سرورق
عرض ناشر
مقدمہ
صفی کی وضعداری مزاج ومزاح
صفی کا کردار وصفات
صفی بہ حیثیت شاعر
قومی نظم
غزلیہ شاعری
میر اور صفی
صفیؔ کی غزلیہ شاعری کا تعارف
صفیؔ اور اصلاح تحئیل
صفیؔ اور جدید شاعری
صفی کی مطلع نگاری ۔۔۔۔ ایک مطالعہ
صفیؔ کے شاگرد اور اصلاح
صفیؔ کا طرز شعر خوانی
غش حورو پری جس پہ وہ دیوانہ ہے اس کا
دیوان صفیؔ
جو دل میں جذب صادق ہو تو امکاں ہے رسائی کا
جو پیدا ہی نہ میں آزردہ جاں ہوتا تو کیا ہوتا
رگ دل پر خدنگ ناز مارا
مری لحد پہ کوئی سو گوار تک نہ رہا
اک ذرا ناصح نافہم سمجھ کر سمجھا
سرطور آج بھی برق جمال یار ہو پیدا
دیا گیا نئے عنوان سے انھیں خط شوق
بہار آئی تھی جس میں وہ چمن وقف خزاں پایا
آہیں نہ کرے سوختہ جاں ہو نہیں سکتا
بزم میں مجھ سے کشیدہ بت مغرور رہا
سنتا ہوں ذکر تنگی کنج مزار کا
یہ ناتوانی سے اب ہے نقشہ، کسی کے بیمار دل حزیں کا
مرے چھپائے سب کب سوز دل نہاں ہوگا
دیدۂ اشکبارا کیا کہنا
آنکھ ملتے ہی رہا دل پہ نہ قابو اپنا
صبحدم قطرۂ شبنم کا ہوا ہو جانا
اک اداسی چھاگئی ہر سوختہ دل اٹھ گیا
خط بھیج کے دیتا ہوں یہی دل کو تسلّی
پائے قاتل پہ غیر کا سر تھا
سینے میں آکے ناوکب قاتل ٹھہر گیا
شور تھا حشر میں پہونچا جو ترا دیوانہ
قفس وہاں ہے ہم آوارہ آشیانوں کا
پیری میں قول ہے دل خانہ خراب کا
اچھا ہوا کہ حشر کا ہنگام ہوگیا
قطرہ دریا ہے جہاں دریا میں شامل ہوگیا
بدگماں ہے دل صیّاد کو بس دیکھ لیا
گراں باری سے عصیاں کی مرا سر اٹھ نہیں سکتا
یہ کسی کو کیا غرض تھی کہ جو غمگسار ہوتا
پسند عاشق گریاں کا اضطراب نہ تھا
وہ آئیں تابہ قیامت، یہ اعتبار نہ تھا
کھینچ لو سینۂ مجروح سے پیکاں اپنا
کون شوریدہ سری میں نہیں دشمن میرا
سوز وگداز عشق کے قابل نہیں رہا
جووہ حسن عالم آرا کہیں بے نقاب ہوتا
وضع صفیؔ نہ پوچھو اک رند پارسا تھا
مہرباں! تم نے وہ انداز نظر چھوڑ دیا
بگڑنا یوں بھری محفل میں کیا تھا
ذرّے ذرّے میں ہے جلوہ تری یکتائی کا
نہ وہیں تھا نہ یہیں جلوۂ جانا نہ جدا
دل جو ٹوٹا تو اک آنسو سر مژگاں نکلا
گہوارۂ مرقد بھی صفیؔ کام نہ آیا
حسن رسوا ہو دل اس بات پہ راضی نہ ہوا
انقلاب آہی گیا لو انقلاب آہی گیا
دل چھٹ کے ہم سے حسرت منزل میں رہ گیا
موت ہے زیست میں شرمندۂ احساں ہونا
ابھی کیا ہے کس کس کا دل خوں نہ ہوگا
خلاف وضع ہے اے دل ادھر جانا ادھر جانا
شعبدہ تھا آفتاب حسن عالمگیر کا
روتے ہوے ہر مونس وغمخوار کو دیکھا
موقع نہیں ہے طور پہ عرض نیاز کا
غنیمت جانئے اے رہروان عشق دم میرا
ساز وبرگ عشرت اہل تمنا جل گیا
جو یہی تھی رسم دنیا تو وہاں مزار ہوتا
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
اٹھ گئے خود اہل جو ہرذکر جو ہررہ گیا
پالیا جو پانا تھا کیا بتائیں کیا پایا
تھی فکر نام ہم کو نہ شوق نمود تھا
پیری میں کیا خبر تھی عہد شباب ہوگا
سنبھلے نہ تھے کہ آگیا موسم بہار کا
زندہ بچا کہ راہ طلب میں فنا ہوا
دل بیچ کے یوسف ہے خریدار کسی کا
جنوں خیز حسن گل افشاں تمھارا
نگاہ گرم گلچیں نے مٹا ڈالا نشاں میرا
دل سے دل تک نزاع میں کچھ نامہ وپیغام تھا
رہیں لطف ہوں ایسے جنوں فتنہ ساماں کا
جب صفیؔ ذکر حریفان مے شام آیا
راز ہستی آکے عالم آشکارا کردیا
جاکے جب تازہ مزاروں پہ چراغاں کرنا
مدعا مسجد سے کیا مقصود بت خانے سے کیا
مآل غفلت عہد شباب دیکھ لیا
پیش نظر تھا جو سماں کچھ بھی نہ تھا وہ خواب تھا
بھری بہار میں یہ جور باغباں دیکھا
وجہ جمعیت خاطر سروساماں نہ ہوا
مری نظر سے نظر سے دل ملائے جا
دل مٹ کے نشان غم دنیا نہ رہے گا
شکوۂ ناکامی قسمت بھی کام آہی گیا
ہجر میں بھی بخشا ہے لطف وصل یار خواب
غافلو! مرگ مفا جات ہے انجام شراب
سب سنا کرتے ہیں مجھ سے داستان کوئے دوست
بزم میں دیکھا اگر دشمن کو ہم پہلوئے دوست
رفتہ رفتہ روح شاید کھینچ رہی ہے سوئے دوست
حافظؔ ہے کے زمانے کا دور قمر ہے آج
موجزن برق صفت جام میں جم کی میراث
بلبل کے ترانے ہوں کہ حسن گل تر ہیچ
ڈوبتے تاروں نے دکھلائے ادھر آثار صبح
مریض عشق کبھی اس قدر نہ تھا گستاخ
منصب عشق مسلّم نہ رہا میرے بعد
غم ذائقے میں عیش سے ہے بیشتر لذیذ
جگہ پیدا دلوں میں کی بتوں نے بے وفا ہوکر
ہنس پڑے قاتل الٰہی شکوۂ بیداد پر
خدائی بھر کو اپنا کر لیا نا آشنا ہوکر
جوش وحشت میں گیا گلشن بیا باں دیکھ کر
دل حزیں کے موافق نہیں ہوائے بہار
اب جوانی کی امنگیں نہ وہ تاثیر بہار
ڈریے شکست رونق بازار دیکھ کر
تو پاؤں، جب سے زاہد رکھتا نہیں زمیں پر
اے دل کسی کو خیر کسی کو ہے شرعزیز
جب سے ہے اک دل مایوس گرفتار قفس
ہے محفل عشرت میں ادھر رقص ادھر رقص
جس دن تن خاکی سے ہوئی روح ہم آغوش
تیز رفتار ہے یونہی دل بیمار کی نبض
جب آؤگے دل دیں گے تمھیں نذر یہ تھی شرط
دور ماہ رمضاں چرب زبان واعظ
اللہ رے جذب حسن رخ تابدار شمع
روشن رہے جہاں میں ترے نام کا چراغ
کیا جنوں کے جوش میں جاؤں گلستاں کی طرف
غم میں مساز محبت دل ناساز ہے ایک
حسن اخلاق سے بیگانہ ہے بیگانہ عشق
کیا خبر کیا ہودعاؤں میں اثر ہونے تک
لبریز حرارت ہے تن زار کی رگ رگ
دیکھنے میں حباب سا ہے دل
وہ دست کش جفا سے نہ ہوں گے، وفا سے ہم
دل خانہ خراب کا عالم
کیوں یہ کہتے ہیں جو روٹھیں تو منا بھی نہ سکوں
وہ نقطہ جو تھا مرکز آدمیت
جی رہے ہیں انتظار وعدۂ دیدار میں
راحت نصیب ہو کسی پہلو وہ ہم نہیں
کھیل سمجھی تھی تجّلی کا تماشا آنکھیں
دل الجھا ہے زلف شکن در شکن میں
مآل عاشق شوریدہ سر کو دیکھتے ہیں
ناطاقتی ذریعۂ ترک ہوس نہیں
بہار آئی چمن پھولوں کی خوشبو سے مہکتے ہیں
خط بھیج کر دل اب ہے اسی پیچ وتاب میں
رحمت حق ہے سوایا مرے عصیاں دیکھوں
جو ناممکن وہاں تک ہم رسائی دیکھ لیتے ہیں
خس وخاشاک بن کر کیوں رہے ہم صحن گلشن میں
تار ہیں ساز شکستہ کے وہ دمساز نہیں
داغ دل میں رہ گئے آہیں پریشاں ہوگئیں
وہ آئیں تیغ بکف عذر امتحاں میں نہیں
پرسش طرف قدح خوار ہے میخانے میں
بے اذن غیر رکھ نہیں سکتا جو سر کو میں
کیا پوچھتے ہو درد کہاں ہے کہاں نہیں
پھر دن بہار لالۂ خونیں کفن کے ہیں
ہم اپنا حال کچھ اس طرح مایوسا نہ کہتے ہیں
کون سی شے ہے جو ڈھونڈھے سے کہیں ملتی نہیں
مرتا ہوں جن پہ ان کو سروکار بھی نہیں
ضوجو دھندلی سی شب ہجر ہے ان تاروں میں
محشر طراز نالے کس کی زبان پر ہیں
تپ غم سے کیس پہلو نہیں راحت مقدّر میں
کون یارب کشتۂ بے مہریٔ قاتل نہیں
ملتفت بھی ہیں تو عرض مدّعا کیونکر کریں
پوچھنا چھیڑ کے بیداد کسے کہتے ہیں
مسٹ کر بھی یاد گار دل داغدار ہوں
نہ مٹنے ہی کے لائق ہوں نہ رہنے ہی کے قابل ہوں
اسیر پنجۂ جوش جنوں فتنہ ساماں ہوں
پردۂ لطف میں انداز ستم دیکھتے ہیں
سخت جاں مجھ سا بھی زیر آسماں کوئی نہیں
طالب دید پر آنج آئے یہ منظور نہیں
درد آغاز محبت کا جب انجام نہیں
ہستی کو حباب جانتا ہوں
جوانی یاد کرکے آنکھ میں آنسو بھر آتے ہیں
سب کچھ ہے تیرے قبضۂ قدرت میں کیا نہیں
کچھ بھی نہ حیف کرسکے ہستیٔ مستعار میں
مزہ تو یہ ہے کوئی بھی قصور وار نہیں
کوندتے ہی برق کے بیکار آنکھیں ہوگئیں
کوئی آباد منزل ہم جو ویراں دیکھ لیتے ہیں
کچھ نہ تھا اور وعظ کے سلسلۂ دراز میں
دنیا کا ورق بینش ارباب نظر میں
قبر کی ظلمت شب فرقت کدھر چھائی نہیں
راہ طلب می ںرو کورانہ جارہے ہیں
خلق کرنا تھا غم عشق کے قابل مجکو
بس دل وہی دماغ وہی ہے خدا گواہ
جلوہ گاہ یار اپنا خانۂ دل کیوں نہ ہو
خاک کا پیوند افسردہ کوئی مجھ سا نہ ہو
دوستی میں صلح دشمن آپ کا ایسا تو ہو
ایک ہی ہوگا مرے خواب پریشاں کا اثر
ایک مدّت ہوئی گو طور کے افسانے کو
سلوک ایسا تو کر دنیا میں جس سے نام روشن ہو
صلاحیں تھیں یہ دیوانوں میں غافل پاکے درباں کو
جانا جانا جلدی کیا ہے ان باتوں کو جانے دو
دکھائے گادر صیّاد شاید آسماں مجکو
شیشوں کی طرح ٹوٹے تو بہ سر میخانہ
بفیض صحبت ساقی دلان میخانہ
ہے کیفیت ہی دگر گوں کچھ آج چتون کی
وہیں نکلی نہ کوئی صیلح کی صورت یہیں نکلی
کتی ہے آئینہ بندی خود نمائی آپ کی
بند نقاب حسن ابھی واکرے کوئی
دیکھ لیتا اک نظر اس کے سوا حسرت نہ تھی
آہ وہ رات جو بسر نہ ہوئی
فلک تک ہم نے مانا ااہ میں قوت ہے جان کی
ملتے ہی آنکھ دل پہ قیامت گذر گئی
آہ دل ہی میں جو تو رہ جائے گی
زندگی مجھ پر شکستہ کی اسیر دام کی
کوچۂ جاناں میں تربت مل گئی
حکم آزادی نہ پایا زندگی برباد کی
صفائے قلب ہی دولت ہے اہل جوہر کی
محض تخیل نہ سمجھے اسے حاشا کوئی
سودائے زلیخا کی تصویر نظر آئی
پتا میرا پتا دے کاش بڑھ کر آرزو میری
کیونکر یہاں تمھاری طبیعت بہل گئی
کہاں تک ہو خوشی کے ساتھ ہی وابستگی غم کی
دیکھئے کیوں کوئی تربت ہوگی
کل ہم آْئینے میں رح کی جھریاں دیکھا کئے
بتا اے بیخودی کس کے لئے ہوں نوحہ گر پہلے
غم ہر نیک و بد سے میکشان سر گراں چھوٹے
طاقت ہو تو وحشت میں ادھر جائے ادھر جائے
کشتی مئے کے موافق وہ ہوا رہتی ہے
چشم آبدیدہ کیوں ہے دل زار کے لئے
میری ہی طبیعت نہیں کچھ آئی ہوئی ہے
دل سے کبھی مٹنے کا نہیں داغ محبت
صدمۂ ہجر بہ امید وصال اچھا ہے
وہ اور کچھ نہ سہی لطف انتظار تو ہے
نوید مرگ ہے عشاق نیم جاں کے لئے
وہاں بالوں میں کنگھی ہو رہی ہے خم نکلتا ہے
محشر میں جا کے آخر کیا داد خواہ کرتے
رنگ ساقی کا جما ہے سر خوشی کا جوش ہے
ستمکش ااپ کے اس ڈر سے زہر کھا نہ سکے
بھلا حصول تمنا کی جستجو کیا ہے
سب خون دل کا چاہے آنکھوں کی راہ نکلے
دم آخر تو یارب حسرت لطف ستم نکلے
پہلے دل مبتلا کیا میں نے
یوں دل ہو خون شرح تمنا کہیں جسے
ہزار بار جواے دم لبوں پہ تو آئے
طوفاں اٹھے کہ شور قیامت بلند ہو
وفا پر ہیں مرتے وفا کرنے والے
نہیں حیرت کدۂ حسن میں قحط دیدار
جس جگہ بیٹھ گئے نقش جما کے اٹھے
خرام ناز ترا انتظار راہ میں ہے
ادھر ساقی کو عذرلغزش مستانہ نہ آتا ہے
خرام ناز ترا انتظار راہ میں ہے
پیوند خاک کس کو مری جاں کئے ہوئے
نگاہ لفطف سے پرسش جو چارہ جو کرتے
سب وہ ماتھے پر شکن بن کر ابھرتے جائیں گے
جس قدر اجزائے دل فرقت میں جلتے جائیں گے
غیر کی بزم میں درکارہیں ساغر کے لئے
جب تک کہ دل ہے دل میں تری آرزورہے
کیا تم نے وعدہ اور تم شب انتظار آئے
گھٹا اٹھی ہے کالی اور کالی ہوتی جائی ہے
یہ درد عشق نے پہلے ہی کہہ رکھا تھا اس دل سے
ٹپکے کبھی، کبھی مژۂ ترکے ہوگئے
کس طرح دیکھئے زنداں میں قضا آتی ہے
یوں واقعات عمر فراموش ہوگئے
پھریں ہیں یوں پتلیاں شب غم کہ شام ہی سے سحر ہوئی ہے
ایک سجدے سے غرض ہے وہ یہاں ہو یا وہاں
بغل میں داب کے ناقوس اک اذاں کے لئے
تجھ کو خلوت میں بٹھایا تری یکتائی نے
کیا کروں اب جو عطا ساغر جم ہوتا ہے
اپنے ہی دل پر نہ دم بھر ہاتھ رکھ کر دیکھئے
جب دل نہ پریشاں ہو جمیعت ساماں ہے
ہے زبان کہنے میں قابو میں نہ اب آواز ہے
زلیخا کر نہ گستاخی بہت یوسف کے داماں سے
پر تونے کے مفت گنہ گار ہوگئے
جب تم گراچکے نظر اعتبار سے
ہر چند لطف سیر و سیاحت سفر میں ہے
غلط ہے دور میں ساقی کے ہم تک جام آجائے
تم جبر کرو جبر بھی وہ دل جو ہلادے
راحت جہاں ملے کوئی ایسا مکاں بھی ہے
فکروں نے جان لے لی اب جان ہی کہاں ہے
جو میرا عقیدہ ہے وہ زاہد کا نہیں ہے
اپنے برتاؤ کا ہے ردّ عمل
اس آئینے میں تصویر بتاں ہے
شب بھر ہم آہ جانب در دیکھتے رہے
بنائے ہستی ہے نیستی پر مگر تمھیں کچھ خبر نہیں ہے
محفل میں اسے دیکھ بھی سکتے نہیں ڈر سے
یہ جوش اے نفس شعلہ بار رہنے دے
رسوم بندگی عشق یوں ادا کرتے
کانٹے بقدر وسعت داماں لئے ہوئے
کیا خوب دوستی کے فرائض ادا کئے
ڈر ہے مجھے اے عشق ترا حسن تکلم
شکستہ سنگ غم سے شیشۂ دل ہوتا جاتا ہے
دل میں سکت، نہ بوند لہو کی جگر میں ہے
خدا جانے خبر آئے نہ آئے
پیغام زندگی نے دیا موت کا مجھے
دل گرفتار بلا زلف گرہ گیر میں ہے
متفرقات
رباعیات
حق بجانب ہیں قصیدہ خوان مولانا صفیؔ
سرورق
عرض ناشر
مقدمہ
صفی کی وضعداری مزاج ومزاح
صفی کا کردار وصفات
صفی بہ حیثیت شاعر
قومی نظم
غزلیہ شاعری
میر اور صفی
صفیؔ کی غزلیہ شاعری کا تعارف
صفیؔ اور اصلاح تحئیل
صفیؔ اور جدید شاعری
صفی کی مطلع نگاری ۔۔۔۔ ایک مطالعہ
صفیؔ کے شاگرد اور اصلاح
صفیؔ کا طرز شعر خوانی
غش حورو پری جس پہ وہ دیوانہ ہے اس کا
دیوان صفیؔ
جو دل میں جذب صادق ہو تو امکاں ہے رسائی کا
جو پیدا ہی نہ میں آزردہ جاں ہوتا تو کیا ہوتا
رگ دل پر خدنگ ناز مارا
مری لحد پہ کوئی سو گوار تک نہ رہا
اک ذرا ناصح نافہم سمجھ کر سمجھا
سرطور آج بھی برق جمال یار ہو پیدا
دیا گیا نئے عنوان سے انھیں خط شوق
بہار آئی تھی جس میں وہ چمن وقف خزاں پایا
آہیں نہ کرے سوختہ جاں ہو نہیں سکتا
بزم میں مجھ سے کشیدہ بت مغرور رہا
سنتا ہوں ذکر تنگی کنج مزار کا
یہ ناتوانی سے اب ہے نقشہ، کسی کے بیمار دل حزیں کا
مرے چھپائے سب کب سوز دل نہاں ہوگا
دیدۂ اشکبارا کیا کہنا
آنکھ ملتے ہی رہا دل پہ نہ قابو اپنا
صبحدم قطرۂ شبنم کا ہوا ہو جانا
اک اداسی چھاگئی ہر سوختہ دل اٹھ گیا
خط بھیج کے دیتا ہوں یہی دل کو تسلّی
پائے قاتل پہ غیر کا سر تھا
سینے میں آکے ناوکب قاتل ٹھہر گیا
شور تھا حشر میں پہونچا جو ترا دیوانہ
قفس وہاں ہے ہم آوارہ آشیانوں کا
پیری میں قول ہے دل خانہ خراب کا
اچھا ہوا کہ حشر کا ہنگام ہوگیا
قطرہ دریا ہے جہاں دریا میں شامل ہوگیا
بدگماں ہے دل صیّاد کو بس دیکھ لیا
گراں باری سے عصیاں کی مرا سر اٹھ نہیں سکتا
یہ کسی کو کیا غرض تھی کہ جو غمگسار ہوتا
پسند عاشق گریاں کا اضطراب نہ تھا
وہ آئیں تابہ قیامت، یہ اعتبار نہ تھا
کھینچ لو سینۂ مجروح سے پیکاں اپنا
کون شوریدہ سری میں نہیں دشمن میرا
سوز وگداز عشق کے قابل نہیں رہا
جووہ حسن عالم آرا کہیں بے نقاب ہوتا
وضع صفیؔ نہ پوچھو اک رند پارسا تھا
مہرباں! تم نے وہ انداز نظر چھوڑ دیا
بگڑنا یوں بھری محفل میں کیا تھا
ذرّے ذرّے میں ہے جلوہ تری یکتائی کا
نہ وہیں تھا نہ یہیں جلوۂ جانا نہ جدا
دل جو ٹوٹا تو اک آنسو سر مژگاں نکلا
گہوارۂ مرقد بھی صفیؔ کام نہ آیا
حسن رسوا ہو دل اس بات پہ راضی نہ ہوا
انقلاب آہی گیا لو انقلاب آہی گیا
دل چھٹ کے ہم سے حسرت منزل میں رہ گیا
موت ہے زیست میں شرمندۂ احساں ہونا
ابھی کیا ہے کس کس کا دل خوں نہ ہوگا
خلاف وضع ہے اے دل ادھر جانا ادھر جانا
شعبدہ تھا آفتاب حسن عالمگیر کا
روتے ہوے ہر مونس وغمخوار کو دیکھا
موقع نہیں ہے طور پہ عرض نیاز کا
غنیمت جانئے اے رہروان عشق دم میرا
ساز وبرگ عشرت اہل تمنا جل گیا
جو یہی تھی رسم دنیا تو وہاں مزار ہوتا
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
اٹھ گئے خود اہل جو ہرذکر جو ہررہ گیا
پالیا جو پانا تھا کیا بتائیں کیا پایا
تھی فکر نام ہم کو نہ شوق نمود تھا
پیری میں کیا خبر تھی عہد شباب ہوگا
سنبھلے نہ تھے کہ آگیا موسم بہار کا
زندہ بچا کہ راہ طلب میں فنا ہوا
دل بیچ کے یوسف ہے خریدار کسی کا
جنوں خیز حسن گل افشاں تمھارا
نگاہ گرم گلچیں نے مٹا ڈالا نشاں میرا
دل سے دل تک نزاع میں کچھ نامہ وپیغام تھا
رہیں لطف ہوں ایسے جنوں فتنہ ساماں کا
جب صفیؔ ذکر حریفان مے شام آیا
راز ہستی آکے عالم آشکارا کردیا
جاکے جب تازہ مزاروں پہ چراغاں کرنا
مدعا مسجد سے کیا مقصود بت خانے سے کیا
مآل غفلت عہد شباب دیکھ لیا
پیش نظر تھا جو سماں کچھ بھی نہ تھا وہ خواب تھا
بھری بہار میں یہ جور باغباں دیکھا
وجہ جمعیت خاطر سروساماں نہ ہوا
مری نظر سے نظر سے دل ملائے جا
دل مٹ کے نشان غم دنیا نہ رہے گا
شکوۂ ناکامی قسمت بھی کام آہی گیا
ہجر میں بھی بخشا ہے لطف وصل یار خواب
غافلو! مرگ مفا جات ہے انجام شراب
سب سنا کرتے ہیں مجھ سے داستان کوئے دوست
بزم میں دیکھا اگر دشمن کو ہم پہلوئے دوست
رفتہ رفتہ روح شاید کھینچ رہی ہے سوئے دوست
حافظؔ ہے کے زمانے کا دور قمر ہے آج
موجزن برق صفت جام میں جم کی میراث
بلبل کے ترانے ہوں کہ حسن گل تر ہیچ
ڈوبتے تاروں نے دکھلائے ادھر آثار صبح
مریض عشق کبھی اس قدر نہ تھا گستاخ
منصب عشق مسلّم نہ رہا میرے بعد
غم ذائقے میں عیش سے ہے بیشتر لذیذ
جگہ پیدا دلوں میں کی بتوں نے بے وفا ہوکر
ہنس پڑے قاتل الٰہی شکوۂ بیداد پر
خدائی بھر کو اپنا کر لیا نا آشنا ہوکر
جوش وحشت میں گیا گلشن بیا باں دیکھ کر
دل حزیں کے موافق نہیں ہوائے بہار
اب جوانی کی امنگیں نہ وہ تاثیر بہار
ڈریے شکست رونق بازار دیکھ کر
تو پاؤں، جب سے زاہد رکھتا نہیں زمیں پر
اے دل کسی کو خیر کسی کو ہے شرعزیز
جب سے ہے اک دل مایوس گرفتار قفس
ہے محفل عشرت میں ادھر رقص ادھر رقص
جس دن تن خاکی سے ہوئی روح ہم آغوش
تیز رفتار ہے یونہی دل بیمار کی نبض
جب آؤگے دل دیں گے تمھیں نذر یہ تھی شرط
دور ماہ رمضاں چرب زبان واعظ
اللہ رے جذب حسن رخ تابدار شمع
روشن رہے جہاں میں ترے نام کا چراغ
کیا جنوں کے جوش میں جاؤں گلستاں کی طرف
غم میں مساز محبت دل ناساز ہے ایک
حسن اخلاق سے بیگانہ ہے بیگانہ عشق
کیا خبر کیا ہودعاؤں میں اثر ہونے تک
لبریز حرارت ہے تن زار کی رگ رگ
دیکھنے میں حباب سا ہے دل
وہ دست کش جفا سے نہ ہوں گے، وفا سے ہم
دل خانہ خراب کا عالم
کیوں یہ کہتے ہیں جو روٹھیں تو منا بھی نہ سکوں
وہ نقطہ جو تھا مرکز آدمیت
جی رہے ہیں انتظار وعدۂ دیدار میں
راحت نصیب ہو کسی پہلو وہ ہم نہیں
کھیل سمجھی تھی تجّلی کا تماشا آنکھیں
دل الجھا ہے زلف شکن در شکن میں
مآل عاشق شوریدہ سر کو دیکھتے ہیں
ناطاقتی ذریعۂ ترک ہوس نہیں
بہار آئی چمن پھولوں کی خوشبو سے مہکتے ہیں
خط بھیج کر دل اب ہے اسی پیچ وتاب میں
رحمت حق ہے سوایا مرے عصیاں دیکھوں
جو ناممکن وہاں تک ہم رسائی دیکھ لیتے ہیں
خس وخاشاک بن کر کیوں رہے ہم صحن گلشن میں
تار ہیں ساز شکستہ کے وہ دمساز نہیں
داغ دل میں رہ گئے آہیں پریشاں ہوگئیں
وہ آئیں تیغ بکف عذر امتحاں میں نہیں
پرسش طرف قدح خوار ہے میخانے میں
بے اذن غیر رکھ نہیں سکتا جو سر کو میں
کیا پوچھتے ہو درد کہاں ہے کہاں نہیں
پھر دن بہار لالۂ خونیں کفن کے ہیں
ہم اپنا حال کچھ اس طرح مایوسا نہ کہتے ہیں
کون سی شے ہے جو ڈھونڈھے سے کہیں ملتی نہیں
مرتا ہوں جن پہ ان کو سروکار بھی نہیں
ضوجو دھندلی سی شب ہجر ہے ان تاروں میں
محشر طراز نالے کس کی زبان پر ہیں
تپ غم سے کیس پہلو نہیں راحت مقدّر میں
کون یارب کشتۂ بے مہریٔ قاتل نہیں
ملتفت بھی ہیں تو عرض مدّعا کیونکر کریں
پوچھنا چھیڑ کے بیداد کسے کہتے ہیں
مسٹ کر بھی یاد گار دل داغدار ہوں
نہ مٹنے ہی کے لائق ہوں نہ رہنے ہی کے قابل ہوں
اسیر پنجۂ جوش جنوں فتنہ ساماں ہوں
پردۂ لطف میں انداز ستم دیکھتے ہیں
سخت جاں مجھ سا بھی زیر آسماں کوئی نہیں
طالب دید پر آنج آئے یہ منظور نہیں
درد آغاز محبت کا جب انجام نہیں
ہستی کو حباب جانتا ہوں
جوانی یاد کرکے آنکھ میں آنسو بھر آتے ہیں
سب کچھ ہے تیرے قبضۂ قدرت میں کیا نہیں
کچھ بھی نہ حیف کرسکے ہستیٔ مستعار میں
مزہ تو یہ ہے کوئی بھی قصور وار نہیں
کوندتے ہی برق کے بیکار آنکھیں ہوگئیں
کوئی آباد منزل ہم جو ویراں دیکھ لیتے ہیں
کچھ نہ تھا اور وعظ کے سلسلۂ دراز میں
دنیا کا ورق بینش ارباب نظر میں
قبر کی ظلمت شب فرقت کدھر چھائی نہیں
راہ طلب می ںرو کورانہ جارہے ہیں
خلق کرنا تھا غم عشق کے قابل مجکو
بس دل وہی دماغ وہی ہے خدا گواہ
جلوہ گاہ یار اپنا خانۂ دل کیوں نہ ہو
خاک کا پیوند افسردہ کوئی مجھ سا نہ ہو
دوستی میں صلح دشمن آپ کا ایسا تو ہو
ایک ہی ہوگا مرے خواب پریشاں کا اثر
ایک مدّت ہوئی گو طور کے افسانے کو
سلوک ایسا تو کر دنیا میں جس سے نام روشن ہو
صلاحیں تھیں یہ دیوانوں میں غافل پاکے درباں کو
جانا جانا جلدی کیا ہے ان باتوں کو جانے دو
دکھائے گادر صیّاد شاید آسماں مجکو
شیشوں کی طرح ٹوٹے تو بہ سر میخانہ
بفیض صحبت ساقی دلان میخانہ
ہے کیفیت ہی دگر گوں کچھ آج چتون کی
وہیں نکلی نہ کوئی صیلح کی صورت یہیں نکلی
کتی ہے آئینہ بندی خود نمائی آپ کی
بند نقاب حسن ابھی واکرے کوئی
دیکھ لیتا اک نظر اس کے سوا حسرت نہ تھی
آہ وہ رات جو بسر نہ ہوئی
فلک تک ہم نے مانا ااہ میں قوت ہے جان کی
ملتے ہی آنکھ دل پہ قیامت گذر گئی
آہ دل ہی میں جو تو رہ جائے گی
زندگی مجھ پر شکستہ کی اسیر دام کی
کوچۂ جاناں میں تربت مل گئی
حکم آزادی نہ پایا زندگی برباد کی
صفائے قلب ہی دولت ہے اہل جوہر کی
محض تخیل نہ سمجھے اسے حاشا کوئی
سودائے زلیخا کی تصویر نظر آئی
پتا میرا پتا دے کاش بڑھ کر آرزو میری
کیونکر یہاں تمھاری طبیعت بہل گئی
کہاں تک ہو خوشی کے ساتھ ہی وابستگی غم کی
دیکھئے کیوں کوئی تربت ہوگی
کل ہم آْئینے میں رح کی جھریاں دیکھا کئے
بتا اے بیخودی کس کے لئے ہوں نوحہ گر پہلے
غم ہر نیک و بد سے میکشان سر گراں چھوٹے
طاقت ہو تو وحشت میں ادھر جائے ادھر جائے
کشتی مئے کے موافق وہ ہوا رہتی ہے
چشم آبدیدہ کیوں ہے دل زار کے لئے
میری ہی طبیعت نہیں کچھ آئی ہوئی ہے
دل سے کبھی مٹنے کا نہیں داغ محبت
صدمۂ ہجر بہ امید وصال اچھا ہے
وہ اور کچھ نہ سہی لطف انتظار تو ہے
نوید مرگ ہے عشاق نیم جاں کے لئے
وہاں بالوں میں کنگھی ہو رہی ہے خم نکلتا ہے
محشر میں جا کے آخر کیا داد خواہ کرتے
رنگ ساقی کا جما ہے سر خوشی کا جوش ہے
ستمکش ااپ کے اس ڈر سے زہر کھا نہ سکے
بھلا حصول تمنا کی جستجو کیا ہے
سب خون دل کا چاہے آنکھوں کی راہ نکلے
دم آخر تو یارب حسرت لطف ستم نکلے
پہلے دل مبتلا کیا میں نے
یوں دل ہو خون شرح تمنا کہیں جسے
ہزار بار جواے دم لبوں پہ تو آئے
طوفاں اٹھے کہ شور قیامت بلند ہو
وفا پر ہیں مرتے وفا کرنے والے
نہیں حیرت کدۂ حسن میں قحط دیدار
جس جگہ بیٹھ گئے نقش جما کے اٹھے
خرام ناز ترا انتظار راہ میں ہے
ادھر ساقی کو عذرلغزش مستانہ نہ آتا ہے
خرام ناز ترا انتظار راہ میں ہے
پیوند خاک کس کو مری جاں کئے ہوئے
نگاہ لفطف سے پرسش جو چارہ جو کرتے
سب وہ ماتھے پر شکن بن کر ابھرتے جائیں گے
جس قدر اجزائے دل فرقت میں جلتے جائیں گے
غیر کی بزم میں درکارہیں ساغر کے لئے
جب تک کہ دل ہے دل میں تری آرزورہے
کیا تم نے وعدہ اور تم شب انتظار آئے
گھٹا اٹھی ہے کالی اور کالی ہوتی جائی ہے
یہ درد عشق نے پہلے ہی کہہ رکھا تھا اس دل سے
ٹپکے کبھی، کبھی مژۂ ترکے ہوگئے
کس طرح دیکھئے زنداں میں قضا آتی ہے
یوں واقعات عمر فراموش ہوگئے
پھریں ہیں یوں پتلیاں شب غم کہ شام ہی سے سحر ہوئی ہے
ایک سجدے سے غرض ہے وہ یہاں ہو یا وہاں
بغل میں داب کے ناقوس اک اذاں کے لئے
تجھ کو خلوت میں بٹھایا تری یکتائی نے
کیا کروں اب جو عطا ساغر جم ہوتا ہے
اپنے ہی دل پر نہ دم بھر ہاتھ رکھ کر دیکھئے
جب دل نہ پریشاں ہو جمیعت ساماں ہے
ہے زبان کہنے میں قابو میں نہ اب آواز ہے
زلیخا کر نہ گستاخی بہت یوسف کے داماں سے
پر تونے کے مفت گنہ گار ہوگئے
جب تم گراچکے نظر اعتبار سے
ہر چند لطف سیر و سیاحت سفر میں ہے
غلط ہے دور میں ساقی کے ہم تک جام آجائے
تم جبر کرو جبر بھی وہ دل جو ہلادے
راحت جہاں ملے کوئی ایسا مکاں بھی ہے
فکروں نے جان لے لی اب جان ہی کہاں ہے
جو میرا عقیدہ ہے وہ زاہد کا نہیں ہے
اپنے برتاؤ کا ہے ردّ عمل
اس آئینے میں تصویر بتاں ہے
شب بھر ہم آہ جانب در دیکھتے رہے
بنائے ہستی ہے نیستی پر مگر تمھیں کچھ خبر نہیں ہے
محفل میں اسے دیکھ بھی سکتے نہیں ڈر سے
یہ جوش اے نفس شعلہ بار رہنے دے
رسوم بندگی عشق یوں ادا کرتے
کانٹے بقدر وسعت داماں لئے ہوئے
کیا خوب دوستی کے فرائض ادا کئے
ڈر ہے مجھے اے عشق ترا حسن تکلم
شکستہ سنگ غم سے شیشۂ دل ہوتا جاتا ہے
دل میں سکت، نہ بوند لہو کی جگر میں ہے
خدا جانے خبر آئے نہ آئے
پیغام زندگی نے دیا موت کا مجھے
دل گرفتار بلا زلف گرہ گیر میں ہے
متفرقات
رباعیات
حق بجانب ہیں قصیدہ خوان مولانا صفیؔ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔