فہرست
پیش لفظ
ہمہ گریہ سلک شبنم، ہمہ اشک بزم انجم
یہ نظم گریزاں ہے، برہم زدنی پہلے
یہ نیم باز تری انکھڑیوں کے میخانے
نگاہ حاصل رعنائی دو عالم ہے
دل کی تصویر حسن ورعنائی
غم خاموش جو با اشک چکاں رکھتا ہوں
پنکھڑی ایک گلستاں سے صبا کیا لائی
محفل انساں میں کیوں بے رونقی پاتا ہوں میں
چمن کو خارو خس آشیاں سے عار نہ ہو
حسن جتنا ہی سادہ ہوتا ہے
میکدہ آج سے بے ملک عوام اے ساقی
وہ خزایں ہو یا کہ بہار ہو تجھے جاگنے کا پیام ہے
زاہد اسیر گیسوئے جاناں نہ ہو سکا
بنا کعبے کی بت خانے نے ڈالی
رگ رگ سی ٹوٹتی ہے محبت میں رات کی
زندگی راہ بے راہ چلتی رہی
تجلیوں سے غم اعتبار لے کے اٹھا
فکر نو ذوق تپاں سے آئی ہے
نظم شراب خانہ تو بر ہم نہ ہو سکے
نظارہ ان کی تجلی کے ما سوا بھی نہیں
گناہ گار تو رحمت کو منھ دکھا نہ سکا
پیراہن رنگیں سے شعلہ سا نکلتا ہے
لذت غم اگر کوئی جانے
دنیا کو خبر کیا کہ کسی سادہ ادا نے
زندگی گرمئ احساس پہ نازاں ہے ابھی
راستہ اس نے محبت کا جدا رکھا ہے
دانستہ بے خودی بھی جمال حیات ہے
کام لیتے ہیں جو ایجاد نظر سے پہلے
دنیا سنور گئی ہے نظام دگر کے بعد
نظر نظر کو ساقئ حیات کہتے آئے ہیں
اک دامن رنگیں لہرایا مستی سی فضا میں چھا ہی گئی
مضطرب فطرت انساں تپش گام سے ہے
بہار چھپ نہیں سکی گل و سمن پکار اٹھے
جانبازوں کے لب پر بھی اب عیش کا نام آیا
فطرت ہے حجابات سے تھک جائے تو کیا ہو
غزل مسلسل
ہزار شمع فروزاں ہو روشنی کے لئے
نہیں حسن اب شمع فانوس خانہ
مری رات کا اک سکوں تاب عالم
تخیل رقص کرتا ہے تجلی چھائی ہوتی ہے
ٹھکرائے ہوئے دل کی یا د آئی تو کیا آئی
سمجھو تو یہ بھی تنگی چشم بہار ہے
شاید کہ نظر پہونچے تیری غم انساں تک
نگاہ مست سے اخذ غم حیات کرے
ہر ذرّۂ حنا کی کو کرن ہم نے بنایا
نظمیات
جیت
کون جگائے
ناتوانیاں
اضطراب
وقت کا موڑ
کرن
تعمیر نو
خاک تاباں
میز کے پاس
علالت
زمین کی باتیں
شعبدے
خندۂ تقدیر
تاب وتواں
آندھی کے چراغ
مہلت
سنگم
شیشہ گری
قطعات
وفا کے بعد بھی تو مائل جفا کیوں ہے
غزلیں کچھ اور رنگ کی
مجھے کہاں ابھی فرصت نگاہ اٹھانے کی
رہبر جو تیری نرگس مے نوش ہوگئی
عروج ماہ میں جب وقت شام ہوتا ہے
مہ ساون میں جوں جو رود گنگا بڑھتی جاتی ہے
رفو کا تذکرہ اے فطرت چالاک رہنے دے
آیا جو حشر شورش امکاں لئے ہوئے
نگاہ اولیں کا آج تک جب نام آتا ہے
کبھی سنتے ہیں عقل و ہوش کی اور کم بھی پیتے ہیں
دیا ساقی نے اول روز وہ پیمانہ مستی میں
یہاں سجدہ وہاں سجدہ معاذاللہ دیوانہ
کچھ اس سادگی سے وہ تشریف لائے
میں بھول گیا تجھ میں محراب خدا خانہ
وہ نگاہ ناز بھی اپنی کام کر گئی
دلّی کی زبان
اک روشنی سی گرد میں شامل قریب ہے
میکدہ کی جانب چل زندگی ہے مستی ہے
آنسو مری پلکوں پہ شتاباں نہیں ملتا
پھولوں پہ نگاہ کہ خون جگر ملے
چاند تاروں کی یہ دنیا جو نظر آئی ہے
مرا دل نہ تھا الم آشنا کہ تری ادا پہ نظر پڑی
مندرجہ ذیل کتب کے بغیر آپ کی لائبریری نا مکمل ہے اسلئے ہماری شائع کردہ
فہرست
پیش لفظ
ہمہ گریہ سلک شبنم، ہمہ اشک بزم انجم
یہ نظم گریزاں ہے، برہم زدنی پہلے
یہ نیم باز تری انکھڑیوں کے میخانے
نگاہ حاصل رعنائی دو عالم ہے
دل کی تصویر حسن ورعنائی
غم خاموش جو با اشک چکاں رکھتا ہوں
پنکھڑی ایک گلستاں سے صبا کیا لائی
محفل انساں میں کیوں بے رونقی پاتا ہوں میں
چمن کو خارو خس آشیاں سے عار نہ ہو
حسن جتنا ہی سادہ ہوتا ہے
میکدہ آج سے بے ملک عوام اے ساقی
وہ خزایں ہو یا کہ بہار ہو تجھے جاگنے کا پیام ہے
زاہد اسیر گیسوئے جاناں نہ ہو سکا
بنا کعبے کی بت خانے نے ڈالی
رگ رگ سی ٹوٹتی ہے محبت میں رات کی
زندگی راہ بے راہ چلتی رہی
تجلیوں سے غم اعتبار لے کے اٹھا
فکر نو ذوق تپاں سے آئی ہے
نظم شراب خانہ تو بر ہم نہ ہو سکے
نظارہ ان کی تجلی کے ما سوا بھی نہیں
گناہ گار تو رحمت کو منھ دکھا نہ سکا
پیراہن رنگیں سے شعلہ سا نکلتا ہے
لذت غم اگر کوئی جانے
دنیا کو خبر کیا کہ کسی سادہ ادا نے
زندگی گرمئ احساس پہ نازاں ہے ابھی
راستہ اس نے محبت کا جدا رکھا ہے
دانستہ بے خودی بھی جمال حیات ہے
کام لیتے ہیں جو ایجاد نظر سے پہلے
دنیا سنور گئی ہے نظام دگر کے بعد
نظر نظر کو ساقئ حیات کہتے آئے ہیں
اک دامن رنگیں لہرایا مستی سی فضا میں چھا ہی گئی
مضطرب فطرت انساں تپش گام سے ہے
بہار چھپ نہیں سکی گل و سمن پکار اٹھے
جانبازوں کے لب پر بھی اب عیش کا نام آیا
فطرت ہے حجابات سے تھک جائے تو کیا ہو
غزل مسلسل
ہزار شمع فروزاں ہو روشنی کے لئے
نہیں حسن اب شمع فانوس خانہ
مری رات کا اک سکوں تاب عالم
تخیل رقص کرتا ہے تجلی چھائی ہوتی ہے
ٹھکرائے ہوئے دل کی یا د آئی تو کیا آئی
سمجھو تو یہ بھی تنگی چشم بہار ہے
شاید کہ نظر پہونچے تیری غم انساں تک
نگاہ مست سے اخذ غم حیات کرے
ہر ذرّۂ حنا کی کو کرن ہم نے بنایا
نظمیات
جیت
کون جگائے
ناتوانیاں
اضطراب
وقت کا موڑ
کرن
تعمیر نو
خاک تاباں
میز کے پاس
علالت
زمین کی باتیں
شعبدے
خندۂ تقدیر
تاب وتواں
آندھی کے چراغ
مہلت
سنگم
شیشہ گری
قطعات
وفا کے بعد بھی تو مائل جفا کیوں ہے
غزلیں کچھ اور رنگ کی
مجھے کہاں ابھی فرصت نگاہ اٹھانے کی
رہبر جو تیری نرگس مے نوش ہوگئی
عروج ماہ میں جب وقت شام ہوتا ہے
مہ ساون میں جوں جو رود گنگا بڑھتی جاتی ہے
رفو کا تذکرہ اے فطرت چالاک رہنے دے
آیا جو حشر شورش امکاں لئے ہوئے
نگاہ اولیں کا آج تک جب نام آتا ہے
کبھی سنتے ہیں عقل و ہوش کی اور کم بھی پیتے ہیں
دیا ساقی نے اول روز وہ پیمانہ مستی میں
یہاں سجدہ وہاں سجدہ معاذاللہ دیوانہ
کچھ اس سادگی سے وہ تشریف لائے
میں بھول گیا تجھ میں محراب خدا خانہ
وہ نگاہ ناز بھی اپنی کام کر گئی
دلّی کی زبان
اک روشنی سی گرد میں شامل قریب ہے
میکدہ کی جانب چل زندگی ہے مستی ہے
آنسو مری پلکوں پہ شتاباں نہیں ملتا
پھولوں پہ نگاہ کہ خون جگر ملے
چاند تاروں کی یہ دنیا جو نظر آئی ہے
مرا دل نہ تھا الم آشنا کہ تری ادا پہ نظر پڑی
مندرجہ ذیل کتب کے بغیر آپ کی لائبریری نا مکمل ہے اسلئے ہماری شائع کردہ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔