سرورق
فہرست
محفل
نئے ادبی رجحانات اور نو آبادیاتی فکر
ادب اور جمہوریت
اردو زبان وادب کی صورت حال
غزل آباد اور شمس الرحمٰن فاروقی۔۔۔ چند معروضات
نئی شاعری، ایک سوال اور ہمارا فرض
نئی شاعری پر ایک فرمائشی مضمون
زرہ امتثال امر
معنی واحد اور معنی اضافی کی کش مکش
لاٹ صاحب
پکنک
سنو ثریا!
انگوٹھی
بادشاہ
اپنی ہی نمائش سے غیر حاضر مصّور
ایک آئینہ فروش کا قضیہ
چھچھو ندروں کی مطمئن دنیا
پس منظر میں نا مناسب موسیقی کا استعمال
مبشر علی زیدی
کس بات سے ڈرتے ہیں خورشید صاحب
آتش فشاں
آرزو ہے تو زندگانی ہے
میرا راستہ
شجر کی علامت
نئے ضحاک
ہزارہ بستی والوں کا حزنیہ
لیاری کا حزنیہ
شامی نقل مکانیوں کا حزنیہ
یاد گرد
نظم
نظم
نظم
نظم
انٹر ویو
ہوا ہمیں جینا سکھاتی ہے
ایک دن میں اجڑ جاؤں گا
اگر میں ہوا ہوتا
پہلے سے پہلے تم کیا تھیں
من وتو
محبت کے اک لفظ سے
جلا وطنی کے صحرا میں
محفوظ
جنگ کے دوران
صبر اور شتیلا کو جاتی ہولناک خواب کی بس
افواہیں
شلمت
میں یہاں سے جا رہا ہوں
چھا جاؤ مجھ میں
تہذیب
اس کے ساتھ اس میں
منظر
صبرو برداشت میں نہیں کم ہم
کہاں گو کوئی قدروقیمت روپے کی
بن تمھارے جس جگہ جاتا ہوں میں
دن تمھارا ہے، شب تمہاری ہے
نظم میں تم ہو نثر میں تم ہو
بسر ہوتی ہے ان کے ساتھ جو شام
ہو تمھیں سچ مچ اگر ہم سے لگاؤ
وہ دن عمر بھر ہم نہیں بھول سکتے
مئے ناب چھڑوا رہا ہے حکیم
لگاتی ہے جو داغ دل پر محبت
دنیا میں نہیں کوئی مجھے دیکھنے والا
جرم جو تھا ہی نہیں، اس کی صفائی میں گزر جائے
بات کرنے کی اجازت بھی نہیں چاہتے ہم
اس کا انکار بھی حق میں تھا سراسر میرے
اسی جہاں میں ہوں لیکن جہاں نہیں میرا
کنار خواب گراں بار پر رکا ہوا ہوں
وقت کچھ اتنا برا تو کبھی آیا نہیں تھا
چھوڑ، یہ بود و باش کسی دن
در دیوار دریچہ اس کا
خواب آرام نہںی، خواب پریشانی ہے
سکھی رہو اور دکھ سے مالا مال رہو
کچھ روشنی تھی چاروں طرف جو کہ رواں کی
دیکھنا ہے کب زمیں کو خالی کر جاتا ہے دن
یہ جو دروازہ ہے بے کار میں کب کھلتا ہے
گزرے نہیں اور گزر گئے ہم
خود پہ جب دشت کی وحشت کو مسلط کروں گا
خوابوں کو آنکھوں سے منہا کرتی ہے
ویسے میں نے دنیا میں کیا دیکھا ہے
شور کروں گا اور نہ کچھ بھی بولوں گا
میرے لاکھ کہنے پہ روشنی نہیں کر رہا
چیختے ہیں در و دیوار نہیں ہوتا میں
جب کسی ایک کو رہا کیا جائے
دریاؤں کو گیت سنایا کر آتا ہوں
تاریکیوں کو آگ لگے اور دیا جلے
سو رہیں گے کہ جاگتے رہیں گے
لہلہاتی ہوئی شاداب زمیں چاہتے ہیں
حسن فانی ہے جوانی کے فسانے تک ہے
سبھی کے سامنے آنکھوں کو چار کرتا ہوا
پتے خزاں کی نذر کیے اور پھول بھی
تصور خرد لیے سرور کی طرح
رگ جاں سے اٹھی اک ہو نہیں باقی رہا کچھ بھی
چلے جو ہم نکل آئے خود اپنے ہی اثر سے بھی
ریزہ ریزہ گر بکھر جاؤں تو ہو تسکین شوق
تمنا ساتھ رکھیں گے، ارادے ساتھ رکھیں گے
ہم اوج ثریا میں بھی اس حال میں اترے
شام ڈھلتے ہی ترے دھیان میں آجاتا ہوں
وفا کا شوق یہ کس انتہا میں لے آیا
وہ ایک خواب کہ آنکھوں میں جگمگا رہا ہے
چمگادڑ
وضاحت کی ضرورت
پانچواں انٹر نیشنل میں بکر پرائز اور لیڈیا ڈیوس کے افسانچے
دم تحریر
پس تحریر
ائین بینکس: ایک تعارف
ائین بینکس: آخری انٹر ویو
میں اسرائیل کے ثقافتی بائکاٹ کی حمایت کیوں کررہا ہوں
ناول نگارہ جو مصری فوج کا دوست بن گیا
ایلس منرو: دھماکے کے ساتھ رخصت
فرانز کا فکا: کایا کلپ کی ایک نئی کایا کلپ
درخت، احتجاج اور پا مک
ایلس منرو کے لیے نوبیل انعام کا راستہ آساں نہ تھا
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER शहरज़ाद, कराची
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER शहरज़ाद, कराची
سرورق
فہرست
محفل
نئے ادبی رجحانات اور نو آبادیاتی فکر
ادب اور جمہوریت
اردو زبان وادب کی صورت حال
غزل آباد اور شمس الرحمٰن فاروقی۔۔۔ چند معروضات
نئی شاعری، ایک سوال اور ہمارا فرض
نئی شاعری پر ایک فرمائشی مضمون
زرہ امتثال امر
معنی واحد اور معنی اضافی کی کش مکش
لاٹ صاحب
پکنک
سنو ثریا!
انگوٹھی
بادشاہ
اپنی ہی نمائش سے غیر حاضر مصّور
ایک آئینہ فروش کا قضیہ
چھچھو ندروں کی مطمئن دنیا
پس منظر میں نا مناسب موسیقی کا استعمال
مبشر علی زیدی
کس بات سے ڈرتے ہیں خورشید صاحب
آتش فشاں
آرزو ہے تو زندگانی ہے
میرا راستہ
شجر کی علامت
نئے ضحاک
ہزارہ بستی والوں کا حزنیہ
لیاری کا حزنیہ
شامی نقل مکانیوں کا حزنیہ
یاد گرد
نظم
نظم
نظم
نظم
انٹر ویو
ہوا ہمیں جینا سکھاتی ہے
ایک دن میں اجڑ جاؤں گا
اگر میں ہوا ہوتا
پہلے سے پہلے تم کیا تھیں
من وتو
محبت کے اک لفظ سے
جلا وطنی کے صحرا میں
محفوظ
جنگ کے دوران
صبر اور شتیلا کو جاتی ہولناک خواب کی بس
افواہیں
شلمت
میں یہاں سے جا رہا ہوں
چھا جاؤ مجھ میں
تہذیب
اس کے ساتھ اس میں
منظر
صبرو برداشت میں نہیں کم ہم
کہاں گو کوئی قدروقیمت روپے کی
بن تمھارے جس جگہ جاتا ہوں میں
دن تمھارا ہے، شب تمہاری ہے
نظم میں تم ہو نثر میں تم ہو
بسر ہوتی ہے ان کے ساتھ جو شام
ہو تمھیں سچ مچ اگر ہم سے لگاؤ
وہ دن عمر بھر ہم نہیں بھول سکتے
مئے ناب چھڑوا رہا ہے حکیم
لگاتی ہے جو داغ دل پر محبت
دنیا میں نہیں کوئی مجھے دیکھنے والا
جرم جو تھا ہی نہیں، اس کی صفائی میں گزر جائے
بات کرنے کی اجازت بھی نہیں چاہتے ہم
اس کا انکار بھی حق میں تھا سراسر میرے
اسی جہاں میں ہوں لیکن جہاں نہیں میرا
کنار خواب گراں بار پر رکا ہوا ہوں
وقت کچھ اتنا برا تو کبھی آیا نہیں تھا
چھوڑ، یہ بود و باش کسی دن
در دیوار دریچہ اس کا
خواب آرام نہںی، خواب پریشانی ہے
سکھی رہو اور دکھ سے مالا مال رہو
کچھ روشنی تھی چاروں طرف جو کہ رواں کی
دیکھنا ہے کب زمیں کو خالی کر جاتا ہے دن
یہ جو دروازہ ہے بے کار میں کب کھلتا ہے
گزرے نہیں اور گزر گئے ہم
خود پہ جب دشت کی وحشت کو مسلط کروں گا
خوابوں کو آنکھوں سے منہا کرتی ہے
ویسے میں نے دنیا میں کیا دیکھا ہے
شور کروں گا اور نہ کچھ بھی بولوں گا
میرے لاکھ کہنے پہ روشنی نہیں کر رہا
چیختے ہیں در و دیوار نہیں ہوتا میں
جب کسی ایک کو رہا کیا جائے
دریاؤں کو گیت سنایا کر آتا ہوں
تاریکیوں کو آگ لگے اور دیا جلے
سو رہیں گے کہ جاگتے رہیں گے
لہلہاتی ہوئی شاداب زمیں چاہتے ہیں
حسن فانی ہے جوانی کے فسانے تک ہے
سبھی کے سامنے آنکھوں کو چار کرتا ہوا
پتے خزاں کی نذر کیے اور پھول بھی
تصور خرد لیے سرور کی طرح
رگ جاں سے اٹھی اک ہو نہیں باقی رہا کچھ بھی
چلے جو ہم نکل آئے خود اپنے ہی اثر سے بھی
ریزہ ریزہ گر بکھر جاؤں تو ہو تسکین شوق
تمنا ساتھ رکھیں گے، ارادے ساتھ رکھیں گے
ہم اوج ثریا میں بھی اس حال میں اترے
شام ڈھلتے ہی ترے دھیان میں آجاتا ہوں
وفا کا شوق یہ کس انتہا میں لے آیا
وہ ایک خواب کہ آنکھوں میں جگمگا رہا ہے
چمگادڑ
وضاحت کی ضرورت
پانچواں انٹر نیشنل میں بکر پرائز اور لیڈیا ڈیوس کے افسانچے
دم تحریر
پس تحریر
ائین بینکس: ایک تعارف
ائین بینکس: آخری انٹر ویو
میں اسرائیل کے ثقافتی بائکاٹ کی حمایت کیوں کررہا ہوں
ناول نگارہ جو مصری فوج کا دوست بن گیا
ایلس منرو: دھماکے کے ساتھ رخصت
فرانز کا فکا: کایا کلپ کی ایک نئی کایا کلپ
درخت، احتجاج اور پا مک
ایلس منرو کے لیے نوبیل انعام کا راستہ آساں نہ تھا
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।