سرورق
خوب موزوں ہم سے وصف قد بالا ہو گیا
سرو عاشق ہو گیا اس غیرت شمشاد کا
ذروں کو تیری نور نے اختربنا دیا
چمن میں کوئی گل تر جو شاخ پر دیکھا
کارواں باد بہاری کارواں ہو جائیگا
جب مرے دل کو اضطراب ہوا
یار کی شمشیر ابرو اسقدر ہے آبدار
معنی شعلۂ آواز میں شک ہو جس کو
اپنی نالوں کا ابھی ظاہر اثر ہو جائے گا
گھر مرا ایک جنوں تو نے جو برباد کیا
ایسا کوئی گمنام زمانے میں نہ ہوگا
فصل گل میں کیا مزاج اپنا بھی برہم ہو گیا
اس ادا سے چلے جو یار اپنا
مے سے روشن رہے ایاغ اپنا
بعد مدت جنوں قاصد محبوب آیا
اے ہمسفر نہ پوچھ عبث ہی کہاں سرا
کیا مرے رونے سے اک یار کا چہرا اترا
جوش ہے کیا تیری آتی ہے شراب ناب کا
وحشت میں پھر ہے دشت نوردی کا اشتیاق
میری رونے کے سبب سے قد جاناں بڑھ گیا
وقت رخصت ہو گئی جو میری آنسو سد راہ
گل کو جب دیکھا تری تصویر کا دھوکا ہوا
پر تو فگن جو وہ بت پر نور ہو گیا
دم بلبل اسیر کا تن سے نکل گیا
پھیر دے گا دن ہماری جب مقلب دہر کا
ہجر میں یوں مری آنکھوں سے ہوا خوں پیدا
ڈائقہ شیرۂ جان سے ہے سوا بوسہ کا
رواں کیا ہے اگر تم نے کشتی مے کو
جوش سودا ہے سواد شب ہجراں اپنا
نہیں ہے غم جو بدن سے ہو سر جدا ساقی
دل میں کچھ قائل ہوا تقدیر کی نیرنگ کا
لکھوں کیا حال میں دیوانہ اپنی ناتوانی کا
منقلب اکثر دلا یہ کارخانہ ہو گیا
پیک فرخندہ فال آپہنچا
تو جو آیا باغ وقف پایمالی ہو گیا
زار اپنی جسم کوکمر یار نے کیا
تونے ظالم دل روشن جو ہمارا توڑا
وحشیوں کو کیا ہے مجھ وحشی سے یارا نہ ہوا
تیری گیسو میں نے دیکھی جوش سودا ہوگیا
کیا گزر اسکی دہاں تنگ سے ہوباتکا
گھر اپنا حادثوں سے جو بردا ہو گیا
آج مولد ہی جناب احمد مختار کا
مولد ہے آج اس ستہ عالی جناب گا
آج مولد ہے جناب حیدر کرار کا
ہو مبارک قائم آل عبا پیدا ہوا
واعظا جب ذہب تیرا جو مہذب ہو گیا
گھر مرا فرقت میں سونا ہو گیا
جوانی آگئی خط بھی ہوا رخسار پر پیدا
زاہدا حاجت روا ہو جا کسی محتاج کا
عالم بالا بھی تجھ پر مبتلا ہو جائے گا
ملکے مسی رتبہ دانتوں کابہت کم کردیا
رات آئی تری فرقت میں جو اے یار گھٹا
رفتار میں اورنگ سلیمان ہے یہ گھوڑا
مقابل آپ کی آنکھوں کی آہو ہو نہیں سکتا
ساقیا دے مجھے شتاب شراب
ردیف باے موحدہ
بتا دی خلد میں ہے یاسقر میں جوے شراب
مرچلا ہوں جلد ساقی سے کہو لائے شراب
مجھ سے اب صاف بھی ہو جایو ہیں یار آپ سے آپ
ردیف باے فاسی
غمخانہ تیری یاد میں ہے سیم بر بہشت
ردیف تاء فوقانی
ملتا ہی نہیں ہجر کا دن کیا ہے اڑی دھوپ
کس قدر صاف ہے تمہار پیٹ
ردیف جیم عربی
کرتا نہیں مرے دل افگار کا علاج
وہ نہیں پیش نظر ہیں دیدۂ بینا عبث
ہے نگاہ اوابرد ومژگان وچشم یار کج
جز قتل کیا ہے عشق کی بیمار کا علاج
تری گالوں پہ داری چاند سورج
دور اتنا آپ کو مجھ سے نہ اے خونخوار کھینچ
آج جو اتنی شب فرقت میں ہے تاخیر صبح
ردیف حاے حطی
کہاں وہ دست حنائی کہاں خپار کی شاخ
ہے جدائی میں مئے گلفام تلخ
منہ مرا غم سے یہ ہی اے بت بے پیر سفید
ہے مثل یاسمین بدن نازنیں سفید
گوری بدن پہ اسکی نہیں پیرہن سفید
خوش نگاہوں کی ہے تجھ پر نرگس جادوسفید
میرے ہاتھوں نے گریباں کی کئی تار پسند
کیوں نہ مژگاں سے رہیں ابروے خمدار بلند
ہوا ہوں کر سکے کیا مشت خس بند
گور آتی ہے نظر جب مجھ کو گھر آتا ہے یاد
مسی سے ہو رہا ہے جو اسکا دہن کبود
ہاے لایا نہ کوئی قاصد دلبر کاغذ
رکھے ہے کیا ہی ناز سے شمشیر دوش پر
آہ شب کا تو اثر الٹا ہی اس خورشید پر
پھر بہار آئی نکلئے گھر سے دامن جھاڑ کر
ششدر سا رہ کیا ہوں دریار دیکھ کر
چشم عاشق میں برابر ہے دلاگہر باہر
دل سے وہ محبوب سیم اندام ہے شیداے زر
فصل گل میں ہے غنا مرغ سحر کے آواز
مجھے پسند ہے محبو سیم بر کا ناز
ابروے یار سے یوں کرتی ہے تلوار گریز
اس پری رو کا محرم میں نہیں ملبوس سبز
یاد آئی جو مجھے تیری کمر کے بندش
مثل غنچہ جو خفا ہو کی تو ہوگا خاموش
ردیف ضاد معجمہ
ہے فصل گل سے کام نہ گلزار سے غرض
آگ کی تاب مستاں میں نزاکت سے کہاں
خود بخود مانند طائر اڑ چلا
تاکجا فرقت میں کہیے ہاے خط
موسم گل میں ہوا سوداے داغ
ردیف غین معجمہ
ردیف قاف
طور وموسی ذرۂ صحراے عشق
چل جنوں وادی وحشت کی طرف
دیکھا تری فرس کا جو اے شہسوار رنگ
کل تک وہ ہمکنار تھے مجھ سے کنار گنگ
جاے گلشن کو جو تو عاشق ترا ہو جائے گل
ردیف لام
فصل گل آئی ہوا پھر جوش پر سوداے دل
ردیف میم
واعظا مسجد سے اب جاتے ہیں میخانہ کو ہم
ردیف نون
اس دہن کی وصف میں تقریر کی حاجت نہیں
پاس وہ طفل نے سوار نہیں
کچھ ترے بات کو ثبات نہیں
تیغ قاتل نے علم کی گال اسنے چھو لئے
اس عزیز القدر کی دیکھی ہے صورت خواب میں
آواز یہ ہوتی نہیں زنہار گلے میں
ہجر میں نالۂ جاں کا وہ ہے آہنگ نہیں
ہے یہ بیجا جو اسے سروبشر کہتے ہیں
کس گل کا منہ چمن سے ترے آگے فق نہیں
کیا غرض غیر سے جب یار سے کچھ کام نہیں
غم نہیں اے فلک جو تاج نہیں
آواز ہی مانند مزا میر گلے میں
کاٹے کھاتا ہے گھر جدائی میں
دخل یاں جز عکس سلطان عکس لشکر کا نہیں
سراپا ہے وہ شیریں کام شیریں
قاصد اجھوٹ کہا گھر میں وہ مغرو نہیں
پاس جس دن سے دلا وہ ستم ایجا نہیں
دل مرا فرقت محبوب میں بیتاب نہیں
بہار آئی بھروں اب شراب شیشہ میں
مے کی کس دم مجھے تلاش نہیں
آج پیش نظر حضور نہیں
لوگ دنیا سے جو دن رات سفر کرتے ہیں
ملا کس شفق کو رتبۂ اکسیر پانی میں
سب کے سب کیا ہیں شب قدر ہمارے راتیں
عشق کو کسکی دل سے لاگ نہیں
کیا چمکتی ہیں پری رو تیری گوہر کان میں
کیا زندگی کہ تجھ سے ہوں مربوط تاابد
دیکھ پائے گوری گوری جو تمہارے ہاتھ پاؤں
خوں فشاں چھالے ہیں مثل چشم گریاں پاوں میں
کون زندہ ہے جو اس چشم کا بیمار نہیں
بنتی ہیں چاندی کی چھلی حلقۂ زرہاتھ میں
خط کیا کہ خال بھی رخ محبوب پر نہیں
پس ازفنا بھی کسی طور سے قرار نہیں
زانو کے طرح صاف ہیں اس حورکی ساقیں
غم سے دل پر خون ہے قطرہ دیدۂ تر میں نہیں
بھولے اللہ کو تقصیر اسے کہتے ہیں
کشتی مے آج سرعت سے ہوا میں کم نہیں
تلخ باتیں آپکی شیریں سخن سے کم نہیں
دل تو کیا کرتی ہیں اشک اپنی اثر پتھر میں
ہے ہجر میں ماہ روے دشمن
تشبیہ دی ہلال سے ابروے یار کو
ردیف الواو
مرے دم سے تھا بوستان لکھنو
مجھ کو عریانی میں ہو کیا پیرہن کی آرزو
خود ہنستی ہو اغیار سے ہنسواتی ہو مجھ کو
بیاں کیا ہو جو ہے جسم دلربا کی بو
کہہ رہا ہے جرس قلب بآواز بلند
مانگتے ہو جب نہ تب میری دل بیتاب کو
تیرے جلوے سے جو یوں ہر سیمبر بیتاب ہو
چنپا کی پھول میں ہے نہ گل کی کلی کی میں بو
تونے مہجور کر دیا ہم کو
ردیف الہاء
واہ ہیں کیا ہی تیر ابرو خمدار سیاہ
کردیے خط نے تری عارض پر نور سیاہ
اپنی تری موتی کی لڑی سےجو لڑی آنکھ
اے گل جو تونے پان چنا کر دکھائے ہونٹ
آج تک شوق اسیری ہے مجھ آزاد کے ساتھ
صاف ہے دیوانۂ گیسوے خمدار آئینہ
عشق بد ہے اے دل ناداں سمجھ
ہو گیا ہجر میں جہاں سیاہ
بجاے داغ ملے دیدۂ غزال مجھے
ریف یاء تحتانی
تابہ کی ہجر میں ناموں کی یہ تحریر رہے
جیب میں چاک دریار نظر آتا ہے
آسمان حسن وہ مہ پارہ ہے
ناتواں اے سرد ہوں کیا بار آہن چاہیے
چھوڑ کر ہم کو جو اپنے گھر کے وہ اندر چلی
نہ ہوے دیدۂ اشکوں سے اک پال خالے
کس طرح نالوں سے ہو مثل جرس دل خالے
دیکھنا تاثیر میری نالۂ جانکاہ کے
ہے بے صفا جو کوئی گر فتار رنگ ہے
موت کی بھی راہ میں کیا پھیر ہے
مثل جنت دور میرا باغ ہے
جس نے آنکھ آپ سے لڑائے ہے
یاں ہنسی لب پر ہے دل میں در وہی
کس کو فرقت میں خواہش مل ہے
غم نہیں گر روسیا ہے ہو خدا کے سامنے
خود فروشی کی لیے آپ جو بازار چلے
وہ مجنوں ہوں کہ ہر عالم میں لیلی میری شامل ہے
دوست جب سے اک برہمن زاد ہ ہے
کون سی نکلی ہوس میرے دل مایوس کی
دیر کس کا کعبۂ مقصود ہے
ان دنوں اپنے جنوں کا زور ہے
آج مے خوارو فراق ساقی گلفام ہے
خط کے لانے میں اگر پیک صبانے دیر کی
ایک خلقت ہے اسیر جان تیرے چال کی
وصل جاناں سے جو مجھ کو یاس ہے
ماہ ہے پر داغ کیا نسبت ہے اسکی گا ل سے
آگئی موت شب ہجر میں ہیہات مجھے
کوے جاناں دیکھ پائے گل تو گلشن چھوڑ دے
جنوں پسند مجھے چھاؤں ہے ہوبونکی
پہنے ہے سلسلۂ جذبۂ مجنون لیلے
طمع نہیں مجھے ہر گز کہ سیم وزر مل جاے
پر ہیں شیشے تو جام خالی ہے
موت ہے نزدیک مجھ سے کوے قاتل دور ہے
آب مے سے وہ گل تر تازہ ہے
وہ ہے پاس جس کو دلا چاہتا ہے
مے ٔ عشرت سے کوئی جام جو بھر لیتا ہے
دے لے کسی کو قابو جو انسان کا چلے
رہے اے جان ہاتھ بھر بدلے
جوے مے ہے رات دن جاری کنارے رند کے
ہم سفر وہ ہے جس پہ جی غش ہے
آج سے وحشت فزوں ہر روز ہے
یہ ضعف ہے کہ دب مروں کہسار کے تلے
ایسے مرے مژہ کے بادل بھرے ہوئے
دل ہو پر خون نہ مگر شیشہ ہو دم بھر خالے
رو رو کے داغ گنتی ہیں ہم ہجر یار کے
داغ لے جاتا ہوں تیرے لالۂ رخسار سے
روئے ناصح اپنی منہ پررکھ کے داماں تو سہی
دل بر میں ہے جسم میں نہ جی ہے
دھوپ بہتر پر شب فرقت کی بدتر چاند نے
میخانہ ہجر یار میں مجھ کو جسیم ہے
حسن کا اب جاے یا عالم رہے
شب وصل میں ہے ہاتھ سے تلوار نہ چھوئے
قہر ہے اسکو شراب ارغوانی چاہیے
فرقت ساقی میں کیا مینا وساغر توڑیے
یہ خجل ہوگل خورشید کہ شبنم ہو جاے
قاصدا کہہ دیجیو اتنا ہی اس گمراہ سے
نیمچے ہیں شعر وصف ابروے خمدار کے
پر تو افگن جو تری زلف معنبر ہو جاے
آئی برسات اب ہے آمد ساقی گلفام کی
گم ہوا میں جب سے تیرا رو نظر آیا مجھے
ساتھ میری آہ کی زنجیر نے آواز کی
ضعف سے ناسخ مہجور کہاں اٹھتا ہے
ہوں وہ سوزاں شعلہ بھاگے دور میری خاک سے
آپ ہیں دوست تو دشمن کیا ہے
یو ہیں صورت ہوئی تھی ہجر میں تغییر مجنوں کے
نظر آئی ضریح تربت شبیر لوہے کے
جو پہنی تونے زنجیر اے بت بے پیر چاندی کے
آج کچھ انداز بسمل اضطراب دل میں ہے
سب زمینیں ہیں نئی تیین ہیں اے یار نئی
تو چاند ہے سایہ چاند نے ہی
کیا کریں باغ سے آئے جو ہوا کے جھونکے
رباعیات
قطعہ تاریخ
سرورق
خوب موزوں ہم سے وصف قد بالا ہو گیا
سرو عاشق ہو گیا اس غیرت شمشاد کا
ذروں کو تیری نور نے اختربنا دیا
چمن میں کوئی گل تر جو شاخ پر دیکھا
کارواں باد بہاری کارواں ہو جائیگا
جب مرے دل کو اضطراب ہوا
یار کی شمشیر ابرو اسقدر ہے آبدار
معنی شعلۂ آواز میں شک ہو جس کو
اپنی نالوں کا ابھی ظاہر اثر ہو جائے گا
گھر مرا ایک جنوں تو نے جو برباد کیا
ایسا کوئی گمنام زمانے میں نہ ہوگا
فصل گل میں کیا مزاج اپنا بھی برہم ہو گیا
اس ادا سے چلے جو یار اپنا
مے سے روشن رہے ایاغ اپنا
بعد مدت جنوں قاصد محبوب آیا
اے ہمسفر نہ پوچھ عبث ہی کہاں سرا
کیا مرے رونے سے اک یار کا چہرا اترا
جوش ہے کیا تیری آتی ہے شراب ناب کا
وحشت میں پھر ہے دشت نوردی کا اشتیاق
میری رونے کے سبب سے قد جاناں بڑھ گیا
وقت رخصت ہو گئی جو میری آنسو سد راہ
گل کو جب دیکھا تری تصویر کا دھوکا ہوا
پر تو فگن جو وہ بت پر نور ہو گیا
دم بلبل اسیر کا تن سے نکل گیا
پھیر دے گا دن ہماری جب مقلب دہر کا
ہجر میں یوں مری آنکھوں سے ہوا خوں پیدا
ڈائقہ شیرۂ جان سے ہے سوا بوسہ کا
رواں کیا ہے اگر تم نے کشتی مے کو
جوش سودا ہے سواد شب ہجراں اپنا
نہیں ہے غم جو بدن سے ہو سر جدا ساقی
دل میں کچھ قائل ہوا تقدیر کی نیرنگ کا
لکھوں کیا حال میں دیوانہ اپنی ناتوانی کا
منقلب اکثر دلا یہ کارخانہ ہو گیا
پیک فرخندہ فال آپہنچا
تو جو آیا باغ وقف پایمالی ہو گیا
زار اپنی جسم کوکمر یار نے کیا
تونے ظالم دل روشن جو ہمارا توڑا
وحشیوں کو کیا ہے مجھ وحشی سے یارا نہ ہوا
تیری گیسو میں نے دیکھی جوش سودا ہوگیا
کیا گزر اسکی دہاں تنگ سے ہوباتکا
گھر اپنا حادثوں سے جو بردا ہو گیا
آج مولد ہی جناب احمد مختار کا
مولد ہے آج اس ستہ عالی جناب گا
آج مولد ہے جناب حیدر کرار کا
ہو مبارک قائم آل عبا پیدا ہوا
واعظا جب ذہب تیرا جو مہذب ہو گیا
گھر مرا فرقت میں سونا ہو گیا
جوانی آگئی خط بھی ہوا رخسار پر پیدا
زاہدا حاجت روا ہو جا کسی محتاج کا
عالم بالا بھی تجھ پر مبتلا ہو جائے گا
ملکے مسی رتبہ دانتوں کابہت کم کردیا
رات آئی تری فرقت میں جو اے یار گھٹا
رفتار میں اورنگ سلیمان ہے یہ گھوڑا
مقابل آپ کی آنکھوں کی آہو ہو نہیں سکتا
ساقیا دے مجھے شتاب شراب
ردیف باے موحدہ
بتا دی خلد میں ہے یاسقر میں جوے شراب
مرچلا ہوں جلد ساقی سے کہو لائے شراب
مجھ سے اب صاف بھی ہو جایو ہیں یار آپ سے آپ
ردیف باے فاسی
غمخانہ تیری یاد میں ہے سیم بر بہشت
ردیف تاء فوقانی
ملتا ہی نہیں ہجر کا دن کیا ہے اڑی دھوپ
کس قدر صاف ہے تمہار پیٹ
ردیف جیم عربی
کرتا نہیں مرے دل افگار کا علاج
وہ نہیں پیش نظر ہیں دیدۂ بینا عبث
ہے نگاہ اوابرد ومژگان وچشم یار کج
جز قتل کیا ہے عشق کی بیمار کا علاج
تری گالوں پہ داری چاند سورج
دور اتنا آپ کو مجھ سے نہ اے خونخوار کھینچ
آج جو اتنی شب فرقت میں ہے تاخیر صبح
ردیف حاے حطی
کہاں وہ دست حنائی کہاں خپار کی شاخ
ہے جدائی میں مئے گلفام تلخ
منہ مرا غم سے یہ ہی اے بت بے پیر سفید
ہے مثل یاسمین بدن نازنیں سفید
گوری بدن پہ اسکی نہیں پیرہن سفید
خوش نگاہوں کی ہے تجھ پر نرگس جادوسفید
میرے ہاتھوں نے گریباں کی کئی تار پسند
کیوں نہ مژگاں سے رہیں ابروے خمدار بلند
ہوا ہوں کر سکے کیا مشت خس بند
گور آتی ہے نظر جب مجھ کو گھر آتا ہے یاد
مسی سے ہو رہا ہے جو اسکا دہن کبود
ہاے لایا نہ کوئی قاصد دلبر کاغذ
رکھے ہے کیا ہی ناز سے شمشیر دوش پر
آہ شب کا تو اثر الٹا ہی اس خورشید پر
پھر بہار آئی نکلئے گھر سے دامن جھاڑ کر
ششدر سا رہ کیا ہوں دریار دیکھ کر
چشم عاشق میں برابر ہے دلاگہر باہر
دل سے وہ محبوب سیم اندام ہے شیداے زر
فصل گل میں ہے غنا مرغ سحر کے آواز
مجھے پسند ہے محبو سیم بر کا ناز
ابروے یار سے یوں کرتی ہے تلوار گریز
اس پری رو کا محرم میں نہیں ملبوس سبز
یاد آئی جو مجھے تیری کمر کے بندش
مثل غنچہ جو خفا ہو کی تو ہوگا خاموش
ردیف ضاد معجمہ
ہے فصل گل سے کام نہ گلزار سے غرض
آگ کی تاب مستاں میں نزاکت سے کہاں
خود بخود مانند طائر اڑ چلا
تاکجا فرقت میں کہیے ہاے خط
موسم گل میں ہوا سوداے داغ
ردیف غین معجمہ
ردیف قاف
طور وموسی ذرۂ صحراے عشق
چل جنوں وادی وحشت کی طرف
دیکھا تری فرس کا جو اے شہسوار رنگ
کل تک وہ ہمکنار تھے مجھ سے کنار گنگ
جاے گلشن کو جو تو عاشق ترا ہو جائے گل
ردیف لام
فصل گل آئی ہوا پھر جوش پر سوداے دل
ردیف میم
واعظا مسجد سے اب جاتے ہیں میخانہ کو ہم
ردیف نون
اس دہن کی وصف میں تقریر کی حاجت نہیں
پاس وہ طفل نے سوار نہیں
کچھ ترے بات کو ثبات نہیں
تیغ قاتل نے علم کی گال اسنے چھو لئے
اس عزیز القدر کی دیکھی ہے صورت خواب میں
آواز یہ ہوتی نہیں زنہار گلے میں
ہجر میں نالۂ جاں کا وہ ہے آہنگ نہیں
ہے یہ بیجا جو اسے سروبشر کہتے ہیں
کس گل کا منہ چمن سے ترے آگے فق نہیں
کیا غرض غیر سے جب یار سے کچھ کام نہیں
غم نہیں اے فلک جو تاج نہیں
آواز ہی مانند مزا میر گلے میں
کاٹے کھاتا ہے گھر جدائی میں
دخل یاں جز عکس سلطان عکس لشکر کا نہیں
سراپا ہے وہ شیریں کام شیریں
قاصد اجھوٹ کہا گھر میں وہ مغرو نہیں
پاس جس دن سے دلا وہ ستم ایجا نہیں
دل مرا فرقت محبوب میں بیتاب نہیں
بہار آئی بھروں اب شراب شیشہ میں
مے کی کس دم مجھے تلاش نہیں
آج پیش نظر حضور نہیں
لوگ دنیا سے جو دن رات سفر کرتے ہیں
ملا کس شفق کو رتبۂ اکسیر پانی میں
سب کے سب کیا ہیں شب قدر ہمارے راتیں
عشق کو کسکی دل سے لاگ نہیں
کیا چمکتی ہیں پری رو تیری گوہر کان میں
کیا زندگی کہ تجھ سے ہوں مربوط تاابد
دیکھ پائے گوری گوری جو تمہارے ہاتھ پاؤں
خوں فشاں چھالے ہیں مثل چشم گریاں پاوں میں
کون زندہ ہے جو اس چشم کا بیمار نہیں
بنتی ہیں چاندی کی چھلی حلقۂ زرہاتھ میں
خط کیا کہ خال بھی رخ محبوب پر نہیں
پس ازفنا بھی کسی طور سے قرار نہیں
زانو کے طرح صاف ہیں اس حورکی ساقیں
غم سے دل پر خون ہے قطرہ دیدۂ تر میں نہیں
بھولے اللہ کو تقصیر اسے کہتے ہیں
کشتی مے آج سرعت سے ہوا میں کم نہیں
تلخ باتیں آپکی شیریں سخن سے کم نہیں
دل تو کیا کرتی ہیں اشک اپنی اثر پتھر میں
ہے ہجر میں ماہ روے دشمن
تشبیہ دی ہلال سے ابروے یار کو
ردیف الواو
مرے دم سے تھا بوستان لکھنو
مجھ کو عریانی میں ہو کیا پیرہن کی آرزو
خود ہنستی ہو اغیار سے ہنسواتی ہو مجھ کو
بیاں کیا ہو جو ہے جسم دلربا کی بو
کہہ رہا ہے جرس قلب بآواز بلند
مانگتے ہو جب نہ تب میری دل بیتاب کو
تیرے جلوے سے جو یوں ہر سیمبر بیتاب ہو
چنپا کی پھول میں ہے نہ گل کی کلی کی میں بو
تونے مہجور کر دیا ہم کو
ردیف الہاء
واہ ہیں کیا ہی تیر ابرو خمدار سیاہ
کردیے خط نے تری عارض پر نور سیاہ
اپنی تری موتی کی لڑی سےجو لڑی آنکھ
اے گل جو تونے پان چنا کر دکھائے ہونٹ
آج تک شوق اسیری ہے مجھ آزاد کے ساتھ
صاف ہے دیوانۂ گیسوے خمدار آئینہ
عشق بد ہے اے دل ناداں سمجھ
ہو گیا ہجر میں جہاں سیاہ
بجاے داغ ملے دیدۂ غزال مجھے
ریف یاء تحتانی
تابہ کی ہجر میں ناموں کی یہ تحریر رہے
جیب میں چاک دریار نظر آتا ہے
آسمان حسن وہ مہ پارہ ہے
ناتواں اے سرد ہوں کیا بار آہن چاہیے
چھوڑ کر ہم کو جو اپنے گھر کے وہ اندر چلی
نہ ہوے دیدۂ اشکوں سے اک پال خالے
کس طرح نالوں سے ہو مثل جرس دل خالے
دیکھنا تاثیر میری نالۂ جانکاہ کے
ہے بے صفا جو کوئی گر فتار رنگ ہے
موت کی بھی راہ میں کیا پھیر ہے
مثل جنت دور میرا باغ ہے
جس نے آنکھ آپ سے لڑائے ہے
یاں ہنسی لب پر ہے دل میں در وہی
کس کو فرقت میں خواہش مل ہے
غم نہیں گر روسیا ہے ہو خدا کے سامنے
خود فروشی کی لیے آپ جو بازار چلے
وہ مجنوں ہوں کہ ہر عالم میں لیلی میری شامل ہے
دوست جب سے اک برہمن زاد ہ ہے
کون سی نکلی ہوس میرے دل مایوس کی
دیر کس کا کعبۂ مقصود ہے
ان دنوں اپنے جنوں کا زور ہے
آج مے خوارو فراق ساقی گلفام ہے
خط کے لانے میں اگر پیک صبانے دیر کی
ایک خلقت ہے اسیر جان تیرے چال کی
وصل جاناں سے جو مجھ کو یاس ہے
ماہ ہے پر داغ کیا نسبت ہے اسکی گا ل سے
آگئی موت شب ہجر میں ہیہات مجھے
کوے جاناں دیکھ پائے گل تو گلشن چھوڑ دے
جنوں پسند مجھے چھاؤں ہے ہوبونکی
پہنے ہے سلسلۂ جذبۂ مجنون لیلے
طمع نہیں مجھے ہر گز کہ سیم وزر مل جاے
پر ہیں شیشے تو جام خالی ہے
موت ہے نزدیک مجھ سے کوے قاتل دور ہے
آب مے سے وہ گل تر تازہ ہے
وہ ہے پاس جس کو دلا چاہتا ہے
مے ٔ عشرت سے کوئی جام جو بھر لیتا ہے
دے لے کسی کو قابو جو انسان کا چلے
رہے اے جان ہاتھ بھر بدلے
جوے مے ہے رات دن جاری کنارے رند کے
ہم سفر وہ ہے جس پہ جی غش ہے
آج سے وحشت فزوں ہر روز ہے
یہ ضعف ہے کہ دب مروں کہسار کے تلے
ایسے مرے مژہ کے بادل بھرے ہوئے
دل ہو پر خون نہ مگر شیشہ ہو دم بھر خالے
رو رو کے داغ گنتی ہیں ہم ہجر یار کے
داغ لے جاتا ہوں تیرے لالۂ رخسار سے
روئے ناصح اپنی منہ پررکھ کے داماں تو سہی
دل بر میں ہے جسم میں نہ جی ہے
دھوپ بہتر پر شب فرقت کی بدتر چاند نے
میخانہ ہجر یار میں مجھ کو جسیم ہے
حسن کا اب جاے یا عالم رہے
شب وصل میں ہے ہاتھ سے تلوار نہ چھوئے
قہر ہے اسکو شراب ارغوانی چاہیے
فرقت ساقی میں کیا مینا وساغر توڑیے
یہ خجل ہوگل خورشید کہ شبنم ہو جاے
قاصدا کہہ دیجیو اتنا ہی اس گمراہ سے
نیمچے ہیں شعر وصف ابروے خمدار کے
پر تو افگن جو تری زلف معنبر ہو جاے
آئی برسات اب ہے آمد ساقی گلفام کی
گم ہوا میں جب سے تیرا رو نظر آیا مجھے
ساتھ میری آہ کی زنجیر نے آواز کی
ضعف سے ناسخ مہجور کہاں اٹھتا ہے
ہوں وہ سوزاں شعلہ بھاگے دور میری خاک سے
آپ ہیں دوست تو دشمن کیا ہے
یو ہیں صورت ہوئی تھی ہجر میں تغییر مجنوں کے
نظر آئی ضریح تربت شبیر لوہے کے
جو پہنی تونے زنجیر اے بت بے پیر چاندی کے
آج کچھ انداز بسمل اضطراب دل میں ہے
سب زمینیں ہیں نئی تیین ہیں اے یار نئی
تو چاند ہے سایہ چاند نے ہی
کیا کریں باغ سے آئے جو ہوا کے جھونکے
رباعیات
قطعہ تاریخ
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.