درس نئی کتابیں
مقدمہ
جلوہ ہے فریب نظر اس دار فنا کا
فغان آرزوؔ
رہنے دو تسلی تم اپنی دکھ جھیل چکے دل ٹوٹ گیا
زمانہ بھر ہے اس کا فر نگہ کے تیر کا مارا
ان کے ہنس دینے پہ خود بھی مسکرا کر رو دیا
جوش شباب خیر طلب امن کا نہ تھا
آکے قاصد نے کہا جو وہی اکثر نکلا
پچھلے غبار قافلہ آگے جرس گیا
یاری تجھ سے کیا کی پیدا ہر ایک سے یارانہ چھوٹا
ماتھے کی شکن بن کر غم دل کا عیاں ہوتا
گھر نہ جب تک دل خستہ تری تصویر کا تھا
پانی کا رنگ آتش غم سے بگڑ گیا
وہ عجز میں سر جو خم ہوگیا
اے نگہ دلفریب کیا یہ ستم کر دیا
دل کے بدلے غم بے کیف کریں کیا لے کر
دوست نے دل کو توڑ کے نقش وفا مٹا دیا
جو یہ کہتے ہیں لیا اپنی تمنادے کر
ختم ہے اپنی مرگ وزیست طرز نگاہ یار پر
اف رے بے دید پڑھ کے سارا خط
شمع ومشعل تو فقط تا بہ سحر جلتے ہیں
جس کا دوست شیوہ بن کر پوچھ لینا دل کا حال
آنے سے جس کے ہم خوش خوش تھے یوں وہ گیا کہ آس نہیں
چہرہ سے جو ان کے غنچہ وگل بار نئی نزاکت ہارے ہیں
یہ ہوش کہاں دل کھو بیٹھے کچھ پوچھے کوئی کچھ کہتے ہیں
ضرور ہمت اہل جہاں سے بدظن ہوں
جس کو ہو غم سے بے دلی شکوہ زباں پہ لائے کیوں
یہ گل رضائے جیب ہے اسے ڈھونڈھ گلشن راز میں
کوئی چٹخا ہوا شیشہ ہوں یا ٹوٹا ہوا دل ہوں
رونے پہ مرے ہنستے کیا ہو بے سمجھے نہ دیوانہ جانو
سب کچھ ہے وہیں جلوۂ جانا نہ جہاں ہو
پھر حکم یہ دنیا کہ اسے در سے اٹھا دو
بھولے بن کر حال نہ پوچھو بہتے ہیں اشک تو بہنے دو
رٹتا ہوں مصیبت میں ترا نام ہمیشہ
عشق میں جو کچھ تھا کھو بیٹھے اپنی کیا اوقات رہی
غم سے دم بھر مضر نہیں ہوتی
خود چلے آؤ یا بلا بھیجوا!
سوز غم دے گیا کون سا رشک گل یہ ہوا عشق کی کس چمن میں لگی
یہ کیوں کہوں کہ خوشی کی گھڑی نہیں آتی
پھٹے دامن میں شرح حال چشم خوں فشاں رکھدی
بقا کی شکل نہ نکلی کسی قرینے سے
دیکھیں محشر میں ان سے کیا ٹھہرے
نہ پوچھو وسعت دل کو کہ مٹ جاینے پہ بھی کیا ہے
دے کے دکھ ہوئے ہو منکر آہ کی تاثیر کے
کیوں کسی رہرد سے پوچھوں اپنی منزل کا پتا
وہ شر بام کب نہیں آتا
جہان آرزو
دل بھر آیا جو عدو کا بھی سہارا ٹوٹا
جس کی طینت جیسی ہوگی
فرقت کی تسلّی کا بھی کوئی،
دیا جب محبت نے انعام اپنا
کوئی بھی جز قیس لیلیٰ کا نہ دیوانہ ہوا
ساتھ ہر ہچکی کے لب پر ان کا نام آیا تو کیا
ظرف خالی کو ٹہو کے دے کے کھنکانے سے کیا
اے ہوائے جانفزا یہ خلد ہے یا کوئی دوست
اپنی بات اپنی نہ سمجھو تا بہ لب آنے کے بعد
بہت دل لبھایا دل آزار ہو کر
قول اور ہے فعل اور ہے دل اور زباں اور
کل صراحی کی تھی مٹی اب ہے پیمانے کی خاک
دشت میں خمار فرداگی مئے پھینک نہ دینگے جام سے ہم
دل میں یاد بت بے پیر لئے بیٹھا ہوں
محروم کیوں ہوں دشت میں سیر چمن سے ہم
ظرف ہوس ہوں دست گدا اگر میں قید ہوں
بسمل ہوں تو میں ہوں مستحمل ہوں تو میں ہوں
ان کی بیجا سبھی سنوں آپ بجا بھی نہ کہوں
مر مر رہے ہیں اور وہاں کچھ اثر نہیں
ان کی صورت کو دیکھتا ہوں میں
جنگ جوئی مایۂ صبر ورضا ہوتی نہیں
مقصد اپنا کہ آپ کہ آپ کا ہوں میں
جلتا ہوا پردانے کا دل ایک ہے سو میں
کم ظرف نہیں ہوں میں اے ساقئ میخانہ
جفا سے پہلے ہمیں خوگر جفا کرتے
انکار کی جا انکار نہیں اقرار کی جا انکار سہی
دل توانا دیکھتے اعضا کو لاغر دیکھتے
دھویٰ ہے یاد دل کے طلبگار کا مجھے
زیب ہے جو چاہے تو اے گیسوئے پر خم کرے
میں ہوں تیرا خلوتی ازل
اشکوں نے راہ بدل ضبط دل حزیں سے
یہ تکرار اچھی نہیں نکتہ چیں سے
ہے نکتہ رس کیلئے خود سکوت شرح سکوت
جتاے کہاں ہیں آپ نظر دل سے موڑ کے
غم دل کو کیوں کر
جذب نگاہ شعبدہ گرد دیکھتے رہے
دم بھر بھی نظر ایک مزاج ایک نہیں ہے
نگار خانہ نبی ہے دنیا ، نگار کی کچھ خبر نہیں ہے
ہو نظر باز تو پھر کچھ بھی نہیں راز میں ہے
ہیرا بھی ہے دل تو پتھر ہے یوں قدر نہیں کچھ ہوتی ہے
دم بخود بیٹھ کے خود جیسے زباں کھولی ہے
غم دیا ہے کہ مسرت دی ہے
دل کی بے چینی سے ماتھے پر پسینا آئے ہے
جس پہ انکی نگاہ ہو جائے
وہ دیں الزام جھوٹے اور غرض یہ ہو یما کہئے
جان لیوا غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
نشان آرزوؔ
جنوں اور سعی خود داری کہ توبہ
اے جذب محبت تو ہی بتا کیو ں نہ اثر لے دل ہی تو ہے
چھری کی چتون ادا خونی نگاہ ناز قاتل ہے
عیش والوں سے غریبی کی مصیبت نہ کہو
یہ کیا کچھ کم ہے جو کچھ مل چکا الفت کے حاصل میں
وہ دن کا رات کرنا ہو کہ شب کا ہو سحر کرنا
تووہ نہ رہا گو کہ تری یاد دہی ہے
میر محفل نہ ہوئے گر مئی محفل تو ہوئے
اک بیخود الفت کو اچھا نہیں ہوش آنا
ناگوار آپ کے غصہ کی ادا کیا ہوگی
طول رہ معدوم ہے وہ عزم راسخ دل میں ہے
ہاں دید کا اقرار ہو تو ابھی ہو!
شوق راحت ہے دل میں درد پیدا کیجئے
کچھ میں نے کہی ہے نہ ابھی اس نے سنی ہے
خالص اردو
جس نے بنادی بانسری گیت اسی کے گائے جا
سریلی بانسری
بیٹھی ساکھ وہ بر تاؤ کیا تھا
نہ بے آس کرکے سہارا دئے جا
سوچ یہ کس لئے کہ کیا ہوگا
بناوٹ کو چاہت کے سانچے میں ڈھالا
سانس تک تھی بولتی چڑیا بھی بند
بے آپ بنا کر مجھے حباتے ہیں کہاں آپ
اک میں بھی سہی تیری گلی میں ہیں جہاں اور
لہو نہ ہنس کر رلاؤ، بس بس !
جی رہے ہیں چاہ میں مر مر کے ہسم
آنکھیں ملتی ہیں جی سے میل نہیں !
جو سامنے اب تک آئے نہیں
سب کی لتیں پلٹ گئیں
اس کی گلی میں جا کے بھی ہم
رس ان آنکھوں میں ہے کہنے کو ذرا سا پانی
پانی میں آگ دھیان سے تیرے بھڑک گئی
کالی گھٹا میں کوندا لپکا رو کے جو کوئل کوک گئی
تیرے توڈھنگ ہیں یہی اپنا بنا کے چھوڑدے
پاس سے اٹھ کے بھی وہ جائیں روکیں بھی آنکھ مار کے
دیکھا تو نہیں اب تک اور ڈھونڈھ نکالا ہے
یہ کس ڈھب سے آنکھ اس کی جی پہ پڑی ہے
چاہ میں بے چین جی کو بھی انہیں جانئے
اگر چاہتے ہیں
درس نئی کتابیں
مقدمہ
جلوہ ہے فریب نظر اس دار فنا کا
فغان آرزوؔ
رہنے دو تسلی تم اپنی دکھ جھیل چکے دل ٹوٹ گیا
زمانہ بھر ہے اس کا فر نگہ کے تیر کا مارا
ان کے ہنس دینے پہ خود بھی مسکرا کر رو دیا
جوش شباب خیر طلب امن کا نہ تھا
آکے قاصد نے کہا جو وہی اکثر نکلا
پچھلے غبار قافلہ آگے جرس گیا
یاری تجھ سے کیا کی پیدا ہر ایک سے یارانہ چھوٹا
ماتھے کی شکن بن کر غم دل کا عیاں ہوتا
گھر نہ جب تک دل خستہ تری تصویر کا تھا
پانی کا رنگ آتش غم سے بگڑ گیا
وہ عجز میں سر جو خم ہوگیا
اے نگہ دلفریب کیا یہ ستم کر دیا
دل کے بدلے غم بے کیف کریں کیا لے کر
دوست نے دل کو توڑ کے نقش وفا مٹا دیا
جو یہ کہتے ہیں لیا اپنی تمنادے کر
ختم ہے اپنی مرگ وزیست طرز نگاہ یار پر
اف رے بے دید پڑھ کے سارا خط
شمع ومشعل تو فقط تا بہ سحر جلتے ہیں
جس کا دوست شیوہ بن کر پوچھ لینا دل کا حال
آنے سے جس کے ہم خوش خوش تھے یوں وہ گیا کہ آس نہیں
چہرہ سے جو ان کے غنچہ وگل بار نئی نزاکت ہارے ہیں
یہ ہوش کہاں دل کھو بیٹھے کچھ پوچھے کوئی کچھ کہتے ہیں
ضرور ہمت اہل جہاں سے بدظن ہوں
جس کو ہو غم سے بے دلی شکوہ زباں پہ لائے کیوں
یہ گل رضائے جیب ہے اسے ڈھونڈھ گلشن راز میں
کوئی چٹخا ہوا شیشہ ہوں یا ٹوٹا ہوا دل ہوں
رونے پہ مرے ہنستے کیا ہو بے سمجھے نہ دیوانہ جانو
سب کچھ ہے وہیں جلوۂ جانا نہ جہاں ہو
پھر حکم یہ دنیا کہ اسے در سے اٹھا دو
بھولے بن کر حال نہ پوچھو بہتے ہیں اشک تو بہنے دو
رٹتا ہوں مصیبت میں ترا نام ہمیشہ
عشق میں جو کچھ تھا کھو بیٹھے اپنی کیا اوقات رہی
غم سے دم بھر مضر نہیں ہوتی
خود چلے آؤ یا بلا بھیجوا!
سوز غم دے گیا کون سا رشک گل یہ ہوا عشق کی کس چمن میں لگی
یہ کیوں کہوں کہ خوشی کی گھڑی نہیں آتی
پھٹے دامن میں شرح حال چشم خوں فشاں رکھدی
بقا کی شکل نہ نکلی کسی قرینے سے
دیکھیں محشر میں ان سے کیا ٹھہرے
نہ پوچھو وسعت دل کو کہ مٹ جاینے پہ بھی کیا ہے
دے کے دکھ ہوئے ہو منکر آہ کی تاثیر کے
کیوں کسی رہرد سے پوچھوں اپنی منزل کا پتا
وہ شر بام کب نہیں آتا
جہان آرزو
دل بھر آیا جو عدو کا بھی سہارا ٹوٹا
جس کی طینت جیسی ہوگی
فرقت کی تسلّی کا بھی کوئی،
دیا جب محبت نے انعام اپنا
کوئی بھی جز قیس لیلیٰ کا نہ دیوانہ ہوا
ساتھ ہر ہچکی کے لب پر ان کا نام آیا تو کیا
ظرف خالی کو ٹہو کے دے کے کھنکانے سے کیا
اے ہوائے جانفزا یہ خلد ہے یا کوئی دوست
اپنی بات اپنی نہ سمجھو تا بہ لب آنے کے بعد
بہت دل لبھایا دل آزار ہو کر
قول اور ہے فعل اور ہے دل اور زباں اور
کل صراحی کی تھی مٹی اب ہے پیمانے کی خاک
دشت میں خمار فرداگی مئے پھینک نہ دینگے جام سے ہم
دل میں یاد بت بے پیر لئے بیٹھا ہوں
محروم کیوں ہوں دشت میں سیر چمن سے ہم
ظرف ہوس ہوں دست گدا اگر میں قید ہوں
بسمل ہوں تو میں ہوں مستحمل ہوں تو میں ہوں
ان کی بیجا سبھی سنوں آپ بجا بھی نہ کہوں
مر مر رہے ہیں اور وہاں کچھ اثر نہیں
ان کی صورت کو دیکھتا ہوں میں
جنگ جوئی مایۂ صبر ورضا ہوتی نہیں
مقصد اپنا کہ آپ کہ آپ کا ہوں میں
جلتا ہوا پردانے کا دل ایک ہے سو میں
کم ظرف نہیں ہوں میں اے ساقئ میخانہ
جفا سے پہلے ہمیں خوگر جفا کرتے
انکار کی جا انکار نہیں اقرار کی جا انکار سہی
دل توانا دیکھتے اعضا کو لاغر دیکھتے
دھویٰ ہے یاد دل کے طلبگار کا مجھے
زیب ہے جو چاہے تو اے گیسوئے پر خم کرے
میں ہوں تیرا خلوتی ازل
اشکوں نے راہ بدل ضبط دل حزیں سے
یہ تکرار اچھی نہیں نکتہ چیں سے
ہے نکتہ رس کیلئے خود سکوت شرح سکوت
جتاے کہاں ہیں آپ نظر دل سے موڑ کے
غم دل کو کیوں کر
جذب نگاہ شعبدہ گرد دیکھتے رہے
دم بھر بھی نظر ایک مزاج ایک نہیں ہے
نگار خانہ نبی ہے دنیا ، نگار کی کچھ خبر نہیں ہے
ہو نظر باز تو پھر کچھ بھی نہیں راز میں ہے
ہیرا بھی ہے دل تو پتھر ہے یوں قدر نہیں کچھ ہوتی ہے
دم بخود بیٹھ کے خود جیسے زباں کھولی ہے
غم دیا ہے کہ مسرت دی ہے
دل کی بے چینی سے ماتھے پر پسینا آئے ہے
جس پہ انکی نگاہ ہو جائے
وہ دیں الزام جھوٹے اور غرض یہ ہو یما کہئے
جان لیوا غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
نشان آرزوؔ
جنوں اور سعی خود داری کہ توبہ
اے جذب محبت تو ہی بتا کیو ں نہ اثر لے دل ہی تو ہے
چھری کی چتون ادا خونی نگاہ ناز قاتل ہے
عیش والوں سے غریبی کی مصیبت نہ کہو
یہ کیا کچھ کم ہے جو کچھ مل چکا الفت کے حاصل میں
وہ دن کا رات کرنا ہو کہ شب کا ہو سحر کرنا
تووہ نہ رہا گو کہ تری یاد دہی ہے
میر محفل نہ ہوئے گر مئی محفل تو ہوئے
اک بیخود الفت کو اچھا نہیں ہوش آنا
ناگوار آپ کے غصہ کی ادا کیا ہوگی
طول رہ معدوم ہے وہ عزم راسخ دل میں ہے
ہاں دید کا اقرار ہو تو ابھی ہو!
شوق راحت ہے دل میں درد پیدا کیجئے
کچھ میں نے کہی ہے نہ ابھی اس نے سنی ہے
خالص اردو
جس نے بنادی بانسری گیت اسی کے گائے جا
سریلی بانسری
بیٹھی ساکھ وہ بر تاؤ کیا تھا
نہ بے آس کرکے سہارا دئے جا
سوچ یہ کس لئے کہ کیا ہوگا
بناوٹ کو چاہت کے سانچے میں ڈھالا
سانس تک تھی بولتی چڑیا بھی بند
بے آپ بنا کر مجھے حباتے ہیں کہاں آپ
اک میں بھی سہی تیری گلی میں ہیں جہاں اور
لہو نہ ہنس کر رلاؤ، بس بس !
جی رہے ہیں چاہ میں مر مر کے ہسم
آنکھیں ملتی ہیں جی سے میل نہیں !
جو سامنے اب تک آئے نہیں
سب کی لتیں پلٹ گئیں
اس کی گلی میں جا کے بھی ہم
رس ان آنکھوں میں ہے کہنے کو ذرا سا پانی
پانی میں آگ دھیان سے تیرے بھڑک گئی
کالی گھٹا میں کوندا لپکا رو کے جو کوئل کوک گئی
تیرے توڈھنگ ہیں یہی اپنا بنا کے چھوڑدے
پاس سے اٹھ کے بھی وہ جائیں روکیں بھی آنکھ مار کے
دیکھا تو نہیں اب تک اور ڈھونڈھ نکالا ہے
یہ کس ڈھب سے آنکھ اس کی جی پہ پڑی ہے
چاہ میں بے چین جی کو بھی انہیں جانئے
اگر چاہتے ہیں
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔