سرورق
تیری حمد کس سے رقم ہو خدایا
تیری حمد خالق بشر کر سکے کیا
مطب کیا تھا حقیقت میں عجب ختم رسالت کا
عجب کان نبوت سے وہ گوہر بے بہا نکلا
میری کچھ ارزو دلکی نکل جاتی تو کیا ہوتا
بانکی ادانے تیری اس بے وطن کو مارا
کہاں تک رہے ظلم جو رو جفا کا
میرا دل دشمن جانی نہ ہوتا
کہاں لیجا کے بلبل نے بنایا آشیاں اپنا
لڑکپن کا دیکھا ہے انداز تیرا
ہم کو نہ نیند آئی پیاری تمام شب
افسوس کر رہا ہوں گنوا کر تمام رات
چلدیا تو چھوڑ کر ہم کو ستمگر جاں بلب
ابتو تشریف لائیے حضرت
سرخ جوڑا تم نے پہنا آج دلبر الغیاث
ہو تیرا وصل گر میسر آج
آپ اب تک نہ آئے کیا باعث
کوئی سنتا بھی نہیں ابتو ہماری فریاد
ہم نے ڈھونڈا بہت نہ پایا کھوج
گلشن حسن بھی ہوتا ہے سبھی کا برباد
کیا گفتگو ہے آپ کے شیریں دہن لذیذ
میرا پیام پہنچا اس کو تو باد صر صر
ہم نے پی لی آپ کی بھیجی بنیذ
واحد ہے تو خدایا ہے شان تیری برتر
کیوں شیخ جی کہو تو بیت الحرم ہے بہتر
آج کیوں ہیں شادماں لیل ونہار
میں تمکو جانتا ہوں میری جاں سے عزیز
ہے سرائے دار فانی چندروز
کہاں اس قدر ہے ہمارا تمیز
قاصداب تک کیوں نہ آیا بوالہوس
دیکھ ظالم ہے خدا فریاد رس
خط کو تو میرے دیکھ کے کیوں ہو گیا خموش
مجھ نا تواں کو دیکھ گئے دلربا کے ہوش
تمہاری وصل کا مدّت سے میں ہوں مہ نقا خارص
شوخی یہ تیری مجھ کو بھی بھاتی نہیں ہے حرص
خدا سے ابتو کرنے دے صنم ہمکو عرض معروض
نہیں بے وفا تجھ کو مجھ سے غرض
مجھے تھی تیری انتظاری فقط
نہ قاصد اب تلک آیا نہ آیا کوئی اس کا خط
آج مہدی بھی لگائی الحفیظ
اٹھا کعبہ سے بت خانہ خدا حافظ خدا حافظ
عشق میں تیرے فتنہ گر لاکھوں ہوئے قلع قمع
تو نے پروانہ کو جلوایا شمع
سینہ تمہارے ہجر میں جاناں ہے داغ داغ
ایک ہے وار میں ٹوٹی تیری تلوار دریغ
ہے مدّعا یہ آپ کا جاں ہو میری تلف
مدّت سے گلعذار تو آیا نہ اسطرف
عاشق کے حال پر تو مہربان ہو شفیق
عشق میں غم کے سوا کوئی نہیں اپنا رفیق
تجھ سے ملنے کی نہ امید بر آئی بیشک
پیدا ہوئے ہیں عشق کے آثار یک بیک
الفت میں بیوفا کے ہوازندگی سے تنگ
قدرت نے گل کھلائے ہیں دیکھو تو رنگ برنگ
ہم نہ سمجھے تھے تجھے یار بنانا مشکل
کچھ تو اب طورنیا ابروئے خمدار بدل
کہیں مجھ سا بھی دیکھا تم نے بیدل
باغباں لے آشنیانہ چھوڑ کر جاتے ہیں ہم
تمہارے ناگ جو پالے ہوئے ہیں
دیکھنا ایک دن تپ فرقت سے مرجائیں گے ہم
پالے ہوئے جو ناگ یہ کالی بلا کے ہیں
تیرے عشق کے تیر کھائے ہوئے ہیں
نہ فرصت ایکدم ملتی ہے ہمکو آہ وزاری میں
بچھاؤں فرش آنکھوں کا اگر وہ یار آوے تو
جفائیں تو کیں اب وفائی بھی کر لو
افسوس عشق ظالم دردر پھرایا مجھ کو
تمہارے درد پہلو کی خبر ہو
جو تم معشوق دلبر خوبرو ہو
نہ ساغر ہوں نہ ساقی ہوں نہ خم ہوں اور نہ پیمانہ
بتوں سے ہو کے اب بیزار کرتے ہیں خدا توبہ
میرا رکھتا ہے دل داغ نہاں یہہ
بتا مجھ سے تو کیوں خفا ہو رہا ہے
کیا تونے غضب اے باغباں بلبل کے پرباند ہے
بتا بلبل تیرا کس کے چمن میں آشیانہ ہے
لب پر ہو نام تیرا جب جاں بدنسے نکلے
شور محشر ہے بپا تیرے لئے
تیرے لئے جہںا سب بے نور ہو رہا ہے
ہے زمین وآسماں تیرے لئے
بلبل بتا چمن سے وہ گلفام کیا ہوئے
کرتے تھے ظلم جو وہ ستمگر کہاں گئے
عجب لائی جو بن جوانی تمہاری
بلانے سے وہ میرے گھر پر نہ آوے
کبھی دلربا تم بھی آئے تو ہوتے
گلہ انکی جفاؤ نکا کروں گر میں حماقت ہے
کیوں گا لیئیں دینے کی بدعادت نہیں جاتی
مان پر میرے تم آیا کروگے
اب رقیبوں کے یہاں ظالم تو جانا چھوڑدے
چمن میں وہ نہ اب گل ہی صرف ایکنام باقی ہے
تپ ہجراں کی شدّت پر حرارت ہوتی جاتی ہے
جاناں تیرے آجانے کی جلدی خبر آوے
تمہارے وصل کی جاناں مجھے اب انتظاری ہے
عاشق حسن ہوئے دل سے طلبگار ہوئے
التجا از مصنّف بدرگاہ مجیب الدعوات
سفر کو کل وہ جاتے ہیں تو ہو دلکو صبر پہلے
AUTHORमिर्ज़ा वाहिद बेग रसलदार चुग़ताई नौशा
YEAR1909
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER सिविल एंड मिलिट्री न्यूज़ प्रेस, लुधियाना
AUTHORमिर्ज़ा वाहिद बेग रसलदार चुग़ताई नौशा
YEAR1909
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER सिविल एंड मिलिट्री न्यूज़ प्रेस, लुधियाना
سرورق
تیری حمد کس سے رقم ہو خدایا
تیری حمد خالق بشر کر سکے کیا
مطب کیا تھا حقیقت میں عجب ختم رسالت کا
عجب کان نبوت سے وہ گوہر بے بہا نکلا
میری کچھ ارزو دلکی نکل جاتی تو کیا ہوتا
بانکی ادانے تیری اس بے وطن کو مارا
کہاں تک رہے ظلم جو رو جفا کا
میرا دل دشمن جانی نہ ہوتا
کہاں لیجا کے بلبل نے بنایا آشیاں اپنا
لڑکپن کا دیکھا ہے انداز تیرا
ہم کو نہ نیند آئی پیاری تمام شب
افسوس کر رہا ہوں گنوا کر تمام رات
چلدیا تو چھوڑ کر ہم کو ستمگر جاں بلب
ابتو تشریف لائیے حضرت
سرخ جوڑا تم نے پہنا آج دلبر الغیاث
ہو تیرا وصل گر میسر آج
آپ اب تک نہ آئے کیا باعث
کوئی سنتا بھی نہیں ابتو ہماری فریاد
ہم نے ڈھونڈا بہت نہ پایا کھوج
گلشن حسن بھی ہوتا ہے سبھی کا برباد
کیا گفتگو ہے آپ کے شیریں دہن لذیذ
میرا پیام پہنچا اس کو تو باد صر صر
ہم نے پی لی آپ کی بھیجی بنیذ
واحد ہے تو خدایا ہے شان تیری برتر
کیوں شیخ جی کہو تو بیت الحرم ہے بہتر
آج کیوں ہیں شادماں لیل ونہار
میں تمکو جانتا ہوں میری جاں سے عزیز
ہے سرائے دار فانی چندروز
کہاں اس قدر ہے ہمارا تمیز
قاصداب تک کیوں نہ آیا بوالہوس
دیکھ ظالم ہے خدا فریاد رس
خط کو تو میرے دیکھ کے کیوں ہو گیا خموش
مجھ نا تواں کو دیکھ گئے دلربا کے ہوش
تمہاری وصل کا مدّت سے میں ہوں مہ نقا خارص
شوخی یہ تیری مجھ کو بھی بھاتی نہیں ہے حرص
خدا سے ابتو کرنے دے صنم ہمکو عرض معروض
نہیں بے وفا تجھ کو مجھ سے غرض
مجھے تھی تیری انتظاری فقط
نہ قاصد اب تلک آیا نہ آیا کوئی اس کا خط
آج مہدی بھی لگائی الحفیظ
اٹھا کعبہ سے بت خانہ خدا حافظ خدا حافظ
عشق میں تیرے فتنہ گر لاکھوں ہوئے قلع قمع
تو نے پروانہ کو جلوایا شمع
سینہ تمہارے ہجر میں جاناں ہے داغ داغ
ایک ہے وار میں ٹوٹی تیری تلوار دریغ
ہے مدّعا یہ آپ کا جاں ہو میری تلف
مدّت سے گلعذار تو آیا نہ اسطرف
عاشق کے حال پر تو مہربان ہو شفیق
عشق میں غم کے سوا کوئی نہیں اپنا رفیق
تجھ سے ملنے کی نہ امید بر آئی بیشک
پیدا ہوئے ہیں عشق کے آثار یک بیک
الفت میں بیوفا کے ہوازندگی سے تنگ
قدرت نے گل کھلائے ہیں دیکھو تو رنگ برنگ
ہم نہ سمجھے تھے تجھے یار بنانا مشکل
کچھ تو اب طورنیا ابروئے خمدار بدل
کہیں مجھ سا بھی دیکھا تم نے بیدل
باغباں لے آشنیانہ چھوڑ کر جاتے ہیں ہم
تمہارے ناگ جو پالے ہوئے ہیں
دیکھنا ایک دن تپ فرقت سے مرجائیں گے ہم
پالے ہوئے جو ناگ یہ کالی بلا کے ہیں
تیرے عشق کے تیر کھائے ہوئے ہیں
نہ فرصت ایکدم ملتی ہے ہمکو آہ وزاری میں
بچھاؤں فرش آنکھوں کا اگر وہ یار آوے تو
جفائیں تو کیں اب وفائی بھی کر لو
افسوس عشق ظالم دردر پھرایا مجھ کو
تمہارے درد پہلو کی خبر ہو
جو تم معشوق دلبر خوبرو ہو
نہ ساغر ہوں نہ ساقی ہوں نہ خم ہوں اور نہ پیمانہ
بتوں سے ہو کے اب بیزار کرتے ہیں خدا توبہ
میرا رکھتا ہے دل داغ نہاں یہہ
بتا مجھ سے تو کیوں خفا ہو رہا ہے
کیا تونے غضب اے باغباں بلبل کے پرباند ہے
بتا بلبل تیرا کس کے چمن میں آشیانہ ہے
لب پر ہو نام تیرا جب جاں بدنسے نکلے
شور محشر ہے بپا تیرے لئے
تیرے لئے جہںا سب بے نور ہو رہا ہے
ہے زمین وآسماں تیرے لئے
بلبل بتا چمن سے وہ گلفام کیا ہوئے
کرتے تھے ظلم جو وہ ستمگر کہاں گئے
عجب لائی جو بن جوانی تمہاری
بلانے سے وہ میرے گھر پر نہ آوے
کبھی دلربا تم بھی آئے تو ہوتے
گلہ انکی جفاؤ نکا کروں گر میں حماقت ہے
کیوں گا لیئیں دینے کی بدعادت نہیں جاتی
مان پر میرے تم آیا کروگے
اب رقیبوں کے یہاں ظالم تو جانا چھوڑدے
چمن میں وہ نہ اب گل ہی صرف ایکنام باقی ہے
تپ ہجراں کی شدّت پر حرارت ہوتی جاتی ہے
جاناں تیرے آجانے کی جلدی خبر آوے
تمہارے وصل کی جاناں مجھے اب انتظاری ہے
عاشق حسن ہوئے دل سے طلبگار ہوئے
التجا از مصنّف بدرگاہ مجیب الدعوات
سفر کو کل وہ جاتے ہیں تو ہو دلکو صبر پہلے
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।