سرورق
ردیف الالف
حسن سخن ہو وصف جمال اس جمیل کا
شوق وصال سینہ میں آزاربن کیا
مذہب نقش آخر سے ہوا یان صفحہ اول کا
مرگ عاشق پر جو بر ہم ہو دو عالم کا ورق
جان اب تمسے ہے کیا بھید چھپا ناول کا
اور بھی دیتا جو حق سے کرکے منت مانگتا
صاف آزردہ ہو تم سینہ مریجان کس کا
حریفو ہوش میں آؤ کہ جام شیشے کا
ساقی غم شفقی اشک کو صہبا سمجھا
اے پری حیران ہوں تیرے خندۂ تقریر کا
مراسینہ ہوا شہرا سمین دل خوشباش ہے گویا
آسمان خصم قوی ہے اہل استعداد کا
آتش مے سے چراغ حسن روشن ہوگیا
آئنہ رخسار جانان کا ہمارا دل ہوا
شروع سال ہے کچھ کرلوں سامان دل کے ماتم کا
عمر بھر عشق کے آزار نے سونے ندیا
صلح میں عربدہ جو مستعد جنگ رہا
دیر وحرم کا جبکہ جہاں میں نشان نہ تھا
چاند نکلا تھا کدھر کیا ترے جی پر آیا
قتل کے دن دوڑ کر میں پاے جانان پر گرا
ندامت صید عثرت دل مرا پرور دۂ غم ہے
دل نے رسوا چار سو ہمکو کیا
پھینک دی ہے باغ میں جوش جنوں سے کرکے چاک
میں معتقد ہوں عشق خوش عندلیب کا
سنبل گیسو ترا گر دیکھ پائے عندلیب
آئے تھے لے لے کے کوڑے محتسب
چپ ہے ستم ظریف کی تقریر کا جواب
لطف سو دیکھے پلا کر اسے یکجام شراب
تھی جنکے سبب رونق بازار محبت
ردیف تاے مثناۃ
شب خموشی کا غیر تھا باعث
ردیف ثاے مثلثہ
شرط ہے بحر سے اور دیدۂ خونبار سے آج
میں جنبش لب دیکھ کے سمجھا سخن موج
ردیف خاے معجمہ
نہر بہشت کا ہے مجھے شہد ناب تلخ
شام سے ایسی خوشی دلمیں سمائی شب عید
ردیف دال مہملہ
میرے ہمچشم تکینگے مری جامیرے بعد
ہے سورۂ والشمس اگر روے محمد
مجھے کھلوانے کہاں لائی ہے تقدیر شکار
پہلو میں تپش دل کو ہے بسمل کے برابر
گل کھائے عض عضو تن درد مند پر
گر نہیں ہے باغباں گلشن میں طغیان بہار
ہے مسیحاےاجل کوترے بیمار سے ناز
نہیں ہے جرم کشی کا وہ ہو سناک ہنوز
ردیف زاے معجمہ
جام جم بادۂ عشرت کوتہ خاک ہنوز
ردیف شین معجمہ
خورشید مرے دلکی ہو گر اک شرر آتش
جوش میں ہر قطرۂ خون ل کو میتا بانہ رقص
ردیف طاء مہملہ
بس ذات حق صحیح ہے اور ماسوا غلط
رونق محفل وہاں گلہائے آتش رنگ وشمع
حسرت سے عاشقوں کو شراب اور ایاغ داغ
دل چاک چاک عشق میں ہے سینہ داغ داغ
ردیف عین معجمہ
ردیف القاف
شب سے شفقت وعتاب میں فرق
ردیف لام
ایک خوشبو رکھتے ہیں اس گل کے پیراہن کے پھول
محسود اک جہاں ہیں سخندانیوں میں ہم
ردیف میم
کفرومستی کے سوا رکھتے نہیں آزارہم
اسقدر ظالم نہیں ہیں قابل آزار ہم
بے یار جشن بزم محرم سے کم نہیں
اسکی تصویر شب وروز رہی سینہ میں
وہ اس طرح جو آنکھ اٹھا دیکھتا نہیں
روزوشب یاد تری یار کیا کرتے ہیں
خوشبوے پان سے درد ملا قند ناب میں
بس تجھی پر ہے نگہ اسکی پری خانے میں
ہے برق تجلی سے تری زر میں گلستان
شاہدی ہے کم شعور اس سیمتین کے روبرو
سروسے قدپہ اٹھا ہاتھ جو انگڑائی کو
کیوں ہے یہ بس بس ابھی سے دیکے دیوسے دس کے دو
ایسا کسی کا عشق خدا خوش اثر نہ ہو
کم نہیں خورشید خادر سے پھبن میں آئنہ
ردیف الہا
بتلاؤ کیا لگا بت بیداد گر کے ہاتھ
لڑتی تھی گرچہ بزم میں دو چار کی نگاہ
نہان وہ شوخ پریرودل نگارمیں ہے
ردیف یاے تحتانیہ
تپ فراق میں تن جان خیال یار میں ہے
تنہا نہ خوار اہل زمیں تیرے واسطے
عشق میں کمتر ہنسے اور بیشتر رویا کئے
غضب ہے جس بت کافر پر اپنا دم نکلتا ہے
سر رہ سیر کرنے کیلئے جب بام پر بیٹھے
شور صد حشر جراحت پہ نمک افشان ہے
جی چاہیگا جسکو اسے چاہا نہ کرینگے
سپیدی چشم کی زائل ہو دیدار عزیزان سے
مجلس میں تیری گر قدح مل سے گل ہنسے
شہید کر مجھے دیتا ہے گر عدو خالی
زندگی کب ہے جو چھاتی ہوئی غافل ٹھنڈی
وہ فتنہ کرکے ستم جب دعائیں لیتا ہے
عاشق کی ترے تجسے طبیعت نہیں پھرتی
کسی گل کے مگر پنجہ میں تیرے دل کا دامان ہے
بیش ہے برگ طرب مور کو بھییان ہم سے
ذبح کرتی ہے مجھے بے تیغ و حنجر چاندنی
دلجوئی عشاق سے فرصت نہیں ملتی
مدعا گر کام دل ہے یار سے
مشام بلبل میں رشک گل کی ہنوز بو بھی نہیں گئی ہے
اس سنگدل سے رحم کسی پر نہ ہوسکے
ہستی موہوم سے بھی اس سرے اب حال ہے
جلاے ہے وہ مرے خط کے پھاڑ کے پرزے
سرد فتر اشتیاق کیشان
خمسہ بر غزل جرأت
خمسہ بر غزل جرأت
خمسہ بر غزل جرأت
خمسہ بر غزل عطا
جنازہ نامہ
سرورق
ردیف الالف
حسن سخن ہو وصف جمال اس جمیل کا
شوق وصال سینہ میں آزاربن کیا
مذہب نقش آخر سے ہوا یان صفحہ اول کا
مرگ عاشق پر جو بر ہم ہو دو عالم کا ورق
جان اب تمسے ہے کیا بھید چھپا ناول کا
اور بھی دیتا جو حق سے کرکے منت مانگتا
صاف آزردہ ہو تم سینہ مریجان کس کا
حریفو ہوش میں آؤ کہ جام شیشے کا
ساقی غم شفقی اشک کو صہبا سمجھا
اے پری حیران ہوں تیرے خندۂ تقریر کا
مراسینہ ہوا شہرا سمین دل خوشباش ہے گویا
آسمان خصم قوی ہے اہل استعداد کا
آتش مے سے چراغ حسن روشن ہوگیا
آئنہ رخسار جانان کا ہمارا دل ہوا
شروع سال ہے کچھ کرلوں سامان دل کے ماتم کا
عمر بھر عشق کے آزار نے سونے ندیا
صلح میں عربدہ جو مستعد جنگ رہا
دیر وحرم کا جبکہ جہاں میں نشان نہ تھا
چاند نکلا تھا کدھر کیا ترے جی پر آیا
قتل کے دن دوڑ کر میں پاے جانان پر گرا
ندامت صید عثرت دل مرا پرور دۂ غم ہے
دل نے رسوا چار سو ہمکو کیا
پھینک دی ہے باغ میں جوش جنوں سے کرکے چاک
میں معتقد ہوں عشق خوش عندلیب کا
سنبل گیسو ترا گر دیکھ پائے عندلیب
آئے تھے لے لے کے کوڑے محتسب
چپ ہے ستم ظریف کی تقریر کا جواب
لطف سو دیکھے پلا کر اسے یکجام شراب
تھی جنکے سبب رونق بازار محبت
ردیف تاے مثناۃ
شب خموشی کا غیر تھا باعث
ردیف ثاے مثلثہ
شرط ہے بحر سے اور دیدۂ خونبار سے آج
میں جنبش لب دیکھ کے سمجھا سخن موج
ردیف خاے معجمہ
نہر بہشت کا ہے مجھے شہد ناب تلخ
شام سے ایسی خوشی دلمیں سمائی شب عید
ردیف دال مہملہ
میرے ہمچشم تکینگے مری جامیرے بعد
ہے سورۂ والشمس اگر روے محمد
مجھے کھلوانے کہاں لائی ہے تقدیر شکار
پہلو میں تپش دل کو ہے بسمل کے برابر
گل کھائے عض عضو تن درد مند پر
گر نہیں ہے باغباں گلشن میں طغیان بہار
ہے مسیحاےاجل کوترے بیمار سے ناز
نہیں ہے جرم کشی کا وہ ہو سناک ہنوز
ردیف زاے معجمہ
جام جم بادۂ عشرت کوتہ خاک ہنوز
ردیف شین معجمہ
خورشید مرے دلکی ہو گر اک شرر آتش
جوش میں ہر قطرۂ خون ل کو میتا بانہ رقص
ردیف طاء مہملہ
بس ذات حق صحیح ہے اور ماسوا غلط
رونق محفل وہاں گلہائے آتش رنگ وشمع
حسرت سے عاشقوں کو شراب اور ایاغ داغ
دل چاک چاک عشق میں ہے سینہ داغ داغ
ردیف عین معجمہ
ردیف القاف
شب سے شفقت وعتاب میں فرق
ردیف لام
ایک خوشبو رکھتے ہیں اس گل کے پیراہن کے پھول
محسود اک جہاں ہیں سخندانیوں میں ہم
ردیف میم
کفرومستی کے سوا رکھتے نہیں آزارہم
اسقدر ظالم نہیں ہیں قابل آزار ہم
بے یار جشن بزم محرم سے کم نہیں
اسکی تصویر شب وروز رہی سینہ میں
وہ اس طرح جو آنکھ اٹھا دیکھتا نہیں
روزوشب یاد تری یار کیا کرتے ہیں
خوشبوے پان سے درد ملا قند ناب میں
بس تجھی پر ہے نگہ اسکی پری خانے میں
ہے برق تجلی سے تری زر میں گلستان
شاہدی ہے کم شعور اس سیمتین کے روبرو
سروسے قدپہ اٹھا ہاتھ جو انگڑائی کو
کیوں ہے یہ بس بس ابھی سے دیکے دیوسے دس کے دو
ایسا کسی کا عشق خدا خوش اثر نہ ہو
کم نہیں خورشید خادر سے پھبن میں آئنہ
ردیف الہا
بتلاؤ کیا لگا بت بیداد گر کے ہاتھ
لڑتی تھی گرچہ بزم میں دو چار کی نگاہ
نہان وہ شوخ پریرودل نگارمیں ہے
ردیف یاے تحتانیہ
تپ فراق میں تن جان خیال یار میں ہے
تنہا نہ خوار اہل زمیں تیرے واسطے
عشق میں کمتر ہنسے اور بیشتر رویا کئے
غضب ہے جس بت کافر پر اپنا دم نکلتا ہے
سر رہ سیر کرنے کیلئے جب بام پر بیٹھے
شور صد حشر جراحت پہ نمک افشان ہے
جی چاہیگا جسکو اسے چاہا نہ کرینگے
سپیدی چشم کی زائل ہو دیدار عزیزان سے
مجلس میں تیری گر قدح مل سے گل ہنسے
شہید کر مجھے دیتا ہے گر عدو خالی
زندگی کب ہے جو چھاتی ہوئی غافل ٹھنڈی
وہ فتنہ کرکے ستم جب دعائیں لیتا ہے
عاشق کی ترے تجسے طبیعت نہیں پھرتی
کسی گل کے مگر پنجہ میں تیرے دل کا دامان ہے
بیش ہے برگ طرب مور کو بھییان ہم سے
ذبح کرتی ہے مجھے بے تیغ و حنجر چاندنی
دلجوئی عشاق سے فرصت نہیں ملتی
مدعا گر کام دل ہے یار سے
مشام بلبل میں رشک گل کی ہنوز بو بھی نہیں گئی ہے
اس سنگدل سے رحم کسی پر نہ ہوسکے
ہستی موہوم سے بھی اس سرے اب حال ہے
جلاے ہے وہ مرے خط کے پھاڑ کے پرزے
سرد فتر اشتیاق کیشان
خمسہ بر غزل جرأت
خمسہ بر غزل جرأت
خمسہ بر غزل جرأت
خمسہ بر غزل عطا
جنازہ نامہ
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.