سرورق
دیباچہ
مقدمہ
ردیف الف
مرا حق مان کر بن تو مرا حاجت روا ہونا
بکتے بکتے تو تو اے ناصح مرا سر کھا گیا
مرے منہ پر کسی سے لیکے تجھ کو پان کھانا تھا
دل کھوٹا ہے ہم کو اس سے راز عشق نہ کہنا تھا
ابرو ہے کعبہ آج سے یہ نام رکھ دیا
گل ہو کے میں کیا ہنستا ایسا نہ تھا غم میرا
میں جو رویا خلق کی نظروں سے بادل گر گیا
وہ بد خور ہے اور ٹھکانا ڈھونڈھیں دل بہلانے کا
بوے ہی کیوں چلا جو مرا دم رکا ہوا
ان بیڑیوں سے دشت نور دی میں بل پڑا
دل مرا ٹوٹا تو اس کو کچھ ملال آہی گیا
میں غیر ہوں دل سے یہ کھٹک جائے تو اچھا
صرف قد ہی نہیں کچھ گل کے شجر ہی کاسا
دم کہیں اکھڑا ہوا ہے دل کہیں ٹوٹا ہوا
ناصح اک بت سے ہے کام اک بندہ اللہ کا
سواد خط ترے خط میں تری تحریر کا سا تھا
کچھ ہٹا رنگ اس کی مہندی کا تو لطف آنے لگا
سمجھا نہ بات فہم میں ہے یہ فتور کیا
ہاتھوں سے منہ چھپا کر دل مفت لو کسی کا
ہے زیر جبیں نقش قدم ایک حسین کا
سر کو کسی معشوق پہ وار آؤں تو اچھا
کیا مجھے عشق میں سوداتھا کہ گھر میں رہتا
اے جنوں یوں تو نہ چھوڑوں گا اگر چھوڑوں گا
کس دل سے میں مشتاق ترے ناز کا ہوتا
ذکر سنتے تھے خیر جاری کا
حشر میں آپ کو ظالم نہ بنا ہی لینا
یہ حسن عارضی یہ دوروزہ بہار کیا
ہمارا نالۂ دل سر اٹھا کے مانے گا
آہوں سے تھک کے چپ جو میں ناکام ہو گیا
نہ ہوتی وصل کی شب مختصر تو کیا ہوتا
خون ہی خون تھا سب دل تو فقط نام کا تھا
حاصل گر یہ ہے سامان قضا ہو جانا
صبر پر پھیر کے پانی جو وہ محبوب گیا
سنبل کو سمجھے زلف کا سایہ ستم کیا
حسن ظالم ہے جو اے عشق تو ڈرنا اچھا
بے زباں میں جو بنا لطف زباں یہ بھی تھا
دل میں باتیں بہت اور وقت ہے ڈر جانے کا
نہ دہن کا کبھی کھلنا نہ سخنور ہونا
تو دل کو لے گیا ہے تو دل نشیں ہوا تھا
دامن نہ سہی کام تو چلتا ہی رہے گا
بھاگے اچھی شکلوں والے عشق ہے گویا کام برا
اگر ایسا ہی ستم تیرا نظر آنا تھا
معشوق ہے پھر کیوں وہ ستم کر نہیں سکتا
جب پھیرنا نظر تم تب یہ خیال کرنا
دل کا دنیا مجھے کیا آپ ہی منظور ہوا
جب شباب آیا تو منہ اسکو چھپانا ہی پڑا
داغوں سے اس عشق نے میرا سارا دل بیکار کیا
ضعف میں بھی کام مثل رنگ چل ہی جائیگا
شک تھا لوگوں کو کہ چاند آج دوبارہ نکلا
اس کے جلوے سے مرے گھر میں اجالا ہوتا
اسکی چشم فتنہ زار کا سامنا کرنا پڑا
جذب کچھ کم تھا ہوا اس پہ اثر یوں ہی سا
قسمت میں بدی ہیں خلشیں ہی تو ڈروں کیا
جس دن وہ گیا یہ رنگ اس دن مرے گھر کا تھا
وصل میں جلد نہ کٹ جانا تھا
کہاں ہے یہ آئینے کی صورت کریگا تیری برابری کیا
مر کے اس در سے اٹھوں گا جو اب آکر بیٹھا
خط لکھنے کی عادت جو میں کم کر نہیں سکتا
میرے جنوں سے حشر کو پالا جو پڑ گیا
بیدل ہوئے جاتے ہیں یہ ہے حال ہمارا
دھڑکنے پر ترس سے کام لیتے تم تو کیا ہوتا
بے قراری سے خدا نے دل ہمارا بھر دیا
داغوں کے سوا کس کو سہارا ہے کسی کا
گماں نہ کرے گلرنگ کے پیالوں کا
بدنام ہوا قتل سے کیوں ناز کسی کا
پہلے تو خون پی گئی پھر جسم کھا لیا
تھا بند وہ در پھر بھی میں سو بار گیا تھا
کہتا ہے وہ مجھ سے کہ تمہیں یاد کروں گا
ہے دانت ایمان پر اس بت کدے کے خوش جمالوں کا
تم سے دل اپنا پھیر کے دم لیں گے دیکھنا
دل پڑا نظروں کی تیغوں میں تو کٹ ہی جائیگا
خط سے بھی وہ نہیں ہوتا سیدھا
گل ہو رخ بے حجاب کا سا
میں نے دل سے کیا پھل پایا کوئی کیا پھل پائیگا
مرض سا ہے ترے عاشق کو سر کے دھننے کا
آگیا غصہ تو اس کا رنگ گہرا ہو گیا
کبھی وعدے کا طالب دل کبھی خواہاں ہے گالی کا
بھلا ہو تم سے حسینوں کی بے وفائی کا
خون دل آنکھوں میں اشکوں کے عوض لانے لگا
مرے نصیب میں پیش نظر نہ ہونا تھا
بچپن چلا شباب کے اب جور دیکھنا
کچھ سہارا مرے جینے کا رہا ہی کب تھا
میں غافل اور وہ جو یارے دل تو پھر کیا تھا
ہجر میں ہر شب شغل رہا ہے مثل شبنم رونے کا
قیس گیا تو شوق اب آیا
بدنام عشق میں ہیں یہ نام ہے ہمارا
جنوں ہوا مجھے تو بے حجاب کیا آیا
گر میسر ہو نظارہ چشم مست یار کا
بے حواسی سے میں پہلے تو وہ گھر بھول گیا
جو زندگی ہے تو خضر ایک کام کر لینا
خوف اس کو اثر کا جو ہوا ہو تو عجب کیا
وہ مڑ جاتا ہے صورت آشنا ہونے نہیں دیتا
مجھ سے بے کس کا مرنا ہی کیا جو کوئی کرے ماتم میرا
مجھے تو کھو کے مشکل ہو گیا ہے اپنا پا لینا
دل ہی قابو میں نہیں تجھ پر جو قابو ہو تو کیا
ضعف سے کچھ کیا نہیں جاتا
بڑے مزے سے گزرتی ہے کوئی غم نہیں رہتا
لیا وعدہ کیا وعدہ تو دونوں کو قرار آیا
غصے میں وہ بھرا تو میں منہ تک کے رہ گیا
میں آؤں تو نہ رکھ الزام بے قراری کا
حجاب عام ہو جاتا ہے روئے بے حجاب ان کا
دل آیا سامنے ہم جنس اس بت کا اگر آیا
خلل دماغ میں چھپنے کا ظرف پا نہ سکا
کیا ہی برہم وہ ہوا جان کے ہمسر اپنا
اٹھایا اس نے بہت جب میں پاس جا بیٹھا
فریاد پر بھی تم نے تغافل نہ کم کیا
مرے جنوں سے جو اس کے جنوں میں بل آیا
عشق بازی کا بکھیڑا میرے سر سارا پڑا
مدد کو ہجر میں دل یا جگر نہیں آیا
تب تو مارا مجھے حشر آیا تو گھبرائے نا
سامنے اس کے نہ رویا شوق اب روتا ہے کیا
جو منہ چھپا کے نہ دو تم جواب کل کا سا
خدا ہی دے رحم جس کے دل میں کرے وہ پورا سوال میرا
میں تجھ سے کچھ مانگ اٹھا تو غصہ کیوں مجھ پر آیا
وصل کے وعدہ سے پھر کیوں یہ ستم ہونے لگا
شب کو محفل میں ستم ہی ہو گیا
ہوئی یا مجھ سے نفرت یا کچھ اس میں کبر و ناز آیا
چھائی حیرت بخت نے دونوں کو جب یکجا کیا
میں عشق میں پابند مکاں ہو نہیں سکتا
مجھ کو یہ رونے کا لپکا اپنے گھر میں پڑ گیا
دھوکا خدا کو دے کے وہ محشر سے چل دیا
تمہیں غرور ہو جس سے وہ کام کس نے کیا
سودے سے داغ داغ تن خستہ ہو گیا
یہ ظلم روکنے کا کیوں مجھ پر آج ہوتا
جفا پہ شکر کا امید وار کیوں آیا
وہ حال غم سنا کیا چپ سن کھڑا ہوا
اب آئینہ ہے اور رخ خوب تمہارا
یہاں تو حشر کو بھولا ہوا ہے تیغ زن میرا
کبھی پورا نہیں ہوتا وہاں قصد سخن میرا
چور اگر آئے تو دیوانے کے گھر کیا نکلا
کوئی مقام نظر آگیا جو بن کا سا
ہنسی میں کٹتا ہے دھوکے سے وقت رونے کا
عیب میرے بخت برگشتہ کا جانے سے رہا
ہر بات تیری طنز ہے ایسا بھی طور کیا
ردیف ب
بتوں کے بدلے یہاں بس خدا کا نام ہے اب
یہ ہے میرے خون سے اس کے مکرنے کا سبب
ہونے پائی نہ تو خاطر نہ مدارات کی بات
آکے جب جاتے ہیں مردہ چھوڑ کر جاتے ہیں آپ
مانئے گا کیا کسی کی زندگانی لے کے آپ
ردیف پ
اس قدر خشک ہوا خون جگر کیا باعث
ردیف ٹ
ردیف ث
چل پھر کے دکھاتی ہے وہ رفتار قیامت
خود مجھ سے تو بدلی ہی نہیں جاتی ہے کروٹ
مے پر نہ برس پڑ بہک اتنا بھی نہ تو آج
داغ اس نے دئے ہیں یہ مدارات ہوئی آج
ردیف ج
نادم ہے میری طنز سے اپنی جفا پر آج
ہے پر کترنے کی ناحق تجھے ہوس صیاد
جنوں میں خار ہے یہ تیری گفتگو ناصح
ردیف د
ردیف ح
روح کو آج ناز ہے اپنا وقار دیکھ کر
سبزہ رنگوں پر لہرائے شوق کریں وہ تنگ تو پھر؟
ہوا ہے وصل میسر مجھے فنا ہو کر
بھول گیا میں اپنا قتل دامن یار دیکھ کر
روز وہ چڑھ کے برس جاتے ہیں میرے گھر پر
کاکلوں سے عارضی اس کا شباب آیا نظر
کیا فقط دست درازی ہوئی پیراہن پر
آنکھوں میں شکل جاناں گھبرائی ہے جو آکر
موت آگئی اب آئے تو کیا دوگے تم آکر
دیکھی یہ سیر کھیل کے الفت میں جان پر
ہم بھی ہیں ولولوں پہ جو وہ ہیں امنگ پر
بوچھار ہے بیداد کے شکووں کی کسی پر
بن سنور کے ہو گئے محبوب سے محبوب تر
جھگڑوں کے سوا اس سے کچھ امید نہیں اور
سرمے سے بلا کوئی ضرور آئے گی ہم پر
فریاد اور تجھ کو ستمگر کہے بغیرما
بعد کو ڈالی ہے نظر میں نے ترے شباب پر
صیاد کاٹنے پہ ہے قینچی منگاکے پر
کرشمے لاکھوں ادائیں لاکھوں میں ان کو پہچان پاؤں کیونکر
اے وصل کی شب صبح کا ڈر جائے تو کیونکر
تنگی جا سے زمیں ساری ہے گویا اک انار
طوطی سے نہ نکلی جو اس انداز کی آواز
شیرں سخنی چاہی تو بگڑا یہ سنا کر
وارفتگی عشق میں باقی نہ رہے ہوش
دل کہاں باقی رہا ہے ہم سے بیچاروں کے پاس
کاش اجل آئے کہ اب اٹھتا نہیں ناز نفس
ردیف س
ردیف ش
ردیف ط
کہہ رہے ہیں یہ زبان برگ سے گلہائے باغ
ظالم سے میں نے عشق کیا اور کیا غلط
ردیف غ
ردیف ف
سن کے کچھ شاید وہ آنکلے مرے گھر کی طرف
روح مائل تھی پس مرگ اس قدر تیری طرف
وہ پہونچائے اسے کیونکر حسینوں کے مکانوں تک
ہے کاہل کیا یہاں پہونچے گا میری زندگانی تک
ردیف ک
ردیف ق
ہو گئی چوک دل اس بت سے لگایا ناحق
ردیف گ
دل جو ذکر لیلی و مجنوں سے بہلاتے ہیں لوگ
شاکی نہیں یہ گرچہ ہے تیری جفا سے تنگ
ردیف ل
دے رہی ہے شہ جوانی خود سری کو آج کل
لیتے تھے ہم رند اسی کا ڈرتے ڈرتے کل تک نام
ردیف م
جی بھر کے عشقی میں برباد ہو چکے ہم
اس کی آنکھیں دیکھ کر ایسے ہوئے بیمار ہم
کھلے گا راز مری جان غم کو لوٹا لو تم
یا تو مجھ سے بدگماں ہو یا تو شرماتے ہو تم
کاہے کو سمجھ بوجھ کے آتے مرے گھر تم
ظالم کی جفا کم نہ مرا درد جگر کم
دیکھ کر دونوں کی شکلیں کر چکے ہیں غور ہم
نہ آئے تم اور اکیلے گھر میں سزا محبت کی پاچکے ہم
اپنے سرکس لئے الزام جفا رکھو تم
مجھی پہ ستم مجھی سے گلہ کہ شکوہ ستم کا کرتے ہو تم
مل کے ہوئے جو آشنا ہم سے نظر نظر سے ہم
ردیف ن
وہ آگ ہجر میں بھڑکی کہ گھر میں تاب نہیں
اب حشر میں کیا اس کو پریشان کروں میں
وہ ترس کھا کر جو دل سے مجھ حزیں کی سہی کہیں
کیا کیا خفت ہوتی ہے جب طعنے ہم پر پڑتے ہیں
رنگ لاتا ہے رخ ان کا وہ جدھر جاتے ہیں
جنوں کے واسطے تنکے کہاں کانٹے کہاں سر میں
اڑ جاتی ہے سب رنگت اوسان بگڑتے ہیں
وصل کے وقت اس کی بے پروائیاں سب کھو چکیں
جلن کی انتہا میں کیا بتاؤں ہجر دلبر میں
آتے جاتے لوگوں سے پلکوں کے اشارے ہوتے ہیں
بیٹھ تو چھپ کے بہت پھول ہیں گلزاروں میں
تنکے جو کسی دن ہیں تو دیوار کسی دن
یہ عمر اور حسینوں سے اجتناب کروں
کیا جنوں خیز بہار آئی ہے گلزاروں میں
عاشق اس کا کوئی نہ سمجھے آج ایسی اک گھات کروں
ہے زباں بے کار اس سے کام لے سکتا نہیں
دیکھتا جاتا ہوں صورت اور بیٹھا مر رہا ہوں
دکھلاتے ہیں وہ خوبی قامت مرے گھر میں
ہجر کے دن کو سمجھے ہیں ہم دن ہی دن ہے شام نہیں
ترے در پر مجھے احباب جب بے ہوش پاتے ہیں
عشق سے توبہ کوئی اب اس ظالم سے بے پروا ہوں
کیا کبھی نیت مری کعبے کے جانے کی نہیں
سب حوصلے نطارے کے محفل میں تلف ہیں
نفس کی چال ترے گھر سے چل کے جاتے ہیں
غرور جور کا بانی ہے اور کچھ بھی نہیں
بچنا ہے مرے اشکوں سے جو رخ چھوٹے ہیں
گلیوں گلیوں ہم نے لاکھوں کنکر پتھر کھائے ہیں
محبت کیا ہے سکتہ ہے کہ چپ چپ دونو رہتے ہیں
صرف آواز کا ہم لوگ مزا لیتے ہیں
دیر تک باتیں کروں اس سے میں ہوں اس گھات میں
دل فریب اس کی جوانی کا فقط سن ہی نہیں
کیا لڑکپن ہے کہ عاشق کو لبھاتا ہی نہیں
کام آئی کچھ نہ یاس تمنائے دید میں
اوراق نقش پا ہیں سب دشت میں نمایاں
مجھ پہ کیا کیا ظلم ہیں اوبے وفا اب کیا کہوں
شباب آیا وہ آفت ڈھا رہے ہیں
دور ہے حشر اور اسے کھٹکے سے آسائش نہیں
قمر سے روے بشر میں کچھ فرق اگر نطر مان لے جاؤں
نہ اڑنے دوں اسے غم سے یہ اختیار نہیں
کافر وہ بنا دیتا ہے شوق ایک ہی پل میں
جنوں کے شغل کو یارو کہیں بھی خار نہیں
ضدی نہ ہو مجھ سا بھی عاشق کوئی دنیا میں
میں نہ آیا تو مجھے کیا شکوۂ فرقت نہیں
زلف کے عشق میں بدنام مجھے کرتے ہیں
بال چھٹکائےہوئے مجھ سے پھرے بیٹھے ہیں
دماغ کو ترے عاشق جنوں کہتے ہیں
اسے دیکھتے ہی بلانے چلا ہوں
جل بجھا شوق اب وجود اس کا نظر میں کچھ نہیں
ترے دیوانے باتیں کتنی وحشت ناک کرتے ہیں
شک ہے جنوں کو کہ یہ میرا مکاں نہیں
ہاتھ اگر لال ہیں تو رنگ حنا کہتے ہیں
شرم ہوتی ہے مخل لطف ملاقات میں کیوں
یہ عالم حسن کی گرمی کا ہے ان حسن والوں میں
برا مزا مجھے آئے گا جاں فشانی میں
دم چرائے ہوئے اب ہے تری شمشیر کہ میں
کیوں ترے بالوں میں الجھا ہوں سبب میں کیا کہوں
عشق کا سودا بے جانچے نادان اپنے سر لیتے ہیں
کھوئی ہے اس عشق نے کیسی بات ہماری دنیا میں
ہے آئینے میں اپنا محو دیدار آپ ہی اب تو
پت جتنے جور کریں مجبوری سے سہ سکتا ہوں
ردیف و
اے جنوں دنیا ادھر کی اب ادھر ہی کیوں نہ ہو
عشق میں ڈر ہے زباں کا کہ یہ غماز نہ ہو
ہوا ہے خون اگر دل کا تو بس گرم جفا تم ہو
لطف اس کو کہاں مجھ سے بڑا بیر ہے اب تو
ناصحو وقت جوانی کا گزر جانے دو
تیرے گھر آکے جو حاصل ہوئی ذلت مجھ کو
آہ کھینچی ہی نہیں میں نے اثر کرنے کو
محشر میں فریاد پہ مجھ کو آنکھیں وہ دکھلائیں تو
اپنی مسجد لے اے شیخ اب موسم گل ہے آنے کو
اس ظالم کے سر چڑھتا ہے ہر دم جھٹکا کھانے کو
کیا قتل اور پھر سمجھے وہ میری بے گناہی کو
رنگیں حنا کے رنگ سے یوں نقش پا نہ ہوا
ملا تلاش سے اپنا نشان اب مجھ کو
وہ ترش رو ہے ہمیں جان ہے بھاری اب تو
روتے میں ہنستا میں جو ادا بھا گئی مجھ کو
حشر کا رستا دیکھ رہا ہوں پھر جی کر پھر مرنے کو
شک جس سے پڑے کرتے ہو وہ کام تمہیں تو
نہ تو بولو نہ اک نظر دیکھو
آپ میں آئے وہ تو لطف ملاقات بھی ہو
محل فلک کے کھانے لگے زمیں مجھ کو
سمجھ کے نیند کا آنا اجل کے آنے کو
گھر میں جنوں نے خاک اڑا دی دشت میں دل بہلانے دو
سوز غم میں پوچھتے ہو کیا ان اشکوں کی روانی کو
تیرا دیوانہ نہ چلّائے وہ تدبیر بھی ہو
جو تذکرۂ عشق پہ عاشق سے خجل ہو
مہندی مجھے دکھلا کر ٹھوکر سے ہٹاتے ہو
نزع میں ہوں میں اگر قصد مرے پاس کا ہو
تو ہی کہہ چرخ ہے لوگوں پہ جفا کار کہ تو
کبھی شراب کی خواہش نہ تھی نہ ہے مجھ کو
ظلم کرکے کیوں کسی کی آہ لو
ہم جو آئے کاٹ دی مہندی میں تو نے رات یہ
کاش اتنی ہو فرقت کہ نہ پہچان سکے وہ
ردیف ہ
وصل ممکن ہے کہ امید وفا کہتی ہے کچھ
جگہ زلفوں میں دے کر کیا لگائے گا ٹھکانے وہ
کریں مرے جنازے کا کہاں تک انتظار وہ
جنوں کر چل کے گلشن میں ملاقات گل و لالہ
چلمن سے جھانکتے ہیں مجھے بار بار وہ
سیکھ لے کاش شوخیاں اس سے ادا ادا سے وہ
ردیف ی
دل لے کے گئی ہے کہ جگر لے کے گئی ہے
کہتے ہو بے وفا مجھے غم کا سبب ہے یہ
روؤں اے بادل تو جل تھل بھر کے چھوڑوں تو سہی
خون دکھلاتا ہے رنگ لب تر سے کوئی
جاں ستاں ہیں تری آنکھوں کی ادائیں میری
کبھی تولہ کبھی ماشہ جو مزاج اس کا ہے
ہے کون بلا زلف گرہ گیر کسی کی
سینک نہیں سکے آنکھیں بھی عاشق ان کے گالوں کے
اشک پر اشک جو آنکھوں سے گرا پڑتا ہے
خون میرا کرکے دھبے پیرہن پر لے گئے
بے خودی میری کہاں رکھتی ہے روپوش مجھے
منہ پر اس گل کے کلی کس لئے تو آتی ہے
کیا قیامت ہے کہ چڑھتا ہے نہیں سے کوئی
وہ خوش کہ ہیں جگر کو نظر میں لئے ہوئے
جتنے ٹکڑے ہیں دل ناکام کے
لاشیں تیرے مقتولوں کی آج تو سب گڑ جائیں گی
لب کھول نہ دیں مرتے ہیں بیمار انہیں کے
چپ بھی ہے دل بھی کرشموں سے لئے جاتا ہے
تو اب اٹھنے پہ ہے یہ کہہ کے کہ نیندآئی ہے
کوئی تم سے جدا درد جدائی لے کے بیٹھا ہے
بتوں کے سامنے محشر میں میری سی نہیں کہتے
کیا کہیں زاہد بتوں سے کب کی رسم و راہ ہے
ظاہر ہے میری شکل سے جو میرا حال ہے
یوں صدا دیتی ہے خالی نے بھی
حسن پاکر دشمن اہل نظر ہی کیوں بنے
تجھ سا ظالم ہے فلک بھی تو اجارا کیا ہے
بچپن میں جو اڑاتے تھے کل پر لئے ہوئے
جی درد دل کے مارے ہونٹوں پہ آرہا ہے
اس ستمگر پر تھے جن لوگوں کے دل آئے ہوئے
درد سے ہم اک ذرا سی اشکباری کر پڑے
ایک چھالا ایک کانٹا چاہئے
وصل کی شب ہے کہیں صبح نہ اندھیر کرے
ہمیشہ نور جبیں میں تو رخ میں تاب رہے
دل اٹکا اور روتے روتے ناک میں دم اب میرا ہے
ہو وہ اونچا مرے نالوں سے مگر نیچا ہے
آنسو پی جانے پر مجھ سے ظالم کی ضد رہتی ہے
کھل گیا موباف تو عاشق چلے دل دار نے
دل مرا منتظر وعدۂ شب کتنا ہے
کب کہیں اور گنی ہم سے گدا نکلیں گے
ان بتوں ہی سے زمانے میں ہے جو کچھ کام ہے
ہماری جان وہ کیا لیں بدن میں جب ہو بھی
اس کی تصویر جو پہلو میں دھری رہتی ہے
عشق کی ہمت کرے وہ جس سے مرنے بن پڑے
آے کہیں سے لڑکے تو ہم سے نہیں ملے
اے مؤذن چپ بھی رہ تو پھر چکا اسلام سے
بڑھی یہ میری حیرت اب کہ بات میں کلام ہے
صبح شب وصل اشک ہمارے نظر آئے
جھوٹے وعدے اب تو ہیں اے جان ہنستے بولتے
بگاڑ میں بھی ادا سے لبھائے جاتا ہے
جی دیتے ہیں دماغ کی وحشت نکل گئی
وہ ظالم ہے در گزرے ہم اس کی الفت کرنے سے
وحشت قدم بڑھا کے جو چال اپنی چل گئی
لب چپ ہیں تو کیا دل گلہ پرداز نہیں ہے
کچھ تو آخر کو محبت کا اثر ہوتا ہے
کچھ دل کی سناؤں کچھ جگر کی
وصل کی شب رہ گئے مشتاق ہم اک بات کے
دیکھ اس میں تاثیر بھری ہے جس سے بے پروا تو ہے
ہم نہ مانیں کہ کھلی سرخی خواب آنکھوں سے
جتنے عاشق تیرے رخساروں کے پائے جائیں گے
کیوں جبر سے چاہوں میں ملاقات کسی کی
ادا قاتل بنے تو کام بے شمشیر ہو جائے
جو چاہو تو بہت آسان ظلموں کی تلافی ہے
آج تو چال سے حشر اس نے بپا رکھا ہے
مرے ہیں جان چھوڑانے کو ان کے کینوں سے
سب حسینوں میں وہ یوں میرے حساب اچھا ہے
پکڑیں کس کو وحشی تیرا خوب طرارے بھرتا ہے
کہاں تک آپ کو دل دے کے درد ہم لیں گے
تمہاری مانگ دیکھ کر ادھر ہی راہ گیر ہے
اداے حسن سے بہروپیے وہ بال بنے
وعدے کے دن بھی بیٹھے ہیں ہم کچھ اداس سے
کب آئے قریب جب سحر ہے
کیسے اچھے ہیں یہ بت جن کو برا کہتا ہے
سرے پانؤں تک نظر کیونکر کمر سے بچ کے جائے
تم آنکھیں بند کر لو تو بڑا ہی کام ہو جائے
بیداری میں جاتا ہوں تو تالی مجھ کو دیتا ہے
بدن غریب ترستا ہے پیرہن کے لئے
تحفے میں لے کے اس کے لئے خون دل گئی
دل ہی پر کیا جو چاہے لے ایسا اس نے گھیرا ہے
جنوں لباس نہ میرے بدن کے کام آئے
وہ لے کے دل کو یہ سوچی کہیں جگر بھی ہے
جو کوئی ملے دل سے ہم کو وہی پیارا ہے
کہوں کیا کہ دل مضطرب کس قدر ہے
نہ بولو لبوں کا نظارہ بہت ہے
سکون چاہئے دل کو وہ صبر کرکے سہی
ہوا ملزم خوشی کا گرچہ صورت غم کی تھی میری
میں مجنوں کو مجنوں مجھے جانتا ہے
مجھے اس حافظے کے ضعف سے کیا لطف آتا ہے
اس کوچے میں گڑنے کو مری لاش پڑی ہے
نکلا جو وہ خوف سے مخلوق ہٹ گئی
سب کچھ ہم کہہ گزرے لیکن قسمت سے کیا چارا ہے
طمع کس کو ہے سائل بن کے اس کے در پہ جانے سے
یہاں نہ آؤ تو دیکھو تم اپنے گھر ہی سے
پلکوں کو ادھر اور ادھر بند کیا ہے
لباس تنگ سے ابھرا ہوا بدن دیکھے
منہ پر تو الفت کی باتیں دل میں ظلم کی نیت ہے
ہوا مجبور کمزوری سے طفل اشک چلتے ہی
ہمیشہ وعدۂ دلبر غلط ہی جانا جائے
دیکھ کر گل کو ہم ان کے رخ کا دھوکا کھا گئے
کن آنکھوں سے دیکھوں اے دشت آنکھیں تیرے غزالوں کی
جب اشارے مجھے آآکے گھٹا کرتی ہے
تھکا میں دیکھ کے وعدے پہ راہ آنے کی
سمجھو نہ یہ کہ چھپ کے گلی سے گزر گئے
اس کےبچپن کو تو دیکھو کہ وہ کیا سمجھا ہے
زندگی کا کیا بھروسا یہ اجل کے ہاتھ ہے
ہم آئے آج اسے صورت آشنا کرکے
اس پردہ کیوں خفا ہیں کہ ہم ان کے گھر گئے
مرنا مرا سنا بھی تو آئے گا کیا ابھی
جنوں سے جابجا شوق ہے یہ حالت ہے ترے سر کی
اتنا بے چین ہوا یاد ہم آغوشی سے
سوچ چھوڑا ہے برے اور بھلے کا ہم نے
تمہارے بال بھی اچھے تمہاری مانگ بھی اچھی
پڑا ہے کام اب عرض تمنا کو خموشی سے
طاقت صبر اس ستم پر کیوں نہ ہو شاکی تری
ٹوکا جو لہو پر تو کیا ہنس کے کسی نے
مری قسمت میں تھا اوروں کا منت کش نہ ہونا ہی
مارے غصے کے غضب کی تاب رخساروں میں ہے
لوں تجھی سے ہو کے کوش تو بد دعا ہی کیوں نہ دے
میں نہ شگفتہ ہوں گا چمن میں گل کے شگفتہ ہونے سے
ملے دو یار باہم اب تو یہ چھوٹیں گے مشکل سے
سرو کو دے سزاے پامالی
دل کی سردی سے ٹپکتا نہیں تھم جاتا ہے
دیکھ لے صورت اگر آئے کوئی سو بار بھی
روز آ آ کے وہ لڑ جاتا ہے
سیکھو وفا جو دلبر بننے کا حوصلہ ہے
لائے ہم اس کو گھر تک لڑتے ہوئے اسی سے
خوتری بد ہے یہی اک غم نہیں میرے لئے
کہاں سے رنگ گلوں کے لئے یہ لائی ہے
شباب آتے ہی دھوکا آئنے سے اس نے کھایا ہے
نہ پوچھو مزا عشق کاکل میں کیا ہے
اس سے تو ہوں گا ہم سخن خیر میں بے ادب سہی
کاجل بہ بہت مائل وہ گیسووں والا ہے
نہ پائی اس نے اس پر بھی صفائی حسن جاناں کی
مرے قتل پر یہ ندامت تمہاری
کہاں اب چھوٹتی ہے سر زمیں اس سے بیاباں کی
گئے حواس مرے اس کے پاس جاتے ہیں
کونے میں بٹھایا آپ سے دور اوروں سے ہم کو کم سمجھے
تری نظر کوئی جادو ہوئی نظر نہ ہوئی
دیکھے نہ دیکھے شکل وہ سلسلۂ خبر تو ہے
وصل کہاں کہ رنگ ہجر دیدۂ فتنہ گر میں ہے
بس اب گلۂ جور کا محشر میں خدا ہے
نہ رہے جو یاد انہیں کچھ تو کون کہا کرے
وہ زلف دیکھ کے جینا محال ہوتا ہے
دیکھ کے سرخی کیوں رونے کا دھوکا سب نے کھایا ہے
کیا میں دیکھو کہ رخ پہ آنچل ہے
مر مٹوں دل تیرے وعدے سے جو طاقت پانہ جاے
محشر میں کچھ کہوں وہ نہ دیکھے اگر مجھے
وہ کیا زبان دے کے کرے خوش کلام سے
ہو خوشامد سے وہ خوش یہ بات بھی مشکل ہوئی
منہ سے ہے عذر ستم تو مانتا ہی کون ہے
دشت میں مسکن جو بالو پر بنا میرے لئے
نگاہ اس کے تن شفا پر بیکار جاتی ہے
ہزاروں جھڑکیوں کا خوف ہے کھانے سے پہلے ہی
چشم دلجو جو کہیں اس نے ادھر کی ہوتی
ستم سہوں یہ ملا عشق کا حوصلہ تم سے
یاد دلبر جاں ستاں اور جان اچھی چیز ہے
مرا بس کچھ نہیں ہے رحم چاہے تو اگر مجھ سے
تیر کو کیوں دوں کہ جس رخ جائے وہ دل لے کے جائے
تمہیں کہو کہ نہ کیوں دل فدا کرے کوئی
تیری سی بھی آفت کوئی اے سوزش تب ہے
اے اجل راحت جدھر ہو رخ ادھر ہی کیوں نہ جائے
غافل نہ ہو اے دل کہ نظر آکے نکل جاے
لب ہلے اس کے تو میں ڈر گیا نادانی سے
کدھر ہٹتے ہو تم نظروں کو تھوڑا کام باقی ہے
دنیا میں آسانی کیسی جینے کی دشواری ہے
محبوب کے در پر موت اے کاش ہمیں آتی
وہ جواب خط لکھے امید یہ کب ہے مجھے
رشک رخ سے آب خجلت کی روانی دیکھئے
خوشبو بدن کی پھیلی چل دے اب اس چمن سے
اذاں حرم میں ہوئی ہے خدا خدا کرے
آنا ترا آفت دل مضطر کے لئے ہے
روتا ہوں میں جا جا کر تو کیا کیا وہ دھمکاتا ہے
یہ ہو کہ مجھ سے نہ ملنے کی کچھ سزا مل جائے
تیغ سے ہو گئی کوشی دل کی
یہ افلاس اور سبز خطوں سے حسن پرستی سوجھی ہے
دل ہی دینا ہے تو دے کر اور سے ہنس بول لے
بوندا باندی جوش غم میں اشکوں سے دن رات رہی
نہ کبر اس حسن پر کر یہ جہاں کا کار خانہ ہے
عیسیٰ سے کیا ایک سوال آکے کسی نے
بہت حلیم حکومت کے ساتھ تھا ماموں
متفرقات
نکلے ابراہیم ادہم طالب اکل حلال
کھٹکے میں تھا خسرو پرویز ایک امیر سرکش ہے
ہم کو سامان تشفی مل گیا تقدیر سے
ایک دشمن پر چڑھائی فوج اسکندر نے کی
جن کو حکمت دی خدا نے پوچھئے ان سے یہ بات
ایک سائل جا کے پہونچا پاس ابن العاص کے
کاہل تھا اک غلام جناب امیر کا
تھے علی ابن موسیٰ ایک دن حمام میں
باہمی حجت سےحجت کے سوا کیا فائدہ
ایک دن آکر کہا اک یار نے اک یار سے
یہودیوں میں کہیں جا پڑے جناب مسیح
ایک تاجر شہر بصرہ میں تھا جس نے لے کے مال
کہی کسی سے سکندر نے اپنے راز کی بات
ابو مرثد بہت مشہور تھے وصف سخاوت میں
امیر ابوالحسن فرماں رواے شہر واسط تھے
کسی نے آکے امام حسن سے کی یہ عرض
رباعیات
قطعات تاریخ وفات حضرت شوقؔ مرحوم
سرورق
دیباچہ
مقدمہ
ردیف الف
مرا حق مان کر بن تو مرا حاجت روا ہونا
بکتے بکتے تو تو اے ناصح مرا سر کھا گیا
مرے منہ پر کسی سے لیکے تجھ کو پان کھانا تھا
دل کھوٹا ہے ہم کو اس سے راز عشق نہ کہنا تھا
ابرو ہے کعبہ آج سے یہ نام رکھ دیا
گل ہو کے میں کیا ہنستا ایسا نہ تھا غم میرا
میں جو رویا خلق کی نظروں سے بادل گر گیا
وہ بد خور ہے اور ٹھکانا ڈھونڈھیں دل بہلانے کا
بوے ہی کیوں چلا جو مرا دم رکا ہوا
ان بیڑیوں سے دشت نور دی میں بل پڑا
دل مرا ٹوٹا تو اس کو کچھ ملال آہی گیا
میں غیر ہوں دل سے یہ کھٹک جائے تو اچھا
صرف قد ہی نہیں کچھ گل کے شجر ہی کاسا
دم کہیں اکھڑا ہوا ہے دل کہیں ٹوٹا ہوا
ناصح اک بت سے ہے کام اک بندہ اللہ کا
سواد خط ترے خط میں تری تحریر کا سا تھا
کچھ ہٹا رنگ اس کی مہندی کا تو لطف آنے لگا
سمجھا نہ بات فہم میں ہے یہ فتور کیا
ہاتھوں سے منہ چھپا کر دل مفت لو کسی کا
ہے زیر جبیں نقش قدم ایک حسین کا
سر کو کسی معشوق پہ وار آؤں تو اچھا
کیا مجھے عشق میں سوداتھا کہ گھر میں رہتا
اے جنوں یوں تو نہ چھوڑوں گا اگر چھوڑوں گا
کس دل سے میں مشتاق ترے ناز کا ہوتا
ذکر سنتے تھے خیر جاری کا
حشر میں آپ کو ظالم نہ بنا ہی لینا
یہ حسن عارضی یہ دوروزہ بہار کیا
ہمارا نالۂ دل سر اٹھا کے مانے گا
آہوں سے تھک کے چپ جو میں ناکام ہو گیا
نہ ہوتی وصل کی شب مختصر تو کیا ہوتا
خون ہی خون تھا سب دل تو فقط نام کا تھا
حاصل گر یہ ہے سامان قضا ہو جانا
صبر پر پھیر کے پانی جو وہ محبوب گیا
سنبل کو سمجھے زلف کا سایہ ستم کیا
حسن ظالم ہے جو اے عشق تو ڈرنا اچھا
بے زباں میں جو بنا لطف زباں یہ بھی تھا
دل میں باتیں بہت اور وقت ہے ڈر جانے کا
نہ دہن کا کبھی کھلنا نہ سخنور ہونا
تو دل کو لے گیا ہے تو دل نشیں ہوا تھا
دامن نہ سہی کام تو چلتا ہی رہے گا
بھاگے اچھی شکلوں والے عشق ہے گویا کام برا
اگر ایسا ہی ستم تیرا نظر آنا تھا
معشوق ہے پھر کیوں وہ ستم کر نہیں سکتا
جب پھیرنا نظر تم تب یہ خیال کرنا
دل کا دنیا مجھے کیا آپ ہی منظور ہوا
جب شباب آیا تو منہ اسکو چھپانا ہی پڑا
داغوں سے اس عشق نے میرا سارا دل بیکار کیا
ضعف میں بھی کام مثل رنگ چل ہی جائیگا
شک تھا لوگوں کو کہ چاند آج دوبارہ نکلا
اس کے جلوے سے مرے گھر میں اجالا ہوتا
اسکی چشم فتنہ زار کا سامنا کرنا پڑا
جذب کچھ کم تھا ہوا اس پہ اثر یوں ہی سا
قسمت میں بدی ہیں خلشیں ہی تو ڈروں کیا
جس دن وہ گیا یہ رنگ اس دن مرے گھر کا تھا
وصل میں جلد نہ کٹ جانا تھا
کہاں ہے یہ آئینے کی صورت کریگا تیری برابری کیا
مر کے اس در سے اٹھوں گا جو اب آکر بیٹھا
خط لکھنے کی عادت جو میں کم کر نہیں سکتا
میرے جنوں سے حشر کو پالا جو پڑ گیا
بیدل ہوئے جاتے ہیں یہ ہے حال ہمارا
دھڑکنے پر ترس سے کام لیتے تم تو کیا ہوتا
بے قراری سے خدا نے دل ہمارا بھر دیا
داغوں کے سوا کس کو سہارا ہے کسی کا
گماں نہ کرے گلرنگ کے پیالوں کا
بدنام ہوا قتل سے کیوں ناز کسی کا
پہلے تو خون پی گئی پھر جسم کھا لیا
تھا بند وہ در پھر بھی میں سو بار گیا تھا
کہتا ہے وہ مجھ سے کہ تمہیں یاد کروں گا
ہے دانت ایمان پر اس بت کدے کے خوش جمالوں کا
تم سے دل اپنا پھیر کے دم لیں گے دیکھنا
دل پڑا نظروں کی تیغوں میں تو کٹ ہی جائیگا
خط سے بھی وہ نہیں ہوتا سیدھا
گل ہو رخ بے حجاب کا سا
میں نے دل سے کیا پھل پایا کوئی کیا پھل پائیگا
مرض سا ہے ترے عاشق کو سر کے دھننے کا
آگیا غصہ تو اس کا رنگ گہرا ہو گیا
کبھی وعدے کا طالب دل کبھی خواہاں ہے گالی کا
بھلا ہو تم سے حسینوں کی بے وفائی کا
خون دل آنکھوں میں اشکوں کے عوض لانے لگا
مرے نصیب میں پیش نظر نہ ہونا تھا
بچپن چلا شباب کے اب جور دیکھنا
کچھ سہارا مرے جینے کا رہا ہی کب تھا
میں غافل اور وہ جو یارے دل تو پھر کیا تھا
ہجر میں ہر شب شغل رہا ہے مثل شبنم رونے کا
قیس گیا تو شوق اب آیا
بدنام عشق میں ہیں یہ نام ہے ہمارا
جنوں ہوا مجھے تو بے حجاب کیا آیا
گر میسر ہو نظارہ چشم مست یار کا
بے حواسی سے میں پہلے تو وہ گھر بھول گیا
جو زندگی ہے تو خضر ایک کام کر لینا
خوف اس کو اثر کا جو ہوا ہو تو عجب کیا
وہ مڑ جاتا ہے صورت آشنا ہونے نہیں دیتا
مجھ سے بے کس کا مرنا ہی کیا جو کوئی کرے ماتم میرا
مجھے تو کھو کے مشکل ہو گیا ہے اپنا پا لینا
دل ہی قابو میں نہیں تجھ پر جو قابو ہو تو کیا
ضعف سے کچھ کیا نہیں جاتا
بڑے مزے سے گزرتی ہے کوئی غم نہیں رہتا
لیا وعدہ کیا وعدہ تو دونوں کو قرار آیا
غصے میں وہ بھرا تو میں منہ تک کے رہ گیا
میں آؤں تو نہ رکھ الزام بے قراری کا
حجاب عام ہو جاتا ہے روئے بے حجاب ان کا
دل آیا سامنے ہم جنس اس بت کا اگر آیا
خلل دماغ میں چھپنے کا ظرف پا نہ سکا
کیا ہی برہم وہ ہوا جان کے ہمسر اپنا
اٹھایا اس نے بہت جب میں پاس جا بیٹھا
فریاد پر بھی تم نے تغافل نہ کم کیا
مرے جنوں سے جو اس کے جنوں میں بل آیا
عشق بازی کا بکھیڑا میرے سر سارا پڑا
مدد کو ہجر میں دل یا جگر نہیں آیا
تب تو مارا مجھے حشر آیا تو گھبرائے نا
سامنے اس کے نہ رویا شوق اب روتا ہے کیا
جو منہ چھپا کے نہ دو تم جواب کل کا سا
خدا ہی دے رحم جس کے دل میں کرے وہ پورا سوال میرا
میں تجھ سے کچھ مانگ اٹھا تو غصہ کیوں مجھ پر آیا
وصل کے وعدہ سے پھر کیوں یہ ستم ہونے لگا
شب کو محفل میں ستم ہی ہو گیا
ہوئی یا مجھ سے نفرت یا کچھ اس میں کبر و ناز آیا
چھائی حیرت بخت نے دونوں کو جب یکجا کیا
میں عشق میں پابند مکاں ہو نہیں سکتا
مجھ کو یہ رونے کا لپکا اپنے گھر میں پڑ گیا
دھوکا خدا کو دے کے وہ محشر سے چل دیا
تمہیں غرور ہو جس سے وہ کام کس نے کیا
سودے سے داغ داغ تن خستہ ہو گیا
یہ ظلم روکنے کا کیوں مجھ پر آج ہوتا
جفا پہ شکر کا امید وار کیوں آیا
وہ حال غم سنا کیا چپ سن کھڑا ہوا
اب آئینہ ہے اور رخ خوب تمہارا
یہاں تو حشر کو بھولا ہوا ہے تیغ زن میرا
کبھی پورا نہیں ہوتا وہاں قصد سخن میرا
چور اگر آئے تو دیوانے کے گھر کیا نکلا
کوئی مقام نظر آگیا جو بن کا سا
ہنسی میں کٹتا ہے دھوکے سے وقت رونے کا
عیب میرے بخت برگشتہ کا جانے سے رہا
ہر بات تیری طنز ہے ایسا بھی طور کیا
ردیف ب
بتوں کے بدلے یہاں بس خدا کا نام ہے اب
یہ ہے میرے خون سے اس کے مکرنے کا سبب
ہونے پائی نہ تو خاطر نہ مدارات کی بات
آکے جب جاتے ہیں مردہ چھوڑ کر جاتے ہیں آپ
مانئے گا کیا کسی کی زندگانی لے کے آپ
ردیف پ
اس قدر خشک ہوا خون جگر کیا باعث
ردیف ٹ
ردیف ث
چل پھر کے دکھاتی ہے وہ رفتار قیامت
خود مجھ سے تو بدلی ہی نہیں جاتی ہے کروٹ
مے پر نہ برس پڑ بہک اتنا بھی نہ تو آج
داغ اس نے دئے ہیں یہ مدارات ہوئی آج
ردیف ج
نادم ہے میری طنز سے اپنی جفا پر آج
ہے پر کترنے کی ناحق تجھے ہوس صیاد
جنوں میں خار ہے یہ تیری گفتگو ناصح
ردیف د
ردیف ح
روح کو آج ناز ہے اپنا وقار دیکھ کر
سبزہ رنگوں پر لہرائے شوق کریں وہ تنگ تو پھر؟
ہوا ہے وصل میسر مجھے فنا ہو کر
بھول گیا میں اپنا قتل دامن یار دیکھ کر
روز وہ چڑھ کے برس جاتے ہیں میرے گھر پر
کاکلوں سے عارضی اس کا شباب آیا نظر
کیا فقط دست درازی ہوئی پیراہن پر
آنکھوں میں شکل جاناں گھبرائی ہے جو آکر
موت آگئی اب آئے تو کیا دوگے تم آکر
دیکھی یہ سیر کھیل کے الفت میں جان پر
ہم بھی ہیں ولولوں پہ جو وہ ہیں امنگ پر
بوچھار ہے بیداد کے شکووں کی کسی پر
بن سنور کے ہو گئے محبوب سے محبوب تر
جھگڑوں کے سوا اس سے کچھ امید نہیں اور
سرمے سے بلا کوئی ضرور آئے گی ہم پر
فریاد اور تجھ کو ستمگر کہے بغیرما
بعد کو ڈالی ہے نظر میں نے ترے شباب پر
صیاد کاٹنے پہ ہے قینچی منگاکے پر
کرشمے لاکھوں ادائیں لاکھوں میں ان کو پہچان پاؤں کیونکر
اے وصل کی شب صبح کا ڈر جائے تو کیونکر
تنگی جا سے زمیں ساری ہے گویا اک انار
طوطی سے نہ نکلی جو اس انداز کی آواز
شیرں سخنی چاہی تو بگڑا یہ سنا کر
وارفتگی عشق میں باقی نہ رہے ہوش
دل کہاں باقی رہا ہے ہم سے بیچاروں کے پاس
کاش اجل آئے کہ اب اٹھتا نہیں ناز نفس
ردیف س
ردیف ش
ردیف ط
کہہ رہے ہیں یہ زبان برگ سے گلہائے باغ
ظالم سے میں نے عشق کیا اور کیا غلط
ردیف غ
ردیف ف
سن کے کچھ شاید وہ آنکلے مرے گھر کی طرف
روح مائل تھی پس مرگ اس قدر تیری طرف
وہ پہونچائے اسے کیونکر حسینوں کے مکانوں تک
ہے کاہل کیا یہاں پہونچے گا میری زندگانی تک
ردیف ک
ردیف ق
ہو گئی چوک دل اس بت سے لگایا ناحق
ردیف گ
دل جو ذکر لیلی و مجنوں سے بہلاتے ہیں لوگ
شاکی نہیں یہ گرچہ ہے تیری جفا سے تنگ
ردیف ل
دے رہی ہے شہ جوانی خود سری کو آج کل
لیتے تھے ہم رند اسی کا ڈرتے ڈرتے کل تک نام
ردیف م
جی بھر کے عشقی میں برباد ہو چکے ہم
اس کی آنکھیں دیکھ کر ایسے ہوئے بیمار ہم
کھلے گا راز مری جان غم کو لوٹا لو تم
یا تو مجھ سے بدگماں ہو یا تو شرماتے ہو تم
کاہے کو سمجھ بوجھ کے آتے مرے گھر تم
ظالم کی جفا کم نہ مرا درد جگر کم
دیکھ کر دونوں کی شکلیں کر چکے ہیں غور ہم
نہ آئے تم اور اکیلے گھر میں سزا محبت کی پاچکے ہم
اپنے سرکس لئے الزام جفا رکھو تم
مجھی پہ ستم مجھی سے گلہ کہ شکوہ ستم کا کرتے ہو تم
مل کے ہوئے جو آشنا ہم سے نظر نظر سے ہم
ردیف ن
وہ آگ ہجر میں بھڑکی کہ گھر میں تاب نہیں
اب حشر میں کیا اس کو پریشان کروں میں
وہ ترس کھا کر جو دل سے مجھ حزیں کی سہی کہیں
کیا کیا خفت ہوتی ہے جب طعنے ہم پر پڑتے ہیں
رنگ لاتا ہے رخ ان کا وہ جدھر جاتے ہیں
جنوں کے واسطے تنکے کہاں کانٹے کہاں سر میں
اڑ جاتی ہے سب رنگت اوسان بگڑتے ہیں
وصل کے وقت اس کی بے پروائیاں سب کھو چکیں
جلن کی انتہا میں کیا بتاؤں ہجر دلبر میں
آتے جاتے لوگوں سے پلکوں کے اشارے ہوتے ہیں
بیٹھ تو چھپ کے بہت پھول ہیں گلزاروں میں
تنکے جو کسی دن ہیں تو دیوار کسی دن
یہ عمر اور حسینوں سے اجتناب کروں
کیا جنوں خیز بہار آئی ہے گلزاروں میں
عاشق اس کا کوئی نہ سمجھے آج ایسی اک گھات کروں
ہے زباں بے کار اس سے کام لے سکتا نہیں
دیکھتا جاتا ہوں صورت اور بیٹھا مر رہا ہوں
دکھلاتے ہیں وہ خوبی قامت مرے گھر میں
ہجر کے دن کو سمجھے ہیں ہم دن ہی دن ہے شام نہیں
ترے در پر مجھے احباب جب بے ہوش پاتے ہیں
عشق سے توبہ کوئی اب اس ظالم سے بے پروا ہوں
کیا کبھی نیت مری کعبے کے جانے کی نہیں
سب حوصلے نطارے کے محفل میں تلف ہیں
نفس کی چال ترے گھر سے چل کے جاتے ہیں
غرور جور کا بانی ہے اور کچھ بھی نہیں
بچنا ہے مرے اشکوں سے جو رخ چھوٹے ہیں
گلیوں گلیوں ہم نے لاکھوں کنکر پتھر کھائے ہیں
محبت کیا ہے سکتہ ہے کہ چپ چپ دونو رہتے ہیں
صرف آواز کا ہم لوگ مزا لیتے ہیں
دیر تک باتیں کروں اس سے میں ہوں اس گھات میں
دل فریب اس کی جوانی کا فقط سن ہی نہیں
کیا لڑکپن ہے کہ عاشق کو لبھاتا ہی نہیں
کام آئی کچھ نہ یاس تمنائے دید میں
اوراق نقش پا ہیں سب دشت میں نمایاں
مجھ پہ کیا کیا ظلم ہیں اوبے وفا اب کیا کہوں
شباب آیا وہ آفت ڈھا رہے ہیں
دور ہے حشر اور اسے کھٹکے سے آسائش نہیں
قمر سے روے بشر میں کچھ فرق اگر نطر مان لے جاؤں
نہ اڑنے دوں اسے غم سے یہ اختیار نہیں
کافر وہ بنا دیتا ہے شوق ایک ہی پل میں
جنوں کے شغل کو یارو کہیں بھی خار نہیں
ضدی نہ ہو مجھ سا بھی عاشق کوئی دنیا میں
میں نہ آیا تو مجھے کیا شکوۂ فرقت نہیں
زلف کے عشق میں بدنام مجھے کرتے ہیں
بال چھٹکائےہوئے مجھ سے پھرے بیٹھے ہیں
دماغ کو ترے عاشق جنوں کہتے ہیں
اسے دیکھتے ہی بلانے چلا ہوں
جل بجھا شوق اب وجود اس کا نظر میں کچھ نہیں
ترے دیوانے باتیں کتنی وحشت ناک کرتے ہیں
شک ہے جنوں کو کہ یہ میرا مکاں نہیں
ہاتھ اگر لال ہیں تو رنگ حنا کہتے ہیں
شرم ہوتی ہے مخل لطف ملاقات میں کیوں
یہ عالم حسن کی گرمی کا ہے ان حسن والوں میں
برا مزا مجھے آئے گا جاں فشانی میں
دم چرائے ہوئے اب ہے تری شمشیر کہ میں
کیوں ترے بالوں میں الجھا ہوں سبب میں کیا کہوں
عشق کا سودا بے جانچے نادان اپنے سر لیتے ہیں
کھوئی ہے اس عشق نے کیسی بات ہماری دنیا میں
ہے آئینے میں اپنا محو دیدار آپ ہی اب تو
پت جتنے جور کریں مجبوری سے سہ سکتا ہوں
ردیف و
اے جنوں دنیا ادھر کی اب ادھر ہی کیوں نہ ہو
عشق میں ڈر ہے زباں کا کہ یہ غماز نہ ہو
ہوا ہے خون اگر دل کا تو بس گرم جفا تم ہو
لطف اس کو کہاں مجھ سے بڑا بیر ہے اب تو
ناصحو وقت جوانی کا گزر جانے دو
تیرے گھر آکے جو حاصل ہوئی ذلت مجھ کو
آہ کھینچی ہی نہیں میں نے اثر کرنے کو
محشر میں فریاد پہ مجھ کو آنکھیں وہ دکھلائیں تو
اپنی مسجد لے اے شیخ اب موسم گل ہے آنے کو
اس ظالم کے سر چڑھتا ہے ہر دم جھٹکا کھانے کو
کیا قتل اور پھر سمجھے وہ میری بے گناہی کو
رنگیں حنا کے رنگ سے یوں نقش پا نہ ہوا
ملا تلاش سے اپنا نشان اب مجھ کو
وہ ترش رو ہے ہمیں جان ہے بھاری اب تو
روتے میں ہنستا میں جو ادا بھا گئی مجھ کو
حشر کا رستا دیکھ رہا ہوں پھر جی کر پھر مرنے کو
شک جس سے پڑے کرتے ہو وہ کام تمہیں تو
نہ تو بولو نہ اک نظر دیکھو
آپ میں آئے وہ تو لطف ملاقات بھی ہو
محل فلک کے کھانے لگے زمیں مجھ کو
سمجھ کے نیند کا آنا اجل کے آنے کو
گھر میں جنوں نے خاک اڑا دی دشت میں دل بہلانے دو
سوز غم میں پوچھتے ہو کیا ان اشکوں کی روانی کو
تیرا دیوانہ نہ چلّائے وہ تدبیر بھی ہو
جو تذکرۂ عشق پہ عاشق سے خجل ہو
مہندی مجھے دکھلا کر ٹھوکر سے ہٹاتے ہو
نزع میں ہوں میں اگر قصد مرے پاس کا ہو
تو ہی کہہ چرخ ہے لوگوں پہ جفا کار کہ تو
کبھی شراب کی خواہش نہ تھی نہ ہے مجھ کو
ظلم کرکے کیوں کسی کی آہ لو
ہم جو آئے کاٹ دی مہندی میں تو نے رات یہ
کاش اتنی ہو فرقت کہ نہ پہچان سکے وہ
ردیف ہ
وصل ممکن ہے کہ امید وفا کہتی ہے کچھ
جگہ زلفوں میں دے کر کیا لگائے گا ٹھکانے وہ
کریں مرے جنازے کا کہاں تک انتظار وہ
جنوں کر چل کے گلشن میں ملاقات گل و لالہ
چلمن سے جھانکتے ہیں مجھے بار بار وہ
سیکھ لے کاش شوخیاں اس سے ادا ادا سے وہ
ردیف ی
دل لے کے گئی ہے کہ جگر لے کے گئی ہے
کہتے ہو بے وفا مجھے غم کا سبب ہے یہ
روؤں اے بادل تو جل تھل بھر کے چھوڑوں تو سہی
خون دکھلاتا ہے رنگ لب تر سے کوئی
جاں ستاں ہیں تری آنکھوں کی ادائیں میری
کبھی تولہ کبھی ماشہ جو مزاج اس کا ہے
ہے کون بلا زلف گرہ گیر کسی کی
سینک نہیں سکے آنکھیں بھی عاشق ان کے گالوں کے
اشک پر اشک جو آنکھوں سے گرا پڑتا ہے
خون میرا کرکے دھبے پیرہن پر لے گئے
بے خودی میری کہاں رکھتی ہے روپوش مجھے
منہ پر اس گل کے کلی کس لئے تو آتی ہے
کیا قیامت ہے کہ چڑھتا ہے نہیں سے کوئی
وہ خوش کہ ہیں جگر کو نظر میں لئے ہوئے
جتنے ٹکڑے ہیں دل ناکام کے
لاشیں تیرے مقتولوں کی آج تو سب گڑ جائیں گی
لب کھول نہ دیں مرتے ہیں بیمار انہیں کے
چپ بھی ہے دل بھی کرشموں سے لئے جاتا ہے
تو اب اٹھنے پہ ہے یہ کہہ کے کہ نیندآئی ہے
کوئی تم سے جدا درد جدائی لے کے بیٹھا ہے
بتوں کے سامنے محشر میں میری سی نہیں کہتے
کیا کہیں زاہد بتوں سے کب کی رسم و راہ ہے
ظاہر ہے میری شکل سے جو میرا حال ہے
یوں صدا دیتی ہے خالی نے بھی
حسن پاکر دشمن اہل نظر ہی کیوں بنے
تجھ سا ظالم ہے فلک بھی تو اجارا کیا ہے
بچپن میں جو اڑاتے تھے کل پر لئے ہوئے
جی درد دل کے مارے ہونٹوں پہ آرہا ہے
اس ستمگر پر تھے جن لوگوں کے دل آئے ہوئے
درد سے ہم اک ذرا سی اشکباری کر پڑے
ایک چھالا ایک کانٹا چاہئے
وصل کی شب ہے کہیں صبح نہ اندھیر کرے
ہمیشہ نور جبیں میں تو رخ میں تاب رہے
دل اٹکا اور روتے روتے ناک میں دم اب میرا ہے
ہو وہ اونچا مرے نالوں سے مگر نیچا ہے
آنسو پی جانے پر مجھ سے ظالم کی ضد رہتی ہے
کھل گیا موباف تو عاشق چلے دل دار نے
دل مرا منتظر وعدۂ شب کتنا ہے
کب کہیں اور گنی ہم سے گدا نکلیں گے
ان بتوں ہی سے زمانے میں ہے جو کچھ کام ہے
ہماری جان وہ کیا لیں بدن میں جب ہو بھی
اس کی تصویر جو پہلو میں دھری رہتی ہے
عشق کی ہمت کرے وہ جس سے مرنے بن پڑے
آے کہیں سے لڑکے تو ہم سے نہیں ملے
اے مؤذن چپ بھی رہ تو پھر چکا اسلام سے
بڑھی یہ میری حیرت اب کہ بات میں کلام ہے
صبح شب وصل اشک ہمارے نظر آئے
جھوٹے وعدے اب تو ہیں اے جان ہنستے بولتے
بگاڑ میں بھی ادا سے لبھائے جاتا ہے
جی دیتے ہیں دماغ کی وحشت نکل گئی
وہ ظالم ہے در گزرے ہم اس کی الفت کرنے سے
وحشت قدم بڑھا کے جو چال اپنی چل گئی
لب چپ ہیں تو کیا دل گلہ پرداز نہیں ہے
کچھ تو آخر کو محبت کا اثر ہوتا ہے
کچھ دل کی سناؤں کچھ جگر کی
وصل کی شب رہ گئے مشتاق ہم اک بات کے
دیکھ اس میں تاثیر بھری ہے جس سے بے پروا تو ہے
ہم نہ مانیں کہ کھلی سرخی خواب آنکھوں سے
جتنے عاشق تیرے رخساروں کے پائے جائیں گے
کیوں جبر سے چاہوں میں ملاقات کسی کی
ادا قاتل بنے تو کام بے شمشیر ہو جائے
جو چاہو تو بہت آسان ظلموں کی تلافی ہے
آج تو چال سے حشر اس نے بپا رکھا ہے
مرے ہیں جان چھوڑانے کو ان کے کینوں سے
سب حسینوں میں وہ یوں میرے حساب اچھا ہے
پکڑیں کس کو وحشی تیرا خوب طرارے بھرتا ہے
کہاں تک آپ کو دل دے کے درد ہم لیں گے
تمہاری مانگ دیکھ کر ادھر ہی راہ گیر ہے
اداے حسن سے بہروپیے وہ بال بنے
وعدے کے دن بھی بیٹھے ہیں ہم کچھ اداس سے
کب آئے قریب جب سحر ہے
کیسے اچھے ہیں یہ بت جن کو برا کہتا ہے
سرے پانؤں تک نظر کیونکر کمر سے بچ کے جائے
تم آنکھیں بند کر لو تو بڑا ہی کام ہو جائے
بیداری میں جاتا ہوں تو تالی مجھ کو دیتا ہے
بدن غریب ترستا ہے پیرہن کے لئے
تحفے میں لے کے اس کے لئے خون دل گئی
دل ہی پر کیا جو چاہے لے ایسا اس نے گھیرا ہے
جنوں لباس نہ میرے بدن کے کام آئے
وہ لے کے دل کو یہ سوچی کہیں جگر بھی ہے
جو کوئی ملے دل سے ہم کو وہی پیارا ہے
کہوں کیا کہ دل مضطرب کس قدر ہے
نہ بولو لبوں کا نظارہ بہت ہے
سکون چاہئے دل کو وہ صبر کرکے سہی
ہوا ملزم خوشی کا گرچہ صورت غم کی تھی میری
میں مجنوں کو مجنوں مجھے جانتا ہے
مجھے اس حافظے کے ضعف سے کیا لطف آتا ہے
اس کوچے میں گڑنے کو مری لاش پڑی ہے
نکلا جو وہ خوف سے مخلوق ہٹ گئی
سب کچھ ہم کہہ گزرے لیکن قسمت سے کیا چارا ہے
طمع کس کو ہے سائل بن کے اس کے در پہ جانے سے
یہاں نہ آؤ تو دیکھو تم اپنے گھر ہی سے
پلکوں کو ادھر اور ادھر بند کیا ہے
لباس تنگ سے ابھرا ہوا بدن دیکھے
منہ پر تو الفت کی باتیں دل میں ظلم کی نیت ہے
ہوا مجبور کمزوری سے طفل اشک چلتے ہی
ہمیشہ وعدۂ دلبر غلط ہی جانا جائے
دیکھ کر گل کو ہم ان کے رخ کا دھوکا کھا گئے
کن آنکھوں سے دیکھوں اے دشت آنکھیں تیرے غزالوں کی
جب اشارے مجھے آآکے گھٹا کرتی ہے
تھکا میں دیکھ کے وعدے پہ راہ آنے کی
سمجھو نہ یہ کہ چھپ کے گلی سے گزر گئے
اس کےبچپن کو تو دیکھو کہ وہ کیا سمجھا ہے
زندگی کا کیا بھروسا یہ اجل کے ہاتھ ہے
ہم آئے آج اسے صورت آشنا کرکے
اس پردہ کیوں خفا ہیں کہ ہم ان کے گھر گئے
مرنا مرا سنا بھی تو آئے گا کیا ابھی
جنوں سے جابجا شوق ہے یہ حالت ہے ترے سر کی
اتنا بے چین ہوا یاد ہم آغوشی سے
سوچ چھوڑا ہے برے اور بھلے کا ہم نے
تمہارے بال بھی اچھے تمہاری مانگ بھی اچھی
پڑا ہے کام اب عرض تمنا کو خموشی سے
طاقت صبر اس ستم پر کیوں نہ ہو شاکی تری
ٹوکا جو لہو پر تو کیا ہنس کے کسی نے
مری قسمت میں تھا اوروں کا منت کش نہ ہونا ہی
مارے غصے کے غضب کی تاب رخساروں میں ہے
لوں تجھی سے ہو کے کوش تو بد دعا ہی کیوں نہ دے
میں نہ شگفتہ ہوں گا چمن میں گل کے شگفتہ ہونے سے
ملے دو یار باہم اب تو یہ چھوٹیں گے مشکل سے
سرو کو دے سزاے پامالی
دل کی سردی سے ٹپکتا نہیں تھم جاتا ہے
دیکھ لے صورت اگر آئے کوئی سو بار بھی
روز آ آ کے وہ لڑ جاتا ہے
سیکھو وفا جو دلبر بننے کا حوصلہ ہے
لائے ہم اس کو گھر تک لڑتے ہوئے اسی سے
خوتری بد ہے یہی اک غم نہیں میرے لئے
کہاں سے رنگ گلوں کے لئے یہ لائی ہے
شباب آتے ہی دھوکا آئنے سے اس نے کھایا ہے
نہ پوچھو مزا عشق کاکل میں کیا ہے
اس سے تو ہوں گا ہم سخن خیر میں بے ادب سہی
کاجل بہ بہت مائل وہ گیسووں والا ہے
نہ پائی اس نے اس پر بھی صفائی حسن جاناں کی
مرے قتل پر یہ ندامت تمہاری
کہاں اب چھوٹتی ہے سر زمیں اس سے بیاباں کی
گئے حواس مرے اس کے پاس جاتے ہیں
کونے میں بٹھایا آپ سے دور اوروں سے ہم کو کم سمجھے
تری نظر کوئی جادو ہوئی نظر نہ ہوئی
دیکھے نہ دیکھے شکل وہ سلسلۂ خبر تو ہے
وصل کہاں کہ رنگ ہجر دیدۂ فتنہ گر میں ہے
بس اب گلۂ جور کا محشر میں خدا ہے
نہ رہے جو یاد انہیں کچھ تو کون کہا کرے
وہ زلف دیکھ کے جینا محال ہوتا ہے
دیکھ کے سرخی کیوں رونے کا دھوکا سب نے کھایا ہے
کیا میں دیکھو کہ رخ پہ آنچل ہے
مر مٹوں دل تیرے وعدے سے جو طاقت پانہ جاے
محشر میں کچھ کہوں وہ نہ دیکھے اگر مجھے
وہ کیا زبان دے کے کرے خوش کلام سے
ہو خوشامد سے وہ خوش یہ بات بھی مشکل ہوئی
منہ سے ہے عذر ستم تو مانتا ہی کون ہے
دشت میں مسکن جو بالو پر بنا میرے لئے
نگاہ اس کے تن شفا پر بیکار جاتی ہے
ہزاروں جھڑکیوں کا خوف ہے کھانے سے پہلے ہی
چشم دلجو جو کہیں اس نے ادھر کی ہوتی
ستم سہوں یہ ملا عشق کا حوصلہ تم سے
یاد دلبر جاں ستاں اور جان اچھی چیز ہے
مرا بس کچھ نہیں ہے رحم چاہے تو اگر مجھ سے
تیر کو کیوں دوں کہ جس رخ جائے وہ دل لے کے جائے
تمہیں کہو کہ نہ کیوں دل فدا کرے کوئی
تیری سی بھی آفت کوئی اے سوزش تب ہے
اے اجل راحت جدھر ہو رخ ادھر ہی کیوں نہ جائے
غافل نہ ہو اے دل کہ نظر آکے نکل جاے
لب ہلے اس کے تو میں ڈر گیا نادانی سے
کدھر ہٹتے ہو تم نظروں کو تھوڑا کام باقی ہے
دنیا میں آسانی کیسی جینے کی دشواری ہے
محبوب کے در پر موت اے کاش ہمیں آتی
وہ جواب خط لکھے امید یہ کب ہے مجھے
رشک رخ سے آب خجلت کی روانی دیکھئے
خوشبو بدن کی پھیلی چل دے اب اس چمن سے
اذاں حرم میں ہوئی ہے خدا خدا کرے
آنا ترا آفت دل مضطر کے لئے ہے
روتا ہوں میں جا جا کر تو کیا کیا وہ دھمکاتا ہے
یہ ہو کہ مجھ سے نہ ملنے کی کچھ سزا مل جائے
تیغ سے ہو گئی کوشی دل کی
یہ افلاس اور سبز خطوں سے حسن پرستی سوجھی ہے
دل ہی دینا ہے تو دے کر اور سے ہنس بول لے
بوندا باندی جوش غم میں اشکوں سے دن رات رہی
نہ کبر اس حسن پر کر یہ جہاں کا کار خانہ ہے
عیسیٰ سے کیا ایک سوال آکے کسی نے
بہت حلیم حکومت کے ساتھ تھا ماموں
متفرقات
نکلے ابراہیم ادہم طالب اکل حلال
کھٹکے میں تھا خسرو پرویز ایک امیر سرکش ہے
ہم کو سامان تشفی مل گیا تقدیر سے
ایک دشمن پر چڑھائی فوج اسکندر نے کی
جن کو حکمت دی خدا نے پوچھئے ان سے یہ بات
ایک سائل جا کے پہونچا پاس ابن العاص کے
کاہل تھا اک غلام جناب امیر کا
تھے علی ابن موسیٰ ایک دن حمام میں
باہمی حجت سےحجت کے سوا کیا فائدہ
ایک دن آکر کہا اک یار نے اک یار سے
یہودیوں میں کہیں جا پڑے جناب مسیح
ایک تاجر شہر بصرہ میں تھا جس نے لے کے مال
کہی کسی سے سکندر نے اپنے راز کی بات
ابو مرثد بہت مشہور تھے وصف سخاوت میں
امیر ابوالحسن فرماں رواے شہر واسط تھے
کسی نے آکے امام حسن سے کی یہ عرض
رباعیات
قطعات تاریخ وفات حضرت شوقؔ مرحوم
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.