aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
گلزار کے افسانوں میں سماجی معنویت، مقصدیت ہے اور جدید عصری حسیت، تہذیبی فضا آفرینی بھی۔ انہیں تہذیبی روایت کا شعور بھی ہے اور تہذیبی لاشعور کا احساس بھی۔ ان کی ہر کہانی کا رنگ دوسری کہانی سے مختلف ہوتا ہے،اور ہر کہانی میں زنگی کا الگ روپ اور تجربہ سامنے آتا ہے،زیر نظر کتاب "راوی پار"ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے میں ، اس مجموعہ میں شامل افسانے ، موضوعاتی تنوع اور اسلوبیاتی اختصاص کی وجہ سے انفرادی اہمیت کے حامل ہیں۔کتاب میں "ادّھا"،"مرد"،" راوی پار"وغیرہ ایسے افسانے ہیں جن میں زندگی کی ہمہ جہت بوقلمونیاں ہیں ۔افسانہ "مرد"ماں بیٹے کے رشتے پر ہے،اور "راوی پار"تو گلزارکا انتہائی حساس افسانہ ہے،جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،اس کہانی کا کردار درشن سنگھ ہے جو موجِ حوادث میں گھرا ہوا ہے۔ مسلسل حادثات نے اس سے حواس چھین لیے ہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک تقسیم ہورہا تھا، دلوں کے ٹکڑے ہورہے تھے،خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں، خوف و ہراس، سراسیمگی کا تسلط تھا۔ پاؤں تلے سے زمینیں کھسک رہی تھیں۔ آسمانوں سے خوف کی موسلا دھار بارشیں ہورہی تھیں۔ ایسے حالات میں درشن سنگھ اپنی زمین اور اپنی جڑوں سے ہجرت پر مجبور ہوئے اور وہ بھی اپنی بیوی شاہنی کے دو نومولود جڑواں بچے کے ساتھ نکل پڑے،ٹرین کھچا کھچ بھری ہوئی ہے،تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہے لیکن سفر کرنا ہے اس لیے وہ چھت پہ بیٹھ جاتے ہیں۔ ٹرین کئی نئے علاقوں سے گزرتی ہے۔ جوں جوں ہندوستان کے قریبی شہر آتے جاتے ہیں، لوگوں کے دلوں میں جوش و ولولہ بڑھتا جاتا ہے۔ اسی دوران ایک جڑواں بچے کی حرکت قلب بند ہوجاتی ہے۔ جب راوی آتا ہے تو درشن سنگھ کو مسافر دوست بچے کو راوی میں پھینک دینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ درشن سنگھ بچے کو پھینک دیتا ہے اور پھر اپنے دوسرے بچے کی طرف پلٹتا ہے تو دیکھتا ہے کہ مردہ بچہ شاہنی کی چھاتی سے لپٹا ہوا ہے اور زندہ بچہ راوی کی لہروں میں کھوگیا ہے۔
معنی کی خوشبوؤں کا صورت گر
شاعر،افسانہ نگار،گیت کار،فلم اسکرپٹ رائٹر،ڈراما نویس،پروڈیوسر،مکالمہ نگار،ہدایت کار،دانشور،عاشق اور اپنے ہر میدان عمل میں اپنی انفرادیت اور جدّت طرازی کے لئے مشہور گلزار کی شخصیت عجوبہ روزگار ہے۔ان کا فن ،خواہ وہ نظم میں ہو یا نثر میں،دراصل زندگی کے مشاہدات کو شاعرانہ احساس کی پلکوں سے چن کر،انھیں حرف و صوت کا جامہ پہنانے کا طلسماتی عمل ہے۔ہندوستانی سنیماکے سب سے بڑے "دادا صاحب پھالکےایوارڈ"،ہالی وڈ کے آسکر ایوارڈ ،گریمی ایوارڈ،21 مرتبہ فلم فیر ایوارڈ،قومی یکجہتی کے اندرا گاندھی ایوارڈ ، ادب کے لئے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ اور ہندوستان کے تیسرے سب سے بڑے سویلین خطاب پدم بھوشن سے نوازے جا چکے گلزار خود کو ادیب و شاعر کی حیثیت سے تسلیم کیا جانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ان کو معلوم ہے کہ کاغذ پر پختہ روشنائی سے چھپے لفظ کی عمر سلولائڈ پر مرتسم تصویروں اور آوازوں سے زیادہ پُر اثر اور دیرپا ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ گلزار فلموں میں اپنی بےمثال کامیابی اور شہرت کے باوجود سنجیدہ ادب کی طرف سے کبھی غیرسنجیدہ نہیں ہوئے۔شروع میں ان کی ادبی تخلیقات پاکستان کے رسالوں میں شائع ہوئیں۔"فنون"کے مدیر احمد ندیم قاسمی نے بطور خاص ان کی سرپرستی اور رہنمائی کی۔گلزار نے انھیں اپنا "بابا" بنا لیا اوران کے زبردست عقیدتمند بن گئے۔
گلزار کی شاعری کی اک اہم خصوصیت،بقول قاسمی، لفظ اور مصرعے کے تاثراتی تصور کو مہارت اور چابکدستی سے اشعار میں اجاگر کرنا ہے۔ان کی شاعری میں فطرت گلزار کے ہمزاد کا کام کرتی ہے ان کے یہاں فطرت کےمظاہر جیتے جاگتے سانس لیتے اور انسانوں کی طرح جانداروں کا روپ دھارتے محسوس ہوتے ہیں۔
گلزار جن کا اصل نام سمپورن سنگھ کالڑا ہے،18 اگست 1934 کو غیر منقسم ہندوستان کے ضلع جہلم کے گاؤں دینہ میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام مکھن سنگھ تھا جو چھوٹا موٹا کاروبار کرتے تھے۔گلزار کی والدہ کا انتقال تبھی ہو گیا تھا جب وہ دودھ پیتے بچے تھے اور سوتیلی ماں کا سلوک ان کے ساتھ اچھا نہیں تھا۔اس لئے گلزار اپنا زیادہ وقت باپ کی دکان پر گزارتے تھے۔نصابی کتابوں سے ان کو زیادہ دلچسپی نہیں تھے اور انٹرمیڈئیٹ میں فیل بھی ہوئے لیکن ادب سے ان کو لڑکپن سے ہی گہرا لگاؤتھا اور رابندر ناتھ ٹیگور اور شرت چند ان کے پسندیدہ ادیب تھے۔دراصل اسی بنگلہ- پنجابی پیوند کاری سے جو شجر بارآور ہوا اس کا نام گلزار ہے۔
1947 میں ملک کی تقسیم کی ہولناکیوں سے گزرتے ہوئے گلزار کا خاندان جان بچا کر پہلے امرتسر اور پھر دہلی میں خیمہ زن ہوا۔دہلی میں یہ لوگ سبزی منڈی کے علاقہ میں رہتے تھے۔گلزار کی تعلیم کا خرچ مکھن سنگھ برداشت کرنے سے قاصر تھے اس لئے بیٹے کو اک پٹرول پمپ پر ملازمت کرنی پڑی۔پھر کچھ دن بعد تقدیر ان کو بمبئی کھینچ لے گئی۔دہلی ہو یا بمبئی گلزار کو شاعر بننے کی دھن تھی اور یہی انکی اصل محبت تھی۔بمبئی آ کر گلزار نے ادبی حلقوں میں اثر رسوخ بڑھایا وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں میں پابندی سے شریک ہوتے۔اس طرح انھوں نے کئی ادیبوں سے تعلقات پیدا کر لئے تھے جن میں ایک شیلندر بھی تھے جو اس وقت جانے مانے فلمی گیت کار تھے۔1960 کے عشرہ کے اوائل میں مشہور فلمساز بمل رائے "بندنی" بنا رہے تھے جس کے میوزک ڈائریکٹر مایہ ناز موسیقار ایس ڈی برمن اور گیت کار شیلندر تھے۔اتفاق سے کسی بات پر برمن کی شیلندر سے ان بن ہو گئی اور شیلندر روٹھ کر ان سے الگ ہو گئے۔لیکن فلم سے انکی جذباتی وابستگی تھی انھوں نے گلزار سے کہا کہ وہ اس فلم کے لئے گیت لکھنے کے لئے بمل رائے سے ملیں۔بمل رائے نے ابتدائی تأمل کے بعد سچویشن سمجھا کر ایک گانا لکھنے کا کام گلزار کو سونپ دیا۔گلزار نے اس طرح اپنا پہلا گانا "مورا گورا انگ لیئ لے موہے شیام رنگ دیئی دے" لکھا جو ایس ڈی برمن اور بمل رائے کو بہت پسند آیا اور بعد میں خاصا مشہور بھی ہوا۔یہ اس فلم میں گلزار کا اکلوتا گانا تھا کیونکہ بعد میں شیلندر اور ایس ڈی برمن کی صلح صفائی ہو گئی تھی۔بمل رائے کو بہرحال یہ بات اچھی نہیں لگی کہ اک ہونہار نوجون اک موٹر گیرج میں کام کرے لہٰذا انھوں نے حکماً گلزار کو وہ ملازمت ترک کرنے کو کہا اور اپنا اسسٹنٹ بنا لیا۔غالباً یہاں بمل رائےکی بنگالیت اور بنگالی زبان سے گلزار کی محبت نے اپنا رنگ دکھایا تھا۔گلزار کا کہنا ہے کہ وہ بمل رائے کے اس مخلصانہ طرز عمل پر رو پڑے تھے۔
جس زمانہ میں گلزار بمل رائے کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے ان کا سامنا مینا کماری سے ہوا۔وہ بمل رائے کے فلم بے نظیر کی ہیروئن تھیں۔رفتہ رفتہ دونوں کا تعلق بے نام بلندیوں تک پہنچ گیا جسے "رشتوں کا الزام" دئے جانے کے گلزار خلاف ہیں۔ بہرحال یہ تعلق اس نوعیت کا تھا کہ جب مینا کماری بیمار تھیں تو گلزار وقت پر ان کو دوا پلانے کے لیے ان کے گھر پہنچتے تھے اور جب رمضان میں دن کے وقت دوا پینے سے مینا کماری نے انکار کیا تو گلزار نے ان سے کہا کہ بیماری میں ان پر روزے فرض نہیں ہیں وہ فدیہ دے سکتی ہیں اور ان کی جگہ وہ روزے رکھیں گے۔کہا جاتا ہے کہ تب اور مینا کماری کے انتقال کے بعد بھی گلزار رمضان کے روزے رکھتے رہے۔ دوسری طرف مینا کماری نے اپنی متاع سخن کا وارث گلزار کو بنایا اور اپنی ڈائریاں اور کاپپیاں جن پر ان کی غزلیں اور نظمیں تھیں گلزار کے حوالہ کر دیں ۔ان کو بعد میں مدون کر کے گلزار ہی نے شائع کرایا۔ گلزار کی ہدایت میں بننے والے پہلی فلم "میرے اپنے" میں مرکزی کردار مینا کماری نے ہی ادا کیا تھا۔
مینا کماری کے انتقال کے بعد 15 مئی 1973 کو گلزار نے راکھی سے شادی کر لی جن کا بطور ہیروئن کیرئیر اس وقت نقطۂ عروج پر تھا۔۔ اس شادی سے ان کی اکلوتی بیٹی میگھنا گلزار ہیں جو اب خود جانی مانی ہدایتکار ہیں۔ میگھنا عرف بوسکی کی پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد گلزار اور راکھی میں علاحدگی ہو گئی لیکن طلاق کبھی نہیں ہوئی۔ مینا کماری سے قرب اور راکھی سے فاصلے کی اصل نوعیت، مختلف افواہوں سے قطع نظر،گلزار کی شخصیت کے کئی دوسرے پہلوؤں کی طرح صیغہ ٔ راز میں ہے۔ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ بقول میر تقی میر:
وصل و ہجراں یہ جو دو منزل ہیں راہ عشق کی
دل غریب ان میں خدا جانے کہاں مارا گیا
اپنے طویل فلمی سفر کے ساتھ ساتھ گلزار ادب کے میدان میں نئی نئی منزلیں طے کرتے رہے ہیں۔نظم میں انھوں نے اک نئی صنف "تروینی" ایجاد کی ہے جو تین مصرعوں کی غیر مقفیٰ نظم ہوتی ہے۔گلزار نے نظم کے میدان میں جہاں بھی ہاتھ ڈالا اپنی جدت سے نیا گل کھلایا۔کچھ عرصہ سے وہ بچوں کی نظم و نثر کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہوئے ہیں۔"جنگل بک" کے لئے ان کا ٹائٹل سانگ:
جنگل جنگل بات چلی ہے،پتہ چلا ہے
چڈھی پہن کے پھول کھلا ہے، پھول کھلا ہے
بچہ بچہ کی زبان پر ہے انھون نے "ایلس ان ونڈر لینڈ اور" پوٹلی بابا" کے لئے بھی نظمیں اور مکالمے لکھے ہیں وہ جسمانی طور پر معذور بچوں کے ادارہ "آروشی" اور تعلیم کے لئے کام کرنے والی این جی او "ایکلویہ" سے بھی وابستہ ہیں۔گلزار کا بنیادی حوالہ جمالیاتی احساس ہےجس کی بیش بہا تمثیلیں ان کی تخلیقات میں ملتی ہیں۔اپپریل 2013 میں ان کو آسام یونیورسٹی کا چانسلر مقرر کیا گیا تھا۔
گلزار کو اپنی زندگی میں ہی جو شہرت عزت اور مقبولیت ملی وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔بہرحال ادبی قدر کا حتمی فیصلہ ہمعصر قاری نہیں، مستقبل کا قاری کرتا ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets