سرورق
کشتہ ہوں اس کے طرۂ عنبر شمیم کا
مقدور کس کو حمد خدائے جلیل کا
لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں
کبھی بن سنور کے جو آگئے تو بہار حسن دکھا گئے
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
پس مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
کون نگر میں آئے ہم کون نگر میں باسے ہیں
یار تھا گلزار تھا مے تھی فضا تھی میں نہ تھا
یہی حسرت تھی کہ گھر میرا مدینے میں رہے
نہیں حال دہلی سنانے کے قابل
بہار آتی ہے بھردے بادۂ گلگوں سے پیمانہ
غزال دشت بولے دیکھ کر مجنوں کی میت کو
کیا خزاں آتی چمن میں ہر شجر جاتا رہا
گئی یک بیک جو ہوا پلٹ نہیں دل کو میرے قرار ہے
خار حسرت قبر تک دل میں کھٹکتا جائے گا
مژدہ اے دل کہ مرے پاس وہ یار آویگا
کسی نے اس کو سمجھایا تو ہوتا
ہزار طرح سے کھولا وہ دل ربا نہ کھلا
یار دیرینہ ہے پرزور ہے وہ یار نیا
بے ہوش ہوں میں دیکھ کے اس ہو ش ربا کو
ہم نے تری خاطر سے دل زار بھی چھوڑا
پیامبر جو ادھر سے مرا نہیں آتا
کیا کہیں دیکھا خط فراق اس مہ پرنور کا
بہر عنواں مجھے ہو رشک لکھا یہ نصیبوں کا
جو قطرۂ پیکاں کہ تیرےتیر سے ٹپکا
کہاں پہنچا ہے دیکھو ہمدمو پیک خیال اپنا
ہاں فرسودہ دل اک دم نہ ہوا پرنہ ہوا
ہم نے دنیا میں آکے کیا دیکھا
ڈالے ہوئے گردن جو مرا نامہ بر آیا
اٹھا دے پردہ نہیں پردہ میں اٹھاوں گا
زلف میں بل اور کاکل پرخم پیچ کے اور پیچ پڑا
اپنی جانب کو جسے تو نے لبھایا ہوگا
اشک کا قطرہ فقط کیا صاف گوہر سا بنا
غم دل کس سے کہوں کوئی بھی غمخوار نہیں غم فرقت کے سوا
دل کا کچھ کام نہ تجھ سے بت پرفن نکلا
سرتلک دست ستم جو ہیں ترا قاتل بڑھا
زلف کے سائے تلے وہ رخ اگر چھپ جائیگا
اپنی ہستی گو ہرآنکھوں سے جو آنسو بن کے نکلے گا
نہ ہوس سیر چمن کی نہ گل تر کی ہوا
وہ بے حجاب جو کل پی کے یاں شراب آیا
کھل گیا بے نامہ مضمون یک قلم نامے کا صاف
نہ غنچہ ہے نہ سنبل ہے پڑا ہے باغ ویرانہ
خوشی خوشی ہے جوخط نامہ بر لئے آتا
کوہکن کا فقط پتھر میں لوہو جم گیا
دھواں سا دیکھ سرمۂ چشم میں اس عنبریں گل کا
پس مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
رات بھر مجھ کو غم یار نے سونے نہ دیا
نہ درویشوں کا خرقہ چاہئے نہ تاج شاہانہ
مری آنکھ بند تھی جب تلک وہ نظر میں نور جمال تھا
کشتگان چشم ہیں جو تیرے اے وحشی نگاہ
دیا اپنی خودی کو جو ہم نے اٹھا وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا نہ رہا
ہمارے آنسوؤں کا اب ہے جیسا جوش میں دریا
خورشید آسماں چہارم پہ ہے کہاں
لکھا جو خط میں وہ کیوں نامہ بر سے کھول دیا
جب سنا آکر قرین وہ زیب محفل پھر گیا
ٹھہرا ہوا جو پاؤں ٹھکا نے سے اٹھ گیا
عشق کے میداں میں بے ہمت نہیں رکھتے قدم
کسی کو ہم نے یہاں اپنا نہ پایا
یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا
شعلہ بلند ہوتے ہی اس رخ کی تاب کا
یاد کر اس قدموزوں کو چمن میں ساقی
خدا نے جبکہ تجھے مہ جبیں بنایا تھا
لگے ہے سیر گلشن میں دل اے غنچۂ دہن کس کا
جس کا دل شیفتۂ زلف گرہ گیر ہوا
بیان کیجئے اگر احوال اپنی شام غربت کا
رخ تاباں جو تہ زلف گرہ گیر رہا
پھونک دوں گا دامن چرخ کہن کو میں ابھی
جھکا دے گا وہی خراب محراب بیت اللہ میں سر کو
گر ہم گنہگار تو کر خاک کا پیوند
مل گئی ہیں خاک میں ہیہات کیا کیا صورتیں
مرجایئے یا کچھ ہو کسے دھیان کسی کا
اشک کا قطرہ فقط کیا صاف گوہر سا بنا
گر ہم ہیں گنہگار تو کر خاک کا پیوند
شمع کی حاجت نہیں گور غریباں پردلا
جو تار اشک نہیں چشم سے یہاں ٹوٹا
ہم نے سبھی کو عشق میں بدظن بنا لیا
کچھ خبر قاصد نے دی ایسی کہ سنتے ہی جسے
بے ضبط فغاں راز نہاں ہو نہیں سکتا
دیدۂ حیراں ہمارا تھا تمہارے زیر پا
جب تلک ہوش نہ تھا کرتے تھے وہ کام خراب
رشتۂ آہی سے ہم نے بھی دل وجاں ٹانکا
ردیف بائے موحدہ
چشموں سے رواں کیوں نہ ہو مژگاں کے تلے آب
اے چم بار بار نہ ہو دیکھ اشک بار
دل تیرا کس لئ۷ے نہ ہوا شوخ وشنگ آب
لگا نہ خط سے رخ شوخ عتاب کو عیب
تصویر یار تو نہیں آنکھوں کے سامنے
رات کو تیرے تصور میں جو آجائے ہے خواب
ساقیا مست ازل کو نہیں درکار شراب
ردیف بائے فارسی
دانہ ہو غنچہ تو پھر کیوں ہو پریشاں اس قدر
اٹھ کے پہلو سے ہمارے جس طرف جائیں گے آپ
اپنا شب ہجراں سے گیا شب جو بدن کانپ
بے سبب چرخ ہے اک برسرگیں آپ سے آپ
بار دنیا سے اٹھایا جائے دھرا
کیا ہو امجھ سے کشیدہ ہے وہ گر آپ سے آپ
ہوئے دونوں کچھ ایسا سوچ کر چپ
بھولتی لمحہ نہیں زلف دوتا کی صورت
ردیف تائے فوقانیہ
ہے خوب گرچہ اس مہ کعنان کی صورت
ہیں وہ ہم ہی کہ جو کر لیتے ہیں اکثر برداشت
تھا جو کوٹھے پہ وہ مہ جلوہ کناں ساری رات
آگے پہنچاتے تھے واں تک خط وپیغام کو دوت
کہہ بیٹھوں جو سوز غم ہجراں کی حقیقت
ہنستا اور بولتا ہے عالم حیرت میں کہاں
نالۂ ہے برق فشاں سوز جگر کی دولت
روز لیتا ہے جوخون عاشق مضطر کو چاٹ
ردیف تائے ہندی
ردیف ثاء مثلثہ
کہہ دو ناصح سے کہ پھر جائے نہ یاں آئے عبث
زرفراہم کرکے ناداں لے نہ تو قاروں کی ارث
غافلو کرتے ہو تم فکر کی تدبیر عبث
اسلئے ڈھونڈتا پھرتا ہوں دل زار کا کھوج
ردیف جیم
بہار تختۂ اورنگ ہو گئی پامال
مانگ میں دل کو تو اے زلف سیہ فام نہ بھیج
ردیف جیم فارسی
سب کار جہاں ہیچ ہے سب کار جہاں ہیچ
مال ودولت عزوشاں ہیچ ست وہیچ
اڑ گیا گل کا جویوں رنگ گلستان کے بیچ
جو اپنے لب سے قدح کش کوئی لگائے قدح
ردیف حاء مہملہ
تو نے رخ پر زلف کا حلقہ بنایا بےطرح
سب طرح داروں کو دیکھا ہمنشیں اچھی طرح
خود رفتگاں کو روکے کوئی کیا کسی طرح
ہم مانتے ہیں کب کسی غمخوار کی صلاح
برگ گل باغ میں ہیں سرخ تو کیا خوب ہیں سرخ
ساقی جو نہ ہووے بوقت شراب صبح
ردیف خاء معجمہ
آنکھیں تری نشے میں ہیں یوں بے حجاب سرخ
خاک اڑے یہ دشت کی مجنوں جو تیرا کھائے چرخ
دفتر میں ہے وہ حسن پر انوار کے تاریخ
کب سماتا ہے نگاہ شوخ غارت گر میں چرخ
ردیف دال مہملہ
دیتا ہے جو مزا ترے لب سے کلام تلخ
قوس قزح ہے اپنی کسی نوجوا ں کا خون
سب سمجھتا ہوں جو ناصح مجھے سمجھاتا ہے
ایسی آنکھوں میں سمائی رخ جاناں کی نمود
سمند ناز پہ تو ہو جو مہ رکاب بلند
پاس کرو یا مجھے تم دار پہ کھینچو
ردیف ذال معجمہ
تشنہ لب جو کہ شہادت کے ہیں ان کو قاتل
سب رنگ میں اس گل کی مرے شان ہے موجود
ردیف را مہملہ
ڈبو دینے کو ہے دو عالم کے کافی
دب گیا سایۂ مژگاں میں خبار رگ ابر
خدنگ عشق ہوا کیا جگر کو توڑ کے پار
جانتا ہی اب نہیں کوئی کہ مجنوں ہے کہاں
تھک کر گرے جو دوڑ چلے پند اور غرور کے رستے پر
وقت غفلت اور ہے ہنگام ہشیاری ہے اور
ہر آشنا سے ایسا ہے اب آشنا کا طور
بوسہ روز آپ نے ٹھہرایا تو دو روز کا روز
ردیف سین مہملہ
دیکھ ٹک غور سےآئینہ دل کو میرے
چاہئے درویش کو کیا بادشاہانہ لباس
بشر کو کیوں نہ ہو در پیش یاں نشیب وفراز
ہلتی کہاں وہ زلف ہے خال دہن کے پاس
دونوں گداز عشق سے بہہ جائیں ہوکے آب
خاموش کیوں نہ ہو مرغ دماغ قفس
چشم کے گرد نہیں حلقہ مژگاں اس کی
ردیف شین معجمہ
بستر پہ کیوں تڑپ کے نہ شب کو کروں سحر
بھولا نہ تجھے یہ کبھی اس یاد کو شاباش
قسم خدا کی وہ ہے تیری شوخ وشنگ تراش
کیوں نہ یہ سن کر کھڑے ہوں باغ میں بلبل کے گوش
غم والم بھی تمہارا مجھے غنیمت ہے
عشق میں ہے جان کا نہ تن کا ہوش
کرتے ہیں بہت صاحب تدبیر پس وپیش
ساقی نہ دکھا بزم میں تو جام کی گردش
ہر طرح غیر کی دلجوئی ہے معقول چہ خوش
ردیف صاد مہملہ
بجز ادا وستم کچھ نہیں ترا اخلاص
بھری تھی ساغر میں رات ساقی نے ایسی خوشبو شراب خالص
نہ ہوس حور کی نہ خلد کے گلزار کی حرص
دشنہ ہے غمزہ ناز ہے شمشیر کا خواص
تیری آنکھوں سے ہے گر نرگس بیمار کو فیض
لب نکالیں گے ترے لعل یمن پر اعتراض
ردیف ضاد معجمہ
چمن میں آنکھ جھکائے کھڑی ہے کیوں نرگس
ردیف ظائے معجمہ
رہیو اے دل تو اب اس زلف رسا سے محفوظ
ہاتھ سے صیاد کے معلوم گل گشت چمن
جیسا ہوتھوں سے رہا تیرے یہ بسمل محفوظ
زلف مشاطہ نے تیری کیا پری پیکر کی قطع
ردیف عین مہملہ
جان من جب سے ترا دھیان پھٹا اور طرف
پھرے نہ کیونکر سر اپنا لئے حباب بکف
شکوہ کیا اس بے وفا کی بدزبانی کا کروں
دل اپنا دے جو اس جان جہاں کو
ذبح کرتا کہ ہو اک دم ہی کی قاتل تکلیف
یوں تو نامہ کا مرے اک ایک وہ پڑھ جائے حرف
دیکھے زاہد ترے ابرو کو اگر وقت نماز
نشے میں جشم سیہ دیکھ کر تہ ابرو
یوں تو مدت سے ہے الطاف وعنایات میں فرق
ہر نفس حسرت وہر دم قلق
ردیف قاف
سو زخم ہیں تازہ مرے زیب بدن خشک
ردیف کاف
سوز دل سے کیا گلوئے عاشق مضطر ہے خشک
مرا سینہ ہے باغ عشق جس میں نالہ وآہ
مار کر ہم نے کیا اس دل بیتاب کو خاک
ردیف کاف فارسی
ہے وہ سوز عشق سے میرے دل مضطر میں آگ
چشم قاتل سے دلا ہونا مقابل دیکھ کر
میرے ان کے ملنے سے گر رشک یاں کھاتے ہیں لوگ
تولاکھ اٹھائے ہوئے جلد اپنا قدم چل
بے اشک لخت دل کے ثمر کا نہ ہو نمود
بکا جو خون جگر عشق میں شراب کے مول
ردیف لام
اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل
فنا ہے ساتھ تو پھر زندگی سے کیا حاصل
چمکے ہے چار سو سپر یار میں کے پھول
خنجر موج تبسم سے ہوں زخمی کس کے میں
بہار کا مرے سر پر ہے آگیا موسم
ردیف میم
نظر میں ہے وہ شباب نگار کا موسم
کس نے دیکھا خم ابرو کو ہے پیمانے میں
رشک کھاتا ہے لب سوفار جس کودیکھ کر
ردیف نون
تری محفل میں ہیں پروانے پر ہم دل جلے بھی ہوں
مقابل تو ہمارے شاخ گل کے باغ میں مت ہو
تمہارے عشق میں ہم اسے بتو کیا کیا نہ رکھتے ہیں
پلائے غیر تجھ کو مے پیوں میں خون دل اپنا
مجھ سے نہ کہہ تو یہ دم کشتن دم تو لے بیتاب ہے کیوں
بھلا انکو کہیں کیونکر نہ ہم یکجان دو قالب ہیں
کدورت کھوکے گر ساری دل بے کینہ بن جاؤں
دیکھنا معجز نمائی عشق کی میری کہ میں
عالم صورت میں تو میں صورت آدم میں ہوں
کیا کروں شکوہ کہ الفت عشوہ گر اگلی نہیں
میں ہوں عاصی کہ پر خطا کچھ ہوں
مرید قطب دیں ہوں خاک پائے فخر دیں ہوں میں
کرتا وہ بیچارہ کیا تدبیر سے چارہ نہیں
کوئی دیوانہ آیا ساتھ لے کر لشکر وحشت
نہ وہ زمیں کے نہ ہےآسماں کے پردے میں
کیا کہیں حال اپنا تجھ سے اس قدر ہیں ناتواں
کیا کہیں ان سے بتوں میں ہم نے کیا دیکھا نہیں
واقف ہیں ہم کہ حضرت غم ایسے شخص ہیں
صنم جیسا کہ تو نام خدا ہے دلربائی میں
چمن میں جب بہار آتی ہے اور غنچے چٹکتے ہیں
وہی ہوتا ہے جو ہوتا ہے انساں کے مقدر میں
سوزش دل کو ہیں کیا خاک بجھاتے میری
آتا ہے پیش دیکھیں کس طرح وہ ستم گر
خواب میں جو نظر آیا وہی بیداری میں
لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں
شکایتیں ہمیں غماز اور عدو سے نہیں
دکھائی دی ہمیں کیفیت کونین ہستی میں
چشم میں اس کا تصور اے ظفر آنے تو دو
ردیف واو
تیغ آبرو کی تمہیں جس کو دکھانی آب ہو
جو دل میں ہو سو کہو تم نہ گفتگو سے ہٹو
یارو سفر کا کچھ سروساماں تو کرو
کہتا ہے کون تم سے کہ خنجر بکف نہ ہو
فقط ہے چشم عنایت پہ زندگی میری
اگر ہو دل میں محبت کا داغ اچھا ہو
خنجر ہی دکھاؤ نہ تلوار دکھاؤ
حال دل پوچھتے اپنے نہیں بیمار سے ہو
داغوں میں محبت کے دیکھو تو مرے دل کو
اس کی عادت کا اور ہے نقشہ
ہدف تو ہو چکا میں بس کمان وتیر کو رکھ دو
یارو اغیار میں کیا آج بہم ایک جگہ
کوئی حلاوت دنیا میں پھنس کے کیا نکلے
ہوتی ناچیز دنیا چیز جب قدرت نے یہ چاہا
پیدا ترے اشکوں کے ہے قطرات میں سب کچھ
ردیف ہائے ہوز
ساقی تیرے اس دست قدح گیر کا سایہ
دل کو ہم دیکھ چکے بیچ کے دو چار کے ہاتھ
دیکھ تو ہمت عالی سے بشر کا رتبہ
سینہ پہ دھر کے دیکھ ذرا ایک بار ہاتھ
جب تک دم ہے رہیں گے یونہی غم ساتھ کے ساتھ
وہ رنگ ڈھنگ میں کچھ اور بول چال میں کچھ
ڈرتے واعظ نہیں ہم گور کی تاریکی سے
گئی یک بیک جو ہوا پلٹ نہیں دل کو میرے قرار ہے
پر اشک مژہ یہاں ہےآہ دل سوزاں سے
ردیف یاء تحتانی
داغ دل مت رو یہاں آنسو بہانا منع ہے
ٹھہرنا یوں ہے اپنا اشک ویسے آکے آنکھوں میں
تری آتی نہیں اب جو نظر اے دیدۂ تر
اسے لاؤں میں نہ ہوں چشم تر نہ یہ ہو سکے نہ وہ ہو سکے
جیسے وہ چھٹا ہاتھ سے دامان ہمارے
کبھی بن سنور کے جو آگئے تو بہار حسن دکھا گئے
پاس کر رکھئے کسی کو پاس داری کیجئے
تقدیر میری ان دنوں کیسی بدل گئی
زباں کو کچھ نہیں ہے کام اظہار محبت میں
واہ کیا طرز ستم تجھ کو ستم گر یا دہے
بہکانے والے آپ کے سب یار بن گئے
جا کہیو ان سے نسیم سحر مرا چین گیا مری نیند گئی
جو دل کے ارادے کو ادھر کھینچ کے باندھے
جوش گریہ سے مرے ہووے جو طافان برپا
جدھر آنکھ پڑتی ہے تو روبرو ہے
مریض عشق ترا کیا دوا سمجھ کے پئے
عشق میں کیا ہم بھی اے تقدیر سیدھے ہو گئے
کہ ان کے دیکھتے ہی اپنی حالت ایسی ہوتی ہے
ہو چکا موسم خزاں کا آئی گلشن میں بہار
ظاہر ہیں کیا ظہار کے مظہر نئے نئے
میں ہوں نحیف وناتواں دور ہے یار کی گلی
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تونہ تھی
آدمیت ہو تو زیبا ہے لباس فاخرہ
سانس بھی ضعف جو خستہ جگر لے نہ سکے
جب چمن میں اس کے آنے کی خبر اڑ جائے گی
کوئی کہتا ہے یہ چین جبیں موج سمند ر ہے
تیری مژگاں کو کہاں تسخیر دل سے ہے فراغ
اگر غفلت کا پردہ ہم اٹھاتے اپنی آنکھوں سے
شاخ مژگاں میری کب اشکوں سے تر پانی میں ہے
افسوں سراسر دل نالاں میں پھونکے
ہوتے ہوتے چشم سے آج اشک باری رہ گئی
نرگس میں سیر چشم ہوں بستان دہر میں
جہاں ویرانہ ہے پہلے کبھی آباد گھریاں تھے
زبونی حال کی پیری تری الفت کی خوبی ہے
اشارہ چشم قاتل کا وہ کافر تیز چلتا ہے
یہ نہیں ٹپکے نیان ہردو ابرو تنگ ہے
مے کے لئے خمار بھی اے بادہ خوار ہے
دیدۂ تر جوش گریہ سے جو اک دریا سا ہے
ماہ کا ہے اور عالم مہ جبیں کا اور ہے
پی رہے تھے اشک خوں آنکھوں میں ہم بھر بھر کے وہاں
عزیزو گور میں کیا دل کا داغ جلتا ہے
دل ہے کہتا اور کچھ تدبیر کہتی اور ہے
جیسے کہ باغ میں نہیں وہ رشک باغ ہے
گرچہ وہ بیداد گر بے درد بے پروا تو ہے
تو ہے نشہ شراب کا اور صحن باغ ہے
پھرتی آنکھوں میں جو اس زلف دوتا کی شکل ہے
وہ دیکھ لیتے ہیں جو ادھر کچھ نہ کچھ تو ہے
طرز آنکھ کی نرگس میں ہے خم زلف کا سنبل میں ہے
یہ عمر ہم نے بسر سب شراب میں کی ہے
گرچہ بے طاقت ہوں میں پر دل میں طاقت اور ہے
نوخطوں سے ہم نے یارب آشنائی کی توہے
ہوشمند وقت ہے وہ پیشواے وقت ہے
ہمیں خط اس نے انداز ستمرانی پہ لکھا ہے
وہ دل کیا ہے کہ جو تیرے غم الفت سے خالی ہے
ان سے عرض حال کی تدبیر ہو سکتی تو ہے
آبرو کھوتا ہے کیوں کہہ دے یہ صاف آئینہ ہے
گرم آرائش جو اپنا اور جانانہ رہے
کہاں ہے اپنا وہ عالم کہیں اٹھے کہیں بیٹھے
خط نورستہ سے تیرے دل بیتاب مرتا ہے
مہر خط پر اور ہے قاصد نشانی اور ہے
ہم سے ترا ہونا خفا بے جرم وخطا یہ کیوں کر ہے
لب نازک سے تیرے کیونکر دوں میں لعل کو تیشہ
بنائیں یار انہیں کیا بناؤ ہو تو سہی
دل لگا میرا بت ہو شربا سے یوں ہے
زلف کرتی نیم رخ اس طرح کا چھل بل سا ہے
دم ہجراں سے گر صورت بدل جائے عجب کیا ہے
کیا کہوں جو کچھ اس نے کیا کہنے سے برائی ہوتی ہے
مثلث
تم وہاں مشغول شب کو محفل آرائی میں تھے
سانس بھی ضعف جو خستہ جگر لے نہ سکے
سلام امام کا کہہ پڑھ کے صبح وشام نماز
غرور حسن سے گر وہ جلال میں آوے
سلام
کہا یہ شاہ نے اعداء سے چاہیئے تم کو
مسدّس بطور مرثیہ
مخمسات
گل رخو عالم آشنا ہیں ہم
کب میں آوارہ کو بکو نہ گیا
آشنائی کے جو قابل ہیں تو الفت والے
چشم دل میں جو خرد کحل بصر دیتی ہے
سردار تو وہ نبی جس کے نہیں بعد نبی
جو عشق باز ہیں وہ راہ دیں پہ آچکے
یہ جانتے سب غنچے بھی ہیں اور گل تر بھی
مثلث
سرورق
کشتہ ہوں اس کے طرۂ عنبر شمیم کا
مقدور کس کو حمد خدائے جلیل کا
لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں
کبھی بن سنور کے جو آگئے تو بہار حسن دکھا گئے
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
پس مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
کون نگر میں آئے ہم کون نگر میں باسے ہیں
یار تھا گلزار تھا مے تھی فضا تھی میں نہ تھا
یہی حسرت تھی کہ گھر میرا مدینے میں رہے
نہیں حال دہلی سنانے کے قابل
بہار آتی ہے بھردے بادۂ گلگوں سے پیمانہ
غزال دشت بولے دیکھ کر مجنوں کی میت کو
کیا خزاں آتی چمن میں ہر شجر جاتا رہا
گئی یک بیک جو ہوا پلٹ نہیں دل کو میرے قرار ہے
خار حسرت قبر تک دل میں کھٹکتا جائے گا
مژدہ اے دل کہ مرے پاس وہ یار آویگا
کسی نے اس کو سمجھایا تو ہوتا
ہزار طرح سے کھولا وہ دل ربا نہ کھلا
یار دیرینہ ہے پرزور ہے وہ یار نیا
بے ہوش ہوں میں دیکھ کے اس ہو ش ربا کو
ہم نے تری خاطر سے دل زار بھی چھوڑا
پیامبر جو ادھر سے مرا نہیں آتا
کیا کہیں دیکھا خط فراق اس مہ پرنور کا
بہر عنواں مجھے ہو رشک لکھا یہ نصیبوں کا
جو قطرۂ پیکاں کہ تیرےتیر سے ٹپکا
کہاں پہنچا ہے دیکھو ہمدمو پیک خیال اپنا
ہاں فرسودہ دل اک دم نہ ہوا پرنہ ہوا
ہم نے دنیا میں آکے کیا دیکھا
ڈالے ہوئے گردن جو مرا نامہ بر آیا
اٹھا دے پردہ نہیں پردہ میں اٹھاوں گا
زلف میں بل اور کاکل پرخم پیچ کے اور پیچ پڑا
اپنی جانب کو جسے تو نے لبھایا ہوگا
اشک کا قطرہ فقط کیا صاف گوہر سا بنا
غم دل کس سے کہوں کوئی بھی غمخوار نہیں غم فرقت کے سوا
دل کا کچھ کام نہ تجھ سے بت پرفن نکلا
سرتلک دست ستم جو ہیں ترا قاتل بڑھا
زلف کے سائے تلے وہ رخ اگر چھپ جائیگا
اپنی ہستی گو ہرآنکھوں سے جو آنسو بن کے نکلے گا
نہ ہوس سیر چمن کی نہ گل تر کی ہوا
وہ بے حجاب جو کل پی کے یاں شراب آیا
کھل گیا بے نامہ مضمون یک قلم نامے کا صاف
نہ غنچہ ہے نہ سنبل ہے پڑا ہے باغ ویرانہ
خوشی خوشی ہے جوخط نامہ بر لئے آتا
کوہکن کا فقط پتھر میں لوہو جم گیا
دھواں سا دیکھ سرمۂ چشم میں اس عنبریں گل کا
پس مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
رات بھر مجھ کو غم یار نے سونے نہ دیا
نہ درویشوں کا خرقہ چاہئے نہ تاج شاہانہ
مری آنکھ بند تھی جب تلک وہ نظر میں نور جمال تھا
کشتگان چشم ہیں جو تیرے اے وحشی نگاہ
دیا اپنی خودی کو جو ہم نے اٹھا وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا نہ رہا
ہمارے آنسوؤں کا اب ہے جیسا جوش میں دریا
خورشید آسماں چہارم پہ ہے کہاں
لکھا جو خط میں وہ کیوں نامہ بر سے کھول دیا
جب سنا آکر قرین وہ زیب محفل پھر گیا
ٹھہرا ہوا جو پاؤں ٹھکا نے سے اٹھ گیا
عشق کے میداں میں بے ہمت نہیں رکھتے قدم
کسی کو ہم نے یہاں اپنا نہ پایا
یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا
شعلہ بلند ہوتے ہی اس رخ کی تاب کا
یاد کر اس قدموزوں کو چمن میں ساقی
خدا نے جبکہ تجھے مہ جبیں بنایا تھا
لگے ہے سیر گلشن میں دل اے غنچۂ دہن کس کا
جس کا دل شیفتۂ زلف گرہ گیر ہوا
بیان کیجئے اگر احوال اپنی شام غربت کا
رخ تاباں جو تہ زلف گرہ گیر رہا
پھونک دوں گا دامن چرخ کہن کو میں ابھی
جھکا دے گا وہی خراب محراب بیت اللہ میں سر کو
گر ہم گنہگار تو کر خاک کا پیوند
مل گئی ہیں خاک میں ہیہات کیا کیا صورتیں
مرجایئے یا کچھ ہو کسے دھیان کسی کا
اشک کا قطرہ فقط کیا صاف گوہر سا بنا
گر ہم ہیں گنہگار تو کر خاک کا پیوند
شمع کی حاجت نہیں گور غریباں پردلا
جو تار اشک نہیں چشم سے یہاں ٹوٹا
ہم نے سبھی کو عشق میں بدظن بنا لیا
کچھ خبر قاصد نے دی ایسی کہ سنتے ہی جسے
بے ضبط فغاں راز نہاں ہو نہیں سکتا
دیدۂ حیراں ہمارا تھا تمہارے زیر پا
جب تلک ہوش نہ تھا کرتے تھے وہ کام خراب
رشتۂ آہی سے ہم نے بھی دل وجاں ٹانکا
ردیف بائے موحدہ
چشموں سے رواں کیوں نہ ہو مژگاں کے تلے آب
اے چم بار بار نہ ہو دیکھ اشک بار
دل تیرا کس لئ۷ے نہ ہوا شوخ وشنگ آب
لگا نہ خط سے رخ شوخ عتاب کو عیب
تصویر یار تو نہیں آنکھوں کے سامنے
رات کو تیرے تصور میں جو آجائے ہے خواب
ساقیا مست ازل کو نہیں درکار شراب
ردیف بائے فارسی
دانہ ہو غنچہ تو پھر کیوں ہو پریشاں اس قدر
اٹھ کے پہلو سے ہمارے جس طرف جائیں گے آپ
اپنا شب ہجراں سے گیا شب جو بدن کانپ
بے سبب چرخ ہے اک برسرگیں آپ سے آپ
بار دنیا سے اٹھایا جائے دھرا
کیا ہو امجھ سے کشیدہ ہے وہ گر آپ سے آپ
ہوئے دونوں کچھ ایسا سوچ کر چپ
بھولتی لمحہ نہیں زلف دوتا کی صورت
ردیف تائے فوقانیہ
ہے خوب گرچہ اس مہ کعنان کی صورت
ہیں وہ ہم ہی کہ جو کر لیتے ہیں اکثر برداشت
تھا جو کوٹھے پہ وہ مہ جلوہ کناں ساری رات
آگے پہنچاتے تھے واں تک خط وپیغام کو دوت
کہہ بیٹھوں جو سوز غم ہجراں کی حقیقت
ہنستا اور بولتا ہے عالم حیرت میں کہاں
نالۂ ہے برق فشاں سوز جگر کی دولت
روز لیتا ہے جوخون عاشق مضطر کو چاٹ
ردیف تائے ہندی
ردیف ثاء مثلثہ
کہہ دو ناصح سے کہ پھر جائے نہ یاں آئے عبث
زرفراہم کرکے ناداں لے نہ تو قاروں کی ارث
غافلو کرتے ہو تم فکر کی تدبیر عبث
اسلئے ڈھونڈتا پھرتا ہوں دل زار کا کھوج
ردیف جیم
بہار تختۂ اورنگ ہو گئی پامال
مانگ میں دل کو تو اے زلف سیہ فام نہ بھیج
ردیف جیم فارسی
سب کار جہاں ہیچ ہے سب کار جہاں ہیچ
مال ودولت عزوشاں ہیچ ست وہیچ
اڑ گیا گل کا جویوں رنگ گلستان کے بیچ
جو اپنے لب سے قدح کش کوئی لگائے قدح
ردیف حاء مہملہ
تو نے رخ پر زلف کا حلقہ بنایا بےطرح
سب طرح داروں کو دیکھا ہمنشیں اچھی طرح
خود رفتگاں کو روکے کوئی کیا کسی طرح
ہم مانتے ہیں کب کسی غمخوار کی صلاح
برگ گل باغ میں ہیں سرخ تو کیا خوب ہیں سرخ
ساقی جو نہ ہووے بوقت شراب صبح
ردیف خاء معجمہ
آنکھیں تری نشے میں ہیں یوں بے حجاب سرخ
خاک اڑے یہ دشت کی مجنوں جو تیرا کھائے چرخ
دفتر میں ہے وہ حسن پر انوار کے تاریخ
کب سماتا ہے نگاہ شوخ غارت گر میں چرخ
ردیف دال مہملہ
دیتا ہے جو مزا ترے لب سے کلام تلخ
قوس قزح ہے اپنی کسی نوجوا ں کا خون
سب سمجھتا ہوں جو ناصح مجھے سمجھاتا ہے
ایسی آنکھوں میں سمائی رخ جاناں کی نمود
سمند ناز پہ تو ہو جو مہ رکاب بلند
پاس کرو یا مجھے تم دار پہ کھینچو
ردیف ذال معجمہ
تشنہ لب جو کہ شہادت کے ہیں ان کو قاتل
سب رنگ میں اس گل کی مرے شان ہے موجود
ردیف را مہملہ
ڈبو دینے کو ہے دو عالم کے کافی
دب گیا سایۂ مژگاں میں خبار رگ ابر
خدنگ عشق ہوا کیا جگر کو توڑ کے پار
جانتا ہی اب نہیں کوئی کہ مجنوں ہے کہاں
تھک کر گرے جو دوڑ چلے پند اور غرور کے رستے پر
وقت غفلت اور ہے ہنگام ہشیاری ہے اور
ہر آشنا سے ایسا ہے اب آشنا کا طور
بوسہ روز آپ نے ٹھہرایا تو دو روز کا روز
ردیف سین مہملہ
دیکھ ٹک غور سےآئینہ دل کو میرے
چاہئے درویش کو کیا بادشاہانہ لباس
بشر کو کیوں نہ ہو در پیش یاں نشیب وفراز
ہلتی کہاں وہ زلف ہے خال دہن کے پاس
دونوں گداز عشق سے بہہ جائیں ہوکے آب
خاموش کیوں نہ ہو مرغ دماغ قفس
چشم کے گرد نہیں حلقہ مژگاں اس کی
ردیف شین معجمہ
بستر پہ کیوں تڑپ کے نہ شب کو کروں سحر
بھولا نہ تجھے یہ کبھی اس یاد کو شاباش
قسم خدا کی وہ ہے تیری شوخ وشنگ تراش
کیوں نہ یہ سن کر کھڑے ہوں باغ میں بلبل کے گوش
غم والم بھی تمہارا مجھے غنیمت ہے
عشق میں ہے جان کا نہ تن کا ہوش
کرتے ہیں بہت صاحب تدبیر پس وپیش
ساقی نہ دکھا بزم میں تو جام کی گردش
ہر طرح غیر کی دلجوئی ہے معقول چہ خوش
ردیف صاد مہملہ
بجز ادا وستم کچھ نہیں ترا اخلاص
بھری تھی ساغر میں رات ساقی نے ایسی خوشبو شراب خالص
نہ ہوس حور کی نہ خلد کے گلزار کی حرص
دشنہ ہے غمزہ ناز ہے شمشیر کا خواص
تیری آنکھوں سے ہے گر نرگس بیمار کو فیض
لب نکالیں گے ترے لعل یمن پر اعتراض
ردیف ضاد معجمہ
چمن میں آنکھ جھکائے کھڑی ہے کیوں نرگس
ردیف ظائے معجمہ
رہیو اے دل تو اب اس زلف رسا سے محفوظ
ہاتھ سے صیاد کے معلوم گل گشت چمن
جیسا ہوتھوں سے رہا تیرے یہ بسمل محفوظ
زلف مشاطہ نے تیری کیا پری پیکر کی قطع
ردیف عین مہملہ
جان من جب سے ترا دھیان پھٹا اور طرف
پھرے نہ کیونکر سر اپنا لئے حباب بکف
شکوہ کیا اس بے وفا کی بدزبانی کا کروں
دل اپنا دے جو اس جان جہاں کو
ذبح کرتا کہ ہو اک دم ہی کی قاتل تکلیف
یوں تو نامہ کا مرے اک ایک وہ پڑھ جائے حرف
دیکھے زاہد ترے ابرو کو اگر وقت نماز
نشے میں جشم سیہ دیکھ کر تہ ابرو
یوں تو مدت سے ہے الطاف وعنایات میں فرق
ہر نفس حسرت وہر دم قلق
ردیف قاف
سو زخم ہیں تازہ مرے زیب بدن خشک
ردیف کاف
سوز دل سے کیا گلوئے عاشق مضطر ہے خشک
مرا سینہ ہے باغ عشق جس میں نالہ وآہ
مار کر ہم نے کیا اس دل بیتاب کو خاک
ردیف کاف فارسی
ہے وہ سوز عشق سے میرے دل مضطر میں آگ
چشم قاتل سے دلا ہونا مقابل دیکھ کر
میرے ان کے ملنے سے گر رشک یاں کھاتے ہیں لوگ
تولاکھ اٹھائے ہوئے جلد اپنا قدم چل
بے اشک لخت دل کے ثمر کا نہ ہو نمود
بکا جو خون جگر عشق میں شراب کے مول
ردیف لام
اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل
فنا ہے ساتھ تو پھر زندگی سے کیا حاصل
چمکے ہے چار سو سپر یار میں کے پھول
خنجر موج تبسم سے ہوں زخمی کس کے میں
بہار کا مرے سر پر ہے آگیا موسم
ردیف میم
نظر میں ہے وہ شباب نگار کا موسم
کس نے دیکھا خم ابرو کو ہے پیمانے میں
رشک کھاتا ہے لب سوفار جس کودیکھ کر
ردیف نون
تری محفل میں ہیں پروانے پر ہم دل جلے بھی ہوں
مقابل تو ہمارے شاخ گل کے باغ میں مت ہو
تمہارے عشق میں ہم اسے بتو کیا کیا نہ رکھتے ہیں
پلائے غیر تجھ کو مے پیوں میں خون دل اپنا
مجھ سے نہ کہہ تو یہ دم کشتن دم تو لے بیتاب ہے کیوں
بھلا انکو کہیں کیونکر نہ ہم یکجان دو قالب ہیں
کدورت کھوکے گر ساری دل بے کینہ بن جاؤں
دیکھنا معجز نمائی عشق کی میری کہ میں
عالم صورت میں تو میں صورت آدم میں ہوں
کیا کروں شکوہ کہ الفت عشوہ گر اگلی نہیں
میں ہوں عاصی کہ پر خطا کچھ ہوں
مرید قطب دیں ہوں خاک پائے فخر دیں ہوں میں
کرتا وہ بیچارہ کیا تدبیر سے چارہ نہیں
کوئی دیوانہ آیا ساتھ لے کر لشکر وحشت
نہ وہ زمیں کے نہ ہےآسماں کے پردے میں
کیا کہیں حال اپنا تجھ سے اس قدر ہیں ناتواں
کیا کہیں ان سے بتوں میں ہم نے کیا دیکھا نہیں
واقف ہیں ہم کہ حضرت غم ایسے شخص ہیں
صنم جیسا کہ تو نام خدا ہے دلربائی میں
چمن میں جب بہار آتی ہے اور غنچے چٹکتے ہیں
وہی ہوتا ہے جو ہوتا ہے انساں کے مقدر میں
سوزش دل کو ہیں کیا خاک بجھاتے میری
آتا ہے پیش دیکھیں کس طرح وہ ستم گر
خواب میں جو نظر آیا وہی بیداری میں
لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں
شکایتیں ہمیں غماز اور عدو سے نہیں
دکھائی دی ہمیں کیفیت کونین ہستی میں
چشم میں اس کا تصور اے ظفر آنے تو دو
ردیف واو
تیغ آبرو کی تمہیں جس کو دکھانی آب ہو
جو دل میں ہو سو کہو تم نہ گفتگو سے ہٹو
یارو سفر کا کچھ سروساماں تو کرو
کہتا ہے کون تم سے کہ خنجر بکف نہ ہو
فقط ہے چشم عنایت پہ زندگی میری
اگر ہو دل میں محبت کا داغ اچھا ہو
خنجر ہی دکھاؤ نہ تلوار دکھاؤ
حال دل پوچھتے اپنے نہیں بیمار سے ہو
داغوں میں محبت کے دیکھو تو مرے دل کو
اس کی عادت کا اور ہے نقشہ
ہدف تو ہو چکا میں بس کمان وتیر کو رکھ دو
یارو اغیار میں کیا آج بہم ایک جگہ
کوئی حلاوت دنیا میں پھنس کے کیا نکلے
ہوتی ناچیز دنیا چیز جب قدرت نے یہ چاہا
پیدا ترے اشکوں کے ہے قطرات میں سب کچھ
ردیف ہائے ہوز
ساقی تیرے اس دست قدح گیر کا سایہ
دل کو ہم دیکھ چکے بیچ کے دو چار کے ہاتھ
دیکھ تو ہمت عالی سے بشر کا رتبہ
سینہ پہ دھر کے دیکھ ذرا ایک بار ہاتھ
جب تک دم ہے رہیں گے یونہی غم ساتھ کے ساتھ
وہ رنگ ڈھنگ میں کچھ اور بول چال میں کچھ
ڈرتے واعظ نہیں ہم گور کی تاریکی سے
گئی یک بیک جو ہوا پلٹ نہیں دل کو میرے قرار ہے
پر اشک مژہ یہاں ہےآہ دل سوزاں سے
ردیف یاء تحتانی
داغ دل مت رو یہاں آنسو بہانا منع ہے
ٹھہرنا یوں ہے اپنا اشک ویسے آکے آنکھوں میں
تری آتی نہیں اب جو نظر اے دیدۂ تر
اسے لاؤں میں نہ ہوں چشم تر نہ یہ ہو سکے نہ وہ ہو سکے
جیسے وہ چھٹا ہاتھ سے دامان ہمارے
کبھی بن سنور کے جو آگئے تو بہار حسن دکھا گئے
پاس کر رکھئے کسی کو پاس داری کیجئے
تقدیر میری ان دنوں کیسی بدل گئی
زباں کو کچھ نہیں ہے کام اظہار محبت میں
واہ کیا طرز ستم تجھ کو ستم گر یا دہے
بہکانے والے آپ کے سب یار بن گئے
جا کہیو ان سے نسیم سحر مرا چین گیا مری نیند گئی
جو دل کے ارادے کو ادھر کھینچ کے باندھے
جوش گریہ سے مرے ہووے جو طافان برپا
جدھر آنکھ پڑتی ہے تو روبرو ہے
مریض عشق ترا کیا دوا سمجھ کے پئے
عشق میں کیا ہم بھی اے تقدیر سیدھے ہو گئے
کہ ان کے دیکھتے ہی اپنی حالت ایسی ہوتی ہے
ہو چکا موسم خزاں کا آئی گلشن میں بہار
ظاہر ہیں کیا ظہار کے مظہر نئے نئے
میں ہوں نحیف وناتواں دور ہے یار کی گلی
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تونہ تھی
آدمیت ہو تو زیبا ہے لباس فاخرہ
سانس بھی ضعف جو خستہ جگر لے نہ سکے
جب چمن میں اس کے آنے کی خبر اڑ جائے گی
کوئی کہتا ہے یہ چین جبیں موج سمند ر ہے
تیری مژگاں کو کہاں تسخیر دل سے ہے فراغ
اگر غفلت کا پردہ ہم اٹھاتے اپنی آنکھوں سے
شاخ مژگاں میری کب اشکوں سے تر پانی میں ہے
افسوں سراسر دل نالاں میں پھونکے
ہوتے ہوتے چشم سے آج اشک باری رہ گئی
نرگس میں سیر چشم ہوں بستان دہر میں
جہاں ویرانہ ہے پہلے کبھی آباد گھریاں تھے
زبونی حال کی پیری تری الفت کی خوبی ہے
اشارہ چشم قاتل کا وہ کافر تیز چلتا ہے
یہ نہیں ٹپکے نیان ہردو ابرو تنگ ہے
مے کے لئے خمار بھی اے بادہ خوار ہے
دیدۂ تر جوش گریہ سے جو اک دریا سا ہے
ماہ کا ہے اور عالم مہ جبیں کا اور ہے
پی رہے تھے اشک خوں آنکھوں میں ہم بھر بھر کے وہاں
عزیزو گور میں کیا دل کا داغ جلتا ہے
دل ہے کہتا اور کچھ تدبیر کہتی اور ہے
جیسے کہ باغ میں نہیں وہ رشک باغ ہے
گرچہ وہ بیداد گر بے درد بے پروا تو ہے
تو ہے نشہ شراب کا اور صحن باغ ہے
پھرتی آنکھوں میں جو اس زلف دوتا کی شکل ہے
وہ دیکھ لیتے ہیں جو ادھر کچھ نہ کچھ تو ہے
طرز آنکھ کی نرگس میں ہے خم زلف کا سنبل میں ہے
یہ عمر ہم نے بسر سب شراب میں کی ہے
گرچہ بے طاقت ہوں میں پر دل میں طاقت اور ہے
نوخطوں سے ہم نے یارب آشنائی کی توہے
ہوشمند وقت ہے وہ پیشواے وقت ہے
ہمیں خط اس نے انداز ستمرانی پہ لکھا ہے
وہ دل کیا ہے کہ جو تیرے غم الفت سے خالی ہے
ان سے عرض حال کی تدبیر ہو سکتی تو ہے
آبرو کھوتا ہے کیوں کہہ دے یہ صاف آئینہ ہے
گرم آرائش جو اپنا اور جانانہ رہے
کہاں ہے اپنا وہ عالم کہیں اٹھے کہیں بیٹھے
خط نورستہ سے تیرے دل بیتاب مرتا ہے
مہر خط پر اور ہے قاصد نشانی اور ہے
ہم سے ترا ہونا خفا بے جرم وخطا یہ کیوں کر ہے
لب نازک سے تیرے کیونکر دوں میں لعل کو تیشہ
بنائیں یار انہیں کیا بناؤ ہو تو سہی
دل لگا میرا بت ہو شربا سے یوں ہے
زلف کرتی نیم رخ اس طرح کا چھل بل سا ہے
دم ہجراں سے گر صورت بدل جائے عجب کیا ہے
کیا کہوں جو کچھ اس نے کیا کہنے سے برائی ہوتی ہے
مثلث
تم وہاں مشغول شب کو محفل آرائی میں تھے
سانس بھی ضعف جو خستہ جگر لے نہ سکے
سلام امام کا کہہ پڑھ کے صبح وشام نماز
غرور حسن سے گر وہ جلال میں آوے
سلام
کہا یہ شاہ نے اعداء سے چاہیئے تم کو
مسدّس بطور مرثیہ
مخمسات
گل رخو عالم آشنا ہیں ہم
کب میں آوارہ کو بکو نہ گیا
آشنائی کے جو قابل ہیں تو الفت والے
چشم دل میں جو خرد کحل بصر دیتی ہے
سردار تو وہ نبی جس کے نہیں بعد نبی
جو عشق باز ہیں وہ راہ دیں پہ آچکے
یہ جانتے سب غنچے بھی ہیں اور گل تر بھی
مثلث
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.