سرورق
کلام مومن
نہ یہ دست جنوں ہے اور نہ وہ جیب جنوں کیشاں
ردیف الالف
آگ اشک گرم کو لگی جی کیا ہی جل گیا
لگے خدنگ جب اس نالۂ سحر کا سا
گروہاں بھی یہ خموشی اثر افغاں ہوگا
ردیف اللام
بے سبب کیونکہ لب زخم پہ افغان ہوگا
دیدۂ حیراں نے تماشا کیا
موئے نہ عشق میں جب تک وہ مہرباں نہ ہوا
سم کھا موئے تو درد دل زار کم ہو
گر غیر کے گھر سے نہ دل آرام نکلتا
وصل کی شب شام سے میں سو گیا
ڈر تو مجھے کس کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
رات کس کس طرح کہا نہ رہا
ٹانکنے چاک گریباں کو تر ہر بار لگا
شب غم فرقت ہمیں کیا کیا مزے دکھلائے تھا
ہماری جان شب تجھ بن دل ناکام لیتا تھا
وقت جوش بحر گر یہ میں جو گرم نالہ تھا
میرے کوچے میں عدو مضطر وناشاد رہا
میں نے تم کو دل دیا تم نے مجھے رسوا کیا
محشر میں پاس کیوں دم فریاد آگیا
کسی کا ہوا آج کل تھا کسی کا
وعدۂ وصلت سے دل ہو شاد کیا
دل بیتاب کو گر باندھ کر رکھوں نہ ٹھہریگا
یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا
روز جزا جو قاتل دلجو خطاب تھا
مجھ کو تیرے عتاب نے مارا
ناز بیجا سے سوا شرم کے حاصل نہ ہوا
دیکھ لو شوق تاتمام مرا
فراق غیر میں ہے بیقراری یاب اپنا سا
کیا مرتے دم کے لطف میں پنہاں ستم نہ تھا
غیر کو سینہ کہے سے سیمبر دکھلا دیا
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
کہہ رہا ہے کون کس سے بے شکیبائی ملا
ہم رنگ لاغری سے ہوں گل کی شمیم کا
جوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا
کیا قہر طعن بوالہوس بے ادب ہوا
اے آرزوئے قاتل ذرا دل کو تھامنا
میں ہلاک اشتیاق طرز کشتن ہو گیا
لے اڑی لاشہ ہوا لاغر زبس تن ہو گیا
راز نہاں زبان اغیار تک نہ پہونچا
قابو میں نہیں ہے دل کم حوصلہ اپنا
وعدے کی جو ساعت دم کشتن ہے ہمارا
ہمسری اس زلف سے اب یہ بھی ایسا ہو گیا
میں تو دیوانہ تھا اس کی عقل کو کیا ہو گیا
کیا رشک غیر تھا کہ تحمل نہ ہو سکا
شوخ کہتا ہے بے حیا جانا
اس وسعت کلام سے جی تنگ آگیا
وہ ہنسے سن کے نالہ بلبل کا
چلون کے بدلے مجھ کو زمیں پر گر ادیا
اشک داژدنہ اثر باعث صد جوش ہوا
دل قابل محبت جاناں نہیں رہا
گر میں کمبخت وہ بخیل ہوا
کیا رم نہ کروگے اگر ابرام نہ ہوگا
غصہ بے گانہ دار ہونا تھا
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
ہم جان فدا کرتے گر وعدہ وفا ہوتا
کیا ہوا ہو اگر وہ بعد امتحاں اپنا
عدم میں رہتے تو شاد رہے اسے بھی فکر ستم نہ ہوتا
کوچے میں بستر آپ کے شام اور کا ہوا
گئے وہ خواب سے اٹھ کر غیر کے گھر آخر شب
ردیف البا
قتل مدد میں عذر نزاکت گراں ہے لب
تم بھی رہنے لگے خفا صاحب
تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
کیا دیکھتا خوشی سے ہے غیروں کے گھر بسنت
باب التاء
سودا تھا بلا کے جوش پر رات
یاں سے کیا دنیا سے اٹھ جاؤں اگر رکتے ہیں آپ
کرتے ہیں مدد وسل میں حرماں کی شکایت
ہو نہ بیتاب ادا تمہاری آج
ردیف الجیم
ردیف الثاء
اظہار شوق شکوہ اثر اس سے تھا عبث
پنجۂ شاز سے تو زلف گرہ گیر نہ کھینچ
ردیف الحاء
گر چندے اور یہ ہی رہی یار کی طرح
رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح
ردیف الدال
عدو نے دیکھے کہاں اشک چشم گریاں سرخ
ردیف الخاء
ہم دام محبت سے ادھر چھوٹے ادھر بند
غربت میں گل کھلائے ہے کیا کیا وطن کی یاد
نامہ رونے میں جو لکھا تو یہ بھیگا کاغذ
نہ کیونکر بس ہوا جاؤں کہ یاد آتا ہے رہ رہ کر
ردیف الرائے
اے تند خو آجا کہیں تیغا کمر سے باندھ کر
یاد اسکی گرمیٔ صحبت دکھاتی ہے بہار
جاتے تھے رہ گئے بیتاب دیکھ کر
بیمروت ناتواں ہیں ہنس دے روتا دیکھ کر
مومنؔ خدا کے واسطے ایسا مکاں نہ چھوڑ
سینہ سے منفعل ہے کھرا تیر کھینچ کر
ردیف الراء ہندی
ہجراں کا شکوہ لب تلک آیا نہیں ہنوز
ہے چشم پوشی پر ہیں آنسو رواں ہنوز
ردیف الزاء
یوں ہے شعاع داگ مرے دل کے آس پاس
ردیف السین
لپ پہ دم آیا زلے نالہ نہیں ہے ہنوز
کھا گیا جی غم نہاں افسوس
ردیف الشین
کل دیکھ کے وہ خذار آتش
روز ہوتا ہے بیاں غیر سے اپنا اخلاص
ردیف الصاد
کہاں نیند تجھ بن مگر آئے غش
بے صبر کو کہاں تپ داغ جگر سے فیض
ردیف الضاد
غم کو ہم سے ربط ہے مدت سے ہم کو غم سے ربط
ردیف الطاء
ہاں مان کہا سچ بوے زلف دوتا قرض
ردیف الظاء
ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غلط
ہاں تو کیونکر نہ کرے ترک بتاں اے واعظ
ردیف العین
کس ضبط پر شرار فشاں ہے فغان شمع
لوگ کیا جانیں ہیں سوز شمع وپروانے کا خظ
محفل فروز تھی تپ وتاب نہان شمع
مت کہہ شب وصال کہ ٹھنڈا نہ کر چراغ
ردیف الغین
گلشن میں لالہ میں ہوں کہ ہے دل میں جاتے داغ
مجلس میں تا بہ دیکھ سکوں یار کی طرف
ردیف الفاء
ردیف القاف
قہر ہے موت ہے قفا ہے عشق
وہ جو زندگی میں نصیب تھا وہی بعد مرگ رہا قلق
امتحاں کے لئے جفا کب تک
ردیف الکاف
پھر نہ چھوڑوں گو وہ کردے چاک بیب جاں تلک
ہم ہیں اور نزع شب ہجر میں جاں ہونے تک
ترے درد ہجر میں کب تلک پڑے تڑپیں آٹھ پہر تلک
ردیف الکاف فارسی
لگائی آہ نے غیروں کے گھر آگ
مرد عشق ستیزہ کار ہے دل
مجھ پر بھی تجھ کو رحم نہیں یہ کرخت دل
ردیف المیم
کیا کروں کیونکر رکوں ناصح رکا جاتا ہے دل
شام سے تاصبح مضطر صبح سے تاشام ہم
سرمہ ہیں اس چشم جادو فن میں ہم
پاتے تھے چین کب غم دوی سے گھر میں ہم
غم ابرو میں بھرتے ہیں دم شمشیر اکثر ہم
کب چھوڑتے ہیں اس ستم ایجاد کے قدم
جو پہلے دن ہی سے دل کا کہا نہ کرتے ہم
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
الجھے نہ زلف سے جو پریشانیوں میں ہم
دل آگ ہے ار لگائیں گے ہم
اب اور اسے کو لگائیں گے ہم
صفحۂ جیحوں پر جو کبھی ہم سوزش دل لکھواتے ہیں
ردیف نون
لاش پر آنے کی شہرت شب غم دیتے ہیں
عشق نے یہ کیا خراب ہمیں
ناصح ناداں یہ دانائی نہیں
ہو گئی گھر میں خبر ہے منع واں جانا ہمیں
کہے ہے چھیڑینکو میرے گر سب ہوں مرے بس میں
غیر بے مروت ہے آنکھ وہ دکھا دیکھیں
ہے جلوہ ریز نور نظر گر د راہ میں
نہ تن ہی کے ترے بسمل کے ٹکڑے ٹکڑے میں
جیب درست لائق لطف وکرم نہیں
تانہ پڑے خلل کہیں آپ کے خواب ناز میں
غنچہ ساں خاموش بیٹھے ہیں سخن کی فکر میں
کون کہتا ہے دم عشق عدو بھرتے ہیں
دن بھی دراز رات بھی کیوں ہے فراق یار میں
بے مزہ ہو کر نمک کو بیوفا کہنے کو ہیں
مانے نہ مانے منع تپشہاے دل کروں
وہ علی الرحم عدو مجھ پہ کرم کرتے ہیں
صورت دکھایئے جو کبھو جا کے خواب میں
گر وہ ہو دست حنائی کھس انگن آب میں
ہجراں میں بھی زیست کیوں نہ چاہوں
دکھاتے آئینہ ہو اور مجھ میں جان نہیں
ہر دم ہیں کش مکش دست یار ہیں
شب وصل اس کے تغافل کی زب تاب نہیں
آہ فلک نگن ترے غم سے کہاں نہیں
تاثیر صبر میں نہ اثر اضطراب میں
جلتا ہوں ہجر شاہد یاد شراب میں
ردیف الواو
بیم بیداد ستم کچھ دل مضطر میں نہیں
سرمہ گیں آنکھ سے تم نامہ لگاتے کیوں ہو
کیسے مجھ سے بگڑے تم اللہ اکبر رات کو
اگر زنجیر کش سوئے بیاباں اپنی وحشت ہو
آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو
ایسے سے کیا درستیٔ پیماں بستہ ہو
یہ قدرت ضعف میں بھی ہے فغاں کو
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
پونچھنے سے ہمدمو دریا ہے کیونکر خشک ہو
ناصحو آہی گیا وہ فتنہ ایام لو
روٹھے سو روٹھے ہم سے نتے نہیں ہو کیونکر
یہ مایوسی دل لبھاں نالۂ شب گیر تو کھینچو
اعجاز جاں وہی ہے ہماے کلام کو
ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو
صد حیف سینہ سوز فغاں کار گر نہ ہو
کہتے ہیں کون رکھو مرہم زنگار پر رکھو
خالی ہوئے فتنہ سے گاہے جہاں نہ ہو
چل پڑے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ
ردیف الہاء
سیماب ہے پہلو میں مرے دل تو نہیں یہ
جو تیرے منہ سے نہ ہو شرمسار آئینہ
الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اوکس ادا کیساتھ
دلبستگی سی ہے کسی زلف دوتا کیساتھ
ہم میں فلک نگہ بھی طاقت نہ چھوڑ دیکھ
تکلیف سے جوں پنجۂ گل لال ہوا ہاتھ
ردیف الیاء
منظور نظر غیر سہی اب ہمیں کیا ہے
میں اگرآپ سے جاؤں تو قرار آجائے
خوشی نہ ہو مجھے کیونکر قضاکے آنے کی
تیری پابوسی سے اپنی خاک بھی مایوس ہے
دیتے ہو تسکین مرے آزار سے
زہر ٹپکے ہے نگاہ یار سے
ہے نگاہ لطف دشمن پر تو بندہ جائے ہے
ہوئی تاثیر آہ وزاری کی
دفن جب خامیں ہم سوختہ ساماں ہوں گے
سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلا کے اٹھے
منہ کو نہ سیا ناصح کی بخیہ گری اتنی
پامال اک نظر میں قرار وثبات ہے
پھر وہ وحشت کے خیالات ہیں سر میں پھرتے
مجھے یاد آگئی بس دوہیں اسکے قدوقامت کی
نہ دینا بوسۂ پا کو فلک جھکتا زمیں پر ہے
مجھ پہ طوفاں اٹھائے لوگوں نے
کشتۂ حسرت دیدار ہیں یارب کس کے
سرمگیں چشم سے کیوں تیز نظر کرتا ہے
تمہیں تقصیر اس بت کی کہ ہے میری خطا لگتی
دیکھ گریاں مجھے وہ چشم کو تر کرتا ہے
فگاں کیا دم بھی لیناپارہ ہاے دل اڑاتا ہے
کیوں بنی خوننابہ نوشی بادہ خواری آپ کی
جہاں سے شکل کو تیری ترس ترس گزرے
صبر وحشت اثر نہ ہو جائے
کیا مرے قتل پہ حامی کوئی جلاد بھرے
نہ انتظار میں یاں آنکھ ایک آن لگی
کرتا ہے قتل عام وہ اغیار کیلئے
کہاں تک دم بخود رہئے نہ ہوں کیجئے نہ ہاں کیجے
اجل سے خوش ہوں کسی طرح ہو وصال تو ہے
تسلی دم واپسیں ہو چکی
در بدر ناصیہ فرسائی سے کیا ہوتا ہے
ہے دل میں غبار اس کے گھر اپنا نہ کریں گے
اجل جاں بلب تیرے شیون سے ہے
توبہ ہے کہ ہم عشق بتوں کا نہ کر یں گے
نہ کٹی ہم سے شب جدائی کی
شب تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے
ازبس جنوں جدائی گل پیرہن سے ہے
وہ کہاں ساتھ سلاتے ہیں مجھے
پھر سینہ سوز داغ غم شعلہ فام ہے
جذب دل زور آزمانا چھوڑ دے
میں احوال دل مرگیا کہتے کہتے
کیونکہ پوچھے حال تلخی عاشق دلگیر سے
مشورہ کیا کیجئے چرخ پیر سے
جل گئے اختر یہ کس کی حسن کی تنویر سے
ہے فسانہ ساتھ سوئے کب کسی تدبیر سے
مومن کے شرق اس بت کافر کا نو گھر ہے
دل میں اس شوخ کے جوراہ نہ کی
بندھا خیال جناں بعد ترک یارمجھے
اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
دعا بلا تھی شب غم سکون جاں کے لئے
نہ ربط اس سے نہ یاری آسماں سے
فردیات
سرورق
کلام مومن
نہ یہ دست جنوں ہے اور نہ وہ جیب جنوں کیشاں
ردیف الالف
آگ اشک گرم کو لگی جی کیا ہی جل گیا
لگے خدنگ جب اس نالۂ سحر کا سا
گروہاں بھی یہ خموشی اثر افغاں ہوگا
ردیف اللام
بے سبب کیونکہ لب زخم پہ افغان ہوگا
دیدۂ حیراں نے تماشا کیا
موئے نہ عشق میں جب تک وہ مہرباں نہ ہوا
سم کھا موئے تو درد دل زار کم ہو
گر غیر کے گھر سے نہ دل آرام نکلتا
وصل کی شب شام سے میں سو گیا
ڈر تو مجھے کس کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
رات کس کس طرح کہا نہ رہا
ٹانکنے چاک گریباں کو تر ہر بار لگا
شب غم فرقت ہمیں کیا کیا مزے دکھلائے تھا
ہماری جان شب تجھ بن دل ناکام لیتا تھا
وقت جوش بحر گر یہ میں جو گرم نالہ تھا
میرے کوچے میں عدو مضطر وناشاد رہا
میں نے تم کو دل دیا تم نے مجھے رسوا کیا
محشر میں پاس کیوں دم فریاد آگیا
کسی کا ہوا آج کل تھا کسی کا
وعدۂ وصلت سے دل ہو شاد کیا
دل بیتاب کو گر باندھ کر رکھوں نہ ٹھہریگا
یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا
روز جزا جو قاتل دلجو خطاب تھا
مجھ کو تیرے عتاب نے مارا
ناز بیجا سے سوا شرم کے حاصل نہ ہوا
دیکھ لو شوق تاتمام مرا
فراق غیر میں ہے بیقراری یاب اپنا سا
کیا مرتے دم کے لطف میں پنہاں ستم نہ تھا
غیر کو سینہ کہے سے سیمبر دکھلا دیا
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
کہہ رہا ہے کون کس سے بے شکیبائی ملا
ہم رنگ لاغری سے ہوں گل کی شمیم کا
جوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا
کیا قہر طعن بوالہوس بے ادب ہوا
اے آرزوئے قاتل ذرا دل کو تھامنا
میں ہلاک اشتیاق طرز کشتن ہو گیا
لے اڑی لاشہ ہوا لاغر زبس تن ہو گیا
راز نہاں زبان اغیار تک نہ پہونچا
قابو میں نہیں ہے دل کم حوصلہ اپنا
وعدے کی جو ساعت دم کشتن ہے ہمارا
ہمسری اس زلف سے اب یہ بھی ایسا ہو گیا
میں تو دیوانہ تھا اس کی عقل کو کیا ہو گیا
کیا رشک غیر تھا کہ تحمل نہ ہو سکا
شوخ کہتا ہے بے حیا جانا
اس وسعت کلام سے جی تنگ آگیا
وہ ہنسے سن کے نالہ بلبل کا
چلون کے بدلے مجھ کو زمیں پر گر ادیا
اشک داژدنہ اثر باعث صد جوش ہوا
دل قابل محبت جاناں نہیں رہا
گر میں کمبخت وہ بخیل ہوا
کیا رم نہ کروگے اگر ابرام نہ ہوگا
غصہ بے گانہ دار ہونا تھا
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
ہم جان فدا کرتے گر وعدہ وفا ہوتا
کیا ہوا ہو اگر وہ بعد امتحاں اپنا
عدم میں رہتے تو شاد رہے اسے بھی فکر ستم نہ ہوتا
کوچے میں بستر آپ کے شام اور کا ہوا
گئے وہ خواب سے اٹھ کر غیر کے گھر آخر شب
ردیف البا
قتل مدد میں عذر نزاکت گراں ہے لب
تم بھی رہنے لگے خفا صاحب
تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
کیا دیکھتا خوشی سے ہے غیروں کے گھر بسنت
باب التاء
سودا تھا بلا کے جوش پر رات
یاں سے کیا دنیا سے اٹھ جاؤں اگر رکتے ہیں آپ
کرتے ہیں مدد وسل میں حرماں کی شکایت
ہو نہ بیتاب ادا تمہاری آج
ردیف الجیم
ردیف الثاء
اظہار شوق شکوہ اثر اس سے تھا عبث
پنجۂ شاز سے تو زلف گرہ گیر نہ کھینچ
ردیف الحاء
گر چندے اور یہ ہی رہی یار کی طرح
رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح
ردیف الدال
عدو نے دیکھے کہاں اشک چشم گریاں سرخ
ردیف الخاء
ہم دام محبت سے ادھر چھوٹے ادھر بند
غربت میں گل کھلائے ہے کیا کیا وطن کی یاد
نامہ رونے میں جو لکھا تو یہ بھیگا کاغذ
نہ کیونکر بس ہوا جاؤں کہ یاد آتا ہے رہ رہ کر
ردیف الرائے
اے تند خو آجا کہیں تیغا کمر سے باندھ کر
یاد اسکی گرمیٔ صحبت دکھاتی ہے بہار
جاتے تھے رہ گئے بیتاب دیکھ کر
بیمروت ناتواں ہیں ہنس دے روتا دیکھ کر
مومنؔ خدا کے واسطے ایسا مکاں نہ چھوڑ
سینہ سے منفعل ہے کھرا تیر کھینچ کر
ردیف الراء ہندی
ہجراں کا شکوہ لب تلک آیا نہیں ہنوز
ہے چشم پوشی پر ہیں آنسو رواں ہنوز
ردیف الزاء
یوں ہے شعاع داگ مرے دل کے آس پاس
ردیف السین
لپ پہ دم آیا زلے نالہ نہیں ہے ہنوز
کھا گیا جی غم نہاں افسوس
ردیف الشین
کل دیکھ کے وہ خذار آتش
روز ہوتا ہے بیاں غیر سے اپنا اخلاص
ردیف الصاد
کہاں نیند تجھ بن مگر آئے غش
بے صبر کو کہاں تپ داغ جگر سے فیض
ردیف الضاد
غم کو ہم سے ربط ہے مدت سے ہم کو غم سے ربط
ردیف الطاء
ہاں مان کہا سچ بوے زلف دوتا قرض
ردیف الظاء
ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غلط
ہاں تو کیونکر نہ کرے ترک بتاں اے واعظ
ردیف العین
کس ضبط پر شرار فشاں ہے فغان شمع
لوگ کیا جانیں ہیں سوز شمع وپروانے کا خظ
محفل فروز تھی تپ وتاب نہان شمع
مت کہہ شب وصال کہ ٹھنڈا نہ کر چراغ
ردیف الغین
گلشن میں لالہ میں ہوں کہ ہے دل میں جاتے داغ
مجلس میں تا بہ دیکھ سکوں یار کی طرف
ردیف الفاء
ردیف القاف
قہر ہے موت ہے قفا ہے عشق
وہ جو زندگی میں نصیب تھا وہی بعد مرگ رہا قلق
امتحاں کے لئے جفا کب تک
ردیف الکاف
پھر نہ چھوڑوں گو وہ کردے چاک بیب جاں تلک
ہم ہیں اور نزع شب ہجر میں جاں ہونے تک
ترے درد ہجر میں کب تلک پڑے تڑپیں آٹھ پہر تلک
ردیف الکاف فارسی
لگائی آہ نے غیروں کے گھر آگ
مرد عشق ستیزہ کار ہے دل
مجھ پر بھی تجھ کو رحم نہیں یہ کرخت دل
ردیف المیم
کیا کروں کیونکر رکوں ناصح رکا جاتا ہے دل
شام سے تاصبح مضطر صبح سے تاشام ہم
سرمہ ہیں اس چشم جادو فن میں ہم
پاتے تھے چین کب غم دوی سے گھر میں ہم
غم ابرو میں بھرتے ہیں دم شمشیر اکثر ہم
کب چھوڑتے ہیں اس ستم ایجاد کے قدم
جو پہلے دن ہی سے دل کا کہا نہ کرتے ہم
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
الجھے نہ زلف سے جو پریشانیوں میں ہم
دل آگ ہے ار لگائیں گے ہم
اب اور اسے کو لگائیں گے ہم
صفحۂ جیحوں پر جو کبھی ہم سوزش دل لکھواتے ہیں
ردیف نون
لاش پر آنے کی شہرت شب غم دیتے ہیں
عشق نے یہ کیا خراب ہمیں
ناصح ناداں یہ دانائی نہیں
ہو گئی گھر میں خبر ہے منع واں جانا ہمیں
کہے ہے چھیڑینکو میرے گر سب ہوں مرے بس میں
غیر بے مروت ہے آنکھ وہ دکھا دیکھیں
ہے جلوہ ریز نور نظر گر د راہ میں
نہ تن ہی کے ترے بسمل کے ٹکڑے ٹکڑے میں
جیب درست لائق لطف وکرم نہیں
تانہ پڑے خلل کہیں آپ کے خواب ناز میں
غنچہ ساں خاموش بیٹھے ہیں سخن کی فکر میں
کون کہتا ہے دم عشق عدو بھرتے ہیں
دن بھی دراز رات بھی کیوں ہے فراق یار میں
بے مزہ ہو کر نمک کو بیوفا کہنے کو ہیں
مانے نہ مانے منع تپشہاے دل کروں
وہ علی الرحم عدو مجھ پہ کرم کرتے ہیں
صورت دکھایئے جو کبھو جا کے خواب میں
گر وہ ہو دست حنائی کھس انگن آب میں
ہجراں میں بھی زیست کیوں نہ چاہوں
دکھاتے آئینہ ہو اور مجھ میں جان نہیں
ہر دم ہیں کش مکش دست یار ہیں
شب وصل اس کے تغافل کی زب تاب نہیں
آہ فلک نگن ترے غم سے کہاں نہیں
تاثیر صبر میں نہ اثر اضطراب میں
جلتا ہوں ہجر شاہد یاد شراب میں
ردیف الواو
بیم بیداد ستم کچھ دل مضطر میں نہیں
سرمہ گیں آنکھ سے تم نامہ لگاتے کیوں ہو
کیسے مجھ سے بگڑے تم اللہ اکبر رات کو
اگر زنجیر کش سوئے بیاباں اپنی وحشت ہو
آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو
ایسے سے کیا درستیٔ پیماں بستہ ہو
یہ قدرت ضعف میں بھی ہے فغاں کو
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
پونچھنے سے ہمدمو دریا ہے کیونکر خشک ہو
ناصحو آہی گیا وہ فتنہ ایام لو
روٹھے سو روٹھے ہم سے نتے نہیں ہو کیونکر
یہ مایوسی دل لبھاں نالۂ شب گیر تو کھینچو
اعجاز جاں وہی ہے ہماے کلام کو
ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو
صد حیف سینہ سوز فغاں کار گر نہ ہو
کہتے ہیں کون رکھو مرہم زنگار پر رکھو
خالی ہوئے فتنہ سے گاہے جہاں نہ ہو
چل پڑے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ
ردیف الہاء
سیماب ہے پہلو میں مرے دل تو نہیں یہ
جو تیرے منہ سے نہ ہو شرمسار آئینہ
الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اوکس ادا کیساتھ
دلبستگی سی ہے کسی زلف دوتا کیساتھ
ہم میں فلک نگہ بھی طاقت نہ چھوڑ دیکھ
تکلیف سے جوں پنجۂ گل لال ہوا ہاتھ
ردیف الیاء
منظور نظر غیر سہی اب ہمیں کیا ہے
میں اگرآپ سے جاؤں تو قرار آجائے
خوشی نہ ہو مجھے کیونکر قضاکے آنے کی
تیری پابوسی سے اپنی خاک بھی مایوس ہے
دیتے ہو تسکین مرے آزار سے
زہر ٹپکے ہے نگاہ یار سے
ہے نگاہ لطف دشمن پر تو بندہ جائے ہے
ہوئی تاثیر آہ وزاری کی
دفن جب خامیں ہم سوختہ ساماں ہوں گے
سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلا کے اٹھے
منہ کو نہ سیا ناصح کی بخیہ گری اتنی
پامال اک نظر میں قرار وثبات ہے
پھر وہ وحشت کے خیالات ہیں سر میں پھرتے
مجھے یاد آگئی بس دوہیں اسکے قدوقامت کی
نہ دینا بوسۂ پا کو فلک جھکتا زمیں پر ہے
مجھ پہ طوفاں اٹھائے لوگوں نے
کشتۂ حسرت دیدار ہیں یارب کس کے
سرمگیں چشم سے کیوں تیز نظر کرتا ہے
تمہیں تقصیر اس بت کی کہ ہے میری خطا لگتی
دیکھ گریاں مجھے وہ چشم کو تر کرتا ہے
فگاں کیا دم بھی لیناپارہ ہاے دل اڑاتا ہے
کیوں بنی خوننابہ نوشی بادہ خواری آپ کی
جہاں سے شکل کو تیری ترس ترس گزرے
صبر وحشت اثر نہ ہو جائے
کیا مرے قتل پہ حامی کوئی جلاد بھرے
نہ انتظار میں یاں آنکھ ایک آن لگی
کرتا ہے قتل عام وہ اغیار کیلئے
کہاں تک دم بخود رہئے نہ ہوں کیجئے نہ ہاں کیجے
اجل سے خوش ہوں کسی طرح ہو وصال تو ہے
تسلی دم واپسیں ہو چکی
در بدر ناصیہ فرسائی سے کیا ہوتا ہے
ہے دل میں غبار اس کے گھر اپنا نہ کریں گے
اجل جاں بلب تیرے شیون سے ہے
توبہ ہے کہ ہم عشق بتوں کا نہ کر یں گے
نہ کٹی ہم سے شب جدائی کی
شب تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے
ازبس جنوں جدائی گل پیرہن سے ہے
وہ کہاں ساتھ سلاتے ہیں مجھے
پھر سینہ سوز داغ غم شعلہ فام ہے
جذب دل زور آزمانا چھوڑ دے
میں احوال دل مرگیا کہتے کہتے
کیونکہ پوچھے حال تلخی عاشق دلگیر سے
مشورہ کیا کیجئے چرخ پیر سے
جل گئے اختر یہ کس کی حسن کی تنویر سے
ہے فسانہ ساتھ سوئے کب کسی تدبیر سے
مومن کے شرق اس بت کافر کا نو گھر ہے
دل میں اس شوخ کے جوراہ نہ کی
بندھا خیال جناں بعد ترک یارمجھے
اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
دعا بلا تھی شب غم سکون جاں کے لئے
نہ ربط اس سے نہ یاری آسماں سے
فردیات
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.