سر ورق
فہرست
حرف آغاز
رنجور عظیم آبادی - ایک تعارف
فہرست غزلیات
تھا چہرۂ صبیح سے اٹھنا نقاب کا
مکاں میں ہونا لابدی ہے انگلش سازو ساماں کا
چارہ سازوں سے مریض عشق کب اچھا ہوا
روتا ہمیں جو دیکھا، دل اس کا پگھل گیا
مرزائے قادیاں تھے پیمبر، دریں چہ شک
دیتا ہے مجھ کو چرخ کہن بار بار داغ!
نہیں ہے پاس اگر وہ مس، رہوں کیوں مبتلا غم میں؟
تیغ نگہ ناز کے قربان بہت ہیں
مدعی سرچڑھائے جاتے ہیں
اگر چہ ہتھیار سے ہیں ڈرتے مگر ارادے بڑے بڑے ہیں
شاد و خرم تھا کبھی میرا دل ناشاد بھی
باعث فخرِ عظیم آباد ہیں آزاد بھی
کب چین ہے قسمت میں مجھ آوارہ وطن کی
کیوں انس ہو قفس سے نہ اے باغباں مجھے
نہیں پوشیدہ ہرگز ترا منظور نظر مجھ سے
حال عالی خاندانی کا نہ پوچھو یار سے
میں اور ہم آغوش ہوں اس رشک پری سے
تہہ و بالا جہاں کو کر رکھا ہے اپنی اودھم سے
غرض سرمہ لگانے سے۔ نہ مطلب پان کھانے سے
یہاں تک یار گھبراتا ہے میرے گھر میں آنے سے
یقیناً ہے کوئی ماہ منور پیچھے چلمن کے
اگر چلمن کے باہر وہ بت کافر ادا نکلے
جنازہ دھوم سے اس عاشق جانباز کا نکلے
نہ جب تک میرے گھر سے یہ متاعی بیسوا نکلے
دردِ دل جس کے لئے روح فزا ہوتا ہے
سودائے سجدہ شام و سحر میرے سر میں ہے
انسان کی قدر کچھ نہیں جب تک وطن میں ہے
آیا ہے جب سے مجھ کو نظر اک غزال چشم
اوئی لڑکی! یہ تونے نوج کیا صورت بنائی ہے
ہیں زخم دل کے واسطے ساماں نئے نئے
فہرست مشمولات
سارے جہاں سے بہتر ہے قادیاں ہمارا
اے عشق! تو نے آخر فتنہ اٹھا کے چھوڑا
خانۂ دشمن کو جا کر باغِ رضواں کردیا
گاتا ہے اپنی مدح کا تو خود ترانہ کیا
جب سے پنہاں ہوئی اس رشک قمر کی صورت
مجھ سا عاشق نہ ملے گا بخدا میرے بعد
کچھ پوچھئے نہ رتبہ عالی جائے دل
ز دنیا چو حرمان و غم بروہ ہاشم
آنچہ معیوب ثمروند ہنر می بینم
کن تمناؤں کے ساتھ اس بت کے گھر جاتے ہیں ہم
باز آئے گونہ حالت دل کے بیاں سے ہم
جی چاہتا ہے یہ نہ ملیں اب کسی سے ہم
اسی کا نور ہے پر تو فگن خورشین تاباں میں
ہم سے کیوں ہوتا ہے بیزار چلے جاتے ہیں
کہاں شکستہ دلوں کا خیال کرتے ہیں
کب کوئی بات بھی ہم ان سے نہاں رکھتے ہیں
نہ چھت، نہ فرش، نہ دیوار و در کو دیکھتے ہیں
نہ ہے فصاحت، نہ ہے بلاغت، نہ اب ہے علم البیان باقی
فرقت میں تری، چین کی صورت نہیں دیکھی
نہ اگلی وضع کی شائق میسر بیبیاں ہوں گی
پہلے سے اب بڑھ کے الفت اپنی جتلانے لگے
بتوں کی جستجو میں دیر کے عازم نہ ہم ہوں گے
خدا گر راس لائے ہم بتوں کی کان دیکھیں
ہاں تو جلدی انتہا کی عمر مستعجل میں ہے
اعجوبہ کیفیت دل ناشادماں کی ہے
نہ ضد کیجئے اور نہ ہٹ کیجئے
وہ لڑکا جلتے عرشے پر کھڑا تھا
گرمیوں میں نام تک رہتا نہیں ۃے ابر کا
ہیں جو میرے برادر امجد
الف اللہ کو واحد جانو
فہرست
ذرا برف دے میرے لب سے لگا
ہو رہے ہیں نت نئے قانون جاری ان دنوں
نویں کیوں نہ اگست کی ہو مبارک
کیوں یہ ماتم بپا ہے پٹنے میں
مسند علم تو پائیں جہلا یعنی چہ؟
سامنے تیرے اگر وہ پیاری صورت آئے گی
فہرست اشعار کلام رنجور عظیم آبادی
فہرست اشعار بیاض رنجور عظیم آبادی
AUTHORرنجور عظیم آبادی
YEAR2000
CONTRIBUTORریختہ
PUBLISHER خدا بخش لائبریری،پٹنہ
AUTHORرنجور عظیم آبادی
YEAR2000
CONTRIBUTORریختہ
PUBLISHER خدا بخش لائبریری،پٹنہ
سر ورق
فہرست
حرف آغاز
رنجور عظیم آبادی - ایک تعارف
فہرست غزلیات
تھا چہرۂ صبیح سے اٹھنا نقاب کا
مکاں میں ہونا لابدی ہے انگلش سازو ساماں کا
چارہ سازوں سے مریض عشق کب اچھا ہوا
روتا ہمیں جو دیکھا، دل اس کا پگھل گیا
مرزائے قادیاں تھے پیمبر، دریں چہ شک
دیتا ہے مجھ کو چرخ کہن بار بار داغ!
نہیں ہے پاس اگر وہ مس، رہوں کیوں مبتلا غم میں؟
تیغ نگہ ناز کے قربان بہت ہیں
مدعی سرچڑھائے جاتے ہیں
اگر چہ ہتھیار سے ہیں ڈرتے مگر ارادے بڑے بڑے ہیں
شاد و خرم تھا کبھی میرا دل ناشاد بھی
باعث فخرِ عظیم آباد ہیں آزاد بھی
کب چین ہے قسمت میں مجھ آوارہ وطن کی
کیوں انس ہو قفس سے نہ اے باغباں مجھے
نہیں پوشیدہ ہرگز ترا منظور نظر مجھ سے
حال عالی خاندانی کا نہ پوچھو یار سے
میں اور ہم آغوش ہوں اس رشک پری سے
تہہ و بالا جہاں کو کر رکھا ہے اپنی اودھم سے
غرض سرمہ لگانے سے۔ نہ مطلب پان کھانے سے
یہاں تک یار گھبراتا ہے میرے گھر میں آنے سے
یقیناً ہے کوئی ماہ منور پیچھے چلمن کے
اگر چلمن کے باہر وہ بت کافر ادا نکلے
جنازہ دھوم سے اس عاشق جانباز کا نکلے
نہ جب تک میرے گھر سے یہ متاعی بیسوا نکلے
دردِ دل جس کے لئے روح فزا ہوتا ہے
سودائے سجدہ شام و سحر میرے سر میں ہے
انسان کی قدر کچھ نہیں جب تک وطن میں ہے
آیا ہے جب سے مجھ کو نظر اک غزال چشم
اوئی لڑکی! یہ تونے نوج کیا صورت بنائی ہے
ہیں زخم دل کے واسطے ساماں نئے نئے
فہرست مشمولات
سارے جہاں سے بہتر ہے قادیاں ہمارا
اے عشق! تو نے آخر فتنہ اٹھا کے چھوڑا
خانۂ دشمن کو جا کر باغِ رضواں کردیا
گاتا ہے اپنی مدح کا تو خود ترانہ کیا
جب سے پنہاں ہوئی اس رشک قمر کی صورت
مجھ سا عاشق نہ ملے گا بخدا میرے بعد
کچھ پوچھئے نہ رتبہ عالی جائے دل
ز دنیا چو حرمان و غم بروہ ہاشم
آنچہ معیوب ثمروند ہنر می بینم
کن تمناؤں کے ساتھ اس بت کے گھر جاتے ہیں ہم
باز آئے گونہ حالت دل کے بیاں سے ہم
جی چاہتا ہے یہ نہ ملیں اب کسی سے ہم
اسی کا نور ہے پر تو فگن خورشین تاباں میں
ہم سے کیوں ہوتا ہے بیزار چلے جاتے ہیں
کہاں شکستہ دلوں کا خیال کرتے ہیں
کب کوئی بات بھی ہم ان سے نہاں رکھتے ہیں
نہ چھت، نہ فرش، نہ دیوار و در کو دیکھتے ہیں
نہ ہے فصاحت، نہ ہے بلاغت، نہ اب ہے علم البیان باقی
فرقت میں تری، چین کی صورت نہیں دیکھی
نہ اگلی وضع کی شائق میسر بیبیاں ہوں گی
پہلے سے اب بڑھ کے الفت اپنی جتلانے لگے
بتوں کی جستجو میں دیر کے عازم نہ ہم ہوں گے
خدا گر راس لائے ہم بتوں کی کان دیکھیں
ہاں تو جلدی انتہا کی عمر مستعجل میں ہے
اعجوبہ کیفیت دل ناشادماں کی ہے
نہ ضد کیجئے اور نہ ہٹ کیجئے
وہ لڑکا جلتے عرشے پر کھڑا تھا
گرمیوں میں نام تک رہتا نہیں ۃے ابر کا
ہیں جو میرے برادر امجد
الف اللہ کو واحد جانو
فہرست
ذرا برف دے میرے لب سے لگا
ہو رہے ہیں نت نئے قانون جاری ان دنوں
نویں کیوں نہ اگست کی ہو مبارک
کیوں یہ ماتم بپا ہے پٹنے میں
مسند علم تو پائیں جہلا یعنی چہ؟
سامنے تیرے اگر وہ پیاری صورت آئے گی
فہرست اشعار کلام رنجور عظیم آبادی
فہرست اشعار بیاض رنجور عظیم آبادی
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔