سرورق
فکر حمد و نعت میں مطلع ہوا دیوان کا
مداح ہوں میں دل سے محمد کی آل کا
شدت ضعف نے یہ حال بنایا اپنا
پاؤں پھر ہوئینگے اور دشت مغیلاں ہوگا
جب دکھاتا ہوا منظور تماشا اپنا
دل بیتاب میں واقف ہوں ترے بدخو کا
کیا حال پوچھتے ہو دل داغدار کا
تری خاطر مزا دیکھا بہت دماغ جوانی کا
نہ گریباں کا الجھنا نہ کچھ دامن کا
بعد از فنا مقیم ہوا کوئے یار کا
محو نظارہ ہوا موسی عمران تیرا
ہر فن میں ہیں کامل ہمیں کیا کیا نہیں آنا
ہے یار پاس ذکر ہے چنگ و رباب کا
ترے جلال سے خورشید کو زوال ہوا
بجاے اشک مژگاں پر اگر لخت جگر ہوگا
ہمارے سامنے کچھ ذکر غیروں کا اگر ہوگا
سکۂ داغ جنوں ملتے جو دولت مانگتا
صبا چکراتی پھرتی ہے گلوں کو ہو گیا کھٹکا
ضعف زور اپنا جتاتا میں جو طاقت مانگتا
انہیں بھی راہ پر لایا زوال حسن کا دھڑکا
تیری ہیثی ہوئی اے گنبد گرداں کیا کیا
موت کے ہاتھ سے ضایع ہوئے انساں کیا کیا
کب وہ تیر نظر نہیں آتا
ابراے چشم تر نہیں ہے
ان کے ہنسنے سے دہن کا حال گریا کھل گیا
قد و بالا نظر نہیں آتا
شغل مے نوشی جوانروزوں ہمارا چھٹ گیا
تو نے ہمارے دل کو ستایا تو کیا ہوا
نہ داغ دیکھا نہ دہھنے کا کچھ خیال کیا
وہ اپنے جی سے جاتا ہے بناوٹ کا گماں کیسا
فروغ حسن کو اسنے شراب میں دیکھا
یار ہوتا نہیں دلبر اپنا
نہیں معلوم تم پر ترچھی نظر کرتے تو کیا ہوتا
صاحب تمہارے حسن کو مشہور کر دیا
دو دن میں ان گلوں کا عجب طور ہو گیا
شوق زوروں پہ ہے ضعف دل بیمار کھٹتا
سروقد لالہ رخ و غنچہ دہن یاد آیا
کنعان سے قافلہ نہیں ازخود روا نہ تھا
مضمون زلف و ذکر کمر شاعرانہ تھا
تری چال سے اب نہیں شکوہ وغم ترا چرخ کہن وہ چلن نہ رہا
یار مرا مجھ سے خفا ہو گیا
سر مرا تن سے جو کر ڈالے تو اے یار جدا
خود مزے دار طبیعت ہے تو ساماں کیسا
گھوڑا جو روند جاے مرے شہسوار کا
گر لب لعلین سے اک بوسہ عطا ہو جائیگا
مداح ابتدا سے ہوں میں اس امیر کا
رنج فرقت نہ رہا دیدۂ گریاں ٹھہرا
چل جاے جو ہاتھ تیغ زن کا
کون ہے جو کہ ترے راز کا جو یا نہ ہوا
مفت بدنام تو اے رشک مسیحا ہوگا
باندھ کر بیٹھا ہے وہ حور شمائل سہرا
کس پری زادے نے اس بزم میں گایا سہرا
ملتے ہیں ہاتھ ہاتھ لگینگے انار کب
انشا ہو وصف خال و خط گلعذار کب
ٹپکینگے اشک نکلے گا دل کا بخار کب
آج کل پانچوں میسر ہیں چھٹے کیونکر شراب
گفتگو کرتے مقابل میرے اے عندلیب
اس مہروش نے پی مے احمر تمام رات
دور سے تم مجھے دکھلاتے ہو تلوار عبث
عیسیٰ کا قول ہے کہ یہ ہے درد کا علاج
نہ ہوں گے حور کے بھی ایسے پیارے پیارے دانت
گھٹ جاے جو سرشک کا طوفاں کسی طرح
کچھ ایسی پلا دے مجھے اے پیر مغاں آج
روتے روتے ہوے ہیں دیدۂ تر میں سوراخ
زوال ہو نہ الٰہی کبھی کمال کے بعد
پھرے تلاش میں ہم آفتاب کے مانند
ہے نوک مژہ ان کی خدنگ سر فولاد
کترپروں کو نہ اے بانی ستم صیاد
کرے گا قل مجھ کو یار کیونکر
تن سے علٰحدہ ہوئی مشکل کو دیکھ کر
دور ساغر کا چلے ساقی دوبارا ایک اور
حال عشاق کا سنتے نہیں تنہا ہو کر
گل ان کے منہ کو تکتے ہیں گفتار دیکھ کر
مسی کی اداہٹ ہے جو تحریر سے باہر
تو رہیگا چمن حسن میں گرگل ہو کر
ان روزوں ابروباد کی کثر ہے کس قدر
منتظر رہتے ہیں تیرے طالب دیداروز
مٹتی نہیں ہے اس دل ناکام کی ہوس
وہ خال عنبریں نہیںزلف دوتا کے پاس
نہ دعا کی مجھے حاجت نہ دوا کی خواہش
مد نظر ہے آنکھوں کو دیدار کی تلاش
مژگاں سے ہے نہ ابروے خمدار سے غرض
ہے قافلہ کو مصر کے بازار کی تلاش
اپنے کیئے کی آپ سزا کیوں نہ پائے شمع
مدت کے بعد اسنے لکھا میرے نام خط
رکھتا ہے لاگ اس دل ناکام سے چراغ
شوق سے اب وہ سنا کرتے ہیں افسانہ عشق
ہے لطف ملاقات جو دو دل ہوں بہم صاف
تاکجا ضبط کروں نکلے نہ آنسو کب تک
چومے گی وہ منہ زلف سیہ کار کہاں تک
آزادگی اے شوخ ستمگار کہاں تک
کریگی شمع ضبط ایسا کہاں تک
شکوہ میں کروں ضعف نقاہت کا کہاں تک
امید ہے کہ آمد فصل بہار تک
دیگانہ اسے شربت دیدار کہاں تک
غفلت ہمشہ رہتی ہے ہوشیار سے الگ
شبزہ نہیں ہوا رخ دلدار سے الگ
صدقے بتوں پہ ہو مرے پہلو سے جاے دل
بڑھے بال زلفیں ہیں شانے کے قابل
یہ ہے وقت پر آزمانے کے قابل
بنا خورشید محشر روے قاتل
کیوں کر خبر کہیں یہ کسی ہجر سے ہم
کیا دیکھا تھا موسیٰ نے اجی طور کا عالم
بت غنچہ دہن پہ نثار ہوں میں نہیں جھوٹ کچھ اسمیں خدا کی قسم
مرنے کی مانگتے ہیں دعائیں خدا سے ہم
لگا ہوں میں اقرار سارے ہوے ہیں
زبان سنبھالو کہ ہم لایق عتاب نہیں
حامل ہیں انکے جور کے خوگر جفا کے ہیں
جلوہ ترا ہر شام و سحر دیکھ رہے ہیں
جو چیز نہیں آتی نظر دیکھ رہے ہیں
ماہوش خورشید وہیں حور پیکر سیکڑوں
دل کو مرے گیسو میں وہ الجھاے ہوئے ہیں
ایک دم میں کردین ہم برہم زمیں و آسماں
جوش پر ہے باغباں وحشت ہماری ان دنوں
اہل دنیا کو نہیں ہے چین دم بھر رات دن
کرو نہ بوسہ میں تکرار اچھی بات نہیں
نہیں ممکن کہ تیرے حکم سے باہر میں ہوں
یہ تو کیوں کر کہوں فریاد سے بڑھ کر میں ہوں
خار صحرا کو تو دعوی ہے کہ تشتر میں ہوں
جوبن پہ اپنے اپنے گل و برگ وبار ہیں
تامل سے نقد سخن دیکھتے ہیں
حجاب اٹھ گیا زیب محفل ہوے ہیں
زباں کھلتی چلی ہے بلبوںکو نام دھرتے ہیں
مرد جو کہتے ہیں منہ سے اسے کردیتے ہیں
دل پہ جب دست حنائی کبھی دھرتے ہیں
نالہ و آہ شرر بار کروں یا نہ کروں
عبث یہ دل ہے وہ دلدار نازنیں تو نہیں
ہاے پونچھے نہ کوے قاتل میں
کیا بنائے صانع قدرت نے پیارے ہاتھ پاؤں
ہزار جان سے صاحب نثار ہم بھی ہیں
نمود قدرت پروردگار ہم بھی ہیں
ہجوم خلق کا ہے گردیار ہم بھی ہیں
ایسی مردار کو کب ہم بخوشی لیتے ہیں
نماز کیسی کہاں کا روزہ ابھی میں شغل شراب میں ہوں
ہر ایک شعلہ سے جھکنا مرا شعار نہیں
ذوالفقار حیدری کی دھاک ہے کفار میں
ہر کوئی پھرتا ہے اپنے قتل کی تدبیر میں
کاٹ بڑھ کر تیغ سے ہے ابرو خمدار میں
وصال دل رہا ہے اور میں ہوں
صاحب نہ باز آئینگے اپنے ستم سے کیوں
فصل گل آئی ہے رنگت نہ بدل جاے کہیں
حسیں جو حسن کی دولت پہ ناز رکھتی ہیں
زلف شبرنگ کہاں یہ دل ناکام کہاں
ایک طرز ایک بیان ایک دہن رکھتے ہیں
عکس روے یار سے جلوہ ہے سارا چاند کو
کیونکر ہواے باغ جہاں دل پسند ہو
بوسہ کا نیل عارض جاناں سے دور ہو
طائر جاں کا نشیمن نہیں بھولا مجھ کو
کیا جانے میکشوں کے مقدر میں ہو نہ ہو
مرد آزاد ہوں کیوں ہو کوئی کھٹکا مجھ کو
اور برساے جو آفت تجھے برسانی ہو
کیوں دل جلوں کے لب پہ ہمشہ فغاں نہ ہو
دل اگر زلف سے الجھے تو پریشانی ہو
منہ کسی اور کا گر دیکھ کے میرا دیکھو
کہ دیجئے کہ مائل شوروفغاں نہ ہو
دل پھنسا زلف میں لو اور تماشا دیکھو
بس مبارک تمہیں اے حجرت موسی دیکھو
قتل کا حکم نہ بے جرم وخطادے مجھ کو
فضل سے تریے سب آسان ہے مشکل مجھ کو
خنجر ہے وہاں زیب کمر دیکھیے کیا ہو
ان پیاری نگاہوں کا اثر دیکھیے کیا ہو
لنترانی کا مزا آئے نظارا پہر ہو
ذبح دو چار کو ہر روز کیا کرتے ہو
مقتل میں آج دیکھیے کون ارجمند ہو
غیر کے دھوکے سے شب اس نے پکارا ہم کو
میں ہی پھرتا نہیں کچھ چار پہر راتوں کو
نہیں تیرے چہرے پہ اے یار ابرو
ممکن نہیں کہ جذب دلی کا ثر نہ ہو
چمن میں پھر رہے ہیں دوش پر لٹکائے کاکل کو
جا لڑی یار سے ہماری آنکھ
جلتا ہے محتسب مرے جام شراب سے
بھری ہیں مے سے مٹکے چل ہاے دور میخانہ
نہ تو مے ہے نہ جام باقی ہے
دیکھو بہار میرے دل داغدار کی
کاٹ لے میرے تن سے سر کوئی
چال ان کی نہیں ہے آفت ہے
ساقی ہے لب جو ہے وہ دلدار نہیں ہے
زندے پس جائینگے اور مردوں کو وحشت ہوگی
بازار حسن میں تجھے دلبر بنائیے
انہیں بلواہی سکتے ہیں نہ واں جانے کا یارا ہے
یہ ضعف سے حالت ہوئی تغیر ہماری
دوش نسیم پر بھی نہ بار گراں ہوے
بزم میں بلبل ہے گل ہے شمع ہے پروانہ ہے
کعبہ میں کی دعا تو اثر بھی عیاں ہوئے
درویش کو خیال فقط اپنی جان کا ہے
شعلہ بلند چرک پہ کس کی فغاں کا ہے
انہیں تحریر سرمہ کی اگر مد نظر ہو گی
قصے پریوں کے ہمیں یاد ہیں اچھے اچھے
دل میں ترے اے نگار کیا ہے
یقیں ہے حور اچھی خوبصورت بھی اگر ہوگی
جیتے جی کے آشنا ہیں پھر کسی کا کون ہے
جز علی رتبہ یہ کس شخص نے پایا کہئے
روح کی اس جسم کاکی سے جدائی ہوگئی
خال رخسار کو حیران تھے ہم کیا کہیے
نکلنا سخت مشکل ہوں کیوں کر کوے قاتل سے
ہمارے قتل کا باعث فقط حکم قضا ٹھہرے
روے انور کو اگر نور تجلی کہیے
مقابل میں ترے کیا منہ ہے کوئی دوسرا ٹھہرے
تنہا کبھی جو وہ بت بد خو نظر پڑے
ان کے بیمار کو شفا نہ ہوئی
تغیر ہے کبھی چہر کبھی بحال بھی ہے
آپ اک انکو بھی گھر سے نہ باہر نکلے
ہم ہی ان موذیوں سے جان بچا کر نکلے
بڑھ کے پنسل سے وہ گیسوے معنبر نکلے
حسن یوسف نہ خریدیں کبھی تل کے بدلے
ہم ہیں اس کوچہ میں سینہ سپر آنیوالے
چاہت غمزے جتا رہی ہے
آنکھوں پہ وہ زلف آرہی ہے
نہ میں رہا نہ نشان مزار باقی ہے
فراق یار میں گر ہم نے آہ کی ہوگی
زلف کا سودا سمجھ کر فکر کی زنجیر کی
تم تمنا مرے مژگاں سے نکالے جاتے
سرمہ چشم سیہ گر باڑہ ہے شمشیر کی
فنا آخر ہے سب کو اٹھاے جس کا چاہے
مزا ہے امتحاں کا آزمالے جس کا جی چاہے
کون ہے وہ حسن جسکا شہرۂ آفاق ہے
تپ فرقت سے جسم جلتا ہے
آخر غم فراق کے صدمے دکھا چلی
پڑتی ہے مجھ پہ چشم فسونگر گھڑی گھڑی
پھر گیا مہر کا منہ کیوں یہ اجالا کیا ہے
غیروں سے بجز رنج کے راحت نہیں ہوتی
آیا ہے ابر جھونکے رحمت خدا کی ہے
گریۂ مستی میں کسکو دور ساغر چاہیے
ساقی سے آرزو نہ کرے جام کے لئے
درد کیوں دل میں نہ اے ناصح ناداں اٹھے
اے بتو دل میں کیا سمائی ہے
نہیں لایق میں انکی محفل کے
زبانی وعدے ہوے خط کئی ہزار آئے
خدا کا بھی کچھ خوف اصلا نہیں ہے
شب ہجر کس دل میں دھڑکا نہیں ہے
یہ اس بت کے دل میں سمائی ہوئی ہے
صبح ہو جائیگی بڑھ جائگا شر جانے دے
جوش وحشت کی ہیں سامان خدا خیر کرے
یہ کل کا ذکر ہے بت مہربان تھے
گلی کو چوں میں کب شور و فغاں تھے
جان لڑا دیجے تیغ قاتل سے
وہ کہتے ہیں اٹھو سحر ہوگئی
عبث زریں کلا ہی مسند شاہی پہ نازاں ہے
وہ آکے سب اسیروں کو آزاد کر گئے
ہوں ایسے بے خبر کیا اپنی خبر رہے
پھانسا سو طرح جس کو تاکے
فکر عشق کمر نہیں آتی
سوچ کیسا بات کیا ہے کون بگڑے یار سے
اوروں سے ہنسیئے بولئے دل شاد کیجئے
مہندی ہاتھوں میں ملی رنگ جمانے کے لئے
انکی محفل سے بمشکل آئے
ہے آرزو پری کی نہ خواہش ہے حور کی
ہر اک بات میں ورد گالی ہوئی ہے
یہ حسن یہ صورت یہ شمائل تو نہیں ہے
ستاتی ہے ہر بار زلف تمہاری
انکو تکلیف ہوئی زلف کے سلجھانے سے
تیغ نگاہ ناز کلیجہ پہ چلی گئی
عشق صنم میں آپ کو رسوا نہ کیجیئے
امید وصل کی کشش دل کے ساتھ ہے
یہ حسن بہ صورت یہ شمائل تو نہیں ہے
کس طرح ڈھونڈوں میں اسے پاؤں کہاں سے
ہمارے ہر دہان زخم سے قاتل دعا نکلے
لالہ کی طرح سینہ میں داغ جگری ہے
دہاں تنک میں شاعر کو گفتگو کیا ہے
سر میں خیال زلف شکن در شکن رہے
رات کٹتی ہے نہ نیند آتی ہے آفت کیا ہے
ابر ہے مے ہے یار جانی ہے
گفتگو اس میں ہے کیا آپ کو حجت کیا ہے
تاک میں ہوں کوئی حکمت کیجئے
کیا قضا آئی کسی چشم کے بیمار کی ہے
آتش کا دھواں یا کہ یہ مسی کی دھڑی ہے
وہ سرمہ لگاتے ہیں جو اکثر کئی دن سے
ان سے سواے ظلم و جفا کچھ نہ پوچھیئے
ہنستے ہیں غیر روتے ہوے دیکھ کر مجھے
داغ جگر نصیب ہوا ہجر یار سے
جستجو میں طائر عقل رسا کے پرکٹے
بڑھاپے میں بھی ہم کب چوکتے ہیں دیکھ بھالی سے
نئی اک بات اپنی خوبی تقدیر سے نکلی
نہ پہونچے ان گلوں کو کچھ ضرر باد شمالی سے
مرتب جب ہوا دیوان آغا
قطعہ تاریخ طبغراد فقیر محمد خان صاحب انور مالک۔۔۔۔۔۔۔
YEAR1886
CONTRIBUTORRekhta
PUBLISHER Matba Ejaz Mohammadi, Agra
YEAR1886
CONTRIBUTORRekhta
PUBLISHER Matba Ejaz Mohammadi, Agra
سرورق
فکر حمد و نعت میں مطلع ہوا دیوان کا
مداح ہوں میں دل سے محمد کی آل کا
شدت ضعف نے یہ حال بنایا اپنا
پاؤں پھر ہوئینگے اور دشت مغیلاں ہوگا
جب دکھاتا ہوا منظور تماشا اپنا
دل بیتاب میں واقف ہوں ترے بدخو کا
کیا حال پوچھتے ہو دل داغدار کا
تری خاطر مزا دیکھا بہت دماغ جوانی کا
نہ گریباں کا الجھنا نہ کچھ دامن کا
بعد از فنا مقیم ہوا کوئے یار کا
محو نظارہ ہوا موسی عمران تیرا
ہر فن میں ہیں کامل ہمیں کیا کیا نہیں آنا
ہے یار پاس ذکر ہے چنگ و رباب کا
ترے جلال سے خورشید کو زوال ہوا
بجاے اشک مژگاں پر اگر لخت جگر ہوگا
ہمارے سامنے کچھ ذکر غیروں کا اگر ہوگا
سکۂ داغ جنوں ملتے جو دولت مانگتا
صبا چکراتی پھرتی ہے گلوں کو ہو گیا کھٹکا
ضعف زور اپنا جتاتا میں جو طاقت مانگتا
انہیں بھی راہ پر لایا زوال حسن کا دھڑکا
تیری ہیثی ہوئی اے گنبد گرداں کیا کیا
موت کے ہاتھ سے ضایع ہوئے انساں کیا کیا
کب وہ تیر نظر نہیں آتا
ابراے چشم تر نہیں ہے
ان کے ہنسنے سے دہن کا حال گریا کھل گیا
قد و بالا نظر نہیں آتا
شغل مے نوشی جوانروزوں ہمارا چھٹ گیا
تو نے ہمارے دل کو ستایا تو کیا ہوا
نہ داغ دیکھا نہ دہھنے کا کچھ خیال کیا
وہ اپنے جی سے جاتا ہے بناوٹ کا گماں کیسا
فروغ حسن کو اسنے شراب میں دیکھا
یار ہوتا نہیں دلبر اپنا
نہیں معلوم تم پر ترچھی نظر کرتے تو کیا ہوتا
صاحب تمہارے حسن کو مشہور کر دیا
دو دن میں ان گلوں کا عجب طور ہو گیا
شوق زوروں پہ ہے ضعف دل بیمار کھٹتا
سروقد لالہ رخ و غنچہ دہن یاد آیا
کنعان سے قافلہ نہیں ازخود روا نہ تھا
مضمون زلف و ذکر کمر شاعرانہ تھا
تری چال سے اب نہیں شکوہ وغم ترا چرخ کہن وہ چلن نہ رہا
یار مرا مجھ سے خفا ہو گیا
سر مرا تن سے جو کر ڈالے تو اے یار جدا
خود مزے دار طبیعت ہے تو ساماں کیسا
گھوڑا جو روند جاے مرے شہسوار کا
گر لب لعلین سے اک بوسہ عطا ہو جائیگا
مداح ابتدا سے ہوں میں اس امیر کا
رنج فرقت نہ رہا دیدۂ گریاں ٹھہرا
چل جاے جو ہاتھ تیغ زن کا
کون ہے جو کہ ترے راز کا جو یا نہ ہوا
مفت بدنام تو اے رشک مسیحا ہوگا
باندھ کر بیٹھا ہے وہ حور شمائل سہرا
کس پری زادے نے اس بزم میں گایا سہرا
ملتے ہیں ہاتھ ہاتھ لگینگے انار کب
انشا ہو وصف خال و خط گلعذار کب
ٹپکینگے اشک نکلے گا دل کا بخار کب
آج کل پانچوں میسر ہیں چھٹے کیونکر شراب
گفتگو کرتے مقابل میرے اے عندلیب
اس مہروش نے پی مے احمر تمام رات
دور سے تم مجھے دکھلاتے ہو تلوار عبث
عیسیٰ کا قول ہے کہ یہ ہے درد کا علاج
نہ ہوں گے حور کے بھی ایسے پیارے پیارے دانت
گھٹ جاے جو سرشک کا طوفاں کسی طرح
کچھ ایسی پلا دے مجھے اے پیر مغاں آج
روتے روتے ہوے ہیں دیدۂ تر میں سوراخ
زوال ہو نہ الٰہی کبھی کمال کے بعد
پھرے تلاش میں ہم آفتاب کے مانند
ہے نوک مژہ ان کی خدنگ سر فولاد
کترپروں کو نہ اے بانی ستم صیاد
کرے گا قل مجھ کو یار کیونکر
تن سے علٰحدہ ہوئی مشکل کو دیکھ کر
دور ساغر کا چلے ساقی دوبارا ایک اور
حال عشاق کا سنتے نہیں تنہا ہو کر
گل ان کے منہ کو تکتے ہیں گفتار دیکھ کر
مسی کی اداہٹ ہے جو تحریر سے باہر
تو رہیگا چمن حسن میں گرگل ہو کر
ان روزوں ابروباد کی کثر ہے کس قدر
منتظر رہتے ہیں تیرے طالب دیداروز
مٹتی نہیں ہے اس دل ناکام کی ہوس
وہ خال عنبریں نہیںزلف دوتا کے پاس
نہ دعا کی مجھے حاجت نہ دوا کی خواہش
مد نظر ہے آنکھوں کو دیدار کی تلاش
مژگاں سے ہے نہ ابروے خمدار سے غرض
ہے قافلہ کو مصر کے بازار کی تلاش
اپنے کیئے کی آپ سزا کیوں نہ پائے شمع
مدت کے بعد اسنے لکھا میرے نام خط
رکھتا ہے لاگ اس دل ناکام سے چراغ
شوق سے اب وہ سنا کرتے ہیں افسانہ عشق
ہے لطف ملاقات جو دو دل ہوں بہم صاف
تاکجا ضبط کروں نکلے نہ آنسو کب تک
چومے گی وہ منہ زلف سیہ کار کہاں تک
آزادگی اے شوخ ستمگار کہاں تک
کریگی شمع ضبط ایسا کہاں تک
شکوہ میں کروں ضعف نقاہت کا کہاں تک
امید ہے کہ آمد فصل بہار تک
دیگانہ اسے شربت دیدار کہاں تک
غفلت ہمشہ رہتی ہے ہوشیار سے الگ
شبزہ نہیں ہوا رخ دلدار سے الگ
صدقے بتوں پہ ہو مرے پہلو سے جاے دل
بڑھے بال زلفیں ہیں شانے کے قابل
یہ ہے وقت پر آزمانے کے قابل
بنا خورشید محشر روے قاتل
کیوں کر خبر کہیں یہ کسی ہجر سے ہم
کیا دیکھا تھا موسیٰ نے اجی طور کا عالم
بت غنچہ دہن پہ نثار ہوں میں نہیں جھوٹ کچھ اسمیں خدا کی قسم
مرنے کی مانگتے ہیں دعائیں خدا سے ہم
لگا ہوں میں اقرار سارے ہوے ہیں
زبان سنبھالو کہ ہم لایق عتاب نہیں
حامل ہیں انکے جور کے خوگر جفا کے ہیں
جلوہ ترا ہر شام و سحر دیکھ رہے ہیں
جو چیز نہیں آتی نظر دیکھ رہے ہیں
ماہوش خورشید وہیں حور پیکر سیکڑوں
دل کو مرے گیسو میں وہ الجھاے ہوئے ہیں
ایک دم میں کردین ہم برہم زمیں و آسماں
جوش پر ہے باغباں وحشت ہماری ان دنوں
اہل دنیا کو نہیں ہے چین دم بھر رات دن
کرو نہ بوسہ میں تکرار اچھی بات نہیں
نہیں ممکن کہ تیرے حکم سے باہر میں ہوں
یہ تو کیوں کر کہوں فریاد سے بڑھ کر میں ہوں
خار صحرا کو تو دعوی ہے کہ تشتر میں ہوں
جوبن پہ اپنے اپنے گل و برگ وبار ہیں
تامل سے نقد سخن دیکھتے ہیں
حجاب اٹھ گیا زیب محفل ہوے ہیں
زباں کھلتی چلی ہے بلبوںکو نام دھرتے ہیں
مرد جو کہتے ہیں منہ سے اسے کردیتے ہیں
دل پہ جب دست حنائی کبھی دھرتے ہیں
نالہ و آہ شرر بار کروں یا نہ کروں
عبث یہ دل ہے وہ دلدار نازنیں تو نہیں
ہاے پونچھے نہ کوے قاتل میں
کیا بنائے صانع قدرت نے پیارے ہاتھ پاؤں
ہزار جان سے صاحب نثار ہم بھی ہیں
نمود قدرت پروردگار ہم بھی ہیں
ہجوم خلق کا ہے گردیار ہم بھی ہیں
ایسی مردار کو کب ہم بخوشی لیتے ہیں
نماز کیسی کہاں کا روزہ ابھی میں شغل شراب میں ہوں
ہر ایک شعلہ سے جھکنا مرا شعار نہیں
ذوالفقار حیدری کی دھاک ہے کفار میں
ہر کوئی پھرتا ہے اپنے قتل کی تدبیر میں
کاٹ بڑھ کر تیغ سے ہے ابرو خمدار میں
وصال دل رہا ہے اور میں ہوں
صاحب نہ باز آئینگے اپنے ستم سے کیوں
فصل گل آئی ہے رنگت نہ بدل جاے کہیں
حسیں جو حسن کی دولت پہ ناز رکھتی ہیں
زلف شبرنگ کہاں یہ دل ناکام کہاں
ایک طرز ایک بیان ایک دہن رکھتے ہیں
عکس روے یار سے جلوہ ہے سارا چاند کو
کیونکر ہواے باغ جہاں دل پسند ہو
بوسہ کا نیل عارض جاناں سے دور ہو
طائر جاں کا نشیمن نہیں بھولا مجھ کو
کیا جانے میکشوں کے مقدر میں ہو نہ ہو
مرد آزاد ہوں کیوں ہو کوئی کھٹکا مجھ کو
اور برساے جو آفت تجھے برسانی ہو
کیوں دل جلوں کے لب پہ ہمشہ فغاں نہ ہو
دل اگر زلف سے الجھے تو پریشانی ہو
منہ کسی اور کا گر دیکھ کے میرا دیکھو
کہ دیجئے کہ مائل شوروفغاں نہ ہو
دل پھنسا زلف میں لو اور تماشا دیکھو
بس مبارک تمہیں اے حجرت موسی دیکھو
قتل کا حکم نہ بے جرم وخطادے مجھ کو
فضل سے تریے سب آسان ہے مشکل مجھ کو
خنجر ہے وہاں زیب کمر دیکھیے کیا ہو
ان پیاری نگاہوں کا اثر دیکھیے کیا ہو
لنترانی کا مزا آئے نظارا پہر ہو
ذبح دو چار کو ہر روز کیا کرتے ہو
مقتل میں آج دیکھیے کون ارجمند ہو
غیر کے دھوکے سے شب اس نے پکارا ہم کو
میں ہی پھرتا نہیں کچھ چار پہر راتوں کو
نہیں تیرے چہرے پہ اے یار ابرو
ممکن نہیں کہ جذب دلی کا ثر نہ ہو
چمن میں پھر رہے ہیں دوش پر لٹکائے کاکل کو
جا لڑی یار سے ہماری آنکھ
جلتا ہے محتسب مرے جام شراب سے
بھری ہیں مے سے مٹکے چل ہاے دور میخانہ
نہ تو مے ہے نہ جام باقی ہے
دیکھو بہار میرے دل داغدار کی
کاٹ لے میرے تن سے سر کوئی
چال ان کی نہیں ہے آفت ہے
ساقی ہے لب جو ہے وہ دلدار نہیں ہے
زندے پس جائینگے اور مردوں کو وحشت ہوگی
بازار حسن میں تجھے دلبر بنائیے
انہیں بلواہی سکتے ہیں نہ واں جانے کا یارا ہے
یہ ضعف سے حالت ہوئی تغیر ہماری
دوش نسیم پر بھی نہ بار گراں ہوے
بزم میں بلبل ہے گل ہے شمع ہے پروانہ ہے
کعبہ میں کی دعا تو اثر بھی عیاں ہوئے
درویش کو خیال فقط اپنی جان کا ہے
شعلہ بلند چرک پہ کس کی فغاں کا ہے
انہیں تحریر سرمہ کی اگر مد نظر ہو گی
قصے پریوں کے ہمیں یاد ہیں اچھے اچھے
دل میں ترے اے نگار کیا ہے
یقیں ہے حور اچھی خوبصورت بھی اگر ہوگی
جیتے جی کے آشنا ہیں پھر کسی کا کون ہے
جز علی رتبہ یہ کس شخص نے پایا کہئے
روح کی اس جسم کاکی سے جدائی ہوگئی
خال رخسار کو حیران تھے ہم کیا کہیے
نکلنا سخت مشکل ہوں کیوں کر کوے قاتل سے
ہمارے قتل کا باعث فقط حکم قضا ٹھہرے
روے انور کو اگر نور تجلی کہیے
مقابل میں ترے کیا منہ ہے کوئی دوسرا ٹھہرے
تنہا کبھی جو وہ بت بد خو نظر پڑے
ان کے بیمار کو شفا نہ ہوئی
تغیر ہے کبھی چہر کبھی بحال بھی ہے
آپ اک انکو بھی گھر سے نہ باہر نکلے
ہم ہی ان موذیوں سے جان بچا کر نکلے
بڑھ کے پنسل سے وہ گیسوے معنبر نکلے
حسن یوسف نہ خریدیں کبھی تل کے بدلے
ہم ہیں اس کوچہ میں سینہ سپر آنیوالے
چاہت غمزے جتا رہی ہے
آنکھوں پہ وہ زلف آرہی ہے
نہ میں رہا نہ نشان مزار باقی ہے
فراق یار میں گر ہم نے آہ کی ہوگی
زلف کا سودا سمجھ کر فکر کی زنجیر کی
تم تمنا مرے مژگاں سے نکالے جاتے
سرمہ چشم سیہ گر باڑہ ہے شمشیر کی
فنا آخر ہے سب کو اٹھاے جس کا چاہے
مزا ہے امتحاں کا آزمالے جس کا جی چاہے
کون ہے وہ حسن جسکا شہرۂ آفاق ہے
تپ فرقت سے جسم جلتا ہے
آخر غم فراق کے صدمے دکھا چلی
پڑتی ہے مجھ پہ چشم فسونگر گھڑی گھڑی
پھر گیا مہر کا منہ کیوں یہ اجالا کیا ہے
غیروں سے بجز رنج کے راحت نہیں ہوتی
آیا ہے ابر جھونکے رحمت خدا کی ہے
گریۂ مستی میں کسکو دور ساغر چاہیے
ساقی سے آرزو نہ کرے جام کے لئے
درد کیوں دل میں نہ اے ناصح ناداں اٹھے
اے بتو دل میں کیا سمائی ہے
نہیں لایق میں انکی محفل کے
زبانی وعدے ہوے خط کئی ہزار آئے
خدا کا بھی کچھ خوف اصلا نہیں ہے
شب ہجر کس دل میں دھڑکا نہیں ہے
یہ اس بت کے دل میں سمائی ہوئی ہے
صبح ہو جائیگی بڑھ جائگا شر جانے دے
جوش وحشت کی ہیں سامان خدا خیر کرے
یہ کل کا ذکر ہے بت مہربان تھے
گلی کو چوں میں کب شور و فغاں تھے
جان لڑا دیجے تیغ قاتل سے
وہ کہتے ہیں اٹھو سحر ہوگئی
عبث زریں کلا ہی مسند شاہی پہ نازاں ہے
وہ آکے سب اسیروں کو آزاد کر گئے
ہوں ایسے بے خبر کیا اپنی خبر رہے
پھانسا سو طرح جس کو تاکے
فکر عشق کمر نہیں آتی
سوچ کیسا بات کیا ہے کون بگڑے یار سے
اوروں سے ہنسیئے بولئے دل شاد کیجئے
مہندی ہاتھوں میں ملی رنگ جمانے کے لئے
انکی محفل سے بمشکل آئے
ہے آرزو پری کی نہ خواہش ہے حور کی
ہر اک بات میں ورد گالی ہوئی ہے
یہ حسن یہ صورت یہ شمائل تو نہیں ہے
ستاتی ہے ہر بار زلف تمہاری
انکو تکلیف ہوئی زلف کے سلجھانے سے
تیغ نگاہ ناز کلیجہ پہ چلی گئی
عشق صنم میں آپ کو رسوا نہ کیجیئے
امید وصل کی کشش دل کے ساتھ ہے
یہ حسن بہ صورت یہ شمائل تو نہیں ہے
کس طرح ڈھونڈوں میں اسے پاؤں کہاں سے
ہمارے ہر دہان زخم سے قاتل دعا نکلے
لالہ کی طرح سینہ میں داغ جگری ہے
دہاں تنک میں شاعر کو گفتگو کیا ہے
سر میں خیال زلف شکن در شکن رہے
رات کٹتی ہے نہ نیند آتی ہے آفت کیا ہے
ابر ہے مے ہے یار جانی ہے
گفتگو اس میں ہے کیا آپ کو حجت کیا ہے
تاک میں ہوں کوئی حکمت کیجئے
کیا قضا آئی کسی چشم کے بیمار کی ہے
آتش کا دھواں یا کہ یہ مسی کی دھڑی ہے
وہ سرمہ لگاتے ہیں جو اکثر کئی دن سے
ان سے سواے ظلم و جفا کچھ نہ پوچھیئے
ہنستے ہیں غیر روتے ہوے دیکھ کر مجھے
داغ جگر نصیب ہوا ہجر یار سے
جستجو میں طائر عقل رسا کے پرکٹے
بڑھاپے میں بھی ہم کب چوکتے ہیں دیکھ بھالی سے
نئی اک بات اپنی خوبی تقدیر سے نکلی
نہ پہونچے ان گلوں کو کچھ ضرر باد شمالی سے
مرتب جب ہوا دیوان آغا
قطعہ تاریخ طبغراد فقیر محمد خان صاحب انور مالک۔۔۔۔۔۔۔
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.