سرورق
جدھر دیکھو ادھر منہ ہے سما سے تا سمک تیرا
ردیف الف
یہ بزم تری ہے جام تیرا
ہیں محمد جسم وجان کبریا
زاہد نے جناں کا خواب دیکھا
مسجد میں خدا خدا نہ کرنا
شمع پہ گر کے کھلا حال جو جل جانیکا
ہے یہ سماں بہار کا لطف ہے لالہ زار کا
نہ تھا احمد پیارا خدا سے جدا کہا اسکو خدا تو برا نہ ہوا
کل کا مالک جو یار ہے میرا
خیال خام سے سر میں یہ خود نمائی کا
پیش نظر ہے دلبر والشمس والضحٰہا
جلوہ گاہ ازلی ہے یہ مکان دنیا
مرتبہ خاک سمجھتے ملک وجان تیرا
کہیں کیا سنگ اسود ہے حرم کیا
دیکھا نہ کور چشم نے رخ آفتاب کا
جنت کا شوق اور نہ ڈر ہے جحیم کا
جھگڑا ہے دیر وکعبہ میں عبد والہ کا
خیال آئے نہ دل میں ماسوا کا
بتوں کی محبت سے کیا ہو گیا
خدا کے گھر میں جی لگتا نہیں اہل محبت کا
دور جب غیرت حق کا یہ پردہ ہوگا
بیان ممکن نہیں مستان حق کی ہوشیاری کا
آساں ہے کوہ پر شجر نار دیکھنا
فرض کعبہ میں بھی ادا نہ ہوا
جب تک خودی تھی قرب خدا سےمیں دور تھا
بے جان ہے چوب وتار وتن ساز دیکھنا
عالم کو فنا جانا اور حق کو بقا جانا
ان بتوں میں بتائیں کیا دیکھا
خوب ہوتا جو میں مجنون بنایا جاتا
جو پوچھے کوئی بت کیا ہے حرم کیا
گر سامنے زاہد کے بے پردہ وہ آجاتا
کہا زبان سے تغیر عمل تو قال ہوا
خدا وخلق دونوں ہیں جدا کیا
نفس امارہ ہے رہزن کوچۂ دلدار کا
کہاں ہے دونوں عالم میں دل بیتاب اپنا سا
زمانہ ہے یہ آشنائی کا جھوٹا
مرنے سے پہلے نیزہ حرص وہوا کے مارا
کون ہے دنیا میں جو طالب نہیں دیدار کا
عشق جاناں نے ہمیں روز ازل میں مارا
گڑھا ہے سر زمین عشق میں اول قدم میرا
برساوہ ابر مہر خدائے لطیف کا
قحط ہے حسن حقیقی کے خریداروں کا
نہ حرم میں نہ عرش پر دیکھا
صنم کی یاد سے سارا جہاں بھلا دینا
پیکر شراب عشق میں فرزانہ بن گیا
ہو گیا آہ وہ جوش دل قاتل ٹھنڈا
عالم سے جو غافل ہے وہ ہشیار ہوں تیرا
عشق جس دل میں نہیں کچھ بھی رخ دلدار کا
چڑھ گیا ہے زنگ دل پہ صحبت اغیار کا
مشغلہ جنکو نہیں دنیا میں کچھ اخبار کا
قطعہ
پہلے حجر تھا بعد حجر سے ہوا شجر
بے عشق یار کفریہ ایمان ہو گیا
دشمن ہمارے دل کا یہ ارمان ہو گیا
اے بے خبر بتا تو کب تک یہاں رہیگا
گھر خدا کا ہو گیا جب دیر ویرانہ ہوا
دل سے شیخی کا شیخ بل نہ گیا
دماغ حسن میں ہے ناز کبریائی کا
درد زبان خلق ترا نام ہو گیا
عاشق شیدانے جتنا راز دل اخفا کیا
پایا نہ نشاں دہر میں آسودہ دلی کا
دل سے جب غیریت کا بار اٹھا
زاہد کو اگر عشق ہے دلدار جہاں کا
حق یاد جو دمبدم رہیگا
راز وحدت کھلےتو کیا ہو گا
اٹھا پردہ تعین کا تو وحدت کا سما نکلا
دوئی کی ذات میں جلوہ تھا لاکھوں ماہ واختر کا
جمار یار سے اتنا بڑا ہے نور آنکھوں کا
ہر نفس ہے تار مو اس زلف عالمگیر کا
بہشت اپنی سقر اپنا زمیں وآسماں اپنا
غم بہت ہے یہاں سے جانے کا
جو اس خورشید طلعت نے نقاب رخ سحر الٹا
کبھی تھا صلب میں گاہے رحم میں ماں کے گھر میرا
کڑی منزل ہے رستہ دو رساماں سفر اتنا
بڑھایا عمر کو صبح ومساتار نفس کھینچا
جس قدر یہ نفس تیرا عیش سے موٹا ہوا
کندہ ہے مرے دل پہ فقط نام خدا کا
بتائیں کیا تمہیں اس شوخ کو کہاں دیکھا
تو ملا تو سارا عالم مل گیا
جس کو دیکھا مبتلائے غم رہا
گئے حرم میں سنگ پایا صنم میں خاک وہوا کو دیکھا
کچھ عجب بدلی ہوی ہے شہر کی آب وہوا
جو صید گاہ میں وہ یارآیا تو صید بہر نثار آیا
کعبہ سے بتکدہ کی طرف سر کے بل گیا
پیری میں ہے خیال کسی گلعذار کا
خاک ہوا تو جب ملا مرتبہ بواتراب کا
وہ قمر آیا جو کعبہ میں تو بت گر چمکا
ساقی پلا دے جام مئے عشق ذات کا
وہ عاقل ہے جو دور گل میں بھی خنداں نہیں ہوتا
ابدتک اے صنم مرمر کے جاؤں گا پھر آؤں گا
ردیف ب
چھوڑ جہاں سراب عمر نہ کر تو خراب
گرچہ پیری میں عشق ہے نایاب
زاہد پئے گا گوشہ مسجد میں گر شراب
ہے طلسم عالم ہستی بھی اے ہشیار خواب
ردیف پ
یہ عالم جسم ہے اور جان ہیں آپ
عشق میں تیرے جو ہیں خانہ خراب
ظاہر اعالم اور خفا ہیں آپ
ردیف ت
پوچھ منصور سے بام وحدت
یہی دنیا تو ہے دار محبت
محمد جان ابدان رسالت
ذات ہے بحر وآب کی صورت
بحر ہے ایک اور حباب بہت
دیکھ ہر شئے میں یار کی صورت
ہے نظر میں جو یار کی صورت
جہاں میں سیکھ دیوانے کی عادت
دمبدم نام اسکا دل میں رٹ
ردیف ٹ
جاتا کدھر ہے کعبہ کو لیکر گناہ کی بوٹ
خلق سے آرزوئے دانہ عبث
ردیف ث
اس کے دلپر میرے آہوں کا اثر سچ ہے کہ جھوٹ
ردیف ج
عشق جو کل تھا وہ شرار ہے آج
ردیف چ
حورو جنت کے لئے کفر پہ تلوار نہ کھینچ
ردیف ح
عشق ہے دل میں تخم جانکی طرح
ردیف خ
اک اور بھی دنیا ہے جہاں شمس وقمر سرخ
ردیف د
حمد آسان ہے پہ مشکل ہے ثنائے احمد
یہ ہے محبوبیت آن محمد
قدم قدم ہے رہ عشق میں نہاں صیاد
ہرنفس دل میں کر خدا کو یاد
ردیف ذ
پی بھی جادیر نہ کر عشق کا اک جام لذیذ
مہرو وفا سے بدلے انکا عتاب کیونکر
ردیف ر
مصیبت آپڑے جب تیرے سر پر
کاٹا ہے زندگی کو عشق صنم میں رو کر
ہے وہ سودائے زلف کی زنجیر
وہ ہر جاہے جہاں دیکھو وہیں پر
فلسفی کو ہے غیب سے انکار
ہے وہی سب کی جان کے اندر
دیرو کعبہ میں رہے آپ جو پنہاں ہو کر
چل زیر فلک فرش زمیں پر نہ اکڑ کر
دل صاف کیا سرور جاناں پہ رگڑ کر
عمر برباد نہ کر حرص کے کاشانے پر
بند کر حس ظاہری کے کواڑ
ردیف ڑ
حرم ودیر میں ارپھر کے نہ جانا ہر گز
ردیف ز
عمر کوتاہ راہ عشق دراز
جاکے کعبہ کو شیخ اب کے برس
ردیف س
ردیف ش
تھا نہ منصور واقعی مدہوش
دوست دنیا کا دیں کا رہزن خاص
ردیف ص
چھوڑ دنیا کو رکھ خدا سے غرض
ردیف ض
اہل دل کو فقط ہے رب سے غرض
فیض سے فیاض تیرے سب جہاں پاتا ہے فیض
اسطرح جسم کو اور جان کو ہے یار سے ربط
ردیف ط
ردیف ظ
بچ غضب سے کہ سخت نار ہے غیظ
تربت پہ میری آکے کوئی کیا جلائے شمع
ردیف ع
ردیف غ
خوشنما ظاہری نظر میں ہے باغ
ردیف ف
چشم بینا کو برابر ہے گل وخار میں لطیف
ردیف ق
شیخ سمجھا نہیں کہ کیا ہے عشق
کہتا تھا جو منصور سردار اناالحق
یہ راز عشق کیا آئے زباں تک
ردیف ک
رسائی ہو خدا کے بام دور تک
دیر وکعبہ میں کیا سوائے خاک
معمور ہے اس بت کی تجلی سے حرم تک
ردیف گ
عشق اس خلیل کی ہے آگ
ردیف ل
نہیں راز وحدت چھپا نیکے قابل
بتاں سنگدل میں ہے کہاں دل
کہنے میں کسی کے تو بتاؤ ہے کہاں دل
مفتوں سے مانتے ہیں کب بتان سنگ دل
ردیف م
بت خانہ میں ہے وہ صنم پر بندم وآنجا روم
اے بتو صورت خدا ہو تم
ہر طر ف ہر جگہ عیاں ہو تم
ترا درد فرقت چھپائیں گے ہم
قید زلف یار میں کیونکر نہ ہوں اب شاد ہم
سیماب صفت ہے دل بیتاب کا عالم
ردیف ن
جو اس بت کے کوئی سوا ہی نہیں
حالت دہر کو قیام نہیں
باہم ہے اتصال رخ وزلف ویار میں
غنا آسودگی کیا خاک حاصل تھی امیری میں
زمیں پر نقش پائے بار ہوں میں
یاد میں تیری زمانہ سے جو غافل بیٹھیں
تو ہی تو ہے جہاں میں بتا تو کہاں نہیں
اسی کا ہے جلوہ گل وآب میں
یہاں جو عالم صورت میں شکل یار ہوں میں
آنکھیں ہیں سب کی دید کی لیکن نظر کہاں
کون دنیا میں ہے جو تیرا خریدار نہیں
بلبل ہے گل ہے چشم ہے لیکن نظر نہیں
نہیں سودا تری زلف پریشاں کا اگر سیر میں
نشان قدم ہم جو پائے ہوئے ہیں
وہ جو رہتے ہیں یاد جاناں میں
بت خدا سے ہو جدا شیخ یہ امکاں تو نہیں
دل کو آرام ہو کیونکر کہ دل آرام نہیں
کیا جانئے بندہ ہوں کہ بت ہوں کہ خدا میں
کیا کہوں راز تم سے کیا ہو ں میں
چاہ دنیا سے نکلنا کوئی امکاں میں نہیں
نہیں جز ذات حق دونوں جہاں میں
جلوے اپنے انہیں دکھانے ہیں
عکس اپنا جہاں میں پاتے ہیں
دونوں عالم کی جسم وجاں ہوں میں
میں لذت وصال پری رو چشیدہ ہوں
ہو چھپا دل میں وہ حمیں نہ کہیں
کون ہے جس کو پیچ وتاب نہیں
وہ سامنے جب آگیا پھر وہم وظن کہاں
لوگ اللہ کو اور بت کو جدا کہتے ہیں
اپنی فکروں سے چھوٹ جاتے ہیں
بہت کیمیا کے لئے خاک چھانی
ٹوٹی جو خودی ہو گیا بندہ سے خدا میں
آنکھوں سے دیکھ جلوۂ جاناں کہاں نہیں
نہ ہوں کار آمد نہ بیکار میں
عمر گزری خیال باطل میں
غیر حق سے یہاں کلام نہیں
بتوں میں دیر کعبہ میں خدا میں
انہیں کو دل میں ہم پائے ہوئے ہیں
آنکھیں ہیں رخ کی سمت تو دل زلف یار میں
چہرۂ یار پر نقاب کہاں
یار سے لو لگائے بیٹھے ہیں
عالم سیہ ہو مردم چشم سیاہ میں
ادھر تو کثرت امواج کا حساب نہیں
میرے دل میں ہزار آنکھیں ہیں
خدا کو نہ دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں
مقید ہوں کبھی آزاد ہوں میں
تیر مژگاں سے کچھ گریز نہیں
اس شمع جہاں سوز کا پروانہ میں ہی ہوں
خواہش مری بت اور مرا نفس ہے بتگر
ہر دم ہے دل میں ذکر ہو انا الیہ راجعون
ادا وناز میں جو رو جفا میں دلربائی میں
خلوت وجلوت میں ہے وہ ساتھ تنہائی نہیں
یہ دنیا وعقبیٰ ہے کیا کچھ نہیں
کون سی جا ہے جہاں وہ رخ نظر آتا نہیں
جبیں برسوں مساجد میں عبث زاہد رگڑتے ہیں
سمائے طبع سے عرفاں کے موتی برستے ہیں
حقیقت پوچھتے ہو گر تو ہم جیتے نہ مرتے ہیں
عشق کے راز کہاں سب سے کہے جاتے ہیں
متاع ہر دو جہاں ہم فدائےجام کریں
دیر وحرم میں جاکے سرکو پٹک رہے ہیں
اس پری رو کا ترے دل مین گزر ہے کہ نہیں
اٹھا کے دیکھا دوئی کا پردہ کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
عاشقی محویت کی شان کہیں
ظلم رحمت کی انتہا ہی نہیں
گل خار سے بھی کم ہے حسد کی نگاہ میں
بلبل میں دل ہے دل میں ہے عشق روئے جاناں
ردیف و
کر ذکر جمیل اسکا کہ افسانہ جہاں ہو
اسی کے ذکر سے رکھ تر زباں کو
صفت ہو ذارت ہو جان جہاں ہو
تم کو دیکھیں تو خدا کی یاد ہو
سامنے جب وہ میرے دلبر ہو
ساغر مئے پلا دیا ہم کو
اک چراغ سحر تو ہم بھی تھے
ہر طرف تم ہو اور ہر جا ہو
رونا آتا جو نہ ہو رونے کی صورت ہی بناؤ
گر نہ دل میں خیال وحدت ہو
تم ہی واجب ہو اور امکاں ہو
دیکھا نہ ہر اک سنگ میں اس رشک قمر کو
دیکھتے ہیں ہر ایک جا تجھ کو
مئے پی کہ دو عالم سے تجھے بے خبری ہو
مبارک برہمن کو دیر ہو کعبہ مسلماں کو
شیشہ میں ہم نے پایا محبوس اس پری کو
دل میں تیرے جو تجلی سر طور نہ ہو
ہم بت کے ساتھ میں تو نہیں کیا خدا کے ساتھ
ردیف ہ
غم ہجراں جاں بیمار سے پوچھ
ہے نہ میرا کہیں نہ تیرا منہ
ہے ساغرو مئے ساقی ومیخوار ہو اللہ
غیریت میں تھے تو گلشن میں بھی خار وشر ملے
ردیف ی
دل میں جب سے وہ یار رہتا ہے
مئے طہور ہے یہ حور مہ لقا ساقی
تیری الفت اے بت کافر ہمارے دل میں ہے
ہمارے جوش گریہ سے عجب شکل جہاں بدلی
وہ آتے ہیں محشر بپا کرنیوالے
وجود حق ہے یہ عالم نہیں وہمی خیالی ہے
ظلم کرتے نہیں اللہ سے ڈرنیوالے
ہم نہیں پیدا ہوئے ہیں آنے جانے کےلئے
دل میں آئے رہ نہانی سے
جدھر دیکھو اسی کا رخ عیاں ہے
جسے کہتے ہیں بت وہ تو خدا ہے
بتوں کا سنگ در ہے اور جبیں ہے
بتکدہ لیچلے خدا جلدی
دیر وکعبہ کی خصوصیت ہے کیا
جو مہجور بیت خدا میں رہے
جس چیز کا دل میں ہو تصویر وہی آجائے
جہاں میں کون اس بت کے سوا ہے
نفس کی آمد وشد سے ہے ظاہر
جو روشن ہیں آنکھیں رخ یار سے
جو سر حشر جب وہ آنے لگے
صنم خانہ کو جا اے شیخ سر سے
بتوں نے جوبندہ بنایا مجھے
نہ کوئی خاص ہے مکاں اس کا
کیا خدا کا یہی حرم گھر ہے
حرم میں دیر وکعبہ میں کہاں ہے
شان اللہ کیاحسیں میں ہے
وہ بسا جب سے میرے من میں ہے
صحت نامہ
AUTHORमुहिब
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER अननोन आर्गेनाइजेशन
AUTHORमुहिब
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER अननोन आर्गेनाइजेशन
سرورق
جدھر دیکھو ادھر منہ ہے سما سے تا سمک تیرا
ردیف الف
یہ بزم تری ہے جام تیرا
ہیں محمد جسم وجان کبریا
زاہد نے جناں کا خواب دیکھا
مسجد میں خدا خدا نہ کرنا
شمع پہ گر کے کھلا حال جو جل جانیکا
ہے یہ سماں بہار کا لطف ہے لالہ زار کا
نہ تھا احمد پیارا خدا سے جدا کہا اسکو خدا تو برا نہ ہوا
کل کا مالک جو یار ہے میرا
خیال خام سے سر میں یہ خود نمائی کا
پیش نظر ہے دلبر والشمس والضحٰہا
جلوہ گاہ ازلی ہے یہ مکان دنیا
مرتبہ خاک سمجھتے ملک وجان تیرا
کہیں کیا سنگ اسود ہے حرم کیا
دیکھا نہ کور چشم نے رخ آفتاب کا
جنت کا شوق اور نہ ڈر ہے جحیم کا
جھگڑا ہے دیر وکعبہ میں عبد والہ کا
خیال آئے نہ دل میں ماسوا کا
بتوں کی محبت سے کیا ہو گیا
خدا کے گھر میں جی لگتا نہیں اہل محبت کا
دور جب غیرت حق کا یہ پردہ ہوگا
بیان ممکن نہیں مستان حق کی ہوشیاری کا
آساں ہے کوہ پر شجر نار دیکھنا
فرض کعبہ میں بھی ادا نہ ہوا
جب تک خودی تھی قرب خدا سےمیں دور تھا
بے جان ہے چوب وتار وتن ساز دیکھنا
عالم کو فنا جانا اور حق کو بقا جانا
ان بتوں میں بتائیں کیا دیکھا
خوب ہوتا جو میں مجنون بنایا جاتا
جو پوچھے کوئی بت کیا ہے حرم کیا
گر سامنے زاہد کے بے پردہ وہ آجاتا
کہا زبان سے تغیر عمل تو قال ہوا
خدا وخلق دونوں ہیں جدا کیا
نفس امارہ ہے رہزن کوچۂ دلدار کا
کہاں ہے دونوں عالم میں دل بیتاب اپنا سا
زمانہ ہے یہ آشنائی کا جھوٹا
مرنے سے پہلے نیزہ حرص وہوا کے مارا
کون ہے دنیا میں جو طالب نہیں دیدار کا
عشق جاناں نے ہمیں روز ازل میں مارا
گڑھا ہے سر زمین عشق میں اول قدم میرا
برساوہ ابر مہر خدائے لطیف کا
قحط ہے حسن حقیقی کے خریداروں کا
نہ حرم میں نہ عرش پر دیکھا
صنم کی یاد سے سارا جہاں بھلا دینا
پیکر شراب عشق میں فرزانہ بن گیا
ہو گیا آہ وہ جوش دل قاتل ٹھنڈا
عالم سے جو غافل ہے وہ ہشیار ہوں تیرا
عشق جس دل میں نہیں کچھ بھی رخ دلدار کا
چڑھ گیا ہے زنگ دل پہ صحبت اغیار کا
مشغلہ جنکو نہیں دنیا میں کچھ اخبار کا
قطعہ
پہلے حجر تھا بعد حجر سے ہوا شجر
بے عشق یار کفریہ ایمان ہو گیا
دشمن ہمارے دل کا یہ ارمان ہو گیا
اے بے خبر بتا تو کب تک یہاں رہیگا
گھر خدا کا ہو گیا جب دیر ویرانہ ہوا
دل سے شیخی کا شیخ بل نہ گیا
دماغ حسن میں ہے ناز کبریائی کا
درد زبان خلق ترا نام ہو گیا
عاشق شیدانے جتنا راز دل اخفا کیا
پایا نہ نشاں دہر میں آسودہ دلی کا
دل سے جب غیریت کا بار اٹھا
زاہد کو اگر عشق ہے دلدار جہاں کا
حق یاد جو دمبدم رہیگا
راز وحدت کھلےتو کیا ہو گا
اٹھا پردہ تعین کا تو وحدت کا سما نکلا
دوئی کی ذات میں جلوہ تھا لاکھوں ماہ واختر کا
جمار یار سے اتنا بڑا ہے نور آنکھوں کا
ہر نفس ہے تار مو اس زلف عالمگیر کا
بہشت اپنی سقر اپنا زمیں وآسماں اپنا
غم بہت ہے یہاں سے جانے کا
جو اس خورشید طلعت نے نقاب رخ سحر الٹا
کبھی تھا صلب میں گاہے رحم میں ماں کے گھر میرا
کڑی منزل ہے رستہ دو رساماں سفر اتنا
بڑھایا عمر کو صبح ومساتار نفس کھینچا
جس قدر یہ نفس تیرا عیش سے موٹا ہوا
کندہ ہے مرے دل پہ فقط نام خدا کا
بتائیں کیا تمہیں اس شوخ کو کہاں دیکھا
تو ملا تو سارا عالم مل گیا
جس کو دیکھا مبتلائے غم رہا
گئے حرم میں سنگ پایا صنم میں خاک وہوا کو دیکھا
کچھ عجب بدلی ہوی ہے شہر کی آب وہوا
جو صید گاہ میں وہ یارآیا تو صید بہر نثار آیا
کعبہ سے بتکدہ کی طرف سر کے بل گیا
پیری میں ہے خیال کسی گلعذار کا
خاک ہوا تو جب ملا مرتبہ بواتراب کا
وہ قمر آیا جو کعبہ میں تو بت گر چمکا
ساقی پلا دے جام مئے عشق ذات کا
وہ عاقل ہے جو دور گل میں بھی خنداں نہیں ہوتا
ابدتک اے صنم مرمر کے جاؤں گا پھر آؤں گا
ردیف ب
چھوڑ جہاں سراب عمر نہ کر تو خراب
گرچہ پیری میں عشق ہے نایاب
زاہد پئے گا گوشہ مسجد میں گر شراب
ہے طلسم عالم ہستی بھی اے ہشیار خواب
ردیف پ
یہ عالم جسم ہے اور جان ہیں آپ
عشق میں تیرے جو ہیں خانہ خراب
ظاہر اعالم اور خفا ہیں آپ
ردیف ت
پوچھ منصور سے بام وحدت
یہی دنیا تو ہے دار محبت
محمد جان ابدان رسالت
ذات ہے بحر وآب کی صورت
بحر ہے ایک اور حباب بہت
دیکھ ہر شئے میں یار کی صورت
ہے نظر میں جو یار کی صورت
جہاں میں سیکھ دیوانے کی عادت
دمبدم نام اسکا دل میں رٹ
ردیف ٹ
جاتا کدھر ہے کعبہ کو لیکر گناہ کی بوٹ
خلق سے آرزوئے دانہ عبث
ردیف ث
اس کے دلپر میرے آہوں کا اثر سچ ہے کہ جھوٹ
ردیف ج
عشق جو کل تھا وہ شرار ہے آج
ردیف چ
حورو جنت کے لئے کفر پہ تلوار نہ کھینچ
ردیف ح
عشق ہے دل میں تخم جانکی طرح
ردیف خ
اک اور بھی دنیا ہے جہاں شمس وقمر سرخ
ردیف د
حمد آسان ہے پہ مشکل ہے ثنائے احمد
یہ ہے محبوبیت آن محمد
قدم قدم ہے رہ عشق میں نہاں صیاد
ہرنفس دل میں کر خدا کو یاد
ردیف ذ
پی بھی جادیر نہ کر عشق کا اک جام لذیذ
مہرو وفا سے بدلے انکا عتاب کیونکر
ردیف ر
مصیبت آپڑے جب تیرے سر پر
کاٹا ہے زندگی کو عشق صنم میں رو کر
ہے وہ سودائے زلف کی زنجیر
وہ ہر جاہے جہاں دیکھو وہیں پر
فلسفی کو ہے غیب سے انکار
ہے وہی سب کی جان کے اندر
دیرو کعبہ میں رہے آپ جو پنہاں ہو کر
چل زیر فلک فرش زمیں پر نہ اکڑ کر
دل صاف کیا سرور جاناں پہ رگڑ کر
عمر برباد نہ کر حرص کے کاشانے پر
بند کر حس ظاہری کے کواڑ
ردیف ڑ
حرم ودیر میں ارپھر کے نہ جانا ہر گز
ردیف ز
عمر کوتاہ راہ عشق دراز
جاکے کعبہ کو شیخ اب کے برس
ردیف س
ردیف ش
تھا نہ منصور واقعی مدہوش
دوست دنیا کا دیں کا رہزن خاص
ردیف ص
چھوڑ دنیا کو رکھ خدا سے غرض
ردیف ض
اہل دل کو فقط ہے رب سے غرض
فیض سے فیاض تیرے سب جہاں پاتا ہے فیض
اسطرح جسم کو اور جان کو ہے یار سے ربط
ردیف ط
ردیف ظ
بچ غضب سے کہ سخت نار ہے غیظ
تربت پہ میری آکے کوئی کیا جلائے شمع
ردیف ع
ردیف غ
خوشنما ظاہری نظر میں ہے باغ
ردیف ف
چشم بینا کو برابر ہے گل وخار میں لطیف
ردیف ق
شیخ سمجھا نہیں کہ کیا ہے عشق
کہتا تھا جو منصور سردار اناالحق
یہ راز عشق کیا آئے زباں تک
ردیف ک
رسائی ہو خدا کے بام دور تک
دیر وکعبہ میں کیا سوائے خاک
معمور ہے اس بت کی تجلی سے حرم تک
ردیف گ
عشق اس خلیل کی ہے آگ
ردیف ل
نہیں راز وحدت چھپا نیکے قابل
بتاں سنگدل میں ہے کہاں دل
کہنے میں کسی کے تو بتاؤ ہے کہاں دل
مفتوں سے مانتے ہیں کب بتان سنگ دل
ردیف م
بت خانہ میں ہے وہ صنم پر بندم وآنجا روم
اے بتو صورت خدا ہو تم
ہر طر ف ہر جگہ عیاں ہو تم
ترا درد فرقت چھپائیں گے ہم
قید زلف یار میں کیونکر نہ ہوں اب شاد ہم
سیماب صفت ہے دل بیتاب کا عالم
ردیف ن
جو اس بت کے کوئی سوا ہی نہیں
حالت دہر کو قیام نہیں
باہم ہے اتصال رخ وزلف ویار میں
غنا آسودگی کیا خاک حاصل تھی امیری میں
زمیں پر نقش پائے بار ہوں میں
یاد میں تیری زمانہ سے جو غافل بیٹھیں
تو ہی تو ہے جہاں میں بتا تو کہاں نہیں
اسی کا ہے جلوہ گل وآب میں
یہاں جو عالم صورت میں شکل یار ہوں میں
آنکھیں ہیں سب کی دید کی لیکن نظر کہاں
کون دنیا میں ہے جو تیرا خریدار نہیں
بلبل ہے گل ہے چشم ہے لیکن نظر نہیں
نہیں سودا تری زلف پریشاں کا اگر سیر میں
نشان قدم ہم جو پائے ہوئے ہیں
وہ جو رہتے ہیں یاد جاناں میں
بت خدا سے ہو جدا شیخ یہ امکاں تو نہیں
دل کو آرام ہو کیونکر کہ دل آرام نہیں
کیا جانئے بندہ ہوں کہ بت ہوں کہ خدا میں
کیا کہوں راز تم سے کیا ہو ں میں
چاہ دنیا سے نکلنا کوئی امکاں میں نہیں
نہیں جز ذات حق دونوں جہاں میں
جلوے اپنے انہیں دکھانے ہیں
عکس اپنا جہاں میں پاتے ہیں
دونوں عالم کی جسم وجاں ہوں میں
میں لذت وصال پری رو چشیدہ ہوں
ہو چھپا دل میں وہ حمیں نہ کہیں
کون ہے جس کو پیچ وتاب نہیں
وہ سامنے جب آگیا پھر وہم وظن کہاں
لوگ اللہ کو اور بت کو جدا کہتے ہیں
اپنی فکروں سے چھوٹ جاتے ہیں
بہت کیمیا کے لئے خاک چھانی
ٹوٹی جو خودی ہو گیا بندہ سے خدا میں
آنکھوں سے دیکھ جلوۂ جاناں کہاں نہیں
نہ ہوں کار آمد نہ بیکار میں
عمر گزری خیال باطل میں
غیر حق سے یہاں کلام نہیں
بتوں میں دیر کعبہ میں خدا میں
انہیں کو دل میں ہم پائے ہوئے ہیں
آنکھیں ہیں رخ کی سمت تو دل زلف یار میں
چہرۂ یار پر نقاب کہاں
یار سے لو لگائے بیٹھے ہیں
عالم سیہ ہو مردم چشم سیاہ میں
ادھر تو کثرت امواج کا حساب نہیں
میرے دل میں ہزار آنکھیں ہیں
خدا کو نہ دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں
مقید ہوں کبھی آزاد ہوں میں
تیر مژگاں سے کچھ گریز نہیں
اس شمع جہاں سوز کا پروانہ میں ہی ہوں
خواہش مری بت اور مرا نفس ہے بتگر
ہر دم ہے دل میں ذکر ہو انا الیہ راجعون
ادا وناز میں جو رو جفا میں دلربائی میں
خلوت وجلوت میں ہے وہ ساتھ تنہائی نہیں
یہ دنیا وعقبیٰ ہے کیا کچھ نہیں
کون سی جا ہے جہاں وہ رخ نظر آتا نہیں
جبیں برسوں مساجد میں عبث زاہد رگڑتے ہیں
سمائے طبع سے عرفاں کے موتی برستے ہیں
حقیقت پوچھتے ہو گر تو ہم جیتے نہ مرتے ہیں
عشق کے راز کہاں سب سے کہے جاتے ہیں
متاع ہر دو جہاں ہم فدائےجام کریں
دیر وحرم میں جاکے سرکو پٹک رہے ہیں
اس پری رو کا ترے دل مین گزر ہے کہ نہیں
اٹھا کے دیکھا دوئی کا پردہ کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
عاشقی محویت کی شان کہیں
ظلم رحمت کی انتہا ہی نہیں
گل خار سے بھی کم ہے حسد کی نگاہ میں
بلبل میں دل ہے دل میں ہے عشق روئے جاناں
ردیف و
کر ذکر جمیل اسکا کہ افسانہ جہاں ہو
اسی کے ذکر سے رکھ تر زباں کو
صفت ہو ذارت ہو جان جہاں ہو
تم کو دیکھیں تو خدا کی یاد ہو
سامنے جب وہ میرے دلبر ہو
ساغر مئے پلا دیا ہم کو
اک چراغ سحر تو ہم بھی تھے
ہر طرف تم ہو اور ہر جا ہو
رونا آتا جو نہ ہو رونے کی صورت ہی بناؤ
گر نہ دل میں خیال وحدت ہو
تم ہی واجب ہو اور امکاں ہو
دیکھا نہ ہر اک سنگ میں اس رشک قمر کو
دیکھتے ہیں ہر ایک جا تجھ کو
مئے پی کہ دو عالم سے تجھے بے خبری ہو
مبارک برہمن کو دیر ہو کعبہ مسلماں کو
شیشہ میں ہم نے پایا محبوس اس پری کو
دل میں تیرے جو تجلی سر طور نہ ہو
ہم بت کے ساتھ میں تو نہیں کیا خدا کے ساتھ
ردیف ہ
غم ہجراں جاں بیمار سے پوچھ
ہے نہ میرا کہیں نہ تیرا منہ
ہے ساغرو مئے ساقی ومیخوار ہو اللہ
غیریت میں تھے تو گلشن میں بھی خار وشر ملے
ردیف ی
دل میں جب سے وہ یار رہتا ہے
مئے طہور ہے یہ حور مہ لقا ساقی
تیری الفت اے بت کافر ہمارے دل میں ہے
ہمارے جوش گریہ سے عجب شکل جہاں بدلی
وہ آتے ہیں محشر بپا کرنیوالے
وجود حق ہے یہ عالم نہیں وہمی خیالی ہے
ظلم کرتے نہیں اللہ سے ڈرنیوالے
ہم نہیں پیدا ہوئے ہیں آنے جانے کےلئے
دل میں آئے رہ نہانی سے
جدھر دیکھو اسی کا رخ عیاں ہے
جسے کہتے ہیں بت وہ تو خدا ہے
بتوں کا سنگ در ہے اور جبیں ہے
بتکدہ لیچلے خدا جلدی
دیر وکعبہ کی خصوصیت ہے کیا
جو مہجور بیت خدا میں رہے
جس چیز کا دل میں ہو تصویر وہی آجائے
جہاں میں کون اس بت کے سوا ہے
نفس کی آمد وشد سے ہے ظاہر
جو روشن ہیں آنکھیں رخ یار سے
جو سر حشر جب وہ آنے لگے
صنم خانہ کو جا اے شیخ سر سے
بتوں نے جوبندہ بنایا مجھے
نہ کوئی خاص ہے مکاں اس کا
کیا خدا کا یہی حرم گھر ہے
حرم میں دیر وکعبہ میں کہاں ہے
شان اللہ کیاحسیں میں ہے
وہ بسا جب سے میرے من میں ہے
صحت نامہ
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।