سر ورق
کیا جب جوش وہ دریاے وحدت اپنی قدرت کا
آدم ہی دیکھو مظہر خاص حق کی ذات کا
حمد لکھتا ہوں میں اس لحن سرا دلبر کا
کل رات خواب تھا مجھے یا کچھ خیال تھا
یہی صورت میں خدا تھا مجھے معلوم تھا
سنت عشاق جا سیکہہ ذرا صاحبا
یا مجھے عشق نے دیوانہ بنایا ہوتا
کیا مزین ہوا عنصری میں خود آخودانا کہہ کے صورت کیا ہی طلب
پہر تو پستی میں آکے کیا دیکھا
ا ے دل خفتہ اب راہ خدا کر طلب
پی کے تو جام الست کو کیا ہوا میخوارست
عالم بیہوش میں کیا خط اوٹھایا شمس آج
بیوفا دنیا سے بارو دل لگانا ہے عبث
دل پہ اس دلدار کے کیا بیوجھ آیا ہے رنج
یار سے ملنے کی ہم کو کوئ بتادے کیا صلاح
ہا دل ناشاد اس دنیا میں نین پایا فراخ
ستاب قاصد وہ دلربا کو لجا ہمارا یہ دیجیے کاغذ
نور سے تیرے ہوا عالم امکان آباد
منزل جاناں میں جب کہ تو قدم رکھا شروع
مجکو فقط ہے یار کی دیدار سے غرض
خاکدان دہر کا سب اعتبار آیا غلط
دید سے تیرے مجھے ہے دمبدم اے یار خط
تیرے جمال کی کوئ کیا کر ے بھلا اوصاف
ملتا ہے اسی شکل میں اوس یار کا سراغ
غور کر دیکھے کہ کیا ہے عشق
دام صیاد سے اپنے کو بچالے بلبل
ہر جگہ جلوۂ حسن اپنا دیکھایا چالاک
کوچۂ جاناں میں جب جاتے ہیں ہم
طاہر میں شکل انسان باطن میں میں خدا ہوں
دلبر بغل میں کہہ کے جہاں سب پھرا کی ہم
تھا کنت کنزاً میں مخفی حق نے وہ جانا اپنے آپ جدم
تو شخص بخت میں عکس ترا تو اور نہیں میں اور کہیں
درپہ خمار کے میں سجدہ کیا چہتا ہوں
ہے کنکی تجلی سارا جہاں کیا رمز چھپایا باطن میں
کیا وحدت سے جب گذر ہے تو
بن تیرے کوئ نہیں یار سہارا ہم کو
تیری ہستی کا بنا ہوں ملتا ہایا ہو
ہر دم سے ظاہر اللہ ہی اللہ
مکان اور لامکان میں جلوہ گر اللہ ہی اللہ ہے
جس کی نظروں میں سمائی ہے صفائی تیری
عاشقان لویہ جہاں ہی کیا بجائے عید ہے
اے فلک تجکو نہیں مہر ذرا آتی ہے
جاہ دینا چاہیئے یارو نہ سامان چاہئے
ماہیت اب عشق کی واصل سے پوچھا چاہیئے
وہ عقل کل اور روح اعظم نظر میں سرے توئ توئ ہے
جب عشق ول میں کیا گذر مجھے عقل کا نرہا اثر
ہر شاخ میں شجر میں تو ہر رنگ و بو میں ہے
قصیدہ
شخص بیدین کجا صاحب ایمان زکجا
تضمین برغزل لطیف
AUTHORشمس الدین حیدری شمس
YEAR1889
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER مطبع برہانیہ، حیدرآباد
AUTHORشمس الدین حیدری شمس
YEAR1889
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER مطبع برہانیہ، حیدرآباد
سر ورق
کیا جب جوش وہ دریاے وحدت اپنی قدرت کا
آدم ہی دیکھو مظہر خاص حق کی ذات کا
حمد لکھتا ہوں میں اس لحن سرا دلبر کا
کل رات خواب تھا مجھے یا کچھ خیال تھا
یہی صورت میں خدا تھا مجھے معلوم تھا
سنت عشاق جا سیکہہ ذرا صاحبا
یا مجھے عشق نے دیوانہ بنایا ہوتا
کیا مزین ہوا عنصری میں خود آخودانا کہہ کے صورت کیا ہی طلب
پہر تو پستی میں آکے کیا دیکھا
ا ے دل خفتہ اب راہ خدا کر طلب
پی کے تو جام الست کو کیا ہوا میخوارست
عالم بیہوش میں کیا خط اوٹھایا شمس آج
بیوفا دنیا سے بارو دل لگانا ہے عبث
دل پہ اس دلدار کے کیا بیوجھ آیا ہے رنج
یار سے ملنے کی ہم کو کوئ بتادے کیا صلاح
ہا دل ناشاد اس دنیا میں نین پایا فراخ
ستاب قاصد وہ دلربا کو لجا ہمارا یہ دیجیے کاغذ
نور سے تیرے ہوا عالم امکان آباد
منزل جاناں میں جب کہ تو قدم رکھا شروع
مجکو فقط ہے یار کی دیدار سے غرض
خاکدان دہر کا سب اعتبار آیا غلط
دید سے تیرے مجھے ہے دمبدم اے یار خط
تیرے جمال کی کوئ کیا کر ے بھلا اوصاف
ملتا ہے اسی شکل میں اوس یار کا سراغ
غور کر دیکھے کہ کیا ہے عشق
دام صیاد سے اپنے کو بچالے بلبل
ہر جگہ جلوۂ حسن اپنا دیکھایا چالاک
کوچۂ جاناں میں جب جاتے ہیں ہم
طاہر میں شکل انسان باطن میں میں خدا ہوں
دلبر بغل میں کہہ کے جہاں سب پھرا کی ہم
تھا کنت کنزاً میں مخفی حق نے وہ جانا اپنے آپ جدم
تو شخص بخت میں عکس ترا تو اور نہیں میں اور کہیں
درپہ خمار کے میں سجدہ کیا چہتا ہوں
ہے کنکی تجلی سارا جہاں کیا رمز چھپایا باطن میں
کیا وحدت سے جب گذر ہے تو
بن تیرے کوئ نہیں یار سہارا ہم کو
تیری ہستی کا بنا ہوں ملتا ہایا ہو
ہر دم سے ظاہر اللہ ہی اللہ
مکان اور لامکان میں جلوہ گر اللہ ہی اللہ ہے
جس کی نظروں میں سمائی ہے صفائی تیری
عاشقان لویہ جہاں ہی کیا بجائے عید ہے
اے فلک تجکو نہیں مہر ذرا آتی ہے
جاہ دینا چاہیئے یارو نہ سامان چاہئے
ماہیت اب عشق کی واصل سے پوچھا چاہیئے
وہ عقل کل اور روح اعظم نظر میں سرے توئ توئ ہے
جب عشق ول میں کیا گذر مجھے عقل کا نرہا اثر
ہر شاخ میں شجر میں تو ہر رنگ و بو میں ہے
قصیدہ
شخص بیدین کجا صاحب ایمان زکجا
تضمین برغزل لطیف
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔