ترتیب
اور کب تک بہم رہیں گے یہاں
ہم نے رکھا تھا جسے اپنی کہانی میں کہیں
کہ جیسے کنج چمن سے صبا نکلتی ہے
دہر میں یوں تو کیا نہیں موجود
تیری جانب سے نہ کچھ گردش حالات سے ہے
اور رہنا تھا کیا فاصلہ رہ گیا
بجھنے لگی یہ آنکھ رہ خواب ہے کہاں
تجھ سے وابستگی رہے گی ابھی
دل بے حال کی حالت لے جائے
کبھی روتی، کبھی گاتی ہے ہوا
یہ رہ عشق ہے، اس راہ پہ گر جائے گا تو
کچھ نہ کچھ تو ہے مگر اتنا نہیں
دیار رفتہ کا قصّہ کوئی سناو میاں
جو پاس ہے اسی غم سے یہ دن بتاو میاں
جب ہمیں اس کا دھیان سا کچھ تھا
یہ یقیں، یہ گماں ہی ممکن ہے
رنگ دنیا سے ورا خواب تمنا سے الگ
کچھ بھی نہیں رہا یہاں آپ سے کیا چھپائیے
اے تو! کہ تیرے واسطے کیا کیا نہیں کیا
زمیں نے یہ مری آسماں نہیں میرا
یقین ہے کہ گماں ہے مجھے نہیں معلوم
آہ و فریاد سے نکلتا ہوں
ہمیں خبر نہیں کچھ کون ہے، کہاں کوئی ہے
قصے سے ترے، میری کہانی سے زیادہ
ہمارے بیچ اگرچہ رہا نہیں کچھ بھی
جو بھی یک جاہے، بکھرتا نظر آتا ہے مجھے
یہ جو ہم سر تری چوکھٹ سے لگائے ہوئے ہیں
پھر پائے ہم ایسی زندگی سے
گریزاں تھا مگر ایسا نہیں تھا
میں اپنے خواب تمنا سے کیا نکلتا ہوں
گو یہ مشکل گھڑی ہے سو جاؤ
کچھ کام نہیں ہے یہاں وحشت کے برابر
رسوائی نہںی کچھ بھی تو شہرت بھی نہیں کچھ
اب کوئی بام پر رہے گا کہاں
دل میں کیا تھا جو کھو گیا ہے کہیں
پس ہر رنج گماں زخم یقیں دیکھا ہے
اک فراموش کہانی میں رہا
سرپہ اب سائباں نہیں ہے تو کیا
بس یونہی چپ ہیں، سبب کچھ بھی نہیں
پایا ہے اگر کچھ اسے کھونا بھی ہے اک دن
ہر دم دم رخصت ہے مرے دوست رہے یاد
مارنے والا کوئی ہے کہ ہے مرنے والا
دیار خواب، رہ رفتگاں سے دیکھتا ہے
خواب تعبیر ہو رہے گا کہیں
سر خوشی یا ملال تھا کیا تھا
نہ صحن گل سے نہ دیور و در سے خالی ہے
وقف آلام دو جہاں ہی رہا
ہم اک خواب وحشت سے بیدار ہو کر
اور جینے کی اب ہے صورت
جو بھی کچھ ہے کہیں دھوکا ہی نہ ہو
اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو
کہیں پر صبح رکھتا ہوں کہیں پر شام رکھتا ہوں
راہ دشوار بھی ہے بے سروسامانی بھی
مجھے معلوم ہے اب کوئی نہیں ہے میرا
کوئی سرشاری سی سرشاری ہے
نشۂ قرب سے سرشار کرے گا اک روز
وہ دیکھیں گے ہم جو کبھی دیکھا نہیں ہوگا
بیٹھے بیٹھے جانے کہاں پر کھو جاتے ہیں
تم جس جگہ نہ ہووہیں دیکھا کریں گے ہم
آنکھ جو آج کہیں ٹھیک سے رکتی بھی نہیں
اب کیا کہیں وہ خواب خود آگاہ کیا ہوئے
ایک تصویر کا ملبہ ہے پڑا
ہماری دسترس میں کیا نہیں ہے
وہ نہ ہوگا بام پر، ہوں دربدر کس کے لیے
خواب سے ٹوٹ نہ جائے یہ بھرم آنکھو کا
اس سے ملنے کا اشارا ہی نہیں کرتا ہے
یہ قربت فاصلہ ہونے کو ہے پھر
جستجو، خواب جستجو ہی نہ ہو
تھکن سے چور شکست شب وصال کے بعد
دیار کبر و ریا میں کمال میں نے کیا
ہم پہ کچھ دل کا حال کھولو نا
ایسا بھی نہیں ہے کہ ضرورت نہیں بابا
پھول تواب بھی صحن چمن میں کھلتے ہیں
میں چلنے کو تو چلتا جا رہا ہوں
وہی ہم ہیں، وہی رستہ ہمارا
کیا جانیے کیا ہے حد ادراک سے آگے
عزت نہیں رہی کوئی ذلت نہیں رہی
مرحلے رنج کے سرکرتا ہوں
مند گئی ہیں آنکھیں بھی، ختم ہے تماشا بھی
دل میں اب یہ ملال رہتا ہے
جب تو مرا ہم سبو نہیں ہے
یہ بھی تو کمال ہو گیا ہے
بوند جو دل میں گری وہ اور ہے
اور اب کہتا ہوں بے خوفی سے ڈر جاتا
اب وصل کی خواہش تو رواہے مرے خوش رو
تو ہے دل میں تری محبت ہے
مہلت یک نفس دوبارہ نہیں
تواتر سے یہ فرصت ہے میسر
دل کبھی میرے بس میں تھا کہ جو ہے
راستے دشوار ہوتے جارہے ہیں
ترتیب
اور کب تک بہم رہیں گے یہاں
ہم نے رکھا تھا جسے اپنی کہانی میں کہیں
کہ جیسے کنج چمن سے صبا نکلتی ہے
دہر میں یوں تو کیا نہیں موجود
تیری جانب سے نہ کچھ گردش حالات سے ہے
اور رہنا تھا کیا فاصلہ رہ گیا
بجھنے لگی یہ آنکھ رہ خواب ہے کہاں
تجھ سے وابستگی رہے گی ابھی
دل بے حال کی حالت لے جائے
کبھی روتی، کبھی گاتی ہے ہوا
یہ رہ عشق ہے، اس راہ پہ گر جائے گا تو
کچھ نہ کچھ تو ہے مگر اتنا نہیں
دیار رفتہ کا قصّہ کوئی سناو میاں
جو پاس ہے اسی غم سے یہ دن بتاو میاں
جب ہمیں اس کا دھیان سا کچھ تھا
یہ یقیں، یہ گماں ہی ممکن ہے
رنگ دنیا سے ورا خواب تمنا سے الگ
کچھ بھی نہیں رہا یہاں آپ سے کیا چھپائیے
اے تو! کہ تیرے واسطے کیا کیا نہیں کیا
زمیں نے یہ مری آسماں نہیں میرا
یقین ہے کہ گماں ہے مجھے نہیں معلوم
آہ و فریاد سے نکلتا ہوں
ہمیں خبر نہیں کچھ کون ہے، کہاں کوئی ہے
قصے سے ترے، میری کہانی سے زیادہ
ہمارے بیچ اگرچہ رہا نہیں کچھ بھی
جو بھی یک جاہے، بکھرتا نظر آتا ہے مجھے
یہ جو ہم سر تری چوکھٹ سے لگائے ہوئے ہیں
پھر پائے ہم ایسی زندگی سے
گریزاں تھا مگر ایسا نہیں تھا
میں اپنے خواب تمنا سے کیا نکلتا ہوں
گو یہ مشکل گھڑی ہے سو جاؤ
کچھ کام نہیں ہے یہاں وحشت کے برابر
رسوائی نہںی کچھ بھی تو شہرت بھی نہیں کچھ
اب کوئی بام پر رہے گا کہاں
دل میں کیا تھا جو کھو گیا ہے کہیں
پس ہر رنج گماں زخم یقیں دیکھا ہے
اک فراموش کہانی میں رہا
سرپہ اب سائباں نہیں ہے تو کیا
بس یونہی چپ ہیں، سبب کچھ بھی نہیں
پایا ہے اگر کچھ اسے کھونا بھی ہے اک دن
ہر دم دم رخصت ہے مرے دوست رہے یاد
مارنے والا کوئی ہے کہ ہے مرنے والا
دیار خواب، رہ رفتگاں سے دیکھتا ہے
خواب تعبیر ہو رہے گا کہیں
سر خوشی یا ملال تھا کیا تھا
نہ صحن گل سے نہ دیور و در سے خالی ہے
وقف آلام دو جہاں ہی رہا
ہم اک خواب وحشت سے بیدار ہو کر
اور جینے کی اب ہے صورت
جو بھی کچھ ہے کہیں دھوکا ہی نہ ہو
اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو
کہیں پر صبح رکھتا ہوں کہیں پر شام رکھتا ہوں
راہ دشوار بھی ہے بے سروسامانی بھی
مجھے معلوم ہے اب کوئی نہیں ہے میرا
کوئی سرشاری سی سرشاری ہے
نشۂ قرب سے سرشار کرے گا اک روز
وہ دیکھیں گے ہم جو کبھی دیکھا نہیں ہوگا
بیٹھے بیٹھے جانے کہاں پر کھو جاتے ہیں
تم جس جگہ نہ ہووہیں دیکھا کریں گے ہم
آنکھ جو آج کہیں ٹھیک سے رکتی بھی نہیں
اب کیا کہیں وہ خواب خود آگاہ کیا ہوئے
ایک تصویر کا ملبہ ہے پڑا
ہماری دسترس میں کیا نہیں ہے
وہ نہ ہوگا بام پر، ہوں دربدر کس کے لیے
خواب سے ٹوٹ نہ جائے یہ بھرم آنکھو کا
اس سے ملنے کا اشارا ہی نہیں کرتا ہے
یہ قربت فاصلہ ہونے کو ہے پھر
جستجو، خواب جستجو ہی نہ ہو
تھکن سے چور شکست شب وصال کے بعد
دیار کبر و ریا میں کمال میں نے کیا
ہم پہ کچھ دل کا حال کھولو نا
ایسا بھی نہیں ہے کہ ضرورت نہیں بابا
پھول تواب بھی صحن چمن میں کھلتے ہیں
میں چلنے کو تو چلتا جا رہا ہوں
وہی ہم ہیں، وہی رستہ ہمارا
کیا جانیے کیا ہے حد ادراک سے آگے
عزت نہیں رہی کوئی ذلت نہیں رہی
مرحلے رنج کے سرکرتا ہوں
مند گئی ہیں آنکھیں بھی، ختم ہے تماشا بھی
دل میں اب یہ ملال رہتا ہے
جب تو مرا ہم سبو نہیں ہے
یہ بھی تو کمال ہو گیا ہے
بوند جو دل میں گری وہ اور ہے
اور اب کہتا ہوں بے خوفی سے ڈر جاتا
اب وصل کی خواہش تو رواہے مرے خوش رو
تو ہے دل میں تری محبت ہے
مہلت یک نفس دوبارہ نہیں
تواتر سے یہ فرصت ہے میسر
دل کبھی میرے بس میں تھا کہ جو ہے
راستے دشوار ہوتے جارہے ہیں
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.