سرورق
ہر اک تصویر میں جلوہ عیاں ہے رنگ قدرت کا
ہوا ہے جب سے دل شیدا تمہارے قد و قامت کا
در گزر میرے گناہوں سے برائے مصطفی
کیا ترقی پر ہے حسن باکمال مصطفی
عیسی سے ملتجی نہ ہو بیمار مصطفیٰ
اس قدر نہیں خدا ہے احترام مصطفیٰ
گرچہ طاہر میں ہوا آخر ظہور مصطفیٰ
کرتے ہیں در پر دہ نطارہ تری تنویر کا
عرش اعظم سے ہے بڑھ کر آستان مصطفیٰ
واہ کیا روشن کھنچا نقشا بت بے پیر کا
عشق زاہد کو رخ رشک قمر کا نہ ہوا
جنوں میں بستۂ زنجیر پیچتاب ہوا
امسال اس سے جوش جنوں کا سوا ہوا
ہوں وہ گریاں جوش غم سے حال دل ابتر ہوا
پوچھو سب نہ زلف کی رخت سیاہ کا
دل ہمارا تھا اب انکا ہو گیا
عشق کی دولت سے مالامال ایسا ہو گیا
بعد مردن بھی اثر یہ ہے دل صد چاک کا
دلا تلوار کھینچ آج وہ ابر و کمان آیا
برق شعلہ ہے اگر آہ دل بیتاب کا
ہو گیا کج بخت جب سے محو ابرو ہو گیا
پر سوز ہے یہ داغ جنوں زامرے دل کا
نظر آیا جو عالم باغ میں بے یار مقتل کا
پہلو میں جو وہ شوخ ستمگر نہیں ہوتا
دانت ٹوٹی سر ہلا ضعف بصر ہونے لگا
بے رنگ پیش یار یہ رنگ چمن ہوا
ڈھونڈھنے جس کو اک جہاں نکلا
دیکھا جب خط شعاعی خط دلبر سمجھا
عجب حسرت سے پانی مانگتے ہیں تیغ قاتل کا
بے اضطراب کچھ دل ناکام ہو گیا
جوش اشک سے آنکھوں کو خطر کیا ہوگا
جو وہ مسیح زمان برسر عتاب رہا
مجھ رند کو آنے لگا پیغام اجل کا
سمجھے ہم مست جو ساقی پری زاد آیا
کب مرے گھر میں اکیلا وہ پری زاد آیا
بوسۂ رخ نہ سردست اگر مل جاتا
ہے نقش پا سے تری عزت و وقار عرب
یوں کوے زلف میں ہے دل عاشقاں خراب
ردیف ب
ایک حسرت بھی نہ نکلی دل کی اور گزرا شباب
مضطرب عضو ہیں سب ہی جو مرا دل بیتاب
کیا تھا جو چلے آئے یکایک مرے گھر آپ
ہے ضیا افگن جو مہر روے دوست
وعدے پہ نہ آیا جو بت رشک قمر رات
کر دیتی ہے کانٹا خلش خار محبت
نکاہ کرتا ہوں میں روے یار پر بے لوث
نہ شگفتہ ہوا وہ غنچہ دہن کیا باعث
تھا حال تپ غم سے مرا نوحہ گر آج
کرتا ہے وحشیوں سے نئے بار بار پیچ
خار غم نے جو خلش کے تری مژگاں کی طرح
اس چمن میں رہ سدا اہل توکل کی طرح
مجھ سے الجھو نہ شب وصل میں گیسو کیطرح
دشمن جانی ہوے وہ جن سے تھا آرام روح
مجھ سے ٹیڑھے رہیں کیونکر نہ ہو ابرو کی طرح
پایا سوال بوسۂ لب پر جواب تلخ
خورشید ہی عکس رخ تابان محمد
نور سحر خلد ہے گر روے محمد
کروں فراق میں کیونکر میں ناتواں فریاد
ہو گیا صرف خط یار میں اتنا کاغذ
زندگی بھر نہ گیا زلف کا سودا ہو کر
چاہیے آج پئے نامۂ جاناں کاغذ
کیا ہوا دل آگیا مژگان چشم یار پر
پوچھتے ہو نام میرا جان کر
پڑتی ہے آنکھ حسن رخ دل پذیر
نہ کرے لاف زنی اسکی مقابل ہو کر
رہتی ہے باغ کوچۂ دلدار کی تلاش
نظر آیا نہ کبھی جلوۂ قامت افسوس
اس شاہ حسن کا مجھے کیونکر نہ بھائے ناز
خط مشکیں سے ہوا کم نہ وقار عارض
دل میں کرتا ہے اثر طرز بیان واعظ
صبح ہو جاے جو دیکھے وہ رخ پرنور شمع
ڈر ہے کہیں نہ طائر دل کو پھنسائے زلف
لائیگی اس بت کافر پہ نہ ایمان کب تک
بے تری نعل در آتش ہو نکیونکر محفل
رخسار پہ چھوڑی نہیں اے رشک قمر بال
ہزار وہ گل عارض ہیں پیار کے قابل
صلح میں آنکھ لڑاتا ہے گنہگاری دل
روئیں جو فرقت بت بیداد گر میں ہم
بنکے سودائی گئے حسن کے بازار میں ہم
ناصح کی طرح سے ترے دشمن تو نہیں ہم
شہیدوں میں رتبے انہیں کے بڑے ہیں
جب کبھی محفل رنداں میں جناب آتے ہیں
شباب اس واسطے زاہد بسر کرتے ہیں طاعت میں
کوئی بھی تجھ سا نہیں زنہار قیصر باغ میں
مجتمع ہیں دید کے بیمار قیصر باغ میں
سو نہ غافل ہو کے تو اس عالم پرشور میں
جلوہ گر ہے زلف قرب عارض پرنور میں
تیرے سے نزاکت نہیں شاخ گل تر میں
ریاض بزم میں جلوہ فگن سلطان عالم ہیں
تپ ہجراں سے مجھ کو یہ عشق پیہم جو آتے ہیں
نہ کیوں بڑھ جاے رنج خاطر ناشاد ساون میں
کیا تعجب ہے جو اس بت کی کمر ملتی نہیں
آشیانے کی تو صورت بھی نہیں یاد ہمیں
سواے عفو گنہ پر مری نگاہ نہیں
میکشو کب آفتاب مے ضیا افگن نہیں
گل پہ گل عشق گل میں کہاتے ہیں
ترے نظارے کی حسرت میں اے گلرو نکلتے ہیں
عارض پرنور پر مجھ کو یار دکھلاتا نہیں
حسرت دید میں اس درجہ ہوئیں وا آنکھیں
غفلت کی نہ نیند آئے کبھی ہجر بتاں میں
آفت عشق میں کرتی ہیں گرفتار آنکھیں
پہلے تھے صاف صبح حلب اے قمر جبیں
غیرت شمس و قمر آپ کے رخسارے ہیں
فراق اختر مہرو میں دن بھر تلملاتے ہیں
مشتعل آتش الفت کو جو میں پاتا ہوں
داغ جنوں عیاں ہیں مرے جسم زار میں
دم نغمہ جو حضرت لحن داؤدی سناتے ہیں
کانٹے ہر اک قدم پہ الجھتے ہیں راہ میں
لطف نو پائی مری خاک نے بربادی میں
جب نہ تب مجھ پہ کیا کرتے ہیں بیداد آنکھیں
ظلم میں چشم فلک کے بھی ہیں استاد آنکھیں
عشق خط سبز نے مارا دل بیتاب کو
زعصیاں اگر انبار اخثنی یا رسول اللہ
عارضی حسن بہ مائل یہ دل زار نہ ہو
ہاتھا پائی میں کڑی پڑنے لگی یار کے ہاتھ
آلودگی سوا ہوئی اپنی شراب سے
وہ حسن صبیح رخ باصفا ہے
بیتابیاں نہ پوچھ انتظار کے
جیتے جی گردش میں رکھا گردش افلاک نے
بجز رنج یہاں راحت دل نہیں ہے
قسمت میں تھی نہ سیر چمن ایک بار بھی
بیوجہ مجھ سے ملنے میں کب ان کو عار ہے
پیری میں عشق چھوڑ دن آئے خضاب کے
دل سے کوہ الم عشق بتاں دور رہے
دعائے خیر کروں گا عدو جاں کے لئے
ملتی نہیں وہ فکر میں ہم ہیں پڑے ہوئے
مانع نظارہ زلف یار ہے
جام کی لب پر بھی گفتار ہے
مر کے یہ تبہ بلا تاثیر عشق پاک سے
پھرتے وہ اوروں کو رنگ حسن دکھلاتے ہوئے
شغل رونیکا جو عشق عارض و گیسو میں ہے
کیا کیا خزاں میں جھیلے ہیں صدمے خمار کے
برا کہو نہ مجھے غیر بدبلا کے لئے
صاف ہونا تو بخیر ایسی وہ بیزار ہوئے
اک دن نہ منہ چڑ نامژۂ اشکبار کے
جا وپجا کا خیال آے بت بد ذات رہے
صدمۂ ہجر سے اب تو ہے یہ حالت اپنی
گریۂ ہجر نے اس درجہ کیا زار مجھے
یہ خاک ہو کرے خاکسارے تمہارے اس خاکسار میں ہے
نہ آئی فرقت عیسی نفس میں تاب مجھے
پٹی آنکھوں میں جو اے ترک نہ حائل ہوتے
جھکاتی ہے کنوئیں الفت جو اک زہرہ شمائل کی
نہیں برسوں دکھاتا شکل میرے ماہ کامل کے
خار خط کا حسن آنکھوں کو دکھایا چاہیے
اک جہاں مشتاق ہے صورت دکھایا چاہیے
ربط یاد خط عارض سے بڑھایا چاہیے
دیدہ دل میں خیال آٹھ پہر کس کا ہے
نزع میں درد لب ایجان جو تیرا نام رہے
آج کل بزم تصور میں گزر کس کا ہے
یہ کی فرقت میں آرایش فلک نے خانۂ غم کی
کرتی ہے قتل وصل کی ردو بدل مجھے
ہوا تصویر رنج ہجر سے میں جسم بیدم کے
دیدۂ باطن کو واکر دید اگر منظور ہے
جلوہ گر دل میں خیال عارض پرنور ہے
کیا جلد فصل عیش جوانی گزر گئے
فرقت میں تن سے روح مری کوچ کر گئی
ہو گئی کیا کشتہ رخسار قاتل چاندنی
مرغ دل حلقہ گیسوے سیہ فام میں ہے
دم خفا زیست سے ہجر بت گلفام میں ہے
برہم و درھم ہمارا حال ہے
ہر اک کہتا ہے جب سے زیور گل تم نے پہنا ہے
کہتا ہے جو تجھ کو دیکھتا ہے
کبر کس بات پہ تم کرتے ہو غرہ کیا ہے
جب لب معشوق انکی تیر مژگاں ہوگئے
تیرہ بختی سے مری رنگ مبدل ہو جاے
یاد کرتا ہوں پیری میں جوانی آپنے
مسیح وقت توجہ ذرا نہیں کرتے
شوق ہے پھر تیری ابرو کا نظارہ کیجئے
عیاشوں کی نشۂ بری تھی اتر گئے
امید قتل یہ امیدوار کہتا ہے
باڑہ پر اب ہی یم اشک کا ایسا پانے
کیا ہی او شعلہ رو جلایا ہے
متفرقات
مشہور بیخود اسلئے یہ خود پرست ہے
قطعات تواریخ
قطعہ تاریخ تولد شاہزادہ قمر قد میرزا محمد عابد علی بہادر
نور چشم شہ دوراں کی مبارک ہو چھٹی
بہتر چمن خلد سے ہے صحبت نوروز
ہوا طبع واسوخت معجز کا آج
واہ کیا حسن ملا اے شہ شاہاں تم کو
مطبوع شدہ کلام مقبول
چھپا ہے کلام فصیح قبول
چھپا جب یہ واسوخت معجز کا بیخود
کہتے ہیں واسوخت معجز کا چھپا
افسوس اس سرا سے ہوا عازم عدم
افسوس ہے کہ حضرت خواجہ وزیر آج
زوہر رفت چو استاد من جناب وزیر
کیا خوب ہوا طبع یہ دیوان لطیف
چورفت روجہ شیخ زمان نثار علی
مسدس
مخمس نعتیہ
مخمس برغزل احسنا
خمسہ برغزل حضرت قدر قدرت سلطان عالم
خمہ برغزل خواجہ وزیر مغفور وزیر
خمسہ غزل خواجہ وزیر مغفور وزیر
خمسہ برغزل معجز
قصائد منظومہ ، حضرت امجد علی شاہ جنت مکاں
قصیدہ در مدح بادشاہ سلیمان جاہ حضرت سلطان عالم محمد واجد علی شاہ
بیان شجاعت
بیان جودت طبع و ایجاد جدید رہبر
بیان کمال علم موسیقی
بیان سخاوت
قصیدہ مدح بادشاہ سلیمان جاہ حضرت سلطان عالم واجد علی شاہ
قصیدہ در مدح بادشاہ سلیمان جاہ حضرت سلطان عالم محمد واجد علی شاہ
مثنویٔ جلوۂ اختر
قطعۂ مدحت امیر علی خان لمصنفہ
تاریخ خاتمہ مثنوی تصنیف میر علی خان ہلال
قطعۂ تاریخ خاتمہ مثنوی تصنیف شیخ اشرف علی اشرف
قطعۂ مدحت شیخ اشرف علی خوشنویس لمصنفہ
خاتمۃ الطبع
AUTHORSayad Hadi Ali Bekhud
YEAR1874
CONTRIBUTORAnjuman Taraqqi Urdu (Hind), Delhi
PUBLISHER Matba Karnama, Lucknow
AUTHORSayad Hadi Ali Bekhud
YEAR1874
CONTRIBUTORAnjuman Taraqqi Urdu (Hind), Delhi
PUBLISHER Matba Karnama, Lucknow
سرورق
ہر اک تصویر میں جلوہ عیاں ہے رنگ قدرت کا
ہوا ہے جب سے دل شیدا تمہارے قد و قامت کا
در گزر میرے گناہوں سے برائے مصطفی
کیا ترقی پر ہے حسن باکمال مصطفی
عیسی سے ملتجی نہ ہو بیمار مصطفیٰ
اس قدر نہیں خدا ہے احترام مصطفیٰ
گرچہ طاہر میں ہوا آخر ظہور مصطفیٰ
کرتے ہیں در پر دہ نطارہ تری تنویر کا
عرش اعظم سے ہے بڑھ کر آستان مصطفیٰ
واہ کیا روشن کھنچا نقشا بت بے پیر کا
عشق زاہد کو رخ رشک قمر کا نہ ہوا
جنوں میں بستۂ زنجیر پیچتاب ہوا
امسال اس سے جوش جنوں کا سوا ہوا
ہوں وہ گریاں جوش غم سے حال دل ابتر ہوا
پوچھو سب نہ زلف کی رخت سیاہ کا
دل ہمارا تھا اب انکا ہو گیا
عشق کی دولت سے مالامال ایسا ہو گیا
بعد مردن بھی اثر یہ ہے دل صد چاک کا
دلا تلوار کھینچ آج وہ ابر و کمان آیا
برق شعلہ ہے اگر آہ دل بیتاب کا
ہو گیا کج بخت جب سے محو ابرو ہو گیا
پر سوز ہے یہ داغ جنوں زامرے دل کا
نظر آیا جو عالم باغ میں بے یار مقتل کا
پہلو میں جو وہ شوخ ستمگر نہیں ہوتا
دانت ٹوٹی سر ہلا ضعف بصر ہونے لگا
بے رنگ پیش یار یہ رنگ چمن ہوا
ڈھونڈھنے جس کو اک جہاں نکلا
دیکھا جب خط شعاعی خط دلبر سمجھا
عجب حسرت سے پانی مانگتے ہیں تیغ قاتل کا
بے اضطراب کچھ دل ناکام ہو گیا
جوش اشک سے آنکھوں کو خطر کیا ہوگا
جو وہ مسیح زمان برسر عتاب رہا
مجھ رند کو آنے لگا پیغام اجل کا
سمجھے ہم مست جو ساقی پری زاد آیا
کب مرے گھر میں اکیلا وہ پری زاد آیا
بوسۂ رخ نہ سردست اگر مل جاتا
ہے نقش پا سے تری عزت و وقار عرب
یوں کوے زلف میں ہے دل عاشقاں خراب
ردیف ب
ایک حسرت بھی نہ نکلی دل کی اور گزرا شباب
مضطرب عضو ہیں سب ہی جو مرا دل بیتاب
کیا تھا جو چلے آئے یکایک مرے گھر آپ
ہے ضیا افگن جو مہر روے دوست
وعدے پہ نہ آیا جو بت رشک قمر رات
کر دیتی ہے کانٹا خلش خار محبت
نکاہ کرتا ہوں میں روے یار پر بے لوث
نہ شگفتہ ہوا وہ غنچہ دہن کیا باعث
تھا حال تپ غم سے مرا نوحہ گر آج
کرتا ہے وحشیوں سے نئے بار بار پیچ
خار غم نے جو خلش کے تری مژگاں کی طرح
اس چمن میں رہ سدا اہل توکل کی طرح
مجھ سے الجھو نہ شب وصل میں گیسو کیطرح
دشمن جانی ہوے وہ جن سے تھا آرام روح
مجھ سے ٹیڑھے رہیں کیونکر نہ ہو ابرو کی طرح
پایا سوال بوسۂ لب پر جواب تلخ
خورشید ہی عکس رخ تابان محمد
نور سحر خلد ہے گر روے محمد
کروں فراق میں کیونکر میں ناتواں فریاد
ہو گیا صرف خط یار میں اتنا کاغذ
زندگی بھر نہ گیا زلف کا سودا ہو کر
چاہیے آج پئے نامۂ جاناں کاغذ
کیا ہوا دل آگیا مژگان چشم یار پر
پوچھتے ہو نام میرا جان کر
پڑتی ہے آنکھ حسن رخ دل پذیر
نہ کرے لاف زنی اسکی مقابل ہو کر
رہتی ہے باغ کوچۂ دلدار کی تلاش
نظر آیا نہ کبھی جلوۂ قامت افسوس
اس شاہ حسن کا مجھے کیونکر نہ بھائے ناز
خط مشکیں سے ہوا کم نہ وقار عارض
دل میں کرتا ہے اثر طرز بیان واعظ
صبح ہو جاے جو دیکھے وہ رخ پرنور شمع
ڈر ہے کہیں نہ طائر دل کو پھنسائے زلف
لائیگی اس بت کافر پہ نہ ایمان کب تک
بے تری نعل در آتش ہو نکیونکر محفل
رخسار پہ چھوڑی نہیں اے رشک قمر بال
ہزار وہ گل عارض ہیں پیار کے قابل
صلح میں آنکھ لڑاتا ہے گنہگاری دل
روئیں جو فرقت بت بیداد گر میں ہم
بنکے سودائی گئے حسن کے بازار میں ہم
ناصح کی طرح سے ترے دشمن تو نہیں ہم
شہیدوں میں رتبے انہیں کے بڑے ہیں
جب کبھی محفل رنداں میں جناب آتے ہیں
شباب اس واسطے زاہد بسر کرتے ہیں طاعت میں
کوئی بھی تجھ سا نہیں زنہار قیصر باغ میں
مجتمع ہیں دید کے بیمار قیصر باغ میں
سو نہ غافل ہو کے تو اس عالم پرشور میں
جلوہ گر ہے زلف قرب عارض پرنور میں
تیرے سے نزاکت نہیں شاخ گل تر میں
ریاض بزم میں جلوہ فگن سلطان عالم ہیں
تپ ہجراں سے مجھ کو یہ عشق پیہم جو آتے ہیں
نہ کیوں بڑھ جاے رنج خاطر ناشاد ساون میں
کیا تعجب ہے جو اس بت کی کمر ملتی نہیں
آشیانے کی تو صورت بھی نہیں یاد ہمیں
سواے عفو گنہ پر مری نگاہ نہیں
میکشو کب آفتاب مے ضیا افگن نہیں
گل پہ گل عشق گل میں کہاتے ہیں
ترے نظارے کی حسرت میں اے گلرو نکلتے ہیں
عارض پرنور پر مجھ کو یار دکھلاتا نہیں
حسرت دید میں اس درجہ ہوئیں وا آنکھیں
غفلت کی نہ نیند آئے کبھی ہجر بتاں میں
آفت عشق میں کرتی ہیں گرفتار آنکھیں
پہلے تھے صاف صبح حلب اے قمر جبیں
غیرت شمس و قمر آپ کے رخسارے ہیں
فراق اختر مہرو میں دن بھر تلملاتے ہیں
مشتعل آتش الفت کو جو میں پاتا ہوں
داغ جنوں عیاں ہیں مرے جسم زار میں
دم نغمہ جو حضرت لحن داؤدی سناتے ہیں
کانٹے ہر اک قدم پہ الجھتے ہیں راہ میں
لطف نو پائی مری خاک نے بربادی میں
جب نہ تب مجھ پہ کیا کرتے ہیں بیداد آنکھیں
ظلم میں چشم فلک کے بھی ہیں استاد آنکھیں
عشق خط سبز نے مارا دل بیتاب کو
زعصیاں اگر انبار اخثنی یا رسول اللہ
عارضی حسن بہ مائل یہ دل زار نہ ہو
ہاتھا پائی میں کڑی پڑنے لگی یار کے ہاتھ
آلودگی سوا ہوئی اپنی شراب سے
وہ حسن صبیح رخ باصفا ہے
بیتابیاں نہ پوچھ انتظار کے
جیتے جی گردش میں رکھا گردش افلاک نے
بجز رنج یہاں راحت دل نہیں ہے
قسمت میں تھی نہ سیر چمن ایک بار بھی
بیوجہ مجھ سے ملنے میں کب ان کو عار ہے
پیری میں عشق چھوڑ دن آئے خضاب کے
دل سے کوہ الم عشق بتاں دور رہے
دعائے خیر کروں گا عدو جاں کے لئے
ملتی نہیں وہ فکر میں ہم ہیں پڑے ہوئے
مانع نظارہ زلف یار ہے
جام کی لب پر بھی گفتار ہے
مر کے یہ تبہ بلا تاثیر عشق پاک سے
پھرتے وہ اوروں کو رنگ حسن دکھلاتے ہوئے
شغل رونیکا جو عشق عارض و گیسو میں ہے
کیا کیا خزاں میں جھیلے ہیں صدمے خمار کے
برا کہو نہ مجھے غیر بدبلا کے لئے
صاف ہونا تو بخیر ایسی وہ بیزار ہوئے
اک دن نہ منہ چڑ نامژۂ اشکبار کے
جا وپجا کا خیال آے بت بد ذات رہے
صدمۂ ہجر سے اب تو ہے یہ حالت اپنی
گریۂ ہجر نے اس درجہ کیا زار مجھے
یہ خاک ہو کرے خاکسارے تمہارے اس خاکسار میں ہے
نہ آئی فرقت عیسی نفس میں تاب مجھے
پٹی آنکھوں میں جو اے ترک نہ حائل ہوتے
جھکاتی ہے کنوئیں الفت جو اک زہرہ شمائل کی
نہیں برسوں دکھاتا شکل میرے ماہ کامل کے
خار خط کا حسن آنکھوں کو دکھایا چاہیے
اک جہاں مشتاق ہے صورت دکھایا چاہیے
ربط یاد خط عارض سے بڑھایا چاہیے
دیدہ دل میں خیال آٹھ پہر کس کا ہے
نزع میں درد لب ایجان جو تیرا نام رہے
آج کل بزم تصور میں گزر کس کا ہے
یہ کی فرقت میں آرایش فلک نے خانۂ غم کی
کرتی ہے قتل وصل کی ردو بدل مجھے
ہوا تصویر رنج ہجر سے میں جسم بیدم کے
دیدۂ باطن کو واکر دید اگر منظور ہے
جلوہ گر دل میں خیال عارض پرنور ہے
کیا جلد فصل عیش جوانی گزر گئے
فرقت میں تن سے روح مری کوچ کر گئی
ہو گئی کیا کشتہ رخسار قاتل چاندنی
مرغ دل حلقہ گیسوے سیہ فام میں ہے
دم خفا زیست سے ہجر بت گلفام میں ہے
برہم و درھم ہمارا حال ہے
ہر اک کہتا ہے جب سے زیور گل تم نے پہنا ہے
کہتا ہے جو تجھ کو دیکھتا ہے
کبر کس بات پہ تم کرتے ہو غرہ کیا ہے
جب لب معشوق انکی تیر مژگاں ہوگئے
تیرہ بختی سے مری رنگ مبدل ہو جاے
یاد کرتا ہوں پیری میں جوانی آپنے
مسیح وقت توجہ ذرا نہیں کرتے
شوق ہے پھر تیری ابرو کا نظارہ کیجئے
عیاشوں کی نشۂ بری تھی اتر گئے
امید قتل یہ امیدوار کہتا ہے
باڑہ پر اب ہی یم اشک کا ایسا پانے
کیا ہی او شعلہ رو جلایا ہے
متفرقات
مشہور بیخود اسلئے یہ خود پرست ہے
قطعات تواریخ
قطعہ تاریخ تولد شاہزادہ قمر قد میرزا محمد عابد علی بہادر
نور چشم شہ دوراں کی مبارک ہو چھٹی
بہتر چمن خلد سے ہے صحبت نوروز
ہوا طبع واسوخت معجز کا آج
واہ کیا حسن ملا اے شہ شاہاں تم کو
مطبوع شدہ کلام مقبول
چھپا ہے کلام فصیح قبول
چھپا جب یہ واسوخت معجز کا بیخود
کہتے ہیں واسوخت معجز کا چھپا
افسوس اس سرا سے ہوا عازم عدم
افسوس ہے کہ حضرت خواجہ وزیر آج
زوہر رفت چو استاد من جناب وزیر
کیا خوب ہوا طبع یہ دیوان لطیف
چورفت روجہ شیخ زمان نثار علی
مسدس
مخمس نعتیہ
مخمس برغزل احسنا
خمسہ برغزل حضرت قدر قدرت سلطان عالم
خمہ برغزل خواجہ وزیر مغفور وزیر
خمسہ غزل خواجہ وزیر مغفور وزیر
خمسہ برغزل معجز
قصائد منظومہ ، حضرت امجد علی شاہ جنت مکاں
قصیدہ در مدح بادشاہ سلیمان جاہ حضرت سلطان عالم محمد واجد علی شاہ
بیان شجاعت
بیان جودت طبع و ایجاد جدید رہبر
بیان کمال علم موسیقی
بیان سخاوت
قصیدہ مدح بادشاہ سلیمان جاہ حضرت سلطان عالم واجد علی شاہ
قصیدہ در مدح بادشاہ سلیمان جاہ حضرت سلطان عالم محمد واجد علی شاہ
مثنویٔ جلوۂ اختر
قطعۂ مدحت امیر علی خان لمصنفہ
تاریخ خاتمہ مثنوی تصنیف میر علی خان ہلال
قطعۂ تاریخ خاتمہ مثنوی تصنیف شیخ اشرف علی اشرف
قطعۂ مدحت شیخ اشرف علی خوشنویس لمصنفہ
خاتمۃ الطبع
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.