سرورق
بلبل ہوں بوستاں جناب امیر کا
منھدی سے ہے شعلہ قدم اس رشک پری کا
خلق کی تسخیر کو ہر نقش پا افسون ہوا
روئے جانان کا تصوّر میں جو نظارا ہوا
کل شب فرقت میں اک ماتم کدہ عالم ہوا
روے جاناں پہ ہوا خط معنبر پیدا
لبریز اسکے ہاتھ میں ساغر شراب کا
پریوں کا عمل سے میں تسخیر نہیں کرتا
رہے کیونکر نہ دل ہردم نشانہ ناوک غم کا
رات ایسا انتظار یار میں بتیاب تھا
نوجوانی میں ہوا عشق اس بت گلفام کا
رات بھر جو سامنے آنکھوں کے وہ مع پارہ تھا
آج دعویٰ اسکی یکتائی کا باطل ہوگیا
گرنہ جانسوزغم گیسوئے جاناں ہوتا
ترے رخسار کا مضمون جو ایجان جہاں باندھا
سرد مثل جادۂ ہے پامال تیری چال کا
تونے شہباز نگہ کو جوا دھر چھوڑ دیا
ماجرا ہر بحر میں ہے چشم دریا بار کا
خضر کو اس نے پامردیکے آگے لنگ ٹھہرایا
پڑا عکس بجو میں خنجر ابروے قاتل کا
ضعف ہے راہ طلب میں جب سے دامنگیر پا
پیشتر سر سے یہاں ہوتی ہیں سامان پیدا
میں اگر زینت فتراک کے قابل ہوتا
دم ہے بند آگے ترے تیغ صفا ہانی کا
ساتھ اپنے جو مجھے یار نے سونے ندیا
جو دل ہے ٹوٹ گیا کیا ہو شعر تر پیدا
ہے مری مستی کو عشق کو ثر ثراب
گر ترے دست حنائی دیکھ پائی عندلیب
اس چمن میں ہیں بے شمار درخت
زلفیں شاخیں ہیں قد یار درخت
اس گل کے کان کو نہیں زیور کی احتیاج
ردیف جیم تازی
ہے ناز کی سے قامت جاناں سمن کی شاخ
ردیف خاے معجمہ
یار آیا تو ہوے دیدۂ ناکام سفید
ردیف دال مہملہ
ردیف راے مہملہ
رکھو سودا خط رخ رشک قمر سے دور
یہ نور ہے روے مہ جبین کا کہ ہو خجل چاند چوھویں کا
گنتا ہوں سر کو بوجھ میں ناکام دوش پر
پاسپان حسن ہے خال اس رخ پر نور پر
بد نما کپڑے ہیں مجھے وحشی کے جسم زار پر
عاشق ومعشوق سب مرتے ہیں میرے یار پر
اس قدر زیر فلک اے سرو گل اندام رقص
ردیف صاد مہملہ
ایسا پروانہ زمانے میں کبھی دیکھنا شمع
ردیف غین معجمہ
عریانی جنون میں مرے کام آئے داغ
بند آتا ہے نظر جاتے ہیں سو سو بار ہم
ماہ نو ہے مثل ابرولیکن اسکا رد نہیں
ہے عجب رنگ کی وحشت ترے دیوانے میں
واعظ نہ منع بادہ کشی کر خمار میں
بھرا رہتا ہے خون دل ہمیشہ دیدۂ تر میں
یان ازل سے داغ سودا ہے دل آگاہ میں
بیشتر نشۂ ایجاد سے بیہوش ہوں میں
دل بیتاب سے ہے پیچ وتاب اے جان گیسو میں
سو ہیں جو ہر ایک تیغ ابروے خمدار میں
دشت وحشت میں مجھے فکر تن عریاں نہیں
پھونچا سنان پر اسکی ابھی میرا سر کہاں
ہو جو تیرا روے رنگین پر تو افگن آب میں
سر بکف پھرتا ہوں میں لیکن کوئی قاتل نہیں
عکس اسکی زلف کا نہیں جام شراب میں
مرگیا میں بیقراریسے اوسے کچھ غم نہیں
مٹگئے نقش حیات اور اسے تاثیر نہیں
اس ابر میں یار سے جدا ہوں
یوں مری آنکھیں عیاں ہیں اشک کے سیلاں میں
تلخ باتیں آپکی شریں سخن سے کم نہیں
دل اسکو دیا ہمنے تقصیر اسے کہتے ہیں
تیر رہا ہے کھڑا وہ بت شنک آب میں
غم شپیر میں رو رو کے کروں تر دامن
روح کو آرام دم بھر باغ رضواں میں نہیں
جان ہم تجھپہ دیا کرتے ہیں
بستر خواب پہ تو یاد جو آیا مجکو
سرکشی اور ہواب کسکی گوارا مجکو
مزاوصال کا کیا گر فراق یار نہو
نہ جنون میں بھی رکھا نجت نے عریاں مجکو
نہیں آہن ربا کھینچو حو میں ہر ایک آہن کو
رسائی ہے متاع حسن تک کب دست دشمن کو
میں جو روؤں خرمن ماہ درخشان سبز ہو
حق نے پہلے یار سے پیدا کیا اغیار کو
مہر تابان جانتا ہے ہر بشر آئینے کو
غضب ہے سرو باندھا اس پریکے قد گلگوں کو
درازی یاد دلواتی ہے اوس زلف پریشانکو
کیا مرے آغوش سے وحشت سے ہے اس پیر کو
ردیف ہاے ہوز
ہیں اشک مری آنکھوں میں قلزم سے زیادہ
دیدۂ اعمیٰ ہوے روشن تری تنویر سے
ردیف یای تحتانی
اجل سر پر کھڑی ہے خواب غفلت میں زمانہ ہے
پنجۂ گلگوں چمن کو اب دکھایا یا چاہیے
ان لبونکی یاد میں داغ دل دیوانہ ہے
آتش عشق وہ ہے جس میں سمندر جل جاے
طور سے بھی اپنے داد یمین زیادہ نور ہے
جیمیں ہے خار بیاباں جائے آختر دیکھئے
نہیں پہونچتے جو نالے بھی ہمصفیر دن کے
آتے آتے کیوں نہ اولٹے پانوں بھاگے دور سے
ابھی ہم قید ہیں گو روح چھوٹی مجس تن سے
شبیہ قامت موزون مرا ہر ایک مصرع ہے
فکر سے میں نہیں خالی غم جاناں میں کبھی
دہر میں غرق گنہ کون مرا ثانی ہے
گو مرا تابوت یارونکا وبال دوش ہے
باد کے مانند ساقی لے اوڑا پانی مجھے
جب تلک گردش ہے اسکو اک جہاں گردشمیں ہے
نعزش اس وادی میں پاے خضر کو ہرکام ہے
کچھ عدم کا بھی خیال ایدل تجھے یاں چاہیے
روز مرگ آرزو ہے تابکے غم کیجیے
عشق بلبل ہے جہاں یہ خارواں در کار ہے
نہ چھٹے بعد فنا کوچۂ جاناں ہم سے
کیوں ہوگیا دو چار میں اس شہسوار سے
شعر لکھنے میں جو یاد اسکا خرام ناز ہے
کر گیا ہے مرے آغوش کو جاناں خالی
مائل سو سجود یہ تیرے حضور ہے
مشتاق سب ہیں بدر سے افزوں ہلال کے
بجا ہے گروصال اغیار کو ہے مجکو، ہجران ہے
ایسے ہم آماجگاہ تیر مژگان ہوگئے
بے ستون پر جاکے ٹکر کیوں نہ لیں فزہادسے
فراق میں ہے دم تیغ موج آب مجھے
چشم جاناں اور ہے چشم غزالاں اور ہے
مری محمل نشیں کے آگے لیلی کا جو مفتون ہے
گلشن عالم میں کیا دست جنوں چالاک ہے
جو غزل ہے اسمیں مضمون دل مایوس ہے
فرقت ہوئی جو صبحکو اک رشک ماہ سے
مجکو فرقت کی اسیری سے رہائی ہوتی
کیا سیاہی اور سرخی لالہ وار آنکھوں میں ہے
سودا ہے ہے مجکو عششق خط سبز رنگ سے
دیوان ناسخ
خوب موزوں ہمسے وصف قد بالا ہوگیا
سرد عاشق ہوگیا اس غیرت شمشاد کا
ذرّوں کو تیری نور نے اختر بنا دیا
خیال میں بھی اگر خواب سے دو چار ہوا
ہے تصوّر مجھے ہر دم تری یکتائی کا
کوئی اورڑتا کسی طائر کا اگر پرپایا
جب مرے دل کو اضطراب ہوا
اپنے نالوں کا ابھی ظاہر اثر ہو جائیگا
مظہر وہ بت ہے نور خدا کے ظہور کا
گل کو جب دیکھا وہ گلگوں پیر ہن یاد آگیا
وصل کے ایام میں وہ شور قلقل ہوگیا
اس ادا سے چلے جو یار اپنا
دیجیے اوترا پیرہن اپنا
محو خط عارض محبوب سب کا
ہوگیا اندھیر جب پنہاں وہ مہ رو ہوگیا
موج زن ایسے ہیں یان دیدۂ تر میں دریا
ذکر کیا اس سہ کے آگے زہرۂ بر جیس کا
جب میاں یار کا مضمون رقم ہو جائیگا
ہر پھول تیرے رشک سے جب آب ہوگیا
ہے کیا ہی اثر خوبی ابرو کی بیان کا
ثناے ابرو خمدار ہے بیان اپنا
کہا وطن سے ہوں میں خانماں خراب جدا
رہا ہوں تجسے میں ایماہ ایکسال جدا
اوڑا کے ساتھ یہ مشت غبار لیتا جا
وہ روے کتابی تو ہے قرآن ہمارا
دیدۂ دل جب سے اوفرہادیک بین ہوگیا
ہے مکان گور تنگ سونے کا
جب سے شغل خون نشانی ہوگیا
تو جو آیا باغ وقف پائمالی ہوگیا
گل ہے کیا مجروح ہے تیغ نگاہ یار کا
تیرے پر تونے کیا گنگا کو دریا نور کا
وحشیوں کو کیا ہے مجھ وحشی سے یار انہوا
تیری زلفوں کا زمانہ مبتلا ہو جائے گا
گیا گذراسکے وہاں تنگ سے ہو بات کا
تو جو دم پھر تہ مری پاس ہوا
آج مولد ہے جناب احمد مختار کا
ناخن فکر سے نادان نودل ریش ہے کیا
مولد ہے آج اس شہ عالیجناب کا
آج دنیا میں امام انس وجان پیدا ہوا
ہو مبارک قائم آل عیا پیدا ہوئے
داعظا حبّ ذہب تیرا جو مذہب ہوگیا
گھر مرا فرقت میں سونا ہوگیا
جوانی آگئی خط بھی ہوا رخسار پر پیدا
صبح فرقت نے دکھایا روپ سارا شام کا
عالم بالا بھی تجھپر مبتلا ہو جائے گا
ملکے مبتی رتبہ دانتوں کا بہت کم کر دیا
رات آئی تری فرقت میں جو اے یار گھٹا
ساقیا دے مجھے شتاب شراب
ردیف باے موحدہ
بتادے خلد میں ہے یا سفر میں جوے شراب
جلوۂ رخسار جانا نسے نکل آتی ہے دھوپ
ردیف تاے فوقانی
غمخانہ تری یاد میں ہے سیم بر بہشت
ردیف ثاے مثلثہ
ہے جدائی دشمن جان الغیاث
سانپ لہراتے ہیں فرقتمیں نہیں آثار موج
کرتا نہیں مرے دل افگار کا علاج
ردیف جیم عربی
ہے نگاہ وآبرد دمژگان وچشم یار کج
ترے گالونپہ واری چاند سورج
کرنا کہیں نہ ساتھ رقیبوں کے جان کوچ
مشک نے آئی ہے شاید بیچگر کا فور صبح
آمجھ سے ہو ہمکنار قاصد
ردیف دال مہملہ
آیا نہیں پھر کے آہ قاصد
مثل نسرین بدن یار ہے جزخال سفید
ہوے رونیسے میرے دیدۂ بیدار سفید
تمھارے چہریکے آگے ہے آفتاب سفید
زیست بھر ہوگی نہ یان چشم خیال یار بند
میرے ہاتھوں سے گریبان کے کئی تار پسند
قدر اپنی تیری مدح سے ہے جان جان بلند
پہنے وہ صنم جو پیرہن زرد
پیریمین ہوئے نالۂ گرم اپنے دلاسرد
ردیف ذال معجمہ
قابل نامۂ محبوب کہاں یان کاغذ
اے دل اگر آئے قاصد یار
ہے کیا ہے بوسۂ لب شیریں دہان لذیذ
ردیف راے مہملہ
آئے یارب جلد در پر نامۂ پر
میں ہے مرتا نہیں کچھ اس بت لاثانی پر
کیا شب فرقت میں صدمے ہیں دل بیتاب پر
خاموش ایک دم نہیں رہتا دہان گور
سرہے بار اے محتسب مینا دوش پر
توہی وہ گل ہے کہ تجھپر ہے فدا جان بہار
بیہوش ہوسن لے جو مرے یار کی آواز
مردونکو جلاتی ہے تری ناز کی آواز
ردیف زای معجمہ
ڈر دلا گوکہ نہیں کا کل دلدار دراز
ردیف شین معجمہ
زنہار ہو جیو نہ دلا مبتلاے حرص
ردیف صاد مہملہ
سازو مطرب تری آواز سے ہیں کیا خاموش
دست خالی ہے ملا ہے ہمیں ساغر کی عوض
ردیف طاے مہملہ
وردہے مجکو ترا اے یار خط
لکھ چکا ہے وہ ستم ایجاد خط
ایک شب جو تیری محفل میں نہ پائی بار شمع
ردیف عین مہملہ
اب کی ہولی میں رہا بیکار رنگ
کل تک وہ ہمکنار تھے مجسے کنار گنگ
ادھر آئی اودھر گئی شب وصل
ردیف میم
گل کردیا جو اس گل ترنے چراغ گل
واعظا مسجد سے اب جاتی ہیں میخانیکو ہم
ردیف نون
اس دہن کے وصف میں تقریر کیحاجت نہیں!
پاس وہ طفل نے سوار نہیں
جو ترے عشق میں ہلاک نہیں
کچھ تری بات کو ثبات نہیں
اس عزیز القدر کی دیکھی ہے صورت خوبمیں
ہے یہ بیجا جو اسے سروبشر کہتے ہیں
گس گل کا منھ چمن میں ترے آگے فق نہیں
کیا غرض غیر سے جب یار سے کچھ کام نہیں
غم نہیں ہے فلک جو تاج نہیں
آواز ہے مانند مزا میر گلے میں
کاٹے کھاتا ہے گھر جدائی میں
سراپا ہے وہ شیریں کا کلام شیریں
قاصدا جھوٹ کہا گھر میں وہ مغرور نہیں
پاس جسدنسے دلا وہ ستم ایجاد نہیں
دل مرا فرقت محبوب میں بیتاب نہیں
بہار آئی بھروں اب شراب شیشے میں
مجکو اب ساقی گا غام سے کچھ کام نہیں
آج پیش نظر وہ حور نہیں
ملا عکس شفق کو رتبۂ اکسیر پانی میں
نہیں یہ وائرہ گر داب کا تحریر پانی میں
ہے یوہیں تدبیر نادان عالم اسباب میں
عشق کو کسکے دلسے لاگ نہیں
خود نجووجی مرا اداس نہیں
جب کبھی پہنا جڑاؤ اس نے زیور کان میں
آتش افشاں گھر میں اس محبوب کے رخسار ہیں
خون فشاں چھاے ہیں مثل چشم گریان پایونمیں
عشق پہچان اے پری لٹپا ہے پائے سرد سے
کون زندہ ہے جو اس چشم کا بیمار نہیں
اے سحراب اپنی نورانی دکھا صورت ہمیں
ردّی تابندہ پرا اب زلف سیہ قام نہیں
ہو بیزار مجسے ہوا زار میں ہوں
ہیں یاد وہ بے مثال آنکھیں
تو وہ باطن ہے کہ جلباب ہیں تجھپر لاکھوں
خاک ہے اوسخت جان اکدن نراتن خاکمیں
حاسد کو ایکدم نہیں صیحت جہان میں
ہو کسی کو مجسے کینہ پر مجھے کینہ نہیں
نہیں عکس آئینہ میں ہے مقرر آگ پانمیں
پری جہاں میں نہ جنت میں جورعین دیکھو
ردیف واو
یاد ہیں سب گلغدار لکھنؤ
ہم صفیر اپنا وطن ہے لکھنؤ
خط شبرنگ یہ گا لونپہ نہیں دھیان کرو
بزم میں پاتا نہیں میں ساقی گلفام کو
چڑھ گئے جو میری نالونسے شرار رات کو
چوٹ دل کو جو لگے آہ رسا پیدا ہو
دور کر پر دہ دکھا دے روے عالمتاب کو
تاب کیا دیکھوں جو اوسکے روے آتشناک کو
کسقدر نفرت ہے اسکے تو سن چالاک کو
اے پری مکھڑا ملا ہے پیارا چاند کو
واہ ہیں کیا ہے ترے ابروے خمار سیاہ
ہے گل رخسار جاناں نرگس جادو سیاہ
گھر میں جاسکتے نہیں سوئے کہاں یار کے ساتھ
کیونکر اس بت سے ہو ہم سنگ آئینہ
آجتک شوق اسیری ہے مجھ آزاد کے ساتھ
صاف ہے دیوانۂ گیسوے خمدار آئینہ
طرب فزا ہو صدوبست سال سالگرہ
ہوگیا ہجر میں جہاں سیاہ
تابہ کے ہجر میں ناموں کے یہ تحریر رہے
جیب میں چاک دریار نظر آتا ہے
آسمان حسن وہ مہ پارہ ہے
چھوڑ کر ہمکو جو اپنے گھر کے وہ اندر پے
نہوئی دیدۂ تر اشکوں سے اک پل خالی
ہے بے صفا جو کوئی گرفتار رنگ ہے
دیکھنا تاثیر میرے نالۂ جانکاہ کی
موت کی بھی راہ میں کیا پھیر ہے
مثل جنت دور میرا باغ ہے
یاں ےہنسی لب ہے دلمیں درد ہے
جسنے آنکھ آپ سے لڑائی ہے
کس کو فرقت میں خواہش مل ہے
غم نہیں گر روسیاہی ہو خدا کے سامنے
وہ مجنوں ہوں کہ ہر عالم میں لیلی میری شامل ہے
دوست جیسے اک برہمن زادہ ہے
دیر کس کا کعبۂ مقصود ہے
آج میخوار و فراق ساقی گلفام ہے
کمال آپکے جلوہ سے بام روشن ہے
خط کے لانے میں اگر پیک صبا نے دیر کی
سیر گلشن کو اگر وہ بت پر نور چلے
ایک خلقت ہے اسیر ایجان تیری چال کی
ماہ ہے پرداغ کیا نسبت ہے اسکے گال سے
وصل جانان سے جو مجکو یاس ہے
کوئی جانان پائے گل تو گلشن چھوڑ دے
آگئی موت شب ہجر میں ہییات مجھے
جنوں پسند مجھے چھانوں ہے ببولونکی
باغ ہستی میں ہمیں بس نخل ماتم چاہئیے
پہنے ہے سلسلۂ جذبۂ مجنون لیلی
طمع نہیں مجھے ہر گز کہ سیم دزریلجائے
ملگیا ہے جب شب تیرہ میں عریاں تو مجھے
موت ہے نزدیک مجسے کوئی قاتل دور ہے
دل اک بت پہ شیدا ہوا چاہتا ہے
کبھی ملا نہ وہ محبوب شہسوار مجھے
کسطرح پانوں خبر میں کوئی جاناں دور ہے
اوبھار امسال دل پژمردہ ہے
کون اے بت ہے توخدا جانے
آج سے وحشت فزوں ہر روز ہے
تم ہو مری طرف سے مقرر بھرے ہوے
جوش وحشت کا دلا چالاک گھوڑا چاہیے
جوش رقت کی سبب محروم ہوں دیدار سے
پھر بہار آئی ہے ساقی گل ہیں خندان جام سے
وہ کہہ گئے تھے کہ آئیں گے ہم چراغ چلے
دل سے اب وحشت کو رخصت سوے ہامان کیجئے
جسم اپنا خشک فرقت میں سرا سر کیجئے
حکم شافی سے دوا آب بقا ہو جاوے
آتی جاتی ہے جابجا بدلی
کمر تیری گم ہے مجھے جستجو ہے
یار کی شیریں ادانے کا جہاں میں شور ہے
دیکھنا شعلے ہمارے نالۂ شبگیر کے
قاصدا کہہ دیجو اتنا ہے اس گمراہ سے
پر تو افگن جو تری زلف معنبر ہو جائے
ممکن نہیں صیام میں اک بوند آب کی
آئی برسات اب ہے آمد ساقی گلفام کی
گم ہوا میں جب سے تیرا رو نظر آیا مجھے
پانوں تیرا پھر گیا بے پیر میری خاک سے
آب ہیں دوست تو دشمن کیا ہے
ہوں وہ سوز ان شعلہ بھاگی دور میرنحاک سے
یوتہیں صورت ہوئی تھی ہجر میں تغیر مجنونکی
نظر آئی صریح تربت شپیر لوہے کی
جو پہنے تونے زنجیراے بت بے پیر چاند یکی
آج کیا انداز بسمل اضطراب دل میں ہے
سب زمنین ہیں نئی بنتیں ہیں اے یار نئی
تو چاند ہے سایہ چاندنی ہے
نہ تری گات بری ہے نہ تری بات بری
ہیں حسین اور بھی پر تجھمیں ہے ہر بات نئی
ہے شب وصل جو اے ماہ جبیں تھـوڑیسی
وقار محسن التدولہ بہادر
رفت واویلا ازیں دار فنا
ازوفات جناب شاہ زمن
ان سالک منزل حقیقت
ناظم اقلیم دین وشرع بود
ہادے راہ یقین حیف امروز
جناب میرزا کاظم علیخان
شود سعد عقد نکاح سعید
ساقیا بادہ کشم وجدکنان
علامۂ عصر زین جہان رفت
خدیو عصر محمد علی شہ والا
جناب محمد علی بادشاہ
این سبیل شاہ شابانست وآب آبحیات
جناب محمد علی بادشاہ
خسرو ہند ابوالفتح میں التدین ست
حضرت بادشاہ شاہنشاہ
ظلّ سبحان غیرت نوشیروان
بہ شہنشاہ زمان تاجور کشور ہند
عید اضحے بہ شہنشاہ مبارک باشد
عرش برین سے بھی کہیں اعلیٰ مقام ہے
افسوس کہ نواب یمین الدّولہ
سرورق
بلبل ہوں بوستاں جناب امیر کا
منھدی سے ہے شعلہ قدم اس رشک پری کا
خلق کی تسخیر کو ہر نقش پا افسون ہوا
روئے جانان کا تصوّر میں جو نظارا ہوا
کل شب فرقت میں اک ماتم کدہ عالم ہوا
روے جاناں پہ ہوا خط معنبر پیدا
لبریز اسکے ہاتھ میں ساغر شراب کا
پریوں کا عمل سے میں تسخیر نہیں کرتا
رہے کیونکر نہ دل ہردم نشانہ ناوک غم کا
رات ایسا انتظار یار میں بتیاب تھا
نوجوانی میں ہوا عشق اس بت گلفام کا
رات بھر جو سامنے آنکھوں کے وہ مع پارہ تھا
آج دعویٰ اسکی یکتائی کا باطل ہوگیا
گرنہ جانسوزغم گیسوئے جاناں ہوتا
ترے رخسار کا مضمون جو ایجان جہاں باندھا
سرد مثل جادۂ ہے پامال تیری چال کا
تونے شہباز نگہ کو جوا دھر چھوڑ دیا
ماجرا ہر بحر میں ہے چشم دریا بار کا
خضر کو اس نے پامردیکے آگے لنگ ٹھہرایا
پڑا عکس بجو میں خنجر ابروے قاتل کا
ضعف ہے راہ طلب میں جب سے دامنگیر پا
پیشتر سر سے یہاں ہوتی ہیں سامان پیدا
میں اگر زینت فتراک کے قابل ہوتا
دم ہے بند آگے ترے تیغ صفا ہانی کا
ساتھ اپنے جو مجھے یار نے سونے ندیا
جو دل ہے ٹوٹ گیا کیا ہو شعر تر پیدا
ہے مری مستی کو عشق کو ثر ثراب
گر ترے دست حنائی دیکھ پائی عندلیب
اس چمن میں ہیں بے شمار درخت
زلفیں شاخیں ہیں قد یار درخت
اس گل کے کان کو نہیں زیور کی احتیاج
ردیف جیم تازی
ہے ناز کی سے قامت جاناں سمن کی شاخ
ردیف خاے معجمہ
یار آیا تو ہوے دیدۂ ناکام سفید
ردیف دال مہملہ
ردیف راے مہملہ
رکھو سودا خط رخ رشک قمر سے دور
یہ نور ہے روے مہ جبین کا کہ ہو خجل چاند چوھویں کا
گنتا ہوں سر کو بوجھ میں ناکام دوش پر
پاسپان حسن ہے خال اس رخ پر نور پر
بد نما کپڑے ہیں مجھے وحشی کے جسم زار پر
عاشق ومعشوق سب مرتے ہیں میرے یار پر
اس قدر زیر فلک اے سرو گل اندام رقص
ردیف صاد مہملہ
ایسا پروانہ زمانے میں کبھی دیکھنا شمع
ردیف غین معجمہ
عریانی جنون میں مرے کام آئے داغ
بند آتا ہے نظر جاتے ہیں سو سو بار ہم
ماہ نو ہے مثل ابرولیکن اسکا رد نہیں
ہے عجب رنگ کی وحشت ترے دیوانے میں
واعظ نہ منع بادہ کشی کر خمار میں
بھرا رہتا ہے خون دل ہمیشہ دیدۂ تر میں
یان ازل سے داغ سودا ہے دل آگاہ میں
بیشتر نشۂ ایجاد سے بیہوش ہوں میں
دل بیتاب سے ہے پیچ وتاب اے جان گیسو میں
سو ہیں جو ہر ایک تیغ ابروے خمدار میں
دشت وحشت میں مجھے فکر تن عریاں نہیں
پھونچا سنان پر اسکی ابھی میرا سر کہاں
ہو جو تیرا روے رنگین پر تو افگن آب میں
سر بکف پھرتا ہوں میں لیکن کوئی قاتل نہیں
عکس اسکی زلف کا نہیں جام شراب میں
مرگیا میں بیقراریسے اوسے کچھ غم نہیں
مٹگئے نقش حیات اور اسے تاثیر نہیں
اس ابر میں یار سے جدا ہوں
یوں مری آنکھیں عیاں ہیں اشک کے سیلاں میں
تلخ باتیں آپکی شریں سخن سے کم نہیں
دل اسکو دیا ہمنے تقصیر اسے کہتے ہیں
تیر رہا ہے کھڑا وہ بت شنک آب میں
غم شپیر میں رو رو کے کروں تر دامن
روح کو آرام دم بھر باغ رضواں میں نہیں
جان ہم تجھپہ دیا کرتے ہیں
بستر خواب پہ تو یاد جو آیا مجکو
سرکشی اور ہواب کسکی گوارا مجکو
مزاوصال کا کیا گر فراق یار نہو
نہ جنون میں بھی رکھا نجت نے عریاں مجکو
نہیں آہن ربا کھینچو حو میں ہر ایک آہن کو
رسائی ہے متاع حسن تک کب دست دشمن کو
میں جو روؤں خرمن ماہ درخشان سبز ہو
حق نے پہلے یار سے پیدا کیا اغیار کو
مہر تابان جانتا ہے ہر بشر آئینے کو
غضب ہے سرو باندھا اس پریکے قد گلگوں کو
درازی یاد دلواتی ہے اوس زلف پریشانکو
کیا مرے آغوش سے وحشت سے ہے اس پیر کو
ردیف ہاے ہوز
ہیں اشک مری آنکھوں میں قلزم سے زیادہ
دیدۂ اعمیٰ ہوے روشن تری تنویر سے
ردیف یای تحتانی
اجل سر پر کھڑی ہے خواب غفلت میں زمانہ ہے
پنجۂ گلگوں چمن کو اب دکھایا یا چاہیے
ان لبونکی یاد میں داغ دل دیوانہ ہے
آتش عشق وہ ہے جس میں سمندر جل جاے
طور سے بھی اپنے داد یمین زیادہ نور ہے
جیمیں ہے خار بیاباں جائے آختر دیکھئے
نہیں پہونچتے جو نالے بھی ہمصفیر دن کے
آتے آتے کیوں نہ اولٹے پانوں بھاگے دور سے
ابھی ہم قید ہیں گو روح چھوٹی مجس تن سے
شبیہ قامت موزون مرا ہر ایک مصرع ہے
فکر سے میں نہیں خالی غم جاناں میں کبھی
دہر میں غرق گنہ کون مرا ثانی ہے
گو مرا تابوت یارونکا وبال دوش ہے
باد کے مانند ساقی لے اوڑا پانی مجھے
جب تلک گردش ہے اسکو اک جہاں گردشمیں ہے
نعزش اس وادی میں پاے خضر کو ہرکام ہے
کچھ عدم کا بھی خیال ایدل تجھے یاں چاہیے
روز مرگ آرزو ہے تابکے غم کیجیے
عشق بلبل ہے جہاں یہ خارواں در کار ہے
نہ چھٹے بعد فنا کوچۂ جاناں ہم سے
کیوں ہوگیا دو چار میں اس شہسوار سے
شعر لکھنے میں جو یاد اسکا خرام ناز ہے
کر گیا ہے مرے آغوش کو جاناں خالی
مائل سو سجود یہ تیرے حضور ہے
مشتاق سب ہیں بدر سے افزوں ہلال کے
بجا ہے گروصال اغیار کو ہے مجکو، ہجران ہے
ایسے ہم آماجگاہ تیر مژگان ہوگئے
بے ستون پر جاکے ٹکر کیوں نہ لیں فزہادسے
فراق میں ہے دم تیغ موج آب مجھے
چشم جاناں اور ہے چشم غزالاں اور ہے
مری محمل نشیں کے آگے لیلی کا جو مفتون ہے
گلشن عالم میں کیا دست جنوں چالاک ہے
جو غزل ہے اسمیں مضمون دل مایوس ہے
فرقت ہوئی جو صبحکو اک رشک ماہ سے
مجکو فرقت کی اسیری سے رہائی ہوتی
کیا سیاہی اور سرخی لالہ وار آنکھوں میں ہے
سودا ہے ہے مجکو عششق خط سبز رنگ سے
دیوان ناسخ
خوب موزوں ہمسے وصف قد بالا ہوگیا
سرد عاشق ہوگیا اس غیرت شمشاد کا
ذرّوں کو تیری نور نے اختر بنا دیا
خیال میں بھی اگر خواب سے دو چار ہوا
ہے تصوّر مجھے ہر دم تری یکتائی کا
کوئی اورڑتا کسی طائر کا اگر پرپایا
جب مرے دل کو اضطراب ہوا
اپنے نالوں کا ابھی ظاہر اثر ہو جائیگا
مظہر وہ بت ہے نور خدا کے ظہور کا
گل کو جب دیکھا وہ گلگوں پیر ہن یاد آگیا
وصل کے ایام میں وہ شور قلقل ہوگیا
اس ادا سے چلے جو یار اپنا
دیجیے اوترا پیرہن اپنا
محو خط عارض محبوب سب کا
ہوگیا اندھیر جب پنہاں وہ مہ رو ہوگیا
موج زن ایسے ہیں یان دیدۂ تر میں دریا
ذکر کیا اس سہ کے آگے زہرۂ بر جیس کا
جب میاں یار کا مضمون رقم ہو جائیگا
ہر پھول تیرے رشک سے جب آب ہوگیا
ہے کیا ہی اثر خوبی ابرو کی بیان کا
ثناے ابرو خمدار ہے بیان اپنا
کہا وطن سے ہوں میں خانماں خراب جدا
رہا ہوں تجسے میں ایماہ ایکسال جدا
اوڑا کے ساتھ یہ مشت غبار لیتا جا
وہ روے کتابی تو ہے قرآن ہمارا
دیدۂ دل جب سے اوفرہادیک بین ہوگیا
ہے مکان گور تنگ سونے کا
جب سے شغل خون نشانی ہوگیا
تو جو آیا باغ وقف پائمالی ہوگیا
گل ہے کیا مجروح ہے تیغ نگاہ یار کا
تیرے پر تونے کیا گنگا کو دریا نور کا
وحشیوں کو کیا ہے مجھ وحشی سے یار انہوا
تیری زلفوں کا زمانہ مبتلا ہو جائے گا
گیا گذراسکے وہاں تنگ سے ہو بات کا
تو جو دم پھر تہ مری پاس ہوا
آج مولد ہے جناب احمد مختار کا
ناخن فکر سے نادان نودل ریش ہے کیا
مولد ہے آج اس شہ عالیجناب کا
آج دنیا میں امام انس وجان پیدا ہوا
ہو مبارک قائم آل عیا پیدا ہوئے
داعظا حبّ ذہب تیرا جو مذہب ہوگیا
گھر مرا فرقت میں سونا ہوگیا
جوانی آگئی خط بھی ہوا رخسار پر پیدا
صبح فرقت نے دکھایا روپ سارا شام کا
عالم بالا بھی تجھپر مبتلا ہو جائے گا
ملکے مبتی رتبہ دانتوں کا بہت کم کر دیا
رات آئی تری فرقت میں جو اے یار گھٹا
ساقیا دے مجھے شتاب شراب
ردیف باے موحدہ
بتادے خلد میں ہے یا سفر میں جوے شراب
جلوۂ رخسار جانا نسے نکل آتی ہے دھوپ
ردیف تاے فوقانی
غمخانہ تری یاد میں ہے سیم بر بہشت
ردیف ثاے مثلثہ
ہے جدائی دشمن جان الغیاث
سانپ لہراتے ہیں فرقتمیں نہیں آثار موج
کرتا نہیں مرے دل افگار کا علاج
ردیف جیم عربی
ہے نگاہ وآبرد دمژگان وچشم یار کج
ترے گالونپہ واری چاند سورج
کرنا کہیں نہ ساتھ رقیبوں کے جان کوچ
مشک نے آئی ہے شاید بیچگر کا فور صبح
آمجھ سے ہو ہمکنار قاصد
ردیف دال مہملہ
آیا نہیں پھر کے آہ قاصد
مثل نسرین بدن یار ہے جزخال سفید
ہوے رونیسے میرے دیدۂ بیدار سفید
تمھارے چہریکے آگے ہے آفتاب سفید
زیست بھر ہوگی نہ یان چشم خیال یار بند
میرے ہاتھوں سے گریبان کے کئی تار پسند
قدر اپنی تیری مدح سے ہے جان جان بلند
پہنے وہ صنم جو پیرہن زرد
پیریمین ہوئے نالۂ گرم اپنے دلاسرد
ردیف ذال معجمہ
قابل نامۂ محبوب کہاں یان کاغذ
اے دل اگر آئے قاصد یار
ہے کیا ہے بوسۂ لب شیریں دہان لذیذ
ردیف راے مہملہ
آئے یارب جلد در پر نامۂ پر
میں ہے مرتا نہیں کچھ اس بت لاثانی پر
کیا شب فرقت میں صدمے ہیں دل بیتاب پر
خاموش ایک دم نہیں رہتا دہان گور
سرہے بار اے محتسب مینا دوش پر
توہی وہ گل ہے کہ تجھپر ہے فدا جان بہار
بیہوش ہوسن لے جو مرے یار کی آواز
مردونکو جلاتی ہے تری ناز کی آواز
ردیف زای معجمہ
ڈر دلا گوکہ نہیں کا کل دلدار دراز
ردیف شین معجمہ
زنہار ہو جیو نہ دلا مبتلاے حرص
ردیف صاد مہملہ
سازو مطرب تری آواز سے ہیں کیا خاموش
دست خالی ہے ملا ہے ہمیں ساغر کی عوض
ردیف طاے مہملہ
وردہے مجکو ترا اے یار خط
لکھ چکا ہے وہ ستم ایجاد خط
ایک شب جو تیری محفل میں نہ پائی بار شمع
ردیف عین مہملہ
اب کی ہولی میں رہا بیکار رنگ
کل تک وہ ہمکنار تھے مجسے کنار گنگ
ادھر آئی اودھر گئی شب وصل
ردیف میم
گل کردیا جو اس گل ترنے چراغ گل
واعظا مسجد سے اب جاتی ہیں میخانیکو ہم
ردیف نون
اس دہن کے وصف میں تقریر کیحاجت نہیں!
پاس وہ طفل نے سوار نہیں
جو ترے عشق میں ہلاک نہیں
کچھ تری بات کو ثبات نہیں
اس عزیز القدر کی دیکھی ہے صورت خوبمیں
ہے یہ بیجا جو اسے سروبشر کہتے ہیں
گس گل کا منھ چمن میں ترے آگے فق نہیں
کیا غرض غیر سے جب یار سے کچھ کام نہیں
غم نہیں ہے فلک جو تاج نہیں
آواز ہے مانند مزا میر گلے میں
کاٹے کھاتا ہے گھر جدائی میں
سراپا ہے وہ شیریں کا کلام شیریں
قاصدا جھوٹ کہا گھر میں وہ مغرور نہیں
پاس جسدنسے دلا وہ ستم ایجاد نہیں
دل مرا فرقت محبوب میں بیتاب نہیں
بہار آئی بھروں اب شراب شیشے میں
مجکو اب ساقی گا غام سے کچھ کام نہیں
آج پیش نظر وہ حور نہیں
ملا عکس شفق کو رتبۂ اکسیر پانی میں
نہیں یہ وائرہ گر داب کا تحریر پانی میں
ہے یوہیں تدبیر نادان عالم اسباب میں
عشق کو کسکے دلسے لاگ نہیں
خود نجووجی مرا اداس نہیں
جب کبھی پہنا جڑاؤ اس نے زیور کان میں
آتش افشاں گھر میں اس محبوب کے رخسار ہیں
خون فشاں چھاے ہیں مثل چشم گریان پایونمیں
عشق پہچان اے پری لٹپا ہے پائے سرد سے
کون زندہ ہے جو اس چشم کا بیمار نہیں
اے سحراب اپنی نورانی دکھا صورت ہمیں
ردّی تابندہ پرا اب زلف سیہ قام نہیں
ہو بیزار مجسے ہوا زار میں ہوں
ہیں یاد وہ بے مثال آنکھیں
تو وہ باطن ہے کہ جلباب ہیں تجھپر لاکھوں
خاک ہے اوسخت جان اکدن نراتن خاکمیں
حاسد کو ایکدم نہیں صیحت جہان میں
ہو کسی کو مجسے کینہ پر مجھے کینہ نہیں
نہیں عکس آئینہ میں ہے مقرر آگ پانمیں
پری جہاں میں نہ جنت میں جورعین دیکھو
ردیف واو
یاد ہیں سب گلغدار لکھنؤ
ہم صفیر اپنا وطن ہے لکھنؤ
خط شبرنگ یہ گا لونپہ نہیں دھیان کرو
بزم میں پاتا نہیں میں ساقی گلفام کو
چڑھ گئے جو میری نالونسے شرار رات کو
چوٹ دل کو جو لگے آہ رسا پیدا ہو
دور کر پر دہ دکھا دے روے عالمتاب کو
تاب کیا دیکھوں جو اوسکے روے آتشناک کو
کسقدر نفرت ہے اسکے تو سن چالاک کو
اے پری مکھڑا ملا ہے پیارا چاند کو
واہ ہیں کیا ہے ترے ابروے خمار سیاہ
ہے گل رخسار جاناں نرگس جادو سیاہ
گھر میں جاسکتے نہیں سوئے کہاں یار کے ساتھ
کیونکر اس بت سے ہو ہم سنگ آئینہ
آجتک شوق اسیری ہے مجھ آزاد کے ساتھ
صاف ہے دیوانۂ گیسوے خمدار آئینہ
طرب فزا ہو صدوبست سال سالگرہ
ہوگیا ہجر میں جہاں سیاہ
تابہ کے ہجر میں ناموں کے یہ تحریر رہے
جیب میں چاک دریار نظر آتا ہے
آسمان حسن وہ مہ پارہ ہے
چھوڑ کر ہمکو جو اپنے گھر کے وہ اندر پے
نہوئی دیدۂ تر اشکوں سے اک پل خالی
ہے بے صفا جو کوئی گرفتار رنگ ہے
دیکھنا تاثیر میرے نالۂ جانکاہ کی
موت کی بھی راہ میں کیا پھیر ہے
مثل جنت دور میرا باغ ہے
یاں ےہنسی لب ہے دلمیں درد ہے
جسنے آنکھ آپ سے لڑائی ہے
کس کو فرقت میں خواہش مل ہے
غم نہیں گر روسیاہی ہو خدا کے سامنے
وہ مجنوں ہوں کہ ہر عالم میں لیلی میری شامل ہے
دوست جیسے اک برہمن زادہ ہے
دیر کس کا کعبۂ مقصود ہے
آج میخوار و فراق ساقی گلفام ہے
کمال آپکے جلوہ سے بام روشن ہے
خط کے لانے میں اگر پیک صبا نے دیر کی
سیر گلشن کو اگر وہ بت پر نور چلے
ایک خلقت ہے اسیر ایجان تیری چال کی
ماہ ہے پرداغ کیا نسبت ہے اسکے گال سے
وصل جانان سے جو مجکو یاس ہے
کوئی جانان پائے گل تو گلشن چھوڑ دے
آگئی موت شب ہجر میں ہییات مجھے
جنوں پسند مجھے چھانوں ہے ببولونکی
باغ ہستی میں ہمیں بس نخل ماتم چاہئیے
پہنے ہے سلسلۂ جذبۂ مجنون لیلی
طمع نہیں مجھے ہر گز کہ سیم دزریلجائے
ملگیا ہے جب شب تیرہ میں عریاں تو مجھے
موت ہے نزدیک مجسے کوئی قاتل دور ہے
دل اک بت پہ شیدا ہوا چاہتا ہے
کبھی ملا نہ وہ محبوب شہسوار مجھے
کسطرح پانوں خبر میں کوئی جاناں دور ہے
اوبھار امسال دل پژمردہ ہے
کون اے بت ہے توخدا جانے
آج سے وحشت فزوں ہر روز ہے
تم ہو مری طرف سے مقرر بھرے ہوے
جوش وحشت کا دلا چالاک گھوڑا چاہیے
جوش رقت کی سبب محروم ہوں دیدار سے
پھر بہار آئی ہے ساقی گل ہیں خندان جام سے
وہ کہہ گئے تھے کہ آئیں گے ہم چراغ چلے
دل سے اب وحشت کو رخصت سوے ہامان کیجئے
جسم اپنا خشک فرقت میں سرا سر کیجئے
حکم شافی سے دوا آب بقا ہو جاوے
آتی جاتی ہے جابجا بدلی
کمر تیری گم ہے مجھے جستجو ہے
یار کی شیریں ادانے کا جہاں میں شور ہے
دیکھنا شعلے ہمارے نالۂ شبگیر کے
قاصدا کہہ دیجو اتنا ہے اس گمراہ سے
پر تو افگن جو تری زلف معنبر ہو جائے
ممکن نہیں صیام میں اک بوند آب کی
آئی برسات اب ہے آمد ساقی گلفام کی
گم ہوا میں جب سے تیرا رو نظر آیا مجھے
پانوں تیرا پھر گیا بے پیر میری خاک سے
آب ہیں دوست تو دشمن کیا ہے
ہوں وہ سوز ان شعلہ بھاگی دور میرنحاک سے
یوتہیں صورت ہوئی تھی ہجر میں تغیر مجنونکی
نظر آئی صریح تربت شپیر لوہے کی
جو پہنے تونے زنجیراے بت بے پیر چاند یکی
آج کیا انداز بسمل اضطراب دل میں ہے
سب زمنین ہیں نئی بنتیں ہیں اے یار نئی
تو چاند ہے سایہ چاندنی ہے
نہ تری گات بری ہے نہ تری بات بری
ہیں حسین اور بھی پر تجھمیں ہے ہر بات نئی
ہے شب وصل جو اے ماہ جبیں تھـوڑیسی
وقار محسن التدولہ بہادر
رفت واویلا ازیں دار فنا
ازوفات جناب شاہ زمن
ان سالک منزل حقیقت
ناظم اقلیم دین وشرع بود
ہادے راہ یقین حیف امروز
جناب میرزا کاظم علیخان
شود سعد عقد نکاح سعید
ساقیا بادہ کشم وجدکنان
علامۂ عصر زین جہان رفت
خدیو عصر محمد علی شہ والا
جناب محمد علی بادشاہ
این سبیل شاہ شابانست وآب آبحیات
جناب محمد علی بادشاہ
خسرو ہند ابوالفتح میں التدین ست
حضرت بادشاہ شاہنشاہ
ظلّ سبحان غیرت نوشیروان
بہ شہنشاہ زمان تاجور کشور ہند
عید اضحے بہ شہنشاہ مبارک باشد
عرش برین سے بھی کہیں اعلیٰ مقام ہے
افسوس کہ نواب یمین الدّولہ
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.