Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

रद करें डाउनलोड शेर

लेखक : यूसुफ़ सलीम चिश्ती

संस्करण संख्या : 001

प्रकाशक : इशरत पब्लिशिंग हाउस, लाहौर

मूल : लाहौर, पाकिस्तान

प्रकाशन वर्ष : 1957

भाषा : Urdu

श्रेणियाँ : शाइरी

उप श्रेणियां : व्याख्या

पृष्ठ : 613

सहयोगी : ग़ालिब अकेडमी, देहली

sharh-e-masnawi pas che bayad kard ma musafir
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

पुस्तक: परिचय

زیر نظر کتاب علامہ اقبال کی مشہور مثنوی ہے۔ اس مثنوی کے دو حصے ہیں یعنی " مسافر" اور"پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق"، "مسافر" افغانستان کے دوران قیام کی یادگار ہے۔ ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کی شان تصنیف یہ ہے کہ جس زمانے میں علامہ اپنے علاج کے لیے بھوپال تشریف لے گئے تھے ایک رات سر سید احمد خاں سے خواب میں ملاقات ہوئی۔ سر سید نے ان سے کہا کہ اپنی علالت کا ذکر حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں نہیں کرتے۔ جب آنکھ کھلی تو یہ شعر ورد زبان تھا: با پرستاران شب دارم ستیز باز روغن در چراغ من بریز پھر چند اشعار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے۔ اس کے بعد علامہ برصغیر اور خارجی ممالک کے سیاسی اور اجتماعی حالات پر اپنے تاثرات کا اظہار اشعار کی صورت میں کرتے رہے اور بالآخر ان اشعار نے ایک مستقل مثنوی کی شکل اختیار کر لی۔ جس کا نام "پس چہ باید کرد اے اقوام شرق" قرار پایا۔ یہ مثنویات حجم کے اعتبار سے سابق مثنویوں کے مقابلے میں بہت مختصر ہیں لیکن علامہ کے آخری عمر کے پختہ افکار اور گہری بصیرت سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے"پس چہ باید کرد اے اقوام شرق" کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مثنوی پس چہ باد کرد ای اقوام شرق، علامہ صاحب کے فارسی کلام میں حجم کے لحاظ سے سب سے چھوٹی کتاب ہے۔ اس میں علامہ صاحب نے اقوام مشرق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کے حالات میں جو امت مسلمہ کو مسائل ہیں انکا حل کیا ہو سکتا ہے۔ ’’مسافر‘‘ میں یہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ علامہ نے یہاں اپنے سفر کی جزئیات یا مشاہدات و تاثرات کا ذکر نسبتاً کم کیا ہے۔ اس کے بجائے وہ ہر مقام پر اپنے افکار کے اظہار و ابلاغ کی کوشش کرتے ہیں اور ہر واقعہ کو اپنے فلسفہ زندگی کی ترجمانی کا وسیلہ بناتے ہیں۔ محمود غزنوی کا مزار ہو یا احمد شاہ درانی کا، حکیم سنائی کا مرقد ہو یا فرمانروائے سلطنت سے خطاب، مقصد ان اقدار و حقائق زندگی کا ابلاغ ہے جو فرد یا ملت کی خودی کے اثبات و استحکام اور ملت کی تشکیل نو اور عظمت رفتہ کے حصول کے لیے ضروری ہیں، اور جن کے سمجھنے سے ان کا مخاطب یا قاری اپنی ذات کی حقیقت اور امکانات سے پوری طرح واقف ہو سکتا ہے۔ زیر نظر کتاب پس چہ باید کرد کی شرح ہے، یہ شرح یوسف سلیم چشتی نے نہایت شرح و بسط سے انجام دی ہے۔

.....और पढ़िए
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

लेखक की अन्य पुस्तकें

लेखक की अन्य पुस्तकें यहाँ पढ़ें।

पूरा देखिए

लोकप्रिय और ट्रेंडिंग

सबसे लोकप्रिय और ट्रेंडिंग उर्दू पुस्तकों का पता लगाएँ।

पूरा देखिए

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
बोलिए