سرورق
فہرست
رو میں ہے رخش عمر
انتساب
حیات فن اور شخصیت میرانیسؔ
میر انیس کی ولادت
تعلیم وتربیت
شاعری کی ابتدا:
فنون شپاہ گری
حلیہ
وضع اور لباس
پابندی اوقات
اخلاق وکردار
میر انیس کا شعری ذخیرہ
نظام اوقات
انتخاب بحر
مرثیوں کے مطلعے
شعراء کی قدردانی
تقلید طرز مرثیہ
ایک مرثیے میں فرماتے ہیں:
اسی لئے تو میر انیس نے کہا تھا
اقامت گاہیں
تلامذہ
ذاتی امام باڑہ
منبر پر نشست اور پڑھنے کا انداز
پہلی مجلس
مجلس چہلم اہلیہ میر ضمیر
مجالس عظیم آباد
میر انیس حیدر آباد میں
بیماری
آخری مجلس
وفات
رباعیات انیس کا اجمالی تذکرہ اورتجزیہ
حمدیہ نعتیہ اور منقبتی کلام کے نمونے
نادراور جدید تراکیب اور اضافات الفاظ
انیسؔ کی تعلّی اور تعارف
رباعیوں پر اعتراضات
شیخ ناسخ
مرزا غالب
خواجہ آتش
میر انیسؔ مشاہیر شعر وادب کی نظر میں
مفتی میر عباس لکھنوی
محمد حسین آزادؔ
مرزا دبیرؔ
شیخ عبدالقادر
الطاف حسین حالیؔ
نوبت رائے نظرؔ
مزاج دہلوی
شبلیؔ نعمانی
اکبر الہٰ آبادی
شاد عظیم آبادی
امجد اشہری
احسن لکھنوی
حامد علی خاں بیر سٹر لکھنوی
ڈپٹی نظر احمد
امداد امام اثرؔ
ڈاکٹر گراہم بیلی
نظم طباطبائی
پنڈت سندر نرائن مشران
مولانا عبدالحئی ندوی
ذکاء اللہ
براج نرائن چکبست
سر تیج بہادر سپرو
امیر احمد علوی
عبد الحلیم شررؔ
مخموراکبرآبادی
جوش ملیح آبادی
پروفیسر مسعود حسن ادیب
جعفر علی خاں اثرؔ
ابوالکلام آزاد
مولانا عبد السلام ندوی
پروفیسر احتشام حسین
پروفیسر کلیم الدین احمد
پروفیسراکبر حیدری کاشمیری
ڈاکٹر اعجاز حسین
پروفیسر ایس جی عباس، کراچی
شاعر اہل بیت نجم آفندی
پروفیسر گوپی چند نارنگ
صالحہ عابد حسین
رام بابو سکسینہ
ڈاکٹر شبیہ الحسن
سفارش حسین رضوی
ڈاکٹرفرمان فتح پوری
سردار جعفری
نسیم امروہوی
مولانا کوثر نیازی
ڈاکٹر ناظر حسین زیدی
مہاراجہ کشن پرشاد
پروفیسر محی الدین قادری زور
لالہ سری رام
ڈاکٹر مسیح الزماں
شارب ردولوی
امیر امام حر
ڈاکٹر مسعود حسین خاں
شہید صفی پوری
انور سدید
ڈاکٹر فضل امام
ڈاکٹر نیر مسعود
ڈاکٹر شان الحق حقی
ڈاکٹر سیید عبداللہ
ڈاکٹر وقار عظیم
ڈاکٹر فدا حسین
سید ہاشم رضا
فضل قدیر
سید عابد علی عابد
احسن فاروقی
حامد حسن قادری
ڈاکٹر وحید اختر
ڈاکٹر سیدہ جعفر
آل احمد سرور
احمد ندیم قاسمی
ڈاکٹر ہلال نقوی
سید عاشور کاظمی
سید فیضیؔ
فیض احمد فیض
ڈاکٹر صفدر حسین
مولوی سید احمد صاحب فرہنگ آصفیہ
مولوی عبدالحق
نائب حسین نقوی
افتخار عارف
گوہر کو صدف میں آبرو دیتا ہے
سب سے اوّل ہے سب سے سابق ہے وہی
اپنوں کا گلہ نہ غیر ذالک کا ہے
حیران ہے عقل ودل شیدا سب میں
خلاق جہاں ہے رب اکبر تو ہے
نہ لعل میں ہے نہ گہرو سنگ میں تو
گلشن میں صبا کو جستجو تیری ہے
گلشن میں پھروں کہ سیر صحرا دیکھوں
بلبل تری یاد میں فغاں کرتی ہے
صالح بھی ترا ہے زشت بھی تیرا ہے
پتلی کی طرح نظر سے مستور ہے تو
سرگرم رہے نہ سرد آہیں ہیں یہی
مڑ کر کب تک ادھر ادھر دیکھوں میں
ہر برگ سے قدرت احد پیدا ہے
سایے سے بھی وحشت ہے وہ دیوانہ ہوں
کونین کی دولت ہے عنایت تیری
فرقت تن وجاں میں بھی غضب ہوتی ہے
ماں باپ سے بھی سوا ہے شفقت تیری
دریا تری رحمت کا اگر سر کھینچے
شاید رونے پہ رحم آیا ہے تجھے
ہیں معترف عجز ثنا خواں تیرے
دولت کی ہوس ہے نہ طمع مال کی ہے
توقیر ترے ہی آستانے سے ملی
بندے کو خیال دم بدم تیرا ہے
قانع ہو جو کچھ ہمت مردانہ ہے
لائق ترے کس نے کی عبادت تیری
ممکن نہیں عبد سے عبادت تیری
ہم نے کبھی عصیاں سے کنارا نہ کیا
دولت کی نہ خواہش ہے نہ زر چاہتے ہیں
کب شاہ وگدا سے راہ رکھتا ہوں میں
اے خالق ذوالفضل وکرم رحمت کر
آدم کو عجب خدا نے رتبہ بخشا
ہے کون سی شادی جو ترے غم میں نہیں
لالے سے عیاں بہار سرجوشی
دنیا میں محمد سا شہنشاہ نہیں
ساحل پہ ابھی تھا کہ ادھر جا اثرا
یا ختم رسل! مست مئے الفت ہیں
آدم کو یہ تحفہ یہ ہدیہ نہ ملا
کھو دل کے مرض کو اے طبیب امت
بے جا ہر کوشش وطلب کو پایا
احمد کا برادر گرامی تو ہے
کیا بھائیوں کے انس کا اندازہ ہے
وہ شاہ کہ شاہوں سے لیا باج نبی
اصحاب نے پوچھا جو نبی کو دیکھا
جو مرتبہ احمد کے وصی کا دیکھا
محبوب خدا کا جانشیں حیدر ہے
ہے شان علی سے حق کی شوکت پیدا
ہے چادر نور حق ردائے حیدر
افضل ہے اگر ایک تو اعلیٰ ہے ایک
مختار زمین وآسماں حیدر ہے
ہے کون ومکاں میں اختیار حیدر
شایاں تھے انہیں کی شان بر تر کے لیے
ہے روح امیں علی کے دربانوں میں
حیدر سا امام، حق کی رحمت سے ملا
احباب لحد تلک تو پہنچائیں گے
ایک ایک قدم لغزش مستانہ ہے
سرمہ ہے غبار رہگزار حیدر
میزان کرم میں جرم تل جاتے ہیں
روشن شمعیں تجلّی طور کی ہیں
برتر ہے ملائک کا بشر سے پایا
اک آن نہیں حق سے جدا حیدر ہے
جو صف تہ تیغ شاہ آجاتی تھی
بے دینوں کو مرتضیٰ نے ایماں بخشا
دنیا سے اٹھالے کے میں نام حیدر
افضل نہ کسی کو مرتضیٰ سے پایا
سر گرم ہوں میں نبی کی مدّاحی میں
گر شیر خدا زیست کا بانی ہو جاے
کیا اس کی صفت میں پھر کوئی بات کرے
ناکام بھی کامیاب ہوجاتا ہے
لاریب کہ مظہر العجائب ہے علی
دم الفت حیدر کا جو بھرتا ہوں میں
اب وقت سرور فرحت اندوزی ہے
موجود تھیں نعمتیں برائے حیدر
ہر غنچے سے شاخ گل ہے کیوں نذر بکف
افزوں ہیں بیاں سے معجزات حیدر
مولا کوئی کوئی مقتدا کہتا ہے
اعلیٰ رتبے میں ہر بشر سے پایا
یہ جود وسخا حاتم طائی میں نہیں
قطرے میں یہ سب جس کے وہ دریا ہے علی
فیاض علی کو ہر بشر سے پایا
کیا حرنے شرف علی کے گھر سے پایا
مطلب بھی علی ہے مدّعا بھی ہے علی
ایماں پایا علی کے در سے پایا
شاہان جہاں سب ہیں گدائے حیدر
دیدار دم نزع دکھاتے ہیں علی
امداد کو شیر حق لحد میں پہنچے
گر دوستی علی میں مرجائیں گے
افضل کوئی مرتضیٰ سے ہمت میں نہیں
آہوئے حرم ہے چشم مست حیدر
خلاق انام کبریا کو جانا
عالم یہ کتاب وعلم وحکمت کے ہیں
جام عرفاں ہے چشم مست حیدر
بیزار علی کو مال وزر سے پایا
کجکول کو تاج خسروانی کر دیں
چاہیں جو علی قطرے کو دریا کردیں
کعبے میں ہوا جو بندوبست حیدر
دینداروں نے امن کفر وشر سے پایا
رتبے میں علی کے عرش بھی پست ملا
قرآن میں ہے جا بجا ثنائے حیدر
کعبے کو ید اللہ نے آباد کیا
گر نیر دیں کی مہربانی ہو جاے
عرفاں تصدیق حجت حیدر ہے
بستی کو اجاڑ کر بسایا ہے اسے
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
ہو خاک دلا امید آزادی میں
انجام پہ اپنے آہ و زاری کر تو
ہموار ہے گر تو کچھ تجھے باک نہیں
دنیا میں نہ چین ایک ساعت دیکھا
شکل چمن صدق وصفا بگڑی ہے
کیوں زر کی ہوس میں در بدر پھرتا ہے
جو صاحب فہم ہے وہی انساں ہے
کیا قدر زمیں کی آسماں کے آگے
دل کو مرے شغل غمگساری غگساری کا ہے
جینے سے طبیعت اب ہٹی جاتی ہے
برباد کیا ہے طبع آوارہ نے
رہتے ہیں سدا ہوش بجا بینا کے
ہر صبح یہ دوڑ کر کدھر جاتا ہے
وہ صبر مرا وہ بردباری تیری
خود ڈھونڈ کے پیش اہل دل جاتا ہوں
ہاں دولت فقیر مصطفےٰ دیویں گے
کب دزد سے دولت ہنر بچتی ہے
ہے تیزی عقل و ہوش بیہوشی میں
دولت کا ہمیں خیال آتا ہی نہیں
مال و زر و افسر و حشم ملتا ہے
ان آنکھوں سے خوف لطف عالم دیکھا
مانا ہم نے کہ عیب سے پاک ہے تو
ہردم ہے خیال عذر خواہی دل میں
کب غنچے کی گلجھڑی صبا نے کھولی
نخوت یہ عبث دولت ناپاک پہ ہے
تکیے پہ نہ سر ہے نہ بدن بستر پر
اے آہ! ترا اثر نہ دیکھا ہم نے
خلق و تعظیم دولت دینی ہے
روتے ہیں لہو ہر ایک ہمدم کے لیے
اندیشے میں دن تمام ہو جاتا ہے
عاجز نہ کسی بشر کو اصلا سمجھے
کس بات میں کید کس میں تزویر نہیں
اندیشۂ باطل سحر و شام کیا
اندوہ والم سے کب یہ جاں بچتی ہے
ٹھوکر بھی نہ ماریں گے اگر خود سر ہے
دنیا جسے کہتے ہیں بلا خانہ ہے
کس زیست پہ میل مال واسباب کریں
دولت سے نہ کچھ لطف ومزہ پاتے ہیں
انساں ذی عقل وہوش ہو جاتا ہے
دولت نہ عطا کر نہ جہاں میں زر دے
جو سو خرمن سے خوشہ چیں ہوتا ہے
مہمان کی عزت میں بڑی عزت ہے
کہہ دے کوئی عیب جو سے سر گوشی میں
تا چرخ فغاں صبح گاہی نہ گئی
گر ہاتھ میں زر نہی، تو کچھ باک نہیں
برعکس ہے گر خاک میں مل مل جائے
ہے مملکت جسم میں شاہی دل کی
تعریف پر اپنی کیوں تجھے غرّ ہ ہے
یہ اوج یہ مرتبہ ہما کو نہ ملے
یہ حرص جو لے کے جا بجا پھرتی ہے
جب دیکھیں گی احوال قیامت آنکھیں
کچھ فرق کلام کہنہ و نو میں نہیں
حاصل ہو جو دولت تو تو انگر ہو جائیں
الفت ہے نہ پاس ربط دیرینہ ہے
انساں ہی کچھ اس دور میں پامال نہیں
ہر وقت زمانے کا ستم سہتے ہیں
مٹی سے بنا ہے دل کو تو سنگ نہ کر
احباب سے امید ہے بیجا مجھ کو
عصیاں سے ہوں شرمسار توبہ یارب!
افسوس یہاں سے نہ سبک بار چلے
کس منھ سے کہوں میں کہ خوش انجام ہے تو
سر کھینچ نہ شمشیر کشیدہ کی طرح
برباد گراں جنس کو بے تول نہ کر
افسوس یہ عصیاں یہ تباہی دل کی
دنیا میں کسی کا نہ سہارا دیکھا
چل جلد اگر قصد سفر رکھتا ہے
پرساں کوئی کب جوہر ذاتی کا ہے
دنیا دریا ہے اور ہوس طوفاں ہے
کیا سوچ کے اس دار فنا میں آئے
کر عجز اگر عاقل و فرزانہ ہے
ہر چند زمیں پست فلک عالی ہے
ویراں ہے کوئی گھر کہیں آبادی ہے
غفلت میں نہ کھو عمر کہ پچھتائے گا
کیوں آج دلا! خیال فردا نہ کیا
ہر دم مجھے سامنا صعوبات کا ہے
غفلت میں نہ کھو عمر جہاں فانی ہے
ضـایع نہ کر آغوش کے پالے دل کو
کانوں میں سدا حرف پریشانی ہے
جوشے ہے فنا اسے بقا سمجھا ہے
ہے کون جو عصیاں میں گرفتار نہیں
ڈھونڈوں تو نہ صورت بحالی نکلے
ایذا سے نہ کوئی اس میں اصلا چھوٹا
جس شخص کو عقبیٰ کی طلب گاری ہے
آنکھیں کھولیں، مگر یہ پردا نہ کھلا
دنیا سے رہائی ہو یہ وہ جال نہیں
جز غم کوئی جنس یاں نہ سستی دیکھی
دنیا کو نہ جانو کہ دل آرام ہے یہ
غافل وہ ہے جو عاقبت اندیش نہیں
ہشیار کہ وقت سام وبرگ آیا ہے
راحت کا مزا عدوے جانی نکلا
دل سے طاقت بدن سے گس جاتا ہے
پیری آئی عذار بے نور ہوئے
کھینچے ہوئے سر کو تو کہاں پھرتا ہے ؟
پیری سے خاک مہربانی نہ ہوئی
آزادی میں آفت اسیری آئی
پوشیدہ ہو خاک میں کہ پردہ ہے یہی
کیا حال کہیں دل کی پریشانی کا
پیری میں یہ تن کا حال ہو جاتا ہے
خاطر کو کبھی نہ مطمئن دکھلایا
راتیں نہ وہ اب ہوں گی نہ خواب آئے گا
پیری سے بدن زار ہوا زاری کر
جب اٹھ گیا سایۂ جوانی سر سے
جس دن کہ فراق روح وتن میں ہوگا
جب تک ہے جواں، سیر ہے نظارہ ہے
افسوس جہاں سے دوست کیا کیا نہ گئے!
طفلی دیکھی، شباب دیکھا ہم نے
ہے کون جو رنج مرگ سہنے کا نہیں
سینے میں یہ دم شمع سحر گاہی ہے
کچھ عقل کی میزان میں تولا نہ گیا
وہ موج حوادث کا تھپیڑا نہ رہا
آرام سے کس دن تہ افلاک رہے
دو دن کی حیات پر عبث غرّہ ہے
دل بت سے اٹھا کے حق پرستی کیجیے
طے منزل وحشت ومحن ہونی ہے
وہ تخت کدھر ہیں وہ کہاں تاج ہیں وہ
اب گرم خبر موت کے آنے کی ہے
آفاق میں مرنے کے لیے جینا ہے
مجموعۂ خاطر ان دنوں ابترہے
یاں آئے ملال ورنج سہنے کے لیے
جس دم نزدیک وقت رحلت ہوگا
ہر آن تغیری ہے زمانے کے لیے
کچھ پندو نصیحت نے بھی تاثیر نہ کی
گر لاکھ برس جیے تو پھر مرنا ہے
گھر چھوڑ کے بہر جستجو نکلیں گے
دل سے دنیا کے ولولے جاتے ہیں
کچھ ملک عدم میں رنج کا نام نہ تھا
دل میں غم یاران وطن لے کے چلے
گو صورت دریا ہمہ تن جوش ہوں میں
شاہوں کا وہ تخت و علم وتاج نہیں
اک شعلۂ نور طور سے آیا ہے
آغوش لحد میں اب کہ سونا ہوگا
ادبار کا کھٹکا چشم و جاہ میں ہے
خاموشی میں یاں لذّت گویائی ہے
اک روز جہاں سے جان کھونا ہوگا
اس ملک سے دنیا کی ہوس میں آئے
یاں سے نہ کسی کو ساتھ لے جائیں گے
نے آہ دہن سے نہ فغاں نکلے گی
راحت میں بسر ہوئی کہ ایذا گزری
کیا کیا دنیا سے صاحب مال گئے
ہر چند کہ ہے بلند پایہ سرکا
مر مر کے مسافر نے بسایا ہے تجھے
دنیا سے کوئی دم میں سفر تیرا ہے
محبوب کو ہم کنار بھی دیکھ لیا
اتنا نہ غرور کر کہ مرنا ہے تجھے
جب دار فنا سے جان کھونا ہوگا
درد والم ممات کیوں کر گزر ے
اب خواب سے چونک وقت بیداری ہے
خاروں سے خلش نہ پھول سے کاوش ہے
بالوں پہ غبار شیب ظاہر ہے اب
فردوس ہر اک قبر کا کونا ہوگا
جب خاک میں ہستی کا چمن ملتا ہے
اب زیر قدم لحد کا باب آپہنچا
ہر اوج کو ایک روز پستی ہوگی
کیا جانیے صبر وتاب کہتے ہیں کسے
بالیدہ ہوں، وہ اوج مجھے آج ملا
بخشش میں غم شاہ کو کافی پایا
کیوں زر کی ہوس میں آبرو دیتا ہے
کس دن فرس خامہ تگ و دو میں نہیں
ہشیار ہے سب سے با خبر ہے جب تک
آئینہ ہے سب حال وہ حیراں ہوں میں
ہر بند پہ ذاکر کو صلا دیتے ہیں
زیبا ہے وقار بادشاہی کے لیے
مدّاح شہہ یثرب و بطحا ہم ہیں
کس منھ سے کہوں لائق تحسیں ہو میں
مملو در معنی سے مرا سینہ ہے
باندھے ہوئے گوہر سخن لائے ہیں
وہ نظم پڑھوں کہ بزم رنگیں ہو جاے
ہر ایک سخن میں رنگ آمیزی ہے
ہیں طور علیحدہ ہمارے سب سے
وہ نظم پڑھوں کہ بزم خوشبو ہو جاے
ہے طور علیحدہ ہمارے سب سے
ہاں بعد فنا سخن نشاں ہے میرا
ہر شب تکلیف جاں کنی ہوتی ہے
فرصت نہ ذرا چشم کو اک پل بھر دوں
مضموں گوہر ہیں اور صدف سینہ ہے
مشک ختن نظم کہاں بند کروں
گلچیں کو غرور گل فشانی کا ہے
لفظوں میں نمک سخن میں شیرینی ہے
بے جا نہیں مدح شہہ میں غرّا میرا
تاباں فلک سخن کے تارے ہم ہیں
گلہائے مضامیں کو کہاں بند کروں
کانپا نہ جگر نہ دل نہ چہرا اترا
رتبہ نہ ہو کیوں نظم میں برتر میرا
نے مدح کا دعویٰ ہے نہ خود بینی ہے
کھلتا ہی نہیں کسی پہ وہ راز ہوں میں
دل روز بروز ناتواں رہتا ہے
پروا تیغ زباں کو سنجے کی نہیں
کیا کیا نہ چڑھا نظر پہ کیا اترا
مضون انیس کا نہ چربا اترا
گل سے بلبل کی خوش بیانی پوچھو
ہو جاتی ہے سہل پیش دانا مشکل
عصیاں سے بھرا ہوا جو سب دفتر ہے
چھٹتا ہے مقام کوچ کرتا ہوں میں
بخشش کے لیے مرثیہ خوانی ہے مری
جب نزع رواں سے جسم بے قابو ہو
دردا کہ فراق روح وتن میں ہوگا
دیتا ہے وہی شفا کہ جو شافی ہے
انداز سخن تم جو ہمارے سمجھو
بیمار کی بالیں پہ مسیحا آئے
ذاکر کی جو آواز حزیں ہوتی ہے
دکھ میں ہر شب کراہتا ہوں یا رب!
ہر لحظہ گھٹی جاتی ہے طاقت میری
تن پر ہے عرق عجب تب وتاب میں ہوں
کھینچے مجھے موت زندگانی کی طرف
ہے سخت ملول طبع ناساز میری
کس جسم پہ بل کروں کہ شہ زور ہوں میں
کم زور ایسا کسی کو پیری نہ کرے
عقبےٰ کے ہر اک کام سے ناکام ہے تو
آلودہ عبث اس غم جانکاہ میں ہے
عازم طرف عالم بالا ہوں میں
یہ عمر یونہی تمام ہو جائے گی
ہر چند کہ خستہ وحزیں ہے آواز
میزان سخن سنج میں تلتا ہوں میں
واحد ہے جو عبد نیک نام اس کا ہوں
ہم سے کوئی اہل کبر غرّا تو کرے
اعلیٰ سے نہ ہوگا کبھی ادنیٰ بھاری
کٹ جاتے ہیں خود رنگ بدلنے والے
رونق وہ بزم خوش بیانی ہم ہیں
کس دن مضمون نو کا نقشا اترا
نافہم سے کب داد سخن لیتا ہوں
ناقدری احباب سے حیراں ہوں میں
راحت کیا حاسدوں سے حاصل ہوتی
دل کو آرام بے قراری سے ملا
شہرہ ہر سو جو خوش کلامی کا ہے
پستی میں ہے لطف ارجمندی مجھ کو
گزرے ہر دم مرا ارادت میں تری
ہے افسر دیں تاج سکندر حیدر
اللہ اللہ عزّ و جاہ ذاکر
عزّت رہے یار وآشنا کے آگے
جو بند کہا وہ نذر حیدر کے لیے
کچھ جس سے نہیں حصول وہ کشت ہوں میں
گلشن کی کروں سیر تو صحرا ہو جائے
افسوس کہ چین مصطفےٰ کو نہ ملے
کیا ہو سکے بحر طبع گو جوش پہ ہے
سنیے فریاد یا حسین ابن علی
انسان ذی عقل و ہوش ہو جاتا ہے
افسوس زمانے کا عجب طور ہوا
ساقی شراب حوض کوثر حیدر
بادل آ آکے روگئے ہائے غضب
کیونکر دل غمزدہ نہ فریاد کرے
اے بادشہ کون و مکاں! ادرکنی
دل نے غم بے حساب کیا کیا دیکھا
پوچھو نہ خبر کہ بے خبر ہیں اب تو
امید کسے تھی بزم کے بھرنے کی
موجود ہے جو کچھ جسے منظور ہے یاں
گلزار جہاں سے باغ جنت میں گئے
اللہ و رسول حق کی امداد رہے
صد حیف کہ یار جاودانی نہ رہا
گھر میں ڈھونڈو نہ انجمن میں ڈھونڈو
انجام بخیر ابتدا بگڑی ہے
ایوان فلک جناب دیکھا ہم نے
اے بخت رسا سوئے نجف راہی کر
سوز غم دوری نے جلا رکھا ہے
کیا قدر بھلا وہاں کی جانے کوئی
دل میں ہو ترا درد تو درماں کیا ہے
کس شہر میں در مدعا ملتا ہے
خورشید شرف برج شرف میں ہوگا
کیا فیض علی کے قدم پاک سے ہے
عصیاں بالکل ثواب ہو جاتا ہے
اب ہند کی ظلمت سے نکلتا ہوں میں
توفیق ثنائے شہ دیں پاؤں میں
جبریل امیں کو فخر دربانی ہے
ظلمت کدۂ ہند میں کیا ملتا ہے
کل دل کو نہیں ہے آج کل، جائیں گے
جو روضۂ حیدر پہ مکیں ہوتا ہے
یا زیست میں یا بعد فنا پہنچیں گے
جو روضۂ شاہ کربلا تک پہنچے
اکسیر کو دیکھا نہ طلا کو دیکھا
یارب! یہ اثر مری دعا میں مل جائے
مہجور ہوں جنت کے چمن والوں سے
جس شخص کو شوق کربلا ہوتا ہے
یارب! مری میت کو زمیں پاک ملے
حاصل جو شہ دیں کی حضوری ہو جائے
مرقد میں انیسؔ نہ کفن میں ہوگا
یارب! کہیں جلد وہ زمانا ہووے
جب دور سے ایوان علا کو دیکھا
ہے فصل عزا جدا جدا مجلس ہے
گلچیں تو بھلا چمن سنوارے ایسے
تیر غم شہ سینے میں پیوستہ ہے
انس وملک وحور کی مجلس یہ ہے
ابن اسد اللہ کا دربار ہے یہ
یہ بزم عزائے پسر زہرا ہے
اس بزم کی تعریف کا غل ہر سو ہے
الفت ہو جسے اسے ولی کہتے ہیں
اک نور کا گھر شہ کا عزاخانہ ہے
رونے کے لیے روح رسول آتی ہے
حاضر ہوں نہ کیوں حضور کی مجلس ہے
اس بزم کو جنگ سے جو خوش پاتے ہیں
مردم کا یہ الطاف و کرم آنکھوں پر
افلاک شرافت کے ستارے آئے
احساں نہیں گر بزم عزا میں آئے
دنیا میں ہیں یہ علی کے پیارے ایسے
پر نور ہے سب بزم وہ تارے یہ ہیں
ہر نالۂ دل جگر کو برما جائے
دھوپ آکے یہاں پہ زرد ہو جاتی ہے
احباب کا مجمع ہے بہارِ غم ہے
فردوس سے روح مصطفےٰ آتی ہے
غم ہے ہمیں لیکن انہیں خوشحالی ہے
تکلیف کسی کی شہ کو منظور نہیں
محفل محبوب حق کے پیاروں کی ہے
مجلس میں جو یارب ہو جاتا ہے
لاریب بہشتیوں کا مرجع ہے یہ
کیا بزم ہے کیا آہ وبکا ہر سو ہے
عشرے سے دلوں پر رنج وغم چھائے ہیں
رونے میں یہ موسم جو بسر ہوتا ہے
عابد سب ہیں خدا رسیدہ سب ہیں
کس طرح کرے نہ ایک عالم افسوس
رعب شہ ذی جاہ سے تھراتے ہیں
ہر وقت غم شاہ زمن تازہ ہے
کس کام آئے گی تیز ہوشی تیری
شبیر کے غم میں دل کو بے تابی ہے
کیا دخل سخن کوئی فلک پر پہنچے
شبیر کا حشر تک ہے ماتم باقی
طفلی بہ نشاط و شادمانی کٹ جائے
نیساں کو خجل دیدۂ تر سے پایا
نا گھر میں کفن نہ بوریا رکھتے ہیں
ہم لوگ اگر قدر غم شاہ کریں
رونے سے فراغ اب کسی روز نہیں
عمر اپنی غم شہ میں بسر کرلے تو
رومال ہے اشکوں سے بھگونے کے لیے
داغ غم شہ دل میں اگر پیدا ہو
یاں دھوپ بھی آکے زرد ہو جاتی ہے
رونے کا رسول حق صلا دیتے ہیں
کس طرح نہ تلخ زندگانی ہو جائے
تدبیر کرو اشکوں سے منہ دھونے کی
پیدا ہوئے دنیا میں اسی غم کے لیے
ہر چشم سے اشکوں کی روانی ہوجائے
سینوں میں جگر پہ تیر غم چلتے ہیں
اے شاہ کے غم میں جان کھونے والو
گو حشر میں مہر کی تمازت ہوگی
ہے اس کی دوا جو مرض آدم ہے
ہوتی ہے ہر ایک شے کی عالم میں بہار
تعمیر نہ کر خراب ہونے کے لیے
دس دن جو یہ رونے میں بسر ہو جائیں
جس جا ذکر حسین ہو جاتا ہے
ہر دم غم سبط شہ لولاک کیا
جز مدح سخن منھ سے کوئی کم نکلے
جب وارد حشر رونے والے ہوں گے
آنکھ ابر بہاری سے لڑی رہتی ہے
کیوں آہ نہ شیعوں کے جگر سے نکلے
آئینہ خاطر کی جلا ہے رونا
بلبل یہاں آکے خوش بیانی سیکھے
آیا ہے محرم آہ و زاری کرلو
ہر شب غم شہ میں جان کھویا کیجے
مظلوم پہ بزم مومنیں روتی ہے
عشرے کے جو دن یاد ہمیں آتے ہیں
آنسو رخ مومن کے لیے غازہ ہے
اس بزم کو ہر بزم پہ فوقیت ہے
زر کے لیے حق نے کیمیا پیدا کی
اشکوں میں نہاؤ تو جگر ٹھنڈے ہوں
ہر اشک عزادار در یکتا ہے
داغ غم شہ سینے میں گل بوٹے ہیں
جو شاہ کے غم کو دل میں جا دیوے گا
مجلس میں عجب بہار چشم تر ہے
اختر سے بھی آبرو میں بہتر ہیں یہ اشک
مصروف جو رونے کی طرف آنکھیں ہیں
کیا دست مژہ کو ہاتھ آئی تسبیح
جوچشم غم شہ میں سدا روتی ہے
رونے کی جو غم می ںشہ کے خو ہووے گی
دل ماتم شبیر میں صد پارہ ہے
اس آگ سے دل سینے میں جل جاتا ہے
رونے سے جو بہرہ مند ہوں گی آنکھیں
روشن جو ہر ایک داغ ہو جاتا ہے
سوز غم سرور سے جگر جلتا ہے
شبیر کا غم جس کے دل پر ہوگا
ہاں جوش غم سرور عالی ہو جائے
مجلس میں مزا اشک بہانے کا ہے
جو قطرۂ اشک ہے دل آرام ہے یہ
بے کار نہیں ہے آہ و زاری ایسی
فرصت کہاں ساعت نہ زمانے سے ملی
سوز غم شہ سے داغ داغ آنکھیں ہیں
جب دل غم شہ سے داغ ہو جاتا ہے
کس غم میں یہ لذت ہے جو اس غم میں ہے
ہیں سوگ میں شبیر کے ہر دم آنکھیں
جس پر نظر اک لطف کی شبیر کریں
میخانۂ کوثر کا شرابی ہوں میں
جو لوح وقلم ہوئے قران السعدین
گر سبط نبی کی مہربانی ہو جاے
زہرا سے کوئی غم پیمبر پوچھے
یکبار درود جو نبی پر بھیجے
کیا پانچ ہوئے خدا کے مظہر پیدا
کسری کس کی ہے عرش اعلیٰ کس کا!
دل غم سے محبوں کے بھرے رہتے ہیں
کعبے میں جسے حق نے اتارا ہوگا
مسجد میں چراغ دین خاموش ہوا
گردوں پہ ملک ہیں نوحہ خوان حیدر
ہے آج وہ دن کہ انبیا روتے ہیں
داماد رسول کی شہادت ہے آج
گھر سے جو پے نماز باہر نکلے
خیمہ لب نہر شہ کو کرنے نہ دیا
خوں میں شہ مظلوم کا سینہ ڈوبا
دس دن یہ وہ ہیں کہ نوحہ گر ہے زہرا
دشمن جو یزید ستم ایجاد ہوا
مولا مرے مقتل کے قریں آپہنچے
اے یارو! محرم کا مہینہ آیا
اے اہل عزا عزا کے دن آپہنچے
کیا جوش و خروش سے محرم آیا
گھر چھوڑ کے ملعونوں کے شر سے نکلے
آتا ہے جو خلق میں محرم تازہ
تلواروں سے جسم شہ دیں چور ہوا
جب ذبح حسین ذوی الاکرام ہوا
زہرا جو بصد آہ و فغاں پیٹتی ہیں
شہ کہتے تھے اللہ کا پیارا ہوں میں
کیا پیاس میں تھے محو عبادت شبیر
اے مومنو! فاطمہ کا پیارا شبیر
جب کٹ گیا سجدے میں سر پاک حسین
بست ویکم ماہ محرم ہے آج
جب بیبیوں سے وداع ہوتے تھے حسین
میداں میں جو حضرت پہ ستم ہوتے تھے
بے گور وکفن باپ کا لاشا دیکھا
کیا کیا نہ ستم اہل جفا کرتے ہیں
فریاد وفغان ورنج وغم کے دن ہیں
کہتی تھی بتول اے مرے پیارے شبیر
کہتے تھے لعیں لوٹ میں زر پائیں گے
عابد کہتے تھے آہ کیا چارہ ہے
وہ کون سا صدمہ تھا جو شہ پر نہ ہوا
کفار کا لشکر لب دریا اترا
کیا مرتبہ سلطان حجازی کا ہے
یکتا گہر قلزم سرمد ہے حسین
شہہ کہتے تھے خالق کا شنا سا ہوں میں
زینب نے کہا بھائی سے میں چھوٹ گئی
شہ کہتے تھے عاشق الٰہی ہوں میں
کہتی تھی بتول آہ یارب! کیا ہے
زینب نے کہا ظلم وستم ہوتا ہے
حیرت میں ہوں کیوں جہاں میں آیا پانی
جنگل کی طپش کنار دریا گزری
مظلوم نہ شاہ بحر وبر سا ہوگا
اک کہنہ روا آل عبا کو نہ ملے
اعدا نے پیا اور بہایا پانی
کیونکر نہ سحاب جوش غم سے بر سے
پتھر بھی حرارت سے پگھل جاتے تھے
جب خاتمۂ شاہ خوش اقبال کیا
عریاں سر خاتون زمن ہے اب تک
صدقے ترے اے فاطمہ کے جاے حسین
مائل نہیں طبع پاک اس دنیا پر
جب شام کے زنداں میں حرم بندہوئے
مارے گئے جو وہ سب لعیں دفن ہوئے
جب دفن ہوا شیر کا جانی
برہم ہے جہاں عجب تلاطم ہے آج
مرقد بھی شہیدوں کے بنائے نہ گئے
رسی میں گلا علی کی جائی کا ہے
شہ کہتے تھے عباس سا مہہ رو نہ رہا
عباس سا صف شکن نہ ہوگا کوئی
خوں بھائی کا، شہہ کے روبرو بہتا تھا
عباس کو لطف زندگانی نہ ملا
اعدا رفقائے شہ سے سربر نہ ہوئے
روتے ہیں نہ فریاد وبکا کرتے ہیں
ظاہر وہی الفت کے اثر ہیں اب تک
اکبر نے جو گھر موت کا آباد کیا
اکبر کہتے تھے بابا کیوں روتے ہو؟
دشمن کو بھی دے خدا نہ اولاد کا داغ
منھ چاہیے وصف رخ اکبر کے لیے
قاسم کو عدو نے خوں میں جب لال کیا
شمعوں کی طرح دلوں کو جلتے دیکھا
جھک جھک کے تو منہ ابن حسن نے دیکھا
کہتی تھی سکینہ گھر کا جلنا دیکھا
ماں کہتی تھی راحت نہ ملی آہ ملی
چلاتے تھے مسلم کے بسر قتل نہ کر
مرجائے جو فرزند تو کیا چارہ ہے
بانو کہتی تھی ہائے! اکبر نہ رہے
کیا رنج جفائے اشقیا سے کھینچا
جو شے تھی تہ چرخ بریں ہلتی تھی
عابد کو سدا باپ کا غم رہتا تھا
عابد کی تمام عمر زاری نہ گئی
عابد تھے مدام صبح ہوتے روتے
تھے زیست سے اپنی ہاتھ دھوئے سجاد
بن روئے نہ عابد سے رہا جاتا تھا
سجاد حزیں شغل بکا رکھتے ہیں
عابد کو کبھی خوش نہیں ہوتے دیکھا
سجاد کے چہرے سے تغیری نہ گئی
حر نے مقداد کا مقدر پایا
جب حر کا گنہ شاہ امم نے بخشا
حر کہتا تھا جب قبر میں سونا ہوگا
شبیر سا حر نے جب کہ رہبر پایا
حر جب کہ فدائے شہ ذی جاہ ہوا
کتابیات
سرورق
فہرست
رو میں ہے رخش عمر
انتساب
حیات فن اور شخصیت میرانیسؔ
میر انیس کی ولادت
تعلیم وتربیت
شاعری کی ابتدا:
فنون شپاہ گری
حلیہ
وضع اور لباس
پابندی اوقات
اخلاق وکردار
میر انیس کا شعری ذخیرہ
نظام اوقات
انتخاب بحر
مرثیوں کے مطلعے
شعراء کی قدردانی
تقلید طرز مرثیہ
ایک مرثیے میں فرماتے ہیں:
اسی لئے تو میر انیس نے کہا تھا
اقامت گاہیں
تلامذہ
ذاتی امام باڑہ
منبر پر نشست اور پڑھنے کا انداز
پہلی مجلس
مجلس چہلم اہلیہ میر ضمیر
مجالس عظیم آباد
میر انیس حیدر آباد میں
بیماری
آخری مجلس
وفات
رباعیات انیس کا اجمالی تذکرہ اورتجزیہ
حمدیہ نعتیہ اور منقبتی کلام کے نمونے
نادراور جدید تراکیب اور اضافات الفاظ
انیسؔ کی تعلّی اور تعارف
رباعیوں پر اعتراضات
شیخ ناسخ
مرزا غالب
خواجہ آتش
میر انیسؔ مشاہیر شعر وادب کی نظر میں
مفتی میر عباس لکھنوی
محمد حسین آزادؔ
مرزا دبیرؔ
شیخ عبدالقادر
الطاف حسین حالیؔ
نوبت رائے نظرؔ
مزاج دہلوی
شبلیؔ نعمانی
اکبر الہٰ آبادی
شاد عظیم آبادی
امجد اشہری
احسن لکھنوی
حامد علی خاں بیر سٹر لکھنوی
ڈپٹی نظر احمد
امداد امام اثرؔ
ڈاکٹر گراہم بیلی
نظم طباطبائی
پنڈت سندر نرائن مشران
مولانا عبدالحئی ندوی
ذکاء اللہ
براج نرائن چکبست
سر تیج بہادر سپرو
امیر احمد علوی
عبد الحلیم شررؔ
مخموراکبرآبادی
جوش ملیح آبادی
پروفیسر مسعود حسن ادیب
جعفر علی خاں اثرؔ
ابوالکلام آزاد
مولانا عبد السلام ندوی
پروفیسر احتشام حسین
پروفیسر کلیم الدین احمد
پروفیسراکبر حیدری کاشمیری
ڈاکٹر اعجاز حسین
پروفیسر ایس جی عباس، کراچی
شاعر اہل بیت نجم آفندی
پروفیسر گوپی چند نارنگ
صالحہ عابد حسین
رام بابو سکسینہ
ڈاکٹر شبیہ الحسن
سفارش حسین رضوی
ڈاکٹرفرمان فتح پوری
سردار جعفری
نسیم امروہوی
مولانا کوثر نیازی
ڈاکٹر ناظر حسین زیدی
مہاراجہ کشن پرشاد
پروفیسر محی الدین قادری زور
لالہ سری رام
ڈاکٹر مسیح الزماں
شارب ردولوی
امیر امام حر
ڈاکٹر مسعود حسین خاں
شہید صفی پوری
انور سدید
ڈاکٹر فضل امام
ڈاکٹر نیر مسعود
ڈاکٹر شان الحق حقی
ڈاکٹر سیید عبداللہ
ڈاکٹر وقار عظیم
ڈاکٹر فدا حسین
سید ہاشم رضا
فضل قدیر
سید عابد علی عابد
احسن فاروقی
حامد حسن قادری
ڈاکٹر وحید اختر
ڈاکٹر سیدہ جعفر
آل احمد سرور
احمد ندیم قاسمی
ڈاکٹر ہلال نقوی
سید عاشور کاظمی
سید فیضیؔ
فیض احمد فیض
ڈاکٹر صفدر حسین
مولوی سید احمد صاحب فرہنگ آصفیہ
مولوی عبدالحق
نائب حسین نقوی
افتخار عارف
گوہر کو صدف میں آبرو دیتا ہے
سب سے اوّل ہے سب سے سابق ہے وہی
اپنوں کا گلہ نہ غیر ذالک کا ہے
حیران ہے عقل ودل شیدا سب میں
خلاق جہاں ہے رب اکبر تو ہے
نہ لعل میں ہے نہ گہرو سنگ میں تو
گلشن میں صبا کو جستجو تیری ہے
گلشن میں پھروں کہ سیر صحرا دیکھوں
بلبل تری یاد میں فغاں کرتی ہے
صالح بھی ترا ہے زشت بھی تیرا ہے
پتلی کی طرح نظر سے مستور ہے تو
سرگرم رہے نہ سرد آہیں ہیں یہی
مڑ کر کب تک ادھر ادھر دیکھوں میں
ہر برگ سے قدرت احد پیدا ہے
سایے سے بھی وحشت ہے وہ دیوانہ ہوں
کونین کی دولت ہے عنایت تیری
فرقت تن وجاں میں بھی غضب ہوتی ہے
ماں باپ سے بھی سوا ہے شفقت تیری
دریا تری رحمت کا اگر سر کھینچے
شاید رونے پہ رحم آیا ہے تجھے
ہیں معترف عجز ثنا خواں تیرے
دولت کی ہوس ہے نہ طمع مال کی ہے
توقیر ترے ہی آستانے سے ملی
بندے کو خیال دم بدم تیرا ہے
قانع ہو جو کچھ ہمت مردانہ ہے
لائق ترے کس نے کی عبادت تیری
ممکن نہیں عبد سے عبادت تیری
ہم نے کبھی عصیاں سے کنارا نہ کیا
دولت کی نہ خواہش ہے نہ زر چاہتے ہیں
کب شاہ وگدا سے راہ رکھتا ہوں میں
اے خالق ذوالفضل وکرم رحمت کر
آدم کو عجب خدا نے رتبہ بخشا
ہے کون سی شادی جو ترے غم میں نہیں
لالے سے عیاں بہار سرجوشی
دنیا میں محمد سا شہنشاہ نہیں
ساحل پہ ابھی تھا کہ ادھر جا اثرا
یا ختم رسل! مست مئے الفت ہیں
آدم کو یہ تحفہ یہ ہدیہ نہ ملا
کھو دل کے مرض کو اے طبیب امت
بے جا ہر کوشش وطلب کو پایا
احمد کا برادر گرامی تو ہے
کیا بھائیوں کے انس کا اندازہ ہے
وہ شاہ کہ شاہوں سے لیا باج نبی
اصحاب نے پوچھا جو نبی کو دیکھا
جو مرتبہ احمد کے وصی کا دیکھا
محبوب خدا کا جانشیں حیدر ہے
ہے شان علی سے حق کی شوکت پیدا
ہے چادر نور حق ردائے حیدر
افضل ہے اگر ایک تو اعلیٰ ہے ایک
مختار زمین وآسماں حیدر ہے
ہے کون ومکاں میں اختیار حیدر
شایاں تھے انہیں کی شان بر تر کے لیے
ہے روح امیں علی کے دربانوں میں
حیدر سا امام، حق کی رحمت سے ملا
احباب لحد تلک تو پہنچائیں گے
ایک ایک قدم لغزش مستانہ ہے
سرمہ ہے غبار رہگزار حیدر
میزان کرم میں جرم تل جاتے ہیں
روشن شمعیں تجلّی طور کی ہیں
برتر ہے ملائک کا بشر سے پایا
اک آن نہیں حق سے جدا حیدر ہے
جو صف تہ تیغ شاہ آجاتی تھی
بے دینوں کو مرتضیٰ نے ایماں بخشا
دنیا سے اٹھالے کے میں نام حیدر
افضل نہ کسی کو مرتضیٰ سے پایا
سر گرم ہوں میں نبی کی مدّاحی میں
گر شیر خدا زیست کا بانی ہو جاے
کیا اس کی صفت میں پھر کوئی بات کرے
ناکام بھی کامیاب ہوجاتا ہے
لاریب کہ مظہر العجائب ہے علی
دم الفت حیدر کا جو بھرتا ہوں میں
اب وقت سرور فرحت اندوزی ہے
موجود تھیں نعمتیں برائے حیدر
ہر غنچے سے شاخ گل ہے کیوں نذر بکف
افزوں ہیں بیاں سے معجزات حیدر
مولا کوئی کوئی مقتدا کہتا ہے
اعلیٰ رتبے میں ہر بشر سے پایا
یہ جود وسخا حاتم طائی میں نہیں
قطرے میں یہ سب جس کے وہ دریا ہے علی
فیاض علی کو ہر بشر سے پایا
کیا حرنے شرف علی کے گھر سے پایا
مطلب بھی علی ہے مدّعا بھی ہے علی
ایماں پایا علی کے در سے پایا
شاہان جہاں سب ہیں گدائے حیدر
دیدار دم نزع دکھاتے ہیں علی
امداد کو شیر حق لحد میں پہنچے
گر دوستی علی میں مرجائیں گے
افضل کوئی مرتضیٰ سے ہمت میں نہیں
آہوئے حرم ہے چشم مست حیدر
خلاق انام کبریا کو جانا
عالم یہ کتاب وعلم وحکمت کے ہیں
جام عرفاں ہے چشم مست حیدر
بیزار علی کو مال وزر سے پایا
کجکول کو تاج خسروانی کر دیں
چاہیں جو علی قطرے کو دریا کردیں
کعبے میں ہوا جو بندوبست حیدر
دینداروں نے امن کفر وشر سے پایا
رتبے میں علی کے عرش بھی پست ملا
قرآن میں ہے جا بجا ثنائے حیدر
کعبے کو ید اللہ نے آباد کیا
گر نیر دیں کی مہربانی ہو جاے
عرفاں تصدیق حجت حیدر ہے
بستی کو اجاڑ کر بسایا ہے اسے
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
ہو خاک دلا امید آزادی میں
انجام پہ اپنے آہ و زاری کر تو
ہموار ہے گر تو کچھ تجھے باک نہیں
دنیا میں نہ چین ایک ساعت دیکھا
شکل چمن صدق وصفا بگڑی ہے
کیوں زر کی ہوس میں در بدر پھرتا ہے
جو صاحب فہم ہے وہی انساں ہے
کیا قدر زمیں کی آسماں کے آگے
دل کو مرے شغل غمگساری غگساری کا ہے
جینے سے طبیعت اب ہٹی جاتی ہے
برباد کیا ہے طبع آوارہ نے
رہتے ہیں سدا ہوش بجا بینا کے
ہر صبح یہ دوڑ کر کدھر جاتا ہے
وہ صبر مرا وہ بردباری تیری
خود ڈھونڈ کے پیش اہل دل جاتا ہوں
ہاں دولت فقیر مصطفےٰ دیویں گے
کب دزد سے دولت ہنر بچتی ہے
ہے تیزی عقل و ہوش بیہوشی میں
دولت کا ہمیں خیال آتا ہی نہیں
مال و زر و افسر و حشم ملتا ہے
ان آنکھوں سے خوف لطف عالم دیکھا
مانا ہم نے کہ عیب سے پاک ہے تو
ہردم ہے خیال عذر خواہی دل میں
کب غنچے کی گلجھڑی صبا نے کھولی
نخوت یہ عبث دولت ناپاک پہ ہے
تکیے پہ نہ سر ہے نہ بدن بستر پر
اے آہ! ترا اثر نہ دیکھا ہم نے
خلق و تعظیم دولت دینی ہے
روتے ہیں لہو ہر ایک ہمدم کے لیے
اندیشے میں دن تمام ہو جاتا ہے
عاجز نہ کسی بشر کو اصلا سمجھے
کس بات میں کید کس میں تزویر نہیں
اندیشۂ باطل سحر و شام کیا
اندوہ والم سے کب یہ جاں بچتی ہے
ٹھوکر بھی نہ ماریں گے اگر خود سر ہے
دنیا جسے کہتے ہیں بلا خانہ ہے
کس زیست پہ میل مال واسباب کریں
دولت سے نہ کچھ لطف ومزہ پاتے ہیں
انساں ذی عقل وہوش ہو جاتا ہے
دولت نہ عطا کر نہ جہاں میں زر دے
جو سو خرمن سے خوشہ چیں ہوتا ہے
مہمان کی عزت میں بڑی عزت ہے
کہہ دے کوئی عیب جو سے سر گوشی میں
تا چرخ فغاں صبح گاہی نہ گئی
گر ہاتھ میں زر نہی، تو کچھ باک نہیں
برعکس ہے گر خاک میں مل مل جائے
ہے مملکت جسم میں شاہی دل کی
تعریف پر اپنی کیوں تجھے غرّ ہ ہے
یہ اوج یہ مرتبہ ہما کو نہ ملے
یہ حرص جو لے کے جا بجا پھرتی ہے
جب دیکھیں گی احوال قیامت آنکھیں
کچھ فرق کلام کہنہ و نو میں نہیں
حاصل ہو جو دولت تو تو انگر ہو جائیں
الفت ہے نہ پاس ربط دیرینہ ہے
انساں ہی کچھ اس دور میں پامال نہیں
ہر وقت زمانے کا ستم سہتے ہیں
مٹی سے بنا ہے دل کو تو سنگ نہ کر
احباب سے امید ہے بیجا مجھ کو
عصیاں سے ہوں شرمسار توبہ یارب!
افسوس یہاں سے نہ سبک بار چلے
کس منھ سے کہوں میں کہ خوش انجام ہے تو
سر کھینچ نہ شمشیر کشیدہ کی طرح
برباد گراں جنس کو بے تول نہ کر
افسوس یہ عصیاں یہ تباہی دل کی
دنیا میں کسی کا نہ سہارا دیکھا
چل جلد اگر قصد سفر رکھتا ہے
پرساں کوئی کب جوہر ذاتی کا ہے
دنیا دریا ہے اور ہوس طوفاں ہے
کیا سوچ کے اس دار فنا میں آئے
کر عجز اگر عاقل و فرزانہ ہے
ہر چند زمیں پست فلک عالی ہے
ویراں ہے کوئی گھر کہیں آبادی ہے
غفلت میں نہ کھو عمر کہ پچھتائے گا
کیوں آج دلا! خیال فردا نہ کیا
ہر دم مجھے سامنا صعوبات کا ہے
غفلت میں نہ کھو عمر جہاں فانی ہے
ضـایع نہ کر آغوش کے پالے دل کو
کانوں میں سدا حرف پریشانی ہے
جوشے ہے فنا اسے بقا سمجھا ہے
ہے کون جو عصیاں میں گرفتار نہیں
ڈھونڈوں تو نہ صورت بحالی نکلے
ایذا سے نہ کوئی اس میں اصلا چھوٹا
جس شخص کو عقبیٰ کی طلب گاری ہے
آنکھیں کھولیں، مگر یہ پردا نہ کھلا
دنیا سے رہائی ہو یہ وہ جال نہیں
جز غم کوئی جنس یاں نہ سستی دیکھی
دنیا کو نہ جانو کہ دل آرام ہے یہ
غافل وہ ہے جو عاقبت اندیش نہیں
ہشیار کہ وقت سام وبرگ آیا ہے
راحت کا مزا عدوے جانی نکلا
دل سے طاقت بدن سے گس جاتا ہے
پیری آئی عذار بے نور ہوئے
کھینچے ہوئے سر کو تو کہاں پھرتا ہے ؟
پیری سے خاک مہربانی نہ ہوئی
آزادی میں آفت اسیری آئی
پوشیدہ ہو خاک میں کہ پردہ ہے یہی
کیا حال کہیں دل کی پریشانی کا
پیری میں یہ تن کا حال ہو جاتا ہے
خاطر کو کبھی نہ مطمئن دکھلایا
راتیں نہ وہ اب ہوں گی نہ خواب آئے گا
پیری سے بدن زار ہوا زاری کر
جب اٹھ گیا سایۂ جوانی سر سے
جس دن کہ فراق روح وتن میں ہوگا
جب تک ہے جواں، سیر ہے نظارہ ہے
افسوس جہاں سے دوست کیا کیا نہ گئے!
طفلی دیکھی، شباب دیکھا ہم نے
ہے کون جو رنج مرگ سہنے کا نہیں
سینے میں یہ دم شمع سحر گاہی ہے
کچھ عقل کی میزان میں تولا نہ گیا
وہ موج حوادث کا تھپیڑا نہ رہا
آرام سے کس دن تہ افلاک رہے
دو دن کی حیات پر عبث غرّہ ہے
دل بت سے اٹھا کے حق پرستی کیجیے
طے منزل وحشت ومحن ہونی ہے
وہ تخت کدھر ہیں وہ کہاں تاج ہیں وہ
اب گرم خبر موت کے آنے کی ہے
آفاق میں مرنے کے لیے جینا ہے
مجموعۂ خاطر ان دنوں ابترہے
یاں آئے ملال ورنج سہنے کے لیے
جس دم نزدیک وقت رحلت ہوگا
ہر آن تغیری ہے زمانے کے لیے
کچھ پندو نصیحت نے بھی تاثیر نہ کی
گر لاکھ برس جیے تو پھر مرنا ہے
گھر چھوڑ کے بہر جستجو نکلیں گے
دل سے دنیا کے ولولے جاتے ہیں
کچھ ملک عدم میں رنج کا نام نہ تھا
دل میں غم یاران وطن لے کے چلے
گو صورت دریا ہمہ تن جوش ہوں میں
شاہوں کا وہ تخت و علم وتاج نہیں
اک شعلۂ نور طور سے آیا ہے
آغوش لحد میں اب کہ سونا ہوگا
ادبار کا کھٹکا چشم و جاہ میں ہے
خاموشی میں یاں لذّت گویائی ہے
اک روز جہاں سے جان کھونا ہوگا
اس ملک سے دنیا کی ہوس میں آئے
یاں سے نہ کسی کو ساتھ لے جائیں گے
نے آہ دہن سے نہ فغاں نکلے گی
راحت میں بسر ہوئی کہ ایذا گزری
کیا کیا دنیا سے صاحب مال گئے
ہر چند کہ ہے بلند پایہ سرکا
مر مر کے مسافر نے بسایا ہے تجھے
دنیا سے کوئی دم میں سفر تیرا ہے
محبوب کو ہم کنار بھی دیکھ لیا
اتنا نہ غرور کر کہ مرنا ہے تجھے
جب دار فنا سے جان کھونا ہوگا
درد والم ممات کیوں کر گزر ے
اب خواب سے چونک وقت بیداری ہے
خاروں سے خلش نہ پھول سے کاوش ہے
بالوں پہ غبار شیب ظاہر ہے اب
فردوس ہر اک قبر کا کونا ہوگا
جب خاک میں ہستی کا چمن ملتا ہے
اب زیر قدم لحد کا باب آپہنچا
ہر اوج کو ایک روز پستی ہوگی
کیا جانیے صبر وتاب کہتے ہیں کسے
بالیدہ ہوں، وہ اوج مجھے آج ملا
بخشش میں غم شاہ کو کافی پایا
کیوں زر کی ہوس میں آبرو دیتا ہے
کس دن فرس خامہ تگ و دو میں نہیں
ہشیار ہے سب سے با خبر ہے جب تک
آئینہ ہے سب حال وہ حیراں ہوں میں
ہر بند پہ ذاکر کو صلا دیتے ہیں
زیبا ہے وقار بادشاہی کے لیے
مدّاح شہہ یثرب و بطحا ہم ہیں
کس منھ سے کہوں لائق تحسیں ہو میں
مملو در معنی سے مرا سینہ ہے
باندھے ہوئے گوہر سخن لائے ہیں
وہ نظم پڑھوں کہ بزم رنگیں ہو جاے
ہر ایک سخن میں رنگ آمیزی ہے
ہیں طور علیحدہ ہمارے سب سے
وہ نظم پڑھوں کہ بزم خوشبو ہو جاے
ہے طور علیحدہ ہمارے سب سے
ہاں بعد فنا سخن نشاں ہے میرا
ہر شب تکلیف جاں کنی ہوتی ہے
فرصت نہ ذرا چشم کو اک پل بھر دوں
مضموں گوہر ہیں اور صدف سینہ ہے
مشک ختن نظم کہاں بند کروں
گلچیں کو غرور گل فشانی کا ہے
لفظوں میں نمک سخن میں شیرینی ہے
بے جا نہیں مدح شہہ میں غرّا میرا
تاباں فلک سخن کے تارے ہم ہیں
گلہائے مضامیں کو کہاں بند کروں
کانپا نہ جگر نہ دل نہ چہرا اترا
رتبہ نہ ہو کیوں نظم میں برتر میرا
نے مدح کا دعویٰ ہے نہ خود بینی ہے
کھلتا ہی نہیں کسی پہ وہ راز ہوں میں
دل روز بروز ناتواں رہتا ہے
پروا تیغ زباں کو سنجے کی نہیں
کیا کیا نہ چڑھا نظر پہ کیا اترا
مضون انیس کا نہ چربا اترا
گل سے بلبل کی خوش بیانی پوچھو
ہو جاتی ہے سہل پیش دانا مشکل
عصیاں سے بھرا ہوا جو سب دفتر ہے
چھٹتا ہے مقام کوچ کرتا ہوں میں
بخشش کے لیے مرثیہ خوانی ہے مری
جب نزع رواں سے جسم بے قابو ہو
دردا کہ فراق روح وتن میں ہوگا
دیتا ہے وہی شفا کہ جو شافی ہے
انداز سخن تم جو ہمارے سمجھو
بیمار کی بالیں پہ مسیحا آئے
ذاکر کی جو آواز حزیں ہوتی ہے
دکھ میں ہر شب کراہتا ہوں یا رب!
ہر لحظہ گھٹی جاتی ہے طاقت میری
تن پر ہے عرق عجب تب وتاب میں ہوں
کھینچے مجھے موت زندگانی کی طرف
ہے سخت ملول طبع ناساز میری
کس جسم پہ بل کروں کہ شہ زور ہوں میں
کم زور ایسا کسی کو پیری نہ کرے
عقبےٰ کے ہر اک کام سے ناکام ہے تو
آلودہ عبث اس غم جانکاہ میں ہے
عازم طرف عالم بالا ہوں میں
یہ عمر یونہی تمام ہو جائے گی
ہر چند کہ خستہ وحزیں ہے آواز
میزان سخن سنج میں تلتا ہوں میں
واحد ہے جو عبد نیک نام اس کا ہوں
ہم سے کوئی اہل کبر غرّا تو کرے
اعلیٰ سے نہ ہوگا کبھی ادنیٰ بھاری
کٹ جاتے ہیں خود رنگ بدلنے والے
رونق وہ بزم خوش بیانی ہم ہیں
کس دن مضمون نو کا نقشا اترا
نافہم سے کب داد سخن لیتا ہوں
ناقدری احباب سے حیراں ہوں میں
راحت کیا حاسدوں سے حاصل ہوتی
دل کو آرام بے قراری سے ملا
شہرہ ہر سو جو خوش کلامی کا ہے
پستی میں ہے لطف ارجمندی مجھ کو
گزرے ہر دم مرا ارادت میں تری
ہے افسر دیں تاج سکندر حیدر
اللہ اللہ عزّ و جاہ ذاکر
عزّت رہے یار وآشنا کے آگے
جو بند کہا وہ نذر حیدر کے لیے
کچھ جس سے نہیں حصول وہ کشت ہوں میں
گلشن کی کروں سیر تو صحرا ہو جائے
افسوس کہ چین مصطفےٰ کو نہ ملے
کیا ہو سکے بحر طبع گو جوش پہ ہے
سنیے فریاد یا حسین ابن علی
انسان ذی عقل و ہوش ہو جاتا ہے
افسوس زمانے کا عجب طور ہوا
ساقی شراب حوض کوثر حیدر
بادل آ آکے روگئے ہائے غضب
کیونکر دل غمزدہ نہ فریاد کرے
اے بادشہ کون و مکاں! ادرکنی
دل نے غم بے حساب کیا کیا دیکھا
پوچھو نہ خبر کہ بے خبر ہیں اب تو
امید کسے تھی بزم کے بھرنے کی
موجود ہے جو کچھ جسے منظور ہے یاں
گلزار جہاں سے باغ جنت میں گئے
اللہ و رسول حق کی امداد رہے
صد حیف کہ یار جاودانی نہ رہا
گھر میں ڈھونڈو نہ انجمن میں ڈھونڈو
انجام بخیر ابتدا بگڑی ہے
ایوان فلک جناب دیکھا ہم نے
اے بخت رسا سوئے نجف راہی کر
سوز غم دوری نے جلا رکھا ہے
کیا قدر بھلا وہاں کی جانے کوئی
دل میں ہو ترا درد تو درماں کیا ہے
کس شہر میں در مدعا ملتا ہے
خورشید شرف برج شرف میں ہوگا
کیا فیض علی کے قدم پاک سے ہے
عصیاں بالکل ثواب ہو جاتا ہے
اب ہند کی ظلمت سے نکلتا ہوں میں
توفیق ثنائے شہ دیں پاؤں میں
جبریل امیں کو فخر دربانی ہے
ظلمت کدۂ ہند میں کیا ملتا ہے
کل دل کو نہیں ہے آج کل، جائیں گے
جو روضۂ حیدر پہ مکیں ہوتا ہے
یا زیست میں یا بعد فنا پہنچیں گے
جو روضۂ شاہ کربلا تک پہنچے
اکسیر کو دیکھا نہ طلا کو دیکھا
یارب! یہ اثر مری دعا میں مل جائے
مہجور ہوں جنت کے چمن والوں سے
جس شخص کو شوق کربلا ہوتا ہے
یارب! مری میت کو زمیں پاک ملے
حاصل جو شہ دیں کی حضوری ہو جائے
مرقد میں انیسؔ نہ کفن میں ہوگا
یارب! کہیں جلد وہ زمانا ہووے
جب دور سے ایوان علا کو دیکھا
ہے فصل عزا جدا جدا مجلس ہے
گلچیں تو بھلا چمن سنوارے ایسے
تیر غم شہ سینے میں پیوستہ ہے
انس وملک وحور کی مجلس یہ ہے
ابن اسد اللہ کا دربار ہے یہ
یہ بزم عزائے پسر زہرا ہے
اس بزم کی تعریف کا غل ہر سو ہے
الفت ہو جسے اسے ولی کہتے ہیں
اک نور کا گھر شہ کا عزاخانہ ہے
رونے کے لیے روح رسول آتی ہے
حاضر ہوں نہ کیوں حضور کی مجلس ہے
اس بزم کو جنگ سے جو خوش پاتے ہیں
مردم کا یہ الطاف و کرم آنکھوں پر
افلاک شرافت کے ستارے آئے
احساں نہیں گر بزم عزا میں آئے
دنیا میں ہیں یہ علی کے پیارے ایسے
پر نور ہے سب بزم وہ تارے یہ ہیں
ہر نالۂ دل جگر کو برما جائے
دھوپ آکے یہاں پہ زرد ہو جاتی ہے
احباب کا مجمع ہے بہارِ غم ہے
فردوس سے روح مصطفےٰ آتی ہے
غم ہے ہمیں لیکن انہیں خوشحالی ہے
تکلیف کسی کی شہ کو منظور نہیں
محفل محبوب حق کے پیاروں کی ہے
مجلس میں جو یارب ہو جاتا ہے
لاریب بہشتیوں کا مرجع ہے یہ
کیا بزم ہے کیا آہ وبکا ہر سو ہے
عشرے سے دلوں پر رنج وغم چھائے ہیں
رونے میں یہ موسم جو بسر ہوتا ہے
عابد سب ہیں خدا رسیدہ سب ہیں
کس طرح کرے نہ ایک عالم افسوس
رعب شہ ذی جاہ سے تھراتے ہیں
ہر وقت غم شاہ زمن تازہ ہے
کس کام آئے گی تیز ہوشی تیری
شبیر کے غم میں دل کو بے تابی ہے
کیا دخل سخن کوئی فلک پر پہنچے
شبیر کا حشر تک ہے ماتم باقی
طفلی بہ نشاط و شادمانی کٹ جائے
نیساں کو خجل دیدۂ تر سے پایا
نا گھر میں کفن نہ بوریا رکھتے ہیں
ہم لوگ اگر قدر غم شاہ کریں
رونے سے فراغ اب کسی روز نہیں
عمر اپنی غم شہ میں بسر کرلے تو
رومال ہے اشکوں سے بھگونے کے لیے
داغ غم شہ دل میں اگر پیدا ہو
یاں دھوپ بھی آکے زرد ہو جاتی ہے
رونے کا رسول حق صلا دیتے ہیں
کس طرح نہ تلخ زندگانی ہو جائے
تدبیر کرو اشکوں سے منہ دھونے کی
پیدا ہوئے دنیا میں اسی غم کے لیے
ہر چشم سے اشکوں کی روانی ہوجائے
سینوں میں جگر پہ تیر غم چلتے ہیں
اے شاہ کے غم میں جان کھونے والو
گو حشر میں مہر کی تمازت ہوگی
ہے اس کی دوا جو مرض آدم ہے
ہوتی ہے ہر ایک شے کی عالم میں بہار
تعمیر نہ کر خراب ہونے کے لیے
دس دن جو یہ رونے میں بسر ہو جائیں
جس جا ذکر حسین ہو جاتا ہے
ہر دم غم سبط شہ لولاک کیا
جز مدح سخن منھ سے کوئی کم نکلے
جب وارد حشر رونے والے ہوں گے
آنکھ ابر بہاری سے لڑی رہتی ہے
کیوں آہ نہ شیعوں کے جگر سے نکلے
آئینہ خاطر کی جلا ہے رونا
بلبل یہاں آکے خوش بیانی سیکھے
آیا ہے محرم آہ و زاری کرلو
ہر شب غم شہ میں جان کھویا کیجے
مظلوم پہ بزم مومنیں روتی ہے
عشرے کے جو دن یاد ہمیں آتے ہیں
آنسو رخ مومن کے لیے غازہ ہے
اس بزم کو ہر بزم پہ فوقیت ہے
زر کے لیے حق نے کیمیا پیدا کی
اشکوں میں نہاؤ تو جگر ٹھنڈے ہوں
ہر اشک عزادار در یکتا ہے
داغ غم شہ سینے میں گل بوٹے ہیں
جو شاہ کے غم کو دل میں جا دیوے گا
مجلس میں عجب بہار چشم تر ہے
اختر سے بھی آبرو میں بہتر ہیں یہ اشک
مصروف جو رونے کی طرف آنکھیں ہیں
کیا دست مژہ کو ہاتھ آئی تسبیح
جوچشم غم شہ میں سدا روتی ہے
رونے کی جو غم می ںشہ کے خو ہووے گی
دل ماتم شبیر میں صد پارہ ہے
اس آگ سے دل سینے میں جل جاتا ہے
رونے سے جو بہرہ مند ہوں گی آنکھیں
روشن جو ہر ایک داغ ہو جاتا ہے
سوز غم سرور سے جگر جلتا ہے
شبیر کا غم جس کے دل پر ہوگا
ہاں جوش غم سرور عالی ہو جائے
مجلس میں مزا اشک بہانے کا ہے
جو قطرۂ اشک ہے دل آرام ہے یہ
بے کار نہیں ہے آہ و زاری ایسی
فرصت کہاں ساعت نہ زمانے سے ملی
سوز غم شہ سے داغ داغ آنکھیں ہیں
جب دل غم شہ سے داغ ہو جاتا ہے
کس غم میں یہ لذت ہے جو اس غم میں ہے
ہیں سوگ میں شبیر کے ہر دم آنکھیں
جس پر نظر اک لطف کی شبیر کریں
میخانۂ کوثر کا شرابی ہوں میں
جو لوح وقلم ہوئے قران السعدین
گر سبط نبی کی مہربانی ہو جاے
زہرا سے کوئی غم پیمبر پوچھے
یکبار درود جو نبی پر بھیجے
کیا پانچ ہوئے خدا کے مظہر پیدا
کسری کس کی ہے عرش اعلیٰ کس کا!
دل غم سے محبوں کے بھرے رہتے ہیں
کعبے میں جسے حق نے اتارا ہوگا
مسجد میں چراغ دین خاموش ہوا
گردوں پہ ملک ہیں نوحہ خوان حیدر
ہے آج وہ دن کہ انبیا روتے ہیں
داماد رسول کی شہادت ہے آج
گھر سے جو پے نماز باہر نکلے
خیمہ لب نہر شہ کو کرنے نہ دیا
خوں میں شہ مظلوم کا سینہ ڈوبا
دس دن یہ وہ ہیں کہ نوحہ گر ہے زہرا
دشمن جو یزید ستم ایجاد ہوا
مولا مرے مقتل کے قریں آپہنچے
اے یارو! محرم کا مہینہ آیا
اے اہل عزا عزا کے دن آپہنچے
کیا جوش و خروش سے محرم آیا
گھر چھوڑ کے ملعونوں کے شر سے نکلے
آتا ہے جو خلق میں محرم تازہ
تلواروں سے جسم شہ دیں چور ہوا
جب ذبح حسین ذوی الاکرام ہوا
زہرا جو بصد آہ و فغاں پیٹتی ہیں
شہ کہتے تھے اللہ کا پیارا ہوں میں
کیا پیاس میں تھے محو عبادت شبیر
اے مومنو! فاطمہ کا پیارا شبیر
جب کٹ گیا سجدے میں سر پاک حسین
بست ویکم ماہ محرم ہے آج
جب بیبیوں سے وداع ہوتے تھے حسین
میداں میں جو حضرت پہ ستم ہوتے تھے
بے گور وکفن باپ کا لاشا دیکھا
کیا کیا نہ ستم اہل جفا کرتے ہیں
فریاد وفغان ورنج وغم کے دن ہیں
کہتی تھی بتول اے مرے پیارے شبیر
کہتے تھے لعیں لوٹ میں زر پائیں گے
عابد کہتے تھے آہ کیا چارہ ہے
وہ کون سا صدمہ تھا جو شہ پر نہ ہوا
کفار کا لشکر لب دریا اترا
کیا مرتبہ سلطان حجازی کا ہے
یکتا گہر قلزم سرمد ہے حسین
شہہ کہتے تھے خالق کا شنا سا ہوں میں
زینب نے کہا بھائی سے میں چھوٹ گئی
شہ کہتے تھے عاشق الٰہی ہوں میں
کہتی تھی بتول آہ یارب! کیا ہے
زینب نے کہا ظلم وستم ہوتا ہے
حیرت میں ہوں کیوں جہاں میں آیا پانی
جنگل کی طپش کنار دریا گزری
مظلوم نہ شاہ بحر وبر سا ہوگا
اک کہنہ روا آل عبا کو نہ ملے
اعدا نے پیا اور بہایا پانی
کیونکر نہ سحاب جوش غم سے بر سے
پتھر بھی حرارت سے پگھل جاتے تھے
جب خاتمۂ شاہ خوش اقبال کیا
عریاں سر خاتون زمن ہے اب تک
صدقے ترے اے فاطمہ کے جاے حسین
مائل نہیں طبع پاک اس دنیا پر
جب شام کے زنداں میں حرم بندہوئے
مارے گئے جو وہ سب لعیں دفن ہوئے
جب دفن ہوا شیر کا جانی
برہم ہے جہاں عجب تلاطم ہے آج
مرقد بھی شہیدوں کے بنائے نہ گئے
رسی میں گلا علی کی جائی کا ہے
شہ کہتے تھے عباس سا مہہ رو نہ رہا
عباس سا صف شکن نہ ہوگا کوئی
خوں بھائی کا، شہہ کے روبرو بہتا تھا
عباس کو لطف زندگانی نہ ملا
اعدا رفقائے شہ سے سربر نہ ہوئے
روتے ہیں نہ فریاد وبکا کرتے ہیں
ظاہر وہی الفت کے اثر ہیں اب تک
اکبر نے جو گھر موت کا آباد کیا
اکبر کہتے تھے بابا کیوں روتے ہو؟
دشمن کو بھی دے خدا نہ اولاد کا داغ
منھ چاہیے وصف رخ اکبر کے لیے
قاسم کو عدو نے خوں میں جب لال کیا
شمعوں کی طرح دلوں کو جلتے دیکھا
جھک جھک کے تو منہ ابن حسن نے دیکھا
کہتی تھی سکینہ گھر کا جلنا دیکھا
ماں کہتی تھی راحت نہ ملی آہ ملی
چلاتے تھے مسلم کے بسر قتل نہ کر
مرجائے جو فرزند تو کیا چارہ ہے
بانو کہتی تھی ہائے! اکبر نہ رہے
کیا رنج جفائے اشقیا سے کھینچا
جو شے تھی تہ چرخ بریں ہلتی تھی
عابد کو سدا باپ کا غم رہتا تھا
عابد کی تمام عمر زاری نہ گئی
عابد تھے مدام صبح ہوتے روتے
تھے زیست سے اپنی ہاتھ دھوئے سجاد
بن روئے نہ عابد سے رہا جاتا تھا
سجاد حزیں شغل بکا رکھتے ہیں
عابد کو کبھی خوش نہیں ہوتے دیکھا
سجاد کے چہرے سے تغیری نہ گئی
حر نے مقداد کا مقدر پایا
جب حر کا گنہ شاہ امم نے بخشا
حر کہتا تھا جب قبر میں سونا ہوگا
شبیر سا حر نے جب کہ رہبر پایا
حر جب کہ فدائے شہ ذی جاہ ہوا
کتابیات
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।