سر ورق
ترتیب
مقدمہ
مقدمہ اول
تقریظ
شرارۂ نخستیں
کیا پوچھتے ہو کج رویٔ چرخِ چنبری
اب سامنے میرے جو کوئی پیر و جواں ہے
کہا یہ آج میں سودا سے کیوں ہے ڈانواں ڈول
باغ دلی میں جو اِک روز ہوا میرا گزر
دویمی شرارہ
آفت اس شہر پہ قلعہ کی بدولت آئی
ہر طرف سے ہے برستی بے کسی
عجیب کوچۂ رشکِ جناں تھا دہلی کا
فلک زمین و ملائک جنا ب تھی دہلی
جہاں میں شہر ہیں جتنے جہاں جہاں آباد
ہر ایک گھر میں یہ شور و بکا ہے دلی کا
یہ ابتدائے بلا تھی جو پر بئے لائے
فرشتہ مسکن و جنت نشان تھی دہلی
عجیب طرح کی باغ و بہار تھی دہلی
کیا کہوں اس فلکِ شعبدہ گر کے نیرنگ
تمام گلشنِ عیش و سرور تھی دہلی
پسند خاطر ہر خاص و عام تھی دہلی
دل غنی رکھا سخاوت پہ نہ زر والوں نے
یہ نئی ہے گردشِ چرخِ کہن
دیارِ ہند میں یہ تخت گاہ تھی دہلی
شرارۂ سویمیں
شہر خالی شدہ از پیر و جوانِ دہلی
ہائے وہ لوگ جو تھے روح وروانِ دہلی
ہائے افسوس کہ آفت زدگانِ دہلی
حیف برباد ہوئی شوکت ہوئی شوکت و شانِ دہلی
پوچھ مت حالِ زبانِ دہلی
صرف اِک نام کو باقی ہے نشانِ دہلی
مل گئے خاک میں سب غنچہ لبانِ دہلی
پھر بندھا دل پہ خیال دہلی
اے کہن سال فلک دشمنِ جان دہلی
یوں منا جیسے کہ دہلی سے گمانِ دہلی
میری فریاد سے ظاہر ہے بیانِ دہلی
مٹ گیا صفحۂ عالم سے نشانِ دہلی
روئے جنت میں بھی ہم کرکے بیانِ دہلی
ہائے دہلی و سہے دل شدگانِ دہلی
کوئی عالم میں نہیں شہر بسانِ دہلی
بسکہ بیداد سے ٹوٹے ہیں مکانِ دہلی
بوداز دیر فلک دشمنِ جانِ دہلی
کس کے آگے میں کروں آہ بیانِ دہلی
دلی والوں کی زباں پر ہے بیانِ دہلی
بل بے دہلی وزہے شوکت و شانِ دہلی
کیوں نہ آوارہ پھریں غم زدگانِ دہلی
مل گئی خاک میں شانِ دہلی
کیا کروں کس سے کروں آہ بیانِ دہلی
کیجئے اے ہم نفسو خاک بیانِ دہلی
جنتی دیکھ کے کہتے ہیں خزانِ دہلی
جنتی لوگوں سے سن سن کے بیانِ دہلی
ہم نے مانا کہ ملی خاک میں شانِ دہلی
کیا کروں دوستو میں تم سے بیانِ دہلی
مٹ گئے ہائے مکین اور مکانِ دہلی
مٹ گیا پر نہ مٹا نام و نشانِ دہلی
حیف ہے اٹھ گئے وہ پیرو جوانِ دہلی
رات دن لب پہ نہ ہو کیونکہ بیانِ دہلی
تھے ہنر ہم سببِ عظمت و شان دہلی
وہ پری چہرہ ہوئے قتل میانِ دہلی
پھرتے چلتے جو میں آ نکلا بہ شہرِ دہلی
شہرِ دہلی ہوا ہے کیوں خالی
ہو گیا ویرانِ دہلی و دیارِ لکھنؤ
حالِ عالم آہ کیف و کم میں کیا تھا کیا ہوا
کیا جانے اہلِ دہلی سے کیا ت ہو گئی
ہوئے دفن جو کہ ہیں بے کفن انہیں روتا ابرِ بہار ہے
قطعات تاریخ
YEAR2007
CONTRIBUTORरेख़्ता
PUBLISHER नौरंग किताब घर, नोएडा
YEAR2007
CONTRIBUTORरेख़्ता
PUBLISHER नौरंग किताब घर, नोएडा
سر ورق
ترتیب
مقدمہ
مقدمہ اول
تقریظ
شرارۂ نخستیں
کیا پوچھتے ہو کج رویٔ چرخِ چنبری
اب سامنے میرے جو کوئی پیر و جواں ہے
کہا یہ آج میں سودا سے کیوں ہے ڈانواں ڈول
باغ دلی میں جو اِک روز ہوا میرا گزر
دویمی شرارہ
آفت اس شہر پہ قلعہ کی بدولت آئی
ہر طرف سے ہے برستی بے کسی
عجیب کوچۂ رشکِ جناں تھا دہلی کا
فلک زمین و ملائک جنا ب تھی دہلی
جہاں میں شہر ہیں جتنے جہاں جہاں آباد
ہر ایک گھر میں یہ شور و بکا ہے دلی کا
یہ ابتدائے بلا تھی جو پر بئے لائے
فرشتہ مسکن و جنت نشان تھی دہلی
عجیب طرح کی باغ و بہار تھی دہلی
کیا کہوں اس فلکِ شعبدہ گر کے نیرنگ
تمام گلشنِ عیش و سرور تھی دہلی
پسند خاطر ہر خاص و عام تھی دہلی
دل غنی رکھا سخاوت پہ نہ زر والوں نے
یہ نئی ہے گردشِ چرخِ کہن
دیارِ ہند میں یہ تخت گاہ تھی دہلی
شرارۂ سویمیں
شہر خالی شدہ از پیر و جوانِ دہلی
ہائے وہ لوگ جو تھے روح وروانِ دہلی
ہائے افسوس کہ آفت زدگانِ دہلی
حیف برباد ہوئی شوکت ہوئی شوکت و شانِ دہلی
پوچھ مت حالِ زبانِ دہلی
صرف اِک نام کو باقی ہے نشانِ دہلی
مل گئے خاک میں سب غنچہ لبانِ دہلی
پھر بندھا دل پہ خیال دہلی
اے کہن سال فلک دشمنِ جان دہلی
یوں منا جیسے کہ دہلی سے گمانِ دہلی
میری فریاد سے ظاہر ہے بیانِ دہلی
مٹ گیا صفحۂ عالم سے نشانِ دہلی
روئے جنت میں بھی ہم کرکے بیانِ دہلی
ہائے دہلی و سہے دل شدگانِ دہلی
کوئی عالم میں نہیں شہر بسانِ دہلی
بسکہ بیداد سے ٹوٹے ہیں مکانِ دہلی
بوداز دیر فلک دشمنِ جانِ دہلی
کس کے آگے میں کروں آہ بیانِ دہلی
دلی والوں کی زباں پر ہے بیانِ دہلی
بل بے دہلی وزہے شوکت و شانِ دہلی
کیوں نہ آوارہ پھریں غم زدگانِ دہلی
مل گئی خاک میں شانِ دہلی
کیا کروں کس سے کروں آہ بیانِ دہلی
کیجئے اے ہم نفسو خاک بیانِ دہلی
جنتی دیکھ کے کہتے ہیں خزانِ دہلی
جنتی لوگوں سے سن سن کے بیانِ دہلی
ہم نے مانا کہ ملی خاک میں شانِ دہلی
کیا کروں دوستو میں تم سے بیانِ دہلی
مٹ گئے ہائے مکین اور مکانِ دہلی
مٹ گیا پر نہ مٹا نام و نشانِ دہلی
حیف ہے اٹھ گئے وہ پیرو جوانِ دہلی
رات دن لب پہ نہ ہو کیونکہ بیانِ دہلی
تھے ہنر ہم سببِ عظمت و شان دہلی
وہ پری چہرہ ہوئے قتل میانِ دہلی
پھرتے چلتے جو میں آ نکلا بہ شہرِ دہلی
شہرِ دہلی ہوا ہے کیوں خالی
ہو گیا ویرانِ دہلی و دیارِ لکھنؤ
حالِ عالم آہ کیف و کم میں کیا تھا کیا ہوا
کیا جانے اہلِ دہلی سے کیا ت ہو گئی
ہوئے دفن جو کہ ہیں بے کفن انہیں روتا ابرِ بہار ہے
قطعات تاریخ
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।