aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
نظم نگاری کی دنیا میں حفیظ جالندھری کا اپنا مخصوص رنگ ہے اور مختلف شعرا کے کلام میں ان کا کلام بہ آسانی پہچان لیا جاتا ہے۔ ان کی نظموں میں زندگی کی رنگا رنگ تصویریں ملتی ہیں جن سے ہر ملک اور ہر مزاج کے لوگ اپنے اپنے ذوق کی سریابی کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ حفیظ جالندھری کی نظموں کا پہلا مجموعہ ’’نغمہ زار‘‘ تھا جو 1935 میں شائع ہوا۔یہ مجموعہ اس وقت شائع ہوا تھا جبکہ اکبر الہ آبادی ،چکبست اور اقبال کا کلام سارے ملک میں مشہور ہو چکا تھا۔اس مجموعہ میں حفیظ جالندھری کی سترہ نظمیں اور کچھ غزلیں شامل ہیں۔ ان کی غزلوں میں ایک قسم کی سر مستی اور بہاو ہے لیکن اردو دنیا میں وہ نظم گو کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ ان کی نظموں اور غزلوں میں بلا کا ترنم اور نغمگی پائی جاتی ہے۔
محمد حفیظ نام، حفیظؔ تخلصؔ، 1900ء میں جالندھر میں پیدا ہوئے۔ شعروشاعری سے فطری مناسبت تھی۔ نوعمری ہی میں اس طرف متوجہ ہوئے اور شعر کہنے لگے مولانا غلام قادرگرامی سے رشتۂ تلمذ قائم کیا۔
وہ شعری کارنامہ جس نے حفیظؔ کو زندۂ جاوید بنا دیا ’’شاہنامۂ اسلام‘‘ ہے۔ فارسی میں تو شاہنامۂ فردوسی اور مثنوی مولانا روم جیسی بلند پایہ نظمیں موجود ہیں۔ مقدمۂ شعر و شاعری میں مولانا حالیؔ نے اس پر اظہار افسوس کیا ہے کہ اردو میں کوئی بلند پایہ مثنوی موجود نہیں ’’شاہنامۂ اسلام‘‘ کی اشاعت سے یہ اعتراض کس حد تک دور ہوگیا ہے۔
تاریخی واقعات کو نظم کرنا اور خاص طور پر ایسے واقعات کو جن سے مذہب کا تعلق ہو اور جن سے کسی قوم کے جذبات وابستہ ہوں دشوار کام ہے۔ کسی واقعے کے بیان میں اصلیت سے سرموانحراف ہوتو قارئین کی برہمی کا باعث ہوسکتے ہیں اور انحراف نہ ہو تو دلکشی پیدا نہیں ہوتی۔ حفیظؔ نے اس طویل نظم میں واقعات بے کم وکاست بیان کیے ہیں۔ مگر طرز نگارش ایسا ہے کہ دلکشی میں کمی نہیں آئی۔ اہل نظر کو اعتراف ہے کہ خشکی اور نثریت اس نظم سے کوسوں دور ہے۔ نظم میں بے شمار ایسے مقام ہیں جن سے قاری کے جوش ایمانی کو تحریک ملتی ہے اور اس کے دل میں ایک ولولہ پیدا ہوجاتا ہے۔
حفیظؔ نے غزلیں بھی کہیں مگر یہ روایتی انداز کی ہیں اور تاثیر سے تقریباً محروم بعض جگہ شاعر و قنوطیت غالب آجاتی ہے۔ غم کا جذبہ بہت شدید ہوتا ہے اور پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے مگر یہ غزلیں اس خصوصیت سے بھی محروم ہیں۔ غالباً اس کا سبب یہ ہے کہ یہ غم ان کا اپنا غم نہیں ہے محض سنی سنائی باتیں ہیں۔
حفیظؔ نے نظمیں بھی لکھی ہیں۔ ان کی نظموں کے کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں مثلاً ’’نغمۂ راز‘‘ اور ’’سوزوساز‘‘۔ ان نظموں میں فلسفیانہ گہرائی تو نظر نہیں آتی لیکن اسلوب نگارش جاذب نظر ہے۔ نظموں میں انہوں نے نئے تجربے تو نہیں کیے مگر قدیم ہیئتوں کو سلیقے کے ساتھ برتا ہے، مترنم بحریں استعمال کیں ہیں، سبک شیریں الفاظ کا انتخاب کیا ہے اور اپنی نظموں کو سرمایۂ مسرت بنا دیا ہے۔
انہوں نے گیت بھی لکھے اور ایسے گیت لکھے جو تاثیر سے لبریز ہیں۔ یہاں بھی ان کی کامیابی کا راز ہے چھوٹی، سب اور رواں بحروں کا انتخاب۔ ایسے لفظوں کا استعمال جو سماعت کو متاثر کرتے ہیں۔ ٹوٹی ہوئی کشتی کا ملاح اور شہسوار کربلا ان میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
کلام کا نمونہ ملاحظہ ہو؎
اپنے وطن میں سب کچھ ہے پیارے
رشک عدن ہے باغ وطن بھی
گل بھی ہیں موجود گل پیرہن بھی
نازک دلاں بھی غنچہ دہن بھی
اپنے وطن میں سب کچھ ہے پیارے
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets