سرورق
یہ بندوں کو ہے سب بخشا ہوا ناز ونعم تیرا
حرز بازدی بنی آدم ہے نام اللہ کا
کیا کیجے وصف روے منور کی تاب کا
ماجرا مت پوچھ دنیا میں مرے آرام کا
سلسلہ ہے سبحۂ میری عمر کے ایام کا
اک آن میں رتبہ دے گدا کو کے وجم کا
شاعری سے شہرہ ہے عالم میں میرے نام کا
قاتل کو کچھ جو شوق تماشا لگا رہا
دام میں میرے ہما پھنسا تھا طالع بد نے رہا کیا
عادی جو یہاں تو ہوا ہے بغض و حسد کا
آیا ہے جو یہاں وہ یہاں سے گزر گیا
دیکھا نتیجہ اس بت بیدیں کی دید کا
تیر نگہ وہ دل میں مرے کا م کر گیا
ہر چند خاک میں بھی پس از مرگ مل گیا
ہے مدعی سفینہ جو بخت نژند کا
غنچہ ہے داغ دل مرے گلزار بخت کا
چھوڑو نہ میرے ساتھ طریقہ سلوک کا
اے بت یہ ترا حسن تو جلوہ ہے خدا کا
کیونکہ نہ فلک کو ہو گوارا
مجھ سے ایسا فلک پیر نے منہ پھیر لیا
انبار سر پہ ہے مرے عصیان کے بار کا
فدا تو کوہکن ہے جوے شیر نکتہ دانی کا
بڑا اک مرثیہ ہے میرے حال نوجوانی کا
کیا فقط سوز دروں سے دل ہمارا جل گیا
قیس کچھ سوز محبت میں نہ تنہا جل گیا
پڑا ہے تجھ سے جو قاتل معاملہ میرا
ملک عدم کی راہ بھی طے گو میں کر گیا
یہ وادی پر خار بھی مامن ہے ہمارا
زندہ ہے جسکا خلق میں کچھ نام رہ گیا
سوز فراق نے مری جان کو جلا دیا
سلف سے شوق ہے اہل سخن کو نکتہ دانی کا
ایمان ہمارا وہ بت بے باک لے گیا
واحسرتا کہ دور جوانی گزر گیا
میں نامراد عین تمنا میں رہ گیا
پیری میں میرا رنج جوانی نہیں گیا
میں زندہ کب تپ غم ہجراں میں رہ گیا
ہیو لاے حسرت ہے ذات فدا
کیوں ترک آج کل ہوا کھانا اناج کا
پھر جدا کیوں میں کم نصیب رہا
کس لیے قہر خدا چرخ پہ نازل نہ ہوا
ترے حسن پر نمک نے مزا مرگ کا چکھایا
بچنا مشکل ہے مگر ایسے پر آزاروں کا
قصہ ہے تازہ تر مرے افسردہ حال کا
ناکامیوں کا تجھ کو مناسب نہیں گلا
کب تک ترا غم بیان نہ ہوگا
یارب خیال ہے تجھے فکر غلام کا
امید کا محل ہے نہ موقع ہے بیم کا
اندیشہ نار واہے کسی اختلال کا
عرس میں میرے جو اس شوخ کا آنا ہوتا
دنیا میں تو جو بندہ تحصیل مال کا
دیوانے داں کہاں ہے ارادہ وصال کا
کیا حوصلہ ہے اسکو کسی کے گزند کا
مگر درد میں ہے سخن کا مزا
ایسا خدا نے بندہ کو اب شاد کردیا
خوف انقلاب دہر سے کھائے گزند کا
کس قدر غیر سیہ رو پر وہ مفتون ہو گیا
پیری میں اب میں عشق کے قابل نہیں رہا
جس کو میں کفر سمجھتا تھا وہ ایماں نکلا
فکر سخن کا شغل مجھے فال ہو گیا
صدقے تری شان کے خدایا
شب خیزیوں نے مجھ کو خوش اقبال کر دیا
مشہد ہے لقب میری طبیعت کے چمن کا
ہر چند تو نے سیکھا ہے پڑھنا نماز کا
غیرت کبریت احمر مجھ کو رونا ہوگیا
اب میرے ہاتھ میں ہے گریباں نماز کا
جو مضمون کا کل رقم ہو گیا
غنی جہاں بینوا ہو گیا
میں اچھا بھلا جان بلب ہوگیا
در رحمت حق جو وا ہوگیا
فوراً بنادے مہر کو ہمداغ ماہ کا
اے مرگ ہجر جان کو وصال صنم کیا
غیر بھی اب غلام ہے میرا
فرخندہ زیرران ہو گھوڑابیاہ کا
جوبن تھا اے پری کہیں تھوڑا بیاہ کا
جسکی قسمت میں جو لکھا تھا وہ موجود ہوا
ہو گیا پاک پیا جس نے پیالا تیرا
بیکسی سے ہے فدا تیری جو صولت پیدا
اے پری دائرۂ مہر بالا تیرا
عاشق کا ترے نصیب پھوٹا
پیری میں مجھ کو غم ہے جو حسن شباب کا
شب بزم غیر میں جو تو شامل نہیں رہا
کیا ذلتیں نہ عشق بتاں سے اٹھا چلا
ہم نے دلی میں جو دربار کا میلا دیکھا
مرے شور معنی میں ہو کیا مزا
برا بکھیڑا ہے پیچھے مرے ترے غم کا
فوارہ کے دہن سے گل ترا چھل گیا
مری نگاہ میں عالم ہے عالم صحرا
رونق بزم امیران ہے جو آتا تیرا
اس بت کے ساتھ لطف نہیں اتحاد کا
موقع محال ترے اجل سے فراغ کا
ملا کسے تری ڈیوڑھی سے نان کا ٹکڑا
حیران جہاں ہے مجلس رنداں کے ٹھاٹ کا
تری نگاہ میں عالم ہے تر کتازی کا
نہ تنہا معتقد عالم ہے شان بے نیازی کا
چین لینے نہیں دیتا دل مضطر اپنا
دل میں کسی نگاہ کا جو تیر رہ گیا
جمع خاطر تو بہت کم کوئی انسان دیکھا
شادی جاوید مجھ کو میرا رونا ہو گیا
بت کافر ٹھکانا ہے کہیں ا س بے وفائی کا
مالک کی ذات پر ہے توکل غلام کا
مثل فرہاد کوئی عاشق بیدل نہ ہوا
کب نہیں تجھ پر کشادہ پردۂ اسرار غیب
ردیف بائے موحدہ
کچھ ذکر حق نہ شغل مناجات ہے نصیب
یارب دعاے بندۂ مسکین ہو مستجاب
پنہاں مگر نہیں ہے کوئی مجھ سے حال غیب
ملنا نصیب اور نہ دیدار ہے نصیب
آرام سے سویا ہوں مگر زیر کفن اب
ردیف تاء فوقانی
ناچ انکا بزم غیر میں تھا کیا تمام رات
بر میں رقیب کے جو وہ سویا تمام رات
دھوکے میں آکے تیرے نہ سویا تمام رات
فرقت میں وقت خواب پنایا تمام رات
بیکار محض ہے مرا سب صوم اور صلوٰۃ
ہے گرم دوڑ دھوپ سے میری سوا ددشت
ردیف جیم
آرام لینے دیتا نہیں غم تمام رات
کیا زمانے میں زناکاری نے پایا ہے رواج
مجھ کو نہیں کسی سروسامان کی احتیاج
یارب ہے تیرے مایۂ سودا کی احتیاج
ہمراہ جان جاے تو کچھ جاے اختلاج
ردیف دال مہملہ
ہے فصل گل میں دشت کے دامان کی احتیاج
زنار زرد سے ہے فقط کیا جگر میں درد
مجھ کو نہیں زمانے سے چشم کشودکار
نہیں کیوں بت بیوفا کو پسند
عمردراز سے ہوں اسی غم میں بیقرار
ہو جاے تنگ وسعت صحرا ابھی کچھ اور
آشوب سخت ہے دل پر اضطراب پر
ہے ناز مجھے ترے کرم پر
زیست دشوار ہے اے جان ترے بیماروں پر
گزریں دنیا میں مری عمر کے ایام بخیر
گویا حال نزع ہے طاری مگر بیمارپر
الٰہی درد وغم اپنا عطا کر
جب تلک ہو نہ خواہش تقدیر
فدا وقت صحر ہے اٹھ دعا کر
نکر پامال مٹی میں ملا کر
جان ہے مری فدا ترے حسن وجمال پر
ردیف زاء معجمہ
صد آشوب ہے نرگس نیم باز
ردیف سین مہملہ
خدایا تری ذات ہے بے نیاز
ویرانگی ہے یہ مری بیت الحزن کے پاس
دوری میں یار سے ہوں میں رنج ومحن کے پاس
کیا ہے تجھے جان زار افسوس
ہیں جہاں میں جو مرد حق شناس
حافظ ہے مرا خدا چپ وراس
ردیف قاف
افسانۂ دراز ہے میرا بیان شوق
کعبہ سے اپنے جلد بتوں کو نکال ڈال
ردیف لام
مضمون لہو میں درد کے ڈوبا ہوا نکال
زہے حسن بت شیریں شمائل
بگواے فدا انچہ گردو قبول
سدا سینہ میں جو تڑپا کیا دل
خون سے مرے تمام تری انجمن ہے لال
ردیف میم
جسم نزار ہے مرا گو بانشان غم
رہے دنیا میں الٰہی ترا یارو اقبال
جھوٹے ہیں سب مقدمے سچا ہے تیرا نام
بسکہ دنیا سے وہ گیا مغموم
اک وہ ہیں جنکو آٹھ پہر ہے خدا سے کام
غم میں مرتا ہے عبث عاشق ناکام مدام
دنیا میں ہے یہ غریب ناکام
ہوں طلبگار مہر خاص مدام
کاغذ ہے پارہ پارہ سرا سیمہ ہے قلم
شب قدر ہے اور ماہ صیام
خدایا تری شان ہے کیا عظیم
الٰہی ہو مرا باخیرا نجام
رشک ہزار رفتۂ محشر ہے گر خرام
کیا جو شش جنوں کو ہےطغیاں بہار میں
ردیف نون
نہ کر بندہ کو مستمندا نام
بریاں ہے سوز غم سے مرا دل شباب میں
کیا کیا نہ مجھ کو درد ہے عہد شباب میں
جو رقت ہے اے پری جو مرے دل کے ریش میں
خواب میں مجھ کو پیر مغاں شب لے گیا کسکی محفل میں
کبھی کافر ہوں کبھی مومن دیندار ہوں میں
کیا زلف سیہ کا ہے ترے جال بغل میں
کس وقت انتشار سے رنگ اپنا فق نہیں
اوقات ساری گزری ہے صد گو نہ رنج میں
اک اور راہ صعب کا میں ذی ارادہ ہوں
ہیں خار رنج میرے بیاباں عمر میں
خاور ہے کاخ دوست ہمارے گمان میں
خبر رنج کچھ نپا یاتیرے اشتیاق میں
رنج فراق یا رک افت رسیدہ ہوں
گوش کر ہیں تری آواز سے کچھ کام نہیں
زمانے میں دولت کی قلت نہیں
ظالم خدا سے ڈر میں جوان غریب ہوں
تب مناسب ہے سر فکر سخن آوردن
کب مہربان بندہ پر اپنے خدا نہیں
معرفت ملک بایزید نہیں
تو عرض مدعا سے مگر آشنا نہیں
کیا شک بت قاتل ہے کچھ اب میری اجل میں
یارب جو سوال ہے وہ پاؤں
واعظا اپنا گزر کیوں نہ ہو مے خواروں میں
جی لگے میرا کس کی شادی میں
بغل میں جو وہ ماہ پارا نہیں
حرف حک ہے عیش میرے صفحہ ایام میں
محو ہے ہر شخص اپنے کام کی تدبیر میں
ساقی دے مجھے شراب گلگوں
تری زلف پیچاں کا خواہاں ہوں میں
گو ہوں میں بے سروسامان پہ جہانبان ہوں میں
بستی فراق میں جو بیانان سے کم نہیں
گنتی کے مرے جسد میں دم ہیں
گو یا حیات ہے مری عشق صنم نہیں
کسی وقت میں خالی از غم نہیں
ایسا ترے غم میں مضطرب ہوں
میں خستہ جان ستم زدۂ روزگار ہوں
ہے لطف زندگی جو ترے حسن وناز میں
آباد تو سدا رہے دیر خراب میں
لطف حیات سے میں ذرا بہرہ ور نہیں
حاصل حضور قلب ہے کمتر نماز میں
میں از خود رفتہ ہوں یارب کسی بت کی جدائی میں
تشویش روزگار سے سب ناگزیر ہیں
گزرے گی عمر فضل خدا سے فلاح میں
پی لے زاہد شراب دنیا میں
کانٹے جگرکے فرش ہیں اثناء راہ میں
ویرانگی ہے گویا ازل سے نصیب میں
شان عشاق نوازی بت جاناں میں نہیں
سوز غم بتاں سے تہ صد عذاب ہوں
چوٹی جو اے پری تری ناگن سے کم نہیں
کیا رنگ بامداد نمایاں ہے شام میں
حیراں ہے عقل دور زمانہ کے حال میں
شکل غریب دشت محن میں رہا ہوں میں
کسکو مجال دخل ہے کچھ تیری شان میں
آج افسوس ہمیں کل کی خبر کچھ بھی نہیں
میخوار نے جو لطف اٹھایا شراب میں
سرکہ کی ترشی ہے مرے جام شراب میں
بندہ نہیں ہے جسکو سر بندگی نہیں
میں پھنس گیا ہوں زلف پریشاں کے جال میں
مصروف بندگان خدا بندگی میں ہیں
قاتل تری نگاہ سے جان ہے ہلا ک میں
ردیف واو
رہ جوش جوانی ہیں دو پستان مجھ کو
خدا سے ملنے کی بندہ کو آرزو تو نہیں
اب نہ دامان ہے میسر نہ گریباں مجھ کو
خط کوئی جانب محبوب سے تو لا مجھ کو
آفت جاں ہیں ترے اے بت دلبر گیسو
خوش نہیں آتی ہے دنیا کی کوئی شے مجھ کو
رنج فراق یار کی حالت تباہ ہو
ساقی ادھر عطا مگر ایسی شراب ہو
صحت کا ہر مریض کو انجام بھیج دو
خدا کی شان اور قدرت کو دیکھو
جی چاہتا ہے لذت گفتار شیفتہ
یارب دعاے بندۂ عاصی قبول ہو
ردیف ہائے ہوز
ہم نفس میرا بیان زخم کاری کچھ نہ پوچھ
سو سو بلا جہاں میں ہیں ہر ہر قدم کے ساتھ
ردیف یاے تحتانی
کچھ اے جنوں کدورت خاطر کو دھویئے
ہے اس بت کو میری خبر کچھ نہ کچھ
اس میکدے میں آنا ہے جس کو وہ آیئے
نسبت اے شاہ ہے کیا اسکو ترے دربان سے
دہن تنگ ہے خوشتر صدف نیسان سے
خوش رنگ تر ہے رخ ترا گلبرگ درد سے
گورے کی فوج کیا ترا رنگیں دوشالہ ہے
تخصیص کنشت و کعبہ کیا ہے
کسے ہے امن آفات جہاں سے
موا ہے جو یہاں پیدا ہوا ہے
وہ کوچۂ اغیار سے جب تک کہ نہ سر کے
داغ دل آئینہ ہے دیدۂ حیراں سے مرا
نہ ہوا غم میں ترے کار کچہری ہم سے
پایا ہے زندگی کا نہ میں نے مزا کبھی
رہ گئے واکیسے ہم محو نظارا ہو گئے
ایک وہ ہیں جو یہاں سے سوکرامت لے چلے
گاہے نہ ہوئی وہاں رسائی
حسرت نے جو تنگ دل کیا ہے
غم کھاتے کھاتے خاطر افسردہ مر گئی
کیا محض جان زار سراپا خراش ہے
گو یا شادی سے دلا ہے ہمہ عالم خالی
گوشۂ البتہ ہے اک میری بغل کا خالی
بوسۂ لب پہ خدا دیدے
سوز جگر کی شیب میں مئے خراب ہے
دل میں ہیں سوز شیں نفس زار سرد ہے
دنیاے دوں سے تجھ کو تمنا وفا کی ہے
روز نقشے نئے ہیں اس گھر کے
باہر ہے مرا چارہ مسیحا ترے بس سے
شان سفاکی میں کیا نسبت اسے چنگیز سے
خوش نہیں آتی کوئی بات مجھے
مجروح مرادل وجگر ہے
کب وہ بت شوخ مہربان ہے
کب مجھ کو اپنے رنج دردن سے فراغ ہے
زاہد نماز غیر حضوری حرام ہے
کیا نوجوانی اپنی الم میں گزر گئی
پیری میں میری بوے جوانی نہیں گئی
کب غمزدوں کو بازی طفلاں نصیب ہے
اس درد کی خبر نہ کسی آشنا کو ہے
زندگی میں نہ بر آئی کوئی حسرت میری
عمر سب غم میں ترے گزری ہے بیجا میری
اس بت کے غم سے بد وجوانی میں لٹ گئے
اس سے رہ جاے صد افسوس مرے پر خالی
کیوں نہ ہو حجم سخن کف میں قلم موجود ہے
اک دل سے فقط نہ داغ پائے
فکر دنیا ودیں جریب ہوئی
جس کی تری نگاہ کرم پر نگاہ ہے
ذرہ ذرہ سے نمودار ہے صنعت تیری
حق تعالیٰ تجھے دنیا میں سلامت رکھے
فقط مژہ سے نہ چھاتی مری فگار ہوئی
دنیا میں بیشتر غم واندوہ رنج ہے
فروغ چشم پر خونم کجائی
عرش وکرسی سے نمودار ہے عزت تیری
نہ بیکار آہ سحر جائیگی
دور ایام ہمیشہ جو ترا یار رہے
تیرے دیوانے ہیں آوارہ بیاباں میں کبھی
یارب کریم مہر کردے
خالق تجھے شاد کام رکھے
پیرو سنت حساب وجہاں سے پاک ہے
اے جان ترے فراق میں سونا حرام ہے
خالق تجھے کامیاب رکھے
کیا محض مجھ کو اک قدح مے حلال ہے
مردود ہے تجھ سے منہ جو موڑے
یا الٰہی ترا بد خواہ جو رنجور رہے
حجب ننگ صدارمان کہاں حائل نہ ہوے
پیری میں شوق دید بت بے حجاب ہے
دعا مانگنا تو مرا کام ہے
جو آپ کا محوخال وخد ہے
مدد میری وہ فضل یزداں کرے
طول امل جہاں میں سراپا فضول ہے
یارب نہ حد ہے میری خطا و گناہ کی
حسرت کا میرے جی کو نہایت ملا ل ہے
بے سبب کیوں ہوئے خفا مجھ سے
غم ہجر میں شب بسر ہو گئی
اقبال کا مآل ہمیشہ وبال ہے
ناپاکیاں ہیں دل میں جو بول اور بزار کی
آنکھ اپنی شب جو چشم فسوں گر سے لڑ گئی
کوئی ہے نیک خلق کوئی بد مزاج ہے
ہر چند میرے غم کا فسانہ دراز ہے
پہلے تو تجھ کو فرض ہے صحت نماز ہے
رقت انگیز ہے پیر ی میں کہانی میری
گور اپنی مجھ کو مصر کا بازار ہو گئی
کیا قدرت خدا کا جہاں میں ظہور ہے
جب سے تیر عشق کا یہ ناتواں نخچیر ہے
ابر نیساں سخن میرا بم افکار ہے
آمد فصل بہاری ہے جنوں کا جوش ہے
حسن اس نے جب دیا بت رعنا کے واسطے
کچھ ضرورت سقف کعبہ کو نہ تھی میزاب کی
تو ڑ کھائے نہ مجھے بھول کے بوٹی تیری
کیا سوز نصیبہ ہوا ہے دور فلک سے
کب مجھے فکر سخن میں ناکام کچھھ منظور ہے
کسی بت کو جو دیکھا تھا میں نے فدا مرے ہوش رہے نہ حواس رہے
تازہ ہے مری روح ترے صدمۂ غم سے
بت کافر بیدین براے خدا کوئی بوسہ دہن کا دلادے مجھے
سہتے سہتے ظلم بیجا گو کہ ہم مرجائیں گے
شب مری بزم بتاں میں کیا رسائی ہو گئی
ظلمت خجل ہے زلف کے بالوں کے سامنے
مری جان خزیں کس نے فنا کی
عقل جنوں زدہ مری ناصح کہاں گئی
شیب میں زندگی وبال ہوئی
غصہ وغم سے جہاں میں ہر بشر مجبور ہے
خدا کا کرم ابر مدرا رہے
صحت ہو جس سے ایسی موثر دوا ملے
تو دوستوں کے ساتھ جو ایسا بخیل ہے
ہر شعر تر ستایش رب جلیل ہے
مجھ سا کوئی ماتم زدہ ناکام نہیں ہے
دود جگر سے روشنی ہے تیرہ ماہ کی
سب عمر اپنی وار پہ جو تونے وار کی
خدایا تیرا باب فضل واہے
کہاں تک بھلا صبر آئے مجھے
نہ پوچھو مجھ سے کچھ درودردن کو کچھ افاقا ہے
سہارا ترا باخدا ہے مجھے
کیا مرتبہ فقر نے دیا ہے
رنج جو ہجر میں پایا مرا جی جانتا ہے
مٹھا یا ملائی ہے یا دود ہے
گو کاٹنا پہاڑ کا آسان کام ہے
حیران طبیب دیکھ کر آزار ہوگئے
کیا کیا قلق کا صدمہ نہ ہر صبح وشام ہے
دنیا سے جو ایسی لو لگی ہے
معدوم محض کل سے جو موجود آج ہے
عدو میری غیبت سے بدنام ہے
عین انصاف ہر آئینہ ہے عادت تیری
پیوستہ تجھ پہ فضل خدا اے خدا رہے
دل کو فدا ہجوم قلق میں سنبھالیے
شکوہ اس بت کا عبث ہے کہ جلایا ہے مجھے
سینہ بہار زخم سے ہمرنگ باغ ہے
انعام رب کی شکر گزاری محال ہے
لطف تمام عالم آباد گرد ہے
منہ میں مرے قند گھل گیا ہے
اک وہ ہیں جن کے دوست پری وش قریب ہے
طبیعت جو محو خدا ہو گئی
حیرت سے کیا زبان میر لال ہو گئی
نہ پاس اپنے جب تک سلائے مجھے
دنیا میں مجھ کو فکر معیشت حرام ہے
ہنگامۂ نشور مقرر قیام ہے
صد گونہ جس سے رشک ہزار چمن کو ہے
تن پروروں کو کیا مرے دیوان سے کام ہے
قوی میں قوت جسم میں طاقت جان میں حلاوت نہیں رہی
غیرت شمیم خط سے نسیم ختن کو ہے
سوز غم فراق میں کیا مجھ کو تاب ہے
اوقات تلخ میری بھی غم میں گزر گئی
کیا جوش سیل گریۂ چشم پر آب ہے
کیونکر کہوں کہ کار عدالت خراب ہے
عمر اپنی ساری راہ طلب میں گزر گئی
تو خوب اے پری ہے تری ذات خوب ہے
دنیا مری نظر میں بحال تباہ ہے
حسرت درون دل مری محبوس رہ گئی
اے بت خدا شفا دے کلیجے کی ریم سے
نسبت ہے وصل کو ترے باغ نعیم سے
دل میں مرے آبلے بھرے ہیں
کیجے دریغ زہر نہ جان لئیم سے
وہ خوان قند حسن جو اسکی بغل میں ہے
ناکامیوں سے عیش جوانی خلل میں ہے
آفت بہت ہے سانولاپن گورے رنگ سے
اے جان ترے قریب سرنام وننگ سے
مشکل ہے زیست اب ترے غم کے فراق سے
کچھ رنج کی میرے انتہا ہے
کوندی جو بجلی عرش معلیٰ سے نور کی
اس غیرت چمن کی سواری گزر گئی
بندہ جو قرب حضرت حق سے بعید ہے
بلبل قباے غنچۂ گل تار تار ہے
صدمہ قلق کا دلکو مرے بار بار ہے
سب ترے فضل و کرم سے ہے فضیلت میری
یارب ترا شکر برزبان ہے
کھڑا ہو جانا بہر رقص تیرا گویا آفت ہے
تقریظ دیوان ہذا ریختۂ قلم جواہر منشی محمد عبد العزیز صاحب۔۔۔
قطعات تاریخ از فکر منشی عبد الرحیم متوطن ڈبائی ۔۔۔۔
AUTHORعبدالغنی فدا
YEAR1881
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER منشی نول کشور، لکھنؤ
AUTHORعبدالغنی فدا
YEAR1881
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER منشی نول کشور، لکھنؤ
سرورق
یہ بندوں کو ہے سب بخشا ہوا ناز ونعم تیرا
حرز بازدی بنی آدم ہے نام اللہ کا
کیا کیجے وصف روے منور کی تاب کا
ماجرا مت پوچھ دنیا میں مرے آرام کا
سلسلہ ہے سبحۂ میری عمر کے ایام کا
اک آن میں رتبہ دے گدا کو کے وجم کا
شاعری سے شہرہ ہے عالم میں میرے نام کا
قاتل کو کچھ جو شوق تماشا لگا رہا
دام میں میرے ہما پھنسا تھا طالع بد نے رہا کیا
عادی جو یہاں تو ہوا ہے بغض و حسد کا
آیا ہے جو یہاں وہ یہاں سے گزر گیا
دیکھا نتیجہ اس بت بیدیں کی دید کا
تیر نگہ وہ دل میں مرے کا م کر گیا
ہر چند خاک میں بھی پس از مرگ مل گیا
ہے مدعی سفینہ جو بخت نژند کا
غنچہ ہے داغ دل مرے گلزار بخت کا
چھوڑو نہ میرے ساتھ طریقہ سلوک کا
اے بت یہ ترا حسن تو جلوہ ہے خدا کا
کیونکہ نہ فلک کو ہو گوارا
مجھ سے ایسا فلک پیر نے منہ پھیر لیا
انبار سر پہ ہے مرے عصیان کے بار کا
فدا تو کوہکن ہے جوے شیر نکتہ دانی کا
بڑا اک مرثیہ ہے میرے حال نوجوانی کا
کیا فقط سوز دروں سے دل ہمارا جل گیا
قیس کچھ سوز محبت میں نہ تنہا جل گیا
پڑا ہے تجھ سے جو قاتل معاملہ میرا
ملک عدم کی راہ بھی طے گو میں کر گیا
یہ وادی پر خار بھی مامن ہے ہمارا
زندہ ہے جسکا خلق میں کچھ نام رہ گیا
سوز فراق نے مری جان کو جلا دیا
سلف سے شوق ہے اہل سخن کو نکتہ دانی کا
ایمان ہمارا وہ بت بے باک لے گیا
واحسرتا کہ دور جوانی گزر گیا
میں نامراد عین تمنا میں رہ گیا
پیری میں میرا رنج جوانی نہیں گیا
میں زندہ کب تپ غم ہجراں میں رہ گیا
ہیو لاے حسرت ہے ذات فدا
کیوں ترک آج کل ہوا کھانا اناج کا
پھر جدا کیوں میں کم نصیب رہا
کس لیے قہر خدا چرخ پہ نازل نہ ہوا
ترے حسن پر نمک نے مزا مرگ کا چکھایا
بچنا مشکل ہے مگر ایسے پر آزاروں کا
قصہ ہے تازہ تر مرے افسردہ حال کا
ناکامیوں کا تجھ کو مناسب نہیں گلا
کب تک ترا غم بیان نہ ہوگا
یارب خیال ہے تجھے فکر غلام کا
امید کا محل ہے نہ موقع ہے بیم کا
اندیشہ نار واہے کسی اختلال کا
عرس میں میرے جو اس شوخ کا آنا ہوتا
دنیا میں تو جو بندہ تحصیل مال کا
دیوانے داں کہاں ہے ارادہ وصال کا
کیا حوصلہ ہے اسکو کسی کے گزند کا
مگر درد میں ہے سخن کا مزا
ایسا خدا نے بندہ کو اب شاد کردیا
خوف انقلاب دہر سے کھائے گزند کا
کس قدر غیر سیہ رو پر وہ مفتون ہو گیا
پیری میں اب میں عشق کے قابل نہیں رہا
جس کو میں کفر سمجھتا تھا وہ ایماں نکلا
فکر سخن کا شغل مجھے فال ہو گیا
صدقے تری شان کے خدایا
شب خیزیوں نے مجھ کو خوش اقبال کر دیا
مشہد ہے لقب میری طبیعت کے چمن کا
ہر چند تو نے سیکھا ہے پڑھنا نماز کا
غیرت کبریت احمر مجھ کو رونا ہوگیا
اب میرے ہاتھ میں ہے گریباں نماز کا
جو مضمون کا کل رقم ہو گیا
غنی جہاں بینوا ہو گیا
میں اچھا بھلا جان بلب ہوگیا
در رحمت حق جو وا ہوگیا
فوراً بنادے مہر کو ہمداغ ماہ کا
اے مرگ ہجر جان کو وصال صنم کیا
غیر بھی اب غلام ہے میرا
فرخندہ زیرران ہو گھوڑابیاہ کا
جوبن تھا اے پری کہیں تھوڑا بیاہ کا
جسکی قسمت میں جو لکھا تھا وہ موجود ہوا
ہو گیا پاک پیا جس نے پیالا تیرا
بیکسی سے ہے فدا تیری جو صولت پیدا
اے پری دائرۂ مہر بالا تیرا
عاشق کا ترے نصیب پھوٹا
پیری میں مجھ کو غم ہے جو حسن شباب کا
شب بزم غیر میں جو تو شامل نہیں رہا
کیا ذلتیں نہ عشق بتاں سے اٹھا چلا
ہم نے دلی میں جو دربار کا میلا دیکھا
مرے شور معنی میں ہو کیا مزا
برا بکھیڑا ہے پیچھے مرے ترے غم کا
فوارہ کے دہن سے گل ترا چھل گیا
مری نگاہ میں عالم ہے عالم صحرا
رونق بزم امیران ہے جو آتا تیرا
اس بت کے ساتھ لطف نہیں اتحاد کا
موقع محال ترے اجل سے فراغ کا
ملا کسے تری ڈیوڑھی سے نان کا ٹکڑا
حیران جہاں ہے مجلس رنداں کے ٹھاٹ کا
تری نگاہ میں عالم ہے تر کتازی کا
نہ تنہا معتقد عالم ہے شان بے نیازی کا
چین لینے نہیں دیتا دل مضطر اپنا
دل میں کسی نگاہ کا جو تیر رہ گیا
جمع خاطر تو بہت کم کوئی انسان دیکھا
شادی جاوید مجھ کو میرا رونا ہو گیا
بت کافر ٹھکانا ہے کہیں ا س بے وفائی کا
مالک کی ذات پر ہے توکل غلام کا
مثل فرہاد کوئی عاشق بیدل نہ ہوا
کب نہیں تجھ پر کشادہ پردۂ اسرار غیب
ردیف بائے موحدہ
کچھ ذکر حق نہ شغل مناجات ہے نصیب
یارب دعاے بندۂ مسکین ہو مستجاب
پنہاں مگر نہیں ہے کوئی مجھ سے حال غیب
ملنا نصیب اور نہ دیدار ہے نصیب
آرام سے سویا ہوں مگر زیر کفن اب
ردیف تاء فوقانی
ناچ انکا بزم غیر میں تھا کیا تمام رات
بر میں رقیب کے جو وہ سویا تمام رات
دھوکے میں آکے تیرے نہ سویا تمام رات
فرقت میں وقت خواب پنایا تمام رات
بیکار محض ہے مرا سب صوم اور صلوٰۃ
ہے گرم دوڑ دھوپ سے میری سوا ددشت
ردیف جیم
آرام لینے دیتا نہیں غم تمام رات
کیا زمانے میں زناکاری نے پایا ہے رواج
مجھ کو نہیں کسی سروسامان کی احتیاج
یارب ہے تیرے مایۂ سودا کی احتیاج
ہمراہ جان جاے تو کچھ جاے اختلاج
ردیف دال مہملہ
ہے فصل گل میں دشت کے دامان کی احتیاج
زنار زرد سے ہے فقط کیا جگر میں درد
مجھ کو نہیں زمانے سے چشم کشودکار
نہیں کیوں بت بیوفا کو پسند
عمردراز سے ہوں اسی غم میں بیقرار
ہو جاے تنگ وسعت صحرا ابھی کچھ اور
آشوب سخت ہے دل پر اضطراب پر
ہے ناز مجھے ترے کرم پر
زیست دشوار ہے اے جان ترے بیماروں پر
گزریں دنیا میں مری عمر کے ایام بخیر
گویا حال نزع ہے طاری مگر بیمارپر
الٰہی درد وغم اپنا عطا کر
جب تلک ہو نہ خواہش تقدیر
فدا وقت صحر ہے اٹھ دعا کر
نکر پامال مٹی میں ملا کر
جان ہے مری فدا ترے حسن وجمال پر
ردیف زاء معجمہ
صد آشوب ہے نرگس نیم باز
ردیف سین مہملہ
خدایا تری ذات ہے بے نیاز
ویرانگی ہے یہ مری بیت الحزن کے پاس
دوری میں یار سے ہوں میں رنج ومحن کے پاس
کیا ہے تجھے جان زار افسوس
ہیں جہاں میں جو مرد حق شناس
حافظ ہے مرا خدا چپ وراس
ردیف قاف
افسانۂ دراز ہے میرا بیان شوق
کعبہ سے اپنے جلد بتوں کو نکال ڈال
ردیف لام
مضمون لہو میں درد کے ڈوبا ہوا نکال
زہے حسن بت شیریں شمائل
بگواے فدا انچہ گردو قبول
سدا سینہ میں جو تڑپا کیا دل
خون سے مرے تمام تری انجمن ہے لال
ردیف میم
جسم نزار ہے مرا گو بانشان غم
رہے دنیا میں الٰہی ترا یارو اقبال
جھوٹے ہیں سب مقدمے سچا ہے تیرا نام
بسکہ دنیا سے وہ گیا مغموم
اک وہ ہیں جنکو آٹھ پہر ہے خدا سے کام
غم میں مرتا ہے عبث عاشق ناکام مدام
دنیا میں ہے یہ غریب ناکام
ہوں طلبگار مہر خاص مدام
کاغذ ہے پارہ پارہ سرا سیمہ ہے قلم
شب قدر ہے اور ماہ صیام
خدایا تری شان ہے کیا عظیم
الٰہی ہو مرا باخیرا نجام
رشک ہزار رفتۂ محشر ہے گر خرام
کیا جو شش جنوں کو ہےطغیاں بہار میں
ردیف نون
نہ کر بندہ کو مستمندا نام
بریاں ہے سوز غم سے مرا دل شباب میں
کیا کیا نہ مجھ کو درد ہے عہد شباب میں
جو رقت ہے اے پری جو مرے دل کے ریش میں
خواب میں مجھ کو پیر مغاں شب لے گیا کسکی محفل میں
کبھی کافر ہوں کبھی مومن دیندار ہوں میں
کیا زلف سیہ کا ہے ترے جال بغل میں
کس وقت انتشار سے رنگ اپنا فق نہیں
اوقات ساری گزری ہے صد گو نہ رنج میں
اک اور راہ صعب کا میں ذی ارادہ ہوں
ہیں خار رنج میرے بیاباں عمر میں
خاور ہے کاخ دوست ہمارے گمان میں
خبر رنج کچھ نپا یاتیرے اشتیاق میں
رنج فراق یا رک افت رسیدہ ہوں
گوش کر ہیں تری آواز سے کچھ کام نہیں
زمانے میں دولت کی قلت نہیں
ظالم خدا سے ڈر میں جوان غریب ہوں
تب مناسب ہے سر فکر سخن آوردن
کب مہربان بندہ پر اپنے خدا نہیں
معرفت ملک بایزید نہیں
تو عرض مدعا سے مگر آشنا نہیں
کیا شک بت قاتل ہے کچھ اب میری اجل میں
یارب جو سوال ہے وہ پاؤں
واعظا اپنا گزر کیوں نہ ہو مے خواروں میں
جی لگے میرا کس کی شادی میں
بغل میں جو وہ ماہ پارا نہیں
حرف حک ہے عیش میرے صفحہ ایام میں
محو ہے ہر شخص اپنے کام کی تدبیر میں
ساقی دے مجھے شراب گلگوں
تری زلف پیچاں کا خواہاں ہوں میں
گو ہوں میں بے سروسامان پہ جہانبان ہوں میں
بستی فراق میں جو بیانان سے کم نہیں
گنتی کے مرے جسد میں دم ہیں
گو یا حیات ہے مری عشق صنم نہیں
کسی وقت میں خالی از غم نہیں
ایسا ترے غم میں مضطرب ہوں
میں خستہ جان ستم زدۂ روزگار ہوں
ہے لطف زندگی جو ترے حسن وناز میں
آباد تو سدا رہے دیر خراب میں
لطف حیات سے میں ذرا بہرہ ور نہیں
حاصل حضور قلب ہے کمتر نماز میں
میں از خود رفتہ ہوں یارب کسی بت کی جدائی میں
تشویش روزگار سے سب ناگزیر ہیں
گزرے گی عمر فضل خدا سے فلاح میں
پی لے زاہد شراب دنیا میں
کانٹے جگرکے فرش ہیں اثناء راہ میں
ویرانگی ہے گویا ازل سے نصیب میں
شان عشاق نوازی بت جاناں میں نہیں
سوز غم بتاں سے تہ صد عذاب ہوں
چوٹی جو اے پری تری ناگن سے کم نہیں
کیا رنگ بامداد نمایاں ہے شام میں
حیراں ہے عقل دور زمانہ کے حال میں
شکل غریب دشت محن میں رہا ہوں میں
کسکو مجال دخل ہے کچھ تیری شان میں
آج افسوس ہمیں کل کی خبر کچھ بھی نہیں
میخوار نے جو لطف اٹھایا شراب میں
سرکہ کی ترشی ہے مرے جام شراب میں
بندہ نہیں ہے جسکو سر بندگی نہیں
میں پھنس گیا ہوں زلف پریشاں کے جال میں
مصروف بندگان خدا بندگی میں ہیں
قاتل تری نگاہ سے جان ہے ہلا ک میں
ردیف واو
رہ جوش جوانی ہیں دو پستان مجھ کو
خدا سے ملنے کی بندہ کو آرزو تو نہیں
اب نہ دامان ہے میسر نہ گریباں مجھ کو
خط کوئی جانب محبوب سے تو لا مجھ کو
آفت جاں ہیں ترے اے بت دلبر گیسو
خوش نہیں آتی ہے دنیا کی کوئی شے مجھ کو
رنج فراق یار کی حالت تباہ ہو
ساقی ادھر عطا مگر ایسی شراب ہو
صحت کا ہر مریض کو انجام بھیج دو
خدا کی شان اور قدرت کو دیکھو
جی چاہتا ہے لذت گفتار شیفتہ
یارب دعاے بندۂ عاصی قبول ہو
ردیف ہائے ہوز
ہم نفس میرا بیان زخم کاری کچھ نہ پوچھ
سو سو بلا جہاں میں ہیں ہر ہر قدم کے ساتھ
ردیف یاے تحتانی
کچھ اے جنوں کدورت خاطر کو دھویئے
ہے اس بت کو میری خبر کچھ نہ کچھ
اس میکدے میں آنا ہے جس کو وہ آیئے
نسبت اے شاہ ہے کیا اسکو ترے دربان سے
دہن تنگ ہے خوشتر صدف نیسان سے
خوش رنگ تر ہے رخ ترا گلبرگ درد سے
گورے کی فوج کیا ترا رنگیں دوشالہ ہے
تخصیص کنشت و کعبہ کیا ہے
کسے ہے امن آفات جہاں سے
موا ہے جو یہاں پیدا ہوا ہے
وہ کوچۂ اغیار سے جب تک کہ نہ سر کے
داغ دل آئینہ ہے دیدۂ حیراں سے مرا
نہ ہوا غم میں ترے کار کچہری ہم سے
پایا ہے زندگی کا نہ میں نے مزا کبھی
رہ گئے واکیسے ہم محو نظارا ہو گئے
ایک وہ ہیں جو یہاں سے سوکرامت لے چلے
گاہے نہ ہوئی وہاں رسائی
حسرت نے جو تنگ دل کیا ہے
غم کھاتے کھاتے خاطر افسردہ مر گئی
کیا محض جان زار سراپا خراش ہے
گو یا شادی سے دلا ہے ہمہ عالم خالی
گوشۂ البتہ ہے اک میری بغل کا خالی
بوسۂ لب پہ خدا دیدے
سوز جگر کی شیب میں مئے خراب ہے
دل میں ہیں سوز شیں نفس زار سرد ہے
دنیاے دوں سے تجھ کو تمنا وفا کی ہے
روز نقشے نئے ہیں اس گھر کے
باہر ہے مرا چارہ مسیحا ترے بس سے
شان سفاکی میں کیا نسبت اسے چنگیز سے
خوش نہیں آتی کوئی بات مجھے
مجروح مرادل وجگر ہے
کب وہ بت شوخ مہربان ہے
کب مجھ کو اپنے رنج دردن سے فراغ ہے
زاہد نماز غیر حضوری حرام ہے
کیا نوجوانی اپنی الم میں گزر گئی
پیری میں میری بوے جوانی نہیں گئی
کب غمزدوں کو بازی طفلاں نصیب ہے
اس درد کی خبر نہ کسی آشنا کو ہے
زندگی میں نہ بر آئی کوئی حسرت میری
عمر سب غم میں ترے گزری ہے بیجا میری
اس بت کے غم سے بد وجوانی میں لٹ گئے
اس سے رہ جاے صد افسوس مرے پر خالی
کیوں نہ ہو حجم سخن کف میں قلم موجود ہے
اک دل سے فقط نہ داغ پائے
فکر دنیا ودیں جریب ہوئی
جس کی تری نگاہ کرم پر نگاہ ہے
ذرہ ذرہ سے نمودار ہے صنعت تیری
حق تعالیٰ تجھے دنیا میں سلامت رکھے
فقط مژہ سے نہ چھاتی مری فگار ہوئی
دنیا میں بیشتر غم واندوہ رنج ہے
فروغ چشم پر خونم کجائی
عرش وکرسی سے نمودار ہے عزت تیری
نہ بیکار آہ سحر جائیگی
دور ایام ہمیشہ جو ترا یار رہے
تیرے دیوانے ہیں آوارہ بیاباں میں کبھی
یارب کریم مہر کردے
خالق تجھے شاد کام رکھے
پیرو سنت حساب وجہاں سے پاک ہے
اے جان ترے فراق میں سونا حرام ہے
خالق تجھے کامیاب رکھے
کیا محض مجھ کو اک قدح مے حلال ہے
مردود ہے تجھ سے منہ جو موڑے
یا الٰہی ترا بد خواہ جو رنجور رہے
حجب ننگ صدارمان کہاں حائل نہ ہوے
پیری میں شوق دید بت بے حجاب ہے
دعا مانگنا تو مرا کام ہے
جو آپ کا محوخال وخد ہے
مدد میری وہ فضل یزداں کرے
طول امل جہاں میں سراپا فضول ہے
یارب نہ حد ہے میری خطا و گناہ کی
حسرت کا میرے جی کو نہایت ملا ل ہے
بے سبب کیوں ہوئے خفا مجھ سے
غم ہجر میں شب بسر ہو گئی
اقبال کا مآل ہمیشہ وبال ہے
ناپاکیاں ہیں دل میں جو بول اور بزار کی
آنکھ اپنی شب جو چشم فسوں گر سے لڑ گئی
کوئی ہے نیک خلق کوئی بد مزاج ہے
ہر چند میرے غم کا فسانہ دراز ہے
پہلے تو تجھ کو فرض ہے صحت نماز ہے
رقت انگیز ہے پیر ی میں کہانی میری
گور اپنی مجھ کو مصر کا بازار ہو گئی
کیا قدرت خدا کا جہاں میں ظہور ہے
جب سے تیر عشق کا یہ ناتواں نخچیر ہے
ابر نیساں سخن میرا بم افکار ہے
آمد فصل بہاری ہے جنوں کا جوش ہے
حسن اس نے جب دیا بت رعنا کے واسطے
کچھ ضرورت سقف کعبہ کو نہ تھی میزاب کی
تو ڑ کھائے نہ مجھے بھول کے بوٹی تیری
کیا سوز نصیبہ ہوا ہے دور فلک سے
کب مجھے فکر سخن میں ناکام کچھھ منظور ہے
کسی بت کو جو دیکھا تھا میں نے فدا مرے ہوش رہے نہ حواس رہے
تازہ ہے مری روح ترے صدمۂ غم سے
بت کافر بیدین براے خدا کوئی بوسہ دہن کا دلادے مجھے
سہتے سہتے ظلم بیجا گو کہ ہم مرجائیں گے
شب مری بزم بتاں میں کیا رسائی ہو گئی
ظلمت خجل ہے زلف کے بالوں کے سامنے
مری جان خزیں کس نے فنا کی
عقل جنوں زدہ مری ناصح کہاں گئی
شیب میں زندگی وبال ہوئی
غصہ وغم سے جہاں میں ہر بشر مجبور ہے
خدا کا کرم ابر مدرا رہے
صحت ہو جس سے ایسی موثر دوا ملے
تو دوستوں کے ساتھ جو ایسا بخیل ہے
ہر شعر تر ستایش رب جلیل ہے
مجھ سا کوئی ماتم زدہ ناکام نہیں ہے
دود جگر سے روشنی ہے تیرہ ماہ کی
سب عمر اپنی وار پہ جو تونے وار کی
خدایا تیرا باب فضل واہے
کہاں تک بھلا صبر آئے مجھے
نہ پوچھو مجھ سے کچھ درودردن کو کچھ افاقا ہے
سہارا ترا باخدا ہے مجھے
کیا مرتبہ فقر نے دیا ہے
رنج جو ہجر میں پایا مرا جی جانتا ہے
مٹھا یا ملائی ہے یا دود ہے
گو کاٹنا پہاڑ کا آسان کام ہے
حیران طبیب دیکھ کر آزار ہوگئے
کیا کیا قلق کا صدمہ نہ ہر صبح وشام ہے
دنیا سے جو ایسی لو لگی ہے
معدوم محض کل سے جو موجود آج ہے
عدو میری غیبت سے بدنام ہے
عین انصاف ہر آئینہ ہے عادت تیری
پیوستہ تجھ پہ فضل خدا اے خدا رہے
دل کو فدا ہجوم قلق میں سنبھالیے
شکوہ اس بت کا عبث ہے کہ جلایا ہے مجھے
سینہ بہار زخم سے ہمرنگ باغ ہے
انعام رب کی شکر گزاری محال ہے
لطف تمام عالم آباد گرد ہے
منہ میں مرے قند گھل گیا ہے
اک وہ ہیں جن کے دوست پری وش قریب ہے
طبیعت جو محو خدا ہو گئی
حیرت سے کیا زبان میر لال ہو گئی
نہ پاس اپنے جب تک سلائے مجھے
دنیا میں مجھ کو فکر معیشت حرام ہے
ہنگامۂ نشور مقرر قیام ہے
صد گونہ جس سے رشک ہزار چمن کو ہے
تن پروروں کو کیا مرے دیوان سے کام ہے
قوی میں قوت جسم میں طاقت جان میں حلاوت نہیں رہی
غیرت شمیم خط سے نسیم ختن کو ہے
سوز غم فراق میں کیا مجھ کو تاب ہے
اوقات تلخ میری بھی غم میں گزر گئی
کیا جوش سیل گریۂ چشم پر آب ہے
کیونکر کہوں کہ کار عدالت خراب ہے
عمر اپنی ساری راہ طلب میں گزر گئی
تو خوب اے پری ہے تری ذات خوب ہے
دنیا مری نظر میں بحال تباہ ہے
حسرت درون دل مری محبوس رہ گئی
اے بت خدا شفا دے کلیجے کی ریم سے
نسبت ہے وصل کو ترے باغ نعیم سے
دل میں مرے آبلے بھرے ہیں
کیجے دریغ زہر نہ جان لئیم سے
وہ خوان قند حسن جو اسکی بغل میں ہے
ناکامیوں سے عیش جوانی خلل میں ہے
آفت بہت ہے سانولاپن گورے رنگ سے
اے جان ترے قریب سرنام وننگ سے
مشکل ہے زیست اب ترے غم کے فراق سے
کچھ رنج کی میرے انتہا ہے
کوندی جو بجلی عرش معلیٰ سے نور کی
اس غیرت چمن کی سواری گزر گئی
بندہ جو قرب حضرت حق سے بعید ہے
بلبل قباے غنچۂ گل تار تار ہے
صدمہ قلق کا دلکو مرے بار بار ہے
سب ترے فضل و کرم سے ہے فضیلت میری
یارب ترا شکر برزبان ہے
کھڑا ہو جانا بہر رقص تیرا گویا آفت ہے
تقریظ دیوان ہذا ریختۂ قلم جواہر منشی محمد عبد العزیز صاحب۔۔۔
قطعات تاریخ از فکر منشی عبد الرحیم متوطن ڈبائی ۔۔۔۔
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔