سر ورق
خالقا میں ہوں تیر ا جان ہے تیری دل ہے تیرا
اندیشہ کچھ نہیں مجھے یوم القیام کا
جب حال میرا روبرواس کے بیاں ہوا
منہ دکھا دیجے بے نقاب اپنا
دل ہمیشہ مایل زلف پریشان ہی رہا
رات کو تھا ذکر یہاں کس عاشق مشہور کا
گل کا وظیفہ باغ میں ہے بن میں خار کا
صد شکر میں مقیم دل ہر بشر ہوا
سامنے جس وقت میرے خلد ہفتم آگیا
روشن ہے آفتاب رخ بے نقاب کا
عشق قامت دل میں پیدا ہو گیا
دردِ شوقِ وصل نقد دل چورا کر لے چلا
جب سے دل بازیچۂ طفل برہمن ہوگیا
ایک دن بھی جو وہ دلبر مرا مہمان ہوتا
عشق کے بازار میں سودا اگر بنتا جنون
ہے آئینہ میں دل کے عشق جب سے ایک فرنگن کا
اے خدا کب تک مجھے ترسائے گا
لکھا ہے میرے نام کا لکھا نہیں پہونچا
بیجا نہیں کھلتا کہ بجایا نہیں کھلتا
گھمنڈ رکھتے ہو تم اب تو بیوفائی کا
دل تنورِ آتش فرقت سے اخگر ہو گیا
دنیا میں نام ایک سے ہوتا ہے چار کا
برای پڑھ گئی کیا ہی چلن برائی کا
ابھی موقع ملا ہے عمر بھر میں ایکجائی کا
خاموش کیوں ہے اے بت عیار بے سبب
صورت سے اوسکے دیکھئے الفت عیاں ہے اب
کل میرے گھر میں تھامہ کامل تمام شب
کیونکر میں کروں کاکل پہچان کی شکایت
کوئ قاتل سے سلامت واپس آنا ہے عبث
ہے عندلیب دل بہت ہی بیقرار آج
ای خوش خرام میرے بہہ رفتار کی طرح
ہوا ہے پان کے رنگ سے ہی دامن جاں سرخ
چاندنی میں ہے میرا بستر سفید
کر اپنے دیر دل میں تو اوس ذوالمنن کی یاد
اوس شکر لب کے ہیں باتیں قند سی بڑھ کر لذیذ
وہ دیکھو وہ نظر آتی ہیں اب حق الیقین بن کر
واقعہ شب یاد آیا جوبن اوس کا دیکھ کر
وہ بت آتا ہے لہاں صاحب ایمان ہو کر
وہ میرے پاس دیکھئے آیا نہیں ہنوز
نظر ہر ہر کی ناحق ہے رخ طفل بر ہمن پر
اوس جنگ جو کی گر وہی رہتے ہیں جان ودل
ہم وفادار ہیں ہم کو ہے وفا سے اخلاص
ہے قدموں تلے یار کے جائے غش
اظہار لطف و شکوہ اغیار ہے غلط
اے برہمن نہیں ہمیں زنار سے غرض
آج پہرآتا ہے بن ٹھن کر وہ قاتل الحفیظ
اوس شعلہ رو کے عشق میں جلتی ہے جان شمع
ملتا نہیں اے یار مجھے خود میرا سراغ
دل میں فروغ حسن ہے یا نور کا چراغ
محرم راز کبریا ہے عشق
خنجر الفت سے اب گردن کشی ممکن نہیں
یار آجاوے کسی وہب سے الہی یہاں تلک
ہے جراح فرقت رولانے کے قابل
نظارۂ رخ گل گر صبا مکرتے ہم
حق نے اوس سفاک کو دی کیا ضرر کی انگلیاں
چاندنی پر دیکھ ب رشک قمر کے ہاتھ پاؤں
ہو گئے چپ سن کے کچھ مینے کہا گر کان میں
رخ پر تمہارے زلف معمبر اگر نہیں
ہم دل سے ان پہ مرتے ہیں ان کو یقیں نہیں
اوڑا کر خاک مہینہ پر غیر کے تو آمیرے گھر میں
قسمت میں جو لکھا ہے وہ تحریر ہاتھ میں
عارض روشن سراسر نور ہیں
دل میں بتوں کے رحم خدا کی قسم نہیں
بتوں کے دل میں سرموخدا کا ڈر ہی نہیں
رحم ان کو مجھ پہ گر آتا نہیں
کیا لگا ہے لوٹنے اشکوں کادریا پاؤں میں
مکاں دل میں بتوں کچھ تمہارا کام نہیں
دیکھ کر اوس یار کی تصویر کو
زلف و ہان عارض پر نور پہ پگڑی شب کو
کہو جا کر ہمارے مہربان کو
اونکے گھر تک تو مجھے جا کے ذرا آنے دو
خدا وہ دن بھی لاوے گا کہ تم ہم ملکے یہاں دونوں
قاصد یہ ہی کہنا میرے جاناں سے زیادہ
اب کچھ گلا نہیں مجھے اپنی نصیب سے
میں آئینہ ہوں یامیری تقدیر آئینہ
صورت کا اون کے دیکھئے نقشہ ہی اور ہے
جب دو قدم ہی چل کے قیامت بپا کرے
تمہیں دریافت کرنا آسمان سے
حال تمنے میرا ذرا نہ سنے
خبر تو کل سے ہے اوس فتنہ زا کے آنے کی
ہم اہل و دل کی کبھی پروا نہیں کرتے
بحر جہاں میں کیا تیری قدرت کا رنگ ہے
زنار پہنے ہیں بت پر فن کے واسطے
جان مٹھی میں ہاتھ میں سر ہے
ای قطب کس طرح وہ مہ انجمن ملے
یاد حق میں سب ہیں ہر ہر قبلہ من دیکھئے
کہتا ہے جنون آرزو ہے چل کئی دن سے
آنکھیں چڑی ہوئی نہیں اس مست خواب کی
خوف سے محشر کے یارب جی ہی بیٹھا جائے ہے
سر بسجدہ ہوں میں جائے سجدہ شکرانہ ہے
پھر ہیں خود رفتہ خودی کے واسطے
ہو گئے چپ کہتے کہتے بات آدھی رہ گئی
ہے برآمدماہ وہ جس سے ہے ششدر چاندنی
غم زلف کو سربسر و اب دے
گھور و بتوں کو آنکھوں میں جب تک کہ نور ہے
دم سرد اپنی آہوں سے ہر اکدم دم جو پھرتا ہے
کیا ڈرایا کرتے ہو تم ابروی خمدار سے
جوش جنون ذرا لب صحرا اوٹھائی
بھولے ہے لفظ قد کا زبان پر نہ لائے
ہم سے جدا ہوا اوسے اب کیا ملائے
طاق ابر وقطب محراب عبادت خانہ ہے
آب خنجر سے گلا ہو گیا سیراب مگر
وہ چشم تر لال لال ہے یہاں لہو کے قطرے ٹپک رہے ہیں
ہوتی ہے بہت زلف گرہ گیر تمہاری
خدا کے روبرو گربت سے گفتگو ہوتی
اے بت سنگدل ستم افزا
یہ غزل سن کے وہ بت کافر
بے وفا کو وفا مبارک ہو
خمسہ مولوی عبد الواحد صاحب واحد۔۔۔
قطعہ تاریخ از لبریزی جام فکر جرعہ نوش ۔۔۔۔
AUTHORक़ुतबुद्दी अहमद क़ुतुब
YEAR1893
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER मतबा मुफ़ीद दक्कन, हैदराबाद
AUTHORक़ुतबुद्दी अहमद क़ुतुब
YEAR1893
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER मतबा मुफ़ीद दक्कन, हैदराबाद
سر ورق
خالقا میں ہوں تیر ا جان ہے تیری دل ہے تیرا
اندیشہ کچھ نہیں مجھے یوم القیام کا
جب حال میرا روبرواس کے بیاں ہوا
منہ دکھا دیجے بے نقاب اپنا
دل ہمیشہ مایل زلف پریشان ہی رہا
رات کو تھا ذکر یہاں کس عاشق مشہور کا
گل کا وظیفہ باغ میں ہے بن میں خار کا
صد شکر میں مقیم دل ہر بشر ہوا
سامنے جس وقت میرے خلد ہفتم آگیا
روشن ہے آفتاب رخ بے نقاب کا
عشق قامت دل میں پیدا ہو گیا
دردِ شوقِ وصل نقد دل چورا کر لے چلا
جب سے دل بازیچۂ طفل برہمن ہوگیا
ایک دن بھی جو وہ دلبر مرا مہمان ہوتا
عشق کے بازار میں سودا اگر بنتا جنون
ہے آئینہ میں دل کے عشق جب سے ایک فرنگن کا
اے خدا کب تک مجھے ترسائے گا
لکھا ہے میرے نام کا لکھا نہیں پہونچا
بیجا نہیں کھلتا کہ بجایا نہیں کھلتا
گھمنڈ رکھتے ہو تم اب تو بیوفائی کا
دل تنورِ آتش فرقت سے اخگر ہو گیا
دنیا میں نام ایک سے ہوتا ہے چار کا
برای پڑھ گئی کیا ہی چلن برائی کا
ابھی موقع ملا ہے عمر بھر میں ایکجائی کا
خاموش کیوں ہے اے بت عیار بے سبب
صورت سے اوسکے دیکھئے الفت عیاں ہے اب
کل میرے گھر میں تھامہ کامل تمام شب
کیونکر میں کروں کاکل پہچان کی شکایت
کوئ قاتل سے سلامت واپس آنا ہے عبث
ہے عندلیب دل بہت ہی بیقرار آج
ای خوش خرام میرے بہہ رفتار کی طرح
ہوا ہے پان کے رنگ سے ہی دامن جاں سرخ
چاندنی میں ہے میرا بستر سفید
کر اپنے دیر دل میں تو اوس ذوالمنن کی یاد
اوس شکر لب کے ہیں باتیں قند سی بڑھ کر لذیذ
وہ دیکھو وہ نظر آتی ہیں اب حق الیقین بن کر
واقعہ شب یاد آیا جوبن اوس کا دیکھ کر
وہ بت آتا ہے لہاں صاحب ایمان ہو کر
وہ میرے پاس دیکھئے آیا نہیں ہنوز
نظر ہر ہر کی ناحق ہے رخ طفل بر ہمن پر
اوس جنگ جو کی گر وہی رہتے ہیں جان ودل
ہم وفادار ہیں ہم کو ہے وفا سے اخلاص
ہے قدموں تلے یار کے جائے غش
اظہار لطف و شکوہ اغیار ہے غلط
اے برہمن نہیں ہمیں زنار سے غرض
آج پہرآتا ہے بن ٹھن کر وہ قاتل الحفیظ
اوس شعلہ رو کے عشق میں جلتی ہے جان شمع
ملتا نہیں اے یار مجھے خود میرا سراغ
دل میں فروغ حسن ہے یا نور کا چراغ
محرم راز کبریا ہے عشق
خنجر الفت سے اب گردن کشی ممکن نہیں
یار آجاوے کسی وہب سے الہی یہاں تلک
ہے جراح فرقت رولانے کے قابل
نظارۂ رخ گل گر صبا مکرتے ہم
حق نے اوس سفاک کو دی کیا ضرر کی انگلیاں
چاندنی پر دیکھ ب رشک قمر کے ہاتھ پاؤں
ہو گئے چپ سن کے کچھ مینے کہا گر کان میں
رخ پر تمہارے زلف معمبر اگر نہیں
ہم دل سے ان پہ مرتے ہیں ان کو یقیں نہیں
اوڑا کر خاک مہینہ پر غیر کے تو آمیرے گھر میں
قسمت میں جو لکھا ہے وہ تحریر ہاتھ میں
عارض روشن سراسر نور ہیں
دل میں بتوں کے رحم خدا کی قسم نہیں
بتوں کے دل میں سرموخدا کا ڈر ہی نہیں
رحم ان کو مجھ پہ گر آتا نہیں
کیا لگا ہے لوٹنے اشکوں کادریا پاؤں میں
مکاں دل میں بتوں کچھ تمہارا کام نہیں
دیکھ کر اوس یار کی تصویر کو
زلف و ہان عارض پر نور پہ پگڑی شب کو
کہو جا کر ہمارے مہربان کو
اونکے گھر تک تو مجھے جا کے ذرا آنے دو
خدا وہ دن بھی لاوے گا کہ تم ہم ملکے یہاں دونوں
قاصد یہ ہی کہنا میرے جاناں سے زیادہ
اب کچھ گلا نہیں مجھے اپنی نصیب سے
میں آئینہ ہوں یامیری تقدیر آئینہ
صورت کا اون کے دیکھئے نقشہ ہی اور ہے
جب دو قدم ہی چل کے قیامت بپا کرے
تمہیں دریافت کرنا آسمان سے
حال تمنے میرا ذرا نہ سنے
خبر تو کل سے ہے اوس فتنہ زا کے آنے کی
ہم اہل و دل کی کبھی پروا نہیں کرتے
بحر جہاں میں کیا تیری قدرت کا رنگ ہے
زنار پہنے ہیں بت پر فن کے واسطے
جان مٹھی میں ہاتھ میں سر ہے
ای قطب کس طرح وہ مہ انجمن ملے
یاد حق میں سب ہیں ہر ہر قبلہ من دیکھئے
کہتا ہے جنون آرزو ہے چل کئی دن سے
آنکھیں چڑی ہوئی نہیں اس مست خواب کی
خوف سے محشر کے یارب جی ہی بیٹھا جائے ہے
سر بسجدہ ہوں میں جائے سجدہ شکرانہ ہے
پھر ہیں خود رفتہ خودی کے واسطے
ہو گئے چپ کہتے کہتے بات آدھی رہ گئی
ہے برآمدماہ وہ جس سے ہے ششدر چاندنی
غم زلف کو سربسر و اب دے
گھور و بتوں کو آنکھوں میں جب تک کہ نور ہے
دم سرد اپنی آہوں سے ہر اکدم دم جو پھرتا ہے
کیا ڈرایا کرتے ہو تم ابروی خمدار سے
جوش جنون ذرا لب صحرا اوٹھائی
بھولے ہے لفظ قد کا زبان پر نہ لائے
ہم سے جدا ہوا اوسے اب کیا ملائے
طاق ابر وقطب محراب عبادت خانہ ہے
آب خنجر سے گلا ہو گیا سیراب مگر
وہ چشم تر لال لال ہے یہاں لہو کے قطرے ٹپک رہے ہیں
ہوتی ہے بہت زلف گرہ گیر تمہاری
خدا کے روبرو گربت سے گفتگو ہوتی
اے بت سنگدل ستم افزا
یہ غزل سن کے وہ بت کافر
بے وفا کو وفا مبارک ہو
خمسہ مولوی عبد الواحد صاحب واحد۔۔۔
قطعہ تاریخ از لبریزی جام فکر جرعہ نوش ۔۔۔۔
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।