سرورق
ہوا ہے قل ہواللہ احد زیب رقم میرا
ہوا مد نظر جلوہ جو مجھکو دیکھنا اپنا
خدا مداح خود ذات محمد کی ہے عظمت کا
سیاہی دے اگر کچھ رنگ مجھ کو روی لیلیٰ کا
تنور چشم طوفاں بار میں ہے جوش گر یا کا
غم کیا ہے مثل شعلہ آرایش بدن کا
بل جاے مار گیسوئے مخبرشمیم کا
وضع میں اسکی نہ دیکھا رنگ استحکام کا
نہیں طاقت بیاں کی کہہ نہیں سکتا سبب غم کا
صفا پیدا کرے دشمن پہ بسمل ہو نہیں سکتا
وقت حیرت کیا ہو دیدار اس بت بے پیرکا
تو مری وضع پہ اس وجہ سے مائل نہ ہوا
گریہ سے دل کی کدورت کا نہ چارا ہوگا
تمہیں آنکھوں سے ہے منظور ماتم اپنے نالاں کا
زینت ہے خوف حشر میں مجھ کو گناہ کا
قیام سے ہے خیال اسکے قد دلجو کا
اثر ہوا یہ عسس پرشراب کی بو کا
وہ بڑھا رتبہ سیہ کاری سے میری گور کا
روسیاہی بھی زمانے میں ہے سامان نور کا
بنا نصیب سے کیا خوب کام بوسے
جب کہا کہ گھر کیجے دل میں مہرباں اپنا
لاغری سے اے عنقا مٹ گیا نشاں اپنا
دیدۂ لیلی بنا ہر ایک چھالا پاؤں کا
عبد سے کچھ کم نہ تھا مرنا ترےناشاد کا
بتکدے میں جو ادا وہ بت ترک کرتا
مثال باد سموم اپنے گھر میں یار آیا
گھر میں حسرت کے نہ میری مرگ سے ماتم ہوا
جب تجھے شوق ستم اے قاتل عالم ہوا
تماشا ہو گیا لکھنا مرے گریہ کے مضموں کا
کوئی نہ مخل ہے نہ درانداز ہمارا
یہ ضعف ہے تو کام بنایا نہ جائیگا
مزہ رشک سے وصل کا ہو گیا
مشہور تو جہاں کا خواہاں جان نہ تھا
اندھیر کب جہاں شب فرقت یہاں نہ تھا
نہ ملا خال مہ شمائل کا
رہا مد نظر سے دور جسم ناتواں اپنا
دروازہ بند کیوں نہیں ہوتا نگار کا
تم نے بدگوئی پہ میری دہن اپنا کھولا
نیا انداز ہے اس چشم کی دریا فشانی کا
پتا کافی ہے یہ اے نامہ بر کوئی ستمگر کا
کوئی اے پیر فلک اسمیں سیہ مو نہ ہوا
فرحت فزا ہے نشہ مئے پرتگال کا
ہے مثل کلک ڈھنگ نیا اپنی چال کا
اگر ہم سے نکات آفرنیش کا بیان ہوگا
دل کو کچھ عشق میں لازم نہیں ویران ہونا
انداز ہے کچھ ایسا رفتار نازنیں کا
ساقی کے ہاتھ میں نہیں ساغر شراب کا
چمکے جو حسن تیرے رخ شعلہ تاب کا
سایہ پڑا آپکے تفتہ تن وزار کا
یہ تن ہے گرم بعد مرگ بھی اس سوختہ تن کا
رہیگا فیض جاری مثل کنجد تارک تن کا
ظالم کو خدا نےنہ دیا ظرف حیا کا
بسنتی ہے جو پیراہن کسی کا
دل میں کیے تصرف دیکھا جو پاسباں کا
جسم نزار اپنا اک حرف ہے بیاں کا
میں تجھ سے ایک ہجر میں لیلیٰ ادا ہوا
برقع ہتا جورخ سے تو گھر کا پتا ہوا
شعلہ حسن انکا پڑھ پڑھ کر نہاں ہو جائیگا
ردیف باے موحدہ
جو ارجمند ہے وہ کامیاب ہے تہ آب
ہم مرا داغ دل سوزاں وہ پر نور آفتاب
آپسا رکھتا کہاں ہے روئے پرنور آفتاب
ہے فقط دنیائے دوں صحرائے خواب
ہجر میں یوں آنکھ سے اڑ جاے خواب
گئی نہ بعد فنا ہم کو جستجو ے شراب
کچھ مرے منہ سے بھی سنا صاحب
دیکھیں گے ہم کہ بچ کے وہ جاتا کہاں ہے اب
بیزار کون کون نہ ہم سے وہاں ہے اب
انجان کیا عجب کہ بنے میری جاں آپ
کیونکر بنے کہ ٹھہری ہے یہ وضع خوئے دوست
یونہی ہر وقت اگر غیر کے گھر جائیں گے آپ
ردیف تائے مثناۃ
جا اے نگاہ بھیگ کے اشکوں میں سوے دوست
تھی دم سے مرے رونق بازا ر محبت
خود رفتہ ہے کیوں نہ گرفتار محبت
اب نہ دیکھیں گے تری خوبیٔ رفتار بہت
جب سے ہے حسرت موئے کمر یار بہت
مہتاب کو کس منہ پہ ہوا حسن کا دعوی اے آئینہ طلعت
ردیف تاے ہندی
رویا ہوں رات بھر در بے پیر سے لپٹ
ردیف ثائے ثخذ
نہیں اک وضع پر کیوں آپکی گفتار کیا باعث
کیوں مرا قد ہے دوتا کیا باعث
مغ فلک سے امید ہے دو سالہ عبث
پوچھے وہ بحر حسن اگر کچھ بیان موج
ردیف جیم
کرتے ہیں گو طبیب ہر اک درد کا علاج
محو اس درجہ ہوئے لذت دیدار میں روح
ردیف حاء حطی
روز رہتی ہے عم لذت دیدار میں روح
کوئی بچنے کی نہیں ہے تری لاغر کی طرح
دے صبوحی مجھے اے ساقی میخانۂ صبح
ریف خائے معجمہ
یا الٰہی طبع کو پیری میں دے تنویر صبح
ہے ہاتھ میں چھری کی عوض اسمیں کی شاخ
اک دور میں پلٹتا ہے وہ لاکھ بار رخ
دن کو چلیو تو راہ قاصد
ردیف دال مہملہ
کیوں نہ ہو مجھ کو دہان وکمر یار پسند
ضبط نے باندھے ہزاروں اے بت عیار بند
ردیف ذال ثخذ
تجھ سے کہتا ہے مرا حال پریشاں کاغذ
زعفران کا جو یہ لکھا ہوا باندھا تعویذ
مجھ کو لگتی ہے تری تلخیٔ گفتار لذیذ
ردیف رائے مہملہ
وہ لاغر ہوں پڑے زد استخواں پر
یہ ہلکی سی نقاب اے دل رخ زہرہ شمائل پر
رحم ظاہر ہے مگر ظلم کو پنہاں رکھ کر
پہلو کے زخموں سے دل افگار آتا ہے نظر
رکھوں گلے کو ترے آبدار خنجر پر
ہے شکن مرجھائے سے یوں زخم کے انگور پر
وہ ایذا دوست ہوں گر آئے تو تیغ ستم لیکر
یاروں کے ہوں سراغ سے دور اور شکستہ پر
تونہ جا انجمن وصل سے تر ساں ہوکر
آپکی ہر ہر ادا کو ہے نظر توقیر پر
یوں ہم آزاد ہوئے قید مکاں سے باہر
کچھ اضطراب دل سے بنے اپنی جان پر
ہوں خاک تو ہے کوہ الم جان حزیں پر
واہ کیا اوج ہے سو جان ہے فدائے پرواز
ردئف زائے معجمہ
چشم نم ان آنسوؤں کا تار توڑ
یوں ضعف میں نکلی ترے رنجور کی آواز
رخ روشن سے ہیں زلفیں تری اے یار دراز
خاک پر یوں ہے ترا طالب دیدار دراز
بعد مرنے کے جو بیٹھے یار ا پنے سرکے پاس
ردیف سین مہملہ
ویران ہوئی تھی قبضہ اقلیم شاہاں کی ہوس
میں وہ بلبل ہوں کہ ہوں غنچۂ گل پائے قفس
ردیف شین قرشت
رخ کی تابش سے ہے زلفوں کی شکن میں آتش
تو نہ زبان طعنہ کھول دیکھ کے معصیت کا جوش
ردیف صاد مہملہ
نبھے تازیست اے دلدار اخلاص
گو بہر زر جہاں میں تم کو پھرائے حرص
ہے ترا مستی میں اے زہرہ جبیں ہر گام رقص
طالب ہے کیوں نہیں جو دل زار سے غرض
خوں سے لبریز یہاں چشم ہے ساغر کے عوض
ردیف صاد معجمہ
بدگمانی میں بھی اک ربط بڑھا شر کے عوض
ردیف طائے حطی
کھوئے حسن روئے پر تنویر خط
بڑھ گیا ضبط گھٹا اب تو ہر اک کار سے ربط
عبور خط ہوترے رخ پہ رشک ماہ غلط
کبھی تو کر مے گلرنگ سے وضو واعظ
ردیف ظائے معجمہ
معلوم جب نشے میں ہوا بے مزا لحاظ
ردیف عین مہملہ
ہو شب باراں میں گر وصل بتان شنگ وشمع
کب چھپا سکتا ہے نور رخ زیبا برفع
ردیف غین معجمہ
ہو دل نالاں کے شعلے سے اگر روشن چراغ
ردیف فا
محفل ہوئے ہے آپ کی مہماں سرائے داغ
دہن کا شوق ہے رغبت تری کمر کی طرف
مشکل ہے جو پیچ وتاب عاشق مضطر کی زلف
نبہا ہے فازۂ پیہم سے گل وہ غنچہ لب
ردیف قاف
ہوے خط سے کتاب عارض دلدار کی رونق
وہ سیمتیں جو دے کسی تدبیر سے نمک
ردیف کاف
یہ نہ سمجھو تم کہ صابرؔ ہم ہیں ناکام قلق
اشکوں میں بہیں لخت جگر روز کہاں تک
پونچھے جو اس گلی میں مری ایک بار خاک
اب فکر یہ نہیں وہ ملے یا ملائے دل
ردیف لام
گود لگی ہے خوب یہ کیا لطف اٹھاے دل
یہ عاشقوں کے خاک میں اسنے ملائے دل
کس طرح پہلے جو یوں گھٹ گھٹ کے منہ کو اے دل
اسے قید ہو رہائے وہ مزا اٹھائے بلبل
اک دن گئی تھی گرم نگہ اپنی سوئے گل
ردیف میم
تجھ سے خواہاں مدد میں چشم دریا بار ہم
ہوئے تم جو فقرے بنانے کے قابل
دن بھر جدا نہ ہونگے کبھی اسکے گھر سے ہم
عدو کی نظریں بچا کے تنہا ملیں جو گوشے میں یار ہم تم
ردیف نون
کس سے شرماتے ہو تم برقع نہیں سر پر نہیں
رحم دل میں آپکے اتنی صفائی پر نہیں
لذت قتل کے بھی کیا میں سزاوار نہیں
دشمن پہ رکھ کے دیتے ہوگالی عتاب میں
ڈالا ہے لاغری نے عجب پیچ وتاب میں
ہم اس طرح ہیں بزم جہاں خراب میں
زخم سے خوف ہمیں مثل گُہر کچھ بھی نہیں
ذکر جف نے نے حسن بڑھا یا وصال میں
ہیں اشک شادی انکی مژہ پر وصال میں
پائیں گر تیرے مرقعے کے کچھ اوراق آنکھیں
ہوش کا مجھ پہ گماں کیوں شب ہجراں میں نہیں
کیا روانی اسکی ہم تشنوں کے آئے کار میں
زود زد دنیا میں اشک آسا نہیں
اتنی گرمی ہے نگاہ طالب دیدار میں
سرکشوں کی پختہ کاری طول دے آزار میں
نہیں کرتی رفاقت یہ بھی مجھ سے کنج حرتمہیں
ترے جلوے کی بڑھتی ہے لطافت چشم گریاں میں
مکدر ہی رہے آنسو ہمارے دست مژگاں میں
زندگی ہے مرگ الفت جان تن میں کیوں نہیں
تابندہ یوں وہ رخ ہے ہجوم نگاہ میں
قطعہ بند
ہم عجب زیست کیا کرتے ہیں
آپ ہم انکو خفا کرتے ہیں
کس پہ ہم جان فدا کرتے ہیں
خون زخم جگر کا جو بہائے سرناخن
خارش میں نہیں ہے یہ صدائے سرناخن
گراں ہے ضعف جب ہم کو ہنسی میں وہ اڑاتے ہیں
ارمان کیا وصال دل آزار کا کروں
جو دل کو محبت کے مزے آئے ہوئے ہیں
مثل گیسو بل نکل جائیں جو میں تقدیر میں
وہ کبھی جاتی نہ بزم ظالم بے پیر میں
یہ سیاہی کے حروف اپنے کلام پاک میں
جھکنا پڑتا ہے وہ غصہ سے جو تن جاتے ہیں
کبھی دیدار سے محروم یہ دلگیر نہیں
جان قربان ہے پر مانتا بے پیر نہیں
نور کی خانۂ دل کے کوے تدبیر نہیں
خورشید سے کچھ داغ تھے باقی مرے تن میں
یاں لاغری سے تار نفس تک نہیں تن میں
دو چار بار روز نکلوائے جاتے ہیں
ردیف الواؤ
کسی کو بحر عالم میں نہ یارب حرص دولت ہو
گر نہ پر آب اے ستم آرا تری شمشیر ہو
کفایت کر گئی آپس کی انسیت ہمیشہ کو
نزاکت ہو گئی نمکین اس آئینہ سیما کو
سمجھیگا دست جنوں چاک کا خواہاں مجھ کو
پہلے نہ اڑایا کسی بیکس کے جگر کو
جو دیکھوں زرد شیشے سے جہاں کو
تم کو چھپائے یہ نہیں قدرت حجاب کو
تر ہے عرق میں دیکھ کر اس لب کی آب کو
آرام ترے ہجر میں کیا ہوش ربا ہو
آپس میں نفاق ایسا تجھے مہر لقا ہو
آؤ بس بہر خدا جانے دو
گردش سے ہوئے ضعف میں راحت مرے سرکو
وہ نہیں آتا تو لا اسکی خبر اتنا تو ہو
دیکھ کر اتنا وہ چکرایا رخ بے پیر کو
کیوں نہ ہوزر گر سے رنجش عاشق دلگیر کو
پھیر لیتا ہے جو دیتا ہے ہمیشہ مجھ کو
جو عشق طرۂ عنبر فشاں ہو
ردیف الھاء
تم کو جو منظور ہے تحقیر پشت آئینہ
وضع کے پابند ہیں اہل صفا ہر آئینہ
واں جاتے ہیں آداب سے ہم اور زیادہ
مارا جاے مرے شکووں پہ جو دوچار کا منہ
ہے درد زباں اپنے سخن ہائے مدینہ
صورت نئی بناتے ہیں ہر دم نئے خیال
ردیف الیاء
رہے اس مہر کے آگے یہ ہے توقیر پتھر کی
الٰہی بڑھے اتنی نخوت تمہاری
آئیں گے یاں بن کے سنگ ریشم نالے صورکے
ہم مثل جان وتن نہ بہم دلربا چلے
رنگ اڑا ایسا ترے خوف کماں وتیر سے
مہتم قسمت ہو بگڑے کام گر تدبیر سے
اب کسی دھوکے میں ہوگا وصل اس بے پیر سے
غش کی تحریک نہ میرے لئے منظور رہے
ناکسی اوج ہے دل کیونکہ نہ مسرور رہے
ہوئے یہ بات ثابت مجھ کو دور چرخ اخضر سے
سیہ روئے ہے بڑھ جانا ہمارے دیدۂ تر سے
جس طرف دیکھوں نظر آتا ہے تو ہی تو مجھے
ہے لاغری کا شکر بجا سیمبر مجھے
لکھا تھا پھر دکھائے خدا تیرا گھر مجھے
آشفتہ ہوگی طبع فغان ہزار سے
سر جدا کیجے تن آزار سے
اس مہر سے فراق بھی ہے اور وصال بھی
نہ تجھ سے بات کچھ اے مطلب آشنا ٹھہری
یہ آئینہ پہ نظر اسے پری لقا ٹھہری
قلق دل کو سوا ہے یار کے صورت دکھانے سے
چرخ نے ظلم سے توڑ ہے میں مکان دہلی
ہر گز نہ پیچ وتاب گئے زلف یار کے
ہوئے لاغر تو ہم خلق خدا کے کار میں ترے
ہجر میں چھوٹ گیا خون جگر کھانے سے
کچھ تو ہے در پہ جو تم رہتے ہو ہر آن گھڑے
دل کے زخموں کا بڑھا درد کھرنڈ آنے سے
جو کہی اس نے بگڑ کر وہ کہی میں نے بھی
تشنہ بھی کوئی تم سے ہوا کامیاب ہے
اس خال رخ پہ غش دل حسرت مآب ہے
ہے وصل پہ قسمت کی برائی نہیں جاتی
تیری شوخی کا جو ذکر اے بت کافر ہو جائے
دم نظارہ اگر ابر مژہ تر ہو جائے
تری طرز حیا وقت سخن کچھ اور کہتی ہے
اٹھا دینے پہ زلف پر شکن کچھ اور کہتی ہے
خرابی میں بھی تمکیں اپنی دامنگیر پھرتی ہے
منہ ہے کیا ہم کو تری زلف معنبر باندھے
ہیں سر نوک مژہ لخت جگر سوکھے ہوئے
ہم جفا کش مرکے بھی تجھ کو صنم یاد آئیں گے
ہے وصل بات بات پہ قسمیں دلائیں گے
ان کو بھی میری طرح حسرت رہی دیدار کی
خط وہ رنجش میں دکھاتے ہیں اگر بھولے سے
نہیں شبنم متغیر ہے جو حالت میری
ذکریا کی طرح ہوگی رسالت میری
میں کیا کہوں جو یار نے لاف وفا کئے
حیا بوجھ اے فتنہ گر ہو گئی
یہ چرچا محبت کا کیوں کوبکو ہے
بہتر ہے اگر ابر مژہ اپنا نہ برسے
گاہے گاہے کی ملاقات ہے یہ بھی نہ سہی
نمود اس کو میں ان کے نقش پاکی
جو مدح لکھتے ہیں ہم ان کی بید ہانی کی
توانائی ہے یہ مجھ ناتواں کی
دام سے اپنے کسی روز نہ باہر نکلے
نادم ہوں حسن موئے کمر کے وہ لاف سے
چمن میں فکر سکونت ہے مرغ جاں کے لئے
ہزار آہ کروں گیسوئے بتاں کے لئے
وصل باتوں سے کب اے ماہ لقا ہوتا ہے
غرور حسن بلا سے ہے ان پہ چھائے ہوئے
اشعار متفرقات
قطعات
رباعیات
قطعات
قصیدہ در نعت سرور کائنات مفخر موجودات ﷺ
مطلع غزل
بغیر دیکھے میں عاشق ہوں تیرا اے خود کام
نہیں ہے پختہ کوے کار چرخ مینا فام
تو اسکی مدح طرازی کا فوق حاصل کر
بندھی تھی شکل نہ کوے قیام عالم کی
ازل میں خالق ہژدہ ہزار عالم نے
ہزار طور پہ موسیٰ کریں خدا سے کلام
یہ آرزو ہے تیرے وصف میں ہو عمر تمام
سلام
وصف امام قرب ہے مجھ کو امام کا
سلامی جب ملائے شمر نے شمشیر گردن سے
مخمسات
مخمس بر سلام خود
مخمس برغزل حافظ
مخمس
واسوخت
قطعہ تاریخ انتقال حضرت مصنف مرحوم
AUTHORसाबिर
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER अननोन आर्गेनाइजेशन
AUTHORसाबिर
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER अननोन आर्गेनाइजेशन
سرورق
ہوا ہے قل ہواللہ احد زیب رقم میرا
ہوا مد نظر جلوہ جو مجھکو دیکھنا اپنا
خدا مداح خود ذات محمد کی ہے عظمت کا
سیاہی دے اگر کچھ رنگ مجھ کو روی لیلیٰ کا
تنور چشم طوفاں بار میں ہے جوش گر یا کا
غم کیا ہے مثل شعلہ آرایش بدن کا
بل جاے مار گیسوئے مخبرشمیم کا
وضع میں اسکی نہ دیکھا رنگ استحکام کا
نہیں طاقت بیاں کی کہہ نہیں سکتا سبب غم کا
صفا پیدا کرے دشمن پہ بسمل ہو نہیں سکتا
وقت حیرت کیا ہو دیدار اس بت بے پیرکا
تو مری وضع پہ اس وجہ سے مائل نہ ہوا
گریہ سے دل کی کدورت کا نہ چارا ہوگا
تمہیں آنکھوں سے ہے منظور ماتم اپنے نالاں کا
زینت ہے خوف حشر میں مجھ کو گناہ کا
قیام سے ہے خیال اسکے قد دلجو کا
اثر ہوا یہ عسس پرشراب کی بو کا
وہ بڑھا رتبہ سیہ کاری سے میری گور کا
روسیاہی بھی زمانے میں ہے سامان نور کا
بنا نصیب سے کیا خوب کام بوسے
جب کہا کہ گھر کیجے دل میں مہرباں اپنا
لاغری سے اے عنقا مٹ گیا نشاں اپنا
دیدۂ لیلی بنا ہر ایک چھالا پاؤں کا
عبد سے کچھ کم نہ تھا مرنا ترےناشاد کا
بتکدے میں جو ادا وہ بت ترک کرتا
مثال باد سموم اپنے گھر میں یار آیا
گھر میں حسرت کے نہ میری مرگ سے ماتم ہوا
جب تجھے شوق ستم اے قاتل عالم ہوا
تماشا ہو گیا لکھنا مرے گریہ کے مضموں کا
کوئی نہ مخل ہے نہ درانداز ہمارا
یہ ضعف ہے تو کام بنایا نہ جائیگا
مزہ رشک سے وصل کا ہو گیا
مشہور تو جہاں کا خواہاں جان نہ تھا
اندھیر کب جہاں شب فرقت یہاں نہ تھا
نہ ملا خال مہ شمائل کا
رہا مد نظر سے دور جسم ناتواں اپنا
دروازہ بند کیوں نہیں ہوتا نگار کا
تم نے بدگوئی پہ میری دہن اپنا کھولا
نیا انداز ہے اس چشم کی دریا فشانی کا
پتا کافی ہے یہ اے نامہ بر کوئی ستمگر کا
کوئی اے پیر فلک اسمیں سیہ مو نہ ہوا
فرحت فزا ہے نشہ مئے پرتگال کا
ہے مثل کلک ڈھنگ نیا اپنی چال کا
اگر ہم سے نکات آفرنیش کا بیان ہوگا
دل کو کچھ عشق میں لازم نہیں ویران ہونا
انداز ہے کچھ ایسا رفتار نازنیں کا
ساقی کے ہاتھ میں نہیں ساغر شراب کا
چمکے جو حسن تیرے رخ شعلہ تاب کا
سایہ پڑا آپکے تفتہ تن وزار کا
یہ تن ہے گرم بعد مرگ بھی اس سوختہ تن کا
رہیگا فیض جاری مثل کنجد تارک تن کا
ظالم کو خدا نےنہ دیا ظرف حیا کا
بسنتی ہے جو پیراہن کسی کا
دل میں کیے تصرف دیکھا جو پاسباں کا
جسم نزار اپنا اک حرف ہے بیاں کا
میں تجھ سے ایک ہجر میں لیلیٰ ادا ہوا
برقع ہتا جورخ سے تو گھر کا پتا ہوا
شعلہ حسن انکا پڑھ پڑھ کر نہاں ہو جائیگا
ردیف باے موحدہ
جو ارجمند ہے وہ کامیاب ہے تہ آب
ہم مرا داغ دل سوزاں وہ پر نور آفتاب
آپسا رکھتا کہاں ہے روئے پرنور آفتاب
ہے فقط دنیائے دوں صحرائے خواب
ہجر میں یوں آنکھ سے اڑ جاے خواب
گئی نہ بعد فنا ہم کو جستجو ے شراب
کچھ مرے منہ سے بھی سنا صاحب
دیکھیں گے ہم کہ بچ کے وہ جاتا کہاں ہے اب
بیزار کون کون نہ ہم سے وہاں ہے اب
انجان کیا عجب کہ بنے میری جاں آپ
کیونکر بنے کہ ٹھہری ہے یہ وضع خوئے دوست
یونہی ہر وقت اگر غیر کے گھر جائیں گے آپ
ردیف تائے مثناۃ
جا اے نگاہ بھیگ کے اشکوں میں سوے دوست
تھی دم سے مرے رونق بازا ر محبت
خود رفتہ ہے کیوں نہ گرفتار محبت
اب نہ دیکھیں گے تری خوبیٔ رفتار بہت
جب سے ہے حسرت موئے کمر یار بہت
مہتاب کو کس منہ پہ ہوا حسن کا دعوی اے آئینہ طلعت
ردیف تاے ہندی
رویا ہوں رات بھر در بے پیر سے لپٹ
ردیف ثائے ثخذ
نہیں اک وضع پر کیوں آپکی گفتار کیا باعث
کیوں مرا قد ہے دوتا کیا باعث
مغ فلک سے امید ہے دو سالہ عبث
پوچھے وہ بحر حسن اگر کچھ بیان موج
ردیف جیم
کرتے ہیں گو طبیب ہر اک درد کا علاج
محو اس درجہ ہوئے لذت دیدار میں روح
ردیف حاء حطی
روز رہتی ہے عم لذت دیدار میں روح
کوئی بچنے کی نہیں ہے تری لاغر کی طرح
دے صبوحی مجھے اے ساقی میخانۂ صبح
ریف خائے معجمہ
یا الٰہی طبع کو پیری میں دے تنویر صبح
ہے ہاتھ میں چھری کی عوض اسمیں کی شاخ
اک دور میں پلٹتا ہے وہ لاکھ بار رخ
دن کو چلیو تو راہ قاصد
ردیف دال مہملہ
کیوں نہ ہو مجھ کو دہان وکمر یار پسند
ضبط نے باندھے ہزاروں اے بت عیار بند
ردیف ذال ثخذ
تجھ سے کہتا ہے مرا حال پریشاں کاغذ
زعفران کا جو یہ لکھا ہوا باندھا تعویذ
مجھ کو لگتی ہے تری تلخیٔ گفتار لذیذ
ردیف رائے مہملہ
وہ لاغر ہوں پڑے زد استخواں پر
یہ ہلکی سی نقاب اے دل رخ زہرہ شمائل پر
رحم ظاہر ہے مگر ظلم کو پنہاں رکھ کر
پہلو کے زخموں سے دل افگار آتا ہے نظر
رکھوں گلے کو ترے آبدار خنجر پر
ہے شکن مرجھائے سے یوں زخم کے انگور پر
وہ ایذا دوست ہوں گر آئے تو تیغ ستم لیکر
یاروں کے ہوں سراغ سے دور اور شکستہ پر
تونہ جا انجمن وصل سے تر ساں ہوکر
آپکی ہر ہر ادا کو ہے نظر توقیر پر
یوں ہم آزاد ہوئے قید مکاں سے باہر
کچھ اضطراب دل سے بنے اپنی جان پر
ہوں خاک تو ہے کوہ الم جان حزیں پر
واہ کیا اوج ہے سو جان ہے فدائے پرواز
ردئف زائے معجمہ
چشم نم ان آنسوؤں کا تار توڑ
یوں ضعف میں نکلی ترے رنجور کی آواز
رخ روشن سے ہیں زلفیں تری اے یار دراز
خاک پر یوں ہے ترا طالب دیدار دراز
بعد مرنے کے جو بیٹھے یار ا پنے سرکے پاس
ردیف سین مہملہ
ویران ہوئی تھی قبضہ اقلیم شاہاں کی ہوس
میں وہ بلبل ہوں کہ ہوں غنچۂ گل پائے قفس
ردیف شین قرشت
رخ کی تابش سے ہے زلفوں کی شکن میں آتش
تو نہ زبان طعنہ کھول دیکھ کے معصیت کا جوش
ردیف صاد مہملہ
نبھے تازیست اے دلدار اخلاص
گو بہر زر جہاں میں تم کو پھرائے حرص
ہے ترا مستی میں اے زہرہ جبیں ہر گام رقص
طالب ہے کیوں نہیں جو دل زار سے غرض
خوں سے لبریز یہاں چشم ہے ساغر کے عوض
ردیف صاد معجمہ
بدگمانی میں بھی اک ربط بڑھا شر کے عوض
ردیف طائے حطی
کھوئے حسن روئے پر تنویر خط
بڑھ گیا ضبط گھٹا اب تو ہر اک کار سے ربط
عبور خط ہوترے رخ پہ رشک ماہ غلط
کبھی تو کر مے گلرنگ سے وضو واعظ
ردیف ظائے معجمہ
معلوم جب نشے میں ہوا بے مزا لحاظ
ردیف عین مہملہ
ہو شب باراں میں گر وصل بتان شنگ وشمع
کب چھپا سکتا ہے نور رخ زیبا برفع
ردیف غین معجمہ
ہو دل نالاں کے شعلے سے اگر روشن چراغ
ردیف فا
محفل ہوئے ہے آپ کی مہماں سرائے داغ
دہن کا شوق ہے رغبت تری کمر کی طرف
مشکل ہے جو پیچ وتاب عاشق مضطر کی زلف
نبہا ہے فازۂ پیہم سے گل وہ غنچہ لب
ردیف قاف
ہوے خط سے کتاب عارض دلدار کی رونق
وہ سیمتیں جو دے کسی تدبیر سے نمک
ردیف کاف
یہ نہ سمجھو تم کہ صابرؔ ہم ہیں ناکام قلق
اشکوں میں بہیں لخت جگر روز کہاں تک
پونچھے جو اس گلی میں مری ایک بار خاک
اب فکر یہ نہیں وہ ملے یا ملائے دل
ردیف لام
گود لگی ہے خوب یہ کیا لطف اٹھاے دل
یہ عاشقوں کے خاک میں اسنے ملائے دل
کس طرح پہلے جو یوں گھٹ گھٹ کے منہ کو اے دل
اسے قید ہو رہائے وہ مزا اٹھائے بلبل
اک دن گئی تھی گرم نگہ اپنی سوئے گل
ردیف میم
تجھ سے خواہاں مدد میں چشم دریا بار ہم
ہوئے تم جو فقرے بنانے کے قابل
دن بھر جدا نہ ہونگے کبھی اسکے گھر سے ہم
عدو کی نظریں بچا کے تنہا ملیں جو گوشے میں یار ہم تم
ردیف نون
کس سے شرماتے ہو تم برقع نہیں سر پر نہیں
رحم دل میں آپکے اتنی صفائی پر نہیں
لذت قتل کے بھی کیا میں سزاوار نہیں
دشمن پہ رکھ کے دیتے ہوگالی عتاب میں
ڈالا ہے لاغری نے عجب پیچ وتاب میں
ہم اس طرح ہیں بزم جہاں خراب میں
زخم سے خوف ہمیں مثل گُہر کچھ بھی نہیں
ذکر جف نے نے حسن بڑھا یا وصال میں
ہیں اشک شادی انکی مژہ پر وصال میں
پائیں گر تیرے مرقعے کے کچھ اوراق آنکھیں
ہوش کا مجھ پہ گماں کیوں شب ہجراں میں نہیں
کیا روانی اسکی ہم تشنوں کے آئے کار میں
زود زد دنیا میں اشک آسا نہیں
اتنی گرمی ہے نگاہ طالب دیدار میں
سرکشوں کی پختہ کاری طول دے آزار میں
نہیں کرتی رفاقت یہ بھی مجھ سے کنج حرتمہیں
ترے جلوے کی بڑھتی ہے لطافت چشم گریاں میں
مکدر ہی رہے آنسو ہمارے دست مژگاں میں
زندگی ہے مرگ الفت جان تن میں کیوں نہیں
تابندہ یوں وہ رخ ہے ہجوم نگاہ میں
قطعہ بند
ہم عجب زیست کیا کرتے ہیں
آپ ہم انکو خفا کرتے ہیں
کس پہ ہم جان فدا کرتے ہیں
خون زخم جگر کا جو بہائے سرناخن
خارش میں نہیں ہے یہ صدائے سرناخن
گراں ہے ضعف جب ہم کو ہنسی میں وہ اڑاتے ہیں
ارمان کیا وصال دل آزار کا کروں
جو دل کو محبت کے مزے آئے ہوئے ہیں
مثل گیسو بل نکل جائیں جو میں تقدیر میں
وہ کبھی جاتی نہ بزم ظالم بے پیر میں
یہ سیاہی کے حروف اپنے کلام پاک میں
جھکنا پڑتا ہے وہ غصہ سے جو تن جاتے ہیں
کبھی دیدار سے محروم یہ دلگیر نہیں
جان قربان ہے پر مانتا بے پیر نہیں
نور کی خانۂ دل کے کوے تدبیر نہیں
خورشید سے کچھ داغ تھے باقی مرے تن میں
یاں لاغری سے تار نفس تک نہیں تن میں
دو چار بار روز نکلوائے جاتے ہیں
ردیف الواؤ
کسی کو بحر عالم میں نہ یارب حرص دولت ہو
گر نہ پر آب اے ستم آرا تری شمشیر ہو
کفایت کر گئی آپس کی انسیت ہمیشہ کو
نزاکت ہو گئی نمکین اس آئینہ سیما کو
سمجھیگا دست جنوں چاک کا خواہاں مجھ کو
پہلے نہ اڑایا کسی بیکس کے جگر کو
جو دیکھوں زرد شیشے سے جہاں کو
تم کو چھپائے یہ نہیں قدرت حجاب کو
تر ہے عرق میں دیکھ کر اس لب کی آب کو
آرام ترے ہجر میں کیا ہوش ربا ہو
آپس میں نفاق ایسا تجھے مہر لقا ہو
آؤ بس بہر خدا جانے دو
گردش سے ہوئے ضعف میں راحت مرے سرکو
وہ نہیں آتا تو لا اسکی خبر اتنا تو ہو
دیکھ کر اتنا وہ چکرایا رخ بے پیر کو
کیوں نہ ہوزر گر سے رنجش عاشق دلگیر کو
پھیر لیتا ہے جو دیتا ہے ہمیشہ مجھ کو
جو عشق طرۂ عنبر فشاں ہو
ردیف الھاء
تم کو جو منظور ہے تحقیر پشت آئینہ
وضع کے پابند ہیں اہل صفا ہر آئینہ
واں جاتے ہیں آداب سے ہم اور زیادہ
مارا جاے مرے شکووں پہ جو دوچار کا منہ
ہے درد زباں اپنے سخن ہائے مدینہ
صورت نئی بناتے ہیں ہر دم نئے خیال
ردیف الیاء
رہے اس مہر کے آگے یہ ہے توقیر پتھر کی
الٰہی بڑھے اتنی نخوت تمہاری
آئیں گے یاں بن کے سنگ ریشم نالے صورکے
ہم مثل جان وتن نہ بہم دلربا چلے
رنگ اڑا ایسا ترے خوف کماں وتیر سے
مہتم قسمت ہو بگڑے کام گر تدبیر سے
اب کسی دھوکے میں ہوگا وصل اس بے پیر سے
غش کی تحریک نہ میرے لئے منظور رہے
ناکسی اوج ہے دل کیونکہ نہ مسرور رہے
ہوئے یہ بات ثابت مجھ کو دور چرخ اخضر سے
سیہ روئے ہے بڑھ جانا ہمارے دیدۂ تر سے
جس طرف دیکھوں نظر آتا ہے تو ہی تو مجھے
ہے لاغری کا شکر بجا سیمبر مجھے
لکھا تھا پھر دکھائے خدا تیرا گھر مجھے
آشفتہ ہوگی طبع فغان ہزار سے
سر جدا کیجے تن آزار سے
اس مہر سے فراق بھی ہے اور وصال بھی
نہ تجھ سے بات کچھ اے مطلب آشنا ٹھہری
یہ آئینہ پہ نظر اسے پری لقا ٹھہری
قلق دل کو سوا ہے یار کے صورت دکھانے سے
چرخ نے ظلم سے توڑ ہے میں مکان دہلی
ہر گز نہ پیچ وتاب گئے زلف یار کے
ہوئے لاغر تو ہم خلق خدا کے کار میں ترے
ہجر میں چھوٹ گیا خون جگر کھانے سے
کچھ تو ہے در پہ جو تم رہتے ہو ہر آن گھڑے
دل کے زخموں کا بڑھا درد کھرنڈ آنے سے
جو کہی اس نے بگڑ کر وہ کہی میں نے بھی
تشنہ بھی کوئی تم سے ہوا کامیاب ہے
اس خال رخ پہ غش دل حسرت مآب ہے
ہے وصل پہ قسمت کی برائی نہیں جاتی
تیری شوخی کا جو ذکر اے بت کافر ہو جائے
دم نظارہ اگر ابر مژہ تر ہو جائے
تری طرز حیا وقت سخن کچھ اور کہتی ہے
اٹھا دینے پہ زلف پر شکن کچھ اور کہتی ہے
خرابی میں بھی تمکیں اپنی دامنگیر پھرتی ہے
منہ ہے کیا ہم کو تری زلف معنبر باندھے
ہیں سر نوک مژہ لخت جگر سوکھے ہوئے
ہم جفا کش مرکے بھی تجھ کو صنم یاد آئیں گے
ہے وصل بات بات پہ قسمیں دلائیں گے
ان کو بھی میری طرح حسرت رہی دیدار کی
خط وہ رنجش میں دکھاتے ہیں اگر بھولے سے
نہیں شبنم متغیر ہے جو حالت میری
ذکریا کی طرح ہوگی رسالت میری
میں کیا کہوں جو یار نے لاف وفا کئے
حیا بوجھ اے فتنہ گر ہو گئی
یہ چرچا محبت کا کیوں کوبکو ہے
بہتر ہے اگر ابر مژہ اپنا نہ برسے
گاہے گاہے کی ملاقات ہے یہ بھی نہ سہی
نمود اس کو میں ان کے نقش پاکی
جو مدح لکھتے ہیں ہم ان کی بید ہانی کی
توانائی ہے یہ مجھ ناتواں کی
دام سے اپنے کسی روز نہ باہر نکلے
نادم ہوں حسن موئے کمر کے وہ لاف سے
چمن میں فکر سکونت ہے مرغ جاں کے لئے
ہزار آہ کروں گیسوئے بتاں کے لئے
وصل باتوں سے کب اے ماہ لقا ہوتا ہے
غرور حسن بلا سے ہے ان پہ چھائے ہوئے
اشعار متفرقات
قطعات
رباعیات
قطعات
قصیدہ در نعت سرور کائنات مفخر موجودات ﷺ
مطلع غزل
بغیر دیکھے میں عاشق ہوں تیرا اے خود کام
نہیں ہے پختہ کوے کار چرخ مینا فام
تو اسکی مدح طرازی کا فوق حاصل کر
بندھی تھی شکل نہ کوے قیام عالم کی
ازل میں خالق ہژدہ ہزار عالم نے
ہزار طور پہ موسیٰ کریں خدا سے کلام
یہ آرزو ہے تیرے وصف میں ہو عمر تمام
سلام
وصف امام قرب ہے مجھ کو امام کا
سلامی جب ملائے شمر نے شمشیر گردن سے
مخمسات
مخمس بر سلام خود
مخمس برغزل حافظ
مخمس
واسوخت
قطعہ تاریخ انتقال حضرت مصنف مرحوم
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।