سرورق
کھچتے ہی تیغ کے سر تسلیم جھک گیا
کہیں تیز ہوتا ہے خنجر کسی کا
کیا ہو گیا پہلو سے وہ مضطر نہیں ملتا
جفا پسندوں کو سنتے ہیں ناپسند ہوا
رہ گیا دل میں ولولہ دل کا
فیصلا کیا ہو جان بسمل کا
مر جاتے دم وصلت جاناں نہیں دیکھا
ذبح کرکے کیوں مرے سینہ پہ خنجر رکھ دیا
قیامت میں قیامت حشر میں محشر بپا ہوگا
کوچۂ یار ہی میں کیا نہیں جایا جاتا
ضبط کے ساتھ رہا میں متحمل کیا کیا
نہ ہوگا حشر محشر میں بپا کیا
کہتے ہیں دل بہ جبر لیا پھر کسی کو کیا
نہ ڈر خورشید محشر کا نہ اندیشہ ہو عصیاں کا
ہے جو منظور مرا وقف قضا ہو جانا
مجھ سا دنیا میں سیہ کا ربشر کیا ہوتا
جو یا بہشت کا تھا نہ خواہان حور تھا
ہمیشہ برق دشونپر نثار ہی رکھا
تیغ ابرو سے نہ جب تک سر اوتار جائیگا
تڑپا کرتا ہے دل ناشا کو کیا ہوگیا
ہمیں زندہ اگر آکر نہ تم پاتے تو کیا ہوتا
مری صورت تمہارا بھی دل آجاتا تو کیا ہوتا
آخر شب آئے اے رشک مہ انور تو کیا
تمہاری گالیاں سنکر نہ ٹل جاتا تو کیا ہوتا
روز وصلت نامرادی سے شب ہجراں ہوا
وہ جو آئے ناز سے یہاں دم روانہ ہو گیا
اک آپکی نگاہ سے کیا مہربان گرا
قضا جب آئی تو آب بقا سے کیا ہوگا
وعدہ وصل اے صنم ایفا کیا
ہو مجھے کیونکر کمان اس پر نہ بیت اللہ کا
کبھی خوشی رہی دل کو کبھی ملال رہا
آہ وفغاں کو نہ کچھ مال وہ ایدل سمجھا
نہ ہمدم ہے نہ مونس ہے نہ مشفق ہے نہ یار اپنا
کوہکن کوہ کو قیس اپنا بیاباں بھولا
صبحدم رخصت جو وہ رشک قمر ہونے لگا
عہد و پیمان عاشق صادق سے جب لینے لگا
وقت آرایش جو آئینہ مقابل ہو گیا
گل مراد کب اس گلشن جہاں سے ملا
تمہارے رخ پہ نہیں خط مشکفام آیا
غم فرقت ہمیں دم بھر گوارا ہو نہیں سکتا
حسن رخ تیرا جو اے زہرہ شمائل بڑھ گیا
دل مرا شیفتۂ خنجر خونخوار ہو اتپنہ سربار ہوا
پیری میں عجب رنگ ہے داغ جگری کا
مرے بھی رشتہ جانکو سمجھ اے خوبرو لوٹا
طبیعت جس کی ناقص ہو وہ کامل ہو نہیں سکتا
مزا درد کا مجھ کو حاصل نہ ہوتا
جب کہا غیر سے اور تم سے کہو کیا ٹھہرا
کافر عشق صنم ہے دل ناداں اپنا
کیا کہوں یار کہ ہے ایک فسانہ دل کا
بیمار محبت کو سنبھلتے نہیں دیکھا
نہیں بھولیگا مجھے ہاتھ سے جانا دل کا
چل پھر اسکی حلق پر تھی یا خرام ناز تھا
دم میں پری وشون کے نہ آتے تو خوب تھا
خیال میں ہے جو گھونگر کسی کے بالوں کا
آج اسے پھر سے پھر مرا دھیان او دل ناشاد آیا
دم لبوں پر مرے گھٹ کے نہ آیا کیا کیا
سر وہ پایا کہ کسی کا جسے زانو نہ ملا
اشعار متفرقات
ردیف التاء مثناۃ فوقانیہ
ہوئے سنکے جو خفا عاشق دلگیر کی بات
ہم کریں الفت گیسوی دوتا کیا مطلب
مرتبہ میں مہرتاباں سے کہیں دہ چند ہے
ردیف الباء
تاریکی میں نجائے مرا دم کہیں الٹ
غمزہ بے فائدہ تم کرتے ہو تکرار عبث
ردیف الثاء مثلثلہ
محو ہے یاد گل عارض میں جان زار آج
ردیف الجیم معجمہ
ردیف التاے فارسی
میں تڑپتا ہی رہا ہجر میں بسمل کیطرح
ردیف الخا
پھولی پھلی تو خوب ہے ہر اک شجر کی شاخ
ردیف الحاء مہملہ
عندلیبان چمن سے ہے گلستاں آباد
ردیف الدال
نہیں ہے دوسرا دنیا میں آپ سا شاہد
ردیف الراے مہملہ
ردیف الذال معجمہ
پڑھنے بیٹھا جو وہ رشک مہ کنعان کاغذ
نموئے سبزہ خط ہے گل رخسار جاناں پر
پھیرے سوبار بھی تلوار جو تو گردن پر
بسے ہو یار تم گلہاے گلشن میں جو بو ہو کر
کسی سے درد دل کہنا سمجھ کر
ہم اپنی جان واریں گے کسی کے روئے روشن پر
لب جاناں ہیں اگر لعل یمن سے بہتر
اٹھایا دل نے بار عشق جاناں پہلوان ہو کر
تم کو اللہ کہیں گے نہ خدا دان ہو کر
کیا ملا قیس کو گر درہ صحرا ہو کر
رنگ وہ گردش قسمت کے بدلتے کیونکر
قاتل اپنا ہنس رہا ہے رقص بسمل دیکھ کر
تڑپی ہی نہ برق آکے کبھی دل کے برابر
ردیف السین مہملہ
عارض روشن ہے یوں زلف بت پر فن کے پاس
اشعار متفرقات
ردیف الزاء معجمہ
ردیف لام
ردیف کاف
جاں نثار آپ پہ ہوتا ہے نثار ایک نہ ایک
ردیف الشین معجمہ
کیوں ہو نہ گر کے کاسۂ تدبیر پاش پاش
کیا سیر ہو جو آپکا بھی مجھ پر آئے دل
ردیف میم
پھریں گے اب قول سے نہ اپنے نہ عشق سے منہ پھیراینگے ہم
لاغر ہوئے یہ عشق کمر اثر سے ہم
اشعار متفرقات
عادت جوروجفا ہے جیسے اس بے پیر میں
ردیف نون
پیچ دے زلف عنبریں نہ کہیں
کریں جفائیں نہ ہم پہ کیونکر ہمیں وہ خوب آزما چکے ہیں
خود سر یہ بلا لایا میں کیا اسے کہتے ہیں
پلۂ آفت کا تری تیر نظر کرتے ہیں
منہ سرخ ہے نشان غضب پائے جاتے ہیں
کچھ عیاں حشر کے آثار ہوئے ہیں کہ نہیں
جو کچھ تاثیر باقی تھی دعا میں
طلسم فکر سے جادو دم تقریر کرتے ہیں
خود بخود آئے ہو یا آئے بت بے پیر نہیں
بتائیں کیا تمہیں کیا دل کو اے دلبر سمجھتے ہیں
حسین ایسا نظر آیا نکوئی ہم کو دنیا میں
فنا ہو کر جو سر گرداں عالم خاک ہوتے ہیں
خفا نہ ہوجئے گا صاف آج کہتے ہیں
رہ الفت میں آوارہ رہا ہوں میں حزیں برسوں
ہم دم صبح کہیں ہیں تو سر شام کہیں
کسی کے گیسوے پیچاں سلاسل ہونے والے ہیں
جو کہتا ہوں کہ آپ اےماہ کس منزل میں رہتے ہیں
چال تو کرتے ہیں پر انداز اڑا سکتے نہیں
ضبط کا نام تنکظرف ڈبو دیتے ہیں
دہن گور سے ان کو یہ صدا دیتے ہیں
کیا قیامت ہے کہ دن ہجر کا ڈھلتا ہی نہیں
ماجراے شب ہجر آپ میں آلوں تو کہوں
صحبت یار مبارک ہو مخل جاتے ہیں
مریض نرگس فتان یار ہم بھی ہیں
کرم میں حسن میں صورت میں سیرت میں صفائی میں
زبان شوق سے جب تیرا نام لیتے ہیں
محبت آپ کی یا وصل کا ارمان رکھتے ہیں
دنیاے بے ثبات میں اہل ولا ہوں میں
کیا فکر ہو سکے جو ہو دل اضطرار میں
کس شعر میں ثنائے رخ مہ جبیں نہیں
میں جو ہر دم فکر وصف حیدر صفدر میں ہوں
زلفوں کی وہ بو سنگھا رہے ہیں
لخت دل شامل ہوے ہیں آنسوؤں کے تار میں
ارادہ قتل کا عاشق کی ہے سرمہ لگاتے ہیں
کلام اپنا عدو سن سن کے کیا کیا داغ کھاتے ہیں
وعدہ ہر روز کیا کرتے ہو ہم آتے ہیں
میں پریشاں حال عشق گیسوے پر خم میں ہوں
ضیائے رخ سے ہوں تارے حباب دریا میں
رہتی ہیں محو جمال بت ترسا آنکھیں
مزا اے خضر ہوتا ہے جو تھوڑی زندگانی میں
متفرقات
وصل کی شب اگر آثار سحر دیکھتے ہیں
منہ چھپا کر وہ دم وصل یہ فرماتے ہیں
ردیف واو
حضور غور سے جام شراب دیکھیں تو
کوئی ساعت تو دم اے رہ رو ملک عدم لیلو
مری جان ہر گھڑی کہتے ہیں کس سے آپ جانیکو
دل ہی نہ ہو کسی کی اگر آرزو نہ ہو
درد فرقت سے ہو صحت جو شفا ہو تو یہ ہو
زاہد مجھے نہ مانع شرب شراب ہو
دھیان آگیا جو پھول چڑھانے کا یار کو
دنیا میں ہو ذلیل تو عقبیٰ میں خوار ہو
واقف نہیں وہ حال سے میرے اگر نہ ہو
شب کو یاد آتے ہیں ابروئے قاتل مجھ کو
مجھ کو دیکھ دیتے ہیں مانند مقدر آنسو
متفرقات
چھیڑ کر ذکر جنوں سلسلہ جنبان کیوں ہو
ہوئے ظلم و ستم و جور وجفا کیا کیا کچھ
ردیف ہا
عکس روئے یار ہے تصویر پشت آئینہ
آتا ہے جب روئے انور کے برابر آئینہ
رخ کر نہ حسینان جہاں کی طرف ایدل
ردیف یا
جہاں سے نہ بشر کوچہ گرد ہو کے اٹھے
بزم جاناں سے عجب طرح سے ایدل اٹھے
کوئی جانان سے کیا جب قصد جانیکے لئے
موسم گل آگیا واباب ہر میخانہ ہے
نہ اٹھنا تھا کسی کے استان سے
ہر قدم پر آپ وہ محو ادا ہونے لگے
فرقت یار میں نالہ جو کوئی ہم کرتے
جو تیر ناز کسی کا کبھی ادھر کو چلے
باندھے پھرتے ہیں وہ تیغ جاں ستاں کس کے لیے
ذبح کر شوق سے مضطر نہیں ہونیوالے
ضبط کے ساتھ خموشی دم بیداد رہے
بدلے افشاں کے جبیں پر جو ستارے ہوتے
بیخودی سے نہیں گو آپ میں آنیوالے
تہ جبیں جس نے رخ کو دیکھا قمر کو دیکھا قمر کے نیچے
روشن جو شمع نور ولاے علی رہے
چشم مخمور کسی کی مجھے یاد آتی ہے
روی تاباں صنم زلف سیہ فام میں ہے
کف پا کا تیرے مقابل یہی ہے
دغا کروں تو کبھی زندگی وفا نہ کرے
زبسکہ ہے انتظار اسکو کسی کی یہ راہ تک رہی ہے
نہ ہوتی قابل سجدہ کبھی تصویر پتھر کی
کہتا ہوں جبکہ کیا مری حالت تباہ کی
ہو گئی ہے خفگی کی تمہیں عادت کیسی
ہم سے کس دن وہ جدا گلشن عالم میں رہے
لاغر ایساں جو دھیان آپ تلک جاتا ہے
جوش میں آکے سوجھاتی ہے یہ حسرت تیری
کسی نے دل تمہیں میری طرح دیا بھی ہے
ناز انکو تو ہے میری جفا اور ہی کچھ ہے
دل میرا لیتے ہی الفت کے چلن بھول گئے
وصل میں بھی مری قسمت کی برائی نہ گئی
عاشق کا دل فریبوں سے ایجان اچٹ نہ جائے
پائداری کب ہے رنگ بوستاں کیواسطے
موت آئے شب فرقت میں نہ دلبرآئے
بتان ہند مرے دل میں ہیں در آے ہوئے
تم نے دیدار جو محشر پہ اٹھا رکھا ہے
مہ عزا میں جو زیبا شہید ہو جائے
بل چاہے ہر اک زلف پری رو سے نکل جاے
نہ پوچھو مجھ سے مری جان کہ جستجو کیا ہے
غم سے اشکوں کا روانہ قافلہ ہونے کو ہے
نگاہ قہر کی وہ بے خطا دکھا کے چلے
کچھ نہ بن آئی بصد آہ و فغاں دیکھا کئے
لگا کر تیغ جب وہ قاتل عالم نکلتا ہے
راہ میں جو ہے وہ پامال خرام ناز ہے
سوچ پھروں یہی اے حور شیم رہتا ہے
ایسی تشبیہ فقط حسن کی بدنامی ہے
اپنے عاشق پر نہ یوں بیداد کرنی چاہئے
تمہارے تیر ستم سے کبھی خطا نہ ہوئی
جو ہم کرتے ہیں ایسی تو محبت ہو نہیں سکتی
پس مردن جو ہم کو ظالم انکا یاد آتا ہے
چمنستان میں عندلیب رہے
بے اثر صورت فریاد عنادل ٹھہرے
ہوئے تھے خلق زمانے میں امتحاں کے لئے
مئے عجب رنگ سے بوتل میں بھری جاتی ہے
باہر ہے دل مرا جو مرے اختیار سے
اذیت یہ کبھی ہم نے نہ دیکھی تھی جو اب دیکھی
مثال ابر باران جھومتا مستانہ آتا ہے
آگئی دل پہ محبت میں تباہی کیسی
خاک رہ الفت میں تمنا ہے تو یہ ہے
رحم کیجئے بے وفائی ہو چکی
جو درد ہو کے بھی بے درد تو جگر میں رہے
ہم جو دنیا سے ہاتھ اٹھا بیٹھے
کیا غرض تھی ہم اٹھاتے جو حکومت دل کی
بے وصل کے بوسہ تقاضا نہیں کرتے
اس سے غرض نہیں ہے یہاں یا وہاں رہے
وہ کہتے ہیں کہ رقیبوں کو کد نہیں نہ سہی
خفا ہو کس لئے بیکار کچھ کہو تو سہی
جو دل لیکے ہیں وہ مکر جانے والے
دل کی وہ تاک میں وصل کی تدبیر میں ہے
جو دیتے ہیں وہ تو یہ شرط محبت کی جزا دیتے
محبت آپ سے اے مہ جبیں نہیں نہ سہی
دین و دل ایمان وجان زار لیتے جائے
تڑپاتا ہے فراق میں اپنے جو تو مجھے
فراق میں خون دل ہیں پیتے شراب ہم لیکے کیا کریں گے
زلف مشکیں سنگھائی تو سہی
زباں روکو فساد آمیز اب تقریر ہوتی ہے
اپنے جانباز پہ یوں کرتا ہے بیداد کوئی
اب تو دکھلائی نہیں دیتی ہے صورت آپ کی
تقاضا دل کا رہتا ہے بھی غواص فکرت سے
ترستے ہیں تمارے واسطے اے یار برسوں سے
قضا کا سامنا رہنا ہے ہر دم ہجر کے غم سے
مرے لاشے پہ فقط انکی بکا کیا کم تھی
وہ خفا ہو کر گئے ہیں وصل سے اب یاس ہے
اور کیا شغل تھا دنیا میں جو پیدا کرتے
کچھ ہمیں کہنا ہے اے دلدار سنتے جائیے
صورت دکھا دو کاکل مشکیں سنوار کے
متاع دل انہیں دینے میں ہم تکرار کیا کرتے
عشق میں خوب ہوئی عزت و توقیر مری
زیبا دہن میں پڑتے ہیں چہاے بیان سے
وہ غم انگیز جہاں میں ہے مصیبت میری
متفرقات
نائب شاہ رسالت حاکم ارض وسما
کعبہ دین قبلۂ ایمان شہنشاہ ہدیٰ
باعث تکمیل ایماں ہے ثناے مرتضیٰ
کہوں کیا اے مخالف تجھ سے میں حیدر کو کیا سمجھا
زہے رتبہ و حبذا شان حیدر
وجہ جناب کبریا نفس شہ خیرالورا بدرالسماے انما یعنی علی مرتضیٰ
اگر چہ لایق بخشش نہیں میرے عصیاں
رباعیات
قصر فردوس معلی کے سجے جاتے ہیں
سلام
فوج اعداد میں ادھر ظلم و جفاکاری ہے
زانو پہ ہیں نبی سر سرور لئے ہوئے
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
سرورق
کھچتے ہی تیغ کے سر تسلیم جھک گیا
کہیں تیز ہوتا ہے خنجر کسی کا
کیا ہو گیا پہلو سے وہ مضطر نہیں ملتا
جفا پسندوں کو سنتے ہیں ناپسند ہوا
رہ گیا دل میں ولولہ دل کا
فیصلا کیا ہو جان بسمل کا
مر جاتے دم وصلت جاناں نہیں دیکھا
ذبح کرکے کیوں مرے سینہ پہ خنجر رکھ دیا
قیامت میں قیامت حشر میں محشر بپا ہوگا
کوچۂ یار ہی میں کیا نہیں جایا جاتا
ضبط کے ساتھ رہا میں متحمل کیا کیا
نہ ہوگا حشر محشر میں بپا کیا
کہتے ہیں دل بہ جبر لیا پھر کسی کو کیا
نہ ڈر خورشید محشر کا نہ اندیشہ ہو عصیاں کا
ہے جو منظور مرا وقف قضا ہو جانا
مجھ سا دنیا میں سیہ کا ربشر کیا ہوتا
جو یا بہشت کا تھا نہ خواہان حور تھا
ہمیشہ برق دشونپر نثار ہی رکھا
تیغ ابرو سے نہ جب تک سر اوتار جائیگا
تڑپا کرتا ہے دل ناشا کو کیا ہوگیا
ہمیں زندہ اگر آکر نہ تم پاتے تو کیا ہوتا
مری صورت تمہارا بھی دل آجاتا تو کیا ہوتا
آخر شب آئے اے رشک مہ انور تو کیا
تمہاری گالیاں سنکر نہ ٹل جاتا تو کیا ہوتا
روز وصلت نامرادی سے شب ہجراں ہوا
وہ جو آئے ناز سے یہاں دم روانہ ہو گیا
اک آپکی نگاہ سے کیا مہربان گرا
قضا جب آئی تو آب بقا سے کیا ہوگا
وعدہ وصل اے صنم ایفا کیا
ہو مجھے کیونکر کمان اس پر نہ بیت اللہ کا
کبھی خوشی رہی دل کو کبھی ملال رہا
آہ وفغاں کو نہ کچھ مال وہ ایدل سمجھا
نہ ہمدم ہے نہ مونس ہے نہ مشفق ہے نہ یار اپنا
کوہکن کوہ کو قیس اپنا بیاباں بھولا
صبحدم رخصت جو وہ رشک قمر ہونے لگا
عہد و پیمان عاشق صادق سے جب لینے لگا
وقت آرایش جو آئینہ مقابل ہو گیا
گل مراد کب اس گلشن جہاں سے ملا
تمہارے رخ پہ نہیں خط مشکفام آیا
غم فرقت ہمیں دم بھر گوارا ہو نہیں سکتا
حسن رخ تیرا جو اے زہرہ شمائل بڑھ گیا
دل مرا شیفتۂ خنجر خونخوار ہو اتپنہ سربار ہوا
پیری میں عجب رنگ ہے داغ جگری کا
مرے بھی رشتہ جانکو سمجھ اے خوبرو لوٹا
طبیعت جس کی ناقص ہو وہ کامل ہو نہیں سکتا
مزا درد کا مجھ کو حاصل نہ ہوتا
جب کہا غیر سے اور تم سے کہو کیا ٹھہرا
کافر عشق صنم ہے دل ناداں اپنا
کیا کہوں یار کہ ہے ایک فسانہ دل کا
بیمار محبت کو سنبھلتے نہیں دیکھا
نہیں بھولیگا مجھے ہاتھ سے جانا دل کا
چل پھر اسکی حلق پر تھی یا خرام ناز تھا
دم میں پری وشون کے نہ آتے تو خوب تھا
خیال میں ہے جو گھونگر کسی کے بالوں کا
آج اسے پھر سے پھر مرا دھیان او دل ناشاد آیا
دم لبوں پر مرے گھٹ کے نہ آیا کیا کیا
سر وہ پایا کہ کسی کا جسے زانو نہ ملا
اشعار متفرقات
ردیف التاء مثناۃ فوقانیہ
ہوئے سنکے جو خفا عاشق دلگیر کی بات
ہم کریں الفت گیسوی دوتا کیا مطلب
مرتبہ میں مہرتاباں سے کہیں دہ چند ہے
ردیف الباء
تاریکی میں نجائے مرا دم کہیں الٹ
غمزہ بے فائدہ تم کرتے ہو تکرار عبث
ردیف الثاء مثلثلہ
محو ہے یاد گل عارض میں جان زار آج
ردیف الجیم معجمہ
ردیف التاے فارسی
میں تڑپتا ہی رہا ہجر میں بسمل کیطرح
ردیف الخا
پھولی پھلی تو خوب ہے ہر اک شجر کی شاخ
ردیف الحاء مہملہ
عندلیبان چمن سے ہے گلستاں آباد
ردیف الدال
نہیں ہے دوسرا دنیا میں آپ سا شاہد
ردیف الراے مہملہ
ردیف الذال معجمہ
پڑھنے بیٹھا جو وہ رشک مہ کنعان کاغذ
نموئے سبزہ خط ہے گل رخسار جاناں پر
پھیرے سوبار بھی تلوار جو تو گردن پر
بسے ہو یار تم گلہاے گلشن میں جو بو ہو کر
کسی سے درد دل کہنا سمجھ کر
ہم اپنی جان واریں گے کسی کے روئے روشن پر
لب جاناں ہیں اگر لعل یمن سے بہتر
اٹھایا دل نے بار عشق جاناں پہلوان ہو کر
تم کو اللہ کہیں گے نہ خدا دان ہو کر
کیا ملا قیس کو گر درہ صحرا ہو کر
رنگ وہ گردش قسمت کے بدلتے کیونکر
قاتل اپنا ہنس رہا ہے رقص بسمل دیکھ کر
تڑپی ہی نہ برق آکے کبھی دل کے برابر
ردیف السین مہملہ
عارض روشن ہے یوں زلف بت پر فن کے پاس
اشعار متفرقات
ردیف الزاء معجمہ
ردیف لام
ردیف کاف
جاں نثار آپ پہ ہوتا ہے نثار ایک نہ ایک
ردیف الشین معجمہ
کیوں ہو نہ گر کے کاسۂ تدبیر پاش پاش
کیا سیر ہو جو آپکا بھی مجھ پر آئے دل
ردیف میم
پھریں گے اب قول سے نہ اپنے نہ عشق سے منہ پھیراینگے ہم
لاغر ہوئے یہ عشق کمر اثر سے ہم
اشعار متفرقات
عادت جوروجفا ہے جیسے اس بے پیر میں
ردیف نون
پیچ دے زلف عنبریں نہ کہیں
کریں جفائیں نہ ہم پہ کیونکر ہمیں وہ خوب آزما چکے ہیں
خود سر یہ بلا لایا میں کیا اسے کہتے ہیں
پلۂ آفت کا تری تیر نظر کرتے ہیں
منہ سرخ ہے نشان غضب پائے جاتے ہیں
کچھ عیاں حشر کے آثار ہوئے ہیں کہ نہیں
جو کچھ تاثیر باقی تھی دعا میں
طلسم فکر سے جادو دم تقریر کرتے ہیں
خود بخود آئے ہو یا آئے بت بے پیر نہیں
بتائیں کیا تمہیں کیا دل کو اے دلبر سمجھتے ہیں
حسین ایسا نظر آیا نکوئی ہم کو دنیا میں
فنا ہو کر جو سر گرداں عالم خاک ہوتے ہیں
خفا نہ ہوجئے گا صاف آج کہتے ہیں
رہ الفت میں آوارہ رہا ہوں میں حزیں برسوں
ہم دم صبح کہیں ہیں تو سر شام کہیں
کسی کے گیسوے پیچاں سلاسل ہونے والے ہیں
جو کہتا ہوں کہ آپ اےماہ کس منزل میں رہتے ہیں
چال تو کرتے ہیں پر انداز اڑا سکتے نہیں
ضبط کا نام تنکظرف ڈبو دیتے ہیں
دہن گور سے ان کو یہ صدا دیتے ہیں
کیا قیامت ہے کہ دن ہجر کا ڈھلتا ہی نہیں
ماجراے شب ہجر آپ میں آلوں تو کہوں
صحبت یار مبارک ہو مخل جاتے ہیں
مریض نرگس فتان یار ہم بھی ہیں
کرم میں حسن میں صورت میں سیرت میں صفائی میں
زبان شوق سے جب تیرا نام لیتے ہیں
محبت آپ کی یا وصل کا ارمان رکھتے ہیں
دنیاے بے ثبات میں اہل ولا ہوں میں
کیا فکر ہو سکے جو ہو دل اضطرار میں
کس شعر میں ثنائے رخ مہ جبیں نہیں
میں جو ہر دم فکر وصف حیدر صفدر میں ہوں
زلفوں کی وہ بو سنگھا رہے ہیں
لخت دل شامل ہوے ہیں آنسوؤں کے تار میں
ارادہ قتل کا عاشق کی ہے سرمہ لگاتے ہیں
کلام اپنا عدو سن سن کے کیا کیا داغ کھاتے ہیں
وعدہ ہر روز کیا کرتے ہو ہم آتے ہیں
میں پریشاں حال عشق گیسوے پر خم میں ہوں
ضیائے رخ سے ہوں تارے حباب دریا میں
رہتی ہیں محو جمال بت ترسا آنکھیں
مزا اے خضر ہوتا ہے جو تھوڑی زندگانی میں
متفرقات
وصل کی شب اگر آثار سحر دیکھتے ہیں
منہ چھپا کر وہ دم وصل یہ فرماتے ہیں
ردیف واو
حضور غور سے جام شراب دیکھیں تو
کوئی ساعت تو دم اے رہ رو ملک عدم لیلو
مری جان ہر گھڑی کہتے ہیں کس سے آپ جانیکو
دل ہی نہ ہو کسی کی اگر آرزو نہ ہو
درد فرقت سے ہو صحت جو شفا ہو تو یہ ہو
زاہد مجھے نہ مانع شرب شراب ہو
دھیان آگیا جو پھول چڑھانے کا یار کو
دنیا میں ہو ذلیل تو عقبیٰ میں خوار ہو
واقف نہیں وہ حال سے میرے اگر نہ ہو
شب کو یاد آتے ہیں ابروئے قاتل مجھ کو
مجھ کو دیکھ دیتے ہیں مانند مقدر آنسو
متفرقات
چھیڑ کر ذکر جنوں سلسلہ جنبان کیوں ہو
ہوئے ظلم و ستم و جور وجفا کیا کیا کچھ
ردیف ہا
عکس روئے یار ہے تصویر پشت آئینہ
آتا ہے جب روئے انور کے برابر آئینہ
رخ کر نہ حسینان جہاں کی طرف ایدل
ردیف یا
جہاں سے نہ بشر کوچہ گرد ہو کے اٹھے
بزم جاناں سے عجب طرح سے ایدل اٹھے
کوئی جانان سے کیا جب قصد جانیکے لئے
موسم گل آگیا واباب ہر میخانہ ہے
نہ اٹھنا تھا کسی کے استان سے
ہر قدم پر آپ وہ محو ادا ہونے لگے
فرقت یار میں نالہ جو کوئی ہم کرتے
جو تیر ناز کسی کا کبھی ادھر کو چلے
باندھے پھرتے ہیں وہ تیغ جاں ستاں کس کے لیے
ذبح کر شوق سے مضطر نہیں ہونیوالے
ضبط کے ساتھ خموشی دم بیداد رہے
بدلے افشاں کے جبیں پر جو ستارے ہوتے
بیخودی سے نہیں گو آپ میں آنیوالے
تہ جبیں جس نے رخ کو دیکھا قمر کو دیکھا قمر کے نیچے
روشن جو شمع نور ولاے علی رہے
چشم مخمور کسی کی مجھے یاد آتی ہے
روی تاباں صنم زلف سیہ فام میں ہے
کف پا کا تیرے مقابل یہی ہے
دغا کروں تو کبھی زندگی وفا نہ کرے
زبسکہ ہے انتظار اسکو کسی کی یہ راہ تک رہی ہے
نہ ہوتی قابل سجدہ کبھی تصویر پتھر کی
کہتا ہوں جبکہ کیا مری حالت تباہ کی
ہو گئی ہے خفگی کی تمہیں عادت کیسی
ہم سے کس دن وہ جدا گلشن عالم میں رہے
لاغر ایساں جو دھیان آپ تلک جاتا ہے
جوش میں آکے سوجھاتی ہے یہ حسرت تیری
کسی نے دل تمہیں میری طرح دیا بھی ہے
ناز انکو تو ہے میری جفا اور ہی کچھ ہے
دل میرا لیتے ہی الفت کے چلن بھول گئے
وصل میں بھی مری قسمت کی برائی نہ گئی
عاشق کا دل فریبوں سے ایجان اچٹ نہ جائے
پائداری کب ہے رنگ بوستاں کیواسطے
موت آئے شب فرقت میں نہ دلبرآئے
بتان ہند مرے دل میں ہیں در آے ہوئے
تم نے دیدار جو محشر پہ اٹھا رکھا ہے
مہ عزا میں جو زیبا شہید ہو جائے
بل چاہے ہر اک زلف پری رو سے نکل جاے
نہ پوچھو مجھ سے مری جان کہ جستجو کیا ہے
غم سے اشکوں کا روانہ قافلہ ہونے کو ہے
نگاہ قہر کی وہ بے خطا دکھا کے چلے
کچھ نہ بن آئی بصد آہ و فغاں دیکھا کئے
لگا کر تیغ جب وہ قاتل عالم نکلتا ہے
راہ میں جو ہے وہ پامال خرام ناز ہے
سوچ پھروں یہی اے حور شیم رہتا ہے
ایسی تشبیہ فقط حسن کی بدنامی ہے
اپنے عاشق پر نہ یوں بیداد کرنی چاہئے
تمہارے تیر ستم سے کبھی خطا نہ ہوئی
جو ہم کرتے ہیں ایسی تو محبت ہو نہیں سکتی
پس مردن جو ہم کو ظالم انکا یاد آتا ہے
چمنستان میں عندلیب رہے
بے اثر صورت فریاد عنادل ٹھہرے
ہوئے تھے خلق زمانے میں امتحاں کے لئے
مئے عجب رنگ سے بوتل میں بھری جاتی ہے
باہر ہے دل مرا جو مرے اختیار سے
اذیت یہ کبھی ہم نے نہ دیکھی تھی جو اب دیکھی
مثال ابر باران جھومتا مستانہ آتا ہے
آگئی دل پہ محبت میں تباہی کیسی
خاک رہ الفت میں تمنا ہے تو یہ ہے
رحم کیجئے بے وفائی ہو چکی
جو درد ہو کے بھی بے درد تو جگر میں رہے
ہم جو دنیا سے ہاتھ اٹھا بیٹھے
کیا غرض تھی ہم اٹھاتے جو حکومت دل کی
بے وصل کے بوسہ تقاضا نہیں کرتے
اس سے غرض نہیں ہے یہاں یا وہاں رہے
وہ کہتے ہیں کہ رقیبوں کو کد نہیں نہ سہی
خفا ہو کس لئے بیکار کچھ کہو تو سہی
جو دل لیکے ہیں وہ مکر جانے والے
دل کی وہ تاک میں وصل کی تدبیر میں ہے
جو دیتے ہیں وہ تو یہ شرط محبت کی جزا دیتے
محبت آپ سے اے مہ جبیں نہیں نہ سہی
دین و دل ایمان وجان زار لیتے جائے
تڑپاتا ہے فراق میں اپنے جو تو مجھے
فراق میں خون دل ہیں پیتے شراب ہم لیکے کیا کریں گے
زلف مشکیں سنگھائی تو سہی
زباں روکو فساد آمیز اب تقریر ہوتی ہے
اپنے جانباز پہ یوں کرتا ہے بیداد کوئی
اب تو دکھلائی نہیں دیتی ہے صورت آپ کی
تقاضا دل کا رہتا ہے بھی غواص فکرت سے
ترستے ہیں تمارے واسطے اے یار برسوں سے
قضا کا سامنا رہنا ہے ہر دم ہجر کے غم سے
مرے لاشے پہ فقط انکی بکا کیا کم تھی
وہ خفا ہو کر گئے ہیں وصل سے اب یاس ہے
اور کیا شغل تھا دنیا میں جو پیدا کرتے
کچھ ہمیں کہنا ہے اے دلدار سنتے جائیے
صورت دکھا دو کاکل مشکیں سنوار کے
متاع دل انہیں دینے میں ہم تکرار کیا کرتے
عشق میں خوب ہوئی عزت و توقیر مری
زیبا دہن میں پڑتے ہیں چہاے بیان سے
وہ غم انگیز جہاں میں ہے مصیبت میری
متفرقات
نائب شاہ رسالت حاکم ارض وسما
کعبہ دین قبلۂ ایمان شہنشاہ ہدیٰ
باعث تکمیل ایماں ہے ثناے مرتضیٰ
کہوں کیا اے مخالف تجھ سے میں حیدر کو کیا سمجھا
زہے رتبہ و حبذا شان حیدر
وجہ جناب کبریا نفس شہ خیرالورا بدرالسماے انما یعنی علی مرتضیٰ
اگر چہ لایق بخشش نہیں میرے عصیاں
رباعیات
قصر فردوس معلی کے سجے جاتے ہیں
سلام
فوج اعداد میں ادھر ظلم و جفاکاری ہے
زانو پہ ہیں نبی سر سرور لئے ہوئے
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔