میں نے بھی سینہ ہوا دار بنا رکھا ہے
شورشوں سے کھیلنا، ہنگاموں سے ڈرنا نہیں
دست ہنر جھٹکتے ہی ضائع ہنر گیا
مری خزاں، تری عمر بہار کتنی ہے!
وادیٔ غم میں ترے ساتھ ساتھ بھٹک رہا ہوں میں
باثمر ہونے کی امید پہ بیٹھا ہوں میں
کچھ ایسی شکل میں یہ زندگی تو ہوسکتی
شکستہ گھر میں کوئی چیز بھی نہیں پوری
میسر آج سروکار سے زیادہ ہے
میں مطمئن نہ تھا کردار سے، کہانی میں
فصل ابھی حالت سیلاب سے گزری ہی نہیں
مرے خلوص کے معیار میں نہیں آیا
ماسوا شہر خدا کے بعد بھی ہے
سوچنا آتا ہے دانائی مجھے آتی نہیں
آئینے میں تری تصویر سجا رکھی ہے
عادت زمانہ نے دل دکھاتے رہنا ہے
ساحل سمجھ کے ایک جزیرے میں آگیا
موسم حبس میں کہیں ملتا نہیں سراغ گل
بہار ائی تو شاخوں سے بور ٹوٹ گیا
کسی ترتیب میں رکھی نہ بکھرنے دی ہے
کچھ آنسو رولنے کے بعد نذ ر خواب ہوگیا
میں ترے ساتھ اڑا اور دھنک پہ اترا
انجم سلیمی کے لیے
کس مشقت سے مجھے جسم اٹھانا پڑا ہے
کچھ اور بھی زیادہ سنور کے دکھاؤں گا
تجھے چھو کر بھی مری روح میں شدت نہیں ہے
دلوں کی حالتیں چہروں سے جان لیتے ہیں
مرا قدم نہیں اٹھتا مرے خیال کے ساتھ
آج کل بے خال و خط ہوں، آئینہ ناراض ہے
جو ظاہراً نظر آؤں، اسی میں رکھتا ہے
دھوکہ بھی دے دیا کبھی اچھا بھی کر لیا
چند دن ہجر کے آزار اٹھانے دو اسے
حال دل اس کو سنایا تو وہ روتا رہ گیا
سلام بہ حضور امام عالی مقام
اسیر دائرہ صبح و شام ٹھیک نہیں
خزاں رتوں میں کھلے ہیں کھجور کے پتے
ناں جی سکا خوشی سے، نہ مرضی سے مرسکا
میں ایک زندگی کھو کر نئی میں جاگا ہوں
تیرے آنے سے یہ منظر تو سنور جاتا ہے
میں یوں تو محفل یاراں میں آکے بیٹھا ہوں
طائر اس ڈر میں ہے صیاد کہاں رہتا ہے
جو جی میں ٹھان رکھی ہے وہ کرنے والا ہوں
تمہارے بعد سہارا تلاش کرتا ہوں
یاروں کی تباہی میں حدّ فضا نہ ہو
مشکل ہے اپنا آپ بھی ٹہرایا اس جگہ
کھڑکیوں پہ گرد دروازوں پہ جالا پڑ گیا
اپنے والد محترم پروفیسر محمد یعقوب اعوان کی نذر)
خود اپنا بوجھ اٹھاؤ یہاں سے کوچ کرو
زمانہ مجھ سے مرا اعتراف کرکے ملا
کسی توجہ میں ہوں میں، نہ کوئی دھیان مجھے
اجنبی ہیں سب، زمیں پر دل نہیں لگتا
امکاں کی دسترس میں رہے بحر و بر مرے
یہ کیسی عمر ہے سارے جہاں پہ روتا ہوں
جھانکے ہے صحن سے مرے کمرے میں آسماں
تکمہ
میں نے بھی سینہ ہوا دار بنا رکھا ہے
شورشوں سے کھیلنا، ہنگاموں سے ڈرنا نہیں
دست ہنر جھٹکتے ہی ضائع ہنر گیا
مری خزاں، تری عمر بہار کتنی ہے!
وادیٔ غم میں ترے ساتھ ساتھ بھٹک رہا ہوں میں
باثمر ہونے کی امید پہ بیٹھا ہوں میں
کچھ ایسی شکل میں یہ زندگی تو ہوسکتی
شکستہ گھر میں کوئی چیز بھی نہیں پوری
میسر آج سروکار سے زیادہ ہے
میں مطمئن نہ تھا کردار سے، کہانی میں
فصل ابھی حالت سیلاب سے گزری ہی نہیں
مرے خلوص کے معیار میں نہیں آیا
ماسوا شہر خدا کے بعد بھی ہے
سوچنا آتا ہے دانائی مجھے آتی نہیں
آئینے میں تری تصویر سجا رکھی ہے
عادت زمانہ نے دل دکھاتے رہنا ہے
ساحل سمجھ کے ایک جزیرے میں آگیا
موسم حبس میں کہیں ملتا نہیں سراغ گل
بہار ائی تو شاخوں سے بور ٹوٹ گیا
کسی ترتیب میں رکھی نہ بکھرنے دی ہے
کچھ آنسو رولنے کے بعد نذ ر خواب ہوگیا
میں ترے ساتھ اڑا اور دھنک پہ اترا
انجم سلیمی کے لیے
کس مشقت سے مجھے جسم اٹھانا پڑا ہے
کچھ اور بھی زیادہ سنور کے دکھاؤں گا
تجھے چھو کر بھی مری روح میں شدت نہیں ہے
دلوں کی حالتیں چہروں سے جان لیتے ہیں
مرا قدم نہیں اٹھتا مرے خیال کے ساتھ
آج کل بے خال و خط ہوں، آئینہ ناراض ہے
جو ظاہراً نظر آؤں، اسی میں رکھتا ہے
دھوکہ بھی دے دیا کبھی اچھا بھی کر لیا
چند دن ہجر کے آزار اٹھانے دو اسے
حال دل اس کو سنایا تو وہ روتا رہ گیا
سلام بہ حضور امام عالی مقام
اسیر دائرہ صبح و شام ٹھیک نہیں
خزاں رتوں میں کھلے ہیں کھجور کے پتے
ناں جی سکا خوشی سے، نہ مرضی سے مرسکا
میں ایک زندگی کھو کر نئی میں جاگا ہوں
تیرے آنے سے یہ منظر تو سنور جاتا ہے
میں یوں تو محفل یاراں میں آکے بیٹھا ہوں
طائر اس ڈر میں ہے صیاد کہاں رہتا ہے
جو جی میں ٹھان رکھی ہے وہ کرنے والا ہوں
تمہارے بعد سہارا تلاش کرتا ہوں
یاروں کی تباہی میں حدّ فضا نہ ہو
مشکل ہے اپنا آپ بھی ٹہرایا اس جگہ
کھڑکیوں پہ گرد دروازوں پہ جالا پڑ گیا
اپنے والد محترم پروفیسر محمد یعقوب اعوان کی نذر)
خود اپنا بوجھ اٹھاؤ یہاں سے کوچ کرو
زمانہ مجھ سے مرا اعتراف کرکے ملا
کسی توجہ میں ہوں میں، نہ کوئی دھیان مجھے
اجنبی ہیں سب، زمیں پر دل نہیں لگتا
امکاں کی دسترس میں رہے بحر و بر مرے
یہ کیسی عمر ہے سارے جہاں پہ روتا ہوں
جھانکے ہے صحن سے مرے کمرے میں آسماں
تکمہ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔