فہرست
دیباچۂ ثانی
فانی کا ماحول اور شخصیت
فلسفۂ غم اس کی ماہیت اور اہمیت
فانی کا غم اور عشق
فانی کا تصور
فانی کی اخلاقی شاعری
میرؔ غالب اور فانی
فانی اور معتر ضین
اردو غزل میں فانی کا مقام
ضمیمہ اوّل
ضمیمہ دوم کتابیات
انتخاب کلیات فانی
دل مرحوم کو خدا بخشے
یاد ہے وہ نومیدی میں ہلکی سے جھلک امیدوں کی
فصل گل جو یاد آئی آشیاں بھی یاد آیا
جذب دل جب بروے کارآیا
کسی کے ایک اشارےمیں کس کو کیا زملا
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
شکوہ منظور نہیں تذکرۂ عشق نہ چھیڑ
میری تدبیروں کی مشکل اب تو یارب سہل کر
قربان عشق موت بھی آئی تو کیا ہوا
سنا ہے اٹھا ہے اک بگولہ جلو میں کچھ آندھیوں کو لے کر
مجھ کو مرے نصیب نے روزازل نہ کیا دیا
نازک ہے آج شاید حالت مریض غم کی
کہتا ہے غم یار میں ہوں جان تمنا
شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی پھوٹ گیا
حاصل علم بشر جہل کا عرفاں ہونا
وہ جی گیا جو عشق میں سے گذر گیا
وائے نادانی یہ حسرت تھی کی ہوتا در کھلا
عشق کی دنیا زمیں سے آسماں تک شووق تھی
ان کو شباب کا نہ مجھے دل کا ہوش تھا
سایہ بھی جس پہ میرے نشیمن کا پڑگیا
بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا
خوشی سے رنج کا بدلا یہاں نہیں ملتا
حجاب اگر من و تو کا نہ درمیاں ہوتا
شعبدے آنکھوں کے ہم نے ایسے کتنے دیکھے ہیں
تعنات کے حد سے گذررہی ہونگاہ
کہتے ہو کہ ہم وعدہ پرسش نہیں کرتے
اور تسلّی سے سوا ہوگیا
ترا نگاہ شوق کوئی راز داں نہ تھا
ٹوٹا طسم ہستی فانیؔ کے راز کا
رگ رگ کودردل نے رگ جاں بنا دیا
خود برق ہو اور طور تجلا سے گذر جا
راز دل سے نہیں واقف دل ناداں میرا
لے اعتبار وعدۂ فردا نہںی رہا
واہمہ کی یہ مشق پیہم کیا
بھول جانے کے سوا اب مجھے کچھ یاد نہیں
آئینہ ودل دونوں کہنے ہی کی باتیں تھیں
وہ کہتے ہںی کہ ہے ٹوٹے ہوئے دل پر کرم میرا
حال پہ میرے فرش کے ذرّے عرش کے تارے روتے ہیں
ہر ذرہ جلوہ گاہ ہے ہر دل ہے چشم شوق
جھک گیا تیرے آستاں پہ جو سر
ماسوا کی راہ سے جانا پڑا ہے سوئے دوست
کیا ہوئیں داور محشر وہ خطائیں میری
سنگ در دیکھ کے ، سر یاد آیا
عشق کا ایک تصور اور سہی
بالیں پہ جبت تم آئے تو آئی وہ موت بھی
دوسرا نام ہے شب فرقت
زندگی کا کوئی پہلوہی نہ تھا جو غم نہ تھا
تونے رکھ لی گناہ گار کی شرم
عشق ہے پر تو حسن محبوب
ردیف ’’د‘‘
ردیف ب
ردیف ’’ت‘‘
اب بھی کو طول شام ہجر کا شکوہ بھی ہے
ترا اشارہ سازبرق سے نہ سہی
ردیف ‘’ر‘‘
وہ خود اب فریب جمال ہے جو نظر تھی جلوۂ یار پر
جی ڈھونڈتا ہے گھر کوئی دونوں جہاں سے دور
ردیف ’’ز‘‘
کون اٹھائے مری وفا کے ناز
کچھ نہ وحدت ہے نہ کثرت، نہ حقیقت نہ مجاز
ردیف ’’ش‘‘
ردیف’’ک‘‘
دل کچھ نہ تھا تمھاری نظر نے بنا دیا
اک حق کے سوا کوئی ہستی ہی نہ تھی یارب
مجھ پہ رکھتے ہیں حشر میں الزام
موت ہے ایک وقفۂ موہوم
ردیف ’’غ‘‘
ردیف ’’م‘‘
ردیف ’’ل‘‘
ردیف’’ن‘‘
وہ بے خبر شوق ہیں کچھ ان سے نہ کہنا
زخم نصیب تھا جگر زخم جگر سے کیا کہیں
ناخوشگوار ہے جو محبت کا تذکرہ
آدرنہ جانتا ہوں فریب نظر کو میں
کئے جائیں گے دل کے خاتمے پر شکر کےسجدے
فصل خبر بڑھا گئی عمر کے باب راز میں
جتنے منھ ہیں اتنی باتیں دل کا پتہ کیا خاک چلے
ہے عکس روئے دوست پراک پر تو مجاز
جس طرف دیکھ لیا پھونک دیا طور مجاز
گھر جلاتے تو ہو مگر کس کا
نامہربانیوں کا گلہ تم سے کیا کریں
گردش میں تھا وہ ایک ہی جلوہ کہاں کہاں
جب کی ہے فکر نجزیۂ ہر مثال میں
مالٓ سوز غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ
ردیف ’’و‘‘
بہار لائی ےہے پیغام انقلاب بہار
بہار آئی کہ یارب عید آئی اہل زنداں کو
غربت میں سنگ داہ کچھ آسانیاں بھی تھیں
ردیف’’ہ‘‘
ردیف’’ی‘‘
کہتے ہیں ذرا پھر سے افسانہ غم کہیئے
کچھ بس ہی نہ تھا ورنہ یہ الزام نہ لیتے
تم سے بھی ہوا آگاہ پھر اپنی بھی خبر ہو
جب پرسش حال وہ فرماتے ہیں جانئے کیا ہو جاتا ہے
خلش تھیں ہمارے دم کے ساتھ
مشتاق خبردار ہیں دل سے جگر سے
ہم اپنے جی سے گذرے یوں سحر کی
آزردہ کیوں ہوئے مری آشفتگی سے تم
کم ہے یا بڑھ گئی وحشت ترے دیوانوں کی
پاس کے آتے ہی ارماں دل سے یہ کہہ کر چلے
آتی رہے گی خیراب اس زندگی کو موت
متاع جلوہ تحیّر ہے مجھ کو سکتا ہے
کیوں کر میں کہوں تم نے آئینہ نہیں دیکھا
آتی ہے صبا سوئے لحد ان کی گلی سے
تاکید ہے کہ دیدۂ دل وا کرے کوئی
دنیا مری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
محشر مںی عذر قتل بھی ہے خوں بہا بھی ہے
فانیؔ کف قاتل میں شمشیر نظر آئی
ترک غم ساحل کا حاصل نظر آتا ہے
اب انھیں اپنی اداؤں سے حجاب آتا ہے
کی وفا یار سے ایک ایک جفا کے بدلے
مانا کہ بات وعدۂ فردا پہ ٹل گئی
قطرہ دریائے آشنائی ہے
امید التفات کو رسوا نہ کیجئے
مجھے قسم ہے ترے صبر آزمانے کی
دشمن جاں تھے تو جان بدعا کیوں ہوگئے
اک فسانہ سن گئے اک کہہ گئے
ہر دل ہے تیرے غم کی امانت لیے ہوئے
جلوہ ترا طلسم حجلیات نور ہے
کیفت ظہور فنا کے سوا نہیں
گریہ جوش ندامت بس اب تھمنے کا تو نام نہ لے
اک برق سر طور ہے لہرائی ہوئی سی
جبیں صرف سجود بے جبیں معلوم ہوتی ہے
پھیر لے میت کی جانب سے نگاہ التفات
فردوس بداماں ہے ہر نقش خیال ان کا
ہر جلوۂ محسوس کو مرہون نظر کر
موج کیا گرداب کیسا کیوں کسی کا نام لوں
گم ہیں رہ تسلیم میں طالب بھی طلب بھی
ہائے وہ تیرے ذکر مںی یہ بھی ہے آرزو کہ کاش
دیر میں یار حرم میں گذرے گی
توشمع آئینہ خانہ ہے آئینہ کیا ہے
اب برق نشیمن کو ہر شاخ سے کیا مطلب
لبیک کہا ںکس کو حیات ابدی نے
آہ اب تک تو بے اثر نہ ہوئی
کیوں رہے بیچ میں یہ واسطۂ حسن قبول
وہ ہم سے کہاں چھپتے ہم خود ہیں جواب ان کا
گل چیں کے لیے اور نہ گلشن کے لیے ہے
یہ دل حریف تجلی ہی کیو بنایا تھا
کم درد جگر ہے یا بہت ہے
حرم و دیر کی گلیوں میں پڑے پھرتے ہیں
کسی کو کیا مرے سوود زیاں سے
تمھارا درد تو درماں نبا لیا ہم نے
عشق ہے جب جنوں تو پھر شاد ہواے دل حزیں
فہرست
دیباچۂ ثانی
فانی کا ماحول اور شخصیت
فلسفۂ غم اس کی ماہیت اور اہمیت
فانی کا غم اور عشق
فانی کا تصور
فانی کی اخلاقی شاعری
میرؔ غالب اور فانی
فانی اور معتر ضین
اردو غزل میں فانی کا مقام
ضمیمہ اوّل
ضمیمہ دوم کتابیات
انتخاب کلیات فانی
دل مرحوم کو خدا بخشے
یاد ہے وہ نومیدی میں ہلکی سے جھلک امیدوں کی
فصل گل جو یاد آئی آشیاں بھی یاد آیا
جذب دل جب بروے کارآیا
کسی کے ایک اشارےمیں کس کو کیا زملا
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
شکوہ منظور نہیں تذکرۂ عشق نہ چھیڑ
میری تدبیروں کی مشکل اب تو یارب سہل کر
قربان عشق موت بھی آئی تو کیا ہوا
سنا ہے اٹھا ہے اک بگولہ جلو میں کچھ آندھیوں کو لے کر
مجھ کو مرے نصیب نے روزازل نہ کیا دیا
نازک ہے آج شاید حالت مریض غم کی
کہتا ہے غم یار میں ہوں جان تمنا
شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی پھوٹ گیا
حاصل علم بشر جہل کا عرفاں ہونا
وہ جی گیا جو عشق میں سے گذر گیا
وائے نادانی یہ حسرت تھی کی ہوتا در کھلا
عشق کی دنیا زمیں سے آسماں تک شووق تھی
ان کو شباب کا نہ مجھے دل کا ہوش تھا
سایہ بھی جس پہ میرے نشیمن کا پڑگیا
بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا
خوشی سے رنج کا بدلا یہاں نہیں ملتا
حجاب اگر من و تو کا نہ درمیاں ہوتا
شعبدے آنکھوں کے ہم نے ایسے کتنے دیکھے ہیں
تعنات کے حد سے گذررہی ہونگاہ
کہتے ہو کہ ہم وعدہ پرسش نہیں کرتے
اور تسلّی سے سوا ہوگیا
ترا نگاہ شوق کوئی راز داں نہ تھا
ٹوٹا طسم ہستی فانیؔ کے راز کا
رگ رگ کودردل نے رگ جاں بنا دیا
خود برق ہو اور طور تجلا سے گذر جا
راز دل سے نہیں واقف دل ناداں میرا
لے اعتبار وعدۂ فردا نہںی رہا
واہمہ کی یہ مشق پیہم کیا
بھول جانے کے سوا اب مجھے کچھ یاد نہیں
آئینہ ودل دونوں کہنے ہی کی باتیں تھیں
وہ کہتے ہںی کہ ہے ٹوٹے ہوئے دل پر کرم میرا
حال پہ میرے فرش کے ذرّے عرش کے تارے روتے ہیں
ہر ذرہ جلوہ گاہ ہے ہر دل ہے چشم شوق
جھک گیا تیرے آستاں پہ جو سر
ماسوا کی راہ سے جانا پڑا ہے سوئے دوست
کیا ہوئیں داور محشر وہ خطائیں میری
سنگ در دیکھ کے ، سر یاد آیا
عشق کا ایک تصور اور سہی
بالیں پہ جبت تم آئے تو آئی وہ موت بھی
دوسرا نام ہے شب فرقت
زندگی کا کوئی پہلوہی نہ تھا جو غم نہ تھا
تونے رکھ لی گناہ گار کی شرم
عشق ہے پر تو حسن محبوب
ردیف ’’د‘‘
ردیف ب
ردیف ’’ت‘‘
اب بھی کو طول شام ہجر کا شکوہ بھی ہے
ترا اشارہ سازبرق سے نہ سہی
ردیف ‘’ر‘‘
وہ خود اب فریب جمال ہے جو نظر تھی جلوۂ یار پر
جی ڈھونڈتا ہے گھر کوئی دونوں جہاں سے دور
ردیف ’’ز‘‘
کون اٹھائے مری وفا کے ناز
کچھ نہ وحدت ہے نہ کثرت، نہ حقیقت نہ مجاز
ردیف ’’ش‘‘
ردیف’’ک‘‘
دل کچھ نہ تھا تمھاری نظر نے بنا دیا
اک حق کے سوا کوئی ہستی ہی نہ تھی یارب
مجھ پہ رکھتے ہیں حشر میں الزام
موت ہے ایک وقفۂ موہوم
ردیف ’’غ‘‘
ردیف ’’م‘‘
ردیف ’’ل‘‘
ردیف’’ن‘‘
وہ بے خبر شوق ہیں کچھ ان سے نہ کہنا
زخم نصیب تھا جگر زخم جگر سے کیا کہیں
ناخوشگوار ہے جو محبت کا تذکرہ
آدرنہ جانتا ہوں فریب نظر کو میں
کئے جائیں گے دل کے خاتمے پر شکر کےسجدے
فصل خبر بڑھا گئی عمر کے باب راز میں
جتنے منھ ہیں اتنی باتیں دل کا پتہ کیا خاک چلے
ہے عکس روئے دوست پراک پر تو مجاز
جس طرف دیکھ لیا پھونک دیا طور مجاز
گھر جلاتے تو ہو مگر کس کا
نامہربانیوں کا گلہ تم سے کیا کریں
گردش میں تھا وہ ایک ہی جلوہ کہاں کہاں
جب کی ہے فکر نجزیۂ ہر مثال میں
مالٓ سوز غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ
ردیف ’’و‘‘
بہار لائی ےہے پیغام انقلاب بہار
بہار آئی کہ یارب عید آئی اہل زنداں کو
غربت میں سنگ داہ کچھ آسانیاں بھی تھیں
ردیف’’ہ‘‘
ردیف’’ی‘‘
کہتے ہیں ذرا پھر سے افسانہ غم کہیئے
کچھ بس ہی نہ تھا ورنہ یہ الزام نہ لیتے
تم سے بھی ہوا آگاہ پھر اپنی بھی خبر ہو
جب پرسش حال وہ فرماتے ہیں جانئے کیا ہو جاتا ہے
خلش تھیں ہمارے دم کے ساتھ
مشتاق خبردار ہیں دل سے جگر سے
ہم اپنے جی سے گذرے یوں سحر کی
آزردہ کیوں ہوئے مری آشفتگی سے تم
کم ہے یا بڑھ گئی وحشت ترے دیوانوں کی
پاس کے آتے ہی ارماں دل سے یہ کہہ کر چلے
آتی رہے گی خیراب اس زندگی کو موت
متاع جلوہ تحیّر ہے مجھ کو سکتا ہے
کیوں کر میں کہوں تم نے آئینہ نہیں دیکھا
آتی ہے صبا سوئے لحد ان کی گلی سے
تاکید ہے کہ دیدۂ دل وا کرے کوئی
دنیا مری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
محشر مںی عذر قتل بھی ہے خوں بہا بھی ہے
فانیؔ کف قاتل میں شمشیر نظر آئی
ترک غم ساحل کا حاصل نظر آتا ہے
اب انھیں اپنی اداؤں سے حجاب آتا ہے
کی وفا یار سے ایک ایک جفا کے بدلے
مانا کہ بات وعدۂ فردا پہ ٹل گئی
قطرہ دریائے آشنائی ہے
امید التفات کو رسوا نہ کیجئے
مجھے قسم ہے ترے صبر آزمانے کی
دشمن جاں تھے تو جان بدعا کیوں ہوگئے
اک فسانہ سن گئے اک کہہ گئے
ہر دل ہے تیرے غم کی امانت لیے ہوئے
جلوہ ترا طلسم حجلیات نور ہے
کیفت ظہور فنا کے سوا نہیں
گریہ جوش ندامت بس اب تھمنے کا تو نام نہ لے
اک برق سر طور ہے لہرائی ہوئی سی
جبیں صرف سجود بے جبیں معلوم ہوتی ہے
پھیر لے میت کی جانب سے نگاہ التفات
فردوس بداماں ہے ہر نقش خیال ان کا
ہر جلوۂ محسوس کو مرہون نظر کر
موج کیا گرداب کیسا کیوں کسی کا نام لوں
گم ہیں رہ تسلیم میں طالب بھی طلب بھی
ہائے وہ تیرے ذکر مںی یہ بھی ہے آرزو کہ کاش
دیر میں یار حرم میں گذرے گی
توشمع آئینہ خانہ ہے آئینہ کیا ہے
اب برق نشیمن کو ہر شاخ سے کیا مطلب
لبیک کہا ںکس کو حیات ابدی نے
آہ اب تک تو بے اثر نہ ہوئی
کیوں رہے بیچ میں یہ واسطۂ حسن قبول
وہ ہم سے کہاں چھپتے ہم خود ہیں جواب ان کا
گل چیں کے لیے اور نہ گلشن کے لیے ہے
یہ دل حریف تجلی ہی کیو بنایا تھا
کم درد جگر ہے یا بہت ہے
حرم و دیر کی گلیوں میں پڑے پھرتے ہیں
کسی کو کیا مرے سوود زیاں سے
تمھارا درد تو درماں نبا لیا ہم نے
عشق ہے جب جنوں تو پھر شاد ہواے دل حزیں
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.