سرورق
دود جگر نے دلپہ جو سر پوش ساڈھنکا
بھید دل کا گر یہ سے اے چشم نم کھل جائیگا
دہن تنگ جو یاد آیا مجھے
جو دلمیں تیرا شوق ابروی خمدار ہو پیدا
خدا جانے کہاں بیٹھا ہے وہ اور ہے کدھر پھرتا
صریحاً دل تو اے مژگاں یار آنکھوں کے آگے تھا
تو کہیں ہو یہ دل دیوانہ وہاں پہونچے ہی گا
کسیکو ہمنے یہاں اپنا نہ پایا
کبھی جو خواب میں وہ شوخ پر عتاب آیا
خون سے اشک آنکھوں میں جب ملکر گلابی ہوگیا
خلش گر ہے جو پاس ہر گل کے کانٹا
وہ بگڑے ایسی کہ پھر کچھ معاملہ نہ بنا
تیر تیرا جسکے سینہ سے گذر کر جائیگا
اس دلربا سے کیجے گلہ دلبری کا کیا
بحر کو زیمیں کب اسے ہمدم سمٹ کر آگیا
ہمنے شبدیز قلم کو اپنے جب جو لان کیا
جب تری بیمار کی گردن کا منکا ڈھل گیا
خط رخ پہ تیرے آنے نظر گلبدن لگا
جاری آہ سے کب داغ سینہ کا ہوا ٹھنڈا
خدا نے جبکہ جمال بتاں بنایا تھا
خدا نے جبکہ تجھے مہ جبیں بنایا تھا
لگے ہے سیر گلشن میں دل اے غنچہ دہن کسکا
بیان کیجے اگر احوال اپنی شام غربت کا
زخم چراتا ہے ہنس ہنس کر دل بیتاب کا
رخ تاباں جو تہ زلف گرہ گیر رہا
تم کمر بند اب نہ بالائے کمر باندھو کڑا
بھاگر یہ سے میرے اسقدر سیلاب پانی کا
دلا اس زلف کی کوچہ میں گر جانا بھی ہوویگا
جنوں نے جبکہ دکھلا یا ہمیں عالم بیاباں کا
میں ہوں وہ سوختہ جان ان بت گمراہوں کا
جس طرف آہ کا شعلہ مرا جھکتا ہوگا
نمود کیوں ندکھائے چراغ سے دریا
کب اشک سر سر رخ ناز نیں سے چمتا
نہیں دیکھ بہتر سنانا کسی کا
ہے تری ہاتھوں سے عاشق کا گلا کاٹا ہو
جسے ہے درک فن عشق میں غافل نہ ہویگا
نزلہ شبنم سے گرا دل پہ تری گل ٹھنڈا
گیا فقط گر یہ سے چشم حربہ یانی پھر گیا
حیف جوں غنچہ نہ اپنا دل پڑیاس کھلا
کیا وصف جبیں میں کہوں اس ماہ جبیں کا
ہے ہماری خاک پر تیرا سراغ نقش پا
دھیان دندان پہ تری آٹھ پہر سے اپنا
قاتل اب دھونڈھے ہے اس عاشق بیجان میں کیا
پہلے تو ہاتھوں سے وہ ڈورا چکئی کانا نپا
مرا کھیل سنبھلا سنبھالا بگاڑا
آنسوؤں سے سینہ کے یوں گھاؤ پر پانی چڑھا
بولے وہ جب ہمنے شب کو نالہ پر حسرت بھرا
تو جو مہتابے پہ کل رات کھڑا گاتا تھا
نہ ہر گز درد دل سے میں کرا ہا
رکھا دقن پہ یار نے کیوں دانہ خال کا
ہماری آنکھوں سے جسوقت خون ناب بہا
تراش کوہ سے کیا کو ہکن پتھر بنا دیتا
ہووے تمھارے در تک اپنا کہاں سے آنا
اک پیالا رات مے کارند متوالا اڑا
تو عیادت کو گرنہ جائے گا
وہاں دل نہ لگاتا جو کوئی اور سا ہوتا
جسے سمجھا تو کھ سکا شبکو دروازیکے ٹپکا تھا
سر بسر تیری نگاہوں نے جگر کو چھانا
لاغری سے حال اپنا کیا کہوں کیا ہوگیا
نیلو فر رہتا ہے جو پانی میں سب ڈوبا ہوا
گل صد برگ جو گل تونے اٹھا کر پھینکا
جب استخوان سے یہ سور فار تیر کا ٹھہرا
مرا دشمن اگر چہ زمانہ نہ رہا
جگر سے یودھواں ہے بار بار اٹھا ہوا آتا
جبکہ شبدیز قلم قرطاس پر جولان کیا
ہاتھ قاتل تری تلوار کا یسا چھوٹا
مرجائیے یا کچھ ہو کسے دھیان کسی کا
الفت کا ملا ہمکو مزا یار کسی کا
عشق نے جسدم دیار دلمیں آہو کا دیا
بعد خط کا قاصد نے جو پیغام دیا
دابوسرکس کا تم اور ہاتھ دباؤ کسکا
بے ضبط فغاں راز نہاں ہو نہیں سکتا
ہمنے سبھی کو عشق میں بدظن بنا لیا
وہ نہ آیا بار لائے یوں نتھا تو یوں ہوا
پوچھے یاروں سے کہتا یار کیا تھا کیا ہوا
کیا کہوں دل مائل زلف دو تا کیو نکر ہوا
عشق کے میدان میں رستم کا منھ پھر جائیگا
جام وسبو خم سے نہ بھراک اسمیں کا اک اسمیں کا
نیست از انجم شب تاب چراغاں شب
ردیف باے موحدہ غزل فارسی
رشتہ آہ سے ہمنے بھی دل وجان ٹانکا
صبر جاوے تو نکر اسکا دل ازار عقب
نہ کہو یہ کہ ہیں یہ دیدۂ پر آب حباب
چشم پر نم کیا اٹھاوے خاک اب رستم کا رعب
چشم کا ہے عشق کی آتش کے چمکا نیکو آب
خیال رخ سے ترے قطرے ہیں پسنینے کے
دیکھکر اس مہ کو وقت بیحجابی آفتاب
دیکھے گر چشم تری اے گل شاداب حباب
اٹھ کے پہلو سے ہمارے جسطرف جائینگے آپ
ردیف باے فارسی
کرتی ہے ہر لحظہ مجھکو میریجان کا ہے خراب
حضرت دل تلخ میری زندگی گرتے ہیں آپ
ہووے دونوں کچھ ایسا سو چکر چپ
کیا ہو مجھسے کشیدہ ہے وہ گر آپ سے آپ
اینکہ بینی ہمہ ہاقالب و جان ہمہ اوست
ہیں وہ ہم بین کہ جو کر لیتے ہیں اکثر برداشت
تھا جو کوٹھی پہ وہ ہے جلوہ کنان ساری رات
کہہ بیٹھوں جو سوز غم ہجراں کی حقیقت
کب بناے سے بنے ہے کوئی تدبیر کی بات
سنلے ادکا فربدکیش ذرا دھیان سے بات
کلی جولالۂ احمر کی مسکرائی آج
جیسے کہ ہیں موزلف کی خم سے کج دوا کج
ردیف جیم فارسی
سب کا رجہان ہیچ ہے سب کا رجہان ہیچ
دیکھنا کیا آپڑے اس چشم پر کیسو کی پیچ
ٹکڑے نہیں ہیں آنسوؤ ں میں دلکے چار پانچ
ردیف حاء مہملہ
اڑگیا گل کا جو یوں رنگ گلستاں کے بیچ
تونے رخ پر زلف کا حلقہ بنیا بیطرح
سب طرحدارونکو دیکھا ہمنشیں اچھی طرح
ساقی جو تو نہو وے بوقت شراب صبح
برگ گل باغ میں ہیں سرخ تو کیا خوب ہیں سرخ
ردیف خاء معجمہ
خاک اڑے یہ دشت کی مجنوں جو تیرا کھائے چرخ
جبکہ ہو تجھ بن مجھے خواب و خور وآرام تلخ
آنکھیں تری نشے میں ہیں یوں بیجاب سرخ
ہجر میں کرتا ہے شبخون کی مری تدبیر چرخ
قدر اے عشق رہے گی تری کیا میرے بعد
دیتا ہے جو مزا ترے لب سے کلام تلخ
ایسی آنکھوں میں سمائی رخ جانا نکی نمود
سب رنگ میں دس گل کی مرے شان ہے موجود
ردیف ذال معجمہ
کیونکہ خسرو کو لگیں اسکے نہ دشنام لذیذ
چڑھ گئی گرچہ مری خاک سے افلاک پہ گرد
نہیں دیر تو کچھ بڑی دو گھڑی بھر
خواب میں پہونچے تھے جس کو جی میں ہشیاری سے پھر
گردش چرخ سے ہے جسکو زمیں پر چکر
جو عرش سے ہے فرش تلک سب اسی میں ہے
پئے اگر تو جو آب شراب کا ساغر
کیا لچکنے میں ہے نازک شاخ سنبل سے کمر
ٹھوکا دے ہے یوں رکھ دل کو وہ صراف ناخن پر
فرہاد مرگیا یونہیں پر حیرسنگ پر
کب اشک چشم کی ہے لخت دل گو پیاس پانی
کھینچ مت صید فگن تو دل نخچیر سے تیر
تیرے دیوانے کو مارے ہیں یہ روڑے پتھر
بیوجہ نہیں کچھ مری تقدیر گلو گیر
خدنگ دنبالہ کھایا لیکن نہ لایا شکوہ کبھی زبان پر
کھاے بخیہ میں نہ کیوں عقل رفو گر حکمپر
بجز انگور کب راضی ہوں ہم جنت کے جانے پر
بن ترے اے رشک گل رشک بہار
چھیڑے چوٹی کو جو اس بیداد گر کی پشت پر
ہر آشنا سے ایسا ہے اب آشنا کا طور
مژہ ہے خنجرابروی دلبر کے تلے خنجر
ردیف زاء معجمہ
دل مرا ڈالے یل عشق نہ کس رنگ مڑوڑ
بشر کو کیوں نہودر پیش ہاں نشیب و فراز
گرخوشی اس دل مغموم سے چاہے آمیز
ہوا غم سے دل ناکام لبریز
سنگ سر مہ نے کیا یوں نگہ یار کو تیز
نہ مجکو عشق میں ہے جان کا نہ تن کا ہوش
کیون نہ یہ سنکر کھڑی ہوں باغمیں بلبل کے گوش
کرتے ہیں بہت صاحب تدبیر پس وپیش
ہر طرح غیر کی دلجوئی ہے معقول چہ خوش
جو دیکھے داغ دل خانماں خراب کا قرص
بھری تھی ساغر میں رات ساقی نے ایسی خوشبو شراب خالص
ردیف ضاد معجمہ
لب کا لینگے ترے لعل یمن پر اعتراض
لب نکا لینگے ترے لعل یمن پر اعتراض
کسطرح جکے کیجیے جاناں سے اختلاط
میں نے لکھا ہے بتوکل اسے تدبیر سے خط
آج میں نے جو لکھا تھا تجھے تدبیر سے خط
اسنے برہم ہو جو بھیجا اے دل افسردہ خط
آتش الفت دل بیتاب میں روشن ہوئی
دیکھنا جانلی ذفن کو رخ جاناں کے تلے
دیکھنا جالی ذفن کو رخ جاناں کے تلے
خدانے ایسی نالوں کی میرے تاثیر کم کردی
جاے تدبیر جہاں اپنا قضا کام کرے
ناز سےگر ٹکٹکی تیری ادھر لگجائیگی
قاصد وہ نہ کیونکر خط وپیغام سے چونکے
لکھو نگامیں جو خطوں میں شکایتیں دونی
جو تماشا دیکھنے دنیا میں بھی آئے ہو
راہ صحرائے جنونکی جبکہ ہم لینے لگے
یہ جہاں کا آئنہ خانہ پری خانہ سا ہے
لپٹی ہے یہ جو آتش عصیان وجود سے
ملک فنا اور ہے ملک بقا اور ہے
شوق خار وشت وامنگیر ہے
جب دم غسل اسکی گیسو آب میں لہرائیں گے
دوستی میں جسکی اپنی جان پر اے دل بنے
جب دم غسل اسکی گیسو آب میں لہرائیں گے
دوستی میں جسکی اپنی جان پر اے دل بنے
ترا خیال نہ بھولے خیال ہے تو یہ ہے
جسکی تصویر ہے یہ سامنے ہم جان کئے
نکل کے آنکھ سے آنسو کچھ آستین پہ ٹکی
پاس جاناں کے کہا کسنے کہ جانا منع ہے
پاس جاناں کے کہا کسنے کہ جانا منع ہے
نکل کر آنکھ سے آنسو کچھ آستین پہ ٹکی
جیسے ہم یار وفا دار ہیں ایسے ہوتے
ان سے اگر کسی دن ہو گفتگو ہماری
ان سے اگر کسی دن ہو گفتگو ہماری
جیسے ہم یار وفا دار ہیں ایسے ہوتے
یہ دیوانہ ہے دل جو انکے ملنے کو ترستا ہے
یہ دیوانہ ہے دل جو انکی ملنے کو ترستا ہے
کافر تجھے اللہ نے صورت تو پری دی
ہے ڈوپٹہ سرخ جو وہ رشک گل اوڑھے ہوئے
کافر تجھے اللہ نے صورت تو پری دی
بانی کرنے مجھے مشکل کبھی ایسی تو تھی
دل اتنا طیش میں کیوں لاکے تو بگڑتا ہے
بانی کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو تھی
دل اتنا طیش میں کیوں لاکی تو بگڑتا ہے
میرے حق میں اسکی یہ تدبیر کیا خالی پڑی
میرے حق میں اسکی یہ تبدیر کیا خالی پڑی
دان ارادہ آج اس قاتل کے دل میں اور ہے
دان ارادہ آج اس قاتل کے دل میں اور ہے
چل گیا کوئی تیرا بتر نظر اور بھی ہے
چل گیا کوئی تیرا بتر نظر اور بھی ہے
ہر سر مژگان نظر لخت جگر آنے لگے
ہر سر مژگان نظر لخت جگر آنے لگے
ہالے ان آنکھوں کی میری کیا وہ بینائی ہوئی
تونے سب کے دل ودین اے بت بے دین لیے
تونے سب کے دل و دین اے بت بے دین لٹے
جو تو کاغذ کا چمن میں گل کتر کر پھینک دے
آشنا ہو تو آشنا سمجھے
براے روشنی دل ہے دلمیں داغ اولسے
براے روشنی دل ہے دلمیں داغ اولمسے
خط سبز اسکا کیا زیب ذفن ہے
خط سبز اسکا کیا زیف ذفن ہے
زندہ یوں عشق میں ہیں مائل گیسو جلتے
زندہ یوں عشق میں ہیں مائل گیسو جلتے
وہاں تدبیر گشت وخون وفص ظلم رانی ہے
حضرت دل عشق کی رنج وتعب میں پڑگئے
ان سے شب خواب میں ہوتی جو ملاقات سے ہے
ان سے شب خواب میں ہوتی جو ملاقات سی ہے
خط وپیغام انکو نامہ پہونچا ہے جائیں گے
خط وپیغام انکو نامہ پر پہونچا ہے جائیں گے
ضبط نالہ ہے ادھر گرمی ادھر پہونچے ہپی گی
دھرے ہے زلف شانہ چین زلف یار میں انگلی
کہتے تھے جو ناز نین بار اپنی گل چھاتی پہ ہے
کہتے تھے جو ناز نین بار اپنی گل چھاتی پہ ہے
تڑپتا وصل کی ہوں یوں ہوس میں کچھ نہیں چلتی
تری شمشیر سے گردن یہاں پھیری نہیں جاتی
جو زخم دل کو مری صاف کر کے ڈوماتکے
نہ دل خوشی ہے نہ رنجیدہ سچ تو بس یوں ہے
سیفی اے قاتل تری تصویر منھ میں بنگئی
جب دل سوزامکی مژگان سے کئی تار میں جھڑے
دل ہے میرا داغ دل کی یوں سیاہی کے تلے
ہوگئے شیرو شکر وہ یار بھی ایسے ہوئے
پھر بہار آئی ہے لو اور ہوا بھرتی ہے
قدسے صفات ہو کے بشر کیونکر ہوگئے
جب قفس کی سمت گلشن سے ہوا سے آگئی
ہم ابکے بیتے اگر اس صنم کے در سے پھرے
ہے دلکو جو یاد آئی فلک پر کسیکی
جب ہمارے انکے سب شکووں کے دفتر پھٹ گئے
نگاہ یاریوں داغ جگر پر جمکے بیٹھے ہے
دہان سر عارض جو موے زلف خم کھا جائینگے
بتوں نے حسن پر نخوت اگر سیکھی تو کیا سیکھی
سوے جس رات کہ ہم ہجر میں روتے روتے
اشک کے شورابہ سے کیا آستین گلجائے ہے
دشت گردی تیرے دیوانوں نے پھر کیا خاک کے
تار اشک خون میں جو دیکھی مژہ الجھی ہوئی
کیا جانے کیا وہاں دل نالاں پر بنے
جب اسکا تیر نگہ ناوک قضا بنجاے
ہے بجا گر کہیے دنیا سے محبت اٹھ گئی
ہاں عقل تو کہتی ہے تدبیر چلی جاے
گر دل دار ستہ زنداں ہوس میں بند ہے
ہے یہ ڈردل کو نہ چشم مست مہوش کھینچلے
اشک خون سے ہینگے مژگان پر چمن پھولے ہوئے
میں ہوں نحیف وناتواں دور ہے یار کی گلی
ہم اسطرح ہیں ہجر کی راتوں کو کاٹتے
تو جو کہے کچھ ہمسے بجا تو ہم بھی لائیں حکم بجا
ناخن غم ہمکو ایذا بیشتر پہونچائیں گے
لگاتے مفسد ہیں روز آکر ہماری تم سے تمھاری ہمسے
ہم قریب مرگ جنکے عشق میں غم سے ہوئے
جو تیزی تیری اے بیداد گر خنجر میں ہے
خون کی بوندیں ہیں جو ٹپکتی چشم حلقۂ جوہر سے
تھی جہاں مہر و وفا دان بیوفائی رہ گئی
ہم تصور سے ہیں یہاں اس گلبدن کو دیکھتے
دل ہے جود روآشنا یہ بھی کیا اسی نے ہے
تری جو رخپہ خط مشک فام اوپر ہے
خاکساری کر کہ روشن اس سے دل ہو جاے ہے
صاف میں ہوں پاک ہو ناصاف تمکو چاہیے
کیا ہے بخیر دل کو خبر داری بہت سی کی
نہو سکتی بیان ظلم وستم بسمل سے قاتل کے
ترے زخمی سے کہتا چارہ گریوں تھا سنا یوں ہے
کیا وہ آپ نے ہمسے بیان کیا تھا ہوا کیا ہے
اشک خوں بہہ کر جو شب مژگان ترے سے تھی چلے
جب تلک دنیا نے ہمسے کچھ برائی کی نہ تھی
جو دل میں بات ہوتی ہے زبان پر و وہی ہوتی ہے
دل میں اک آواز نے از خود نہیں بھڑکا گئی
وان کہاں ابرو ہے اور ہر موے مژگان تیر ہے
شب ہاتھ ہماری جومے ناب نہ آئی
جلا دل گرمی سوز جگر پہونچی تو یہ پہونچی
ترے جوڑیکا اوکافر جو کوئی نام لیتا ہے
خاک میں تو قیر پیش دستاں جاکر ملی
پاس جاناں کے کہا کس نے کہ جانا منع
میری اور مجنوں کی ہاں تصویر دونوں کی کھیچے
تو نظر آیا نظر اپنی جدھر کو پڑ گئی
پھینکی آب ہے شبنم جو رخ گل دھوکے
جائے کیوں دیر میں اور کیوں وہ حرم میں آوے
بدن پہ بال ہیں یوں اس ملول کے کانٹے
نہ ہمسے پوچھ اے ہمدم بھلے کیا ہے بری کیا ہے
جب اس عالم سے اس عالم میں ہم گر یہ کنان آئے
کوئی جاوے جو ادھر شام دپگا ہے گا ہے
مخمس رابع
مخمس خامس
مخمس سادس
مخمس اربعۃ عشر
مخمس خمسۃ عشر
مخمس ثمانیہ عشر
مسدس
مسدس دیگر
مثلث
مثلث دیگر
مثلث دیگر
کلیات ظفر
شاباش دلاارشدک اللہ تعالےٰ
کسیکی نمکو دہشت کیا تھی خط لکھا تو ہوتا
خدا ناخواستہ گر خط میں میرا نام آجانا
جو وہ قاتل نہ اپنے ہاتھ میں خنجر لیے پھرتا
یار آئے مرے پیش نظر ہو نہیں سکتا
بتوں کی ہے وہ آشنائی کا دھندا
دیکھکر رخ پہ ترے زلف دوتا کا پھندا
ادھر تو دست وحشت نے گریباں کھیچکر پھاڑا
آشنا بحر محبت میں کوئی گر تیرا
حال کب ہے شام سے اپنا سحر تک ایکسا
نہ تو جھا نکا نہ اسے روزن در میں تاکا
ہے تو انسان پر ہے یہ عالم بت مغرور کا
جو قطرۂ پیکان کہ ترے تیر سے ٹپکا
فلک پہ مہر نے پیدا بہت فروغ کیا
جو خط لکھا تو بھیجدے یاراپنے ہاتھ کا
مطلع ثالث
مثال گو ہر آنکھو نسے جو آنسو بنکے نکلیگا
ڈھب نہ رونیکا تری بزم میں اک آن بنا
مصوّر جبکہ اسکی صورت مقبول کھینچیگا
ہاتھ ملتا ہوں کہوں کیا بیا جانے کیا ہو
میں ہی دیوانہ فقط کیا تیرے نقشہ پر ہوا
عاشق ایدل اسپہ تو یوں بے تامل کیوں ہوا
گر زخم پر آلودہ ہو خوفناب کا پھاہا
مہ جبیں ہمنے تجھے کیا پس چلن دیکھا
ترے عالم کو اے یکتاےعالم ہمنے کیا دیکھا
سبب اس رنجش بیجا کا پتا کچھ نتھا
کچھ جواب اسنے دیا خط کا جو الٹا سیدھا
اسکا عاشق پہ عتاب اور نتھا یہ ہے تھا
کبھی رونیکا جو ہے عشق میں قابو بنتا
پاس عارض کے ترے کان کا گوہر چمکا
کہوں میں کیا کہ ہے ہمسر دل بیتاب پارے کا
جگر کا عشق میں سوزان جو داغ ہواچھا
دل سے اک نالۂ موزونکو جہاں کھینچ لیا
لکھا جو خط میں وہ کیوں نامہ برسے کھولدیا
سینے میں اک دھواں کئی بار اٹھکے رہگیا
خطا ہے میں جو کہوں اس سے خط پڑھا نگیا
بکتے بکتے ناصحا تیرا تو بھیجا پک گیا
وہ داغ عشق دل ناتوان نے کھایا
نہ اسکا بھید یاری سے نہ عیاری سے ہاتھ آیا
کرتی ہے ہر لحظہ مجکو میری جان کیا ہے خزاب
ردیف باء موحدہ
جہاں ہے دل لگی باہمد گر دو نونکی دو جانب
ایکدن وہ تھا کہ تم پوچھتے تھے ہمسے فریب
ردیف تاے فوقانیہ
خواہ ہو جمعہ کی اور خواہ ہو اتوار کی رات
مطلع ثانی
تیری یاری میں گیا سب ہمسے یاروں کا ملاپ
نہ آہوامیں اگر ہے ہوا محل میں نشست
پسند طبع بد ہو میری اک جان کو بات
آجاے ہے جسوقت تری دھانمیں صورت
ہے خوب گرچہ اس مہ کنعان کی صورت
ردیف تاے ہندی
روز لیتا ہے جو خون عاشق مضطر کو چاٹ
غم فرقت سے ترے جسکارہے بند مزاج
ہیں یہاں رنج کی آثار خوشی کے باعث
ردیف جیم تازی
پیچ سے زلف کے چلتا نہیں تر پر کاپیچ
چل گیا دلپہ جو اس زلف گر ہگیر کا پیچ
ردیف جیم فارسی
ردیف حاء مہملہ
جہاں گیا میں میر بطر نسے مہمیں کچھ آئی اور طرح
سوز غم پیچھے پڑادل کے ہمارے بے طرح
ترے مژہ کے دل گرام اضطراب میں سیخ
چھپا یا تو نے ہے کس کا کواڑ میں کاغذ
ردیف ذال معجمہ
دخل کیا وہ شب کو آئیں دوپہر سے پیشتر
مطع ثانی
کرے ہے نکہت گل دمبدم چمن میں سفر
کیونکر نہ خاکسار ہیں اہل کین سے دور
بٹھا کے غیر کو قائم نہ کر فساد کی جڑ
ردیف راء ہندی
نکلا ہے رخ پہ خط ترے اے رشک ماہ سبز
اپنا اثر دکھائے اگر عشق جان گداز
بوسہ روز آپنے ٹھہرایا تو دوز کا وتر
خاطر سے میں ہوں آپکی سنتا کلام تیز
طائر دل کے لئے کیجے نہ تدبیر قفس
مرغ اسیر چھوٹ گئی گر قفس کے دس
بات میری جب ترے دل پر مہواے یار نقش
ردیف صاد مہملہ
منظور روے یار ہے قرآن کی بالعوض
تر آنسوں میں ہو نہ اگر چشم نم ہے خط
اسنے پوشیدہ الٰہی کسے لکھا ہے خط
جو بھیجے ہے مجھے مجنوں اجاڑ میں سے خط
جو پہونچا اپنا دست یار میں خط
یوں ہلی جنبش بروسے تری دل مضبوط
خوب شبخون کا یہ پروانہ کی سامان ہے شمع
ہے پاس اپنے اس رخ پر نورسے چراغ
کچھ بات کہدیں مصلحتاً تجھ سے ہم دروغ
او تھی بیمار غم کی کل خبر چارونطرف
زلف کا فر کا ہے ڈر دین کو ایمانا کو خوف
جبکے دلونمیں فرق ہے انکی زبانمیں فرق
ردیف کاف فارسی
سوزش عشق کی یوں ہے دل بیتاب سے لاگ
تھا متا ہے دل ہے میرا ہمدموں نالے کی جھوک
حسن ہے کیا ہے پری چھر بھی ہے حور کا ٹھیک
واہ کیا زلف بت بے پیر کے حلقہ ہیں گول
ردیف اللام
جبکہ دل ہے نہ ملے ماہ جبیں کیا حاصل
موباف اسکے جعد شکن در شکن میں ملال
کیلواک بوسہ پہ دل عاشق بد حال کا مول
تیرا ایوان ہے کیا روضۂ رضوانکی نقل
ردیف المیم
یہ جو نم کھاتے ہو خدا کی قسم
کرتا میں ترک غم یار کی تدبیر تو ہوں
زلف پر تیری نظر جب اے صنم کرتی ہیں ہم
ردیف النون
قتل کرتی ہیں مجھے اسکی رسیلی آنکھیں
چوسے لب میگوں دم خواب الیسی مرنے میں
ڈھے گنے بن بن کے دنیا میں مکان تھوں کے ہیں
دن گئی زلف بت کافر میں آپہونچی تو ہیں
جاؤ تم تنہا کہیں ایسا تو ہو سکتا نہیں
ابھی زاہد نہیں آیا ہے میخوارونکی قابو میں
نیند اس فکر میں یاں رات بھر آج آئی نہیں
خود نما ہو تم کوئی پردیمیں کیا رکھی تمھیں
کیا کہیں انسے بتونمیں ہمنے کیا دیکھا نہیں
جگر اور دل جو زخمی میری جان دونوں کے دونوں ہیں
ہنسی میں رکھائی رکھائی کے قربان
لاغری سے یوں ترے اندوہگیں کی ہڈیاں
چوری سے وہ بوسۂ عارض زلف اٹھا کر کیوں کر لوں
کدورت کھوکے گرساری دل سبکینہ بنجاؤں
وہ بیٹھے بیٹھے یوہیں جو اداس بیجا ہوں
کان سے سنیں پیہم بات چیت لونکی دوں
میں ہوں عاطی کہ پر خطا کچھ ہوں
نصیب وصل جو اس یارسہ جبیں سے نہیں
نقاب اسکی رخ پر عتاب پر رنگیں
دولت عشق ہو گر ہیں تو زر کچھ بھی نہیں
کیوں قدر نہ آنسو کی ہو صاحب نظروں میں
بعد دون کے اگر دیکھو اسے تیسرے دن
کرتا وہ بیچارہ کیا تدبیر سے چارہ نہیں
مرید قطب دین ہوں خاکپائی فخر دین ہوں میں
محرم کی دے تری جو گیرہ بار بند میں
بوسنہ یمر ہم اے رعنک قمر لیتے نہیں
گر کام تیراد ہم کے بھٹکاؤ پر نہیں
مرے اور غیر کے کیا منھ سے جام مے لگاتے ہیں
وہ جو چلے ہیں اتنی جلدی دیکھیں کدھر کو جاتے ہیں
وہ ہمسے وعدہ کرجاتے ہیں اکثر شب کے آنیکا
ستم ہمپر نہیں یہ دلبر طناز کرتے ہیں
ہوا جو باندھتے اس قلزم فنا میں ہیں
ناصافیوں سے دل کے باصاف صافیوں میں
گاہ بیگاہ ادھر وہ جو گذر کرتے ہیں
رہینگے سب ترے عاشق وحسرت میں جتنے ہیں
اکٹھے پارۂ دل آکے کب مژگاں پہ ہوتے ہیں
کام جو کرتے ہیں بیہودہ ظفر کرتے ہیں
مسی مالیدہ جو دندان پہ نظر کرتے ہیں
چمن میں جب بہار آتی ہے اور غنچے چٹکتے ہیں
نہ ہم کچھ ہنسکے سیکھے ہیں نہ ہم کچھ روکے سیکھے ہیں
جب سے صحبت میں تمھاری یار بیڈھنگے سے ہیں
جو پہلے تھے یار اپنے اب انکو کہاں ڈھونڈیں
تمھارے کچھ مریض غم نہ کہتے ہیں سنتے ہیں
قمار عشق میں دیکھا جو کامل ہیں تو اپھی ہیں
ردیف الواو
بھری داغ میں کس زلف پرشکن کی بو
یاروسفر کا کچھ سروسامان تو کرو
لاشے کو مررے کھکے نہ دیوار میں چن دز
ہوگئی تیرے ہجر میں ایسی رونے کی عادت آنکھو کو
سرمہ کی اپنی چشم میں تحریر کھینچیو
جاؤ اس بن اگر آرام نہیں تم جانو
کہتا ہے کون مول مکان مہ جبیں نہ لو
ہورہائی یا نہوزلف دو تاسے کچھ ہے ہو
دوستی مجھسے اگر تجکو صنم دل سے ہو
اگر عمر اپنی مجھے یاد کم ہو
مجھے تم ذبح کر کر اپنا چاقو پوچھتے کیوں ہو
ہاتھ اٹھاینکے نہیں زلف دوتاسے کچھ ہو
غافلو دل ست ادھر اٹھوں پھر باندھے رہو
کون ہے جز دل سادہ پر فن ہوے نہوے تسیہ ہے ہو
کہتا ہے کیل تمسے کہ خنجر بکف نہو
میر اشکوہ جب انھیں پیش عند واجب ہے ہو
چڑھ بھی جاتے ہیں جو برسوں میں کبھی مشکل سے ہاتھ
خط اسے جلدی میں لکھتا ہوں قلم برداشتہ
ہے جہاں میں خواہش نام ونشان بفارہ مد
خجل ہے دیکھ کے ابردہلال کیسا کچھ
کھچا عجب ترے روخ جبیں کا ہے نقشہ
قلم سے خال نہ نوک قلم نکال کے لکھ
آسکے کوچی میں کہاں ایسے ٹھکانیکی جگہ
کون کہتا ہے کہ شوخی وشرارت سے ندیکھ
جوکہ ہو تجھسے سواتو اسے حسرت سے ندیکھ
اگر وہ نام ہمارانہ دمبدم لیتے
شوخ چشمی خوش نگاہی بیوفائی بدگمانی
کیا کہوں گر یہ سے جو کچھ چشم پر ابدل بنے
صحبت نہ ان بتوں سے گر اتنے ذرانبے
پھپھولے دلکے تازہ تازہ طرزاشک افشانے
جب سنے بات تری رشک قمر اور سنے
نہ توپی بنگ کبھی ہمنے نہ مینوش ہوے
زیادہ غیر سے جسدم ترے تپاک ہوے
ملائے خاک میں گروہ ستم شعار مجھے
اشک خون بہکر جو شب مژگان سے تر تھے چلے
خیال اپنا ادھر پہونچا بصد تدبیر مشکل سے
گوشن پر کب زلف بت پر فن یہ ہے
خون مرا کیوں اس بت کافر کی گیسوپی گئے
جو زندہ اے بت بے مہر تیرے در سے پھرے
یہ جلوہ کسکا مثل آفتاب آنکھونکی آگے ہے
عیش سے گذری کہ غم کیساتھ اچھی نہ گئی
خط میں بہت سے اسنے چناں اور چنیں لکھی
وان رسائی نہیں تو پھر کیا ہے
صورت جسے اس یار نے دکھلائی نہوگی
بحر غم میں دست وپااک عمر مارے جائینگے
ادھر ہم ٹکٹکی اپنی جو وقت دید باندھینگے
گفتگو ہونے وہاں آٹھ پہر اور لگی
آئینہ سے یونہیں تیرے آنکھ گر لگجائیگی
جہاں ویرانہ ہے پہلے کبھی آباد گھریاں تھے
مجھکو اپنی دلبربا کا دھیان بھی جو ہے سو ہے
کہاں مژگان ترسے ابردریا یار ہمسر ہے
دم ہجراں سے گر صورت بدلیجائے عجب کیا ہے
دل ہے کہتا اور کچھ تدبیر کہتی اور ہے
یہ نہیں ٹپکے میاں ہردوایروتنگ ہے
غریز دگور میں کیا دل کا داغ چلتا ہے
دیدۂ تر جوش گریہ سے جو اک دریا ساہے
مہر خط پر اور ہے قاصار نشانی اور ہے
کچھ عجب آفت کا دوآسماں میں پیچ ہے
اس عداوت کیش کو مجھسے عداوت ہے سوہے
غیر کرسکتا ہے گو مجھ سے عداوت کیا ہے
گرم آرائیش جو اپنا اور جانا نہ رہے
مصور نے ہمیں کیا جانے دی تصویر کسکی ہے
ہو سمندوقت ہے وہ پیشوا کی وقت ہے
عجب اشک آنکھ سے کچھ زیر مژگاں تیز بہتا ہے
پھرتی آنکھوں میں جو اس زلف دوتاکی شکل ہے
وہ دل کیا ہے کہ جو تیرے غم الفت سے خالی ہے
یہ عمر ہمنے بسر سب شرابمیں کی ہے
ہے جبکہ خلق سوچ کے تدبیر بولتی
نہ مال سے نے رزسے نہ تدبیر سے چمکے
غرور حسن سے گردہ جلال میں آوے
سرورق
دود جگر نے دلپہ جو سر پوش ساڈھنکا
بھید دل کا گر یہ سے اے چشم نم کھل جائیگا
دہن تنگ جو یاد آیا مجھے
جو دلمیں تیرا شوق ابروی خمدار ہو پیدا
خدا جانے کہاں بیٹھا ہے وہ اور ہے کدھر پھرتا
صریحاً دل تو اے مژگاں یار آنکھوں کے آگے تھا
تو کہیں ہو یہ دل دیوانہ وہاں پہونچے ہی گا
کسیکو ہمنے یہاں اپنا نہ پایا
کبھی جو خواب میں وہ شوخ پر عتاب آیا
خون سے اشک آنکھوں میں جب ملکر گلابی ہوگیا
خلش گر ہے جو پاس ہر گل کے کانٹا
وہ بگڑے ایسی کہ پھر کچھ معاملہ نہ بنا
تیر تیرا جسکے سینہ سے گذر کر جائیگا
اس دلربا سے کیجے گلہ دلبری کا کیا
بحر کو زیمیں کب اسے ہمدم سمٹ کر آگیا
ہمنے شبدیز قلم کو اپنے جب جو لان کیا
جب تری بیمار کی گردن کا منکا ڈھل گیا
خط رخ پہ تیرے آنے نظر گلبدن لگا
جاری آہ سے کب داغ سینہ کا ہوا ٹھنڈا
خدا نے جبکہ جمال بتاں بنایا تھا
خدا نے جبکہ تجھے مہ جبیں بنایا تھا
لگے ہے سیر گلشن میں دل اے غنچہ دہن کسکا
بیان کیجے اگر احوال اپنی شام غربت کا
زخم چراتا ہے ہنس ہنس کر دل بیتاب کا
رخ تاباں جو تہ زلف گرہ گیر رہا
تم کمر بند اب نہ بالائے کمر باندھو کڑا
بھاگر یہ سے میرے اسقدر سیلاب پانی کا
دلا اس زلف کی کوچہ میں گر جانا بھی ہوویگا
جنوں نے جبکہ دکھلا یا ہمیں عالم بیاباں کا
میں ہوں وہ سوختہ جان ان بت گمراہوں کا
جس طرف آہ کا شعلہ مرا جھکتا ہوگا
نمود کیوں ندکھائے چراغ سے دریا
کب اشک سر سر رخ ناز نیں سے چمتا
نہیں دیکھ بہتر سنانا کسی کا
ہے تری ہاتھوں سے عاشق کا گلا کاٹا ہو
جسے ہے درک فن عشق میں غافل نہ ہویگا
نزلہ شبنم سے گرا دل پہ تری گل ٹھنڈا
گیا فقط گر یہ سے چشم حربہ یانی پھر گیا
حیف جوں غنچہ نہ اپنا دل پڑیاس کھلا
کیا وصف جبیں میں کہوں اس ماہ جبیں کا
ہے ہماری خاک پر تیرا سراغ نقش پا
دھیان دندان پہ تری آٹھ پہر سے اپنا
قاتل اب دھونڈھے ہے اس عاشق بیجان میں کیا
پہلے تو ہاتھوں سے وہ ڈورا چکئی کانا نپا
مرا کھیل سنبھلا سنبھالا بگاڑا
آنسوؤں سے سینہ کے یوں گھاؤ پر پانی چڑھا
بولے وہ جب ہمنے شب کو نالہ پر حسرت بھرا
تو جو مہتابے پہ کل رات کھڑا گاتا تھا
نہ ہر گز درد دل سے میں کرا ہا
رکھا دقن پہ یار نے کیوں دانہ خال کا
ہماری آنکھوں سے جسوقت خون ناب بہا
تراش کوہ سے کیا کو ہکن پتھر بنا دیتا
ہووے تمھارے در تک اپنا کہاں سے آنا
اک پیالا رات مے کارند متوالا اڑا
تو عیادت کو گرنہ جائے گا
وہاں دل نہ لگاتا جو کوئی اور سا ہوتا
جسے سمجھا تو کھ سکا شبکو دروازیکے ٹپکا تھا
سر بسر تیری نگاہوں نے جگر کو چھانا
لاغری سے حال اپنا کیا کہوں کیا ہوگیا
نیلو فر رہتا ہے جو پانی میں سب ڈوبا ہوا
گل صد برگ جو گل تونے اٹھا کر پھینکا
جب استخوان سے یہ سور فار تیر کا ٹھہرا
مرا دشمن اگر چہ زمانہ نہ رہا
جگر سے یودھواں ہے بار بار اٹھا ہوا آتا
جبکہ شبدیز قلم قرطاس پر جولان کیا
ہاتھ قاتل تری تلوار کا یسا چھوٹا
مرجائیے یا کچھ ہو کسے دھیان کسی کا
الفت کا ملا ہمکو مزا یار کسی کا
عشق نے جسدم دیار دلمیں آہو کا دیا
بعد خط کا قاصد نے جو پیغام دیا
دابوسرکس کا تم اور ہاتھ دباؤ کسکا
بے ضبط فغاں راز نہاں ہو نہیں سکتا
ہمنے سبھی کو عشق میں بدظن بنا لیا
وہ نہ آیا بار لائے یوں نتھا تو یوں ہوا
پوچھے یاروں سے کہتا یار کیا تھا کیا ہوا
کیا کہوں دل مائل زلف دو تا کیو نکر ہوا
عشق کے میدان میں رستم کا منھ پھر جائیگا
جام وسبو خم سے نہ بھراک اسمیں کا اک اسمیں کا
نیست از انجم شب تاب چراغاں شب
ردیف باے موحدہ غزل فارسی
رشتہ آہ سے ہمنے بھی دل وجان ٹانکا
صبر جاوے تو نکر اسکا دل ازار عقب
نہ کہو یہ کہ ہیں یہ دیدۂ پر آب حباب
چشم پر نم کیا اٹھاوے خاک اب رستم کا رعب
چشم کا ہے عشق کی آتش کے چمکا نیکو آب
خیال رخ سے ترے قطرے ہیں پسنینے کے
دیکھکر اس مہ کو وقت بیحجابی آفتاب
دیکھے گر چشم تری اے گل شاداب حباب
اٹھ کے پہلو سے ہمارے جسطرف جائینگے آپ
ردیف باے فارسی
کرتی ہے ہر لحظہ مجھکو میریجان کا ہے خراب
حضرت دل تلخ میری زندگی گرتے ہیں آپ
ہووے دونوں کچھ ایسا سو چکر چپ
کیا ہو مجھسے کشیدہ ہے وہ گر آپ سے آپ
اینکہ بینی ہمہ ہاقالب و جان ہمہ اوست
ہیں وہ ہم بین کہ جو کر لیتے ہیں اکثر برداشت
تھا جو کوٹھی پہ وہ ہے جلوہ کنان ساری رات
کہہ بیٹھوں جو سوز غم ہجراں کی حقیقت
کب بناے سے بنے ہے کوئی تدبیر کی بات
سنلے ادکا فربدکیش ذرا دھیان سے بات
کلی جولالۂ احمر کی مسکرائی آج
جیسے کہ ہیں موزلف کی خم سے کج دوا کج
ردیف جیم فارسی
سب کا رجہان ہیچ ہے سب کا رجہان ہیچ
دیکھنا کیا آپڑے اس چشم پر کیسو کی پیچ
ٹکڑے نہیں ہیں آنسوؤ ں میں دلکے چار پانچ
ردیف حاء مہملہ
اڑگیا گل کا جو یوں رنگ گلستاں کے بیچ
تونے رخ پر زلف کا حلقہ بنیا بیطرح
سب طرحدارونکو دیکھا ہمنشیں اچھی طرح
ساقی جو تو نہو وے بوقت شراب صبح
برگ گل باغ میں ہیں سرخ تو کیا خوب ہیں سرخ
ردیف خاء معجمہ
خاک اڑے یہ دشت کی مجنوں جو تیرا کھائے چرخ
جبکہ ہو تجھ بن مجھے خواب و خور وآرام تلخ
آنکھیں تری نشے میں ہیں یوں بیجاب سرخ
ہجر میں کرتا ہے شبخون کی مری تدبیر چرخ
قدر اے عشق رہے گی تری کیا میرے بعد
دیتا ہے جو مزا ترے لب سے کلام تلخ
ایسی آنکھوں میں سمائی رخ جانا نکی نمود
سب رنگ میں دس گل کی مرے شان ہے موجود
ردیف ذال معجمہ
کیونکہ خسرو کو لگیں اسکے نہ دشنام لذیذ
چڑھ گئی گرچہ مری خاک سے افلاک پہ گرد
نہیں دیر تو کچھ بڑی دو گھڑی بھر
خواب میں پہونچے تھے جس کو جی میں ہشیاری سے پھر
گردش چرخ سے ہے جسکو زمیں پر چکر
جو عرش سے ہے فرش تلک سب اسی میں ہے
پئے اگر تو جو آب شراب کا ساغر
کیا لچکنے میں ہے نازک شاخ سنبل سے کمر
ٹھوکا دے ہے یوں رکھ دل کو وہ صراف ناخن پر
فرہاد مرگیا یونہیں پر حیرسنگ پر
کب اشک چشم کی ہے لخت دل گو پیاس پانی
کھینچ مت صید فگن تو دل نخچیر سے تیر
تیرے دیوانے کو مارے ہیں یہ روڑے پتھر
بیوجہ نہیں کچھ مری تقدیر گلو گیر
خدنگ دنبالہ کھایا لیکن نہ لایا شکوہ کبھی زبان پر
کھاے بخیہ میں نہ کیوں عقل رفو گر حکمپر
بجز انگور کب راضی ہوں ہم جنت کے جانے پر
بن ترے اے رشک گل رشک بہار
چھیڑے چوٹی کو جو اس بیداد گر کی پشت پر
ہر آشنا سے ایسا ہے اب آشنا کا طور
مژہ ہے خنجرابروی دلبر کے تلے خنجر
ردیف زاء معجمہ
دل مرا ڈالے یل عشق نہ کس رنگ مڑوڑ
بشر کو کیوں نہودر پیش ہاں نشیب و فراز
گرخوشی اس دل مغموم سے چاہے آمیز
ہوا غم سے دل ناکام لبریز
سنگ سر مہ نے کیا یوں نگہ یار کو تیز
نہ مجکو عشق میں ہے جان کا نہ تن کا ہوش
کیون نہ یہ سنکر کھڑی ہوں باغمیں بلبل کے گوش
کرتے ہیں بہت صاحب تدبیر پس وپیش
ہر طرح غیر کی دلجوئی ہے معقول چہ خوش
جو دیکھے داغ دل خانماں خراب کا قرص
بھری تھی ساغر میں رات ساقی نے ایسی خوشبو شراب خالص
ردیف ضاد معجمہ
لب کا لینگے ترے لعل یمن پر اعتراض
لب نکا لینگے ترے لعل یمن پر اعتراض
کسطرح جکے کیجیے جاناں سے اختلاط
میں نے لکھا ہے بتوکل اسے تدبیر سے خط
آج میں نے جو لکھا تھا تجھے تدبیر سے خط
اسنے برہم ہو جو بھیجا اے دل افسردہ خط
آتش الفت دل بیتاب میں روشن ہوئی
دیکھنا جانلی ذفن کو رخ جاناں کے تلے
دیکھنا جالی ذفن کو رخ جاناں کے تلے
خدانے ایسی نالوں کی میرے تاثیر کم کردی
جاے تدبیر جہاں اپنا قضا کام کرے
ناز سےگر ٹکٹکی تیری ادھر لگجائیگی
قاصد وہ نہ کیونکر خط وپیغام سے چونکے
لکھو نگامیں جو خطوں میں شکایتیں دونی
جو تماشا دیکھنے دنیا میں بھی آئے ہو
راہ صحرائے جنونکی جبکہ ہم لینے لگے
یہ جہاں کا آئنہ خانہ پری خانہ سا ہے
لپٹی ہے یہ جو آتش عصیان وجود سے
ملک فنا اور ہے ملک بقا اور ہے
شوق خار وشت وامنگیر ہے
جب دم غسل اسکی گیسو آب میں لہرائیں گے
دوستی میں جسکی اپنی جان پر اے دل بنے
جب دم غسل اسکی گیسو آب میں لہرائیں گے
دوستی میں جسکی اپنی جان پر اے دل بنے
ترا خیال نہ بھولے خیال ہے تو یہ ہے
جسکی تصویر ہے یہ سامنے ہم جان کئے
نکل کے آنکھ سے آنسو کچھ آستین پہ ٹکی
پاس جاناں کے کہا کسنے کہ جانا منع ہے
پاس جاناں کے کہا کسنے کہ جانا منع ہے
نکل کر آنکھ سے آنسو کچھ آستین پہ ٹکی
جیسے ہم یار وفا دار ہیں ایسے ہوتے
ان سے اگر کسی دن ہو گفتگو ہماری
ان سے اگر کسی دن ہو گفتگو ہماری
جیسے ہم یار وفا دار ہیں ایسے ہوتے
یہ دیوانہ ہے دل جو انکے ملنے کو ترستا ہے
یہ دیوانہ ہے دل جو انکی ملنے کو ترستا ہے
کافر تجھے اللہ نے صورت تو پری دی
ہے ڈوپٹہ سرخ جو وہ رشک گل اوڑھے ہوئے
کافر تجھے اللہ نے صورت تو پری دی
بانی کرنے مجھے مشکل کبھی ایسی تو تھی
دل اتنا طیش میں کیوں لاکے تو بگڑتا ہے
بانی کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو تھی
دل اتنا طیش میں کیوں لاکی تو بگڑتا ہے
میرے حق میں اسکی یہ تدبیر کیا خالی پڑی
میرے حق میں اسکی یہ تبدیر کیا خالی پڑی
دان ارادہ آج اس قاتل کے دل میں اور ہے
دان ارادہ آج اس قاتل کے دل میں اور ہے
چل گیا کوئی تیرا بتر نظر اور بھی ہے
چل گیا کوئی تیرا بتر نظر اور بھی ہے
ہر سر مژگان نظر لخت جگر آنے لگے
ہر سر مژگان نظر لخت جگر آنے لگے
ہالے ان آنکھوں کی میری کیا وہ بینائی ہوئی
تونے سب کے دل ودین اے بت بے دین لیے
تونے سب کے دل و دین اے بت بے دین لٹے
جو تو کاغذ کا چمن میں گل کتر کر پھینک دے
آشنا ہو تو آشنا سمجھے
براے روشنی دل ہے دلمیں داغ اولسے
براے روشنی دل ہے دلمیں داغ اولمسے
خط سبز اسکا کیا زیب ذفن ہے
خط سبز اسکا کیا زیف ذفن ہے
زندہ یوں عشق میں ہیں مائل گیسو جلتے
زندہ یوں عشق میں ہیں مائل گیسو جلتے
وہاں تدبیر گشت وخون وفص ظلم رانی ہے
حضرت دل عشق کی رنج وتعب میں پڑگئے
ان سے شب خواب میں ہوتی جو ملاقات سے ہے
ان سے شب خواب میں ہوتی جو ملاقات سی ہے
خط وپیغام انکو نامہ پہونچا ہے جائیں گے
خط وپیغام انکو نامہ پر پہونچا ہے جائیں گے
ضبط نالہ ہے ادھر گرمی ادھر پہونچے ہپی گی
دھرے ہے زلف شانہ چین زلف یار میں انگلی
کہتے تھے جو ناز نین بار اپنی گل چھاتی پہ ہے
کہتے تھے جو ناز نین بار اپنی گل چھاتی پہ ہے
تڑپتا وصل کی ہوں یوں ہوس میں کچھ نہیں چلتی
تری شمشیر سے گردن یہاں پھیری نہیں جاتی
جو زخم دل کو مری صاف کر کے ڈوماتکے
نہ دل خوشی ہے نہ رنجیدہ سچ تو بس یوں ہے
سیفی اے قاتل تری تصویر منھ میں بنگئی
جب دل سوزامکی مژگان سے کئی تار میں جھڑے
دل ہے میرا داغ دل کی یوں سیاہی کے تلے
ہوگئے شیرو شکر وہ یار بھی ایسے ہوئے
پھر بہار آئی ہے لو اور ہوا بھرتی ہے
قدسے صفات ہو کے بشر کیونکر ہوگئے
جب قفس کی سمت گلشن سے ہوا سے آگئی
ہم ابکے بیتے اگر اس صنم کے در سے پھرے
ہے دلکو جو یاد آئی فلک پر کسیکی
جب ہمارے انکے سب شکووں کے دفتر پھٹ گئے
نگاہ یاریوں داغ جگر پر جمکے بیٹھے ہے
دہان سر عارض جو موے زلف خم کھا جائینگے
بتوں نے حسن پر نخوت اگر سیکھی تو کیا سیکھی
سوے جس رات کہ ہم ہجر میں روتے روتے
اشک کے شورابہ سے کیا آستین گلجائے ہے
دشت گردی تیرے دیوانوں نے پھر کیا خاک کے
تار اشک خون میں جو دیکھی مژہ الجھی ہوئی
کیا جانے کیا وہاں دل نالاں پر بنے
جب اسکا تیر نگہ ناوک قضا بنجاے
ہے بجا گر کہیے دنیا سے محبت اٹھ گئی
ہاں عقل تو کہتی ہے تدبیر چلی جاے
گر دل دار ستہ زنداں ہوس میں بند ہے
ہے یہ ڈردل کو نہ چشم مست مہوش کھینچلے
اشک خون سے ہینگے مژگان پر چمن پھولے ہوئے
میں ہوں نحیف وناتواں دور ہے یار کی گلی
ہم اسطرح ہیں ہجر کی راتوں کو کاٹتے
تو جو کہے کچھ ہمسے بجا تو ہم بھی لائیں حکم بجا
ناخن غم ہمکو ایذا بیشتر پہونچائیں گے
لگاتے مفسد ہیں روز آکر ہماری تم سے تمھاری ہمسے
ہم قریب مرگ جنکے عشق میں غم سے ہوئے
جو تیزی تیری اے بیداد گر خنجر میں ہے
خون کی بوندیں ہیں جو ٹپکتی چشم حلقۂ جوہر سے
تھی جہاں مہر و وفا دان بیوفائی رہ گئی
ہم تصور سے ہیں یہاں اس گلبدن کو دیکھتے
دل ہے جود روآشنا یہ بھی کیا اسی نے ہے
تری جو رخپہ خط مشک فام اوپر ہے
خاکساری کر کہ روشن اس سے دل ہو جاے ہے
صاف میں ہوں پاک ہو ناصاف تمکو چاہیے
کیا ہے بخیر دل کو خبر داری بہت سی کی
نہو سکتی بیان ظلم وستم بسمل سے قاتل کے
ترے زخمی سے کہتا چارہ گریوں تھا سنا یوں ہے
کیا وہ آپ نے ہمسے بیان کیا تھا ہوا کیا ہے
اشک خوں بہہ کر جو شب مژگان ترے سے تھی چلے
جب تلک دنیا نے ہمسے کچھ برائی کی نہ تھی
جو دل میں بات ہوتی ہے زبان پر و وہی ہوتی ہے
دل میں اک آواز نے از خود نہیں بھڑکا گئی
وان کہاں ابرو ہے اور ہر موے مژگان تیر ہے
شب ہاتھ ہماری جومے ناب نہ آئی
جلا دل گرمی سوز جگر پہونچی تو یہ پہونچی
ترے جوڑیکا اوکافر جو کوئی نام لیتا ہے
خاک میں تو قیر پیش دستاں جاکر ملی
پاس جاناں کے کہا کس نے کہ جانا منع
میری اور مجنوں کی ہاں تصویر دونوں کی کھیچے
تو نظر آیا نظر اپنی جدھر کو پڑ گئی
پھینکی آب ہے شبنم جو رخ گل دھوکے
جائے کیوں دیر میں اور کیوں وہ حرم میں آوے
بدن پہ بال ہیں یوں اس ملول کے کانٹے
نہ ہمسے پوچھ اے ہمدم بھلے کیا ہے بری کیا ہے
جب اس عالم سے اس عالم میں ہم گر یہ کنان آئے
کوئی جاوے جو ادھر شام دپگا ہے گا ہے
مخمس رابع
مخمس خامس
مخمس سادس
مخمس اربعۃ عشر
مخمس خمسۃ عشر
مخمس ثمانیہ عشر
مسدس
مسدس دیگر
مثلث
مثلث دیگر
مثلث دیگر
کلیات ظفر
شاباش دلاارشدک اللہ تعالےٰ
کسیکی نمکو دہشت کیا تھی خط لکھا تو ہوتا
خدا ناخواستہ گر خط میں میرا نام آجانا
جو وہ قاتل نہ اپنے ہاتھ میں خنجر لیے پھرتا
یار آئے مرے پیش نظر ہو نہیں سکتا
بتوں کی ہے وہ آشنائی کا دھندا
دیکھکر رخ پہ ترے زلف دوتا کا پھندا
ادھر تو دست وحشت نے گریباں کھیچکر پھاڑا
آشنا بحر محبت میں کوئی گر تیرا
حال کب ہے شام سے اپنا سحر تک ایکسا
نہ تو جھا نکا نہ اسے روزن در میں تاکا
ہے تو انسان پر ہے یہ عالم بت مغرور کا
جو قطرۂ پیکان کہ ترے تیر سے ٹپکا
فلک پہ مہر نے پیدا بہت فروغ کیا
جو خط لکھا تو بھیجدے یاراپنے ہاتھ کا
مطلع ثالث
مثال گو ہر آنکھو نسے جو آنسو بنکے نکلیگا
ڈھب نہ رونیکا تری بزم میں اک آن بنا
مصوّر جبکہ اسکی صورت مقبول کھینچیگا
ہاتھ ملتا ہوں کہوں کیا بیا جانے کیا ہو
میں ہی دیوانہ فقط کیا تیرے نقشہ پر ہوا
عاشق ایدل اسپہ تو یوں بے تامل کیوں ہوا
گر زخم پر آلودہ ہو خوفناب کا پھاہا
مہ جبیں ہمنے تجھے کیا پس چلن دیکھا
ترے عالم کو اے یکتاےعالم ہمنے کیا دیکھا
سبب اس رنجش بیجا کا پتا کچھ نتھا
کچھ جواب اسنے دیا خط کا جو الٹا سیدھا
اسکا عاشق پہ عتاب اور نتھا یہ ہے تھا
کبھی رونیکا جو ہے عشق میں قابو بنتا
پاس عارض کے ترے کان کا گوہر چمکا
کہوں میں کیا کہ ہے ہمسر دل بیتاب پارے کا
جگر کا عشق میں سوزان جو داغ ہواچھا
دل سے اک نالۂ موزونکو جہاں کھینچ لیا
لکھا جو خط میں وہ کیوں نامہ برسے کھولدیا
سینے میں اک دھواں کئی بار اٹھکے رہگیا
خطا ہے میں جو کہوں اس سے خط پڑھا نگیا
بکتے بکتے ناصحا تیرا تو بھیجا پک گیا
وہ داغ عشق دل ناتوان نے کھایا
نہ اسکا بھید یاری سے نہ عیاری سے ہاتھ آیا
کرتی ہے ہر لحظہ مجکو میری جان کیا ہے خزاب
ردیف باء موحدہ
جہاں ہے دل لگی باہمد گر دو نونکی دو جانب
ایکدن وہ تھا کہ تم پوچھتے تھے ہمسے فریب
ردیف تاے فوقانیہ
خواہ ہو جمعہ کی اور خواہ ہو اتوار کی رات
مطلع ثانی
تیری یاری میں گیا سب ہمسے یاروں کا ملاپ
نہ آہوامیں اگر ہے ہوا محل میں نشست
پسند طبع بد ہو میری اک جان کو بات
آجاے ہے جسوقت تری دھانمیں صورت
ہے خوب گرچہ اس مہ کنعان کی صورت
ردیف تاے ہندی
روز لیتا ہے جو خون عاشق مضطر کو چاٹ
غم فرقت سے ترے جسکارہے بند مزاج
ہیں یہاں رنج کی آثار خوشی کے باعث
ردیف جیم تازی
پیچ سے زلف کے چلتا نہیں تر پر کاپیچ
چل گیا دلپہ جو اس زلف گر ہگیر کا پیچ
ردیف جیم فارسی
ردیف حاء مہملہ
جہاں گیا میں میر بطر نسے مہمیں کچھ آئی اور طرح
سوز غم پیچھے پڑادل کے ہمارے بے طرح
ترے مژہ کے دل گرام اضطراب میں سیخ
چھپا یا تو نے ہے کس کا کواڑ میں کاغذ
ردیف ذال معجمہ
دخل کیا وہ شب کو آئیں دوپہر سے پیشتر
مطع ثانی
کرے ہے نکہت گل دمبدم چمن میں سفر
کیونکر نہ خاکسار ہیں اہل کین سے دور
بٹھا کے غیر کو قائم نہ کر فساد کی جڑ
ردیف راء ہندی
نکلا ہے رخ پہ خط ترے اے رشک ماہ سبز
اپنا اثر دکھائے اگر عشق جان گداز
بوسہ روز آپنے ٹھہرایا تو دوز کا وتر
خاطر سے میں ہوں آپکی سنتا کلام تیز
طائر دل کے لئے کیجے نہ تدبیر قفس
مرغ اسیر چھوٹ گئی گر قفس کے دس
بات میری جب ترے دل پر مہواے یار نقش
ردیف صاد مہملہ
منظور روے یار ہے قرآن کی بالعوض
تر آنسوں میں ہو نہ اگر چشم نم ہے خط
اسنے پوشیدہ الٰہی کسے لکھا ہے خط
جو بھیجے ہے مجھے مجنوں اجاڑ میں سے خط
جو پہونچا اپنا دست یار میں خط
یوں ہلی جنبش بروسے تری دل مضبوط
خوب شبخون کا یہ پروانہ کی سامان ہے شمع
ہے پاس اپنے اس رخ پر نورسے چراغ
کچھ بات کہدیں مصلحتاً تجھ سے ہم دروغ
او تھی بیمار غم کی کل خبر چارونطرف
زلف کا فر کا ہے ڈر دین کو ایمانا کو خوف
جبکے دلونمیں فرق ہے انکی زبانمیں فرق
ردیف کاف فارسی
سوزش عشق کی یوں ہے دل بیتاب سے لاگ
تھا متا ہے دل ہے میرا ہمدموں نالے کی جھوک
حسن ہے کیا ہے پری چھر بھی ہے حور کا ٹھیک
واہ کیا زلف بت بے پیر کے حلقہ ہیں گول
ردیف اللام
جبکہ دل ہے نہ ملے ماہ جبیں کیا حاصل
موباف اسکے جعد شکن در شکن میں ملال
کیلواک بوسہ پہ دل عاشق بد حال کا مول
تیرا ایوان ہے کیا روضۂ رضوانکی نقل
ردیف المیم
یہ جو نم کھاتے ہو خدا کی قسم
کرتا میں ترک غم یار کی تدبیر تو ہوں
زلف پر تیری نظر جب اے صنم کرتی ہیں ہم
ردیف النون
قتل کرتی ہیں مجھے اسکی رسیلی آنکھیں
چوسے لب میگوں دم خواب الیسی مرنے میں
ڈھے گنے بن بن کے دنیا میں مکان تھوں کے ہیں
دن گئی زلف بت کافر میں آپہونچی تو ہیں
جاؤ تم تنہا کہیں ایسا تو ہو سکتا نہیں
ابھی زاہد نہیں آیا ہے میخوارونکی قابو میں
نیند اس فکر میں یاں رات بھر آج آئی نہیں
خود نما ہو تم کوئی پردیمیں کیا رکھی تمھیں
کیا کہیں انسے بتونمیں ہمنے کیا دیکھا نہیں
جگر اور دل جو زخمی میری جان دونوں کے دونوں ہیں
ہنسی میں رکھائی رکھائی کے قربان
لاغری سے یوں ترے اندوہگیں کی ہڈیاں
چوری سے وہ بوسۂ عارض زلف اٹھا کر کیوں کر لوں
کدورت کھوکے گرساری دل سبکینہ بنجاؤں
وہ بیٹھے بیٹھے یوہیں جو اداس بیجا ہوں
کان سے سنیں پیہم بات چیت لونکی دوں
میں ہوں عاطی کہ پر خطا کچھ ہوں
نصیب وصل جو اس یارسہ جبیں سے نہیں
نقاب اسکی رخ پر عتاب پر رنگیں
دولت عشق ہو گر ہیں تو زر کچھ بھی نہیں
کیوں قدر نہ آنسو کی ہو صاحب نظروں میں
بعد دون کے اگر دیکھو اسے تیسرے دن
کرتا وہ بیچارہ کیا تدبیر سے چارہ نہیں
مرید قطب دین ہوں خاکپائی فخر دین ہوں میں
محرم کی دے تری جو گیرہ بار بند میں
بوسنہ یمر ہم اے رعنک قمر لیتے نہیں
گر کام تیراد ہم کے بھٹکاؤ پر نہیں
مرے اور غیر کے کیا منھ سے جام مے لگاتے ہیں
وہ جو چلے ہیں اتنی جلدی دیکھیں کدھر کو جاتے ہیں
وہ ہمسے وعدہ کرجاتے ہیں اکثر شب کے آنیکا
ستم ہمپر نہیں یہ دلبر طناز کرتے ہیں
ہوا جو باندھتے اس قلزم فنا میں ہیں
ناصافیوں سے دل کے باصاف صافیوں میں
گاہ بیگاہ ادھر وہ جو گذر کرتے ہیں
رہینگے سب ترے عاشق وحسرت میں جتنے ہیں
اکٹھے پارۂ دل آکے کب مژگاں پہ ہوتے ہیں
کام جو کرتے ہیں بیہودہ ظفر کرتے ہیں
مسی مالیدہ جو دندان پہ نظر کرتے ہیں
چمن میں جب بہار آتی ہے اور غنچے چٹکتے ہیں
نہ ہم کچھ ہنسکے سیکھے ہیں نہ ہم کچھ روکے سیکھے ہیں
جب سے صحبت میں تمھاری یار بیڈھنگے سے ہیں
جو پہلے تھے یار اپنے اب انکو کہاں ڈھونڈیں
تمھارے کچھ مریض غم نہ کہتے ہیں سنتے ہیں
قمار عشق میں دیکھا جو کامل ہیں تو اپھی ہیں
ردیف الواو
بھری داغ میں کس زلف پرشکن کی بو
یاروسفر کا کچھ سروسامان تو کرو
لاشے کو مررے کھکے نہ دیوار میں چن دز
ہوگئی تیرے ہجر میں ایسی رونے کی عادت آنکھو کو
سرمہ کی اپنی چشم میں تحریر کھینچیو
جاؤ اس بن اگر آرام نہیں تم جانو
کہتا ہے کون مول مکان مہ جبیں نہ لو
ہورہائی یا نہوزلف دو تاسے کچھ ہے ہو
دوستی مجھسے اگر تجکو صنم دل سے ہو
اگر عمر اپنی مجھے یاد کم ہو
مجھے تم ذبح کر کر اپنا چاقو پوچھتے کیوں ہو
ہاتھ اٹھاینکے نہیں زلف دوتاسے کچھ ہو
غافلو دل ست ادھر اٹھوں پھر باندھے رہو
کون ہے جز دل سادہ پر فن ہوے نہوے تسیہ ہے ہو
کہتا ہے کیل تمسے کہ خنجر بکف نہو
میر اشکوہ جب انھیں پیش عند واجب ہے ہو
چڑھ بھی جاتے ہیں جو برسوں میں کبھی مشکل سے ہاتھ
خط اسے جلدی میں لکھتا ہوں قلم برداشتہ
ہے جہاں میں خواہش نام ونشان بفارہ مد
خجل ہے دیکھ کے ابردہلال کیسا کچھ
کھچا عجب ترے روخ جبیں کا ہے نقشہ
قلم سے خال نہ نوک قلم نکال کے لکھ
آسکے کوچی میں کہاں ایسے ٹھکانیکی جگہ
کون کہتا ہے کہ شوخی وشرارت سے ندیکھ
جوکہ ہو تجھسے سواتو اسے حسرت سے ندیکھ
اگر وہ نام ہمارانہ دمبدم لیتے
شوخ چشمی خوش نگاہی بیوفائی بدگمانی
کیا کہوں گر یہ سے جو کچھ چشم پر ابدل بنے
صحبت نہ ان بتوں سے گر اتنے ذرانبے
پھپھولے دلکے تازہ تازہ طرزاشک افشانے
جب سنے بات تری رشک قمر اور سنے
نہ توپی بنگ کبھی ہمنے نہ مینوش ہوے
زیادہ غیر سے جسدم ترے تپاک ہوے
ملائے خاک میں گروہ ستم شعار مجھے
اشک خون بہکر جو شب مژگان سے تر تھے چلے
خیال اپنا ادھر پہونچا بصد تدبیر مشکل سے
گوشن پر کب زلف بت پر فن یہ ہے
خون مرا کیوں اس بت کافر کی گیسوپی گئے
جو زندہ اے بت بے مہر تیرے در سے پھرے
یہ جلوہ کسکا مثل آفتاب آنکھونکی آگے ہے
عیش سے گذری کہ غم کیساتھ اچھی نہ گئی
خط میں بہت سے اسنے چناں اور چنیں لکھی
وان رسائی نہیں تو پھر کیا ہے
صورت جسے اس یار نے دکھلائی نہوگی
بحر غم میں دست وپااک عمر مارے جائینگے
ادھر ہم ٹکٹکی اپنی جو وقت دید باندھینگے
گفتگو ہونے وہاں آٹھ پہر اور لگی
آئینہ سے یونہیں تیرے آنکھ گر لگجائیگی
جہاں ویرانہ ہے پہلے کبھی آباد گھریاں تھے
مجھکو اپنی دلبربا کا دھیان بھی جو ہے سو ہے
کہاں مژگان ترسے ابردریا یار ہمسر ہے
دم ہجراں سے گر صورت بدلیجائے عجب کیا ہے
دل ہے کہتا اور کچھ تدبیر کہتی اور ہے
یہ نہیں ٹپکے میاں ہردوایروتنگ ہے
غریز دگور میں کیا دل کا داغ چلتا ہے
دیدۂ تر جوش گریہ سے جو اک دریا ساہے
مہر خط پر اور ہے قاصار نشانی اور ہے
کچھ عجب آفت کا دوآسماں میں پیچ ہے
اس عداوت کیش کو مجھسے عداوت ہے سوہے
غیر کرسکتا ہے گو مجھ سے عداوت کیا ہے
گرم آرائیش جو اپنا اور جانا نہ رہے
مصور نے ہمیں کیا جانے دی تصویر کسکی ہے
ہو سمندوقت ہے وہ پیشوا کی وقت ہے
عجب اشک آنکھ سے کچھ زیر مژگاں تیز بہتا ہے
پھرتی آنکھوں میں جو اس زلف دوتاکی شکل ہے
وہ دل کیا ہے کہ جو تیرے غم الفت سے خالی ہے
یہ عمر ہمنے بسر سب شرابمیں کی ہے
ہے جبکہ خلق سوچ کے تدبیر بولتی
نہ مال سے نے رزسے نہ تدبیر سے چمکے
غرور حسن سے گردہ جلال میں آوے
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.