کھلتا نہیں دروازہ
کفنی کو دھولیتے
بادل کبھی ہوتے ہم
اک پیار کہانی تھی
شب ماگھ مہینے کی
شب لمبی ہو جائے
کرتی کوئی دھانی تھی
کب شام ہری ہوگی
اک پیڑ ہے گاؤں میں
ہانڈی میں ابال آیا
کوئی ہجر میں جلتا ہے
بادل اسے کہتے تھے
دریا کا کنارا ہے
دو ہونٹ رسیلے ہیں
جوبن کی جھکی ڈالی
کوئی دور اڑے طوطا
ترے صحن میں بیری تھی
تھانے کی حوالاتیں
پیپل کا گھنا سایا
ساون کی گھٹا لکھنا
دریا سے اڑے بگلے
پانی سے بھرے بادل
اک خواب سناتے تھے
زردی ترے گالوں کی
جادو بھری باتوں میں
جھرنے سے گرے پانی
بور آیا پھلا ہی پر
کوئی دور اڑے بدلی
آوارہ سے ہم گھومیں
اک بیل ہے توری کی
واپس نہ کبھی آتے
تقدیر نہیں بھولی
حلاج کی سولی تھی
در پیش سفر آئے
مہماں ترے گاؤں میں
دو میٹھے مکھانے تھے
بادل بھرے پانی سے
مرکی میں لگا ہیرا
پھولوں پر تتلی تھی
مٹیار وہ گاؤں کی
تتلی کو ستاتے تھے
پلکوں سے لگالے گی
برسات کے دن آئے
جنگل میں پی بولے
ہیں موتی چھلیوں میں
پیپل اک آنگن میں
گاگر بھری پانی کی
رس کان میں گھولے گی
پاؤں میں پڑے چھالے
چالاک بڑی ہو تم
ہم پھول کھلاتے تھے
صحرا مرے اندر کا
صحرا مرے اندر کا
سیبوں بھری تھالی تھی
آنچل کوئی دھانی تھا
تندور تپاتی ہے
کیوں خاک سلگتی ہے
تھل راستہ کیا روکیں
گاؤں کی کڑی رسمیں
دو پھول سے کھلتے تھے
سینے سے اٹھے ہوکے
چڑیاں کبھی چہکیں گی
بہتے ہوئے دھاروں کا
لبریز تری باتیں
مصری کی ڈلی ہوتم
ڈر کاٹ دیئے میں نے
ترے دور محل مائے
برسات کے جھالوں میں
جلتے ہوئے لب سائیں
کوئی بہتا سواں آئے
جوتی ملتانی تھی
کیا دل کی دوا لیتے
شہنائی بجے ڈھولا
کفنی کوئی سلتی ہے
ہمزاد بہت رویا
خوشبو نہ چھپا گوری
شہتوت کے دو دانے
بارات کی روٹی ہے
تاریک مری راتیں
بادل کوئی بھورے ہیں
بازار کپاس آئی
دل سخت مشینوں کے
سل کالی کراچی کی
پانی دریاؤں میں
دریا کے چڑھے ریلے
جھرمٹ کوئی تاروں کا
دکھ لال پرندہ ہے
کرتے کے بٹن ٹانکو
طوطے سبھی چوری کے
شوکیس میں دو ہیرے
بادل کہیں چھائے ہیں
بدلی کوئی دور اڑتی
تقدیر بدل دے گا
ترے پیار کا صندل تھا
پازیب کھنکتی ہے
گندم کی ہری بالی
بصرے کی کھجوریں ہیں
تنہائی میں رس گھولے
بدلی کوئی پاگل تھی
بازار بکیں موتی
مل مل دھوئے چولی
اک بے نام سا رشتہ
سولہویں سال کی باتیں
تیری سیج گلابی
کتنا درد کو کاتیں
املی کا چٹخارہ
جب قسمیں کھاتی ہو
اسکول کا رستہ ہے
چوری کی ملاقاتیں
اک جوڑا ہنسوں کا
دو پیڑ چناروں کے
جاپانی گلدستے
تری پینگ ہلارے پر
ماہیا مرا گاؤں کا
جن مست جوانی کا
ہر رات بچالے گی
پوری نہ ہوئیں قسمیں
دکھ سخت دراڑوں کے
بارش میں ستائے گی
مٹی کا کھلونا ہے
کھلتا نہیں دروازہ
کفنی کو دھولیتے
بادل کبھی ہوتے ہم
اک پیار کہانی تھی
شب ماگھ مہینے کی
شب لمبی ہو جائے
کرتی کوئی دھانی تھی
کب شام ہری ہوگی
اک پیڑ ہے گاؤں میں
ہانڈی میں ابال آیا
کوئی ہجر میں جلتا ہے
بادل اسے کہتے تھے
دریا کا کنارا ہے
دو ہونٹ رسیلے ہیں
جوبن کی جھکی ڈالی
کوئی دور اڑے طوطا
ترے صحن میں بیری تھی
تھانے کی حوالاتیں
پیپل کا گھنا سایا
ساون کی گھٹا لکھنا
دریا سے اڑے بگلے
پانی سے بھرے بادل
اک خواب سناتے تھے
زردی ترے گالوں کی
جادو بھری باتوں میں
جھرنے سے گرے پانی
بور آیا پھلا ہی پر
کوئی دور اڑے بدلی
آوارہ سے ہم گھومیں
اک بیل ہے توری کی
واپس نہ کبھی آتے
تقدیر نہیں بھولی
حلاج کی سولی تھی
در پیش سفر آئے
مہماں ترے گاؤں میں
دو میٹھے مکھانے تھے
بادل بھرے پانی سے
مرکی میں لگا ہیرا
پھولوں پر تتلی تھی
مٹیار وہ گاؤں کی
تتلی کو ستاتے تھے
پلکوں سے لگالے گی
برسات کے دن آئے
جنگل میں پی بولے
ہیں موتی چھلیوں میں
پیپل اک آنگن میں
گاگر بھری پانی کی
رس کان میں گھولے گی
پاؤں میں پڑے چھالے
چالاک بڑی ہو تم
ہم پھول کھلاتے تھے
صحرا مرے اندر کا
صحرا مرے اندر کا
سیبوں بھری تھالی تھی
آنچل کوئی دھانی تھا
تندور تپاتی ہے
کیوں خاک سلگتی ہے
تھل راستہ کیا روکیں
گاؤں کی کڑی رسمیں
دو پھول سے کھلتے تھے
سینے سے اٹھے ہوکے
چڑیاں کبھی چہکیں گی
بہتے ہوئے دھاروں کا
لبریز تری باتیں
مصری کی ڈلی ہوتم
ڈر کاٹ دیئے میں نے
ترے دور محل مائے
برسات کے جھالوں میں
جلتے ہوئے لب سائیں
کوئی بہتا سواں آئے
جوتی ملتانی تھی
کیا دل کی دوا لیتے
شہنائی بجے ڈھولا
کفنی کوئی سلتی ہے
ہمزاد بہت رویا
خوشبو نہ چھپا گوری
شہتوت کے دو دانے
بارات کی روٹی ہے
تاریک مری راتیں
بادل کوئی بھورے ہیں
بازار کپاس آئی
دل سخت مشینوں کے
سل کالی کراچی کی
پانی دریاؤں میں
دریا کے چڑھے ریلے
جھرمٹ کوئی تاروں کا
دکھ لال پرندہ ہے
کرتے کے بٹن ٹانکو
طوطے سبھی چوری کے
شوکیس میں دو ہیرے
بادل کہیں چھائے ہیں
بدلی کوئی دور اڑتی
تقدیر بدل دے گا
ترے پیار کا صندل تھا
پازیب کھنکتی ہے
گندم کی ہری بالی
بصرے کی کھجوریں ہیں
تنہائی میں رس گھولے
بدلی کوئی پاگل تھی
بازار بکیں موتی
مل مل دھوئے چولی
اک بے نام سا رشتہ
سولہویں سال کی باتیں
تیری سیج گلابی
کتنا درد کو کاتیں
املی کا چٹخارہ
جب قسمیں کھاتی ہو
اسکول کا رستہ ہے
چوری کی ملاقاتیں
اک جوڑا ہنسوں کا
دو پیڑ چناروں کے
جاپانی گلدستے
تری پینگ ہلارے پر
ماہیا مرا گاؤں کا
جن مست جوانی کا
ہر رات بچالے گی
پوری نہ ہوئیں قسمیں
دکھ سخت دراڑوں کے
بارش میں ستائے گی
مٹی کا کھلونا ہے
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔