سرورق
پیش لفظ
فہرست
مقدمہ
ریف الف
جینا نظر اپنا ہمیں اصلا نہیں آتا
ہوا حمد خدا میں دل جو مصروف رقم میرا
ہوتو عاشق سونچ کر اس دشمن ایمان کا
لکھیے اسے خط میں کہ ستم اٹھ نہیں سکتا
ہر اک سے ہے قول آشنائی کا جھوٹا
میں ہجر میں مرنے کے قریں ہو ہی چکا تھا
محفل میں شور قلقل مینائے مل ہوا
حذر ہے خون سے اس پائمال کے کیسا
شکر پردے ہی میں اس بت کو حیا نے رکھا
لبوں پر جاں عبث ہے منتظر وہ شوخ کب آیا
نالہ ہے اس سے بیاں درد جدائی کرتا
ہم ہیں اور سایہ ترے کوچے کی دیواروں کا
اس طپش کا ہے مزہ دل ہی کو حاصل ہوتا
اس سے تو اور آگ وہ بے درد ہو گیا
ہنگامہ گرم ہستی ناپائیدار کا
نشہ دولت کا بد اطوار کو جس آن چڑھا
کہے ہے خنجر قاتل سے یہ گلو میرا
یاں تک عدو زمانہ ہے مرد دلیر کا
طلسم طرفہ تر آنسو نے میرے مرد ماں باندھا
وہ کون ہے جو مجھ پہ تاسف نہیں کرتا
نہ ہوا آب شہادت سے گلو تر نہ ہوا
بعد مردن بھی خیال چشم فتاں ہی رہا
دریاے اشک چشم سے جس آن بہ گیا
نالہ اس شور سے کیوں میرا دہائی دیتا
نالہ جب دل سے چلا سینے میں پھورا اٹکا
گل اس نگہ کے زخم رسیدوں میں مل گیا
ہے قفس سے شور اک گلشن تلک فریاد کا
میں کہاں سنگ دریا سے ٹل جاؤں گا
اسے ہم نے بہت ڈھونڈا نہ پایا
پانی طبیب دے ہے ہمیں کیا بجھا ہوا
پہنچا آب تیغ قاتل تابہ سر اچھا ہوا
غضب ہے آہ سینے میں بھڑکتا آتش غم کا
نیمچہ یار نے جس وقت بغل میں مارا
اتارا تن سے سر تو اس شامت کے مارے کا
شوق نظارہ ہے جب سے اس رخ پرنور کا
تجھ کو یوسف سے کیا حسن میں بہتر پیدا
نام یوں پستی میں بالا تر ہمارا ہو گیا
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
جو نہ رنگ رنج وماتم کا یہاں نمود ہوتا
کسی بے کس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا
نہ کرتا ضبط میں نالہ تو پھر ایسا دھواں ہوتا
آنکھیں مری تلووں سے وہ مل جائے تو اچھا
نیمچہ جو مول وہ بانکا جواں لینے لگا
سرمہ ہے سفاک شہرہ ہے نگاہ یار کا
ہر گام پر رکھے ہے وہ یہ ہوش نقش پا
ترے ہاتھوں کوئی آوارا اے گردوں نہ ٹھہرے گا
طلب حق میں اگر باد یہ پیما ہوتا
جلوۂ یار لب بام جو دیکھا ہوتا
کس بت شعلہ رو سے آج وعدۂ ہم کنار تھا
ساتھ آہ کے دل بھی مع پیکاں نکل آیا
پھر خیال ہجر جاناں گرد دل رہنے لگا
آدم دوبارہ سوئے بہشت بریں گیا
یہ جس کے ناوک مژگاں کا دل نشانہ ہوا
رشک خورشید ہے سیب ذقن سرخ ترا
پہلو سے جب ہوا وہ بت ناز میں جدا
نہ میں ہی دکھ کے چشم پری دوانہ ہوا
مرے سینے سے تیرا تیر جب اے جنگجو نکلا
جدا ہوں یار سے ہم اور نہ وہ رقیب جدا
جنت ہے زندگی میں زمانہ شباب کا
بزم بتاں میں پاؤں مرا جب دخیل تھا
کوئی اس بزم میں سونس ہے نہ دمساز اپنا
نغمۂ بلبل میں گر پیدا اثر ہو جائے گا
جب نیم جاں ہوں کوچہ قاتل میں لوٹتا
نشانی کچھ دکھائی دے تو بتلاؤں یہاں ٹوٹا
ابیات
ردیف ب
پی بھی جا ذوق نہ کر پیش وپس جام شراب
برسوں ہو ہجر وصل ہو گر ایک دم نصیب
دل عبادت سے چرانا اور جنت کی طلب
معلوم جو ہوتا ہمیں انجام محبت
ردیف ت
مجنوں نے دی لگا جو سرخار زار پشت
مطلعے
ہے وہ آزار محبت سے دل زار کو رنج
فرقت کی رات جی چکے ہم تاز مان صبح
ردیف چ
اس پری کو تو نہ لے حیف اے دل بیتاب کھینچ
ردیف ح
ردیف د
کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد
ٹھہری ہے ان کے آنے کی یاں کل پہ جا صلاح
ہول دل کا مجھے دویار نہ لا کر تعویذ
مطلع، بیت ، ردیف ذ
مژدۂ قتل ہے اس عہد شکن کا کاغذ
ہے تیرا بوسۂ لب ورخ اس قدر لذیذ
نگہ نہیں حرد دل نشیں تھا دہن کی تنگی سے تنگ ہو کر
ردیف ر
خوب روئے آج ہم سنسان ہاموں دیکھ کر
کہا پتنگ نے یوں دار شمع پر چڑھ کر
جاں ہوا یوں ہوئی اس خالی کا بوسہ لے کر
کل گئے تھے تم جسے بیمار ہجراں چھوڑ کر
جب چلا وہ مجھ کو بسمل کوں میں غلطاں چھوڑ کر
بلبل ہوں صحن باغ سےے دور اور شکستہ پر
ابیات
مطلعے
ردیف س
کون سا ہمدم ہے تیرے عاشق بے دم کے پاس
تیر وکماں ہیں اس بت ناوک فگن کے پاس
مطلعے ، ردیف ص
سب مذاہب میں یہی ہے نہیں اسلام میں خاص
ردیف ض
نہ اس سے امن میں ایماں نہ دیں رہا محفوظ
ردیف ظ
پر کترنے کو جو صیاد نے چاہی مقراض
بولتا کیوں ہم سے ہے اے دشمن جانی دروغ
داغ دل سمجھا کیے ہم اپنا رشک روے باغ
ردیف ع ، غ
ہمدم وہ مجھ سے خوب نہیں خوب رو ہے صاف
ردیف ق
پھر خواب میں آتی ہے نظر صورت معشوق
ردیف ف
شمع ساں آہ نہیں میری شرر بار فراق
لوگ کس طرح نہ جانیں مجھے نخچیر فراق
ردیف ک
جوکھل کر ان کا جورا بال آئیں سر سے پاؤں تک
مطلعے ؍، ردیف ل
پھنسا ہے حلقہ گیسوے تاب دار میں دل
از سے یوں دل عاشق ہے نور کی قندیل
دیوانہ ہوں تیرا مجھے کیا کام کہ لوں گل
ردیف م
پابند جوں دخاں ہیں پریشانیوں میں ہم
بل بے اے آتش غم دل کو کرے یہ تو گرم
شمع نازاں نہ ہو اک رات بہا آنسو گرم
ہے چشم تیری مست قدح گیر باغ حسن
ردیف ن
گر ترانور نہیں چشم میں کیا ہے اس میں
عنقا کی طرح خلق سے عزلت گزیں ہوں میں
وقت پیری شباب کی باتیں
ہفتا دو دو فریق حسد کےعدو سے ہیں
بلائیں آنکھوں سے ان کی مدام لیتے ہیں
اس گلستان جہاں میں کیا گل عشرت نہیں
گزرتی عمر ہے یوں دور آسمانی میں
گہر کو جوہری صراف زر کو دیکھتے ہیں
دود دل سے ہے یہ تاریکی مرے غم خانے میں
کرے وحشت بیاں چشم سخن گو اس کو کہتے ہیں
ہے جی میں اپنے غرہ جو ہر کر توڑ دوں
ہیں دہن غنچوں کے واکیا جانے کیا کہنے کو ہیں
ہاں تامل دم ناوک فگنی خوب نہیں
بے یار روز عید شب غم سے کم نہیں
گئیں یاروں سے وہ اگلی ملاقاتوں کی سب رسمیں
مے ملا کر ساقیان سامری فن آب میں
قصد جب تیری زیارت کا کبھو کرتے ہیں
غم نامہ اپنا صفحۂ محشر سے کم نہیں
یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
جیفہ سمجھ کے رکھتا جو دنیا سے ننگ ہوں
تیرے آفت زدہ جن دشتوں میں اڑ جاتے ہیں
ہیں بتاں محو خود نمائی میں
نہ چھوڑا تار وحشت نے ہمارے حبیب وداماں میں
سینے سے جو میں آہ دل تنگ نکالوں
تو کہے غنچہ ککہ اس لب پہ دھڑی خوب نہیں
واقف ہیں ہم کہ حضرت دل ایسے شخص ہیں
ابیات
قطعہ
ابیات ؍مطلعے
دانہ خرمن ہے ہمیں قطرہ ہے دریا ہم کو
ردیف واؤ
آسماں اور وہ انسان بناتا ہم کو
موت ہی سےے کچھ علاج درد فرقت ہو تو ہو
رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تمنا نہیں ہے کہ امداد دل کو تپش کا صلہ ہو کہ مزد قلق ہو
جس ہاتھ میں خاتم لعل کی ہے گر اس میں زلف سرکش ہو
صفا میں تیرے رخ سے آئینہ کیا خاک ہمسر ہو
سرد مہری سے تری گر خون دل یک بستہ ہو
چرخ ضدی ہے کوئی ضد نہ دلاوے اس کو
عبث تم اپنا رکاوٹ سے منہ بناتے ہو
سگ دنیا پس ازمردن بھی دامن گیر دنیا ہو
یہاں تک لاغری ہے اس ترے بیمار کے تن کو
دن کٹا جایئے اب رات کدھر کاٹنے کو
منزل گم گشتگاں بالکل الگ دنیا سے ہو
عزیزو اس کو نہ گھڑیاں کی صدا سمجھو
تصور کس طرح بھولے ترا س چشم گریاں کو
کوسوں کیا تنگی زمانے کو
ابیات ؍مطلعے
مرتے ہیں ترے پیار سے ہم اور زیادہ
ردیف ہ
اے ذوق وقت نالے کے رکھ لے جگرپہ ہاتھ
کیا کیا مصیبتیں ہیں دل پر محن کے ساتھ
جنوں کے جیب دری پر ہیں خوب چلتے ہاتھ
مطلعے
ہیں ترے رشک خط رخسار سے
ردیف یے
کوئی ان تنگ دہانوں سے محبت نہ کرے
پاک رکھ اپنی زباں ذکر خدا ے پاک سے
لیتے ہی دل جو عاشق دل سوز کا چلے
کون وقت اے واے گزرا جی کو گھبراتے ہوئے
الگ ہوتا نہ کھینچ کھینچ کر مرا ہرتار دامن سے
نہیں ثبات بلندی عزوشان کے لئے
مزے جو موت کے عاشق بیاں کبھو کرتے
ساقیا عید ہے لا بادہ سے مینا بھر کے
ہوں یہ لاغر جھک کے قامت ایک خس کے بوجھ سے
کرے ہے کام تیغ یار کس کس آب داری سے
یار ہنسنے حال پر ہم دل فگاروں کے لگے
کہاں تلک کہوں ساقی کہ لاشراب تو دے
ارائی طرز نالے کی جو اک دم تیرے محزوں سے
باغ عالم میں جہاں نخل حنا لگتا ہے
نگہ کا وار تھا دل پر پھڑ کنے جان لگی
اس سنگ آستاں پہ جبیں نیاز ہے
وہ ہوں میں پر معاصی سوختہ سوز ندامت سے
ہوں ہم وہ ایک جاسو کہاں ہائے جائے ہے
جاں غش لب جاں بخش پر دل غش خط مشکیں پہ ہے
زاہد کو اگر صدق وصفا بھی ہے تو کیا ہے
لب وہ گزرتے ہیں سرلاف وگزاف سے
الٰہی کس بے گنہ کو مارا سمجھ کے قاتل نے کشتنی ہے
کیا غرض لاکھ خدائی میں ہوں دولت والے
رخصت اے زنداں جنوں زنجیر در کھڑ کائے ہے
فلک تو ٹیڑھ ہی کی صبح سے تاشام چلتا ہے
جو دل قمار خانے میں بت سے لگا چکے
ہردم دل خوں گشتہ میں اک جوش فزوں ہے
ہوئے کیوں اس پہ عاشق ہم ابھی سے
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
خوب روکا شکایتوں سے مجھے
لیا ایمان ودل تو ے اگرچہ اک زمانے سے
دشنام ہو کے وہ ترش ابرو ہزار دے
مجھ سے کچھ پوچھو نہ خوں نابۂ حسرت کے مزے
حالت نشے میں دیکھنا اس بے حجاب کی
کیا مد نظر تم کو ہے یاروں سے تو کہیے
یہ اقامت ہمیں پیغام سفر دیتی ہے
ناقص کا صفا کیش سے مطلب نہ بر آوے
دل بچے کیوں کر نگاہ دل بران شنگ سے
قفل صد خانۂ دل آیا جو تو ٹوت گئے
کس کے موشانے میں اے دست ہوس ٹوٹ گئے
اب تو گبھرا کے یہ کہتےہیں کہ مر جائیں گے
غنچے تری غنچہ دہنی کو نہیں پاتے
نہ ہوں گے ہم قائل قیامت جو تیرا قیامت نہ دیکھ لیں گےے
نہیں مژگان پرخوں خار غم تھے دل نشیں نکلے
آتے ہی تم نے گھر کے پھر جانے کی سنائی
دل کی معاش غم اسے غم کی تلاش ہے
ہے کان اس کے زلف معننبر لگی ہوئی
خط بڑھا کاکل بڑھے زلفیں بڑھیں گیسو بڑھے
جو کچھ کہ ہے دنیا میں وہ انساں کے لیے ہے
آتا نہیں مہ طلعت کیا دیر لگائی ہے
کوئی کمر کو تری کچھ جو ہو کمرتو کہے
پوچھ مت راہ محبت نظر پرفن سے
یاں کے آنے کا مقرر قاصدا وہ د ن کرے
ہم ہیں اور شغل عشق بازی ہے
چپکے چپکے غم کا کھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
کیا غمزہ ترابرسر بیداد غضب ہے
ہمارا ہوش دیکھ اس آنکھ کا یوں ڈورا اڑ جائے
آنکھ اس پر جفا سے لڑتی ہے
زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سے
سنگ دل بن ترے ہم شاد تو کیا پتھر تھے
دکھائی زخم نئے تیغ زن نہیں دیتے
جودنی ہیں وہ تونگر تھے تو کیا پتھر تھے
یہی گر تری چشم سحر آفریں ہے
بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے سہی
ہنگام بوسہ گرم جو وہ اک ذری ہوئے
ترے کوچے کو وہ بیمار غم دارالشفا سمجھے
زخم دل پر کیوں مرے مرہم کا استعمال ہے
کب حق پرست زاہد جنت پرست ہے
موے سر ماران سیہ کا ایک سراسر لشکر ہے
میری خاکستری اڑی اس سے یہ گردوں سب بنے
اک صدمہ درد دل سے مری جان پر تو ہے
سب کو دنیا کی ہوس خوار لیے پھرتی ہے
مہ میں کہاں جو تاب رخ سیم تن میں ہے
کہتے ہیں لوگ سب کہ نہیں پاؤں جھوٹ کے
زباں پیدا کروں جوں آسیا سینے میں پیکاں سے
تیر اس نگہ کا گردل مضطر میں گھر کرے
ہم اول ہی سے خود کو نابود سمجھے
نبض نملی ہے کہاں میری فلاطوں چلتی
خیال دل میں برے نہ لاؤ ہمارے دل میں تمہارا گھر ہے
اس نے مارا رخ روشن کی دکھا تاب مجھے
کیا وہ دنیاجس میں ہو کوشش نہ دیں کے واسطے
فعل جب شکل مہ نو ترے تو سن کر لگے
اشعار غزل
ابیات
قطعات
رباعیات
اشعار مثنوی
واہ وا کیا معتدل ہے باغ عالم میں ہوا
قصائد
مطلع
آج ہے وہ روز عشرت آج وہ دن عید کا
پیری میں پر ضرور ہے جام شراب ناب
شاہا تو وہ ہے نور مجسم کہ آفتاب
اے خدیو داد گرنامی ببر فرخ صفت
شب کو میں اپنے سر بستر خواب راحت
مطلع ثانی
مطلع ثالث
مطلع رابع
خسرو سن کے ترا مژدہ جشن نوروز
اس قد کو کیوں کہ کہیے نہال چمن کی شاخ
غوطہ دریا ے سخن میں لگانا بہتر
ہیں مرے آبلۂ دل کے تماشا گوہر
مطلع ثانی
زہے نشاط اگر کیجیے اسے تحریر
مطلع ثانی
حیات بخش جہاں تیرا مژدۂ صحت
شکست دل کو ترے یمن تندرستی سے
مطلع ثالث
ہے وہ مے داروے جاں نافع اعضا وحواس
مطلع ثانی
شاہا ترے حضور میں خواہان صد شریف
ایک خورشید لقا طرفہ جوان ارشق
مطلع ثانی ؍ مطلع ثالث
قطعہ
ہے آج جو یوں خوش نما نور سحر رنگ شفق
مطلع ثانی
طرب افزا ہے وہ نوروز کا نارنجی رنگ
حبذا ساقی فرخ رخ وخورشید جمال
مطلع ثانی
قطعہ
لاتا نیرنگ سے ہے رنگ نئے چرخ محیل
مطلع ثانی
مطلع ثانی
قطعہ
مانع سیر گلستاں ہیں قفس کی تیلیاں
ہوں حمایت میں اگر اس دادرس کی تیلیاں
قطعہ
پائے نہ ایسا ایک بھی دن خوشتر آسماں
قطعہ
مطلع ثانی
وہ ابر درفشاں ہے چمن میں کمال کے
ساون میں دیا پھر مہ شوال دکھائی
مدس دعائیہ
یوں کرسی زر پر ہے تری جلوہ نمائی
شاہا جمال وحسن کے تیرے کہوں میں وصف کیا
مخمس
در پر ترے جھکا کے شہا سر ہلال عید
خسروا چڑھ کے سر کنبد دوار ہلال
اے جواں بخت مبارک تجھے سر پر سہرا
میرزا شاہ رخ بہادر نے
قطعہ در مدح میرزا شاہ رخ بہادر
رباعیات مدح
مطلع ؍ قطعہ ؍ اشعار قصیدہ
اشعار قصیدۂ ناتمام
ابیات قصیدہ
قصیدۂ ناتمام در منقبت
اشعار قصیدۂ ہفت دہ زبان
حصہ دوم ؍ ابیات ، غزلیات وقصائد بہ روایت آزاد
رہے نام محمد لب پہ یارب اول وآخر
ردیف الف
مری خواری کے رتبے کا کمال اوج تو دیکھو
ابیات
کہتا وحشت سے یہ ہے جامۂ پیری میرا
ان سے کچھ وصل کا ذکر اب نہیں لانا اچھا
جل اٹھا شمع نمط تار رگ جاں میرا
رکھتے تھے جو کشور کسری وقیصر زیر پا
دشمن جاں یک بہ یک سارا زمانہ ہو گیا
برنگ گل صبا سے کب کھلا دل گیر دل میرا
کوہ کے چشموں سے اشکوں کو نکلتے دیکھا
چاہے عالم میں فروغ اپنا تو ہو گھر سے جدا
لعل لب ودندان صنم کا دل نے جب سے خیال کیا
لخت دل اور اشک تر دونوں بہم دونوں جدا
رکھ دل جلوں کی خاک پہ تو بافراغ پا
ہجر میں کیا کیا مرض ہے سنگ دل پیدا ہوا
جو باز آسماں وزمیں سے نہ اٹھ سکا
اگر رقصاں نہ سر اپنا سنان یار پر دیکھا
ردیف ج
سخت جانی سے ہوں لاچار وگرنہ مجھ سے
ابرو پہ اس کے خال ہے کیا زاغ شوخ چشم
ردیف ر
خدنگ دنبالہ کھایا لیکن نہ لایا شکوہ کبھی زبان پر
دل سینے میں کہاں ہے نہ تو دیکھ بھال کر
ابیات
ردیف س
ردیف گ
ردیف م
بیبی وعارض و ابرو سے ہیں شاخ وگل و برگ
سرد مہری کا تری ہو جو خشک دل کشتہ
ہے جو قسمت میں تو دریا بھی کبھی ہو جائے گا
ردیف ن
سلام کرتے ہیں ان کو جدھر کو دیکھتے ہیں
اشعار غزل وقصیدہ
ہم سے ظاہر وپنہاں جو اس غارت گر کے جھگڑے ہیں
آفت جاں دل کو ہیں تن کے قفس کی تیلیاں
کہہ دے شبنم سے نہ بھر سیماب گل کے کان میں
شام ہی سے دل بے تاب کا ہے ذوق یہ حال
ردیف و
پتھرا دیا جلوے نے ترے چشم صنم کو
ہاتھ سینے پہ مرے رکھ کے کدھر دیکھتے ہو
لگا کے سرمہ تم آنسو نہیں بہاتے ہو
جو کہوے قد یار کی تصویر دکھا دو
دم ذبح تیغ جفا میں جب تری بہتا آب حیات ہو
خدا نے میرے دیا دینہ لازار مجھے
ردیف ی
مرض عشق جسےہو اسے کیا یاد رہے
چشم قاتل ہمیں کیوں کر نہ بھلایاد رہے
تدبیر نہ کر فائدہ تدبیر میں کیا ہے
پری تو کیا ستم کر پیش تر ایسے نہ ہوتے تھے؟
نہ کھینچو عاشق تشنہ جگر کے تیر پہلو سے
برق میرا آشیاں کب کا جلا کرلے گئی
حد رقم سے وصف جبیں ہے صنم پرے
ذکر مژگاں تیرا جس کے روبزوں نکلا کرے
خم ابرو ترا جب یار نظر آتا ہے
دکھلا نہ خال ناف تو اے گلبدن مجھے
مار کر تیر جو وہ دل پر جانی مانگے
ابیات
جن دلوں نے ہے کیا چور مرا شیشۂ دل
ابیات
اشعار غزل
نسخہ
قطعات
رباعی
سحر جو گھر میں بہ شکل آئینہ تھا میں بیٹھا نزار وحیراں
قصائد
مطلع
صبح سعادت نور ارادت تن بن ریاضت دل بہ تمنا
خضر نصیب کی گر دنیا میںن رہبری ہو
پابوس نقش پا سے تیرے جو کھنکری ہو
شاہا نظر کرم کی جس ذرے پر ذری ہو
تازباں زد دہر میں ہو فلسفی کا یہ کلام
صبح دم فکر جو تھا سیر فلک کا مشتاق
قلم جو صفحۂ کاغذ پہ ہووے نگتہ نگار
افق دل پہ مرے عیش وطرب دونوں بہم
دل کہ اس دہر میں ہے گرسنۂ ناز بتاں
گرد میں چشم مست کی ہو دل مرا گرہ
مہ طلعتوں میں حسن سے کی تو نے واگرہ
قطعات تاریخ تعمیر چاہ معمرۂ محمد شاہ سہارنپوری
قطعات وابیات
حواشی حصہ اول
حواشی حصہ دوم
سرورق
پیش لفظ
فہرست
مقدمہ
ریف الف
جینا نظر اپنا ہمیں اصلا نہیں آتا
ہوا حمد خدا میں دل جو مصروف رقم میرا
ہوتو عاشق سونچ کر اس دشمن ایمان کا
لکھیے اسے خط میں کہ ستم اٹھ نہیں سکتا
ہر اک سے ہے قول آشنائی کا جھوٹا
میں ہجر میں مرنے کے قریں ہو ہی چکا تھا
محفل میں شور قلقل مینائے مل ہوا
حذر ہے خون سے اس پائمال کے کیسا
شکر پردے ہی میں اس بت کو حیا نے رکھا
لبوں پر جاں عبث ہے منتظر وہ شوخ کب آیا
نالہ ہے اس سے بیاں درد جدائی کرتا
ہم ہیں اور سایہ ترے کوچے کی دیواروں کا
اس طپش کا ہے مزہ دل ہی کو حاصل ہوتا
اس سے تو اور آگ وہ بے درد ہو گیا
ہنگامہ گرم ہستی ناپائیدار کا
نشہ دولت کا بد اطوار کو جس آن چڑھا
کہے ہے خنجر قاتل سے یہ گلو میرا
یاں تک عدو زمانہ ہے مرد دلیر کا
طلسم طرفہ تر آنسو نے میرے مرد ماں باندھا
وہ کون ہے جو مجھ پہ تاسف نہیں کرتا
نہ ہوا آب شہادت سے گلو تر نہ ہوا
بعد مردن بھی خیال چشم فتاں ہی رہا
دریاے اشک چشم سے جس آن بہ گیا
نالہ اس شور سے کیوں میرا دہائی دیتا
نالہ جب دل سے چلا سینے میں پھورا اٹکا
گل اس نگہ کے زخم رسیدوں میں مل گیا
ہے قفس سے شور اک گلشن تلک فریاد کا
میں کہاں سنگ دریا سے ٹل جاؤں گا
اسے ہم نے بہت ڈھونڈا نہ پایا
پانی طبیب دے ہے ہمیں کیا بجھا ہوا
پہنچا آب تیغ قاتل تابہ سر اچھا ہوا
غضب ہے آہ سینے میں بھڑکتا آتش غم کا
نیمچہ یار نے جس وقت بغل میں مارا
اتارا تن سے سر تو اس شامت کے مارے کا
شوق نظارہ ہے جب سے اس رخ پرنور کا
تجھ کو یوسف سے کیا حسن میں بہتر پیدا
نام یوں پستی میں بالا تر ہمارا ہو گیا
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
جو نہ رنگ رنج وماتم کا یہاں نمود ہوتا
کسی بے کس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا
نہ کرتا ضبط میں نالہ تو پھر ایسا دھواں ہوتا
آنکھیں مری تلووں سے وہ مل جائے تو اچھا
نیمچہ جو مول وہ بانکا جواں لینے لگا
سرمہ ہے سفاک شہرہ ہے نگاہ یار کا
ہر گام پر رکھے ہے وہ یہ ہوش نقش پا
ترے ہاتھوں کوئی آوارا اے گردوں نہ ٹھہرے گا
طلب حق میں اگر باد یہ پیما ہوتا
جلوۂ یار لب بام جو دیکھا ہوتا
کس بت شعلہ رو سے آج وعدۂ ہم کنار تھا
ساتھ آہ کے دل بھی مع پیکاں نکل آیا
پھر خیال ہجر جاناں گرد دل رہنے لگا
آدم دوبارہ سوئے بہشت بریں گیا
یہ جس کے ناوک مژگاں کا دل نشانہ ہوا
رشک خورشید ہے سیب ذقن سرخ ترا
پہلو سے جب ہوا وہ بت ناز میں جدا
نہ میں ہی دکھ کے چشم پری دوانہ ہوا
مرے سینے سے تیرا تیر جب اے جنگجو نکلا
جدا ہوں یار سے ہم اور نہ وہ رقیب جدا
جنت ہے زندگی میں زمانہ شباب کا
بزم بتاں میں پاؤں مرا جب دخیل تھا
کوئی اس بزم میں سونس ہے نہ دمساز اپنا
نغمۂ بلبل میں گر پیدا اثر ہو جائے گا
جب نیم جاں ہوں کوچہ قاتل میں لوٹتا
نشانی کچھ دکھائی دے تو بتلاؤں یہاں ٹوٹا
ابیات
ردیف ب
پی بھی جا ذوق نہ کر پیش وپس جام شراب
برسوں ہو ہجر وصل ہو گر ایک دم نصیب
دل عبادت سے چرانا اور جنت کی طلب
معلوم جو ہوتا ہمیں انجام محبت
ردیف ت
مجنوں نے دی لگا جو سرخار زار پشت
مطلعے
ہے وہ آزار محبت سے دل زار کو رنج
فرقت کی رات جی چکے ہم تاز مان صبح
ردیف چ
اس پری کو تو نہ لے حیف اے دل بیتاب کھینچ
ردیف ح
ردیف د
کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد
ٹھہری ہے ان کے آنے کی یاں کل پہ جا صلاح
ہول دل کا مجھے دویار نہ لا کر تعویذ
مطلع، بیت ، ردیف ذ
مژدۂ قتل ہے اس عہد شکن کا کاغذ
ہے تیرا بوسۂ لب ورخ اس قدر لذیذ
نگہ نہیں حرد دل نشیں تھا دہن کی تنگی سے تنگ ہو کر
ردیف ر
خوب روئے آج ہم سنسان ہاموں دیکھ کر
کہا پتنگ نے یوں دار شمع پر چڑھ کر
جاں ہوا یوں ہوئی اس خالی کا بوسہ لے کر
کل گئے تھے تم جسے بیمار ہجراں چھوڑ کر
جب چلا وہ مجھ کو بسمل کوں میں غلطاں چھوڑ کر
بلبل ہوں صحن باغ سےے دور اور شکستہ پر
ابیات
مطلعے
ردیف س
کون سا ہمدم ہے تیرے عاشق بے دم کے پاس
تیر وکماں ہیں اس بت ناوک فگن کے پاس
مطلعے ، ردیف ص
سب مذاہب میں یہی ہے نہیں اسلام میں خاص
ردیف ض
نہ اس سے امن میں ایماں نہ دیں رہا محفوظ
ردیف ظ
پر کترنے کو جو صیاد نے چاہی مقراض
بولتا کیوں ہم سے ہے اے دشمن جانی دروغ
داغ دل سمجھا کیے ہم اپنا رشک روے باغ
ردیف ع ، غ
ہمدم وہ مجھ سے خوب نہیں خوب رو ہے صاف
ردیف ق
پھر خواب میں آتی ہے نظر صورت معشوق
ردیف ف
شمع ساں آہ نہیں میری شرر بار فراق
لوگ کس طرح نہ جانیں مجھے نخچیر فراق
ردیف ک
جوکھل کر ان کا جورا بال آئیں سر سے پاؤں تک
مطلعے ؍، ردیف ل
پھنسا ہے حلقہ گیسوے تاب دار میں دل
از سے یوں دل عاشق ہے نور کی قندیل
دیوانہ ہوں تیرا مجھے کیا کام کہ لوں گل
ردیف م
پابند جوں دخاں ہیں پریشانیوں میں ہم
بل بے اے آتش غم دل کو کرے یہ تو گرم
شمع نازاں نہ ہو اک رات بہا آنسو گرم
ہے چشم تیری مست قدح گیر باغ حسن
ردیف ن
گر ترانور نہیں چشم میں کیا ہے اس میں
عنقا کی طرح خلق سے عزلت گزیں ہوں میں
وقت پیری شباب کی باتیں
ہفتا دو دو فریق حسد کےعدو سے ہیں
بلائیں آنکھوں سے ان کی مدام لیتے ہیں
اس گلستان جہاں میں کیا گل عشرت نہیں
گزرتی عمر ہے یوں دور آسمانی میں
گہر کو جوہری صراف زر کو دیکھتے ہیں
دود دل سے ہے یہ تاریکی مرے غم خانے میں
کرے وحشت بیاں چشم سخن گو اس کو کہتے ہیں
ہے جی میں اپنے غرہ جو ہر کر توڑ دوں
ہیں دہن غنچوں کے واکیا جانے کیا کہنے کو ہیں
ہاں تامل دم ناوک فگنی خوب نہیں
بے یار روز عید شب غم سے کم نہیں
گئیں یاروں سے وہ اگلی ملاقاتوں کی سب رسمیں
مے ملا کر ساقیان سامری فن آب میں
قصد جب تیری زیارت کا کبھو کرتے ہیں
غم نامہ اپنا صفحۂ محشر سے کم نہیں
یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
جیفہ سمجھ کے رکھتا جو دنیا سے ننگ ہوں
تیرے آفت زدہ جن دشتوں میں اڑ جاتے ہیں
ہیں بتاں محو خود نمائی میں
نہ چھوڑا تار وحشت نے ہمارے حبیب وداماں میں
سینے سے جو میں آہ دل تنگ نکالوں
تو کہے غنچہ ککہ اس لب پہ دھڑی خوب نہیں
واقف ہیں ہم کہ حضرت دل ایسے شخص ہیں
ابیات
قطعہ
ابیات ؍مطلعے
دانہ خرمن ہے ہمیں قطرہ ہے دریا ہم کو
ردیف واؤ
آسماں اور وہ انسان بناتا ہم کو
موت ہی سےے کچھ علاج درد فرقت ہو تو ہو
رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تمنا نہیں ہے کہ امداد دل کو تپش کا صلہ ہو کہ مزد قلق ہو
جس ہاتھ میں خاتم لعل کی ہے گر اس میں زلف سرکش ہو
صفا میں تیرے رخ سے آئینہ کیا خاک ہمسر ہو
سرد مہری سے تری گر خون دل یک بستہ ہو
چرخ ضدی ہے کوئی ضد نہ دلاوے اس کو
عبث تم اپنا رکاوٹ سے منہ بناتے ہو
سگ دنیا پس ازمردن بھی دامن گیر دنیا ہو
یہاں تک لاغری ہے اس ترے بیمار کے تن کو
دن کٹا جایئے اب رات کدھر کاٹنے کو
منزل گم گشتگاں بالکل الگ دنیا سے ہو
عزیزو اس کو نہ گھڑیاں کی صدا سمجھو
تصور کس طرح بھولے ترا س چشم گریاں کو
کوسوں کیا تنگی زمانے کو
ابیات ؍مطلعے
مرتے ہیں ترے پیار سے ہم اور زیادہ
ردیف ہ
اے ذوق وقت نالے کے رکھ لے جگرپہ ہاتھ
کیا کیا مصیبتیں ہیں دل پر محن کے ساتھ
جنوں کے جیب دری پر ہیں خوب چلتے ہاتھ
مطلعے
ہیں ترے رشک خط رخسار سے
ردیف یے
کوئی ان تنگ دہانوں سے محبت نہ کرے
پاک رکھ اپنی زباں ذکر خدا ے پاک سے
لیتے ہی دل جو عاشق دل سوز کا چلے
کون وقت اے واے گزرا جی کو گھبراتے ہوئے
الگ ہوتا نہ کھینچ کھینچ کر مرا ہرتار دامن سے
نہیں ثبات بلندی عزوشان کے لئے
مزے جو موت کے عاشق بیاں کبھو کرتے
ساقیا عید ہے لا بادہ سے مینا بھر کے
ہوں یہ لاغر جھک کے قامت ایک خس کے بوجھ سے
کرے ہے کام تیغ یار کس کس آب داری سے
یار ہنسنے حال پر ہم دل فگاروں کے لگے
کہاں تلک کہوں ساقی کہ لاشراب تو دے
ارائی طرز نالے کی جو اک دم تیرے محزوں سے
باغ عالم میں جہاں نخل حنا لگتا ہے
نگہ کا وار تھا دل پر پھڑ کنے جان لگی
اس سنگ آستاں پہ جبیں نیاز ہے
وہ ہوں میں پر معاصی سوختہ سوز ندامت سے
ہوں ہم وہ ایک جاسو کہاں ہائے جائے ہے
جاں غش لب جاں بخش پر دل غش خط مشکیں پہ ہے
زاہد کو اگر صدق وصفا بھی ہے تو کیا ہے
لب وہ گزرتے ہیں سرلاف وگزاف سے
الٰہی کس بے گنہ کو مارا سمجھ کے قاتل نے کشتنی ہے
کیا غرض لاکھ خدائی میں ہوں دولت والے
رخصت اے زنداں جنوں زنجیر در کھڑ کائے ہے
فلک تو ٹیڑھ ہی کی صبح سے تاشام چلتا ہے
جو دل قمار خانے میں بت سے لگا چکے
ہردم دل خوں گشتہ میں اک جوش فزوں ہے
ہوئے کیوں اس پہ عاشق ہم ابھی سے
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
خوب روکا شکایتوں سے مجھے
لیا ایمان ودل تو ے اگرچہ اک زمانے سے
دشنام ہو کے وہ ترش ابرو ہزار دے
مجھ سے کچھ پوچھو نہ خوں نابۂ حسرت کے مزے
حالت نشے میں دیکھنا اس بے حجاب کی
کیا مد نظر تم کو ہے یاروں سے تو کہیے
یہ اقامت ہمیں پیغام سفر دیتی ہے
ناقص کا صفا کیش سے مطلب نہ بر آوے
دل بچے کیوں کر نگاہ دل بران شنگ سے
قفل صد خانۂ دل آیا جو تو ٹوت گئے
کس کے موشانے میں اے دست ہوس ٹوٹ گئے
اب تو گبھرا کے یہ کہتےہیں کہ مر جائیں گے
غنچے تری غنچہ دہنی کو نہیں پاتے
نہ ہوں گے ہم قائل قیامت جو تیرا قیامت نہ دیکھ لیں گےے
نہیں مژگان پرخوں خار غم تھے دل نشیں نکلے
آتے ہی تم نے گھر کے پھر جانے کی سنائی
دل کی معاش غم اسے غم کی تلاش ہے
ہے کان اس کے زلف معننبر لگی ہوئی
خط بڑھا کاکل بڑھے زلفیں بڑھیں گیسو بڑھے
جو کچھ کہ ہے دنیا میں وہ انساں کے لیے ہے
آتا نہیں مہ طلعت کیا دیر لگائی ہے
کوئی کمر کو تری کچھ جو ہو کمرتو کہے
پوچھ مت راہ محبت نظر پرفن سے
یاں کے آنے کا مقرر قاصدا وہ د ن کرے
ہم ہیں اور شغل عشق بازی ہے
چپکے چپکے غم کا کھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
کیا غمزہ ترابرسر بیداد غضب ہے
ہمارا ہوش دیکھ اس آنکھ کا یوں ڈورا اڑ جائے
آنکھ اس پر جفا سے لڑتی ہے
زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سے
سنگ دل بن ترے ہم شاد تو کیا پتھر تھے
دکھائی زخم نئے تیغ زن نہیں دیتے
جودنی ہیں وہ تونگر تھے تو کیا پتھر تھے
یہی گر تری چشم سحر آفریں ہے
بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے سہی
ہنگام بوسہ گرم جو وہ اک ذری ہوئے
ترے کوچے کو وہ بیمار غم دارالشفا سمجھے
زخم دل پر کیوں مرے مرہم کا استعمال ہے
کب حق پرست زاہد جنت پرست ہے
موے سر ماران سیہ کا ایک سراسر لشکر ہے
میری خاکستری اڑی اس سے یہ گردوں سب بنے
اک صدمہ درد دل سے مری جان پر تو ہے
سب کو دنیا کی ہوس خوار لیے پھرتی ہے
مہ میں کہاں جو تاب رخ سیم تن میں ہے
کہتے ہیں لوگ سب کہ نہیں پاؤں جھوٹ کے
زباں پیدا کروں جوں آسیا سینے میں پیکاں سے
تیر اس نگہ کا گردل مضطر میں گھر کرے
ہم اول ہی سے خود کو نابود سمجھے
نبض نملی ہے کہاں میری فلاطوں چلتی
خیال دل میں برے نہ لاؤ ہمارے دل میں تمہارا گھر ہے
اس نے مارا رخ روشن کی دکھا تاب مجھے
کیا وہ دنیاجس میں ہو کوشش نہ دیں کے واسطے
فعل جب شکل مہ نو ترے تو سن کر لگے
اشعار غزل
ابیات
قطعات
رباعیات
اشعار مثنوی
واہ وا کیا معتدل ہے باغ عالم میں ہوا
قصائد
مطلع
آج ہے وہ روز عشرت آج وہ دن عید کا
پیری میں پر ضرور ہے جام شراب ناب
شاہا تو وہ ہے نور مجسم کہ آفتاب
اے خدیو داد گرنامی ببر فرخ صفت
شب کو میں اپنے سر بستر خواب راحت
مطلع ثانی
مطلع ثالث
مطلع رابع
خسرو سن کے ترا مژدہ جشن نوروز
اس قد کو کیوں کہ کہیے نہال چمن کی شاخ
غوطہ دریا ے سخن میں لگانا بہتر
ہیں مرے آبلۂ دل کے تماشا گوہر
مطلع ثانی
زہے نشاط اگر کیجیے اسے تحریر
مطلع ثانی
حیات بخش جہاں تیرا مژدۂ صحت
شکست دل کو ترے یمن تندرستی سے
مطلع ثالث
ہے وہ مے داروے جاں نافع اعضا وحواس
مطلع ثانی
شاہا ترے حضور میں خواہان صد شریف
ایک خورشید لقا طرفہ جوان ارشق
مطلع ثانی ؍ مطلع ثالث
قطعہ
ہے آج جو یوں خوش نما نور سحر رنگ شفق
مطلع ثانی
طرب افزا ہے وہ نوروز کا نارنجی رنگ
حبذا ساقی فرخ رخ وخورشید جمال
مطلع ثانی
قطعہ
لاتا نیرنگ سے ہے رنگ نئے چرخ محیل
مطلع ثانی
مطلع ثانی
قطعہ
مانع سیر گلستاں ہیں قفس کی تیلیاں
ہوں حمایت میں اگر اس دادرس کی تیلیاں
قطعہ
پائے نہ ایسا ایک بھی دن خوشتر آسماں
قطعہ
مطلع ثانی
وہ ابر درفشاں ہے چمن میں کمال کے
ساون میں دیا پھر مہ شوال دکھائی
مدس دعائیہ
یوں کرسی زر پر ہے تری جلوہ نمائی
شاہا جمال وحسن کے تیرے کہوں میں وصف کیا
مخمس
در پر ترے جھکا کے شہا سر ہلال عید
خسروا چڑھ کے سر کنبد دوار ہلال
اے جواں بخت مبارک تجھے سر پر سہرا
میرزا شاہ رخ بہادر نے
قطعہ در مدح میرزا شاہ رخ بہادر
رباعیات مدح
مطلع ؍ قطعہ ؍ اشعار قصیدہ
اشعار قصیدۂ ناتمام
ابیات قصیدہ
قصیدۂ ناتمام در منقبت
اشعار قصیدۂ ہفت دہ زبان
حصہ دوم ؍ ابیات ، غزلیات وقصائد بہ روایت آزاد
رہے نام محمد لب پہ یارب اول وآخر
ردیف الف
مری خواری کے رتبے کا کمال اوج تو دیکھو
ابیات
کہتا وحشت سے یہ ہے جامۂ پیری میرا
ان سے کچھ وصل کا ذکر اب نہیں لانا اچھا
جل اٹھا شمع نمط تار رگ جاں میرا
رکھتے تھے جو کشور کسری وقیصر زیر پا
دشمن جاں یک بہ یک سارا زمانہ ہو گیا
برنگ گل صبا سے کب کھلا دل گیر دل میرا
کوہ کے چشموں سے اشکوں کو نکلتے دیکھا
چاہے عالم میں فروغ اپنا تو ہو گھر سے جدا
لعل لب ودندان صنم کا دل نے جب سے خیال کیا
لخت دل اور اشک تر دونوں بہم دونوں جدا
رکھ دل جلوں کی خاک پہ تو بافراغ پا
ہجر میں کیا کیا مرض ہے سنگ دل پیدا ہوا
جو باز آسماں وزمیں سے نہ اٹھ سکا
اگر رقصاں نہ سر اپنا سنان یار پر دیکھا
ردیف ج
سخت جانی سے ہوں لاچار وگرنہ مجھ سے
ابرو پہ اس کے خال ہے کیا زاغ شوخ چشم
ردیف ر
خدنگ دنبالہ کھایا لیکن نہ لایا شکوہ کبھی زبان پر
دل سینے میں کہاں ہے نہ تو دیکھ بھال کر
ابیات
ردیف س
ردیف گ
ردیف م
بیبی وعارض و ابرو سے ہیں شاخ وگل و برگ
سرد مہری کا تری ہو جو خشک دل کشتہ
ہے جو قسمت میں تو دریا بھی کبھی ہو جائے گا
ردیف ن
سلام کرتے ہیں ان کو جدھر کو دیکھتے ہیں
اشعار غزل وقصیدہ
ہم سے ظاہر وپنہاں جو اس غارت گر کے جھگڑے ہیں
آفت جاں دل کو ہیں تن کے قفس کی تیلیاں
کہہ دے شبنم سے نہ بھر سیماب گل کے کان میں
شام ہی سے دل بے تاب کا ہے ذوق یہ حال
ردیف و
پتھرا دیا جلوے نے ترے چشم صنم کو
ہاتھ سینے پہ مرے رکھ کے کدھر دیکھتے ہو
لگا کے سرمہ تم آنسو نہیں بہاتے ہو
جو کہوے قد یار کی تصویر دکھا دو
دم ذبح تیغ جفا میں جب تری بہتا آب حیات ہو
خدا نے میرے دیا دینہ لازار مجھے
ردیف ی
مرض عشق جسےہو اسے کیا یاد رہے
چشم قاتل ہمیں کیوں کر نہ بھلایاد رہے
تدبیر نہ کر فائدہ تدبیر میں کیا ہے
پری تو کیا ستم کر پیش تر ایسے نہ ہوتے تھے؟
نہ کھینچو عاشق تشنہ جگر کے تیر پہلو سے
برق میرا آشیاں کب کا جلا کرلے گئی
حد رقم سے وصف جبیں ہے صنم پرے
ذکر مژگاں تیرا جس کے روبزوں نکلا کرے
خم ابرو ترا جب یار نظر آتا ہے
دکھلا نہ خال ناف تو اے گلبدن مجھے
مار کر تیر جو وہ دل پر جانی مانگے
ابیات
جن دلوں نے ہے کیا چور مرا شیشۂ دل
ابیات
اشعار غزل
نسخہ
قطعات
رباعی
سحر جو گھر میں بہ شکل آئینہ تھا میں بیٹھا نزار وحیراں
قصائد
مطلع
صبح سعادت نور ارادت تن بن ریاضت دل بہ تمنا
خضر نصیب کی گر دنیا میںن رہبری ہو
پابوس نقش پا سے تیرے جو کھنکری ہو
شاہا نظر کرم کی جس ذرے پر ذری ہو
تازباں زد دہر میں ہو فلسفی کا یہ کلام
صبح دم فکر جو تھا سیر فلک کا مشتاق
قلم جو صفحۂ کاغذ پہ ہووے نگتہ نگار
افق دل پہ مرے عیش وطرب دونوں بہم
دل کہ اس دہر میں ہے گرسنۂ ناز بتاں
گرد میں چشم مست کی ہو دل مرا گرہ
مہ طلعتوں میں حسن سے کی تو نے واگرہ
قطعات تاریخ تعمیر چاہ معمرۂ محمد شاہ سہارنپوری
قطعات وابیات
حواشی حصہ اول
حواشی حصہ دوم
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.