر کو مرے فتراک میں
دل کے ملنے کا کچھ نہ چارہ کریں
پھرے تھی فوج بلبل جب چمن میں
حمد میں تیری اے خدا ے سخن
گرچہ میرے مضطرب دل کو شکیبائی نہیں
زباں سے ہو سکے کب دل ربا تیری ثنا کہناں
بہار اس کو نہیں لگتی ہے یک پاسنگ آنکھوں میں
عاشق ترے ہم نے کیے معلوم بہت ہیں
آنکھوں کو ٹک سنبھالو یہ مارتی ہیں راہیں
کرے ہے عشق کی گرمی سے دل آنند آتش میں
سوز کو سمجھے ہے تو ناداں کہ وہ دانا نہیں
قیس کی آوارگی ہے دل میں سمجھو تو کہوں
اے خوشا حال ہوا جو کوئی رسواے بتاں
آنکھیں بھی اس کی آنکھوں سے گرٹک ملا کریں
خوں عشاق سے تو بھر لے پیارے دامن
جب اپنی جاں کنی تک پہنچے یارو کام دنیا میں
مجھے معلوم یوں ہوتا ہے میری ہی تہسی آنکھیں
بلبل کہیں پتنگ کہیں اور ہم کہیں
یا د میاں اب دل میں تیرے وہ باتیں نہیں آتی ہیں
مت پھر تو ساتھ غیر کے آمان ہر کہیں
اس سروقد کی دوستی میں کچھ ثمر نہیں
لڑیں کیوں ہیں ترے مژگان وابرو یارآپس میں
جاتا ہوں ترے در سے بس اے یار رہا میں
دل کو یہ آرزو ہے رہے کوئے یار میں
چاہ کے غرق تجھے ہے یہ گماں ترتے ہیں
کہاں نصیب ہے اس شوخ سے کلام کروں
اب تو ایسا میں ناتواں ہوں
کرلے جو چاہے سویہ حسن جوانی پھر کہاں
کوچۂ عشق میں جو اہل نظر جاتے ہیں
سن کے بے تابی مری سیماب ڈھل جاوے وہیں
اشک بھی آتے نہیں اب کیا کروں
یہ ہیں بھی سمجھوں ہوں ناصح وہ یار یار نہیں
دل کو دنیا تو بہت سہل ہے دلدار کہاں
ٹکڑے تو ابھی لعل کے دل بیچ دھرے ہیں
جو بزم بیچ تجھے دیکھ کر نہ پھٹ جاویں
جن کے تئیں کہ عاشق محبوب جانتے ہیں
چم عشاق آبشار چمن
کہیں ہیں لالہ کو صاحب طبع ہے وہ چشم وچراغ گلشن
سبھی ہیں دل کے لے جانے کی باتیں
بھری تھی فوج بلبل جب چمن میں
دل کو میں غم میں جلادوں کیا کروں
طلب کرتا ہے مجھ سے ہر گھڑی پیماں گسل دل کو
و
کس طرح روتے ہواے دیدۂ تر دیکھیں تو
نصیحت میری تم منظور رکھیو
مرا جان جاتا ہے یارو سنبھالو
جس پر مرے صنم کو کرم کی نگاہ ہو
رہنے دواے محباں یکدم خموش مجھ کو
دم چلا ہے مجھ سے آہو دوڑیو
دلبر وخط سے نہ مکھڑے کو ہم آغوش کرو
حیف دل تجھ میں گر مروت ہو
بات کہتا ہوں تجھے مان لے بیزار نہ ہو
اب یہ دیوانہ مرے ہے کھول دو زنجیر کو
میں تو اب مرتاہوں کھولو پانو سے زنجیر کو
تری آنکھوں نے لوٹا کارواں کو
چرا کر دل چلا اب تو کہاں کو
ستا مت اے نسیم صبح آکر بیقراروں کو
میں جانتا ہوں تمہاری چھچھند کو
مست تو پھرتا ہے راتوں کو کہیں بہتان نہ ہو
چھڑا کر مجھ سے سارے خانماں کو
آہ اس دل کو کیا ہوا یارو
میری طرف سے جا کہو اس دلبر خود کام کو
جہاں میں پوچھتا پھرتا ہوں میں جس تس سے یاری کو
دکھلا نہ غصے سے صنم اس روئے آتش ناک کو
تو اپنی جان سے کیا سیر آیا ہے دل بدخو
واللہ اب جو دل میں کچھ اورآرزو ہو
قسم کھاتا ہوں ہر دم جو کروں ہر گز نہ یاری کو
سینہ پہ جس کے عشق سے خوباں کے داغ ہو
کہیو اے باد صبا بچھڑے ہوے یاروں کو
کون اسیر ایسا ہے مجھ بن جو قفس میں شاد ہو
گر رکھا تیغ نگہ نے دل فگار آئینہ کو
گلچیں خدا کرے کہ تو اب خوار وخستہ ہو
آیا ہے سوز پاس ترے دست بستہ ہو
دلا جوش اس قدر مار اپنے سینہ میں کہ صہبا ہو
نہ بت خانے کو اے یارو نہ بیت اللہ کو پوجو
کچھ اپنا حال تو لکھتا نہیں او دل کہاں ہے تو
بھلا دل تو لیا دل کی جگہ پہلو میں آبیٹھو
حضرت عشق بس نہ جی کھاؤ
کیا ہے صرف تعب اپنی نوجوانی کو
نہیں ہوتا ہے اب تو آہ کا ہی کچھ اثر دل کو
آگیا میں جہاں تہاں دل کو
اگر چاہو کہ اس ظالم کی کچھ بیداد سے پوچھو
دلا اہل دنیا سے مت آشنا ہو
خدا کے واسطے پہچان جانی دوست دشمن کو
بہت کچھ ان دنوں مغموم ہو غم خوار کس کےہو
ہے عشق بلا کا تیر دیکھو
کوئی یہ جاکے اب کہے میرے حبیب کو
معشوق ہو اور باوفا ہو
کیا خفا کردیا جوانی کو
سنو اے طالبو محبوب کے میرے کنے آؤ
بہت چاہا کہ پلکوں سے چھپاؤں اشک کو اپنے
مجھ سے ملے اگر صنم چشم بچشم روبہ رو
لباس دوستی میں پھر تو آیا ہے ستانے کو
مجھ کو نہ گل نہ سیر گلستاں ہے آرزو
اے قیامت نگہو پھر نہ جلاؤ مجھ کو
نہیں رہنے کا میرے پاس لے جا دلربا دل کو
کہا دل قطرۂ خوں ہے نہ چھیڑو ہر گھڑی دل کو
چٹکیاں لے لے کر ستاتے ہو
غم نہیں دنیا کا مر کر صاحب تسلیم کو
خاک ہونا ہے تو خاک کوچۂ دلدار ہو
یاسر کوے دلارام مجھے پہنچا دو
کھول نہ دیجولاڈلے ا دل ناصبور کو
کہو اس دشمن مروت کو
ہر کسی کو دیکھ کر محبوبو نہ گردن خم کرو
حال دل پوچھے ہے کیا مجھ سے مرا اے یار تو
دماغ اصلاح ہے دینے کا نہیں کہ دو ہلالی کو
لوگ کہتے ہیں کہ گلشن میں بہار آئی چلو
یوں نہ چاہے گا دل آگاہ یہ ہو وہ نہ ہو
چہ بے گنہ چہ گنہ گار یہ نہ ہو وہ ہو
عیش تو میرا ہے ساماں گو نہ ہووے تو نہ ہو
خدا ہی کی قسم ناصح نہ مانوں گا کہا اب تو
کہ دیجو صبا گل کو جو گلشن میں گزر ہو
عشق بازی پہ کمر تم نہ کسو جانے دو
لہو اس چشم کا پونچھے سے ناصح بند کیونکر ہو
جسے ہو تخت کا دعوا اسے افسر مبارک ہو
پوچھتے کیا ہو چشم پرنم کو
ہاتھ نہ پکڑو قاتل کا تم اس کو تیغ لگانے دو
نہ لگالے گئے جہاں دل کو
کیا لے گا کوئی ظالم اب تجھ سے ہو گریدہ
آتا ہے وہ جفاجو تیغ ستم کشیدہ
سنے گا بعد میرے جو کوئی میرا یہ افسانہ
کیا لے گا کوئی ظالم ہو تجھ سے یوں گرویدہ
اے دل گم شدہ پیدا ہو نہ
یارب حضور یار کے جس کا غلام ہوں
سچ کہیو قاصد آتا ہے وہ ماہ
قتل کو میرے نہ کرتاخیر آہ
جو صاحب دل ہے دل سےآگاہ
ماتم کا میرے شور ہے کہتا ہے کیا ہے یہ
تو لگ نہ چلا کر مرے خوں خوار سے زیادہ
تیز دستی دیکھیو قاتل کی میرے واہ واہ
ناصح کو کسی شوخ سے دل جاکےے لگا دیکھ
خدا کو کفر اور اسلام میں دیکھ
تنک سے جور میں کہتا ہے
قبول کیجو نظر میں تری میاں اللہ
بس جی کھاؤ نہ قسم جانتے ہیں
گر تجھے قتل کی خواہش ہے تو آبسم اللہ
ناصحا میرے سیم بر کو دیکھ
شراب خون دل کو پوچھے ہے مخمور ہے شیشہ
میں پھرتا ہوں ترے کو میں
اے دل نہ سنے گا یار چپ رہ
کدھر جاتا ہے تو اے شوخ دیدہ
لینے لگا ہے اب تو مرا نام گاہ گاہ
ہم رہیں محبوس زنداں واہ واہ
کردیم کباب جگر خود نہ میکدہ
ی
کشور دل میں نہیں کوئی کہ آباد رہے
تو جو کہتا ہے گلہ میرا کیا جس تس کنے
جس کو نہ ہو شکیب نہ تاب فغاں رہے
اومیاں اوجانے والے کہیو اس میخوار سے
تری محفل میں جو آئے سو اپنا کام کر اٹھے
ہوا ہے دل گم جہاں محباں وہاں کی کس شخص کو خبر ہے
ہزاروں مار ڈالے اور ہزاروں کو جلایا ہے
دل مرا مجھ سے جو ملا دیوے
راہ میخانہ کوئی آج مجھے بتلاے
دل بتوں سے کوئی لگا دیکھے
آنکھ پھڑکی ہے یار آتا ہے
یار سے جا کہو کہ پھر آوے
گفتار میں اب ضعف سےآواز نہیں ہے
ترحم کی نظر تجھ سے نہ ہم نے آج تک دیکھی
کہتے ہیں دل میں یار بستا ہے
یار گر دل کی طلب گاری کرے
صورت ہمیں اس شوخ کی پہچان اگرآوے
جو کوئی عشق میں بناہ کرے
سنگ پر چینی کو پٹکو گر صدا منظور ہے
یار کا جلوہ مرے کیا شہرۂ آفاق ہے
ترا غم مرے دل میں معمور ہے
غم ہے یا انتظار ہے کیا ہے
زندگانی ہے دیا زنداں ہے
بہ ملیے ہم سے دلے جی سے مہرباں رہیے
ننگ اب سمجھے ملاقات مری
تو نے جو کچھ دل میں ٹھانا ہے
جو کوئی آپ سے وفا نہ کرے
حلقۂ زلف گرہ گیر مبارک ہووے
مثل نے ہر استخواں میں درد کی آواز ہے
تلخ لگتی ہے مجھے بات تری
ادھر لے جائیو تابوت جس کوچے میں بانکا ہے
حضرت غم جان کے پیچھے نہ پڑیے جایئے
عشق تو کرتے کیا واقف نہ تھے اس چال کے
کیا میرے لبوں پہ جان پہنچی
مر گئی بلبل چمن میں سایۂ گل کے تلے
نہ آہ سرد پر بھولو جگر میں میرے آتش ہے
دل مجھے یاد غم دلاتا ہے
کچھ نہ کچھ اس کو یاد آتا ہے
عاشقی کا گر یہی اسلوب ہے
دلا جب سے گیا تو برے پھر صورت نہ دکھلائی
جس نے کچھ آپ کو پچھانا ہے
عبث بے فائدہ کیا کام کیوں ناصح ستاتا ہے
گر نور دگر ہے نار تو ہے
منہ لگانے سے مرے کیوں توخفا ہوتاہے
میں تجھ سے کہہ نہیں سکتا سخن اے یار نازک ہے
جز تیرے کوئی اور مرا یار نہیں ہے
نہ نکلے چرخ پر خورشید گر وہ خود نما نکلے
روز ازل سے سوز تمہارا غلام ہے
میرے سینہ کا داغ جلتا ہے
جان آسان نہیں نکلتا ہے
تری طرف تو یہ دل بھر نظر نہ دیکھ سکے
ہر بات میں جو ہم سے صنم تو خفا رہے
کس دل جلے کی تیرے تئیں بد دعا لگی
کوئی کہہ دو مرے میاں سے
بکتا ہوں میں اگر وہ قدر داں مول لے
اس تنگ وقت میں تونہ تاخیر شرط ہے
نہ عاشق ہے کسی کا تو نہ بیتابی سے محرم ہے
مکر جانے کا قاتل نے نرالا ڈھب نکالا ہے
بیمار کی آج اپنے سرشام خبر لے
چین نے دن ہے ان آنکھوں کو نہ شب آرام ہے
چمن میں کھول کر بند قبا گر گلبدن نکلے
کوئی میری طرف سے جا کہے اس بے مروت سے
دل ہے یا منزل گہ غم ہے کہ حسرت خانہ ہے
الٰہی خیر کیجو آج کیوں بازو پھڑکتا ہے
مجھ کو کیا کام جو آتش سے نگر جلتا ہے
کیا کیا تھے چاؤ دل میں آئے تھے جب عدم سے
ہر چند میری آہ سے ظالم کو ننگ ہے
اک روز کہا صنم سے میں نے
کرے مجھ پر جفا وجور کیا رستم کا یارا ہے
اے نکہت گل جائیو محفل میں کسی کے
کہہ اے قاصد کہ نامہ کا ہوا کیا ماجرا اس سے
جو دل پہ ہے گزرتی ا کو خدا ہی جانے
رات مجلس میں اس کی میرا پانوں
یہی ہے عشق کا آغاز تو انجام کے صدقے
عندلیبوں تمہیں گلزار مبارک ہووے
وہ سرخ پوش پیارا کیا جانیے کدھر ہے
بلبلو تم کو گلستاں مبارک ہووے
سینہ میں تو آہ یا فغاں ہے
اسی امید پر جیتا ہوں پیارے
مجھے دل کی کہاں سے اب خبر ہے
ہم جس کی طرف نظر کریں گے
ہم آئے کہ تم منہ چھپا کر چلے
اے خیال یار ٹک رہنا پرے
کچھ نہ کچھ اس کو یاد آتا ہے
ناصح کر میرے حق میں جوارشاد ہے سو ہے
پٹک مت اس کو اے ظالم نہ یہ پتھر نہ یہ دل ہے
نہیں ہے میاں دل اپنے گھر نہیں ہے
بخدا جتنے کہ دنیا میں یہ گلروہیں گے
صنم سے کوئی کہہ دے میری زبانی
جس روز سے تو جدا ہوا ہے
مرے دل کے داغوں سے گلشن کیا ہے
ہاں میاں جان کیا کہوں تجھ سے
ان بتوں کی یہی جو الفت ہے
یہ صنم خوش ادا کہاں کا ہے
پاس سے میرے اٹھ کے مت جارے
ہر ایک شیشۂ دل بیچ جلوہ گر ہے پری
ہاں طبیبو مجھ کو سودا اور ہے
اور رات کو چھپ کے جانے والے
ہم درد سے اے یارو کل اس کو جتا دیں گے
چکوریں چاند کے اور بلبلیں گلزار کے صدقے
جو شخص تری تیغ سے افگار نہ ہووے
کوئی صحرا کے صدقے ہو کوئی کہسار کے صدقے
اے صبا میری طرف سے جائیو کچھ کام ہے
زلف میں الجھا ہوں جس پر قتل کی تدبیر ہے
نہ رہے گا کوئی جہاں میں جو اسی طرح کا ستم رہے
مشفق کبھی تو عذر دل زار کیجیے
کہاں دل ہے کہاں ایماں کجا وہ صبروطاقت ہے
اچکا لے گیا کس کس سماجت اور منت سے
تنہا نہ مجھے درد نہاں تجھ سے گلا ہے
خبر لو میکدے میں کون سا مستانہ روتا ہے
بے چین ہے اب تو دل کو صبر وشکیبائی
اٹھ گیاآخر جہاں سے قیس او رفرہاد بھی
یارب مرا اس وقت تلک جان نہ نکلے
کوئی کم بخت ہو جو دل لگاوے زندگانی سے
درد غم ایک طرف داغ ہیں پنہاں کتنے
اے موجد طرح بے وفائی
سنو میاں آہ میں عاشق کی البتہ اثر ہووے
کس کا یہ نوجوان آتا ہے
جو دیکھے قد کو تیرے شمع پانی ہو پگھل جاوے
دل تیرا کب کا آشنا ہے
کیا پوچھتے ہو تقدیر اپنی
پرکار کی روشن نہ رہے ہم جتنی چل سکے
نہیں عاشق کسی کا تو وفا داری کو کیا جانے
کیا کہیے جو اس شوخ کی اوقات ہوئی ہے
بھلا اب کیا کروں کب تک قضا سے التجا کیجے
دل مرا عشق کا دوانا ہے
دل تری چاہ کی ایسی تیسی
وہ غل ہے جس کا موجب تو ہے ورنہ شور بہتر ہے
توبہ نشے میں دیکھ مجھے مار کر چلے
کیا کہیے وہ بت آہ کس آئیں نمکیں ہے
شراب تازہ سے داغ کہن میں آگ لگی
ہمارے قتل کا مژدہ صبا اغیار کو پہنچے
معتقد ہرگز نہیں ہیں کفر اور اسلام کے
کیا کہیے حال اپنا جو کچھ ہے سو ہے سوہے
اے تڑپ چین تو بسمل کو مرے پل بھر دے
نہ دے عاشق نہ دے معشوق جن میں ہو یہ کچھ خامی
مت محبت کو کسو سے آہ مشکل ہوئے گی
مبارک سیر باغ اس کو جو بلبل ہوے بستانی
لاکھ طوفاں بہ جہاں ہم کو فلک دکھلا دے
بے وفائی کیا کہوں ساتھ اپنے اس محبوب کی
پوچھو مت کیونکے تجھے رات میاں کٹتی ہے
جرم کو عضو کی تدبیر بہت اچھی ہے
طاقت کہاں کہ کیجے پرواز اب قفس سے
جاتے ہیں لوگ قافلے کے پیش وپس چلے
جب اس چمن سے چھوڑ کے ہم آشیاں چلے
عاشق تھا کبھی تجھ پہ یہ بھرمل تو سوہی ہے
محیط دل ہوئی اے شوخ تیری چاہ پھرتی ہے
ہم کو حنا جو قتل کر اور آپ بچ رہی
مسجد سے دیر کو شب لائی سیاہ مستی
جو زمیں زیر فلک داخل آبادی ہے
دل جنس فروشندۂ بازار ہنر ہے
قفس میں دکھ مجھے کچھ ہے تو ہے اسیری سے
کہو دل کو کہ دنیا کی تلاش خام سے گزرے
مانند جرس پھٹ گئی چھاتی تو فغان سے
نہ دی ظالم نے کچھ فرصت جو درد دل سے کچھ کہتے
خلقت تمام گردش افلاک سے بنی
مرے گھر میں الٰہی ایک شب وہ ماہتاب آوے
دل اس کے ہاتھ سے تنہا نہ ہو کر تنگ جلتاہے
تب دوری سے دایم یہ دل مہجور جلتا ہے
میں وہ رسوا ہوں جس کو دیکھ خاص وعام روتا ہے
سینہ پرسوز ہے اور دیدۂ پرآب ہے
جسے دل دیجے سو دلبر کہاں ہے
مرے دل کی کسے یارو خبر ہے
یار جس سے خوش رہے مجھ کو وہ آئیں چاہیے
مری آنکھوں میں یارو اشک ایسا موج مارے ہے
مجھ کو صدقے تو یار ہونے دے
حذر نہیں انہیں عالم کی خوں فشانی سے
ترے عارض پہ خط کی ہر کوئی تحریر کیا سمجھے
ہم کو نہ کچھ مال نہ زر چاہیے
دل چاہتا ہے تیری ملاقات کےلیے
سنے نہ یار تو دل کا بیان کیا کیجے
ستم پروردوں کو ہر دم ستم ایجاد یاد آوے
خبر لو دل کی نالہ آج جاں فرسود کیسا ہے
تو جو کہتا ہے گلہ میرا کیا جس تس کنے
آدم سے لگا سوز جگر خوں ہوے کتنے
یارب کہیں سے گرمی بازار بھیج دے
نہ گھر سے ترے ہم سفر کر چلے
ترے مکھڑے کے جلوے گو کہ آنکھوں سے نہاں ہیں گے
آنکھوں کی راہ میری یہ دل نکل نہ جاوے
جا دیتا ہے وہ لیے ہی بنے
ایک دن چھوٹے نہ ہم ظالم کے بس میں مر گئے
دل پہ چھاتی میں داغ رشن ہے
بتاں کی دیکھ گرمی چشم دل سا یار لے ڈوبی
خال نہ یاں سے اے ستم ایجا دجائیں گے
حال دل کس سے اب بیاں کیجے
تجھے اے مہرباں یہ سوز عاشق کیا دعا دیوے
نہ تیرا پاٹ دامن کا نہ تیری آستیں ڈوبی
جو غم دل میں بسے آکر اسے اب دور کیا کیجے
کسے طاقت جو اس قاتل کے آکر ہم زباں ہووے
میری نظروں میں تو ہر ذرہ شہ خادر ہے
عزیزو دیکھ لو کیا مہرباں پر رب کی رحمت ہے
غنچۂ دل نے کبھو تیرے نہ بو کی ہوگی
ہم کیا کریں صبا جو چمن میں بہار ہے
کیا کرے گی نہیں معلوم جدائی تیری
تو مرے دل کا درد کیا جانے
دل تلخ ہو رہاہے اب تیری گالیوں سے
تجھے تو مجھ سے ہزاروں ہیں پر مجھے تو ہے
اشارت ابردوں کی قتل کو میرے بلاتی ہے
عشق کے ہاتھوں سے اے یارو ہوا سودا مجھے
دکھ تو تو دیتا ہے پر تجھ کو کڑھاؤں تو سہی
مجھے چھیڑتا ہے کہ تو پارسا ہے
گھڑی نامہربانی ہے گھڑی دو ہی مدارا ہے
دل کو ترے خیال سے مقصود سو ہے
گرقید کیا چاہے تو تدبیر یہی ہے
اگر صندل لگاؤں سر کو دونا درد سر ہووے
سنواے بلبلو جس جا وہ شمع انجمن ہووے
اے پیک صبا حال دل زار سنا بھی
جاتا ہے کدھر جان تو اب تیغ و سپر لے
تجھ بن ہے عذاب زندگانی
اس دل کی ترے دل کو خبر ہوئے تو جانے
مید میں رکھتا ہوں صنم تیرے کرم کی
قاتل ہمارے ڈھیر سے جانا پرے ہوے
صنم کے ملنے کی اے محباں خدا کرے کوئی راہ نکلے
عشاق کی لاشوں سے بھری تیری گلی ہے
جس دن وہ صیدافگن بہر شکار نکلے
مدام ہے دل کی آرزو یہ کہ اس گلی کا غبار ہو جے
آہ جی اس طرح نکلتا ہے
کرنے کی نہیں فائدہ تدبیر کسو کی
یہ زلف ہے یا کوئی بلا ہے
پڑا رہنے دے ہم کو کنج میں اے باغباں سن لے
دختر رز اب تو نڈر ہوگئی
بولا وہ جسے تیری تصویر نظر آئی
آمل ہم سے یار دل سے
دوستی کا بناہ مشکل ہے
کیا فائدہ یعقوب سے ہم ہوویں ندیدے
شمع کس واسطے دل اپنا جلا کہتی ہے
نہ عندلیب گرفتار کو قفس چھوڑے
محبت نہیں چھوٹتی آہ دل سے
اگر خضر ایک باری آن کر تیری گلی دیکھے
بس تو اب دل کی ہوس جانے دے
تری گلی میں تو یہ خاکسار رہتا ہے
نہ میں جہاں میں ہوں تیری تو آرزو یہ ہے
ناصح جفاے عشق اگر میں سہی سہی
دل کے لینے سے خوشی ہے لیجے یوں بھی سہی
پھوٹے وہ آنکھ جس میں نہ ذرہ بھی نم رہے
پس رہ کر دیکھنا تیرا بڑا ارمان ہے
یوں پوچھنا کہ سچ ہے فلانے کو عشق ہے
مقابل مت کرو شوخی بڑے آہو کی آہو سے
بھلی اک بار ساقی نے مے وحدت پلائی ہے
خدا نے لڑکپن کا بھی عجب عالم بنایا ہے
وہ شوخ جو ہم سے یار ہووے
دل تو کیوں اس سے اب چھپاتا ہے
شوخ نامہربان کے صدقے
الٰہی خیر کیجو عشق پھر آنکھیں دکھاتا ہے
اسی کو عشق کہتے ہیں جو یوں ہردم ستاتا ہے
پھر لگا کرکے صنم کی چاہ جی
جو یہی غم ہے کہ من لیجو کہ ہم مرجائیں گے
شکر حق چھپ چھپ کے تم بھی اس اب کہیں جانے لگے
مری صحرا نوردی پوچھ تو ٹک جاکے ہاموں سے
اے نکہت گل جائیو محفل میں کسی کے
کہوں کس سے حکایت آشنا کی
نہ پوچھو حال دل ہاہا کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے
گو ش مہوش جو پنھانے کو گہر چیریں گے
اشک وخوں آنکھوں میں آکر جم گئے
مسی پر سرخی پاں دیکھ میری عقل بھولی ہے
محبت منہ پہ کرنا اور دل میں بے وفائی ہے
کہوں کیا بات اس بے پیر دل کو
مسی پہ سرخی پاں جب جھمک دکھاتی ہے
گزشتہ حسن کا اب تک نشان باقی ہے
یا تو جاتے رہے اے یار ہمیں دنیا سے
جب سے کہ چشم خلق صنم تجھ سے جالگی
عاشق تو دل پہلے ہی تھا اب تو ہوا مستانہ ہے
عزیزو دیکھیو میرا دل اس پر قرض آتا ہے
جلاہاتھوں سے تیرے دین وایماں جان اور تن بھی
واشد ہے جیسے غنچۂ تصویر میں چھپی
مجھ سے دارو مدار کرتا ہے
کس سے کہوں میں یارب اپنا غم نہانی
تیرے ملنے سے نہایت اب یہ دل مایوس ہے
گر دل جلوں کی یاں کچھ قدر ہے
راہ میخانہ کوئی آج مجھے بتلادے
نہ عاشق ہے کسی کا تو نہ بیتابی سے محرم ہے
اے پیک صبا تو نے دل زار سنا بھی
جس کے قدم قدم پر تڑپے دل وجگر ہے
یوں تو نکلے نہ مرے دل کی اپاہے گاہے
تجھ بن کسی کام زندگانی
جاے مے بزم میں گو بادۂ کوثرہووے
ساغر مے کی نمط پاؤں اگر جاخالی
دعا دیتا ہے تو مکھڑے کو پٹھرا کر چراتا ہے
آج اپنے دل کو دیکھا آج میں نے دور سے
ادھر دیکھو تو کس نازو ادا سے آج آتا ہے
جو پہلے ہم سے الفت تھی سو اب اس میں نہیں باقی
یہ آنسو ہو کے قاصد جس کی آنکھوں سے نکلتا ہے
کون سا اس جہاں میں بے غم ہے
کہوں میں اس کے شرمانے کی خوبی
کیوں رہے دل میرے بدلے جاتا ہے
سوز غم سے ترے بادیدۂ تر رہتا ہے
مجھ کو دھمکاتا تو ہے ہر بار کیوں کس واسطے
کہوں اسرار اپنے دل کا عالم ڈراتا ہے
جو دل پہ ہے گزرتی ا کو خدا ہی جانے
ہر ایک عاشق کے جی میں یہ ہے کہ میرا محبوب مجھ کو چاہے
بہ عزم دلبری پھر وہ ستم ایجاد آتا ہے
دل لے ہی گیا نہ یار ہے ہے
عشق سے جو کہ دل لگاتا ہے
تری قدرت کے میں قربان تو کیا کیا بناتا ہے
کسی صورت سے یہ دل شاد نہیں ہوتاہے
صنم کے ہاتھ میں کیا آرسی تھی
تجھے دل کے لینے کی کیا چاہ ہے
آجا مرے منتوں کو پالے
بھاگتا کیوں ہے تو اے سروخراماں مجھ سے
متفرقات
رباعیات
مستزاد
قطعات
مخمس
مثنوی
تذکرۂ مجمع الانتخاب میں میر سوزؔ کا ترجمہ
امید ہو گئی کچھ گوشہ گیرسی دل میں
سرورق
سوزؔ گارسان دتا سی کی نظر میں
سوز اور ان کی شاعری
ل
کتب خانۂ سالار جنگ میں دیوان سوزؔ کا ایک نسخہ
دیوان سوز
درد کش کیا کہہ سکے ساقی کوثر کی ثنا
سردیوان پر اپنے جو بسم اللہ میں لکھتا
جس نے آدم کے تئیں دم بخشا
اہل ایماں سوزؔ کو کہتے ہیں کافر ہو گیا
جس نے ہر درد کو درماں بخشا
ترا ہم نے جس کو طلبگار دیکھا
آہ ونالہ یہ مرا سینۂ سوزاں میں پھنسا
جو دل کہ تیری یاد سے معمور ہو گیا
ترے دل میں بے رحم کچھ غم نہ آیا
جنبش ابروے کچھ بتلا گیا
کسی نے روم لی قسمت میں کوئی شام لےآیا
زندگانی میں کسے آرام حاصل ہوئے گا
کعبے ہی کا اب قصد یہ گمراہ کرے گا
جب تک کہ میرے تن میں اے جان دم رہے گا
اگر میں جانتا ہے عشق میں دھڑکا جدائی کا
کریں شمار بہم دل کے یار داغوں کا
تو ہم سے جو ہم شراب ہوگا
جو ہم سے تو ملا کرے گا
جس کا تجھ سا حبیب ہووےگا
جتنا کوئی تجھ سے یار ہوگا
غم تو کہتا ہے کہ میں تجھ کو ستا جاؤں گا
کہیں تو ہم تجھ سے بات لیکن کسی کا کب تو کہا کرے گا
جگر سے نالہ دل سے آہ سینے سے فغاں نکلا
سنا تو نے کہ پھر کرتا ہے تیری چاہ دل میرا
بس دل زار خوش نہیں آتا
تجھ پہ قربان مری جان دل ودیں میرا
میں دور سے اے یارو کل اس کو دکھا دوں گا
ہے جیتے جی تو مجھے کوے یار میں رونا
ہم نے کون ومکاں دیکھ لیا
کھا گئی کس کی نظر کس کا یہ تجھ کو غم لگا
بتوں کے عشق سے واللہ کچھ حاصل نہیں ہوتا
یہ چال یا قیامت یہ حسن یا شرارا
مجھ کو تنہا چھوڑ کراے شوخ بے پروانہ جا
سر شک شمع آخر شمع محفل دن ہوگا
رات آنکھیں تھیں مندیں پر بخت ٹک بیدار تھا
مندے گر چشم ظاہر دیدۂ بیدار ہو پیدا
مبارک باد دوہم کو پیغام بہار آیا
جگر پر زخم خنجر سے ہوا اور ہی دہن پیدا
جو سوز یونہیں خلق میں بدنام رہے گا
خطرہ نہیں ہے مجھ کو اے عشق اپنے جی کا
لہوں سا گر پڑا کچھ جس گھڑی عاشق کا دم نکلا
مجھے گر حق تعالی عشق میں کچھ دسترس دیتا
دغل نکلا جو ہیں معیار پر الفت کے کس دیکھا
کیا تماشا ہے عدم میں اس جہاں سے جو گیا
آہ جس دن سے ہوا یار دل آزار جدا
تھی لانا مجالس میں نہیں دوستو شیشے کا
بات کہتے ہی اکڑ کر تو چلا
میں تو غبار دل کا یکبار دھو کے آیا
مرے احوال پر اب کون سا دشمن نہیں جلتا
مرا منہ تجھے یار کیا خوش نہیں آیا
کہوں حال گر عشق محنت فزا کا
فکر ہے ناصح برا تجھ کو گریباں چاک کا
عشق تو میرا کلیجہ کھا گیا
قاضی ہزار طرح کے قصوں میں آسکا
مت ستا مجھ کو دلا تو بھی ستایا جائے گا
زلفوں سے اگر مجھ کو سروکار نہ ہوتا
ہم سے جو بولوگے تو کیا ہوئے گا
محبت میں نہیں ہے ناصحا کچھ اختیار اپنا
بلبل نے جس کا جلوہ جاکر چمن میں دیکھا
افسوس تم اوروں سے ملو رات کو تنہا
گو کہ قمری کا ہے دل سرد گلستاں سے لگا
شعلۂ حسن سے دل کا مرے کاشانہ جلا
کسی طرح ترے دل سے حجاب نکلے گا
جلنے سے میرے کیااسے پر واہ جل گیا
برقع اٹھانے سے تمہیں انکار ہی رہا
جن نے تجھ اے جواں نہ دیکھا
جو غم دل کا مرے مہماں نہ ہوتا
گردن پہ روز خنجر فولاد ہی رہا
بغیر از عاشقی کچھ کام مجھ سے ہو نہیں سکتا
میں جس قدر کہ ترے جور سے فگار ہوا
مروت دشمنا غفلت پناہا
بس دیکھا ہم نے پیار تیرا
میرے احوال پر نظر نہ کیا
جی ناک میں آیا بت گل فام نہ آیا
جب ہوئے نصیبہ رام میرا
قضاے کار صنم سے جو میں دو چار ہوا
مجھ عبد سے کام کچھ نہ نکلا
اپنے نالے میں گر اثر ہوتا
پہلے کہتے تھے کہ ہاں ہاں سوز اچھا آشنا
نے رستم اب جہاں میں نے سام رہ گیا
عشق نے تیرے مجھے رسوا کیا
جب بادہ خوں دل ہو تو سیر چمن کجا
گل ہی نہیں غلام تبسم کی آن کا
قضا را وہ قاتل ادھر آن نکلا
جو میں جیتا ہوں تو احوال دل سب آسناؤں گا
یہ تو نہ کہو خدا نہ دیکھا
کعبۂ ودپر سب میں جا دیکھا
رات نالہ میں کیا یار سنا یا نہ سنا
دل تو پہلے تو اچک کر لے گیا
یہ تیرا عشق کب کا آشنا تھا
کبھی یہ دل ہمارا آشنا تھا
جہاں کا ایک دم کرے نظارا
بھلا عشق پھر تو ستانے لگا
جہاں تو ہے اے تیرے قربان لے جا
چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا
اوغم تو نے بہت ستایا
حسن اس کا تو آشکارا تھا
دیکھ لی تیری بھی چاہ اور میرزا
جس کا تو آشنا ہوا ہوگا
دل کے ہاتھوں سے جگر تو جل گیا میرے خدا
تری جان پرکب مرا غم رہا
ملنے کی تیرے دل میں ہیں گی ہوائیں کیا کیا
چھنایا نام وننگ وصبر وطاقت قول دے جھوٹا
نہ الفت ہے نہ شفقت ہے یہی ہر دم کا نکتورا
گردن نہ ماریو مجھے ہاں کاٹیوگلا
ہر دم شکار کرکے تو اے نازنیں نہ جا
دل کہاں ہے جو رکھوں غم کو ترے اس میں چھپا
دوڑ کر میرے گلے لگ جا ترے قرباں گیا
تب ملنے کا مجھ ساتھ تو پیغام کرے گا
ہر چند اس کو اب تک دارو مدار ہے گا
دل بیرحم اپنا حال مجھ سے کچھ نہیں کہتا
جو دل کہ تھا الٰہی اس دلربا کے گھر سا
مجلس سے ہو کے مست جو رشک بتاں اٹھا
جو قصد پینے کا غیروں میں تم شراب کیا
دلا تو کب تئیں میرا جگر جلا دے گا
مل کے اس بدخوسے جب تو خوار رسوا ہوئے گا
جھوٹ باعث ہے بیقراری کا
رسوا ہوا خراب ہوا مبتلا ہوا
گردل زار کا مسکن ترے در پر ہوتا
عاشق ہوا اسیر ہوا مبتلا ہوا
گفتگو کا تری حاصل ہی گیا
عشاق تیرے سب تھے پرزار تھا سو میں تھا
جہاں کی دوستی غیراز غبار دل نہیں پاتا
جب خیال آتا ہے اس دل میں ترے اطوار کا
عشق تھا یا کیا تھا جس سے دل اٹکتا ہی رہا
خط بو سے کو اس لب کے کچھ ارزاں نہ گرے گا
نہ دانہ ساتھ لے صیاد تو نے دام لیتا جا
لگے ہے جام جو منہ دل ہے آب شیشے کا
آہ پر آہ نالے پر نالا
قدر داں بن ہے بہت حال برا شیشے کا
کہتی ہے میرے قتل کو یہ بے وفا حنا
میں ساری رات میری جان تیری یاد کرتا تھا
دیکھ کر جو مرگئے ہیں تیرے پوروں پر حنا
جاجا میرے پاس سے تو جا جا
ایک بندہ جہاں میں ہے واللہ
دل کشتہ ہوا ہے
الٰہی محبت کو لگ جاے لوکا
محبت کو دام بلا جانتا تھا
میری آنکھوں کے تو آگے سے اب اے ماہ نہ جا
آگلے بھی میرے لگ جابے وفا
تیرے ہاتھوں میں جلا او بے وفا
جو دل چاہتا تھا سو ہونے نہ پایا
اب تو ہے سینے میں حسرت جاے دل
اس قدر نیچی نگاہ اوبے وفا
کیا ہے جب سے خالق نے زمین وآسماں پیدا
اے شمع تجھے جن نے کہ پر نور بنایا
تیرا مکھڑا مجھے دکھائے خدا
مگر سوز کے دل میں کچھ درد تھا
بل بے قاتل ترا سرا ہوں ہیا
ہے بلبل عاشق گل شمع پر عاشق ہے پروانا
کس نے تجھ کو بغل میں آج لیا
اس سے آگے تو کبھی اے سوز تو نالاں نہ تھا
نئی اک طرح اپنی عشق میں ایجاد میں کرتا
جہاں تھا رات کو دل شام کے ہوتے وہیں بھاگا
جلانا ہی موے مردوں کو جانا
جو کوئی عاشقی میں ثابت قدم نہ ہوگا
اب تو دم باقی نہیں اے جان آجا دیکھ جا
سنا کسی نے کبھی منہ سے کچھ گلا دل کا
دل پر خوں اپنا لے تو چلو جو لیا تو لیا نہ لیا نہ لیا
ہوا غرق ایسے دریا میں جسے پایاں نہیں پیدا
شرایط اپنی میں اسلام میں ہر گز نہیں پاتا
بھلا فنا کدے میں آکے سوز کیا دیکھا
دلا عزم تونے کیا ہے کہاں کا
خدا حافظ اے دل ترے پیارے جی کا
عاشق زار ترا زلف گرہ گیر ہوا
دل لے گیا شہ سوار میرا
ژالہ ساں یہ دل ہمارا آب ہو کر گل گیا
کیا دید کروں میں اس جہاں کا
یارب کدھر گیا دل غم خوار کیا ہوا
پھر موسم بہار نے نشوونما کیا
ہوا دل کو میں کہتے کہتے دوانا
دل کے ہاتھوں بہت خراب ہوا
بلبل کہیں نہ جائیو زنہار دیکھنا
یار گر صاحب وفا ہوتا
آج اس راہ دل ربا گزرا
انتظار وصل میں میں تھک گیا
زباں سے ہو سکے کب دل ربا تیری ثنا کہنا
دیکھ دل کو چھیڑ مت ظالم کہیں دکھ جائے گا
دلا دریاے رحمت قطرہ ہے آب محمد کا
جز شکر قلم صفحہ پہ خلاق جہاں کا
یہی میں پوچھتا ہوں تجھ سے جانا
ہوا ہے یار کو یہ اشتیاق آئینہ کا
نہیں پیکاں پہ جوہر نامہ ان نے تیر پر لکھا
جو غم دل کا مرے مہماں نہ ہوتا
ستمگروں سے کسی کا توزور چل نہ سکا
تو جو پوچھے ہے کہ تیرا دل بتا کس نے لیا
صنم نے قتل جب میرا کیا تھا
نہ اپنوں نے کبھو پوچھا نہ بیگانوں نے آدیکھا
آہ کے کرتے ہی جگر ہل گیا
کھولی گرہ جو غنچے کی تو نے تو کیا عجب
صاحب عصمت کو نامحرم سے لازم ہے حجاب
ب
کون سے اعمال کا بدلا ملا ہے یا نصیب
کیا ہےا تنا بھی ادھر منہ پھر اؤ صاحب
مجھ کو دھوکا دیا دکھا کے شراب
بس کہ دل میں بس رہی ہے گی صدائے عندلیب
ایک تو مجھ کو نہیں اب زندگانی کی امید
خط نہیں یہ بس کہ ہے مہرو مراصاحب حجاب
چشم عبرت کھول کر ٹک دیکھ تو اے مست خواب
یہ کہو میری طرف سے جا کے اس بیرحم کو
ہمارے پاس بھی گاہے بگاہے آیئے صاحب
تو مرے دل کو ملا دے یارب
سچ ہے یہ رونے میں ہوتا ہے اثر آخر شب
آخذا سے ڈر نہیں یہ شیشہ خالی محتسب
موتی کو بھی ترے کرے احیا قیام لب
بہت ہنستے تو ہو تم میرے رونے پر میاں صاحب
گو کہ گل جائے استخواں یا پوست
دین وکفر آنکھوں نے تیری کردیا اے یار مست
ت
تیرے عاشق کو نہیں ہے کچھ خیال خوب وزشت
رندو کہو جھک جھک کے مئے ناب سلامت
ہر شخص نہیں یار سزاوار محبت
نکل نہ گھر سے تو اے ماہتاب کی صورت
یہ لوگ عبث لیتے ہیں کیوں نام محبت
ہوا اب کی سر سبز بستاں نہایت
ہوئے ہیں غنچوں کے دل بیقرار تیرے ہاتھ
تڑپے ہے روزوشب دل مفتوں بجان دوست
دل لے چلا ہوں نذر میں اب تو براے دوست
یار بن اپنی بلا سے گو کہ آئی ہے بسنت
صاحبو تم سے راست کہتا ہوں
یا تو ہم سے کیا کرو باتیں
ث
نہ کی صحبت نے اپنی یار میں تاثیر کیا باعث
ج۔چ۔ح۔خ
سیر گلشن ہے اور سحاب ہے آج
ارباب جہاں کا ہے یہ سب نشو ونما ہیچ
رہتے تھے شاد ہم تو نہایت عدم کے بیچ
آتا نہیں جو سیر چمن کو وہ یار آج
جاں عاشق کی نہ چھوڑیں گے ترے پیار کے پینچ
رشک گل سے بھر گئے ہیں خار پیراہن کے بیچ
اگر محبوب ہو کر ہر کسی دل کا کرے لالچ
خوباں ہیں اور شمع میاں تو ہے نور صبح
وا نہیں ہوتا ہے اس کا دل کبھو گل کی طرح
دل پڑاروتا ہے روز وشب حصار تن کے بیچ
دیکھیو ٹک اس طرف اٹکھیل کے آنے کی طرح
رات کو رہتا ہوں نالاں غم سے بلبل کی طرح
گالیوں سے تیری ہم ہوتے نہیں اے ماہ تلخ
یار مجھ کو قرآن کی سوگند
د
دین ودنیا سے گزر کر جوہوا ہو یار شوخ
کیا کہوں تم سے اے خردمند
میں چاہتا نہیں دنیا میں عزوجاہ بلند
لذت بے رنج ملتی ہے زمانے سے بعید
ہوا ہے اب تو مجھ پر مہرباں درد
ہوا ہے داغ مرا دل انار کے مانند
بڑا دنیا میں وہ ہوگا خرد مند
یہ غم ہے کون سے ظالم کی اولاد
گفتم کہ غمت مرا بناشد
ذ
لکھوں جو وصف تمہارے گل رخاں کاغذ
گل بوے تو درکنار وارد
ایک دن بیٹھا تھا اپنے بام پر
بس میاں عشق پوجوں تیرے پیر
ر
ہاتھ میں نیمچا ہے یاکہ شرار
ایک تو پاؤں میں پڑی زنجیر
جگر سے دل میں دل سے آنکھ میں آنکھوں سے مژگاں پر
یارو جلدی سے کچھ کرو تدبیر
اشک خونیں تو ہوا دیدۂ ترسے باہر
بنے خوبرو بے وفائی کی خاطر
اے دل تو صبح یار کے کوچے میں جاشتاب
آج کہتے ہیں کہ آوے گا وہ جاناں باہر
روتا ہے تیرے غم میں دل زار زار زار
عرق نہیں ہے سموم ہوا سے چہرے پر
دل سے صحبت نہیں ہے اب تو برآر
ایسے جینے سے بھائی میں بیزار
جن کو نہیں ہے کچھ سروسامان روزگار
زمیں پر پانو کب رکھتا ہے عیار
رنگیں گل نشاط سے تھی شاخسار عمر
اے آہ جگر سے اب سفر کر
ٹک مری طرف تو دیکھ اے یار
جس طرح جانے مکھڑے کو پیارے نقاب کر
تیغ کو کھینچے ہے وہ غارت گردیں میرے پر
صبا حریف لے آئی ہے تو مرے دل پر
یوں دیکھ لے ہے وہ کہ ادا کو نہ ہو خبر
پھولتا ہے اب کوئی دم کو گلستاں بہار
مانگتے ہیں ہم اپنے یار کی خبر
اے شوخ بے پروا مرے اتنا مجھے رسوا نہ کر
عندلیبو خوش ہو اب گلشن میں آتی ہےبہار
بے وفا ایسی بھی تو عاشق سے عیاری نہ کر
کسی سے آج تلک ہونہیں سکی تسخیر
اپنے گھر میں مجھے بلا کر
تجھ پہ اے جان آن ہے کچھ اور
ذبج کر تکے لگا دل کو جلا کر خاک کر
قدم رکھتے ہیں یکباری زمیں پر
مجھ ساتھ تیر دوستی جب ہو گئی آخر
تب جائے کیونکے عشق کی اے یار تجھ بغیر
جو شوخ تو ہے کون ہے طناز اس قدر
کاٹتے ہیں دل کو ابروے یار کے تلوار وار
دل میں دیتا ہوں تو شبا نہ کر
بس کر اے غم جگر جلا بس کر
عاشق کو دیکھ کر نگہ آشنانہ کر
پیوں ہوں خون دل اپنا تجھے گماں ساغر
پوچھوں ہوں راہ کعبۂ ودل پر ہے داغ دیر
کوئی خرفا ہے کوئی تولی ہے
لگا ہے جب سے دل میں تیر دلدوز
ز
کرتا ہوں ترک عشق میں یوں پیش وپس ہنوز
جل گئی قمری نہیں ہے سروکو باور ہنوز
میں تو دیوانہ ہوا بنتی ہے زنجیر ہنوز
س
کیا ہم کو ہو بہار میں گلزار کی ہوس
آج دل آ پ ہی آپ کچھ ہے اداس
مت اس قدر تڑپ تو دل بیقرار بس
ش
یوں بوجھ مرے دیدۂ پر آب کی گردش
بلبل کو ہے ترے سر دیوار کا ہلاس
گو تم نے ہمیں کیا فراموش
رکھتے ہیں تیری زلف کے ہر تار کا خلش
ص
آرام پھر کہا ں ہے جو ہو دل میں جاے حرص
کبھو تو فیض کو پہنچوں میں اے مرے فیاض
ض
دیکھ لینا ہم کو تیرا یار ہے جب تب غرض
کب میں آیا تیرے مکتب میں بتا واللہ غلط
ط
اب ضرر کرنے لگا دل کو بتاں کا اختلاط
سرسبز حسن رکھتی ہے تیرا بہار خط
سمجھے تھے ہم جو دوست تجھے اے میاں غلط
ظ
اغنیا عزو جاہ سے محفوظ
تیری آنکھوں کی طرح رکھے یہ جام نشاط
تاب لاوے نہ ترے حسن کی لرزاں ہے شمع
ع
اٹھے نشے میں محبت کے خط یار سے حظ
مژگاں کی گر خلش کا بہ دل ڈھنگ ہے وسیع
آتش سے مرا بوجھ سمندر نہ ڈرے داغ
غ
اشک کے قطرے میں نیساں کا اثر رکھتی ہے شمع
نالے سے میں اپنے نہیں اے رشک پری داغ
عشق کی ہووے تو ہو ہم کو اسیری کی دماغ
ف
ایک دم تو درد کے سہنے سے مجھ کو دے فراغ
مرضی جو آئی چرخ کی بیداد کی طرف
ہوتا نہیں ہے مجھ سے تو اے بدگمان صاف
زندگی آخر ہوئی آیا نہ دلدار حیف
ایک ہی نگہ میں آب ہوا دل ہزار حیف
یوں کھب رہا ہے گل کے کلیجے میں خار حیف
گر خواب میں دیکھے تجھے کنعان میں یوسف
کدھر جاتے ہو مجھ کو چھوڑ کر اے مہرباں مشفق
دود سے آہ کے ہے گرچہ سیہ خانہ عشق
ق
دل ہوا ہے کون سی جامنزل وماواے عشق
ک
رونے کو میرے تابکجا دل سے آئے اشک
آنکھیں ہوں مری پر آب کب تک
در پر اس کے نہ جاؤں کب تک
لخت جگر جو آنکھ سے نکلے اٹک اٹک
تونے مجھ کو نہیں کیا ہےہلاک
میرے نالے سے ہے جہاں تاریک
اشک کب ہوں تیرے مستانے کے خشک
مجھ کو مت تہمت لگا بہر خدا تو اے فلک
سنبل وزلف سیہ کاکل وشب چاروں ایک
میں سکھاؤں تم کو یارو گر کرو تدبیر ایک
کوچۂ یار میں ہر ایک کو جانا مشکل
اےمرے دل تو کیوں پڑا ہے نڈھال
مرا لگتا نہیں اے باغباں تیرے چمن میں دل
کون بخشائے مرے اس سے گنہ گاری دل
کس کنے جاکے کہوں آہ گرفتاری دل
دیکھو قدرت کو بیٹھے تھے جنھوں میں مل کے مل
آتا ہے وہ مست حیا میناے صہبا در بغل
اٹھ سوز وہ دیکھ آتا ہے قاتل
ہوا کس سنگ دل کا مبتلا دل
کبھی کالے گیا وہ دلربا دل
نہ یاں دکھلائی دیتا ہے نہ واں دل
شتابی چل مرے مخمور آپی لے شراب دل
جاتا ہے دل تو جائیو ہشیار آج کل
جب تو چمن سے گھر کو چلا کرکے دید گل
خداندا کدھر گم ہو گیا دل
پاتا نہیں ہوں آج میں یارو دماغ گل
کیا جانیے ہوا ہے یہ کس کا شکار دل
دیکھ تیرے حسن کو گلشن میں مرجھاتا ہےگل
کہاں پھرتا ہے واہی ہر گھڑی تو کو بکواے دل
تو تیری یاتفنگی اے دل اے دل
میاں دل بھائی دل اور مہرباں دل
م
گر گرپڑیں بہ وضع شرابی یہ گام گام
نہ مجھ کو خاص سے مطلب ہے کچھ نہ عام سے کام
اندوہ سے تیرے مر گئے ہم
ٹرائیں سنگ سے سر ہو ہم کنار ہم تم
دید کریے جہاں کا یک دم
سنا ہے اب تو خط آیا ہے کس اسلوب دیکھیں ہم
جب سے ہوا ہے ناز تمہارا شیر چشم
پیتا ہوں یاد دوست میں ہر صبح وشام جام
خدا کے واسطے اے تند خو نہ ہو بدنام
ہٹا ہے دل پہ تو لے تجھ کو میرے جی کی قسم
دل میں کھٹکے ہے پڑا اے یار میرے خار غم
ناصحو دل کس کنے ہے کس کو سمجھاتے ہو تم
واعظ نہ کر تو بے ادبی سے کلام جام
آہ پلکیں تو خون سے گئیں جم
کیا کہوں کیسا حال ہے تجھ بن
اے گل صبا کی طرح پھرے اس چمن میں ہم
ن
ترے جیسے جیسے ستم دیکھتے ہیں
کب تلک میں راہ اس بیرحم کی دیکھا کروں
دل تو کہتا ہے کہ یارب مرا دلدار کہاں
خون ہووے نہ رقیبوں کا سو دلدار کہاں
آہ میں بے قرار کس کا ہوں
سنا ہے کوئی اب ہے طبع کا مرغوب ہم دیکھیں
من مانتی کرتاہے تو مجھ پر جفا میں کیا کہوں
ایسے ستم شعار سے کہیے تو کیا وفا کروں
دل کو مرے ہواے چاہ نہیں
کب تلک کوچہ وبازار میں رسوا ہوں میں
تجھ بنا میں زندگانی کیا کروں
کون سا دن ہو کہ میں وہ رخ زیبا دیکھوں
دل کو اس غم سے گھلاؤں کیا کروں
جگر کے میں چیلوں کو تکے کھلا دوں
کھب گیا حسن یار آنکھوں میں
روبرو جا کے یہ کہوں صاحب
برق طپیدہ یا شرر برجہیدہ ہوں
ہر پیالے پر دل مانگو ہو اور تو اب تیار نہیں
ظاہر میں گرچہ بیٹھا لوگوں کے درمیاں ہوں
ہرچند میں جہاں میں گل
کون سا منہ لے دیکھے خاکسار آئینہ میں
دل آشفتۂ عاشق ہے کہیں ہوش کہیں
جان قدموں تلے جب اہل وفا دیتے ہیں
سرخوش جوش بہار نرگس مستانہ ہوں
نام ونشاں تھا جن کا بڑا آن شان میں
کہیں ناگاہ ملتے ہیں جو وہ ہمدرد آپس میں
گرچہ میں سارے جہاں کی وضع سے بیگانہ ہوں
کہتے ہیں لوگ یار ہمارا
شہد میں جیسے مگس ہم حرص کے پابند ہیں
یہی میں پوچھتا ہوں تجھ سے جاناں
چلے اب کس طرف یکبار گی منہ موڑ کر جاناں
دیکھا تو کچھ نہ آکے جہان خراب میں
بھلہ بے عشق تیری شوکت وشان
میرے پیارے تو ہاتھ دل پہ نہ رکھ
اک عمر غم دوست سے ہم خانہ رہا میں
کچھ آپ ہی آپ میرا آج دل ڈرتا ہے کیا جانیں
ضعف سے نالہ بھی اب دل سے نکل سکتا نہیں
غمزۂ چشم شرمسار کہاں
گزر گئے اس جہاں سے یارب فقیر وامراوشاہ لاکھوں
گردوا کرنی ہے کر اے یار دن دوچارمیں
شہید عشق کے مسجود یا امام حسین
دل آشفتہ عاشق ہے کہیں ہوش کہیں
کون کہتا ہے کہ میں ہشیار ہوں یا بیہوش ہوں
بستیاں بستی ہیں اور اجڑے نگر آباد ہیں
کیا کروں دل کو اب قرار نہیں
نہ ہواے بے مروت مجھ سے ناخوشنود اٹھتا ہوں
آنکھیں جو نہ لگ جاتیں تو زار نہ ہوتا میں
دیدۂ خشک آفتاب کہاں
تو منہ سے نہ کہہ کہ اپنے گھرجاؤں
چین کب اس کو جودیکھے دل کی یہ بے تابیاں
بندگی سے تیری کچھ عار نہیں
جو ایک دم بھی میں اس شوخ سے کلام کروں
دل کو میرے ہوا ے باغ نہیں
کب تلک قیدی رہوں میں جسم کے زندان میں
میں ڈوب گیا کدھر گیا دن
دشنام بھی لبوں سے تو ہم نے سنی نہیں
دم مغموم عاشق کس طرح ہوشاد دنیا میں
مجھ کو کہتا ہے کہ تیری خو مجھے بھاتی نہیں
کون سا دل ہے کہ تیرا ستم آباد نہیں
کرے نہ باغ میں بلبل کبھی سخن تجھ بن
غبار خاک رواہ دلبر چالاک آنکھوں میں
غمزۂ چشم شرمسار کہاں
ان جفاؤں پر بھلا اب غم نہ کھاؤں کیا کروں
میں آیا جب سے دنیا میں کبھی خودکونہ سمجھا میں
آدم سے لگا سوز جگر خوں ہوے کنیں
گوکہ اے دل تجھے سرور نہیں
جس نے دیکھی ہوں تری مہر وفا دکی آنکھیں
یہ خامی ہے کہ سوز عشق سے فریاد کرتا ہوں
یہ تو معلوم کہ تم ملنے کو آؤ گے ہمیں
کب توقع تھی کہ تم پاس بٹھاؤگے ہمیں
حضرت عشق سے پھر مجھ کو پھر دلنیں
ہمیں کون پوچھے ہے صاحبو نہ سوال میں نہ جواب میں
کسے ڈھونڈھتے ہوبغل میں میاں
صنم کے ذکر سوا اور قیل وقال نہیں
دلربا اے سوز کیوں تیری طرف مائل نہیں
کینے سے مہر بدلے افلاک ایک پل میں
امید وصل جز طمع خام کچھ نہیں
اتنا ستم نہ کیجے مری جان جان جان
باندھ لیتا کیوں نہیں سر کو مرے فتراک میں
دل کے ملنے کا کچھ نہ چارہ کریں
پھرے تھی فوج بلبل جب چمن میں
حمد میں تیری اے خدا ے سخن
گرچہ میرے مضطرب دل کو شکیبائی نہیں
زباں سے ہو سکے کب دل ربا تیری ثنا کہناں
بہار اس کو نہیں لگتی ہے یک پاسنگ آنکھوں میں
عاشق ترے ہم نے کیے معلوم بہت ہیں
آنکھوں کو ٹک سنبھالو یہ مارتی ہیں راہیں
کرے ہے عشق کی گرمی سے دل آنند آتش میں
سوز کو سمجھے ہے تو ناداں کہ وہ دانا نہیں
قیس کی آوارگی ہے دل میں سمجھو تو کہوں
اے خوشا حال ہوا جو کوئی رسواے بتاں
آنکھیں بھی اس کی آنکھوں سے گرٹک ملا کریں
خوں عشاق سے تو بھر لے پیارے دامن
جب اپنی جاں کنی تک پہنچے یارو کام دنیا میں
مجھے معلوم یوں ہوتا ہے میری ہی تہسی آنکھیں
بلبل کہیں پتنگ کہیں اور ہم کہیں
یا د میاں اب دل میں تیرے وہ باتیں نہیں آتی ہیں
مت پھر تو ساتھ غیر کے آمان ہر کہیں
اس سروقد کی دوستی میں کچھ ثمر نہیں
لڑیں کیوں ہیں ترے مژگان وابرو یارآپس میں
جاتا ہوں ترے در سے بس اے یار رہا میں
دل کو یہ آرزو ہے رہے کوئے یار میں
چاہ کے غرق تجھے ہے یہ گماں ترتے ہیں
کہاں نصیب ہے اس شوخ سے کلام کروں
اب تو ایسا میں ناتواں ہوں
کرلے جو چاہے سویہ حسن جوانی پھر کہاں
کوچۂ عشق میں جو اہل نظر جاتے ہیں
سن کے بے تابی مری سیماب ڈھل جاوے وہیں
اشک بھی آتے نہیں اب کیا کروں
یہ ہیں بھی سمجھوں ہوں ناصح وہ یار یار نہیں
دل کو دنیا تو بہت سہل ہے دلدار کہاں
ٹکڑے تو ابھی لعل کے دل بیچ دھرے ہیں
جو بزم بیچ تجھے دیکھ کر نہ پھٹ جاویں
جن کے تئیں کہ عاشق محبوب جانتے ہیں
چم عشاق آبشار چمن
کہیں ہیں لالہ کو صاحب طبع ہے وہ چشم وچراغ گلشن
سبھی ہیں دل کے لے جانے کی باتیں
بھری تھی فوج بلبل جب چمن میں
دل کو میں غم میں جلادوں کیا کروں
طلب کرتا ہے مجھ سے ہر گھڑی پیماں گسل دل کو
و
کس طرح روتے ہواے دیدۂ تر دیکھیں تو
نصیحت میری تم منظور رکھیو
مرا جان جاتا ہے یارو سنبھالو
جس پر مرے صنم کو کرم کی نگاہ ہو
رہنے دواے محباں یکدم خموش مجھ کو
دم چلا ہے مجھ سے آہو دوڑیو
دلبر وخط سے نہ مکھڑے کو ہم آغوش کرو
حیف دل تجھ میں گر مروت ہو
بات کہتا ہوں تجھے مان لے بیزار نہ ہو
اب یہ دیوانہ مرے ہے کھول دو زنجیر کو
میں تو اب مرتاہوں کھولو پانو سے زنجیر کو
تری آنکھوں نے لوٹا کارواں کو
چرا کر دل چلا اب تو کہاں کو
ستا مت اے نسیم صبح آکر بیقراروں کو
میں جانتا ہوں تمہاری چھچھند کو
مست تو پھرتا ہے راتوں کو کہیں بہتان نہ ہو
چھڑا کر مجھ سے سارے خانماں کو
آہ اس دل کو کیا ہوا یارو
میری طرف سے جا کہو اس دلبر خود کام کو
جہاں میں پوچھتا پھرتا ہوں میں جس تس سے یاری کو
دکھلا نہ غصے سے صنم اس روئے آتش ناک کو
تو اپنی جان سے کیا سیر آیا ہے دل بدخو
واللہ اب جو دل میں کچھ اورآرزو ہو
قسم کھاتا ہوں ہر دم جو کروں ہر گز نہ یاری کو
سینہ پہ جس کے عشق سے خوباں کے داغ ہو
کہیو اے باد صبا بچھڑے ہوے یاروں کو
کون اسیر ایسا ہے مجھ بن جو قفس میں شاد ہو
گر رکھا تیغ نگہ نے دل فگار آئینہ کو
گلچیں خدا کرے کہ تو اب خوار وخستہ ہو
آیا ہے سوز پاس ترے دست بستہ ہو
دلا جوش اس قدر مار اپنے سینہ میں کہ صہبا ہو
نہ بت خانے کو اے یارو نہ بیت اللہ کو پوجو
کچھ اپنا حال تو لکھتا نہیں او دل کہاں ہے تو
بھلا دل تو لیا دل کی جگہ پہلو میں آبیٹھو
حضرت عشق بس نہ جی کھاؤ
کیا ہے صرف تعب اپنی نوجوانی کو
نہیں ہوتا ہے اب تو آہ کا ہی کچھ اثر دل کو
آگیا میں جہاں تہاں دل کو
اگر چاہو کہ اس ظالم کی کچھ بیداد سے پوچھو
دلا اہل دنیا سے مت آشنا ہو
خدا کے واسطے پہچان جانی دوست دشمن کو
بہت کچھ ان دنوں مغموم ہو غم خوار کس کےہو
ہے عشق بلا کا تیر دیکھو
کوئی یہ جاکے اب کہے میرے حبیب کو
معشوق ہو اور باوفا ہو
کیا خفا کردیا جوانی کو
سنو اے طالبو محبوب کے میرے کنے آؤ
بہت چاہا کہ پلکوں سے چھپاؤں اشک کو اپنے
مجھ سے ملے اگر صنم چشم بچشم روبہ رو
لباس دوستی میں پھر تو آیا ہے ستانے کو
مجھ کو نہ گل نہ سیر گلستاں ہے آرزو
اے قیامت نگہو پھر نہ جلاؤ مجھ کو
نہیں رہنے کا میرے پاس لے جا دلربا دل کو
کہا دل قطرۂ خوں ہے نہ چھیڑو ہر گھڑی دل کو
چٹکیاں لے لے کر ستاتے ہو
غم نہیں دنیا کا مر کر صاحب تسلیم کو
خاک ہونا ہے تو خاک کوچۂ دلدار ہو
یاسر کوے دلارام مجھے پہنچا دو
کھول نہ دیجولاڈلے ا دل ناصبور کو
کہو اس دشمن مروت کو
ہر کسی کو دیکھ کر محبوبو نہ گردن خم کرو
حال دل پوچھے ہے کیا مجھ سے مرا اے یار تو
دماغ اصلاح ہے دینے کا نہیں کہ دو ہلالی کو
لوگ کہتے ہیں کہ گلشن میں بہار آئی چلو
یوں نہ چاہے گا دل آگاہ یہ ہو وہ نہ ہو
چہ بے گنہ چہ گنہ گار یہ نہ ہو وہ ہو
عیش تو میرا ہے ساماں گو نہ ہووے تو نہ ہو
خدا ہی کی قسم ناصح نہ مانوں گا کہا اب تو
کہ دیجو صبا گل کو جو گلشن میں گزر ہو
عشق بازی پہ کمر تم نہ کسو جانے دو
لہو اس چشم کا پونچھے سے ناصح بند کیونکر ہو
جسے ہو تخت کا دعوا اسے افسر مبارک ہو
پوچھتے کیا ہو چشم پرنم کو
ہاتھ نہ پکڑو قاتل کا تم اس کو تیغ لگانے دو
نہ لگالے گئے جہاں دل کو
کیا لے گا کوئی ظالم اب تجھ سے ہو گریدہ
آتا ہے وہ جفاجو تیغ ستم کشیدہ
سنے گا بعد میرے جو کوئی میرا یہ افسانہ
کیا لے گا کوئی ظالم ہو تجھ سے یوں گرویدہ
اے دل گم شدہ پیدا ہو نہ
یارب حضور یار کے جس کا غلام ہوں
سچ کہیو قاصد آتا ہے وہ ماہ
قتل کو میرے نہ کرتاخیر آہ
جو صاحب دل ہے دل سےآگاہ
ماتم کا میرے شور ہے کہتا ہے کیا ہے یہ
تو لگ نہ چلا کر مرے خوں خوار سے زیادہ
تیز دستی دیکھیو قاتل کی میرے واہ واہ
ناصح کو کسی شوخ سے دل جاکےے لگا دیکھ
خدا کو کفر اور اسلام میں دیکھ
تنک سے جور میں کہتا ہے
قبول کیجو نظر میں تری میاں اللہ
بس جی کھاؤ نہ قسم جانتے ہیں
گر تجھے قتل کی خواہش ہے تو آبسم اللہ
ناصحا میرے سیم بر کو دیکھ
شراب خون دل کو پوچھے ہے مخمور ہے شیشہ
میں پھرتا ہوں ترے کو میں
اے دل نہ سنے گا یار چپ رہ
کدھر جاتا ہے تو اے شوخ دیدہ
لینے لگا ہے اب تو مرا نام گاہ گاہ
ہم رہیں محبوس زنداں واہ واہ
کردیم کباب جگر خود نہ میکدہ
ی
کشور دل میں نہیں کوئی کہ آباد رہے
تو جو کہتا ہے گلہ میرا کیا جس تس کنے
جس کو نہ ہو شکیب نہ تاب فغاں رہے
اومیاں اوجانے والے کہیو اس میخوار سے
تری محفل میں جو آئے سو اپنا کام کر اٹھے
ہوا ہے دل گم جہاں محباں وہاں کی کس شخص کو خبر ہے
ہزاروں مار ڈالے اور ہزاروں کو جلایا ہے
دل مرا مجھ سے جو ملا دیوے
راہ میخانہ کوئی آج مجھے بتلاے
دل بتوں سے کوئی لگا دیکھے
آنکھ پھڑکی ہے یار آتا ہے
یار سے جا کہو کہ پھر آوے
گفتار میں اب ضعف سےآواز نہیں ہے
ترحم کی نظر تجھ سے نہ ہم نے آج تک دیکھی
کہتے ہیں دل میں یار بستا ہے
یار گر دل کی طلب گاری کرے
صورت ہمیں اس شوخ کی پہچان اگرآوے
جو کوئی عشق میں بناہ کرے
سنگ پر چینی کو پٹکو گر صدا منظور ہے
یار کا جلوہ مرے کیا شہرۂ آفاق ہے
ترا غم مرے دل میں معمور ہے
غم ہے یا انتظار ہے کیا ہے
زندگانی ہے دیا زنداں ہے
بہ ملیے ہم سے دلے جی سے مہرباں رہیے
ننگ اب سمجھے ملاقات مری
تو نے جو کچھ دل میں ٹھانا ہے
جو کوئی آپ سے وفا نہ کرے
حلقۂ زلف گرہ گیر مبارک ہووے
مثل نے ہر استخواں میں درد کی آواز ہے
تلخ لگتی ہے مجھے بات تری
ادھر لے جائیو تابوت جس کوچے میں بانکا ہے
حضرت غم جان کے پیچھے نہ پڑیے جایئے
عشق تو کرتے کیا واقف نہ تھے اس چال کے
کیا میرے لبوں پہ جان پہنچی
مر گئی بلبل چمن میں سایۂ گل کے تلے
نہ آہ سرد پر بھولو جگر میں میرے آتش ہے
دل مجھے یاد غم دلاتا ہے
کچھ نہ کچھ اس کو یاد آتا ہے
عاشقی کا گر یہی اسلوب ہے
دلا جب سے گیا تو برے پھر صورت نہ دکھلائی
جس نے کچھ آپ کو پچھانا ہے
عبث بے فائدہ کیا کام کیوں ناصح ستاتا ہے
گر نور دگر ہے نار تو ہے
منہ لگانے سے مرے کیوں توخفا ہوتاہے
میں تجھ سے کہہ نہیں سکتا سخن اے یار نازک ہے
جز تیرے کوئی اور مرا یار نہیں ہے
نہ نکلے چرخ پر خورشید گر وہ خود نما نکلے
روز ازل سے سوز تمہارا غلام ہے
میرے سینہ کا داغ جلتا ہے
جان آسان نہیں نکلتا ہے
تری طرف تو یہ دل بھر نظر نہ دیکھ سکے
ہر بات میں جو ہم سے صنم تو خفا رہے
کس دل جلے کی تیرے تئیں بد دعا لگی
کوئی کہہ دو مرے میاں سے
بکتا ہوں میں اگر وہ قدر داں مول لے
اس تنگ وقت میں تونہ تاخیر شرط ہے
نہ عاشق ہے کسی کا تو نہ بیتابی سے محرم ہے
مکر جانے کا قاتل نے نرالا ڈھب نکالا ہے
بیمار کی آج اپنے سرشام خبر لے
چین نے دن ہے ان آنکھوں کو نہ شب آرام ہے
چمن میں کھول کر بند قبا گر گلبدن نکلے
کوئی میری طرف سے جا کہے اس بے مروت سے
دل ہے یا منزل گہ غم ہے کہ حسرت خانہ ہے
الٰہی خیر کیجو آج کیوں بازو پھڑکتا ہے
مجھ کو کیا کام جو آتش سے نگر جلتا ہے
کیا کیا تھے چاؤ دل میں آئے تھے جب عدم سے
ہر چند میری آہ سے ظالم کو ننگ ہے
اک روز کہا صنم سے میں نے
کرے مجھ پر جفا وجور کیا رستم کا یارا ہے
اے نکہت گل جائیو محفل میں کسی کے
کہہ اے قاصد کہ نامہ کا ہوا کیا ماجرا اس سے
جو دل پہ ہے گزرتی ا کو خدا ہی جانے
رات مجلس میں اس کی میرا پانوں
یہی ہے عشق کا آغاز تو انجام کے صدقے
عندلیبوں تمہیں گلزار مبارک ہووے
وہ سرخ پوش پیارا کیا جانیے کدھر ہے
بلبلو تم کو گلستاں مبارک ہووے
سینہ میں تو آہ یا فغاں ہے
اسی امید پر جیتا ہوں پیارے
مجھے دل کی کہاں سے اب خبر ہے
ہم جس کی طرف نظر کریں گے
ہم آئے کہ تم منہ چھپا کر چلے
اے خیال یار ٹک رہنا پرے
کچھ نہ کچھ اس کو یاد آتا ہے
ناصح کر میرے حق میں جوارشاد ہے سو ہے
پٹک مت اس کو اے ظالم نہ یہ پتھر نہ یہ دل ہے
نہیں ہے میاں دل اپنے گھر نہیں ہے
بخدا جتنے کہ دنیا میں یہ گلروہیں گے
صنم سے کوئی کہہ دے میری زبانی
جس روز سے تو جدا ہوا ہے
مرے دل کے داغوں سے گلشن کیا ہے
ہاں میاں جان کیا کہوں تجھ سے
ان بتوں کی یہی جو الفت ہے
یہ صنم خوش ادا کہاں کا ہے
پاس سے میرے اٹھ کے مت جارے
ہر ایک شیشۂ دل بیچ جلوہ گر ہے پری
ہاں طبیبو مجھ کو سودا اور ہے
اور رات کو چھپ کے جانے والے
ہم درد سے اے یارو کل اس کو جتا دیں گے
چکوریں چاند کے اور بلبلیں گلزار کے صدقے
جو شخص تری تیغ سے افگار نہ ہووے
کوئی صحرا کے صدقے ہو کوئی کہسار کے صدقے
اے صبا میری طرف سے جائیو کچھ کام ہے
زلف میں الجھا ہوں جس پر قتل کی تدبیر ہے
نہ رہے گا کوئی جہاں میں جو اسی طرح کا ستم رہے
مشفق کبھی تو عذر دل زار کیجیے
کہاں دل ہے کہاں ایماں کجا وہ صبروطاقت ہے
اچکا لے گیا کس کس سماجت اور منت سے
تنہا نہ مجھے درد نہاں تجھ سے گلا ہے
خبر لو میکدے میں کون سا مستانہ روتا ہے
بے چین ہے اب تو دل کو صبر وشکیبائی
اٹھ گیاآخر جہاں سے قیس او رفرہاد بھی
یارب مرا اس وقت تلک جان نہ نکلے
کوئی کم بخت ہو جو دل لگاوے زندگانی سے
درد غم ایک طرف داغ ہیں پنہاں کتنے
اے موجد طرح بے وفائی
سنو میاں آہ میں عاشق کی البتہ اثر ہووے
کس کا یہ نوجوان آتا ہے
جو دیکھے قد کو تیرے شمع پانی ہو پگھل جاوے
دل تیرا کب کا آشنا ہے
کیا پوچھتے ہو تقدیر اپنی
پرکار کی روشن نہ رہے ہم جتنی چل سکے
نہیں عاشق کسی کا تو وفا داری کو کیا جانے
کیا کہیے جو اس شوخ کی اوقات ہوئی ہے
بھلا اب کیا کروں کب تک قضا سے التجا کیجے
دل مرا عشق کا دوانا ہے
دل تری چاہ کی ایسی تیسی
وہ غل ہے جس کا موجب تو ہے ورنہ شور بہتر ہے
توبہ نشے میں دیکھ مجھے مار کر چلے
کیا کہیے وہ بت آہ کس آئیں نمکیں ہے
شراب تازہ سے داغ کہن میں آگ لگی
ہمارے قتل کا مژدہ صبا اغیار کو پہنچے
معتقد ہرگز نہیں ہیں کفر اور اسلام کے
کیا کہیے حال اپنا جو کچھ ہے سو ہے سوہے
اے تڑپ چین تو بسمل کو مرے پل بھر دے
نہ دے عاشق نہ دے معشوق جن میں ہو یہ کچھ خامی
مت محبت کو کسو سے آہ مشکل ہوئے گی
مبارک سیر باغ اس کو جو بلبل ہوے بستانی
لاکھ طوفاں بہ جہاں ہم کو فلک دکھلا دے
بے وفائی کیا کہوں ساتھ اپنے اس محبوب کی
پوچھو مت کیونکے تجھے رات میاں کٹتی ہے
جرم کو عضو کی تدبیر بہت اچھی ہے
طاقت کہاں کہ کیجے پرواز اب قفس سے
جاتے ہیں لوگ قافلے کے پیش وپس چلے
جب اس چمن سے چھوڑ کے ہم آشیاں چلے
عاشق تھا کبھی تجھ پہ یہ بھرمل تو سوہی ہے
محیط دل ہوئی اے شوخ تیری چاہ پھرتی ہے
ہم کو حنا جو قتل کر اور آپ بچ رہی
مسجد سے دیر کو شب لائی سیاہ مستی
جو زمیں زیر فلک داخل آبادی ہے
دل جنس فروشندۂ بازار ہنر ہے
قفس میں دکھ مجھے کچھ ہے تو ہے اسیری سے
کہو دل کو کہ دنیا کی تلاش خام سے گزرے
مانند جرس پھٹ گئی چھاتی تو فغان سے
نہ دی ظالم نے کچھ فرصت جو درد دل سے کچھ کہتے
خلقت تمام گردش افلاک سے بنی
مرے گھر میں الٰہی ایک شب وہ ماہتاب آوے
دل اس کے ہاتھ سے تنہا نہ ہو کر تنگ جلتاہے
تب دوری سے دایم یہ دل مہجور جلتا ہے
میں وہ رسوا ہوں جس کو دیکھ خاص وعام روتا ہے
سینہ پرسوز ہے اور دیدۂ پرآب ہے
جسے دل دیجے سو دلبر کہاں ہے
مرے دل کی کسے یارو خبر ہے
یار جس سے خوش رہے مجھ کو وہ آئیں چاہیے
مری آنکھوں میں یارو اشک ایسا موج مارے ہے
مجھ کو صدقے تو یار ہونے دے
حذر نہیں انہیں عالم کی خوں فشانی سے
ترے عارض پہ خط کی ہر کوئی تحریر کیا سمجھے
ہم کو نہ کچھ مال نہ زر چاہیے
دل چاہتا ہے تیری ملاقات کےلیے
سنے نہ یار تو دل کا بیان کیا کیجے
ستم پروردوں کو ہر دم ستم ایجاد یاد آوے
خبر لو دل کی نالہ آج جاں فرسود کیسا ہے
تو جو کہتا ہے گلہ میرا کیا جس تس کنے
آدم سے لگا سوز جگر خوں ہوے کتنے
یارب کہیں سے گرمی بازار بھیج دے
نہ گھر سے ترے ہم سفر کر چلے
ترے مکھڑے کے جلوے گو کہ آنکھوں سے نہاں ہیں گے
آنکھوں کی راہ میری یہ دل نکل نہ جاوے
جا دیتا ہے وہ لیے ہی بنے
ایک دن چھوٹے نہ ہم ظالم کے بس میں مر گئے
دل پہ چھاتی میں داغ رشن ہے
بتاں کی دیکھ گرمی چشم دل سا یار لے ڈوبی
خال نہ یاں سے اے ستم ایجا دجائیں گے
حال دل کس سے اب بیاں کیجے
تجھے اے مہرباں یہ سوز عاشق کیا دعا دیوے
نہ تیرا پاٹ دامن کا نہ تیری آستیں ڈوبی
جو غم دل میں بسے آکر اسے اب دور کیا کیجے
کسے طاقت جو اس قاتل کے آکر ہم زباں ہووے
میری نظروں میں تو ہر ذرہ شہ خادر ہے
عزیزو دیکھ لو کیا مہرباں پر رب کی رحمت ہے
غنچۂ دل نے کبھو تیرے نہ بو کی ہوگی
ہم کیا کریں صبا جو چمن میں بہار ہے
کیا کرے گی نہیں معلوم جدائی تیری
تو مرے دل کا درد کیا جانے
دل تلخ ہو رہاہے اب تیری گالیوں سے
تجھے تو مجھ سے ہزاروں ہیں پر مجھے تو ہے
اشارت ابردوں کی قتل کو میرے بلاتی ہے
عشق کے ہاتھوں سے اے یارو ہوا سودا مجھے
دکھ تو تو دیتا ہے پر تجھ کو کڑھاؤں تو سہی
مجھے چھیڑتا ہے کہ تو پارسا ہے
گھڑی نامہربانی ہے گھڑی دو ہی مدارا ہے
دل کو ترے خیال سے مقصود سو ہے
گرقید کیا چاہے تو تدبیر یہی ہے
اگر صندل لگاؤں سر کو دونا درد سر ہووے
سنواے بلبلو جس جا وہ شمع انجمن ہووے
اے پیک صبا حال دل زار سنا بھی
جاتا ہے کدھر جان تو اب تیغ و سپر لے
تجھ بن ہے عذاب زندگانی
اس دل کی ترے دل کو خبر ہوئے تو جانے
مید میں رکھتا ہوں صنم تیرے کرم کی
قاتل ہمارے ڈھیر سے جانا پرے ہوے
صنم کے ملنے کی اے محباں خدا کرے کوئی راہ نکلے
عشاق کی لاشوں سے بھری تیری گلی ہے
جس دن وہ صیدافگن بہر شکار نکلے
مدام ہے دل کی آرزو یہ کہ اس گلی کا غبار ہو جے
آہ جی اس طرح نکلتا ہے
کرنے کی نہیں فائدہ تدبیر کسو کی
یہ زلف ہے یا کوئی بلا ہے
پڑا رہنے دے ہم کو کنج میں اے باغباں سن لے
دختر رز اب تو نڈر ہوگئی
بولا وہ جسے تیری تصویر نظر آئی
آمل ہم سے یار دل سے
دوستی کا بناہ مشکل ہے
کیا فائدہ یعقوب سے ہم ہوویں ندیدے
شمع کس واسطے دل اپنا جلا کہتی ہے
نہ عندلیب گرفتار کو قفس چھوڑے
محبت نہیں چھوٹتی آہ دل سے
اگر خضر ایک باری آن کر تیری گلی دیکھے
بس تو اب دل کی ہوس جانے دے
تری گلی میں تو یہ خاکسار رہتا ہے
نہ میں جہاں میں ہوں تیری تو آرزو یہ ہے
ناصح جفاے عشق اگر میں سہی سہی
دل کے لینے سے خوشی ہے لیجے یوں بھی سہی
پھوٹے وہ آنکھ جس میں نہ ذرہ بھی نم رہے
پس رہ کر دیکھنا تیرا بڑا ارمان ہے
یوں پوچھنا کہ سچ ہے فلانے کو عشق ہے
مقابل مت کرو شوخی بڑے آہو کی آہو سے
بھلی اک بار ساقی نے مے وحدت پلائی ہے
خدا نے لڑکپن کا بھی عجب عالم بنایا ہے
وہ شوخ جو ہم سے یار ہووے
دل تو کیوں اس سے اب چھپاتا ہے
شوخ نامہربان کے صدقے
الٰہی خیر کیجو عشق پھر آنکھیں دکھاتا ہے
اسی کو عشق کہتے ہیں جو یوں ہردم ستاتا ہے
پھر لگا کرکے صنم کی چاہ جی
جو یہی غم ہے کہ من لیجو کہ ہم مرجائیں گے
شکر حق چھپ چھپ کے تم بھی اس اب کہیں جانے لگے
مری صحرا نوردی پوچھ تو ٹک جاکے ہاموں سے
اے نکہت گل جائیو محفل میں کسی کے
کہوں کس سے حکایت آشنا کی
نہ پوچھو حال دل ہاہا کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے
گو ش مہوش جو پنھانے کو گہر چیریں گے
اشک وخوں آنکھوں میں آکر جم گئے
مسی پر سرخی پاں دیکھ میری عقل بھولی ہے
محبت منہ پہ کرنا اور دل میں بے وفائی ہے
کہوں کیا بات اس بے پیر دل کو
مسی پہ سرخی پاں جب جھمک دکھاتی ہے
گزشتہ حسن کا اب تک نشان باقی ہے
یا تو جاتے رہے اے یار ہمیں دنیا سے
جب سے کہ چشم خلق صنم تجھ سے جالگی
عاشق تو دل پہلے ہی تھا اب تو ہوا مستانہ ہے
عزیزو دیکھیو میرا دل اس پر قرض آتا ہے
جلاہاتھوں سے تیرے دین وایماں جان اور تن بھی
واشد ہے جیسے غنچۂ تصویر میں چھپی
مجھ سے دارو مدار کرتا ہے
کس سے کہوں میں یارب اپنا غم نہانی
تیرے ملنے سے نہایت اب یہ دل مایوس ہے
گر دل جلوں کی یاں کچھ قدر ہے
راہ میخانہ کوئی آج مجھے بتلادے
نہ عاشق ہے کسی کا تو نہ بیتابی سے محرم ہے
اے پیک صبا تو نے دل زار سنا بھی
جس کے قدم قدم پر تڑپے دل وجگر ہے
یوں تو نکلے نہ مرے دل کی اپاہے گاہے
تجھ بن کسی کام زندگانی
جاے مے بزم میں گو بادۂ کوثرہووے
ساغر مے کی نمط پاؤں اگر جاخالی
دعا دیتا ہے تو مکھڑے کو پٹھرا کر چراتا ہے
آج اپنے دل کو دیکھا آج میں نے دور سے
ادھر دیکھو تو کس نازو ادا سے آج آتا ہے
جو پہلے ہم سے الفت تھی سو اب اس میں نہیں باقی
یہ آنسو ہو کے قاصد جس کی آنکھوں سے نکلتا ہے
کون سا اس جہاں میں بے غم ہے
کہوں میں اس کے شرمانے کی خوبی
کیوں رہے دل میرے بدلے جاتا ہے
سوز غم سے ترے بادیدۂ تر رہتا ہے
مجھ کو دھمکاتا تو ہے ہر بار کیوں کس واسطے
کہوں اسرار اپنے دل کا عالم ڈراتا ہے
جو دل پہ ہے گزرتی ا کو خدا ہی جانے
ہر ایک عاشق کے جی میں یہ ہے کہ میرا محبوب مجھ کو چاہے
بہ عزم دلبری پھر وہ ستم ایجاد آتا ہے
دل لے ہی گیا نہ یار ہے ہے
عشق سے جو کہ دل لگاتا ہے
تری قدرت کے میں قربان تو کیا کیا بناتا ہے
کسی صورت سے یہ دل شاد نہیں ہوتاہے
صنم کے ہاتھ میں کیا آرسی تھی
تجھے دل کے لینے کی کیا چاہ ہے
آجا مرے منتوں کو پالے
بھاگتا کیوں ہے تو اے سروخراماں مجھ سے
متفرقات
رباعیات
مستزاد
قطعات
مخمس
مثنوی
تذکرۂ مجمع الانتخاب میں میر سوزؔ کا ترجمہ
امید ہو گئی کچھ گوشہ گیرسی دل میں
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔