سرورق
ہویداہی گل بلبل پہ جلوہ تیری رحمت کا
ہلال آسمان حسن ہی ابرو محمد کا
ہم نے جسدنسے تجھے ای مہ تاباں دیکھا
ڈوبتا شہر جو عاشق ترا گریان ہوتا
جلوہ افروز تو اے مہ تابان ہوتا
جلوہ گر جب اوس پری کا روے تابان ہوگیا
برمین عاشق کی نہ جب تک وہ گل اندالیم ما
مانا ہی مشکل زبان سے زبان کا
جب اونکا تیری مری دل کے وار پار ہوا
کیا لکھوں وصف اوسکے گیسو کا
بہار آئی چمن میں رنگ بدلا باغ عالم کا
کب مری دلکو خیال رخ جاناں نہ ہوا
زلف کو سنبل تررخ کو میں گلشن سمجھا
ساقیا دل جب سے شیدای لب میگون ہوا
قتل کرنیکو مجھے وہ ستم ایجاد آیا
ذکر ہر لب پہ ہی گراوسکی جفا کار یکا
رشک گل غیرت شمشاد تجھے دیکھ لیا
پڑگیا پر تو جو اوسکے پھول سے رخسار کا
جلا کیا تپ فرقت سے آبلہ دل کا
دل پردہ نشینوں سے لگانا نہیں اچھا
مرا سر جو تن سے جدا کیجیے گا
نشہ کیا کیا نہ چڑہا اور نہ کیا کیا اوترا
وحشت میں وہ پر حول بیاباں نظر آیا
دل اولجہہ کر مثل شانہ زلف پیچا میں رہا
جوش وحشت میں جو میں چاک گریباں نکلا
کیا پوچھتے ہو تم کہ محبت میں کیا دیا
کسیکی زلف میں گر بھول کر بھی دل اٹ کا
پھر ہماری نالہ رول کا اثر ہونے لگا
نہ مہربان کبھی ہمپر دہ خٰد پسند ہوا
شب فراق کی صدمے اوٹھائے گا پھر کیا
دم تن سی روز فرقت جانان نکل گیا
مدتوں تک یہ مزاج یار کا عالم رہا
پونچھتے ہو حال کیا مجھ عاشق جان باز کا
ساقی سحر ہی دل مجھے ساغر شراب کا
اب مجھسے تیری بز م میں ٹھہرا نہیں جاتا
بہار آئی خیال آیا مجھے پھر خوش حمالوں کا
سونگھی جو تیری زلف تو عنبر نہ نکالا
لڑگئی ہے آنکھ اوس بیداد گر سے دیکھنا
ابروے خمدار پر تلوار کا دھوکا ہوا
میرا دل کسطرح لے نام تیری آشنائی کا
چہچہے کرتے ہیں مرغان خوش الحان کیا کیا
اگر وہ یار مہر ومہربان ہوتا تو کیا ہوتا
کرتی ہے شاخ گل پہ فغان بار بار کیا
ہوسکا دودن نہ راز عشق اخفا کھل گیا
لیلی زلف کا مجکو جو نہ سودا ہوتا
بہار گل میں زور دن پر جنون ہی اس پر میرا
ردیف بای منقوطہ
دیکھی اگر وہ عارض پر نور آفتاب
ہے فقط تجھ سے دلربا مطلب
نقش حیرت ہو جو سن لے میری نالی عندلیب
یارب نصیب ہوگا مجھے وصل یار کب
ساقیا کرتا ہو ںتجھسے عرض گستاخانہ اب
اچھا ہوا جو روٹھ گئی بیقصور آپ
شب کو آئیگا میری گھر وہ قمر آپ سے آپ
ردیف تای فوقانی
آیا نہ وعدہ کرکے جودلبر تمام رات
موت اوسکی ہے جو شخص ہے بیمار محبت
رات دن نالی جو کرتا ہوں میاں کوی دوست
اے جنون کا ہش جان اب ہے جفا عزبت
آنکھ کیوں پھر لے اے رشک پری کیا باعث
ردیف ثاے مثلثہ
کسطرح نہ یاد آئی مجھے شام وسحر پیٹ
خوش قدون پر ہوا مائیل دل ناشاد عبث
سچ کہیو کس پری کا یہ ہے انتظار آج
ردیف جیم معجمہ
پہلو میں ہے کسکے وہ بت پردہ نشین آج
کیا کیا نہ عشسق زلف میں ہمنے اٹھائی پیچ
ردیف حای حطی
ردیف جیم فارسے
بھولی مجھے وہ زلف پرشیان کسی طرح
ردیف دال مہملہ
یہ جسکے ظلم سے کرتا ہے اک جہاں فریاد
دیکھے جو تیری زلف شکن در شکن کی شاخ
روا نہیں یہ جفائیں خدا سے ڈر صیاد
دام میں لیگے کسی زلف رسا میرے بعد
ہم کہے دیتے ہیں اچھا نہیں ہر بار گھمنڈ
سرپہ اوس شوخ نے ہیریکا جومابذ ہا تعویذ
تدبیر پر گھمنڈ نہ تقدیر پر گھمنڈ
مرگیا ہوں جو نثار قددلجو ہوکر
ردیف رای مہملہ
جوش وحشت میں گئی سوے بیاباں اکثر
عاشق ہوا ہوں حلقہ زلف سیاہ پر
خدا ہوتا ہی اپنا مرغ دل اوس صیدا فگن پر
خواہش جام آفتاب نہ چھوڑ
جو دیکھ لے تیری گلرنگ پیرہن کی بہار
دیکھیں ساحر تو دکھاے ابھی جادو آواز
دل ہجر میں جلتا ہے تڑپتا ہے جگر روز
پھرا ہے دل تیرا اے غیرت قمر افسوس
کرتا ہے عبث فکر سراغ پرطاؤس
ردیف شین معجمہ
جستجو دشتوں میں کی شہر وں میں کی اکثر تلاش
رات بھر ہجر میں خاموش ہے دن خابھرموش
ردیف صاد مہملہ
حسن ہر شے کا ہےپیش رخ جاناں ناقص
ہوں کیوں نہ مجھے ابروے خمدار سے اخلاص
تحت شاہی سے نہ مطلب ہے نہ افسر سی غرض
تعذیر ہے یہی میری تقصیر کے عوض
ردیف ضاد معجمہ
عشق میں پہلے درد سر ہے شرط
ردیف طای مہملہ
جاؤتم میرے جان خدا حافظ
ہم نے ابتک کسی عاشق کو ندیکھا محظوظ
ردیف ظاے معجمہ
کس شعلہ رو کا ہے یہ تجھے انتظار شمع
ردیف عین مہملہ
منہ پر سپر نہ لوں جو وہ قاتل لگاے تیغ
دیکھ کر رخسار تابا نکا تیری روشن چراغ
ردیف غین معجمہ
کیوں دلا مائل ہوا ابروے دلبر کیطرف
ردیف فای
ردیف قاف
کسطرح ہو نہ مجھے ابروے خمدار سے عشق
خنجر سے کم نہیں تیرا اے سیمبر فراق
دیکھوں وہ ظلم کرتا ہےتجھ پر کہاں تلک
ردیف کاف
گھر سے چلا سو چمن جب وہ جوان سبزہ رنگ
ردیف گاف فارسی
جہاڑتا کیا ہے اگر بھر گئی پوشاک میں خاک
زلفوں میں جا پھنسا ہوں ثابت خطائے دل
ردیف دال مہملہ
خوہان نہ مال کاہ ہے نہ طالب ہے نہ کا دل
پھر بہار آئی ہوا شوق بیاباں آجکل
جلوۂ حسن یار مے بینم
ردیف میم
شام سی تم یہ جو کہتی ہو کہ گہر جائینگے ہم
زلف پیچان رخ پہ لٹکاتی ہو تم
جفا کی تمکو اگر ابتدا نہیں معلوم
حق نے بخشی ہے وہ رنگینی میری تقریر میں
ردیف نون
بہار جنوں شاید آئی نہیں
مجھے دعوے داد خواہی نہیں
صاف کہہ جاؤ کہ منظور ملاقات نہیں
ہم تیری رخ پہ نظر صبح ومسا کرتی ہیں
روشنی قلب میں بے عشق بتاں کچھ بھی نہیں
سر جس عشق سے ہوئیگا مرا دل کسدن
دنیا میں اپنی عشق کا چرچا کہاں نہیں
جس سب سے میں زلف میں بھنسا ہوں
کھلی زلف معنبر معنبر اس پر مکے جب نہانی میں
قدموزون جانان جب چمن میں یاد کرتے ہیں
کون اوس ماہ پرنثار نہیں
نالی مزعان گرفتار کیا کرتی ہیں
کسنے دیکھے ہیں زمانے میں یہ پیاری آنکھیں
وہ بلبل ہوں ہے رجسپر جفائی باغبان برسوں
ہماری آپ کے اگلی سے رسم وراہ نہیں
نالی کرتا ہے جو گلشن میں دل زار اندبون
رخ دکھاؤ ہمیں ترساؤ نہیں
اچھی ہو جاؤگی جلدے عاشق
گرم ہے موت کا با
کیونکر نہ ہجر یار میں آہ و بکا کردن
ردیف واو
موسم گل ہی نہ اب خاطر صیاد کرو
ہم ہوں وہ آفتاب ہو چادر ماہتاب ہو
دیکھوں وحشت میں کیا گلستان کو
دہیان اوسکے رخ روشن کا جو آیا مجھکو
نہ مانگیں کی کبھی قرآن اوٹھو انو قسم لیلو
میری دلکو ذرا ای ماہ پیکر دیکھتے جاؤ
عشق کیونکر نہ مجھے ابروے خمدار کا ہو
دیکھر پاے گر سنہری یار کی مندیل کو
تعریف کچھ کرومیں خطا گر معاف ہو
گئی جب اوس پریی کی ہجر میں ہم سیر گلشن کو
ہے بہت شوق شکار اوس شہرۂ آفا تجھکو
تڑپنا اپنی بسمل کا میریجان دیکھتے جاؤ
جو پوچھتا ہے دل بھی ترا ہے جگر کے ساتھ
ردیف ہای ہوز
ہووے اگر نہ آپ کو ہمسے ملال کچھ
بھلا ہو تیرا اے ساقی رہے آباد میخانہ
کیوں نہ دیکھوں روز میں دوزخ سمجھ کر آئینہ
ردیف یا منقوطہ
دیوانہ ہوں میں عشق میں اک رشک پریکے
ہہ دو ہفتہ تیری جبیں ہی ہلال ایروی نازنین ہے
صدمے ہیں درد وغم ہیں دل وجانکے واسطے
جل کے وہ خاک ہو جو محفل جاناں دیکھے
رخ ترا یاسمن سے بہتر ہے
لاکھ دھونڈھی کبھی پائی گا نہ صیاد مجھے
ہے مدتونسے بوسۂ لب کی طلب مجھے
قتل ہمکو نہ بخطا کیجے
آتی ہے جان دیکھ کے تصویر یار کے
شرمائی کیوں نہ بلبل رنگنے سخن سے
خوشبو اوڑی جہاں می ںجو گیسوی یار کے
دم نہیں لیتا غضب بیتاب ہے
وحشت دل ہے لطف صحرا ہے
جلوہ گر گور غریبان چودلبر ہو جائے
ابر ہے یار ماہ پیکر ہے
سینے میں پھر حرارت داغ جگر ہوے
بھلا ئیے دل ابروی خمدار سے پہلے
اے فلک ظلم سے خالی نہیں روداد کوئے
اوسکے ابرو کا یہ اشاراہے
ہر دم خوش آمداوس صنم بیوفا کی ہے
صدا آتی ہے یہ کوچمین اوسکی خلق بسمل سے
بادۂ حسن عروسان چمن دیکھیں گے
دل اپنا درد کہتا ہے جگر سے اور جگر دل سے
کیا صبا مقتل عشاق سے تو آتی ہے
پھر بہار آئی طلب ساغر پہ ساغر کیجئے
تجھے آغوش میں اے سیمبر لیتے تو ہم لیتے
غضب ہے چین کر اوسکی ابرو خمدار میں آئے
کیا کیا نہ اسکے دور میں ہم ناتواں چلے
ہوٹونپہ ہی دم صدمئے سوز جگرے ہے
سروجھونکا میری آہونکا جو چل جاتا ہے
ہزاروں پیچ تیری گیسوے رسالائی
کروں تعریف کیا زلف رسا کی
ہم پہ ظاہر ہوگیا یہ گردش افلاک سے
ہے لطف ساقیا تیری محفل میں شام سے
تیرا ہی ذکر لب ہجر میں سے ایار جانی ہے
پلا دے بادۂ رنگین ہوائے جوش مستی ہے
پھر آوگی رستی سے گھر جاتی جاتی
موت آئی مہیا ہوی سامان سفر بھی
موسم گل میں جو ضبط نالہ وفریاد ہے
بہار آئی بڑی زوروپنہ ہیں ھھر دلولے دلکے
داد یہاں ملتی نہیں بلبل تیر فریاد کے
دل اگر صاف ہوئی کینے سے
حال ذل اوسل سے شب وصل بیان کیا کیجے
رخ سے پردہ تیرے اے بت جو سرک جایے ابھی
قتل بیجرم ومجسا تیرا شیدا ہو جاے
کیا عجب عشق کی آتش سے اگر تن جلجائے
تڑپ رہا ہوں میں جسکی فیر قیمتیں اوسکو مطلق چیز نہیں سے
تیغ کھینچی ہے تو آسان جلد مشکل کیجئے
سحر سے تعویذ سے یا عشق کی تاثیر سے
جفا سے آپ کے واقف اگر سارا زمانا ہے
رہوں گا مست وہاں سے ساقیٔ کوثر کی رحمت سے
رات دن گر یوہیں اغیار سے صحبت ہو کے
ہمیشہ تیز ہے تیغ انکی آشنا کے لیے
خون کرو دلم غنچہ کی ہوش ربائے
مجھے اوس جفا جو سے الفت رہی ہے
اائی کب وہ قاتل خونخوار دیکھا چاہیے
خوشی ہے عید کی وہاں اوریہاں شبون پہ شیوں ہے
اونکے نظرونسے دل چھپا بھی ہے
نہ پوچھو کہ دل کیا کیا چاہتا ہے
تجھے ہم جو اے گلبدن دیکھ لیتے
عشق گل میں زرد رنگت ہو گئے
عیاں ہے رنگ عشرت اندنوں ہر غنچہ و گل سے
تا بلب جھلتے ہی دل آہ رسا بھی آئے
عید کا روز ہے احسان کیجیے
وصل ہوتا نہیں دن کٹتے ہیں خالی خالی
ساقیا دیکھ تو ہے کیا ہے گھٹا ساون کے
لی جان میرے ہنسے خوشی سے
نوراسے حمد ہے یہ آٹھو پہر کے روشنی
لبست چون رخت اقامت جہان
تاریخ وفات اچھی صاحبہ طوائف احب فرمایش صاحب
مجید الدولہ نواب فلک جاہ
بنے غم کے تصویر اہل نشاط
بنام ایزداز نظم روشن مضامین
زہے ذات نواب عالے نزاد
امیر سحن در کہ از فضل بزدان
مجید الدولہ نواب دیجاہ
زہے شان مجید الدولہ عاشق
بر فرمود نواب گردون رکاب
اے یہ دیوان مبارک رشک باغ
زہے رتبۂ نواب مجید الدولہ
کلام اقدس نواب ذی قدر
سرورق
ہویداہی گل بلبل پہ جلوہ تیری رحمت کا
ہلال آسمان حسن ہی ابرو محمد کا
ہم نے جسدنسے تجھے ای مہ تاباں دیکھا
ڈوبتا شہر جو عاشق ترا گریان ہوتا
جلوہ افروز تو اے مہ تابان ہوتا
جلوہ گر جب اوس پری کا روے تابان ہوگیا
برمین عاشق کی نہ جب تک وہ گل اندالیم ما
مانا ہی مشکل زبان سے زبان کا
جب اونکا تیری مری دل کے وار پار ہوا
کیا لکھوں وصف اوسکے گیسو کا
بہار آئی چمن میں رنگ بدلا باغ عالم کا
کب مری دلکو خیال رخ جاناں نہ ہوا
زلف کو سنبل تررخ کو میں گلشن سمجھا
ساقیا دل جب سے شیدای لب میگون ہوا
قتل کرنیکو مجھے وہ ستم ایجاد آیا
ذکر ہر لب پہ ہی گراوسکی جفا کار یکا
رشک گل غیرت شمشاد تجھے دیکھ لیا
پڑگیا پر تو جو اوسکے پھول سے رخسار کا
جلا کیا تپ فرقت سے آبلہ دل کا
دل پردہ نشینوں سے لگانا نہیں اچھا
مرا سر جو تن سے جدا کیجیے گا
نشہ کیا کیا نہ چڑہا اور نہ کیا کیا اوترا
وحشت میں وہ پر حول بیاباں نظر آیا
دل اولجہہ کر مثل شانہ زلف پیچا میں رہا
جوش وحشت میں جو میں چاک گریباں نکلا
کیا پوچھتے ہو تم کہ محبت میں کیا دیا
کسیکی زلف میں گر بھول کر بھی دل اٹ کا
پھر ہماری نالہ رول کا اثر ہونے لگا
نہ مہربان کبھی ہمپر دہ خٰد پسند ہوا
شب فراق کی صدمے اوٹھائے گا پھر کیا
دم تن سی روز فرقت جانان نکل گیا
مدتوں تک یہ مزاج یار کا عالم رہا
پونچھتے ہو حال کیا مجھ عاشق جان باز کا
ساقی سحر ہی دل مجھے ساغر شراب کا
اب مجھسے تیری بز م میں ٹھہرا نہیں جاتا
بہار آئی خیال آیا مجھے پھر خوش حمالوں کا
سونگھی جو تیری زلف تو عنبر نہ نکالا
لڑگئی ہے آنکھ اوس بیداد گر سے دیکھنا
ابروے خمدار پر تلوار کا دھوکا ہوا
میرا دل کسطرح لے نام تیری آشنائی کا
چہچہے کرتے ہیں مرغان خوش الحان کیا کیا
اگر وہ یار مہر ومہربان ہوتا تو کیا ہوتا
کرتی ہے شاخ گل پہ فغان بار بار کیا
ہوسکا دودن نہ راز عشق اخفا کھل گیا
لیلی زلف کا مجکو جو نہ سودا ہوتا
بہار گل میں زور دن پر جنون ہی اس پر میرا
ردیف بای منقوطہ
دیکھی اگر وہ عارض پر نور آفتاب
ہے فقط تجھ سے دلربا مطلب
نقش حیرت ہو جو سن لے میری نالی عندلیب
یارب نصیب ہوگا مجھے وصل یار کب
ساقیا کرتا ہو ںتجھسے عرض گستاخانہ اب
اچھا ہوا جو روٹھ گئی بیقصور آپ
شب کو آئیگا میری گھر وہ قمر آپ سے آپ
ردیف تای فوقانی
آیا نہ وعدہ کرکے جودلبر تمام رات
موت اوسکی ہے جو شخص ہے بیمار محبت
رات دن نالی جو کرتا ہوں میاں کوی دوست
اے جنون کا ہش جان اب ہے جفا عزبت
آنکھ کیوں پھر لے اے رشک پری کیا باعث
ردیف ثاے مثلثہ
کسطرح نہ یاد آئی مجھے شام وسحر پیٹ
خوش قدون پر ہوا مائیل دل ناشاد عبث
سچ کہیو کس پری کا یہ ہے انتظار آج
ردیف جیم معجمہ
پہلو میں ہے کسکے وہ بت پردہ نشین آج
کیا کیا نہ عشسق زلف میں ہمنے اٹھائی پیچ
ردیف حای حطی
ردیف جیم فارسے
بھولی مجھے وہ زلف پرشیان کسی طرح
ردیف دال مہملہ
یہ جسکے ظلم سے کرتا ہے اک جہاں فریاد
دیکھے جو تیری زلف شکن در شکن کی شاخ
روا نہیں یہ جفائیں خدا سے ڈر صیاد
دام میں لیگے کسی زلف رسا میرے بعد
ہم کہے دیتے ہیں اچھا نہیں ہر بار گھمنڈ
سرپہ اوس شوخ نے ہیریکا جومابذ ہا تعویذ
تدبیر پر گھمنڈ نہ تقدیر پر گھمنڈ
مرگیا ہوں جو نثار قددلجو ہوکر
ردیف رای مہملہ
جوش وحشت میں گئی سوے بیاباں اکثر
عاشق ہوا ہوں حلقہ زلف سیاہ پر
خدا ہوتا ہی اپنا مرغ دل اوس صیدا فگن پر
خواہش جام آفتاب نہ چھوڑ
جو دیکھ لے تیری گلرنگ پیرہن کی بہار
دیکھیں ساحر تو دکھاے ابھی جادو آواز
دل ہجر میں جلتا ہے تڑپتا ہے جگر روز
پھرا ہے دل تیرا اے غیرت قمر افسوس
کرتا ہے عبث فکر سراغ پرطاؤس
ردیف شین معجمہ
جستجو دشتوں میں کی شہر وں میں کی اکثر تلاش
رات بھر ہجر میں خاموش ہے دن خابھرموش
ردیف صاد مہملہ
حسن ہر شے کا ہےپیش رخ جاناں ناقص
ہوں کیوں نہ مجھے ابروے خمدار سے اخلاص
تحت شاہی سے نہ مطلب ہے نہ افسر سی غرض
تعذیر ہے یہی میری تقصیر کے عوض
ردیف ضاد معجمہ
عشق میں پہلے درد سر ہے شرط
ردیف طای مہملہ
جاؤتم میرے جان خدا حافظ
ہم نے ابتک کسی عاشق کو ندیکھا محظوظ
ردیف ظاے معجمہ
کس شعلہ رو کا ہے یہ تجھے انتظار شمع
ردیف عین مہملہ
منہ پر سپر نہ لوں جو وہ قاتل لگاے تیغ
دیکھ کر رخسار تابا نکا تیری روشن چراغ
ردیف غین معجمہ
کیوں دلا مائل ہوا ابروے دلبر کیطرف
ردیف فای
ردیف قاف
کسطرح ہو نہ مجھے ابروے خمدار سے عشق
خنجر سے کم نہیں تیرا اے سیمبر فراق
دیکھوں وہ ظلم کرتا ہےتجھ پر کہاں تلک
ردیف کاف
گھر سے چلا سو چمن جب وہ جوان سبزہ رنگ
ردیف گاف فارسی
جہاڑتا کیا ہے اگر بھر گئی پوشاک میں خاک
زلفوں میں جا پھنسا ہوں ثابت خطائے دل
ردیف دال مہملہ
خوہان نہ مال کاہ ہے نہ طالب ہے نہ کا دل
پھر بہار آئی ہوا شوق بیاباں آجکل
جلوۂ حسن یار مے بینم
ردیف میم
شام سی تم یہ جو کہتی ہو کہ گہر جائینگے ہم
زلف پیچان رخ پہ لٹکاتی ہو تم
جفا کی تمکو اگر ابتدا نہیں معلوم
حق نے بخشی ہے وہ رنگینی میری تقریر میں
ردیف نون
بہار جنوں شاید آئی نہیں
مجھے دعوے داد خواہی نہیں
صاف کہہ جاؤ کہ منظور ملاقات نہیں
ہم تیری رخ پہ نظر صبح ومسا کرتی ہیں
روشنی قلب میں بے عشق بتاں کچھ بھی نہیں
سر جس عشق سے ہوئیگا مرا دل کسدن
دنیا میں اپنی عشق کا چرچا کہاں نہیں
جس سب سے میں زلف میں بھنسا ہوں
کھلی زلف معنبر معنبر اس پر مکے جب نہانی میں
قدموزون جانان جب چمن میں یاد کرتے ہیں
کون اوس ماہ پرنثار نہیں
نالی مزعان گرفتار کیا کرتی ہیں
کسنے دیکھے ہیں زمانے میں یہ پیاری آنکھیں
وہ بلبل ہوں ہے رجسپر جفائی باغبان برسوں
ہماری آپ کے اگلی سے رسم وراہ نہیں
نالی کرتا ہے جو گلشن میں دل زار اندبون
رخ دکھاؤ ہمیں ترساؤ نہیں
اچھی ہو جاؤگی جلدے عاشق
گرم ہے موت کا با
کیونکر نہ ہجر یار میں آہ و بکا کردن
ردیف واو
موسم گل ہی نہ اب خاطر صیاد کرو
ہم ہوں وہ آفتاب ہو چادر ماہتاب ہو
دیکھوں وحشت میں کیا گلستان کو
دہیان اوسکے رخ روشن کا جو آیا مجھکو
نہ مانگیں کی کبھی قرآن اوٹھو انو قسم لیلو
میری دلکو ذرا ای ماہ پیکر دیکھتے جاؤ
عشق کیونکر نہ مجھے ابروے خمدار کا ہو
دیکھر پاے گر سنہری یار کی مندیل کو
تعریف کچھ کرومیں خطا گر معاف ہو
گئی جب اوس پریی کی ہجر میں ہم سیر گلشن کو
ہے بہت شوق شکار اوس شہرۂ آفا تجھکو
تڑپنا اپنی بسمل کا میریجان دیکھتے جاؤ
جو پوچھتا ہے دل بھی ترا ہے جگر کے ساتھ
ردیف ہای ہوز
ہووے اگر نہ آپ کو ہمسے ملال کچھ
بھلا ہو تیرا اے ساقی رہے آباد میخانہ
کیوں نہ دیکھوں روز میں دوزخ سمجھ کر آئینہ
ردیف یا منقوطہ
دیوانہ ہوں میں عشق میں اک رشک پریکے
ہہ دو ہفتہ تیری جبیں ہی ہلال ایروی نازنین ہے
صدمے ہیں درد وغم ہیں دل وجانکے واسطے
جل کے وہ خاک ہو جو محفل جاناں دیکھے
رخ ترا یاسمن سے بہتر ہے
لاکھ دھونڈھی کبھی پائی گا نہ صیاد مجھے
ہے مدتونسے بوسۂ لب کی طلب مجھے
قتل ہمکو نہ بخطا کیجے
آتی ہے جان دیکھ کے تصویر یار کے
شرمائی کیوں نہ بلبل رنگنے سخن سے
خوشبو اوڑی جہاں می ںجو گیسوی یار کے
دم نہیں لیتا غضب بیتاب ہے
وحشت دل ہے لطف صحرا ہے
جلوہ گر گور غریبان چودلبر ہو جائے
ابر ہے یار ماہ پیکر ہے
سینے میں پھر حرارت داغ جگر ہوے
بھلا ئیے دل ابروی خمدار سے پہلے
اے فلک ظلم سے خالی نہیں روداد کوئے
اوسکے ابرو کا یہ اشاراہے
ہر دم خوش آمداوس صنم بیوفا کی ہے
صدا آتی ہے یہ کوچمین اوسکی خلق بسمل سے
بادۂ حسن عروسان چمن دیکھیں گے
دل اپنا درد کہتا ہے جگر سے اور جگر دل سے
کیا صبا مقتل عشاق سے تو آتی ہے
پھر بہار آئی طلب ساغر پہ ساغر کیجئے
تجھے آغوش میں اے سیمبر لیتے تو ہم لیتے
غضب ہے چین کر اوسکی ابرو خمدار میں آئے
کیا کیا نہ اسکے دور میں ہم ناتواں چلے
ہوٹونپہ ہی دم صدمئے سوز جگرے ہے
سروجھونکا میری آہونکا جو چل جاتا ہے
ہزاروں پیچ تیری گیسوے رسالائی
کروں تعریف کیا زلف رسا کی
ہم پہ ظاہر ہوگیا یہ گردش افلاک سے
ہے لطف ساقیا تیری محفل میں شام سے
تیرا ہی ذکر لب ہجر میں سے ایار جانی ہے
پلا دے بادۂ رنگین ہوائے جوش مستی ہے
پھر آوگی رستی سے گھر جاتی جاتی
موت آئی مہیا ہوی سامان سفر بھی
موسم گل میں جو ضبط نالہ وفریاد ہے
بہار آئی بڑی زوروپنہ ہیں ھھر دلولے دلکے
داد یہاں ملتی نہیں بلبل تیر فریاد کے
دل اگر صاف ہوئی کینے سے
حال ذل اوسل سے شب وصل بیان کیا کیجے
رخ سے پردہ تیرے اے بت جو سرک جایے ابھی
قتل بیجرم ومجسا تیرا شیدا ہو جاے
کیا عجب عشق کی آتش سے اگر تن جلجائے
تڑپ رہا ہوں میں جسکی فیر قیمتیں اوسکو مطلق چیز نہیں سے
تیغ کھینچی ہے تو آسان جلد مشکل کیجئے
سحر سے تعویذ سے یا عشق کی تاثیر سے
جفا سے آپ کے واقف اگر سارا زمانا ہے
رہوں گا مست وہاں سے ساقیٔ کوثر کی رحمت سے
رات دن گر یوہیں اغیار سے صحبت ہو کے
ہمیشہ تیز ہے تیغ انکی آشنا کے لیے
خون کرو دلم غنچہ کی ہوش ربائے
مجھے اوس جفا جو سے الفت رہی ہے
اائی کب وہ قاتل خونخوار دیکھا چاہیے
خوشی ہے عید کی وہاں اوریہاں شبون پہ شیوں ہے
اونکے نظرونسے دل چھپا بھی ہے
نہ پوچھو کہ دل کیا کیا چاہتا ہے
تجھے ہم جو اے گلبدن دیکھ لیتے
عشق گل میں زرد رنگت ہو گئے
عیاں ہے رنگ عشرت اندنوں ہر غنچہ و گل سے
تا بلب جھلتے ہی دل آہ رسا بھی آئے
عید کا روز ہے احسان کیجیے
وصل ہوتا نہیں دن کٹتے ہیں خالی خالی
ساقیا دیکھ تو ہے کیا ہے گھٹا ساون کے
لی جان میرے ہنسے خوشی سے
نوراسے حمد ہے یہ آٹھو پہر کے روشنی
لبست چون رخت اقامت جہان
تاریخ وفات اچھی صاحبہ طوائف احب فرمایش صاحب
مجید الدولہ نواب فلک جاہ
بنے غم کے تصویر اہل نشاط
بنام ایزداز نظم روشن مضامین
زہے ذات نواب عالے نزاد
امیر سحن در کہ از فضل بزدان
مجید الدولہ نواب دیجاہ
زہے شان مجید الدولہ عاشق
بر فرمود نواب گردون رکاب
اے یہ دیوان مبارک رشک باغ
زہے رتبۂ نواب مجید الدولہ
کلام اقدس نواب ذی قدر
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.