سر ورق
ترتیب
فہرست
آپ تو جانتے ہیں سب ارض و سما کے نکتہ داں
ریزہ ریزہ جب بکھری ہوں
اک اور دن گزر گیا
PK 754
اس شام سے اُس صبح تک
میں نے اپنے آپ کو دیکھا
گھنے پیپل
کہیں اک شہر ہے
یہ دن طویل تھا
ابھی میں جاگتی ہوں
تمھی ہو
یہ تازہ نظم میری ہے
پاؤں رکھ زمیں پر
سلسلہ در سلسلہ
کتبہ کون لکھے گا
آدھے خواب کے بعد
آخری معجزہ
عجب الجھن ہے
ہوا کی لوح پر
Mosaic
دو آوازیں
میں شاعر ہوں
ایھہ گل الف سجھائی
ستارے
جن چھوٹی چھوٹی باتوں سے ۔۔۔۔۔
کبھی اس شہر سے ملنے نہیں آتا کوئی
کتاب
نیا دن
سفر آغاز کرنا تھا
آزاد کر دو سب پرندے
دائرہ
میں منزل ہوں
جھوٹ سچ کے سنگم پر
کہو کس شہر میں ہو تم
کبھی جب ۔۔۔۔۔
ہمیں سچ بولنا ہے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
تہمارے بیٹے سے میں کہوں گی
کیسی کیسی لکیریں ہیں۔۔۔۔
اب مجھے بھول رہا ہے
طلسمِ غم نہیں ٹوٹا
میں تمہارے رستے میں
لفظ بھر بھرے کیوں ہیں
مارچ
ایک دو تین چار
تمہیں یاد ہے؟
جیسے کچھ ٹوٹ گیا
چڑیا کی بیاض سے
چراغ آفریدم
ایک بستی ایسی بھی ہے
Environmental Hazard
اعتراف
آج چہرہ ہے تو کل نام ہے
کتنی باتیں کھو گئیں
پہلی زیارت
نہ جانے کس دعا سے بند ٹوٹا
غزلیں
قیاس و یاس کی حد سے نکل کر
ہوا کہتی ہے مجھ سے یہ سفر اچھا نہیں ہے
اسے کاغذ پہ بنا دیتی ہوں
کیا ہوا کوئی سوچتا بھی نہیں
افق تک میرا صحرا کھل رہا ہے
میں نے مضموں کے معانی کو بدل کر دیکھا
درمیاں جو دیوں کے اندھیرا ہے اس میں قدم لڑکھرائیں تو کیا کیجئے
ستارے چاہتے ہوں گے یہ سلسلہ نہ ملے
کہیں اک شہر بے قیدِ در و دیوار بھی ہو
دوبارہ اب سفر ہوگا کہاں میرا
کھل اٹھا پی کر زہر اب
تہمارے بعد کب لمحہ کوئی شب تاب دیکھا
کہاں گھومتی چلی جارہی ہے یہ رہگزر
خلش ہے خواب ہے آدھی کہانی ہے
آج بھی کل کی طرح خود سے ملاقات رہی
تمہیں میں یاد رکھوں اور مجھے تم بھول جاؤ
ریت پر ناؤ چلاؤ مجھے کیا
ایک چھوٹی سی بات دھیان میں ہے
کچھ نہیں لکھا جاتاہے
سمت ہی اور تھی وہ دھیان جدھر تھا اُس کا
اپنی تعمیر کے پیچیدہ مراحل میں ہوں
اتنے آسودہ کنارے نہیں اچھے لگتے
نثری نظمیں
تھوک دی میں نے یہ نظم
کلام کیا
کوئی بات اس کے وجود میں در آئی
بادل، تو ہر موسم کا بادشاہ ہے
پانی پہ چلنا ہے تو
کتاب کو حفظ کرو
اپنا اور اپنا چہرا
چراغوں والی!
تنہائی کا وعدہ
بہت ہوتے ہیں سات دن
Feminist
وہ روئی
ماں! اتنی محبت نہ کرو
اس اذیت کو کبھی نہ بھولنا
مورخ
خواب! دیکھ اس آنکھ کی طرف
وہ ایک ماں ہے
سب کچھ محفوظ کر لو
آدھا دن اور آخری رات
فہرست
خاکِ اسرار پر پاؤں کیسے رکھوں
میرے آقا کو خبر تو ہوگی
سبک ہوتی ہوا سے تیز چلنا چاہتی ہوں
تعلق کے بہاؤ کا مقدم استعارہ کس جگہ ہے
رہِ بے سائباں سے کوئی رشتہ جوڑ کر دیکھوں
اک دریچہ ہے کہیں ایسا جو وا ہوتا نہیں
رسائی راستوں کی ہے مقرر منزلوں تک
روح و دل میں شرار پیدا ہو
عطائے ابر سے انکار کرنا چاہئے تھا
خزاں کے دن ہیں شاخ پر گلاب ہے
شجر پتوں کو اپنے دھونڈتا ہے
تعلق
سفر کا دوسرا رخ
بسرتی یادوں کے سب دریچو کو کھولتا ہے
جو مٹتا جا رہا ہے پھر وہی منظر بنانا ہے
مجھے آگہی کا نشاں سمجھ کے مٹاؤ مت
میں زندہ رہتی ہوں اور زمانوں میں
ترا عکسِ ندامت چاہتا ہے
صلیب بردوش
جو ساحل کے ہر اک ذرے پہ لکھا تھا
دکھ
دس لکیریں
حرف کھرے چنتی ہوں سارے اور سچائی لکھتی ہوں
میں ساون کی کوئی پہلی جھڑی تھی
اڑا کے لے گئی اس کے سبھی سراغ ہوا
اس کے ہاتھوں نے جلایا تو رہے گایہ دیا
میں کیسا آئنہ تکنے لگی ہوں
جو میں سوچتی ہوں
تمہارے پھول تازہ ہیں
تکمیل
میں اور تم
دکھوں کی اپنی اِک تفسیر ہوتی ہے
اس لفظ کو محسوس کرنا
گریۂ ہجر کو رکنے کا اشارا ہی نہ ہو
مسندِ تمکنت پہ اس کا ظہور
روح و جاں کی تشنگی نے یوں بھی دیکھا ہے سراب
دریچہ جیسے کوئی کھل گیا ہے
کالے گھپ اندھیرے پر
دعا، بد عا ہے
عین اس وقت جب
وہی میہماں وہی رہگزر وہی وقت تھا
اس قدر زور تھا طغیانی میں
گراں بد ذائقہ لمحے
بد گمانی
کرب
مگر تم نے کبھی سوچا
کبھی شک کی فصیلوں میں
مگر یہ گرد
یہ شہرِ دل نہیں
اپنے ابو کے لئے ایک نظم
میرے فن کی نمود ہے جس سے
ایک اِک حرف سمیٹو مجھے تحریر کرو
دیے سے تو دیا جلتا رہے گا
موجۂ دل! تجھے روکوں کیسے
سمندر سامنے ہے
مجھے خواہش ہے
خشک زمیں پر پھول اگایا
بند کھلا ہے کیسے کیسے رازوں کا
دشتِ شب سے نکل گیا ہوگا
با ادب! اس طرف کوئی آہٹ نہ ہو
مری ہنسی کے تلاطم میں
زندگی قرنوں پہ لکھا جھوٹ ہے
چھوڑو مشکل باتیں ہیں یہ
کیا کروں۔۔۔۔۔
جھوٹ
دریا کی روانی وہی دہشت بھی وہی ہے
مرے سوال سے لے کر ترے جواب تلک
آنکھ سے دور ہو گیا تو کیا
کوئی پوچھے مرے مہتاب سے میرے ستاروں سے
ایلبم
کیا معلوم
نہیں رہتا جو اوراقِ سفر پر وہ نشاں ہوں
بساطِ زندگی پر گھومتا اک دائرہ ہوں
وہ میں نہیں تھی
مجھے اک نظم لکھنی ہے
آسماں زمیں کے بیچ
وہ رات کی اولیں گھڑی تھی
اک آہٹ پر چونکا میرے ساتھ کوئی
ایک گہرا راز ہے پیچھے مرے
اب تو سوجا
بے زباں زمینوں کے نام
مصور اب لہو سے اپنی تصویریں بناتا ہے
رائگاں دور کے سارے ہی سفر ہیں میرے
اشعار
تیرے طلسمی شہر میں
سنو اے داستاں گو
سیاہی اوڑھنے والی زمیں پر
بہار
کوئی دیوار نہ ہے سایۂ دیوار ابھی
دل سے تعزیر کا لمحہ تو گزر جائے گا
ابھی امید چمکی تھی ابھی دھندلا گئی ہے
کوئی ٹوٹا ہو اپیمان تو ہے
نقص کیسا ہے مری بینائی میں
فصل پک گئی ہوگی
مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا
Catharsis
Nightmare
یہاں کچھ بھی نہیں ہوگا
End of the Road
کتابِ ہست و بود کا میں ایک باب بھی نہیں
تمہارے حکم کی تعمیل کیسے ہو
ہر آواز کا ایک ہی چہرا لگتا ہے
الجھاوے
کب تک ایک دعا مانگوں گی
پیروں سے جو الجھ گیا ہے
تم میری آنکھ کے تارے ہو۔۔۔۔
گندی امی
چھپا کے سارے دکھوں کا حساب رکھ دوں گی
نام اس کا مری آنکھوں سے سمیٹا نہ گیا
ہم سب خود کو تنہا کہنا چاہتے ہیں
آدھا دن اور آدھی رات
حصارِ بے درد دیوار
فہرست
عقیدت
رسائی کا قرینہ آنکھ میں ہے
مقید عرصۂ ایثار میں ہوں
قریۂ درد پہ دیوار اٹھائے رکھنا
کوئی تو لمحہ ہو جب زندگی سفر میں نہ ہو
فقط ساحل پہ بیٹھے بے بسی کی خاک اڑاؤں
کس قدر پیڑ وہ تناور ہے
محشرِ وقت میں اس آنکھ نے کیا کیادیکھا
ساحل کو لہروں کا شور سنائی دے
سلگتے پتھروں پر پھر چلیں کیا
ایک قریہ ہے کسی یاد کا اس شہر کے بیچ
ابھی تاریکیوں کا سامنا ہے
نہیں دیوار کوئی راستے میں
نہ جواب ہوں کسی بات کا نہ سوال ہوں
اب سمندر اور کنارا ایک سا ہے
جس طرح کردار ہے لازم کہانی کے لئے
میں دن کو دن لکھوں یارات کو لکھوں
خواب یوں دائروں میں آتے ہیں
جانے والے موسموں کو دور سے آواز دو
سوچنے بیٹھوں تو پھر اٹھا نہ جائے
درد کا ذائقہ آج اچھا لگا
کبھی نفرتوں کبھی چاہتوں کے کھچاؤ میں
سلسلہ ٹوٹا ہے کیسی بات پر
مٹی کی نمی شاخِ ثمر دار کے اندر
درِ امکاں! ترے کھلنے سے پہلے
مٹی کو بھی بدل سکتا ہے
وقت تم کیسے مسیحا ہو مجھے بتلاؤ
مثالِ عکس مرے آئنے میں ڈھلتا رہا
اڑتی ہے گرد یورشِ حالات کی طرح
خوشبو و رنگ کا سوال کہاں
شکستِ شوق میں کیا صورتِ تصویر ہو گی
یہ کیسی ضد ہمارے درمیاں ہے
خوابوں اور خیالوں کا اک شہر بنایا رستے میں
اپنوں کے جھر مٹ میں دل کچھ اور بھی سونا لگتا ہے
دل ہے روپوش نظاروں کی طرح
اک بے پناہ رات کا تنہا جواب تھا
سنہری حرف تو لکھے ہوئے ہیں
ہیئت گل تو بے معانی ہے
کاسۂ دستِ طلب میں فاصلہ رہ جائے گا
گل سرِ شاخ کھل گیا پھر سے
دولتِ درد سمیٹو کہ بکھرنے کو ہے
جن ارادوں کا دفینہ رہِ پامال میں ہے
کیسے دریا ہو جو سیراب نہیں کرسکتے
عقیدت کے شمارے مختلف ہیں
پھول گرویدۂ موسم بھی ہوئے
تعلقات میں شکوہ مرا اصول نہیں
ہو دل میں خلش آنکھ میں تھوڑی سی نمی ہو
موت ہے موت کا سناٹا ہے
وہ کہاں ہے مجھے معلوم نہیں
کیا تقاضا کیجئے اک خواہشِ بے نام کا
وہ دیا کیا دیا ہے جو جلتا نہیں
جو جفا کے مرتکب ٹھہرے وفا کے بعد بھی
رنگ پھیکا نظر آنے لگا آرائش کا
یہ کیسا اوج اس کی لہر میں ہے
ارادہ کیا جو رستہ بھول جائے
ہمارا ہر ارادہ بے ثمر تھا
راہِ صحرائی پہ خوشبو کا سفر یاد آیا
حاصلِ زیست ہو خلوت مگر اتنی بھی نہیں
جزوِ زندگی ٹھہرا اب گمان میں رہنا
راستے کی سمت اکثر دیکھتے رہتے ہیں کیوں
کیسے کھلے گا پھر سے مرا شوقِ بے نمو
رقصِ تمنا جاری ہے
موت کا انتطار کرنا ہے
کوئی فصیلِ رنج میں اِک در بنا سکے
قفس کے بے زباں لمحوں کی ہر تصویر لے جانا
ارادہ راکھ ہوتا جا رہا ہے
کیا ہے خود ہی اگر فیصلہ جدائی کا
بے کراں نور سے بھر کے رہِ صحرائی کو
سیہ مہتاب کی وہ چاندنی تھی
قیامت کی گھڑی کا عکس دیکھوں
بےسمتی نے ایک جزیرہ ڈھونڈ لیا ہے
کشمکش
Repentance
کیوں
Ambition
وہ لمحہ کیسا ہوتا تھا؟
کشف
ناگزیر
تخلیق
عقدہ
تشخیص
نئے سوالوں کی بات کیجئے
یہ عہدِ نو ہے
جذبۂ شوق کا مینار اگر
صرف
1990ء
روشنیوں کا شہر۔۔۔۔ کراچی
سوال
تقدم
Depression
یاد
لو ابھرنے تک
پسِ آئینہ
فہرست
کسی انداز سے دینا، شفائے بال و پر دینا
کنارے پر کھڑی ہوں اور کنارے دھونڈتی ہوں
تیز رو پانی پہ بہنے کا ارادہ اور میں
اختیار میں اپنے وقت کا اشارا ہو
چاند کس سوچ میں ہے بحر کا پانی بولے
وہ بدل کر کبھی انداز پذیرائی کا
اب کھلے رکھیے مناجاتوں کے در
بیٹھے بیٹھے دفعتاً اس کا خیال آنے لگا
گزر گئی شب گزر گیا دن بشارتوں کا
میں ہر گزری ہوئی ساعت سے ہر پل سے نکل جاؤں
ایک بحرِ سرد جیسے ساحلوں کے درمیاں
دیکھتے ہیں مگر زبان نہیں
میں نے اس کا گریز دیکھا ہے، میں نے اس کا عتاب دیکھا ہے
عجب نہیں جو کوئی رہ نوردِ خواب لگے
شام ہوئی تو جل اٹھا دیکھو چراغِ یاس بھی
زخم کو آبروئے جاں کرلو
اکثر آنا، سوچ کے در پر دستک دینا
نگاہ اپنے لئے ایک معجزہ چاہے
ہم نے کسی کو عہدِ وفا سے رہا کیا
دکھ جو اپنے حصے کا ہے سہنا ہو گا
مدتوں سے خواب میں دیکھا نہیں تھا
سفر کا استعارہ کھو گیا ہے
کچھ غبارِ درد کے پھیلاؤ میں دِکھتا نہ تھا
شام کا پہلا ستارا ڈوبا
وہ بہار ہستی سے انتخاب کیا دیتا
آج اندر بھی روشنی کم ہے
اپنے، غیر برابر دیکھے
دن کی روشنی میں ہی اب چراغ جلتے ہیں
اِک دیا تھا جو دعا کے اندر
مسافرت کے قرینے سے بے خبر تھی نہیں
دور رہنے کی سزا دو مجھ کو
دل کی میزاں پہ تولوں تو برابر دیکھوں
لاکھ رہ میں آندھیاں ہوں، نقشِ پا مل جائے گا
ہمیں خبر تھی بچانے کا اس میں یارا نہیں
دل کی بات ضروری بھی ہے
ہے بہت لمبی کہانی رات کی
کر دیا بوند کو دریا میں نے
شہر میں سر پیٹتا بارش کا شور
نواح میں بسی ہوئی مہیب بستیاں
سوچ پر جب سزا ہو، بندش ہو
فصلِ دل میں نئے زخم بو جائیں گے
کسی نے حشر برپا کر دیا ہے
عمر بھر یہ سوچنے کو رہ گیا
چلی شب کے تعاقب میں سحر آہستہ آہستہ
رقص کرتی لہر پر بس مسکرانا چاہیے
زرد آندھیوں نے چھو لیا چہرہ حیات کا
چاند نے شب کو چھوڑدیا ہے
روح کے تیرہ و سنسان جزیرے کو چلا
کچھ رتجگے وہ دے گیا کچھ خواب دے گیا
شفق کا شب میں اترنا عجیب لگتا ہے
کتنا موہوم تھا اے دوست ارادہ تیرا
پرانا منظر بدل رہا ہے
میں نے بھی ضِد میں دِیا چھوڑ دیا
کسی ے چند قطرے لے لیے تھے
کوہ کا، دشت کا سہی، کوئی تو سلسلہ رہے
خوشی ہے کیا اور رنج کیا ہے
حساب میں جو ہوا کے سیاہ بخت ہوئی
اِک یہ بھی فیصلہ ہے بہاروں کے باب میں
تھا جو یادوں کا خزانہ مرے گھر پر رکھا
کتنی سادہ ہے تحریر دل
غم بانٹنے کو آئے، مرے ساتھ رو گئے
عجیب ہو گیا کسی کا ساتھ بھی
اِک سناٹا جاتا ہے اور اِک سناٹا آتاہے
ذرا سی دیر کو منظر بہت مکمل تھا
کھلتے پھولوں کی ردا ہو جائے
وہ جو طوفاں میں لگا تھا کبھی ساحل کی طرح
مری آنکھوں کے آئینے میں تصویر ہنر دیکھو
ایک ہی حلقہ زنجیر میں رہنا ہوگا
جس دن وہ مجھ سے الجھتا تھا
میں سرِ بزم وفا نازشِ محفل ٹھہروں
حدوں کو بھول جانا چاہتی ہوں
بند آنکھوں میں بہتے ہوئے خواب تھے
شیرازۂ دِل میرا بکھر جائے تو اچھا
اچھا ہے میرا گھر بھی
دستک دیئے جاؤ کوئی در وا نہ کروں گی
کون سی ساعت دکھائے گی گھروں کا سلسلہ
حدوں کی بات فصیل و قفس کی بات نہیں
قتل کی سازش تھی تیرے لہجۂ سفاک میں
میں لڑ کھڑائی جہاں بھی، مرے قریب رہا
کبھی جھلکائے ہیں آنسو خوشی میں
تم نے دکھ اس قدر دیا مجھ کو
مانا کہ بے کنار سمندر تھے راہ میں
گھر کے گھر کا پتہ نہیں چلتا
ایک ہی پر تھا بچا اور وہی ٹوٹ گیا
مسلسل ایک ہی تصویر چشمِ تر میں ہیں
تنہا سفر کروں گی اگر ہم سفر نہیں
ایک احساس کے دیرینہ اثر سے نکلیں
یوں نہ کانٹوں میں شب و روز پروئی جاؤں
گھر کی چھت پر کھیلتی برسات کی آواز تھی
برنگِ سرخ چہرہ کر ب کا، تصویر ہوتاہے
پختہ یقین تھا جسے صبحِ مآل پر
اپنے رب سے
سر ورق
ترتیب
فہرست
آپ تو جانتے ہیں سب ارض و سما کے نکتہ داں
ریزہ ریزہ جب بکھری ہوں
اک اور دن گزر گیا
PK 754
اس شام سے اُس صبح تک
میں نے اپنے آپ کو دیکھا
گھنے پیپل
کہیں اک شہر ہے
یہ دن طویل تھا
ابھی میں جاگتی ہوں
تمھی ہو
یہ تازہ نظم میری ہے
پاؤں رکھ زمیں پر
سلسلہ در سلسلہ
کتبہ کون لکھے گا
آدھے خواب کے بعد
آخری معجزہ
عجب الجھن ہے
ہوا کی لوح پر
Mosaic
دو آوازیں
میں شاعر ہوں
ایھہ گل الف سجھائی
ستارے
جن چھوٹی چھوٹی باتوں سے ۔۔۔۔۔
کبھی اس شہر سے ملنے نہیں آتا کوئی
کتاب
نیا دن
سفر آغاز کرنا تھا
آزاد کر دو سب پرندے
دائرہ
میں منزل ہوں
جھوٹ سچ کے سنگم پر
کہو کس شہر میں ہو تم
کبھی جب ۔۔۔۔۔
ہمیں سچ بولنا ہے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
تہمارے بیٹے سے میں کہوں گی
کیسی کیسی لکیریں ہیں۔۔۔۔
اب مجھے بھول رہا ہے
طلسمِ غم نہیں ٹوٹا
میں تمہارے رستے میں
لفظ بھر بھرے کیوں ہیں
مارچ
ایک دو تین چار
تمہیں یاد ہے؟
جیسے کچھ ٹوٹ گیا
چڑیا کی بیاض سے
چراغ آفریدم
ایک بستی ایسی بھی ہے
Environmental Hazard
اعتراف
آج چہرہ ہے تو کل نام ہے
کتنی باتیں کھو گئیں
پہلی زیارت
نہ جانے کس دعا سے بند ٹوٹا
غزلیں
قیاس و یاس کی حد سے نکل کر
ہوا کہتی ہے مجھ سے یہ سفر اچھا نہیں ہے
اسے کاغذ پہ بنا دیتی ہوں
کیا ہوا کوئی سوچتا بھی نہیں
افق تک میرا صحرا کھل رہا ہے
میں نے مضموں کے معانی کو بدل کر دیکھا
درمیاں جو دیوں کے اندھیرا ہے اس میں قدم لڑکھرائیں تو کیا کیجئے
ستارے چاہتے ہوں گے یہ سلسلہ نہ ملے
کہیں اک شہر بے قیدِ در و دیوار بھی ہو
دوبارہ اب سفر ہوگا کہاں میرا
کھل اٹھا پی کر زہر اب
تہمارے بعد کب لمحہ کوئی شب تاب دیکھا
کہاں گھومتی چلی جارہی ہے یہ رہگزر
خلش ہے خواب ہے آدھی کہانی ہے
آج بھی کل کی طرح خود سے ملاقات رہی
تمہیں میں یاد رکھوں اور مجھے تم بھول جاؤ
ریت پر ناؤ چلاؤ مجھے کیا
ایک چھوٹی سی بات دھیان میں ہے
کچھ نہیں لکھا جاتاہے
سمت ہی اور تھی وہ دھیان جدھر تھا اُس کا
اپنی تعمیر کے پیچیدہ مراحل میں ہوں
اتنے آسودہ کنارے نہیں اچھے لگتے
نثری نظمیں
تھوک دی میں نے یہ نظم
کلام کیا
کوئی بات اس کے وجود میں در آئی
بادل، تو ہر موسم کا بادشاہ ہے
پانی پہ چلنا ہے تو
کتاب کو حفظ کرو
اپنا اور اپنا چہرا
چراغوں والی!
تنہائی کا وعدہ
بہت ہوتے ہیں سات دن
Feminist
وہ روئی
ماں! اتنی محبت نہ کرو
اس اذیت کو کبھی نہ بھولنا
مورخ
خواب! دیکھ اس آنکھ کی طرف
وہ ایک ماں ہے
سب کچھ محفوظ کر لو
آدھا دن اور آخری رات
فہرست
خاکِ اسرار پر پاؤں کیسے رکھوں
میرے آقا کو خبر تو ہوگی
سبک ہوتی ہوا سے تیز چلنا چاہتی ہوں
تعلق کے بہاؤ کا مقدم استعارہ کس جگہ ہے
رہِ بے سائباں سے کوئی رشتہ جوڑ کر دیکھوں
اک دریچہ ہے کہیں ایسا جو وا ہوتا نہیں
رسائی راستوں کی ہے مقرر منزلوں تک
روح و دل میں شرار پیدا ہو
عطائے ابر سے انکار کرنا چاہئے تھا
خزاں کے دن ہیں شاخ پر گلاب ہے
شجر پتوں کو اپنے دھونڈتا ہے
تعلق
سفر کا دوسرا رخ
بسرتی یادوں کے سب دریچو کو کھولتا ہے
جو مٹتا جا رہا ہے پھر وہی منظر بنانا ہے
مجھے آگہی کا نشاں سمجھ کے مٹاؤ مت
میں زندہ رہتی ہوں اور زمانوں میں
ترا عکسِ ندامت چاہتا ہے
صلیب بردوش
جو ساحل کے ہر اک ذرے پہ لکھا تھا
دکھ
دس لکیریں
حرف کھرے چنتی ہوں سارے اور سچائی لکھتی ہوں
میں ساون کی کوئی پہلی جھڑی تھی
اڑا کے لے گئی اس کے سبھی سراغ ہوا
اس کے ہاتھوں نے جلایا تو رہے گایہ دیا
میں کیسا آئنہ تکنے لگی ہوں
جو میں سوچتی ہوں
تمہارے پھول تازہ ہیں
تکمیل
میں اور تم
دکھوں کی اپنی اِک تفسیر ہوتی ہے
اس لفظ کو محسوس کرنا
گریۂ ہجر کو رکنے کا اشارا ہی نہ ہو
مسندِ تمکنت پہ اس کا ظہور
روح و جاں کی تشنگی نے یوں بھی دیکھا ہے سراب
دریچہ جیسے کوئی کھل گیا ہے
کالے گھپ اندھیرے پر
دعا، بد عا ہے
عین اس وقت جب
وہی میہماں وہی رہگزر وہی وقت تھا
اس قدر زور تھا طغیانی میں
گراں بد ذائقہ لمحے
بد گمانی
کرب
مگر تم نے کبھی سوچا
کبھی شک کی فصیلوں میں
مگر یہ گرد
یہ شہرِ دل نہیں
اپنے ابو کے لئے ایک نظم
میرے فن کی نمود ہے جس سے
ایک اِک حرف سمیٹو مجھے تحریر کرو
دیے سے تو دیا جلتا رہے گا
موجۂ دل! تجھے روکوں کیسے
سمندر سامنے ہے
مجھے خواہش ہے
خشک زمیں پر پھول اگایا
بند کھلا ہے کیسے کیسے رازوں کا
دشتِ شب سے نکل گیا ہوگا
با ادب! اس طرف کوئی آہٹ نہ ہو
مری ہنسی کے تلاطم میں
زندگی قرنوں پہ لکھا جھوٹ ہے
چھوڑو مشکل باتیں ہیں یہ
کیا کروں۔۔۔۔۔
جھوٹ
دریا کی روانی وہی دہشت بھی وہی ہے
مرے سوال سے لے کر ترے جواب تلک
آنکھ سے دور ہو گیا تو کیا
کوئی پوچھے مرے مہتاب سے میرے ستاروں سے
ایلبم
کیا معلوم
نہیں رہتا جو اوراقِ سفر پر وہ نشاں ہوں
بساطِ زندگی پر گھومتا اک دائرہ ہوں
وہ میں نہیں تھی
مجھے اک نظم لکھنی ہے
آسماں زمیں کے بیچ
وہ رات کی اولیں گھڑی تھی
اک آہٹ پر چونکا میرے ساتھ کوئی
ایک گہرا راز ہے پیچھے مرے
اب تو سوجا
بے زباں زمینوں کے نام
مصور اب لہو سے اپنی تصویریں بناتا ہے
رائگاں دور کے سارے ہی سفر ہیں میرے
اشعار
تیرے طلسمی شہر میں
سنو اے داستاں گو
سیاہی اوڑھنے والی زمیں پر
بہار
کوئی دیوار نہ ہے سایۂ دیوار ابھی
دل سے تعزیر کا لمحہ تو گزر جائے گا
ابھی امید چمکی تھی ابھی دھندلا گئی ہے
کوئی ٹوٹا ہو اپیمان تو ہے
نقص کیسا ہے مری بینائی میں
فصل پک گئی ہوگی
مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا
Catharsis
Nightmare
یہاں کچھ بھی نہیں ہوگا
End of the Road
کتابِ ہست و بود کا میں ایک باب بھی نہیں
تمہارے حکم کی تعمیل کیسے ہو
ہر آواز کا ایک ہی چہرا لگتا ہے
الجھاوے
کب تک ایک دعا مانگوں گی
پیروں سے جو الجھ گیا ہے
تم میری آنکھ کے تارے ہو۔۔۔۔
گندی امی
چھپا کے سارے دکھوں کا حساب رکھ دوں گی
نام اس کا مری آنکھوں سے سمیٹا نہ گیا
ہم سب خود کو تنہا کہنا چاہتے ہیں
آدھا دن اور آدھی رات
حصارِ بے درد دیوار
فہرست
عقیدت
رسائی کا قرینہ آنکھ میں ہے
مقید عرصۂ ایثار میں ہوں
قریۂ درد پہ دیوار اٹھائے رکھنا
کوئی تو لمحہ ہو جب زندگی سفر میں نہ ہو
فقط ساحل پہ بیٹھے بے بسی کی خاک اڑاؤں
کس قدر پیڑ وہ تناور ہے
محشرِ وقت میں اس آنکھ نے کیا کیادیکھا
ساحل کو لہروں کا شور سنائی دے
سلگتے پتھروں پر پھر چلیں کیا
ایک قریہ ہے کسی یاد کا اس شہر کے بیچ
ابھی تاریکیوں کا سامنا ہے
نہیں دیوار کوئی راستے میں
نہ جواب ہوں کسی بات کا نہ سوال ہوں
اب سمندر اور کنارا ایک سا ہے
جس طرح کردار ہے لازم کہانی کے لئے
میں دن کو دن لکھوں یارات کو لکھوں
خواب یوں دائروں میں آتے ہیں
جانے والے موسموں کو دور سے آواز دو
سوچنے بیٹھوں تو پھر اٹھا نہ جائے
درد کا ذائقہ آج اچھا لگا
کبھی نفرتوں کبھی چاہتوں کے کھچاؤ میں
سلسلہ ٹوٹا ہے کیسی بات پر
مٹی کی نمی شاخِ ثمر دار کے اندر
درِ امکاں! ترے کھلنے سے پہلے
مٹی کو بھی بدل سکتا ہے
وقت تم کیسے مسیحا ہو مجھے بتلاؤ
مثالِ عکس مرے آئنے میں ڈھلتا رہا
اڑتی ہے گرد یورشِ حالات کی طرح
خوشبو و رنگ کا سوال کہاں
شکستِ شوق میں کیا صورتِ تصویر ہو گی
یہ کیسی ضد ہمارے درمیاں ہے
خوابوں اور خیالوں کا اک شہر بنایا رستے میں
اپنوں کے جھر مٹ میں دل کچھ اور بھی سونا لگتا ہے
دل ہے روپوش نظاروں کی طرح
اک بے پناہ رات کا تنہا جواب تھا
سنہری حرف تو لکھے ہوئے ہیں
ہیئت گل تو بے معانی ہے
کاسۂ دستِ طلب میں فاصلہ رہ جائے گا
گل سرِ شاخ کھل گیا پھر سے
دولتِ درد سمیٹو کہ بکھرنے کو ہے
جن ارادوں کا دفینہ رہِ پامال میں ہے
کیسے دریا ہو جو سیراب نہیں کرسکتے
عقیدت کے شمارے مختلف ہیں
پھول گرویدۂ موسم بھی ہوئے
تعلقات میں شکوہ مرا اصول نہیں
ہو دل میں خلش آنکھ میں تھوڑی سی نمی ہو
موت ہے موت کا سناٹا ہے
وہ کہاں ہے مجھے معلوم نہیں
کیا تقاضا کیجئے اک خواہشِ بے نام کا
وہ دیا کیا دیا ہے جو جلتا نہیں
جو جفا کے مرتکب ٹھہرے وفا کے بعد بھی
رنگ پھیکا نظر آنے لگا آرائش کا
یہ کیسا اوج اس کی لہر میں ہے
ارادہ کیا جو رستہ بھول جائے
ہمارا ہر ارادہ بے ثمر تھا
راہِ صحرائی پہ خوشبو کا سفر یاد آیا
حاصلِ زیست ہو خلوت مگر اتنی بھی نہیں
جزوِ زندگی ٹھہرا اب گمان میں رہنا
راستے کی سمت اکثر دیکھتے رہتے ہیں کیوں
کیسے کھلے گا پھر سے مرا شوقِ بے نمو
رقصِ تمنا جاری ہے
موت کا انتطار کرنا ہے
کوئی فصیلِ رنج میں اِک در بنا سکے
قفس کے بے زباں لمحوں کی ہر تصویر لے جانا
ارادہ راکھ ہوتا جا رہا ہے
کیا ہے خود ہی اگر فیصلہ جدائی کا
بے کراں نور سے بھر کے رہِ صحرائی کو
سیہ مہتاب کی وہ چاندنی تھی
قیامت کی گھڑی کا عکس دیکھوں
بےسمتی نے ایک جزیرہ ڈھونڈ لیا ہے
کشمکش
Repentance
کیوں
Ambition
وہ لمحہ کیسا ہوتا تھا؟
کشف
ناگزیر
تخلیق
عقدہ
تشخیص
نئے سوالوں کی بات کیجئے
یہ عہدِ نو ہے
جذبۂ شوق کا مینار اگر
صرف
1990ء
روشنیوں کا شہر۔۔۔۔ کراچی
سوال
تقدم
Depression
یاد
لو ابھرنے تک
پسِ آئینہ
فہرست
کسی انداز سے دینا، شفائے بال و پر دینا
کنارے پر کھڑی ہوں اور کنارے دھونڈتی ہوں
تیز رو پانی پہ بہنے کا ارادہ اور میں
اختیار میں اپنے وقت کا اشارا ہو
چاند کس سوچ میں ہے بحر کا پانی بولے
وہ بدل کر کبھی انداز پذیرائی کا
اب کھلے رکھیے مناجاتوں کے در
بیٹھے بیٹھے دفعتاً اس کا خیال آنے لگا
گزر گئی شب گزر گیا دن بشارتوں کا
میں ہر گزری ہوئی ساعت سے ہر پل سے نکل جاؤں
ایک بحرِ سرد جیسے ساحلوں کے درمیاں
دیکھتے ہیں مگر زبان نہیں
میں نے اس کا گریز دیکھا ہے، میں نے اس کا عتاب دیکھا ہے
عجب نہیں جو کوئی رہ نوردِ خواب لگے
شام ہوئی تو جل اٹھا دیکھو چراغِ یاس بھی
زخم کو آبروئے جاں کرلو
اکثر آنا، سوچ کے در پر دستک دینا
نگاہ اپنے لئے ایک معجزہ چاہے
ہم نے کسی کو عہدِ وفا سے رہا کیا
دکھ جو اپنے حصے کا ہے سہنا ہو گا
مدتوں سے خواب میں دیکھا نہیں تھا
سفر کا استعارہ کھو گیا ہے
کچھ غبارِ درد کے پھیلاؤ میں دِکھتا نہ تھا
شام کا پہلا ستارا ڈوبا
وہ بہار ہستی سے انتخاب کیا دیتا
آج اندر بھی روشنی کم ہے
اپنے، غیر برابر دیکھے
دن کی روشنی میں ہی اب چراغ جلتے ہیں
اِک دیا تھا جو دعا کے اندر
مسافرت کے قرینے سے بے خبر تھی نہیں
دور رہنے کی سزا دو مجھ کو
دل کی میزاں پہ تولوں تو برابر دیکھوں
لاکھ رہ میں آندھیاں ہوں، نقشِ پا مل جائے گا
ہمیں خبر تھی بچانے کا اس میں یارا نہیں
دل کی بات ضروری بھی ہے
ہے بہت لمبی کہانی رات کی
کر دیا بوند کو دریا میں نے
شہر میں سر پیٹتا بارش کا شور
نواح میں بسی ہوئی مہیب بستیاں
سوچ پر جب سزا ہو، بندش ہو
فصلِ دل میں نئے زخم بو جائیں گے
کسی نے حشر برپا کر دیا ہے
عمر بھر یہ سوچنے کو رہ گیا
چلی شب کے تعاقب میں سحر آہستہ آہستہ
رقص کرتی لہر پر بس مسکرانا چاہیے
زرد آندھیوں نے چھو لیا چہرہ حیات کا
چاند نے شب کو چھوڑدیا ہے
روح کے تیرہ و سنسان جزیرے کو چلا
کچھ رتجگے وہ دے گیا کچھ خواب دے گیا
شفق کا شب میں اترنا عجیب لگتا ہے
کتنا موہوم تھا اے دوست ارادہ تیرا
پرانا منظر بدل رہا ہے
میں نے بھی ضِد میں دِیا چھوڑ دیا
کسی ے چند قطرے لے لیے تھے
کوہ کا، دشت کا سہی، کوئی تو سلسلہ رہے
خوشی ہے کیا اور رنج کیا ہے
حساب میں جو ہوا کے سیاہ بخت ہوئی
اِک یہ بھی فیصلہ ہے بہاروں کے باب میں
تھا جو یادوں کا خزانہ مرے گھر پر رکھا
کتنی سادہ ہے تحریر دل
غم بانٹنے کو آئے، مرے ساتھ رو گئے
عجیب ہو گیا کسی کا ساتھ بھی
اِک سناٹا جاتا ہے اور اِک سناٹا آتاہے
ذرا سی دیر کو منظر بہت مکمل تھا
کھلتے پھولوں کی ردا ہو جائے
وہ جو طوفاں میں لگا تھا کبھی ساحل کی طرح
مری آنکھوں کے آئینے میں تصویر ہنر دیکھو
ایک ہی حلقہ زنجیر میں رہنا ہوگا
جس دن وہ مجھ سے الجھتا تھا
میں سرِ بزم وفا نازشِ محفل ٹھہروں
حدوں کو بھول جانا چاہتی ہوں
بند آنکھوں میں بہتے ہوئے خواب تھے
شیرازۂ دِل میرا بکھر جائے تو اچھا
اچھا ہے میرا گھر بھی
دستک دیئے جاؤ کوئی در وا نہ کروں گی
کون سی ساعت دکھائے گی گھروں کا سلسلہ
حدوں کی بات فصیل و قفس کی بات نہیں
قتل کی سازش تھی تیرے لہجۂ سفاک میں
میں لڑ کھڑائی جہاں بھی، مرے قریب رہا
کبھی جھلکائے ہیں آنسو خوشی میں
تم نے دکھ اس قدر دیا مجھ کو
مانا کہ بے کنار سمندر تھے راہ میں
گھر کے گھر کا پتہ نہیں چلتا
ایک ہی پر تھا بچا اور وہی ٹوٹ گیا
مسلسل ایک ہی تصویر چشمِ تر میں ہیں
تنہا سفر کروں گی اگر ہم سفر نہیں
ایک احساس کے دیرینہ اثر سے نکلیں
یوں نہ کانٹوں میں شب و روز پروئی جاؤں
گھر کی چھت پر کھیلتی برسات کی آواز تھی
برنگِ سرخ چہرہ کر ب کا، تصویر ہوتاہے
پختہ یقین تھا جسے صبحِ مآل پر
اپنے رب سے
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔