سرورق
مقدمہ
اعتذار
عشق کرتا ہوں میں معشوق سے دانائی کا
صحراے محبت سے اٹھا تھا جو بگولہ
جس کے ناسور کہیں پر سالہا مرہم لگا
یکایک کوہِ آفت کب مرے سر پر نہیں آتا
جوداں چنے کی یہ لکھے پیل کا خاکا
لکھے ہیں خط تو بہت نامہ بر نہیں ملتا
چنداں برنگ گل چمن دہر میں رہا
جن تربتوں پہ تھا نہ کبھی جوش نقش پا
مت آرسی کی شکل دلازر کا گھر بنا
ہنگامہ بانکپن سے ترے شہر میں رہا
دل نورستہ کو میرے مضر ہے گر یہ ہر پل کا
ہر ایک سے کھینچو ہو کیوں آپ کو دور اتنا
راہ طلب میں سعی سے غافل کہاں ہوا
خط کاجل کے مژہ ہندسہ ہے جادو کا
رنگا جو اس نے اک دن زنگار میں دو پٹا
سامری گرچہ نہ موسیٰ کے جدل میں چوکا
رہتا ہے خوش اب اپنی اوقات میں دوپٹا
گھر سے باہر جو میں خوگردہ رنداں نہ گیا
پھر یہ کیسا ادھیڑ بن سا لگا
باتوں پہ لگاوٹ کی مری یار نہ ٹھہرا
تماشا تا سحر دیکھا کروں میں سیر کو کب کا
پریشاں کیوں نہ ہو جاوے نظارا
کل پتنگ اس نے جو بازار سے منگوا بھیجا
چھپ گیا جلوہ دکھا وہ بت فن اپنا
دل رہا مشتاق ہے اس شیخ کماں کی تیر کا
شب پیش نظر حسن کا بازار تو رکھا
دنیا کے بیچ مجھ پہ جو رنج و عذاب تھا
آغاز رساں ماہ محرم سے ہووے گا
شانہ سے گیسوؤں کا ترے خم نکل گیا
مژدۂ آمد گل سن نہ میں تنہا اچھلا
قدم اٹھے نہ پئے سیر بے دماغوں کا
رخ زلف میں بے نقاب دیکھا
بلبلو باغباں کو کیوں چھیڑا
ہوا ہے ڈوروں پہ فندق کی دل جو ڈور مرا
ہے نور ماہ سے روشن چراغ گور مرا
روز اول سے تو صورت میں فلک کا نا تھا
یوں ہوا ہجر کی شب مجھ سے مرا یار جدا
زرد اگر ہے تو دلاتو بت پندار کو توڑ
کیا غم ہے مری آہ کا پودھا جو نہیں سبز
اپنے پاتا نہیں آتش کدہ داغ میں آگ
بعد مدت کے چلے ہیں پھر گلستاں کی طرف
کام میں اپنے ظہور حق ہے آپ
رکھی ہیں جی میں مگر مجھ سے بدگمانی آپ
لب شیریں ہیں تیرے آبِ حیات
جاویں کیوں ہم اس کے پیچھے گو پھرے دردزیست
رکھے ہے حور ہی ایسی تو یہ پری صورت
خوش کمر پھرتے ہیں گلیوں میں جو شمشیر سمیت
عشق کا آکر چڑھا مجھ کو جو بھوت
میں نے جدر خش سے رکھا سطرنج
قافیہ خون جگر پر جو مرے تنگ ہے آج
عدم میں تھا مری آنکھوں کو خواب سے پیوند
لئے آدم نے اپنے بیٹے جانچ
دل سے چمن ملا نہیں جب وطن کے بیچ
میں کھولوں لب سے گر اپنے بشعر خوانی بند
پیماں اگر اک ٹوٹے تو پیماں ہو مکرر
جوں ادھ جلی لکڑی کہ فروزاں ہو مکرر
کچھ اس کے سوا سوجھتی تدبیر نہیں اور
شب وصال گئی ہم سے منہ چھپا آخر
آب کی طرح زمیں پر ہے اجارا اپنا
دے تیرگیٔ بخت سراغ شب مہتاب
کل تو کھیلے تھا وہ گلی ڈنڈا
دامن کو لے کے منہ پہ وہ محبوب سو رہا
کیا فائدہ جو زخموں کو اب رکھیے ٹانک ٹانک
چاک گل جب گئے میرے جگر چاک میں مل
آیا جو رات گھر سے وہ جان جہاں نکل
کچھ میں نہیں اک راحت و آرام سے معزول
ہے سبک جیسے تفنگ کف معشوق کا نال
نا گفتنی ہے قصہ دور و دراز قول
مسلخ عشق میں کھینچے ہے خوش اقبال کی کھال
شوق سے کیوں جانہ بیٹھے قتل کے میدان میں
ایسے ڈرے ہیں کس کی نگاہ غضب سے ہم
کل جو آیا رکھے وہ چہرے پہ پنکھا دھوپ
ہو گیا مائل بہ سرخی اس کا چہراہ دھوپ میں
کیا شادیوں میں پھرتے مدام ان کے ڈولے ہیں
کہیں کیا کس مصیبت سے فغان بنیاد کرتے ہیں
یار جب پھسلا کے لائے یاں بیاباں سے ہمیں
چرخ اطلس نے ستاروں کی جو پائیں آنکھیں
اپنی قابل جو ترے رخ کے بنائیں آنکھیں
تم چاہو یا نہ چاہو ہم تم کو چاہتے ہیں
ہرطرف سے جھوم جھوم آئیں گھٹائیں بدلیاں
بعد مردن کے بھی تدبیر کئے جاتا ہوں
آتا نہیں وہ غیرت عیسیٰ نظر کہیں
شروع سال سے پھر ولولے ہوے دل میں
رات آرسی پہ اس کی پڑی تھی نظر کہیں
مویشت لب سے یار کی جب تک نمو کریں
میں وہ نہیں کہ شکوۂ گردون دوں کروں
مذہب کی میرے یار اگر جستجو کریں
کٹ گئی ہیں جاگتے شبہائے ہجراں سیکڑوں
کشتگان نازکی جب اس کے قبریں پٹ گئیں
جو نہیں زنجیر کے پاس آئے پاؤں
سخن میں کامرانی کر رہا ہوں
ہے وہ بھی سادہ اور صنم تم بھی سادہ ہو
رہنے کو مقرر جو کوئی میرے مکاں ہو
مستوں نے کیا طرۂ سر تب سرِ رز کو
لتے لگ جائے وہ نوکر جو سہ ونو کا ہو
شب میں دیکھی ہیں پڑی پاؤں میں زنجیریں دو
شعر کیا جس میں نوک جھوک نہ ہو
اپنی کشتی کی خوش آتی ہے تباہی ہمکو
دور تلک جانے کی ہے اس کے مناہی ہمکو
جب دکھاتی ہے تری نرگس فتاں مجھ کو
مکھ پاٹ منہ پہ کھائیں گے تلوار ہو سو ہو
دل میں مرے جو یار کی الفت گئی ہے بیٹھ
مہ داغ دل پہ دیکھ کے تعویذ دست کھائے
خود وہ چشم سادہ ہو جب پیرہن میں آئینہ
رنگ حنا سے اس کے شفق روے دست کھاے
رخ گل کا پشت پا سے تری پشت دست کھاے
جو آج نظر آئے ہے افسانہ ہے یہ بھی
انجن جو آنسوؤں کا مرے روپ جست کھائے
عکس کو طالب نظارہ جو پایا تونے
کرکے جب سیر باغ نکلے ہے
مجھ سبک روح کو کیا خانۂ زنداں روکے
بھولی ہے راہ میرے کبوتر نے بام کی
دو ہتھڑوں کی دھڑا دھڑ جو مار منہ پر ہے
دیر آئنہ اس کے کف میں ٹھہرے
باغ ہستی کی ہوا کیونکے مجھے راس آوے
مری طرف کو رخ یار پر حجاب پھرے
روش پہ باغ کی وہ گل جو بے نقاب پھرے
مارتے تھے جو غریبوں کے تئیں پیلے ہوئے
دریغ ہو نہ سکی ہم سے جستجو تیری
آئنہ یار کے جس وقت دوچار آتا ہے
ہماری سدرہ ہے ناتوانی
نہ کہ موسیٰ سے اب اپنی کہانی
کہوں جو بات کوئی اس سے میں نصیحت کی
عکس کو طالب نظارہ جو پایا تونے
مہرباں وہ بت بے مہر کہاں مجھ پر ہے
چاہنے سے رخ نیکو کی نہ کچھ کام رکھے
کیسو کی شمیم اس کے گلشن میں جو جا نکلے
وہ شوخ جو ہولی میں کچھ سانگ بنا نکلے
پیغام زبانی ہے اگر آئے تو کہیے
آرام کہاں گنبد افلاک کے نیچے
تقصیر اس میں کچھ تری اے آسماں نہ تھی
پھڑکے ہے نبض دام میں مرغ اسیر کی
نہ فقط شیشہ تنوں کے ہیں بدن پتھر کے
تیشہ دیتا ہے لگا چشم و دہن پتھر کے
کیا ڈراتی ہے نت آنے سے اجل آوے بھی
گر قتل مرا آپ کو منظور نظر ہے
اس کی اتری جو کبھی چین جبیں تھوڑی سی
چاہئے ہم کو جگہ مثل نگیں تھوڑی سی
دو چار دن سے اپنا نہ ملنا نہ دید ہے
ظالم نے یہ کیا ظلم کیا جان گنوائی
یارب یہ کس بلا کے مقابل کیا مجھے
کنعاں سے گرچہ مصر کا عرصہ بعید ہے
بول اٹھا میں جو نظر شام غریباں آئی
چشم تر اشکوں سے موتی جھیل ہے
سلامی دیکھ امام زماں کے تن کی طرف
سرورق
مقدمہ
اعتذار
عشق کرتا ہوں میں معشوق سے دانائی کا
صحراے محبت سے اٹھا تھا جو بگولہ
جس کے ناسور کہیں پر سالہا مرہم لگا
یکایک کوہِ آفت کب مرے سر پر نہیں آتا
جوداں چنے کی یہ لکھے پیل کا خاکا
لکھے ہیں خط تو بہت نامہ بر نہیں ملتا
چنداں برنگ گل چمن دہر میں رہا
جن تربتوں پہ تھا نہ کبھی جوش نقش پا
مت آرسی کی شکل دلازر کا گھر بنا
ہنگامہ بانکپن سے ترے شہر میں رہا
دل نورستہ کو میرے مضر ہے گر یہ ہر پل کا
ہر ایک سے کھینچو ہو کیوں آپ کو دور اتنا
راہ طلب میں سعی سے غافل کہاں ہوا
خط کاجل کے مژہ ہندسہ ہے جادو کا
رنگا جو اس نے اک دن زنگار میں دو پٹا
سامری گرچہ نہ موسیٰ کے جدل میں چوکا
رہتا ہے خوش اب اپنی اوقات میں دوپٹا
گھر سے باہر جو میں خوگردہ رنداں نہ گیا
پھر یہ کیسا ادھیڑ بن سا لگا
باتوں پہ لگاوٹ کی مری یار نہ ٹھہرا
تماشا تا سحر دیکھا کروں میں سیر کو کب کا
پریشاں کیوں نہ ہو جاوے نظارا
کل پتنگ اس نے جو بازار سے منگوا بھیجا
چھپ گیا جلوہ دکھا وہ بت فن اپنا
دل رہا مشتاق ہے اس شیخ کماں کی تیر کا
شب پیش نظر حسن کا بازار تو رکھا
دنیا کے بیچ مجھ پہ جو رنج و عذاب تھا
آغاز رساں ماہ محرم سے ہووے گا
شانہ سے گیسوؤں کا ترے خم نکل گیا
مژدۂ آمد گل سن نہ میں تنہا اچھلا
قدم اٹھے نہ پئے سیر بے دماغوں کا
رخ زلف میں بے نقاب دیکھا
بلبلو باغباں کو کیوں چھیڑا
ہوا ہے ڈوروں پہ فندق کی دل جو ڈور مرا
ہے نور ماہ سے روشن چراغ گور مرا
روز اول سے تو صورت میں فلک کا نا تھا
یوں ہوا ہجر کی شب مجھ سے مرا یار جدا
زرد اگر ہے تو دلاتو بت پندار کو توڑ
کیا غم ہے مری آہ کا پودھا جو نہیں سبز
اپنے پاتا نہیں آتش کدہ داغ میں آگ
بعد مدت کے چلے ہیں پھر گلستاں کی طرف
کام میں اپنے ظہور حق ہے آپ
رکھی ہیں جی میں مگر مجھ سے بدگمانی آپ
لب شیریں ہیں تیرے آبِ حیات
جاویں کیوں ہم اس کے پیچھے گو پھرے دردزیست
رکھے ہے حور ہی ایسی تو یہ پری صورت
خوش کمر پھرتے ہیں گلیوں میں جو شمشیر سمیت
عشق کا آکر چڑھا مجھ کو جو بھوت
میں نے جدر خش سے رکھا سطرنج
قافیہ خون جگر پر جو مرے تنگ ہے آج
عدم میں تھا مری آنکھوں کو خواب سے پیوند
لئے آدم نے اپنے بیٹے جانچ
دل سے چمن ملا نہیں جب وطن کے بیچ
میں کھولوں لب سے گر اپنے بشعر خوانی بند
پیماں اگر اک ٹوٹے تو پیماں ہو مکرر
جوں ادھ جلی لکڑی کہ فروزاں ہو مکرر
کچھ اس کے سوا سوجھتی تدبیر نہیں اور
شب وصال گئی ہم سے منہ چھپا آخر
آب کی طرح زمیں پر ہے اجارا اپنا
دے تیرگیٔ بخت سراغ شب مہتاب
کل تو کھیلے تھا وہ گلی ڈنڈا
دامن کو لے کے منہ پہ وہ محبوب سو رہا
کیا فائدہ جو زخموں کو اب رکھیے ٹانک ٹانک
چاک گل جب گئے میرے جگر چاک میں مل
آیا جو رات گھر سے وہ جان جہاں نکل
کچھ میں نہیں اک راحت و آرام سے معزول
ہے سبک جیسے تفنگ کف معشوق کا نال
نا گفتنی ہے قصہ دور و دراز قول
مسلخ عشق میں کھینچے ہے خوش اقبال کی کھال
شوق سے کیوں جانہ بیٹھے قتل کے میدان میں
ایسے ڈرے ہیں کس کی نگاہ غضب سے ہم
کل جو آیا رکھے وہ چہرے پہ پنکھا دھوپ
ہو گیا مائل بہ سرخی اس کا چہراہ دھوپ میں
کیا شادیوں میں پھرتے مدام ان کے ڈولے ہیں
کہیں کیا کس مصیبت سے فغان بنیاد کرتے ہیں
یار جب پھسلا کے لائے یاں بیاباں سے ہمیں
چرخ اطلس نے ستاروں کی جو پائیں آنکھیں
اپنی قابل جو ترے رخ کے بنائیں آنکھیں
تم چاہو یا نہ چاہو ہم تم کو چاہتے ہیں
ہرطرف سے جھوم جھوم آئیں گھٹائیں بدلیاں
بعد مردن کے بھی تدبیر کئے جاتا ہوں
آتا نہیں وہ غیرت عیسیٰ نظر کہیں
شروع سال سے پھر ولولے ہوے دل میں
رات آرسی پہ اس کی پڑی تھی نظر کہیں
مویشت لب سے یار کی جب تک نمو کریں
میں وہ نہیں کہ شکوۂ گردون دوں کروں
مذہب کی میرے یار اگر جستجو کریں
کٹ گئی ہیں جاگتے شبہائے ہجراں سیکڑوں
کشتگان نازکی جب اس کے قبریں پٹ گئیں
جو نہیں زنجیر کے پاس آئے پاؤں
سخن میں کامرانی کر رہا ہوں
ہے وہ بھی سادہ اور صنم تم بھی سادہ ہو
رہنے کو مقرر جو کوئی میرے مکاں ہو
مستوں نے کیا طرۂ سر تب سرِ رز کو
لتے لگ جائے وہ نوکر جو سہ ونو کا ہو
شب میں دیکھی ہیں پڑی پاؤں میں زنجیریں دو
شعر کیا جس میں نوک جھوک نہ ہو
اپنی کشتی کی خوش آتی ہے تباہی ہمکو
دور تلک جانے کی ہے اس کے مناہی ہمکو
جب دکھاتی ہے تری نرگس فتاں مجھ کو
مکھ پاٹ منہ پہ کھائیں گے تلوار ہو سو ہو
دل میں مرے جو یار کی الفت گئی ہے بیٹھ
مہ داغ دل پہ دیکھ کے تعویذ دست کھائے
خود وہ چشم سادہ ہو جب پیرہن میں آئینہ
رنگ حنا سے اس کے شفق روے دست کھاے
رخ گل کا پشت پا سے تری پشت دست کھاے
جو آج نظر آئے ہے افسانہ ہے یہ بھی
انجن جو آنسوؤں کا مرے روپ جست کھائے
عکس کو طالب نظارہ جو پایا تونے
کرکے جب سیر باغ نکلے ہے
مجھ سبک روح کو کیا خانۂ زنداں روکے
بھولی ہے راہ میرے کبوتر نے بام کی
دو ہتھڑوں کی دھڑا دھڑ جو مار منہ پر ہے
دیر آئنہ اس کے کف میں ٹھہرے
باغ ہستی کی ہوا کیونکے مجھے راس آوے
مری طرف کو رخ یار پر حجاب پھرے
روش پہ باغ کی وہ گل جو بے نقاب پھرے
مارتے تھے جو غریبوں کے تئیں پیلے ہوئے
دریغ ہو نہ سکی ہم سے جستجو تیری
آئنہ یار کے جس وقت دوچار آتا ہے
ہماری سدرہ ہے ناتوانی
نہ کہ موسیٰ سے اب اپنی کہانی
کہوں جو بات کوئی اس سے میں نصیحت کی
عکس کو طالب نظارہ جو پایا تونے
مہرباں وہ بت بے مہر کہاں مجھ پر ہے
چاہنے سے رخ نیکو کی نہ کچھ کام رکھے
کیسو کی شمیم اس کے گلشن میں جو جا نکلے
وہ شوخ جو ہولی میں کچھ سانگ بنا نکلے
پیغام زبانی ہے اگر آئے تو کہیے
آرام کہاں گنبد افلاک کے نیچے
تقصیر اس میں کچھ تری اے آسماں نہ تھی
پھڑکے ہے نبض دام میں مرغ اسیر کی
نہ فقط شیشہ تنوں کے ہیں بدن پتھر کے
تیشہ دیتا ہے لگا چشم و دہن پتھر کے
کیا ڈراتی ہے نت آنے سے اجل آوے بھی
گر قتل مرا آپ کو منظور نظر ہے
اس کی اتری جو کبھی چین جبیں تھوڑی سی
چاہئے ہم کو جگہ مثل نگیں تھوڑی سی
دو چار دن سے اپنا نہ ملنا نہ دید ہے
ظالم نے یہ کیا ظلم کیا جان گنوائی
یارب یہ کس بلا کے مقابل کیا مجھے
کنعاں سے گرچہ مصر کا عرصہ بعید ہے
بول اٹھا میں جو نظر شام غریباں آئی
چشم تر اشکوں سے موتی جھیل ہے
سلامی دیکھ امام زماں کے تن کی طرف
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔