سرورق
رواں راہ ثنا میں سر بسجدہ ہے قلم میرا
نظر آتا نہیں کس رنگ میں جلوا تیرا
ہر دم خیال رہتا ہے اک رشک حور کا
روز ہم کانوں سے سنتے ہیں فسانا تیرا
دن پھر گئےچمن کے غم باغباں گیا
رنگ دنیا کا ہے افسوس یہ کیسا بدلا
اللہ رے بدگمانی مرا دل کھٹک گیا
زبان پہ میرے دم حشر کس کا نام آیا
آپ مصروف ہیں دعا میں کیا
شعلہ ہماری آہ کا جب چرخ تک گیا
محبت میں کسی کوشش سے کچھ حاصل نہیں
دل سارفیق آہ جدا ہو گیا
دیا ہے حسن خدا نے تجھے کس آفت کا
شب کو وہ مہ جبیں نہیں آتا
جاتا حرم میں کیونکر دیوار تک نہ پہونچا
یاد ہے یہ مشورہ مجھ کو کسی استاد کا
وہ دل میں رہ کہ آنکھ سے میرے نہاں رہا
شہرہ ہے جہاں میں ترے بیداد گری کا
نہ مجھے ملال ہوتا نہ اسے ملال ہوتا
فدا ہو سرد دل سے دیکھ کر قامت مرے گل کا
نہ کسی سے کرتے الفت نہ کبھی ملال ہوتا
عذر بیجا زندگی میں کیوں ہے اضمحلا ل کا
آستین دامن بتی دامن گر بیان ہو گیا
اب فصل گل آئی ہے کروں جامہ دری کیا
بہار افزا ہے کیا گلشن کسی کا
پتہ بتاؤں میں کیا عارفوں تمہیں گھر کا
بہت کچھ پر فضا برسات میں ہے تختہ جنگل کا
سنگ اسکی راہ میں اے بیخودی آتے ہیں کیا
چشم گوہر بار میں ناسور پیدا ہو گیا
چشم باطن سے خدائی کا تماشا دیکھا
ابھی پورا ہو مدعا میرا
آپکے در سے اٹھیں گے اور کہیں جائیں گے کیا
ساقی کرم سے بھر دے پیالہ شراب کا
گلشن مرے کلام کاآباد ہی رہا
شفا پائے اگر بیمار تیرا
عجب انداز سے زلف ورخ جاناں دیکھا
کسی کو رنج میں جاکے یہ نقشہ بہار میں دیکھا
اس غمکدہ میں عیش کسے جاوداں ملا
جان دینا مجھے مفید ہوا
بیگنہ کا ہے یہ خون دیکھ نہ پنہاں ہوگا
کعبہ دیندار دن کا ہے یا میکدہ کفار کا
گلزار میں گلوں کو سنوارا یہ کیا کیا
میرے دل میں چبھے گا تیر سے پیکان جدا ہوگا
گل باغ محبت نے دکھایا یہ اثر اپنا
شعلۂ رخسار رنگین دیکھ کر اس حور کا
کبھی وادی ایمن میں چلے آتے تو کیا ہوتا
کوئی دیوانہ بنے گا کوئی شیدا ہوگا
برسنے پر جو میرا دیدۂ پر آب آیا
جو اعلی ہے کسی صورت سے ادنیٰ ہو نہیں سکتا
خالق نے تجھ کو نور کا پتلا بنا دیا
بقا کے عالم میں آئے تھے سب نظر میں ہے رنگ اس چمن کا
شہرہ نہ کیوں ہو خلق میں میرے بیان کا
اثر دیکھا تری حد نظر کا
مظہر یار نے مجھے مارا
کسی رفیق سے اتنا نہیں کہا جاتا
شاہرا ہوں پرور دلدار کا دھوکا ہوا
اک جام سے کھل جاتا ہے اسرار جہاں کا
ہوا ہے قافلہ دنیا سے یاروں کا رواں کیسا
امتحاں کر لیا مقدر کا
کوئی مضمون جو ہاتھ آتا ہے وصف زلف پر خم کا
کہوں کیا حال اپنے گریۂ چشمان پرنم کا
وصف ابرو سے سراپا ہورقم اس ماہ کا
بزم عشرت میں جو بیٹھوں تو یہ ہو غم پیدا
عیسیٰ سے بہر صحت میں التجا نہ کرنا
پژمردہ ہو سوز غم فرقت سے جگر کیا
باغ میں باد خزاں کا جب گزر ہونے لگا
ورطۂ غم سے ابھی پار نکل جاؤں گا
نالۂ گرم زبان سے جو نکل جائے گا
غیر ممکن ہے محبت میں اٹھا ناول کا
جام جم باقی نہ زندہ جم رہا
ہجر میں رہتا ہوں تیرے یار چپ
نہ لیا میں نے جوانی میں کبھی نام شراب
کون کہتا ہے کہ خراب شراب
منعم عبث ہوا تو گرفتار سنگ وخشت
ہجر دلبر میں نہ تھی مجھ کو مفر کی صورت
وفا میں کیوں دیر ہے لگائی کئے تھےتم نے ستم جھپا جھپ
دلکو تو جان سے ہے پیاری بات
کیوں ہوئے ہم سے خفا کیا باعث
کس قدر بولتا ہے خود سر جھوٹ
کہیں محفل میں وہ نگارہے آج
آیا ہوا ہے چرخ پہ گھر کر سحاب آج
سر چڑھا کر مجھے نظروں سے گر اتے ہو عبث
اے عندلیب باغ نہ کر آشیاں سے کوچ
رسائی قیصر صنم تک جو ہو صبا کی طرح
درد دل کی لکھوں کیونکر تشریح
رہو جگر میں دل درد آشنا کی طرح
آئی پسند کب بت عیار کی طرح
حال دل ان سے کہا ہم نے حکایت کی طرح
ہر گھڑی ہے زبان پہ یا موجود
صورت گل ہے تیری رنگت شوخ
بٹھا کے سامنے تم نے کیا مگر گستاخ
اچھا بشر کے حق میں نہیں مہ لقا گھمنڈ
شتاب ذبح تو کر کیا درنگ ہے صیاد
فرقت میں زندگی کا سہارا ہے شوق دید
لکھ لکھ کے بہت شتاب کاغذ
تیغ قاتل کو جو ہے اپنی روانی پر گھمنڈ
تولے رہے وہ تیغ ستم امتحان پر
بدل بدل کے وہ تیور تلے ہیں کچھ شریر
ہوتے ہیں نئے ظلم ستمگر کے برابر
ہزاروں امتحاں ہیں امتحاں پر
حسینان چمن ہیں جلوہ گر سبزہ کی مسند پر
دیکھے ہیں گیسو جو انکے کان پر
تو نے افشاں جو چنی چاند سی پیشانی پر
رہے سجدہ میں سر ہر دم جبیں پر
یو ہیں جو عشق رہا دل میں آرزو ہو کر
جو مجھ سے کریگا تو پیدا بگاڑ
ہے نظر نیچی تو ہے طالب دیدار کی آڑ
تماشا ہے عجب عالم ہے پیشانی کا افشاں پر
جی اٹھیں مردے اگر سن لیں یہ پیاری آواز
یہ بستی تاراج ہوئی سلطان الہند غریب نواز
تو نے بکا ہے کیا کیا ژاژ
خدا دے اگر دولت بیقیاس
کام آئی مری نظر کی تلاش
آہیں کرتا تھا کبھی اور نہ ہوا تھا خاموش
ہوا گر آپ سے اور غیر سے باہم اخلاص
ہے عجب جان بخش تیر اسروگل اندام رقص
تو نہ کر حسن زہد پر اغماض
ہیں طفل اور بزرگ یہ آسماں حریص
پہلے تو بہت ہم نے خوشبو سے بسایا خط
میرے یوسف کا الٰہی میرے پاس آج آئے خط
ہے دونوں کو رخسار تاباں سے ربط
مل مجھ سے اورع شرم وحیا کا نہ کرلحاظ
عقیدت میں نہیں ہوتی ہے جائے گفتگو واعظ
دیکھتی ہے بزم میں وہ روئے آتشباز شمع
تم تو لیکر چلےخدا حافظ
دیکھو تم نے غیر سے پھر کیں ملاقاتیں شروع
کھل گیا حال طلسم زندگانی وقت نزع
بہار عارض تاباں سے ہے جہاں کو فروغ
بزم میں ہے آج نور عارض جانا نہ شمع
جاتے ہو تم تو سیر کو گلزار کی طرف
غم کے داغوں سے ہیں جلتے سینہ میں اکثر چراغ
ہمارے بعد نہ تربت پہ کوئی لائے چراغ
مجھ کو ملے جو آپکی تحریر کا ورق
دغا اسطرف تم دغا کیطرف
دلنشین ہوجاتا ہے جب تیر عشق
رقم قلم سے ہو کس طرح ماجرائے فراق
فلک نے جو رسے پیسا یہاں تک
رسائی کس طرح ہو آشیاں تک
لائی ہے طرز نو سے جہاں میں بہار رنگ
سواد زلف ہے رخسار یار کے نزدیک
حسن کا شہرہ ہے تیرے اے پر ی رو دور تک
دیکھ ڈالا بہت بہار کا رنگ
کبھی کسی نے نہیں دیکھی عمر بھر رگ سنگ
کھائیں ہیں سوز عشق سے ہم نے بدن میں گل
اس شمع کی لو میں جو سینے پہ کھائے گل
میری آہوں سے ہے شرار خجل
دیدے اپنے ہار کے ٹوٹے ہوئے دو چار پھول
دم نزع تھا انکے آنے کے قابل
عنقا ہیں سارے پھولوں میں تیرے سپر کے پھول
بات اس غنچہ دہن کی ہے جو آوازۂ گل
کس نے گلشن میں سنواری زلف پیچاں آج کل
رہا جوش پر یہ شباب اول اول
اب امتحاں جو ردلبر سے اور ہم
کوچۂ دلبر میں جب جاتے ہیں ہم
اب تو ہردم درمیاں خواب ہم
ابتو میں کرتا نہیں آہیں پس دیوار گرم
زار ہیں ایسے تن لاغر سے ہم
گلزار میں ساکن ہوئے صحرا میں مکیں ہم
قید ننگ ونام میں کب تک رہیں محبوس ہم
بے پردہ سر بزم تو آیا نہ کرو تم
ہم سنا کرتے تھے مدت سے یہ افسانوں میں
خالی ہیں بوئے مہر سے گل پیرہن تمام
ترے عشق میں روز غم دیکھتے ہیں
ذرات زمیں سے آشناہوں
یہی ہوتا ہے آشنائی میں
ہم تو دل سے طالب دیدار ہیں
بوئے گل باد سحر آتی نہیں
جو ہجر میں تیرے ہم بیقرار ہوتے ہیں
بات کی طاقت مجھ کو نہیں ہے کہتی ہے دنیا سوتا ہوں
بھیگانامۂ عصیاں مرے رونے سے محشر میں
ہم نشیں جب وہ گلعذار نہیں
نہیں ہے کچھ بھی مروت تمہارے درباں میں
قدرت کا فلسفہ تھا مہیا سرشت میں
تم نہیں جام خوشگوار نہیں
پائمال کوچۂ دلدار ہوں
تیرے اوصاف سے لبریز ہیں دفتر لاکھوں
عبد تیرا اے مرے معبود ہوں
رہا نہ رنگ کبھی ایک ساں زمانے میں
ان سے ملنے کی کوئی آس نہیں
اک گدا ہوں میں بادشاہ نہیں
جوش جنوں کی ہے یہ عنایت بہار میں
بہار آئی جنوں نے ہاتھ پھر ڈالا گریبان میں
اسیران قفس کا امتحان صیاد کرتے ہیں
غم سے روتا ہوں ہنسی اے مہربان اچھی نہیں
زوال ہو نہ جسے وہ کوئی کمال نہیں
گناہ جانکے کب ہم گناہ کرتے ہیں
بھیڑ ہے انتہائے محشر میں
اک نحیف وبے توان وتاب ہوں
مزہ وطن میں جو ملتا ہے وہ سفر میں نہیں
آپ کے قہر کو بھی فضل خدا کہتے ہیں
دنیا خفا ہے ہم سے فقط تو خفا نہیں
وہ کون سی ہے بزم نہاں جسمیں تو نہیں
نسیم اے مبدا فیاض ہے ترے اشاروں میں
اک تری یاد سے دل شاد کیا کرتے ہیں
خامشی کہتے ہے کچھ فریاد کی حاجت نہیں
بجز صد مات دل کے کیا ہوا حاصل محبت میں
دنیا یہ بے ثبات ہے تیرا وطن نہیں
رکھا فلک نے ہم کو درد وغم ومحن میں
مرتے مرتے بھی یہی باقی رہی حسرت ہمیں
داغ جنوں سند ہے مرے جسم زار میں
یہ طرز وفا خوب نکالا ہے جفا میں
دشت ایمن سے مرے دشت میں کم نور نہیں
یارب تری درگا ہ کا ہوں ایک گدامیں
شرم آتی ہے تجھ سے کیا مانگوں
ہے نگاہ ناز کافی تیر کی حاجت نہیں
جینے دیگی اب جہاں میں آپ کی فرقت نہیں
ابتو کسی کو رحم مرے حال پر نہیں
لکنت جو ہوزبان میں تقریر کیا کروں
در کیا بند یہی کہکے سدھارے گھر میں
بلبل خوشبو نہ دے رنج مجھے بہار میں
زندگی خاک ہے پہلو میں وہ محبوب نہیں
فکر بیکار ہے کیوں وقت کو برباد کریں
کیا سخت گزرے ہجر کے اے یار رات دن
رہی دلمیں اک یہی آرزو کہ وہ رشک گل ہو کنار میں
مثل موسیٰ مجھے کب حسرت دیدار نہیں
جو ہر شناس جو مری تیغ زباں کے ہیں
خدنگ ناز حسینوں سے دلفگار ہوں میں
دربان کو رحم حال پہ میرے اگر نہیں
پوشیدہ ہے نگاہ سے دل سے نہاں نہیں
جتنے تھے بلبلوں کے نشیمن چمن چمن
مے بھی نہیں ہے بزم مین میخوار بھی نہیں
ہائے جوانی عیش کے وہ دن پیر میں یاد آتے ہیں
جمال دختر رز کی ہے تاب شیشے میں
دشمن سے بھی یہاں حسد وبغض وکیں نہیں
دیکھیں لیجاے ہمیں گردش ایام کہاں
جہاں میں بظاہر تو کیا کچھ نہیں
سلک گوہر ہے ہر اک مصرع مرا تحریر میں
دل میں پھر وصل کے ارماں چلے آتے ہیں
فرقت کی صبح آئی بلبل پکارتے ہیں
اول تو سر ومثل قد یار بھی نہیں
داغ لالے کے ہیں مثل شمع روشن پھول میں
ہردم حسیں قرین ہیں جلسے ہیں صحبتیں ہیں
یاد آتی ہیں جو خفگی کی تمہاری باتیں
تھیں طالب وشایق جو تری نور کی آنکھیں
اس بت کو گرخیال ہمارا نہیں نہ ہو
کہاں تک پرورش کرتا رہوں آزار پیہم کو
بحر غم میں غوطے سب دیتے ہیں اس غمناک کو
نہ دکھایا نہ دکھایا رخ تاباں ہم کو
یہ کیسے ظلم تم کرتے ہو ہم پر دیکھتے جاؤ
ایسا ترے جمال کا دل میں وفور ہو
میرا عدو جو یہ فلک کینہ جو نہ ہو
میں جان دوں اور خاک بھی تم کو نہ خبر ہو
جما ل دوست کے دیدار کو تیار ہو جاؤ
باغ ہو میکدہ ہو اور تو ہو
اس جفا جو کو مرے پاس ذرا آنے دو
بھر کے پتا ہوں جام وحدت کو
مدت سے ترستا ہوں مئے ہوش ربا کو
اے پری رو کبھی یہ صورت ہو
کوئی انصاف سے دیکھے ہماری طبع موزوں کو
پر نہیں ملتے مری فریاد کو
ہائے پھر آئی جلانے شب فرقت مجھ کو
کچھ دوائے دل بیمار نہیں ہے تو نہ ہو
محفل عشاق میں عزت مجھے اے جان دو
ذرا بہار تن داغدار دیکھو تو
شکر ہے حق نے دیا ایسا نصیبا مجھ کو
پیشانی آئینہ رخ جاں پرور آئینہ
تھا غم ہجر اے قمر ہم کو
نسبت ہے رخ سے کب ترے بد ر کمال کو
دل کھول کر لگائے وہ ظالم جفا کے ہاتھ
سر رکھا لاکھ پاؤں پہ جوڑے ہزار ہاتھ
ہو زندگی بسر دل بے آرزو کے ساتھ
قطرہ بھی ہوا ہے کہیں قلزم سے زیادہ
دست دعا اٹھائے جو تو التجا کے ساتھ
گل کو توڑا ہے دل بلبل ناشاد کے ساتھ
ممنون کرم ہے یہ خطا کار ہمیشہ
کہاں تک اپنا کوئی عرض مدعا نہ کرے
اک ٹھنڈی سانس لیتے ہیں خاموش ہو گئے
حرص وہوائے دہر میں ہم مبتلا رہے
آنکھیں لڑائی میں نے جو اس شہسوار سے
جو ہے درکار وہ اے بار خدا ملتا ہے
اس قمر کا طعن مہر چرخ پر معقول ہے
آپ کو گر وصل سے انکار ہے
بے ادب دست ہوس ہونگے ترے دامن سے
جب سے ہم محو خیال رخ دلدار ہوئے
مجھے اب لحد کے اندر کہو کیا قرار آئے
شرم آئی بھی نہ تم کو ہم سے ملا کرتے
مشکل مرحلہ عشق جو سر ہو جائے
ملتا ہے نور سبکو ری جلوہ گاہ سے
فنا کے بعد بشر کے لئے بقا بھی ہے
جو الجھیگا دربان مجھ بینوا سے
پیام اس نے زراہ عتاب بھیجا ہے
اتنا تو مجھ غریب پہ احسان کیجئے
وہ برق وش جو نگاہوں سے دور ہوتا ہے
ستانا انکو ہے منظور ہر بہانے سے
بسر اوقات یوں ہماری ہے
ہمارے دل کی حسرت صحن گلشن میں نکلتی ہے
خدا نے دی ہے لطافت مری زبان کیلئے
سینہ غم و آلام سے اس وقت ہدف ہے
نظم اس دست حنائی کا جو مضموں ہو جائے
شکوہ بیجا آسماں سے ہم کو بیدادی کا ہے
زلف سر کی صورت مہ عارض دلبر کھلے
مریض عشق ہوں ایسی کوئی دوا مل جائے
کیا کیا نہ زیر چرخ بریں خانماں مٹے
بھیجدو جھوٹی شراب اپنی دوا کے واسطے
در پیش اس جہاں سے تم کو سفر بھی ہے
دم آخر ہے دعا مانگ دوا رہنے دے
آجائے تری رحمت کیوں دیر لگائی ہے
وصل اس کا گرنہیں ممکن کسی تدبیر سے
عاجز میں بہت ہوں تری بیدادگری سے
قتل کرکے مجھے پچھتاؤ گے
میں آج کل ہوں سر خوش صہبائے شاعری
ہے اتنی چاک کہ سالم رگ گلو نہ رہی
اٹھاؤں ہاتھ جو میں نالہ کش دعا کیلئے
بو ایک گل میں پائی نہ اس گلعذار کی
اشعار کا ہمارے ہر شخص مشتری ہے
دلوں میں ربط وفا بیشمار باقی ہے
محبت ہے مجھے ایسے حسین سے
تیرے اندوہ میں ایسی ہوئی حالت میری
مرے عشق کا غل مچا چاہتا ہے
دور آنکھوں سے جو تم ہو گے قیامت ہوگی
جواں بتوں میں ذرا سی بھی دلبری ہو جائے
دلشاد اپنے وصل سے اے جان کر مجھے
نہ ہو درد جس دل میں ایسا ہے کوئی
شام فرقت میں ہیں روگر دانیاں احباب کی
شرکت بزم کو لازم ہے اجازت تیری
خم نور شیشہ نور ہے پیمانہ نور ہے
اثر جذب دل نے دکھایا مجھے
حشر کے دن تشنہ لب جسدم لب کوثر گئے
علم کا زور دیا عقل کی طاقت دی ہے
دل مکدر ہو تو جینے کا مزہ خاک رہے
جو تجھ کو مری کچھ تمنا نہیں ہے
سوزش اسدرجہ ہوئی داغ دل رنجور کی
نہایا جو خوں میں وہ بسمل یہی ہے
اے فلک ہجر کی شب تو نہ دکھائی ہوتی
دل سیہ ہو جائے رکھتا ہوں الفت اور کی
رہا جو دیر میں کعبہ کی الفت آہی گئی
رتبہ بڑھایا شعرکا لطف شراب نے
اوصاف سے ہے انکی طبیعت بھری ہوئی
اسی کا رنج اسی کا خیال رہتا ہے
چہر ہ تو دکھا یہ کہے دلدار سے کوئی
صبح دم مجھ سے جدا وہ سیم تن ہونے کو ہے
کس قدر نازک تمہاری چال ہے
بہت غم سے اب ناتواں دل ہوا ہے
یہی تذکرہ ہے یہی گفتگو ہے
مری اشکباری کا حاصل لہو ہے
تری آستان کی جسے آرزو ہے
رباعیات
خمہ برغزل حضرت ناسخ مرحوم ومغفور
خمسہ برغزل حضرت منیرؔ مرحوم ومغفور
افسر اعلیٰ کا عہدہ اب عطاان کو ہوا
قصیدہ الوداعی خاں بہادر جناب منشی شیخ امانت اللہ صاحب پی جی ایس ۔۔۔
ہو مبارک پھر چمن میں آئی ہے فصل بہار
خیر مقدم خان صاحب جناب منشی سید واحد علی صاحب۔۔۔۔۔
قطعہ در مدح جناب مولوی محمد جنید صاحب نعمانی بی اے ایل ایل بی۔۔۔۔
قطعہ مبارکبادی جشن شادی جناب مسٹر ولی صاحب گورنمنٹ ۔۔۔۔۔
سہرا در تقریب کتخدائی عزیزی منشی شمامتی سروپ بی اے متعلم ایم اے ۔۔۔۔
قصیدہ در تہنیت چیر مینی جناب بابو برجندر سروپ صاحب بی اے ۔۔۔۔
سہرا در تقریب کتخدائی عزیزی منشی محمداختر حسن سلمہ بی اے۔۔۔
قطعہ تاریخ در تہنیت خطا یافتن نواب بہادری خان بہادر عالیجناب نواب ۔۔۔۔
سہرا دل تقریب کتخدائی عزیزی منشی محمد انور حسن سلمہ بی اے ۔۔۔۔
قطعہ تاریخ انتقال پر ملال رائے بہادر بابو آنند سروپ صاحب۔۔۔۔
در مدح ڈاکٹر ہولاس راے صاحب راے زادہ آنریری فزی شین وسرجن۔۔۔۔۔
کاتب کی ستم ظریفی
سرورق
رواں راہ ثنا میں سر بسجدہ ہے قلم میرا
نظر آتا نہیں کس رنگ میں جلوا تیرا
ہر دم خیال رہتا ہے اک رشک حور کا
روز ہم کانوں سے سنتے ہیں فسانا تیرا
دن پھر گئےچمن کے غم باغباں گیا
رنگ دنیا کا ہے افسوس یہ کیسا بدلا
اللہ رے بدگمانی مرا دل کھٹک گیا
زبان پہ میرے دم حشر کس کا نام آیا
آپ مصروف ہیں دعا میں کیا
شعلہ ہماری آہ کا جب چرخ تک گیا
محبت میں کسی کوشش سے کچھ حاصل نہیں
دل سارفیق آہ جدا ہو گیا
دیا ہے حسن خدا نے تجھے کس آفت کا
شب کو وہ مہ جبیں نہیں آتا
جاتا حرم میں کیونکر دیوار تک نہ پہونچا
یاد ہے یہ مشورہ مجھ کو کسی استاد کا
وہ دل میں رہ کہ آنکھ سے میرے نہاں رہا
شہرہ ہے جہاں میں ترے بیداد گری کا
نہ مجھے ملال ہوتا نہ اسے ملال ہوتا
فدا ہو سرد دل سے دیکھ کر قامت مرے گل کا
نہ کسی سے کرتے الفت نہ کبھی ملال ہوتا
عذر بیجا زندگی میں کیوں ہے اضمحلا ل کا
آستین دامن بتی دامن گر بیان ہو گیا
اب فصل گل آئی ہے کروں جامہ دری کیا
بہار افزا ہے کیا گلشن کسی کا
پتہ بتاؤں میں کیا عارفوں تمہیں گھر کا
بہت کچھ پر فضا برسات میں ہے تختہ جنگل کا
سنگ اسکی راہ میں اے بیخودی آتے ہیں کیا
چشم گوہر بار میں ناسور پیدا ہو گیا
چشم باطن سے خدائی کا تماشا دیکھا
ابھی پورا ہو مدعا میرا
آپکے در سے اٹھیں گے اور کہیں جائیں گے کیا
ساقی کرم سے بھر دے پیالہ شراب کا
گلشن مرے کلام کاآباد ہی رہا
شفا پائے اگر بیمار تیرا
عجب انداز سے زلف ورخ جاناں دیکھا
کسی کو رنج میں جاکے یہ نقشہ بہار میں دیکھا
اس غمکدہ میں عیش کسے جاوداں ملا
جان دینا مجھے مفید ہوا
بیگنہ کا ہے یہ خون دیکھ نہ پنہاں ہوگا
کعبہ دیندار دن کا ہے یا میکدہ کفار کا
گلزار میں گلوں کو سنوارا یہ کیا کیا
میرے دل میں چبھے گا تیر سے پیکان جدا ہوگا
گل باغ محبت نے دکھایا یہ اثر اپنا
شعلۂ رخسار رنگین دیکھ کر اس حور کا
کبھی وادی ایمن میں چلے آتے تو کیا ہوتا
کوئی دیوانہ بنے گا کوئی شیدا ہوگا
برسنے پر جو میرا دیدۂ پر آب آیا
جو اعلی ہے کسی صورت سے ادنیٰ ہو نہیں سکتا
خالق نے تجھ کو نور کا پتلا بنا دیا
بقا کے عالم میں آئے تھے سب نظر میں ہے رنگ اس چمن کا
شہرہ نہ کیوں ہو خلق میں میرے بیان کا
اثر دیکھا تری حد نظر کا
مظہر یار نے مجھے مارا
کسی رفیق سے اتنا نہیں کہا جاتا
شاہرا ہوں پرور دلدار کا دھوکا ہوا
اک جام سے کھل جاتا ہے اسرار جہاں کا
ہوا ہے قافلہ دنیا سے یاروں کا رواں کیسا
امتحاں کر لیا مقدر کا
کوئی مضمون جو ہاتھ آتا ہے وصف زلف پر خم کا
کہوں کیا حال اپنے گریۂ چشمان پرنم کا
وصف ابرو سے سراپا ہورقم اس ماہ کا
بزم عشرت میں جو بیٹھوں تو یہ ہو غم پیدا
عیسیٰ سے بہر صحت میں التجا نہ کرنا
پژمردہ ہو سوز غم فرقت سے جگر کیا
باغ میں باد خزاں کا جب گزر ہونے لگا
ورطۂ غم سے ابھی پار نکل جاؤں گا
نالۂ گرم زبان سے جو نکل جائے گا
غیر ممکن ہے محبت میں اٹھا ناول کا
جام جم باقی نہ زندہ جم رہا
ہجر میں رہتا ہوں تیرے یار چپ
نہ لیا میں نے جوانی میں کبھی نام شراب
کون کہتا ہے کہ خراب شراب
منعم عبث ہوا تو گرفتار سنگ وخشت
ہجر دلبر میں نہ تھی مجھ کو مفر کی صورت
وفا میں کیوں دیر ہے لگائی کئے تھےتم نے ستم جھپا جھپ
دلکو تو جان سے ہے پیاری بات
کیوں ہوئے ہم سے خفا کیا باعث
کس قدر بولتا ہے خود سر جھوٹ
کہیں محفل میں وہ نگارہے آج
آیا ہوا ہے چرخ پہ گھر کر سحاب آج
سر چڑھا کر مجھے نظروں سے گر اتے ہو عبث
اے عندلیب باغ نہ کر آشیاں سے کوچ
رسائی قیصر صنم تک جو ہو صبا کی طرح
درد دل کی لکھوں کیونکر تشریح
رہو جگر میں دل درد آشنا کی طرح
آئی پسند کب بت عیار کی طرح
حال دل ان سے کہا ہم نے حکایت کی طرح
ہر گھڑی ہے زبان پہ یا موجود
صورت گل ہے تیری رنگت شوخ
بٹھا کے سامنے تم نے کیا مگر گستاخ
اچھا بشر کے حق میں نہیں مہ لقا گھمنڈ
شتاب ذبح تو کر کیا درنگ ہے صیاد
فرقت میں زندگی کا سہارا ہے شوق دید
لکھ لکھ کے بہت شتاب کاغذ
تیغ قاتل کو جو ہے اپنی روانی پر گھمنڈ
تولے رہے وہ تیغ ستم امتحان پر
بدل بدل کے وہ تیور تلے ہیں کچھ شریر
ہوتے ہیں نئے ظلم ستمگر کے برابر
ہزاروں امتحاں ہیں امتحاں پر
حسینان چمن ہیں جلوہ گر سبزہ کی مسند پر
دیکھے ہیں گیسو جو انکے کان پر
تو نے افشاں جو چنی چاند سی پیشانی پر
رہے سجدہ میں سر ہر دم جبیں پر
یو ہیں جو عشق رہا دل میں آرزو ہو کر
جو مجھ سے کریگا تو پیدا بگاڑ
ہے نظر نیچی تو ہے طالب دیدار کی آڑ
تماشا ہے عجب عالم ہے پیشانی کا افشاں پر
جی اٹھیں مردے اگر سن لیں یہ پیاری آواز
یہ بستی تاراج ہوئی سلطان الہند غریب نواز
تو نے بکا ہے کیا کیا ژاژ
خدا دے اگر دولت بیقیاس
کام آئی مری نظر کی تلاش
آہیں کرتا تھا کبھی اور نہ ہوا تھا خاموش
ہوا گر آپ سے اور غیر سے باہم اخلاص
ہے عجب جان بخش تیر اسروگل اندام رقص
تو نہ کر حسن زہد پر اغماض
ہیں طفل اور بزرگ یہ آسماں حریص
پہلے تو بہت ہم نے خوشبو سے بسایا خط
میرے یوسف کا الٰہی میرے پاس آج آئے خط
ہے دونوں کو رخسار تاباں سے ربط
مل مجھ سے اورع شرم وحیا کا نہ کرلحاظ
عقیدت میں نہیں ہوتی ہے جائے گفتگو واعظ
دیکھتی ہے بزم میں وہ روئے آتشباز شمع
تم تو لیکر چلےخدا حافظ
دیکھو تم نے غیر سے پھر کیں ملاقاتیں شروع
کھل گیا حال طلسم زندگانی وقت نزع
بہار عارض تاباں سے ہے جہاں کو فروغ
بزم میں ہے آج نور عارض جانا نہ شمع
جاتے ہو تم تو سیر کو گلزار کی طرف
غم کے داغوں سے ہیں جلتے سینہ میں اکثر چراغ
ہمارے بعد نہ تربت پہ کوئی لائے چراغ
مجھ کو ملے جو آپکی تحریر کا ورق
دغا اسطرف تم دغا کیطرف
دلنشین ہوجاتا ہے جب تیر عشق
رقم قلم سے ہو کس طرح ماجرائے فراق
فلک نے جو رسے پیسا یہاں تک
رسائی کس طرح ہو آشیاں تک
لائی ہے طرز نو سے جہاں میں بہار رنگ
سواد زلف ہے رخسار یار کے نزدیک
حسن کا شہرہ ہے تیرے اے پر ی رو دور تک
دیکھ ڈالا بہت بہار کا رنگ
کبھی کسی نے نہیں دیکھی عمر بھر رگ سنگ
کھائیں ہیں سوز عشق سے ہم نے بدن میں گل
اس شمع کی لو میں جو سینے پہ کھائے گل
میری آہوں سے ہے شرار خجل
دیدے اپنے ہار کے ٹوٹے ہوئے دو چار پھول
دم نزع تھا انکے آنے کے قابل
عنقا ہیں سارے پھولوں میں تیرے سپر کے پھول
بات اس غنچہ دہن کی ہے جو آوازۂ گل
کس نے گلشن میں سنواری زلف پیچاں آج کل
رہا جوش پر یہ شباب اول اول
اب امتحاں جو ردلبر سے اور ہم
کوچۂ دلبر میں جب جاتے ہیں ہم
اب تو ہردم درمیاں خواب ہم
ابتو میں کرتا نہیں آہیں پس دیوار گرم
زار ہیں ایسے تن لاغر سے ہم
گلزار میں ساکن ہوئے صحرا میں مکیں ہم
قید ننگ ونام میں کب تک رہیں محبوس ہم
بے پردہ سر بزم تو آیا نہ کرو تم
ہم سنا کرتے تھے مدت سے یہ افسانوں میں
خالی ہیں بوئے مہر سے گل پیرہن تمام
ترے عشق میں روز غم دیکھتے ہیں
ذرات زمیں سے آشناہوں
یہی ہوتا ہے آشنائی میں
ہم تو دل سے طالب دیدار ہیں
بوئے گل باد سحر آتی نہیں
جو ہجر میں تیرے ہم بیقرار ہوتے ہیں
بات کی طاقت مجھ کو نہیں ہے کہتی ہے دنیا سوتا ہوں
بھیگانامۂ عصیاں مرے رونے سے محشر میں
ہم نشیں جب وہ گلعذار نہیں
نہیں ہے کچھ بھی مروت تمہارے درباں میں
قدرت کا فلسفہ تھا مہیا سرشت میں
تم نہیں جام خوشگوار نہیں
پائمال کوچۂ دلدار ہوں
تیرے اوصاف سے لبریز ہیں دفتر لاکھوں
عبد تیرا اے مرے معبود ہوں
رہا نہ رنگ کبھی ایک ساں زمانے میں
ان سے ملنے کی کوئی آس نہیں
اک گدا ہوں میں بادشاہ نہیں
جوش جنوں کی ہے یہ عنایت بہار میں
بہار آئی جنوں نے ہاتھ پھر ڈالا گریبان میں
اسیران قفس کا امتحان صیاد کرتے ہیں
غم سے روتا ہوں ہنسی اے مہربان اچھی نہیں
زوال ہو نہ جسے وہ کوئی کمال نہیں
گناہ جانکے کب ہم گناہ کرتے ہیں
بھیڑ ہے انتہائے محشر میں
اک نحیف وبے توان وتاب ہوں
مزہ وطن میں جو ملتا ہے وہ سفر میں نہیں
آپ کے قہر کو بھی فضل خدا کہتے ہیں
دنیا خفا ہے ہم سے فقط تو خفا نہیں
وہ کون سی ہے بزم نہاں جسمیں تو نہیں
نسیم اے مبدا فیاض ہے ترے اشاروں میں
اک تری یاد سے دل شاد کیا کرتے ہیں
خامشی کہتے ہے کچھ فریاد کی حاجت نہیں
بجز صد مات دل کے کیا ہوا حاصل محبت میں
دنیا یہ بے ثبات ہے تیرا وطن نہیں
رکھا فلک نے ہم کو درد وغم ومحن میں
مرتے مرتے بھی یہی باقی رہی حسرت ہمیں
داغ جنوں سند ہے مرے جسم زار میں
یہ طرز وفا خوب نکالا ہے جفا میں
دشت ایمن سے مرے دشت میں کم نور نہیں
یارب تری درگا ہ کا ہوں ایک گدامیں
شرم آتی ہے تجھ سے کیا مانگوں
ہے نگاہ ناز کافی تیر کی حاجت نہیں
جینے دیگی اب جہاں میں آپ کی فرقت نہیں
ابتو کسی کو رحم مرے حال پر نہیں
لکنت جو ہوزبان میں تقریر کیا کروں
در کیا بند یہی کہکے سدھارے گھر میں
بلبل خوشبو نہ دے رنج مجھے بہار میں
زندگی خاک ہے پہلو میں وہ محبوب نہیں
فکر بیکار ہے کیوں وقت کو برباد کریں
کیا سخت گزرے ہجر کے اے یار رات دن
رہی دلمیں اک یہی آرزو کہ وہ رشک گل ہو کنار میں
مثل موسیٰ مجھے کب حسرت دیدار نہیں
جو ہر شناس جو مری تیغ زباں کے ہیں
خدنگ ناز حسینوں سے دلفگار ہوں میں
دربان کو رحم حال پہ میرے اگر نہیں
پوشیدہ ہے نگاہ سے دل سے نہاں نہیں
جتنے تھے بلبلوں کے نشیمن چمن چمن
مے بھی نہیں ہے بزم مین میخوار بھی نہیں
ہائے جوانی عیش کے وہ دن پیر میں یاد آتے ہیں
جمال دختر رز کی ہے تاب شیشے میں
دشمن سے بھی یہاں حسد وبغض وکیں نہیں
دیکھیں لیجاے ہمیں گردش ایام کہاں
جہاں میں بظاہر تو کیا کچھ نہیں
سلک گوہر ہے ہر اک مصرع مرا تحریر میں
دل میں پھر وصل کے ارماں چلے آتے ہیں
فرقت کی صبح آئی بلبل پکارتے ہیں
اول تو سر ومثل قد یار بھی نہیں
داغ لالے کے ہیں مثل شمع روشن پھول میں
ہردم حسیں قرین ہیں جلسے ہیں صحبتیں ہیں
یاد آتی ہیں جو خفگی کی تمہاری باتیں
تھیں طالب وشایق جو تری نور کی آنکھیں
اس بت کو گرخیال ہمارا نہیں نہ ہو
کہاں تک پرورش کرتا رہوں آزار پیہم کو
بحر غم میں غوطے سب دیتے ہیں اس غمناک کو
نہ دکھایا نہ دکھایا رخ تاباں ہم کو
یہ کیسے ظلم تم کرتے ہو ہم پر دیکھتے جاؤ
ایسا ترے جمال کا دل میں وفور ہو
میرا عدو جو یہ فلک کینہ جو نہ ہو
میں جان دوں اور خاک بھی تم کو نہ خبر ہو
جما ل دوست کے دیدار کو تیار ہو جاؤ
باغ ہو میکدہ ہو اور تو ہو
اس جفا جو کو مرے پاس ذرا آنے دو
بھر کے پتا ہوں جام وحدت کو
مدت سے ترستا ہوں مئے ہوش ربا کو
اے پری رو کبھی یہ صورت ہو
کوئی انصاف سے دیکھے ہماری طبع موزوں کو
پر نہیں ملتے مری فریاد کو
ہائے پھر آئی جلانے شب فرقت مجھ کو
کچھ دوائے دل بیمار نہیں ہے تو نہ ہو
محفل عشاق میں عزت مجھے اے جان دو
ذرا بہار تن داغدار دیکھو تو
شکر ہے حق نے دیا ایسا نصیبا مجھ کو
پیشانی آئینہ رخ جاں پرور آئینہ
تھا غم ہجر اے قمر ہم کو
نسبت ہے رخ سے کب ترے بد ر کمال کو
دل کھول کر لگائے وہ ظالم جفا کے ہاتھ
سر رکھا لاکھ پاؤں پہ جوڑے ہزار ہاتھ
ہو زندگی بسر دل بے آرزو کے ساتھ
قطرہ بھی ہوا ہے کہیں قلزم سے زیادہ
دست دعا اٹھائے جو تو التجا کے ساتھ
گل کو توڑا ہے دل بلبل ناشاد کے ساتھ
ممنون کرم ہے یہ خطا کار ہمیشہ
کہاں تک اپنا کوئی عرض مدعا نہ کرے
اک ٹھنڈی سانس لیتے ہیں خاموش ہو گئے
حرص وہوائے دہر میں ہم مبتلا رہے
آنکھیں لڑائی میں نے جو اس شہسوار سے
جو ہے درکار وہ اے بار خدا ملتا ہے
اس قمر کا طعن مہر چرخ پر معقول ہے
آپ کو گر وصل سے انکار ہے
بے ادب دست ہوس ہونگے ترے دامن سے
جب سے ہم محو خیال رخ دلدار ہوئے
مجھے اب لحد کے اندر کہو کیا قرار آئے
شرم آئی بھی نہ تم کو ہم سے ملا کرتے
مشکل مرحلہ عشق جو سر ہو جائے
ملتا ہے نور سبکو ری جلوہ گاہ سے
فنا کے بعد بشر کے لئے بقا بھی ہے
جو الجھیگا دربان مجھ بینوا سے
پیام اس نے زراہ عتاب بھیجا ہے
اتنا تو مجھ غریب پہ احسان کیجئے
وہ برق وش جو نگاہوں سے دور ہوتا ہے
ستانا انکو ہے منظور ہر بہانے سے
بسر اوقات یوں ہماری ہے
ہمارے دل کی حسرت صحن گلشن میں نکلتی ہے
خدا نے دی ہے لطافت مری زبان کیلئے
سینہ غم و آلام سے اس وقت ہدف ہے
نظم اس دست حنائی کا جو مضموں ہو جائے
شکوہ بیجا آسماں سے ہم کو بیدادی کا ہے
زلف سر کی صورت مہ عارض دلبر کھلے
مریض عشق ہوں ایسی کوئی دوا مل جائے
کیا کیا نہ زیر چرخ بریں خانماں مٹے
بھیجدو جھوٹی شراب اپنی دوا کے واسطے
در پیش اس جہاں سے تم کو سفر بھی ہے
دم آخر ہے دعا مانگ دوا رہنے دے
آجائے تری رحمت کیوں دیر لگائی ہے
وصل اس کا گرنہیں ممکن کسی تدبیر سے
عاجز میں بہت ہوں تری بیدادگری سے
قتل کرکے مجھے پچھتاؤ گے
میں آج کل ہوں سر خوش صہبائے شاعری
ہے اتنی چاک کہ سالم رگ گلو نہ رہی
اٹھاؤں ہاتھ جو میں نالہ کش دعا کیلئے
بو ایک گل میں پائی نہ اس گلعذار کی
اشعار کا ہمارے ہر شخص مشتری ہے
دلوں میں ربط وفا بیشمار باقی ہے
محبت ہے مجھے ایسے حسین سے
تیرے اندوہ میں ایسی ہوئی حالت میری
مرے عشق کا غل مچا چاہتا ہے
دور آنکھوں سے جو تم ہو گے قیامت ہوگی
جواں بتوں میں ذرا سی بھی دلبری ہو جائے
دلشاد اپنے وصل سے اے جان کر مجھے
نہ ہو درد جس دل میں ایسا ہے کوئی
شام فرقت میں ہیں روگر دانیاں احباب کی
شرکت بزم کو لازم ہے اجازت تیری
خم نور شیشہ نور ہے پیمانہ نور ہے
اثر جذب دل نے دکھایا مجھے
حشر کے دن تشنہ لب جسدم لب کوثر گئے
علم کا زور دیا عقل کی طاقت دی ہے
دل مکدر ہو تو جینے کا مزہ خاک رہے
جو تجھ کو مری کچھ تمنا نہیں ہے
سوزش اسدرجہ ہوئی داغ دل رنجور کی
نہایا جو خوں میں وہ بسمل یہی ہے
اے فلک ہجر کی شب تو نہ دکھائی ہوتی
دل سیہ ہو جائے رکھتا ہوں الفت اور کی
رہا جو دیر میں کعبہ کی الفت آہی گئی
رتبہ بڑھایا شعرکا لطف شراب نے
اوصاف سے ہے انکی طبیعت بھری ہوئی
اسی کا رنج اسی کا خیال رہتا ہے
چہر ہ تو دکھا یہ کہے دلدار سے کوئی
صبح دم مجھ سے جدا وہ سیم تن ہونے کو ہے
کس قدر نازک تمہاری چال ہے
بہت غم سے اب ناتواں دل ہوا ہے
یہی تذکرہ ہے یہی گفتگو ہے
مری اشکباری کا حاصل لہو ہے
تری آستان کی جسے آرزو ہے
رباعیات
خمہ برغزل حضرت ناسخ مرحوم ومغفور
خمسہ برغزل حضرت منیرؔ مرحوم ومغفور
افسر اعلیٰ کا عہدہ اب عطاان کو ہوا
قصیدہ الوداعی خاں بہادر جناب منشی شیخ امانت اللہ صاحب پی جی ایس ۔۔۔
ہو مبارک پھر چمن میں آئی ہے فصل بہار
خیر مقدم خان صاحب جناب منشی سید واحد علی صاحب۔۔۔۔۔
قطعہ در مدح جناب مولوی محمد جنید صاحب نعمانی بی اے ایل ایل بی۔۔۔۔
قطعہ مبارکبادی جشن شادی جناب مسٹر ولی صاحب گورنمنٹ ۔۔۔۔۔
سہرا در تقریب کتخدائی عزیزی منشی شمامتی سروپ بی اے متعلم ایم اے ۔۔۔۔
قصیدہ در تہنیت چیر مینی جناب بابو برجندر سروپ صاحب بی اے ۔۔۔۔
سہرا در تقریب کتخدائی عزیزی منشی محمداختر حسن سلمہ بی اے۔۔۔
قطعہ تاریخ در تہنیت خطا یافتن نواب بہادری خان بہادر عالیجناب نواب ۔۔۔۔
سہرا دل تقریب کتخدائی عزیزی منشی محمد انور حسن سلمہ بی اے ۔۔۔۔
قطعہ تاریخ انتقال پر ملال رائے بہادر بابو آنند سروپ صاحب۔۔۔۔
در مدح ڈاکٹر ہولاس راے صاحب راے زادہ آنریری فزی شین وسرجن۔۔۔۔۔
کاتب کی ستم ظریفی
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.