سر ورق
فضلائے عصر کے ارشاد
اظہار حقیقت
مختصر تعارف
زر افشانِ شاغل
حمد و مناجات
اسی صورت کسی مغرور سے شاغل نہیں ملتا
غزلیات
نہیں ہوتا عبور بحرِ غم آساں نہیں ہوتا
غیروں کی تو بیداد بھی ہے دل کو گوارا
صبا بہ لطف بگوآں غزالِ رعنارا
بملا زمانِ سلطاں کہ رساندایں دعارا
نہ گلچیں کو خصومت ہے، نہ دشمن باغباں میرا
کام دشمن نے کیا ہے خانماں برباد کا
بت خانہ سنگِ راہ ہے جس کوئے یار کا
کیا پوچھتے ہو حال دلِ بیقرار کا
کردینا پاش پاش دل بیقرار کا
دل جبی تنگ چیز میں جلوہ ہے یار کا
کیوں کر گزر نہ ہو کسی اہلِ نیاز کا
کیوں ڈریں اس کے بعد کیا ہو گا
غم فرقت کو آساں کیوں دلِ شورید ہ سر جانا
تجھے اک بار میرے پاس ہے دشوار ہو جانا
بتاؤں تجھ کو مجنوں عشق میں لازم ہے کیا کرنا
آپ خود چارہ گرِ عاشقِ شیدا ہونا
دل راحت طلب کو خوگرِ ازار کرلینا
سچ تو یہ ہے کہ اپنی سمجھ کا تصور تھا
شب ہجراں میں جینا دل کے ہاتھوں سخت مشکل تھا
ہم پر بھی کبھی ساقیِ کوثر کا کرم تھا
پردۂ تفرقہ جب دیدۂ باطل سے اٹھا
جب میں ہی اس کی بزم کے قابل نہیں رہا
لطف دیکھا ترا اور حد سے فراواں دیکھا
ذکرِ وفا پہ کہتے ہیں تیری وفا ہے کیا
محتسب کا اس طرح سب زہد و تقویٰ جل گیا
چشمِ حق ہیں مل گئی ذوقِ نظارا مل گیا
دوشِ بہار تکیۂ گل بن کے رہ گیا
صبح محشر ہو تو ہو چاکِ گریباں کا جواب
ہونے کو ختم منزلِ عمرِ رواں ہے اب
عقل و حکمت سیکھتے ہیں جن سے فرزانے بہت
یوں بادہ کشوں میں ہوا پیمانِ محبت
تمام عمر بہے اور نظر نہ آیا گھاٹ
دلوں پہ سارے زمانے کے ان کا آج ہی آج
یہ جہاں کا نظام یکسر ہیچ
سمجھتے نہیں ہم جہاں کو عبث
نصیب ہوتے ہیں قسمت سے ایسے کامل شیخ
کرکے توبہ تو میں بنا زاہد
کسی کو ہو نہیں سکتی ہے اب شکایتِ روح
دیر و حرم میں ڈھونڈ نہ ارض و سما میں ڈھونڈ
کیف افزا ہے غضب نغمہ خامو ش بہار
اس کو خط لکھنے کو میں نے جو سنبھالا کاغذ
کم سے کم اتنا تو ہو بادۂ سرجوشِ بہار
اک نہ اک روز رہا خاک میں پنہاں ہو کر
حرم اور بتکدے ٹک میں رہے جو بے خبر ہو کر
دنیا و دیں سے دور صواب و خطا سے دور
آرہا ہوں اے فرشتو بزمِ امکاں دیکھ کر
نہ منے جب کوئی فریاد تو فریاد نہ کر
خستہ حال اور غم کے ماروں ک ونہ چھیڑ
سمجھ میں آئیں تو کیا حسن و عشق کے انداز
کوثر کے آس پاس نہ جنت کے آس پاس
اسی کے سب ہیں عبادت گزار و صہبا نوش
ملا ہے چرخ سے، آگے مکانِ بادہ فروش
خدا کے حکم سے کرتے ہیں رند کب اعراض
اپنے لئے ہے رحمتِ پرور دکار خاص
غم کو دل سے ہی دل کو غم سے ربط
رند وصوفی ہو کوئی یا حافظ
آپ کے جیسے کوئی رکھتی نہیں انوار شمع
خود بخود سینہ میں روشن ہی چراغ
میکدے والے غضب کے ہیں ظریف
بادہ خواروں کی ہے بپا ہو حق
جلوے ترے محدود نہیں حسنِ بشر تک
رہ گئے سارے سبوکش بادۂ خیام تک
جلووں کو ترے لائے کوئی تاب کہاں تک
کب تک کرے گی گلشنِ ارماں کی دیکھ بھال
کہاں ہے قالبِ انگور میں شراب کی آگ
غایت وفور پر ہے نشاطِ ہوائے دل
وہ بےکلی کے دور کا طوفاں ہے آج کل
عالم آرا ہو وہ اگر ہمدم
شاید رہِ مجاز سے گزرے یہیں سے ہم
وہ اگلا سا ہمدم زمانہ کہاں
رہ رہ کے آہ آہ کئے جارہا ہے کون
میں چلوں کب تک بنا کر اپنے سر کی ایڑیاں
زمانے کی ادائیں دیکھتا ہوں
آہیں اثر کریں نہ دعائیں اثر کریں
دل جس کا گرفتار ہوا زلفِ دو تامیں
جگر میں درد دل میں سوز آنکھیں خوں چکاں کرلیں
سو سوشکن ہیں تابِ نظر سے نقاب میں
پہنچی حریم لم یزل ولا ہزال میں
تم اختیار میں ہو نہ دل اختیار میں
گردوں کی کائنات ہے میری نگاہ میں
یہ کیسا انقلاب آیا جہاں میں
چمک میں برق نہیں ضو میں آفتاب نہیں
کونسا دل ہے کہ جس دل میں تری یاد نہیں
اور کچھ اس کے سوا عشق کی رواداد نہیں
لب پہ نالہ نہیں، شکوہ نہیں، فریاد نہیں
جس کے دل میں ہو کدورت وہ قدح خوار نہیں
کیا کہا آپ نے پھر تو کہو اک بار نہیں
شاید کہ اب جہاں میں الفت رہی نہیں
دستِ جنوں کے واسطے ساماں ہی نہیں
صبوحی کو جو میخانے میں کرکے دیر جاتے ہیں
وہ وفا کو جفا سمجھتے ہیں
دکھائے جاتے ہیں جلوے دکھائے جاتے ہیں
کب گنہگار گناہوں کا خطر رکھتے ہیں
دو عالم کو ترے شوریدہ سر بسمل سمجھتے ہیں
عجب فرزانگی سے اہلِ وحشت کام لیتے ہیں
تاعرشِ بریں حسنِ بشر دیکھ ر ہے ہیں
آہوں میں یہاں تک تو اثر دیکھ رہے ہیں
نہ سمجھا کیوں دمِ آخر نگاہِ یاسِ بسمل کو
نہ آخر کر سکی مایوس رحمت چشمِ گریاں کو
ترے عارض ہیں بیشک نور کی تفسیر کے پہلو
منزلِ مقصود ہے یہ دل فشاں کیوں کر نہ ہو
اس جہاں میں قیام ارے توبہ
اک دل ہے کیا ہے غمزہ و ناز ادا کے ساتھ
یہ آج کس سے ہوا انتسابِ سالگرہ
پیر مغاں کے ساتھ نہ شیخِ زماں کے ساتھ
اے جواں بخت مبارک ہو جواں سالگرہ
محدود کر نظر کونہ تنہا بہار دیکھ
مشہور ہوا تو کیا فرزانے کا فرزانہ
نرالی اداؤں کا آیا زمانہ
سیرِ مقتل جو ظالم تیری شمشیر دودم چمکی
وہ کہتے ہیں کرے گا ہمسری کیا آسماں میری
تو میری شب ہجراں گر ہوکے رہے گی
قدر ہوتی نہیں ہے ناموں کی
سرخی گل سے نہ کہوں خون کی کھیلے ہولی
اللہ رے تیری بدگمانی
نہ سنئے نہ سنئے کسی کی زبانی
کس قدر دلکش بنا ہے تیرا منظر چاندنی
جب کہا طاقتِ بکا نہ رہی
ہیں سرفروش ہم بھی اور جاں شکار وہ بھی
خوف سے بادِ خزاں کے شاخِ گل ہلتی رہی
جب سہی ہم نے مصیبت ہی سہی
بات جو نکلی زباں سے داستاں ہوتی گئی
جو میکش نذرِ ساقی نقدِ ایماں کر نہیں سکتے
اس لقمۂ تر پر لعنت ہے حاصل جو خوشامد سی کیجئے
اہلِ عالم اور ہی عالم کا منظر دیکھتے
دیوانہ محبت کا تقاضہ نہ بنا دے
کعبہ کا جو کعبہ ہو وہ کاشانہ بنا دے
سنوارا چاہتے ہیں جب کبھی وحدت کو کثرت سے
لکھا ہے میکدے پر دور ہے میری کرامت سے
واعظ و پرسشِ محشر تو ہے فرزانوں سے
کرشمے سے کرشمے ہیں تری زلفِ پریشاں کے
سجدے میں کب ہوں میں رخ دلبر کے سامنے
ہمیں شاد وناشاد رہنے نہ دیں گے
دل کب ہے اس کے عارضِ انور کے سامنے
سب فریبِ دیدہ ہے کب آسماں ہے سامنے
بہت بیہوش پائے بتکدے کے دیدہ ور میں نے
جلوہ افگن جو رخِ یار ہوا جاتا ہے
عشق صادق ہو تو خود راہ نما ہوتا ہے
منظر حسن کا اظہار ہوا جاتاہے
نگاہ و شوق کو منت کشِ آزار کرنا ہے
ان نے تیرا جمال دیکھا ہے
ساقی پلا وہ بادۂ جادو اثر مجھے
تیر آہ کو نالے کو سپر ہم نے کیا ہے
وہ پاک و صاف ملا دامن خیال مجھے
نہ میرے دل میں کدورت نہ کچھ ملال مجھے
دل بےقرار ہے نہ جگر بیقرار ہے
میری زباں رہے نہ تمہاری زباں رہے
رسائی اہل میخانہ کی کیا کہئے کہاں تک ہے
میکدہ ہی اور دورِ جام ہے
دل رشک پری خانہ ہے اور لب پہ صنم ہے
ادا شناسی عشاق کا یہ عالم ہے
منظرِ عبرت مگر بود چراغِ کشتہ ہے
وہ کافر مجھ سے ناحق بدگماں ہے
انہیں کو راہِ حقیقت دکھائی جاتی ہے
جمالِ یار کی ضو دل میں پائی جاتی ہے
نگہ نگاہ سے بجلی گرائی جاتی ہے
کب اسے شوخیِ رفتار لئے پھرتی ہے
تمہیں نے کیا مری جانِ خریں ہاتھوں سے کھینچی ہے
کیوں کشمکش بیم ور جا ہم کو ملی ہے
دونوں جہاں میں قدر جو عرشِ بریں کی ہے
شرابِ عشق بھی ہے حسن کی بہار بھی ہے
مے بھی ہے ساقی بھی ہے سبزہ بھی ہے ساحل بھی ہے
یہ بھی اک شانِ کبریائی ہے
کبھی بھولے بھٹکے جو ہم یاد آئے
ادائے کافر انہ کا جو اس کی وار ہو جائے
کچھ تو استقبال فصل کا ساماں کیجئے
وہ درد بخش کہ پتھر گداز ہو جائے
دعا کیا مانگتے ہو آہ میں تاثیر ہو جائے
غیرت سے جاں نثار کے تیور بدل گئے
اک دل بے آرزو دے رحم فرماتے ہوئے
آکے کوچے میں ترے مفت میں بد نام ہوئے
دیوانہ وار، وار ہزاروں کئے گئے
اللہ اللہ اہتمام بزمِ جاناں دیکھئے
رباعیات وقطعات
عید مبارک
جس کو لاسکتی نہ تھی دنیا کی طاقت بزم میں
خسروِ ملکِ شعرترک اللہ
شاعروں کو بزم میں لاتی خواہش داد کی
مفتیانِ شعر کا فتویٰ ہے کیا
مخمسات
دوم ایضا
سوم۔ برغزل حضرت مرزا محمد تقی بیگ مائل وہلوی مرحوم
چہارم بسلسلہ مشاعرہ فیملی پلاننگ منجانب گورنمنٹ راجستھان بمقام جےپور
پنجم۔ طنزِ لطیف
ششم۔ برغزل مرزا غالب بسلسلہ صد صالہ یوم غالب
مسدسات
سوم۔ مہاتما گاندھی
دوم ۔ مردودِ جہاں اردوئے سخت جاں
چہارم۔ برائے مشاعرہ بسلسلہ پنج سالہ منصوبہ بندی ۔۔۔
پنجم۔ ترقیاتِ ملکی پر طائرانہ نظر بسلسلہ مشاعرہ منعقد کردہ حکومتِ راجستھان
ششم۔ حملہ آورانِ چین کو تنبیہ وہ تہدید شدید
ہفتم۔ متعلق پنڈت جواہر لال نہرو۔ بعنوان ’’امن کا دیوتا‘‘
مثمن
معشر
ہمارا دیس
مثنویات
برسات کی رات
درس اتحاد
اچھا اور سچا اپدیش
برائے مشاعرہ اسمال سیونگ سرٹیفکٹ۔۔۔
شعر غالب
سورداس کا قول
سخن مخلص
دعا برائے وطن
کفایت شعاری
نظمیات بصنفِ غزل
اردو کی مشکلات
خدمت اردو کور یا چھوڑ دو اردو زباں
ہمدردان اردو
پنچ سالہ اسکیم
درسِ اتحاد
اتحاد
تاریخی قطعات
مزاحیات
محکمہ چوکیدار جے پور کی گت
دیگر تصانیف شاغل
AUTHORشاغل عثمانی
YEAR1970
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER مسلم ایجوکیشنل پریس، علی گڑھ
AUTHORشاغل عثمانی
YEAR1970
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER مسلم ایجوکیشنل پریس، علی گڑھ
سر ورق
فضلائے عصر کے ارشاد
اظہار حقیقت
مختصر تعارف
زر افشانِ شاغل
حمد و مناجات
اسی صورت کسی مغرور سے شاغل نہیں ملتا
غزلیات
نہیں ہوتا عبور بحرِ غم آساں نہیں ہوتا
غیروں کی تو بیداد بھی ہے دل کو گوارا
صبا بہ لطف بگوآں غزالِ رعنارا
بملا زمانِ سلطاں کہ رساندایں دعارا
نہ گلچیں کو خصومت ہے، نہ دشمن باغباں میرا
کام دشمن نے کیا ہے خانماں برباد کا
بت خانہ سنگِ راہ ہے جس کوئے یار کا
کیا پوچھتے ہو حال دلِ بیقرار کا
کردینا پاش پاش دل بیقرار کا
دل جبی تنگ چیز میں جلوہ ہے یار کا
کیوں کر گزر نہ ہو کسی اہلِ نیاز کا
کیوں ڈریں اس کے بعد کیا ہو گا
غم فرقت کو آساں کیوں دلِ شورید ہ سر جانا
تجھے اک بار میرے پاس ہے دشوار ہو جانا
بتاؤں تجھ کو مجنوں عشق میں لازم ہے کیا کرنا
آپ خود چارہ گرِ عاشقِ شیدا ہونا
دل راحت طلب کو خوگرِ ازار کرلینا
سچ تو یہ ہے کہ اپنی سمجھ کا تصور تھا
شب ہجراں میں جینا دل کے ہاتھوں سخت مشکل تھا
ہم پر بھی کبھی ساقیِ کوثر کا کرم تھا
پردۂ تفرقہ جب دیدۂ باطل سے اٹھا
جب میں ہی اس کی بزم کے قابل نہیں رہا
لطف دیکھا ترا اور حد سے فراواں دیکھا
ذکرِ وفا پہ کہتے ہیں تیری وفا ہے کیا
محتسب کا اس طرح سب زہد و تقویٰ جل گیا
چشمِ حق ہیں مل گئی ذوقِ نظارا مل گیا
دوشِ بہار تکیۂ گل بن کے رہ گیا
صبح محشر ہو تو ہو چاکِ گریباں کا جواب
ہونے کو ختم منزلِ عمرِ رواں ہے اب
عقل و حکمت سیکھتے ہیں جن سے فرزانے بہت
یوں بادہ کشوں میں ہوا پیمانِ محبت
تمام عمر بہے اور نظر نہ آیا گھاٹ
دلوں پہ سارے زمانے کے ان کا آج ہی آج
یہ جہاں کا نظام یکسر ہیچ
سمجھتے نہیں ہم جہاں کو عبث
نصیب ہوتے ہیں قسمت سے ایسے کامل شیخ
کرکے توبہ تو میں بنا زاہد
کسی کو ہو نہیں سکتی ہے اب شکایتِ روح
دیر و حرم میں ڈھونڈ نہ ارض و سما میں ڈھونڈ
کیف افزا ہے غضب نغمہ خامو ش بہار
اس کو خط لکھنے کو میں نے جو سنبھالا کاغذ
کم سے کم اتنا تو ہو بادۂ سرجوشِ بہار
اک نہ اک روز رہا خاک میں پنہاں ہو کر
حرم اور بتکدے ٹک میں رہے جو بے خبر ہو کر
دنیا و دیں سے دور صواب و خطا سے دور
آرہا ہوں اے فرشتو بزمِ امکاں دیکھ کر
نہ منے جب کوئی فریاد تو فریاد نہ کر
خستہ حال اور غم کے ماروں ک ونہ چھیڑ
سمجھ میں آئیں تو کیا حسن و عشق کے انداز
کوثر کے آس پاس نہ جنت کے آس پاس
اسی کے سب ہیں عبادت گزار و صہبا نوش
ملا ہے چرخ سے، آگے مکانِ بادہ فروش
خدا کے حکم سے کرتے ہیں رند کب اعراض
اپنے لئے ہے رحمتِ پرور دکار خاص
غم کو دل سے ہی دل کو غم سے ربط
رند وصوفی ہو کوئی یا حافظ
آپ کے جیسے کوئی رکھتی نہیں انوار شمع
خود بخود سینہ میں روشن ہی چراغ
میکدے والے غضب کے ہیں ظریف
بادہ خواروں کی ہے بپا ہو حق
جلوے ترے محدود نہیں حسنِ بشر تک
رہ گئے سارے سبوکش بادۂ خیام تک
جلووں کو ترے لائے کوئی تاب کہاں تک
کب تک کرے گی گلشنِ ارماں کی دیکھ بھال
کہاں ہے قالبِ انگور میں شراب کی آگ
غایت وفور پر ہے نشاطِ ہوائے دل
وہ بےکلی کے دور کا طوفاں ہے آج کل
عالم آرا ہو وہ اگر ہمدم
شاید رہِ مجاز سے گزرے یہیں سے ہم
وہ اگلا سا ہمدم زمانہ کہاں
رہ رہ کے آہ آہ کئے جارہا ہے کون
میں چلوں کب تک بنا کر اپنے سر کی ایڑیاں
زمانے کی ادائیں دیکھتا ہوں
آہیں اثر کریں نہ دعائیں اثر کریں
دل جس کا گرفتار ہوا زلفِ دو تامیں
جگر میں درد دل میں سوز آنکھیں خوں چکاں کرلیں
سو سوشکن ہیں تابِ نظر سے نقاب میں
پہنچی حریم لم یزل ولا ہزال میں
تم اختیار میں ہو نہ دل اختیار میں
گردوں کی کائنات ہے میری نگاہ میں
یہ کیسا انقلاب آیا جہاں میں
چمک میں برق نہیں ضو میں آفتاب نہیں
کونسا دل ہے کہ جس دل میں تری یاد نہیں
اور کچھ اس کے سوا عشق کی رواداد نہیں
لب پہ نالہ نہیں، شکوہ نہیں، فریاد نہیں
جس کے دل میں ہو کدورت وہ قدح خوار نہیں
کیا کہا آپ نے پھر تو کہو اک بار نہیں
شاید کہ اب جہاں میں الفت رہی نہیں
دستِ جنوں کے واسطے ساماں ہی نہیں
صبوحی کو جو میخانے میں کرکے دیر جاتے ہیں
وہ وفا کو جفا سمجھتے ہیں
دکھائے جاتے ہیں جلوے دکھائے جاتے ہیں
کب گنہگار گناہوں کا خطر رکھتے ہیں
دو عالم کو ترے شوریدہ سر بسمل سمجھتے ہیں
عجب فرزانگی سے اہلِ وحشت کام لیتے ہیں
تاعرشِ بریں حسنِ بشر دیکھ ر ہے ہیں
آہوں میں یہاں تک تو اثر دیکھ رہے ہیں
نہ سمجھا کیوں دمِ آخر نگاہِ یاسِ بسمل کو
نہ آخر کر سکی مایوس رحمت چشمِ گریاں کو
ترے عارض ہیں بیشک نور کی تفسیر کے پہلو
منزلِ مقصود ہے یہ دل فشاں کیوں کر نہ ہو
اس جہاں میں قیام ارے توبہ
اک دل ہے کیا ہے غمزہ و ناز ادا کے ساتھ
یہ آج کس سے ہوا انتسابِ سالگرہ
پیر مغاں کے ساتھ نہ شیخِ زماں کے ساتھ
اے جواں بخت مبارک ہو جواں سالگرہ
محدود کر نظر کونہ تنہا بہار دیکھ
مشہور ہوا تو کیا فرزانے کا فرزانہ
نرالی اداؤں کا آیا زمانہ
سیرِ مقتل جو ظالم تیری شمشیر دودم چمکی
وہ کہتے ہیں کرے گا ہمسری کیا آسماں میری
تو میری شب ہجراں گر ہوکے رہے گی
قدر ہوتی نہیں ہے ناموں کی
سرخی گل سے نہ کہوں خون کی کھیلے ہولی
اللہ رے تیری بدگمانی
نہ سنئے نہ سنئے کسی کی زبانی
کس قدر دلکش بنا ہے تیرا منظر چاندنی
جب کہا طاقتِ بکا نہ رہی
ہیں سرفروش ہم بھی اور جاں شکار وہ بھی
خوف سے بادِ خزاں کے شاخِ گل ہلتی رہی
جب سہی ہم نے مصیبت ہی سہی
بات جو نکلی زباں سے داستاں ہوتی گئی
جو میکش نذرِ ساقی نقدِ ایماں کر نہیں سکتے
اس لقمۂ تر پر لعنت ہے حاصل جو خوشامد سی کیجئے
اہلِ عالم اور ہی عالم کا منظر دیکھتے
دیوانہ محبت کا تقاضہ نہ بنا دے
کعبہ کا جو کعبہ ہو وہ کاشانہ بنا دے
سنوارا چاہتے ہیں جب کبھی وحدت کو کثرت سے
لکھا ہے میکدے پر دور ہے میری کرامت سے
واعظ و پرسشِ محشر تو ہے فرزانوں سے
کرشمے سے کرشمے ہیں تری زلفِ پریشاں کے
سجدے میں کب ہوں میں رخ دلبر کے سامنے
ہمیں شاد وناشاد رہنے نہ دیں گے
دل کب ہے اس کے عارضِ انور کے سامنے
سب فریبِ دیدہ ہے کب آسماں ہے سامنے
بہت بیہوش پائے بتکدے کے دیدہ ور میں نے
جلوہ افگن جو رخِ یار ہوا جاتا ہے
عشق صادق ہو تو خود راہ نما ہوتا ہے
منظر حسن کا اظہار ہوا جاتاہے
نگاہ و شوق کو منت کشِ آزار کرنا ہے
ان نے تیرا جمال دیکھا ہے
ساقی پلا وہ بادۂ جادو اثر مجھے
تیر آہ کو نالے کو سپر ہم نے کیا ہے
وہ پاک و صاف ملا دامن خیال مجھے
نہ میرے دل میں کدورت نہ کچھ ملال مجھے
دل بےقرار ہے نہ جگر بیقرار ہے
میری زباں رہے نہ تمہاری زباں رہے
رسائی اہل میخانہ کی کیا کہئے کہاں تک ہے
میکدہ ہی اور دورِ جام ہے
دل رشک پری خانہ ہے اور لب پہ صنم ہے
ادا شناسی عشاق کا یہ عالم ہے
منظرِ عبرت مگر بود چراغِ کشتہ ہے
وہ کافر مجھ سے ناحق بدگماں ہے
انہیں کو راہِ حقیقت دکھائی جاتی ہے
جمالِ یار کی ضو دل میں پائی جاتی ہے
نگہ نگاہ سے بجلی گرائی جاتی ہے
کب اسے شوخیِ رفتار لئے پھرتی ہے
تمہیں نے کیا مری جانِ خریں ہاتھوں سے کھینچی ہے
کیوں کشمکش بیم ور جا ہم کو ملی ہے
دونوں جہاں میں قدر جو عرشِ بریں کی ہے
شرابِ عشق بھی ہے حسن کی بہار بھی ہے
مے بھی ہے ساقی بھی ہے سبزہ بھی ہے ساحل بھی ہے
یہ بھی اک شانِ کبریائی ہے
کبھی بھولے بھٹکے جو ہم یاد آئے
ادائے کافر انہ کا جو اس کی وار ہو جائے
کچھ تو استقبال فصل کا ساماں کیجئے
وہ درد بخش کہ پتھر گداز ہو جائے
دعا کیا مانگتے ہو آہ میں تاثیر ہو جائے
غیرت سے جاں نثار کے تیور بدل گئے
اک دل بے آرزو دے رحم فرماتے ہوئے
آکے کوچے میں ترے مفت میں بد نام ہوئے
دیوانہ وار، وار ہزاروں کئے گئے
اللہ اللہ اہتمام بزمِ جاناں دیکھئے
رباعیات وقطعات
عید مبارک
جس کو لاسکتی نہ تھی دنیا کی طاقت بزم میں
خسروِ ملکِ شعرترک اللہ
شاعروں کو بزم میں لاتی خواہش داد کی
مفتیانِ شعر کا فتویٰ ہے کیا
مخمسات
دوم ایضا
سوم۔ برغزل حضرت مرزا محمد تقی بیگ مائل وہلوی مرحوم
چہارم بسلسلہ مشاعرہ فیملی پلاننگ منجانب گورنمنٹ راجستھان بمقام جےپور
پنجم۔ طنزِ لطیف
ششم۔ برغزل مرزا غالب بسلسلہ صد صالہ یوم غالب
مسدسات
سوم۔ مہاتما گاندھی
دوم ۔ مردودِ جہاں اردوئے سخت جاں
چہارم۔ برائے مشاعرہ بسلسلہ پنج سالہ منصوبہ بندی ۔۔۔
پنجم۔ ترقیاتِ ملکی پر طائرانہ نظر بسلسلہ مشاعرہ منعقد کردہ حکومتِ راجستھان
ششم۔ حملہ آورانِ چین کو تنبیہ وہ تہدید شدید
ہفتم۔ متعلق پنڈت جواہر لال نہرو۔ بعنوان ’’امن کا دیوتا‘‘
مثمن
معشر
ہمارا دیس
مثنویات
برسات کی رات
درس اتحاد
اچھا اور سچا اپدیش
برائے مشاعرہ اسمال سیونگ سرٹیفکٹ۔۔۔
شعر غالب
سورداس کا قول
سخن مخلص
دعا برائے وطن
کفایت شعاری
نظمیات بصنفِ غزل
اردو کی مشکلات
خدمت اردو کور یا چھوڑ دو اردو زباں
ہمدردان اردو
پنچ سالہ اسکیم
درسِ اتحاد
اتحاد
تاریخی قطعات
مزاحیات
محکمہ چوکیدار جے پور کی گت
دیگر تصانیف شاغل
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔