حور پر آنکھ نہ ڈالی کبھی شیدا تیرا
زبان خبر سے جب نام تیرا جا نجان نکلا
ہے مصر میں شہرہ تری شیرین دہنی کا
حلف وعدہ سے ترے دشوار جینا ہوگیا
عارض اس رشک چمن کا گل رعنا سمجھا
ہوشیاری نے سمگر تری بیہوش کیا
مقابل آرسی میں عکس جو اسکا نمایاں تھا
سادہ رو ایک بت غنچہ دہن مجھ کو دیا
پیدا ہو جس سے رخش کسی شہسوار کا
محتسب دلکو نہ رند ونکی بہتے نہ دیکھا
گرمی سے اس کے رخ کی یہ گلشن دہک گیا
اک پر یکا پھر مجھے شیدا کیا
آزردہ کیوں ہوئے جو میں آیا تو کیا ہوا
اک جہاں دیوانہ اس زلف دوتا کا ہوگیا
لالہ رویوں سے کب فراغ رہا
خنجر قاتل پہ رکھدوں گا گلا
مشہور رند خاص سے تا عام ہوچکا
طور اغماض کا انداز ادا کا دیکھا
رانوں کو بھی وہ آکے کئی بار رہ گیا
ہر دم کا خیال رخ زیبا بہن جانا
آج انکار نہ فرمایئے آپ
نرہا جیسا تھا آگے گل رخسار کا روپ
کہتی ہیں جس کو عرش برین ہے وہ بام دوست
کیا کہیے کاٹی ہجر میں کیونکر تمام رات
جستجو ے شاہد مقصود ہے ابدل عبث
ماہر ودلبر ہوا ہے آن کر ہمخانہ آج
ناز کافر نہ اٹھا منت دیندار نہ کھینچ
ساقی نہیں شیشے میں مئے ہو شربابند
زندگی کردیگا ہجران سے دل ناکام تلخ
کھلی ہے کنج قفس میں مری زبان صیاد
سکت کہاں جو کر ہے تیرا ناتوان فریاد
رشک آئینے کو آئی مری حیرانی پر
ہونے دے شاذ منکر و نکوازدحام پر
باڑھ رکھواتا ہے قاتل خنجر فولاد پر
پھر لہو سرخ ہوا جسم میں کالا ہو کر
کیونکر نہ ہو وے خاک کے پتلے کو جان عزیز
آگیا پیغام دلبر عاشق مضطر کے پاس
میکدوں میں کرتی ہیں گررند مے آشام رقص
اب پسند آنے لگا اس کو ہمارا اختلاط
نہ کس طرح سے کریں نالہ وفغان مشتاق
سر سبز ہیں نسرین وگل دیاسمن اب تک
لگائی سوز محبت نے کیا بدنمیں آگ
دیدگل کی تجھے پڑ جائینگے لالے بلبل
غیر ہے حسرت گلزار میں حال بلبل
جانیں راحت کو نہ آگاہ ہیں آرام سے ہم
شتاب لکھے ثنائے رخ نگار قلم
دل کو پھر کاکل میں الجھاتے ہیں ہم
یون کسی طرح وصف خط مشکبو کر یں
باقی رہے تمیز نہ پھر خوب وزشت میں
نہ ستا درپہ پڑارہنے دے کیا لیتے ہیں
گر تجھے روح رواں راحت جان کہتے ہیں
سرو کے حق میں نبرزآرہ شمشاد ہیں
نہ دنیا کی خبر ہے کچھ نہ دین کا ہوش ہو سرمیں
از لسر تلخی ہجران جو لکھی تھی مقدر میں
قفس سے کم نہیں ہے روح کو تن ہجر جانا میں
سرکشی عشق کی درگاہ میں منظور نہیں
غیر نے لاکھ جوڑ مارے ہیں
ہے ہجوم درد وغم تشویش پر دل میں نہیں
غیر کیا دوست بھی اب دشمن جان سارے ہیں
گلے لگا ئیں بلائیں لیں تم کو پیار کریں
کیسی ہے حسرت دید رخ جانان مجھ کو
نمود خط ہوا حسن وجمال لینے کو
ضبط نالے کو کروں ہردم کہ روکوں آہ کو
اس ترک ماہر وکو جو ذوق شراب ہو
چشم وحدت سے اگر یان کا تماشادیکھو
خون گرفتہ کوئی جینے سے نیون بیزار ہو
وہ دیوانہ تھا میں جسکا ہوا غم اہل عالم کو
چلتی رہی ہے اس کو جی میں تلوار ہمیشہ
نیچی کر لیتے ہیں شرما کر دم گفتار آنکھ
آنکھ تجھ بن جو کسی پربت عیار پڑے
صدمے گذرے ایذا گزری
جب شنو مشورہ ہے خلوتے ہے
کوچہ سے تیرے عاشق شوریدہ گئے
کمر پہ جیسے تری کا کل رسا آئی
تم تو چھڑا کے ہاتھ سے دامان نکل گئے
کیونکر نبھے گی ہم سے ملاقات آپ کی
’ عنایت کی نظر ہم نہیں ہے
جب صبا زلف کو اس حور کی چھو آتی ہے
برسوں میں مرے یار کی لے کر خبر آئی
ملے نہ درد بھی ساقی سے یا شراب ملے
خیال اور کچھ اے رشک حور ہوتا ہے
سنی سرگوشیاں غیر ونسے اشارے دیکھے
کٹ گئے عمر غم ورنج میں بیچاروں کی
ہجر کی رات کسی طور نہیں ٹلنے کی
دی جان محبت میں کسی رشک چمن کی
نہ یاد دہان کر جاے گی
رک گیا اس پری سے جی ہی تو ہے
اپنا محبوب اپنا دلبر ہے
مدکھ نظر اسکی عطا پر تو خطا سے پہلے
زیست کے دن اپنے پورے کر چلے
حیران سے ہیں آئینے میں رخسار نکو تکنے
رشک الفت کم نہیں کچھ کاٹ سے شمشیر کے
پر بکا منھ ہے تیرا حور کا سا جسم پایا ہے
چمن میں آمد آمد ہے خزاں کی
فصل گل آئی جنون سلسلہ جبنان ہوئے
آج گلشن میں کون آتا ہے
اسنے صبر حرم کو مارا ہے
آزاد ہوں آگاہ ہیں سب میرے لقب سے
کیا ہوا یار جو آنکھوں سے نہاں ہوتا ہے
آستان یار تک اپنی رسائی کیجئے
کس دن زبان رات کو صرف دعا تھی
نسبت ید بیضا کو نہیں دروخاسے
جلوہ ترا اے صنم ہر سو نظر آیا مجھے
کشتہ تیغ تغافل ہے جو لد کشتہ ہے
دگر گون رنگ گلہامی چمن ہے اروہے گلگون سے
تاب ہر اک آنکھ کب لاتی ہے تیرے نور کی
ہو نہ مایوس ریاضت کا صلہ ملتا ہے
ہم حال اپنا انکھو دکھائے چلے گئے
منقار سے ہزار مشقت سے پر کھلے
زیبا ہیں جعد گیسوے خمدا کے لئے
گل کسی شمع رو پہ کھا بیٹھے
رخ سے پردہ اٹھا دیا کس نے
کیوں رند کی دیوانکی کریں قدر نہ عاشق
نہ انگیانہ کرتی ہے جانی تمہاری
منھ نہ ڈھانکو عبث حیا کر کے
الفت نہ کروں گا اب کسی کی
ناز ہے غمرہ ہے یا اعجاز ہے
قرار دل کو ہوا اضطراب کے بدلے
سانس دیکھی تن بسمل میں جو آتے جائے
یارب مجھے بلا لے وہ یا آپ آملے
بت کریں آرزو خدائی کی
چپنئی اومہروش تجھ کو نہ دھانی چاہیے
مدنظر جو اک بت بالا بلند ہے
اٹھا ہے پردہ فقط اک نقاب باقی ہے
مطلب ہے کیا جو کرتی ہیں وہ پھر طلب مجھے
دام لے لے کے ہیں صیاد ستم گر چھوٹے
تنگ آیا ہوں اس حور کی بیداد گری سے
واہ کیا شکل ہے ہر بت کی شباہت کیسی
نظر آتا ہے وہ بیزار خدا خیر کرے
متفرقات
تیرے سوا سنا ہی نہیں اس صفا ت کا
غزل
مجھے اسکے کو جیسے آنا تھا کیا
اک جان دیوانہ اس زلف دوتا کا ہوگیا
دیوان ثانی
دل کس سے لگاؤ کہیں دل پر نہیں ملتا
آفت شب تنہائیکی ٹل جائے تو اچھا
خبر مسیحانہ کسی سے مرامردہ اٹھا
گر کلاہ فقرسے تو آشنا ہو جائیگا
خون ہے نائب محمد کا سوای بو تراب
کچھ فقط غم ہی نہ دنیا سے گیا میرے بعد
پڑتی ہے آکر جان پر آخر بلای دل
وہ لطف ومہر کی جس پر نگاہ کرتی ہیں
قدم بڑھا ہے ادھر غیر کی مجال نہیں
بتدای حسن کامل کی خبر ملتی نہیں
کیوں نہ جو یار ہے اس حسن خدا داد کی آنکھ
منھ نہ ڈھانکو ابتو صورت دیکھ لی
برباد نہ جائیگی یہ فریاد ہماری
سائل ہوں اے کریم تو دے ذوالمنن مجھے
جھوم جھوم آتی ہے گھنگھور گھٹا ساون کی
خاموش ذات عشق کو بلبل لیے ہوئے
چڑھی تیری بیمار فرقت کو تپ ہے
غزل مشاعرہ واجد علی بادشاہ
وقار شاہ ذوی الاقتدار دیکھ چکے
دروغ ٹھہرے سب اقرار یار دیکھ چکے
سب عمر چاک کر تری حسرت میں کھوئی ہو
بدلیے کروٹیں ہر دم کہاں یہ تاب وطاقت ہے
بچ کر کدھر کو جائیگا بہرام گور سے
جران نکر نیگے کہ پریشان نکریں گے
دید گلزار جہاں کیوں نکریں سیر تو ہے
مجھ بلا نوش کو تلچھٹ بھی ہو کافی ساقی
جام بھر بھر کے مے ہوش ربا دے ساقی
لکھیں گئیں نہ دل گی دوا بارہا لگی
ساقی پہنچ تو ہاتھ پہ ساغر دھرے ہوے
تم عیادت کے لیے رند کے آتے ہی رہے
گلگشت کو جو آئے وہ رشک بہار باغ
متفرقات
مدت ہوئی نہیں دیکھا دلدار کو قیامت ہے
سلطان ابوالمظفر بہادر
دیکھے گر عارض رنگین بت غیرت حور
حور پر آنکھ نہ ڈالی کبھی شیدا تیرا
زبان خبر سے جب نام تیرا جا نجان نکلا
ہے مصر میں شہرہ تری شیرین دہنی کا
حلف وعدہ سے ترے دشوار جینا ہوگیا
عارض اس رشک چمن کا گل رعنا سمجھا
ہوشیاری نے سمگر تری بیہوش کیا
مقابل آرسی میں عکس جو اسکا نمایاں تھا
سادہ رو ایک بت غنچہ دہن مجھ کو دیا
پیدا ہو جس سے رخش کسی شہسوار کا
محتسب دلکو نہ رند ونکی بہتے نہ دیکھا
گرمی سے اس کے رخ کی یہ گلشن دہک گیا
اک پر یکا پھر مجھے شیدا کیا
آزردہ کیوں ہوئے جو میں آیا تو کیا ہوا
اک جہاں دیوانہ اس زلف دوتا کا ہوگیا
لالہ رویوں سے کب فراغ رہا
خنجر قاتل پہ رکھدوں گا گلا
مشہور رند خاص سے تا عام ہوچکا
طور اغماض کا انداز ادا کا دیکھا
رانوں کو بھی وہ آکے کئی بار رہ گیا
ہر دم کا خیال رخ زیبا بہن جانا
آج انکار نہ فرمایئے آپ
نرہا جیسا تھا آگے گل رخسار کا روپ
کہتی ہیں جس کو عرش برین ہے وہ بام دوست
کیا کہیے کاٹی ہجر میں کیونکر تمام رات
جستجو ے شاہد مقصود ہے ابدل عبث
ماہر ودلبر ہوا ہے آن کر ہمخانہ آج
ناز کافر نہ اٹھا منت دیندار نہ کھینچ
ساقی نہیں شیشے میں مئے ہو شربابند
زندگی کردیگا ہجران سے دل ناکام تلخ
کھلی ہے کنج قفس میں مری زبان صیاد
سکت کہاں جو کر ہے تیرا ناتوان فریاد
رشک آئینے کو آئی مری حیرانی پر
ہونے دے شاذ منکر و نکوازدحام پر
باڑھ رکھواتا ہے قاتل خنجر فولاد پر
پھر لہو سرخ ہوا جسم میں کالا ہو کر
کیونکر نہ ہو وے خاک کے پتلے کو جان عزیز
آگیا پیغام دلبر عاشق مضطر کے پاس
میکدوں میں کرتی ہیں گررند مے آشام رقص
اب پسند آنے لگا اس کو ہمارا اختلاط
نہ کس طرح سے کریں نالہ وفغان مشتاق
سر سبز ہیں نسرین وگل دیاسمن اب تک
لگائی سوز محبت نے کیا بدنمیں آگ
دیدگل کی تجھے پڑ جائینگے لالے بلبل
غیر ہے حسرت گلزار میں حال بلبل
جانیں راحت کو نہ آگاہ ہیں آرام سے ہم
شتاب لکھے ثنائے رخ نگار قلم
دل کو پھر کاکل میں الجھاتے ہیں ہم
یون کسی طرح وصف خط مشکبو کر یں
باقی رہے تمیز نہ پھر خوب وزشت میں
نہ ستا درپہ پڑارہنے دے کیا لیتے ہیں
گر تجھے روح رواں راحت جان کہتے ہیں
سرو کے حق میں نبرزآرہ شمشاد ہیں
نہ دنیا کی خبر ہے کچھ نہ دین کا ہوش ہو سرمیں
از لسر تلخی ہجران جو لکھی تھی مقدر میں
قفس سے کم نہیں ہے روح کو تن ہجر جانا میں
سرکشی عشق کی درگاہ میں منظور نہیں
غیر نے لاکھ جوڑ مارے ہیں
ہے ہجوم درد وغم تشویش پر دل میں نہیں
غیر کیا دوست بھی اب دشمن جان سارے ہیں
گلے لگا ئیں بلائیں لیں تم کو پیار کریں
کیسی ہے حسرت دید رخ جانان مجھ کو
نمود خط ہوا حسن وجمال لینے کو
ضبط نالے کو کروں ہردم کہ روکوں آہ کو
اس ترک ماہر وکو جو ذوق شراب ہو
چشم وحدت سے اگر یان کا تماشادیکھو
خون گرفتہ کوئی جینے سے نیون بیزار ہو
وہ دیوانہ تھا میں جسکا ہوا غم اہل عالم کو
چلتی رہی ہے اس کو جی میں تلوار ہمیشہ
نیچی کر لیتے ہیں شرما کر دم گفتار آنکھ
آنکھ تجھ بن جو کسی پربت عیار پڑے
صدمے گذرے ایذا گزری
جب شنو مشورہ ہے خلوتے ہے
کوچہ سے تیرے عاشق شوریدہ گئے
کمر پہ جیسے تری کا کل رسا آئی
تم تو چھڑا کے ہاتھ سے دامان نکل گئے
کیونکر نبھے گی ہم سے ملاقات آپ کی
’ عنایت کی نظر ہم نہیں ہے
جب صبا زلف کو اس حور کی چھو آتی ہے
برسوں میں مرے یار کی لے کر خبر آئی
ملے نہ درد بھی ساقی سے یا شراب ملے
خیال اور کچھ اے رشک حور ہوتا ہے
سنی سرگوشیاں غیر ونسے اشارے دیکھے
کٹ گئے عمر غم ورنج میں بیچاروں کی
ہجر کی رات کسی طور نہیں ٹلنے کی
دی جان محبت میں کسی رشک چمن کی
نہ یاد دہان کر جاے گی
رک گیا اس پری سے جی ہی تو ہے
اپنا محبوب اپنا دلبر ہے
مدکھ نظر اسکی عطا پر تو خطا سے پہلے
زیست کے دن اپنے پورے کر چلے
حیران سے ہیں آئینے میں رخسار نکو تکنے
رشک الفت کم نہیں کچھ کاٹ سے شمشیر کے
پر بکا منھ ہے تیرا حور کا سا جسم پایا ہے
چمن میں آمد آمد ہے خزاں کی
فصل گل آئی جنون سلسلہ جبنان ہوئے
آج گلشن میں کون آتا ہے
اسنے صبر حرم کو مارا ہے
آزاد ہوں آگاہ ہیں سب میرے لقب سے
کیا ہوا یار جو آنکھوں سے نہاں ہوتا ہے
آستان یار تک اپنی رسائی کیجئے
کس دن زبان رات کو صرف دعا تھی
نسبت ید بیضا کو نہیں دروخاسے
جلوہ ترا اے صنم ہر سو نظر آیا مجھے
کشتہ تیغ تغافل ہے جو لد کشتہ ہے
دگر گون رنگ گلہامی چمن ہے اروہے گلگون سے
تاب ہر اک آنکھ کب لاتی ہے تیرے نور کی
ہو نہ مایوس ریاضت کا صلہ ملتا ہے
ہم حال اپنا انکھو دکھائے چلے گئے
منقار سے ہزار مشقت سے پر کھلے
زیبا ہیں جعد گیسوے خمدا کے لئے
گل کسی شمع رو پہ کھا بیٹھے
رخ سے پردہ اٹھا دیا کس نے
کیوں رند کی دیوانکی کریں قدر نہ عاشق
نہ انگیانہ کرتی ہے جانی تمہاری
منھ نہ ڈھانکو عبث حیا کر کے
الفت نہ کروں گا اب کسی کی
ناز ہے غمرہ ہے یا اعجاز ہے
قرار دل کو ہوا اضطراب کے بدلے
سانس دیکھی تن بسمل میں جو آتے جائے
یارب مجھے بلا لے وہ یا آپ آملے
بت کریں آرزو خدائی کی
چپنئی اومہروش تجھ کو نہ دھانی چاہیے
مدنظر جو اک بت بالا بلند ہے
اٹھا ہے پردہ فقط اک نقاب باقی ہے
مطلب ہے کیا جو کرتی ہیں وہ پھر طلب مجھے
دام لے لے کے ہیں صیاد ستم گر چھوٹے
تنگ آیا ہوں اس حور کی بیداد گری سے
واہ کیا شکل ہے ہر بت کی شباہت کیسی
نظر آتا ہے وہ بیزار خدا خیر کرے
متفرقات
تیرے سوا سنا ہی نہیں اس صفا ت کا
غزل
مجھے اسکے کو جیسے آنا تھا کیا
اک جان دیوانہ اس زلف دوتا کا ہوگیا
دیوان ثانی
دل کس سے لگاؤ کہیں دل پر نہیں ملتا
آفت شب تنہائیکی ٹل جائے تو اچھا
خبر مسیحانہ کسی سے مرامردہ اٹھا
گر کلاہ فقرسے تو آشنا ہو جائیگا
خون ہے نائب محمد کا سوای بو تراب
کچھ فقط غم ہی نہ دنیا سے گیا میرے بعد
پڑتی ہے آکر جان پر آخر بلای دل
وہ لطف ومہر کی جس پر نگاہ کرتی ہیں
قدم بڑھا ہے ادھر غیر کی مجال نہیں
بتدای حسن کامل کی خبر ملتی نہیں
کیوں نہ جو یار ہے اس حسن خدا داد کی آنکھ
منھ نہ ڈھانکو ابتو صورت دیکھ لی
برباد نہ جائیگی یہ فریاد ہماری
سائل ہوں اے کریم تو دے ذوالمنن مجھے
جھوم جھوم آتی ہے گھنگھور گھٹا ساون کی
خاموش ذات عشق کو بلبل لیے ہوئے
چڑھی تیری بیمار فرقت کو تپ ہے
غزل مشاعرہ واجد علی بادشاہ
وقار شاہ ذوی الاقتدار دیکھ چکے
دروغ ٹھہرے سب اقرار یار دیکھ چکے
سب عمر چاک کر تری حسرت میں کھوئی ہو
بدلیے کروٹیں ہر دم کہاں یہ تاب وطاقت ہے
بچ کر کدھر کو جائیگا بہرام گور سے
جران نکر نیگے کہ پریشان نکریں گے
دید گلزار جہاں کیوں نکریں سیر تو ہے
مجھ بلا نوش کو تلچھٹ بھی ہو کافی ساقی
جام بھر بھر کے مے ہوش ربا دے ساقی
لکھیں گئیں نہ دل گی دوا بارہا لگی
ساقی پہنچ تو ہاتھ پہ ساغر دھرے ہوے
تم عیادت کے لیے رند کے آتے ہی رہے
گلگشت کو جو آئے وہ رشک بہار باغ
متفرقات
مدت ہوئی نہیں دیکھا دلدار کو قیامت ہے
سلطان ابوالمظفر بہادر
دیکھے گر عارض رنگین بت غیرت حور
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔