سرورق
اللہ رے اثر حمد الٰہی کی رقم کا
ردیف الف
جب سے دل اپنا ہوا والہ وشیدا تیرا
تو جو کونین کا سردار ہوا
ہر وقت تڑپنا ہے اب کام مرے دل کا
کیا کیجئے بس میں دل شیدا نہیں رہتا
کرتا ہوں بار بار جو ذکر اضطراب کا
گو وہ نہیں خیال تو اس کا مکیں ہوا
یہ غضب ہے اے ستمگر کہ ہر اک کو مار کہنا
ہر دل میں غم عشق نہاں ہو نہیں سکتا
لوٹنا دل کا تجھے مد نظر تھا کہ نہ تھا
یاس ہوتی کبھی دل میں کبھی ارمان ہوتا
جلوۂ ہوش ربا رشک قمر دیکھ لیا
تمہیں قسم ہے تغافل نہ اس قدر کرنا
عشق میں دل نے کوئی کام ہی کرنے نہ دیا
تو تڑپ کر ہاے رسوا ہو گیا
آپ کے اعتبار نے مارا
ادھر گئے وہ ادھر دم مرا روانہ ہوا
کب وہ دل کو نگہ ناز سے مارا نہ گیا
مجھے یاد ہے ڈرتے جانا کسی کا
کوئی عاشق جہاں میں ہو کس کا
کب ارمان ترا دل سے اے یار نکلا
دوستی کا لطف اے بیداد گر جاتا رہا
کام یہ حسب مدعا نہ ہوا
نہ مجھ سے جیتے جی بیزار رہنا
دیر کس واسطے کی قتل اگر کرنا تھا
بعد مرنے کےکرے کیوں کوئی ماتم اپنا
میرے مرنے کا اسے غم ہو چکا
اس کو دل میں بھی جو رکھا نہ رہا
تمہاری چاہ سے حاصل نچاہوگے تو کیا ہوگا
طرز ناز و ادا کو چھوڑ دیا
غیر کا رشک عذاب شب ہجراں دیکھا
کبھی کچھ خوشی کچھ کبھی غم رہا
خدا کرے کہ برا ہو شکستہ پائی کا
شب ہجراں کا ڈر نہ جائیگا
ستم روزگار کو دیکھا
زندگی میں تو نہ آیا پس مردن آیا
ہوا کب وہ بت پر فن ہمارا
روبرو جب وہ بت آئینہ سیما ہوتا
رنج دل سے ترا نہیں جاتا
مرے گھر آؤگے اس طرح مہمان میں نہ سمجھا تھا
کر دیا لیتے ہی دل تو نے بت کافر خراب
ردیف البائے موحدہ
آئینہ پر تری نظر ہے اب
مجھ کو رہتا ہے شب فرقت میں کیا کیا اضطراب
ردیف الباے فارسی
شکل آئینہ کو دکھائیں آپ
ردیف التاے فوقانی
کب ان کے آگے قول ہمارا ہوا درست
کبھی خزاں کی کبھی ہے بہار کی صورت
ہوگا کبھی نصیب بھی مجھ کو وصال دوست
ردیف التاے ہندی
آج کر لیجے کوئی وصل کا پیماں جھٹ پٹ
ردیف الثاے مثلثلہ
دل ہوا اپنا داغدار عبث
کب میرے دل سے دور ہے تشویش فکر سوچ
ردیف الجیم عربی
ردیف الجیم فارسی
ایک حالت پر نہیں اس کا مزاج
ردیف الحاے مہملہ
ہوتی نہیں جو ہجر کی شب آشکار صبح
ردیف الخاے معجمہ
کس قدر ہے تری طبیعت شوخ
کرے کیا کوئی وصف شان محمد
وہ سنبھالیں تیغ کو کس واسطے خنجر کے بعد
ردیف الذال معجمہ
لگاؤں کیون نہ آنکھوں سے تری تحریر کا کاغذ
ہمیشہ ٹوٹ پڑتا ہے فلک الفت کے ماروں پر
ردیف الراے مہملہ
بے ترے ہم بسر کریں کیونکر
نہیں قابو مرا طبیعت پر
دل میں عشاق کے رہتے ہیں وہ کیا کیا ہوکر
ہم نے دیا تھا دل تجھے دلدار دیکھ کر
ردیف الزائے معجمہ
نہ ہو افسردہ اپنا دل داغدار ہر گز
ردیف السین مہملہ
حسرت دیدار اگر لے بھی گئی چلمن کے پاس
وہ کچھ ہوتے چلے نام خدا خوش
ان سے ہم کرتے ہیں اگر اخوت
ردیف الصاد مہملہ
ردیف الضاد معجمہ
انکار سے غرض نہیں پیماں سے کیا غرض
آشنا کو ہے آشنائی شرط
ردیف الطاے مہملہ
وصل میں بھی تو نہیں جاتا لحاظ
ردیف الظاے معجمہ
ہیں مرے دل میں لاکھوں ارمان جمع
ردیف العین مہملہ
مرے دل میں فقط خالی نہیں داغ
ردیف الغین معجمہ
ردیف الفا
خط تمہارا صاف ہے تحریر صاف
ردیف القاف
کہتا ہوں بات بات پہ میں ماجراے شوق
مرے دل میں ارمان سمائیں کہاں تک
ردیف الکاف فارسی
ردیف الکاف تازی
تو نے کیا ہے ذبح جو قاتل الگ الگ
ہر اک کو دے خدا بے مدعا دل
ردیف اللام
رنج سے فرقت کے جب گھبراے دل
ایسے جلے ہیں عشق میں سوز نہاں سے ہم
ردیف المیم
ردیف النون
کبھی وہ وعدہ کرتے ہیں کبھی انکار کرتے ہیں
زاہد جو وجد میں ہے تو صوفی ہے حال میں
پھر نجائے تری نگاہ کہیں
عاشقی میں خراب ہم بھی ہیں
اسیر رنج و مصیبت وہ کون ہے میں ہوں
تجھے ہم جب اے فتنہ گر دیکھتے ہیں
میں اپنے دل کی حقیقت کہوں تو کس سے کہوں
دل سے زیادہ انکا کوئی راز داں نہیں
آئینہ میں نگاہ کرتے ہیں
سیکڑوں دل کے طلبگار چلے آگے ہیں
مٹ چکے ہم لذت بیداد میں
دل میں رہتے ہیں کب
ترا جمال جو اے گلعذار دیکھتے ہیں
آنکھ اٹھا کر وہ دیکھتا ہی نہیں
ہو کے ہم عشق میں بے نام و نشان بیٹھے ہیں
رات دن اشکبار رہتے ہیں
اس بت کی طبیعت کو ہم خوب سمجھتے ہیں
شب غم کی بلا ہے اور میں ہوں
بھڑکا جو ان کا شعلۂ عارض حجاب میں
کہاں نصیب ہیں اب وصل گلعذار کے دن
رکھا جو ہم نے پاؤں تری جلوہ گاہ میں
ممکن نہیں کسی کا جو ایسا جمال ہو
ردیف الواؤ
اس طرح عزت میں ہے مجھ کو وطن کی آرزو
جب نہ ہو دل ہی تو پھر دل میں تمنا کیوں ہو
کیوں عرصہ گاہ حشر میں جھگڑا سوا نہ ہو
کوئی بے پردہ کیا دیکھے تمہارے روے روشن کو
کرو جو وعدہ تو پھر انتظار ہو کہ نہ ہو
آفتیں سیکڑوں ہیں عشق میں اک جاں کیساتھ
ردیف الہاے ہوز
میں کیا کہوں جو اے ستم ایجاد ہو گئی
ہے تری آنکھ بھی غضب کی آنکھ
ردیف الیاے تحتانی
یہ دل داغدار اور ہی ہے
ہیں دل میں ہمارے ترے ارمان کئی دن سے
دیکھ کر بے ساختہ ان کو محبت آگئی
جان بھی گر کوئی نثار کرے
بھرئے دم مرا نکلتا ہے
جاے کس طرح سے وحشت ترے دیوانوں کی
دل جو بے اختیار جاتا ہے
فرقت کی شب نہ آنکھ ہماری ذرا لگی
تیغ اس کی اگر رواں نکلی
یہاں کس نے سنی فریاد میری
جب وہ ظالم مکان سے اٹھتا ہے
رونق ترے چمن کی نہ اے باغباں گئی
نہ پوچھو مجھ سے اس کی شکل پرانوار کیسی ہے
کب دلمیں مرے اس کی محبت نہیں ہوتی
پھلے پھولے ترا باغ حکومت اے شہ آصف
خیال اس کا کہاں دل سے دور ہوتا ہے
دل لگایا اب تو جو عالم رہے
ہم نے بس تیری محبت دیکھ لی
وہ تو وعدے ہزار کرتا ہے
اس کو خموشی کی تاب دیکھئے کب تک رہے
رنگ بہار جہان دیکھئے کب تک رہے
افسردہ دل ہر ایک جو اس گلستاں میں ہے
لب پہ نالہ بھی ہے فغاں بھی ہے
کیوں نہ پچتائیں ہم وفا کرکے
گو شرم وحیا سے وہ مقابل تو نہیں ہے
ان کو نفرت وفا کے نام سے ہے
کہاں سے آئے ترے عشق میں قرار مجھے
کروں کیا سخت آفت ہو گئی ہے
بیقراری دل مضطر کی ہو کم تھوڑی سی
تم کو اک شیوۂ بیداد جفا آتا ہے
کیا کر گئی ہے چاہ بھی تاثیر کسی کی
مانوس مرا دل ہو اگر رنج ومحن سے
کون و مکاں سے ہم جو گئے بے خبر گئے
ساتھ اپنے رنج وغم لیجائیں گے
یوں چھپاے ہوئے جاتا ہے جو صورت کوئی
ہر اک اس پہ شیدا ہوا چاہتا ہے
جلوہ دیکھا جو خود نمائی کا
مل کر گئے وہ مجھ سے الٰہی ستم ہوا
دل ہے جو مئے عشق سے مستانہ کسی کا
جگر کو روکتے ہیں دل کو تھام لیتے ہیں
وہ دل ہے جس میں تیری آرزو ہو
جب ملاتا ہے تری مژگاں سے جوہر آئینہ
کھل گیا راز محبت آہ سے
کون سا شکوا کروں میں اس جفا کردار کا
اشعار متفرقات
ردیف تاے ہندی
خالی نہیں ہے اس سے ذرا بھی تو جسم زار
ردیف جیم عربی
نہیں رہنے کے کل ہم ہیں جہاں آج
ظلم سے ہات اے ستمگر کھینچ
ردیف جیم فارسی
ردیف حاے مہملہ
کب وہ رہتے ہیں دل و جان کی طرح
صبر و شکیب کرتے نہیں تفتہ جاں پسند
یہ دل لوٹ ہے عشق کے درد و غم پر
ردیف راے مہملہ
کیا ہے وہ چشم فتنہ زا گستاخ
ردیف خاے معجمہ
ردیف الدال
جان سے پیشتر گیا ہے دل
ردیف لام
وہاں بھی جو گھبراے وحشت سے ہم
ردیف المیم
ردیف النون
حیرت ہے ان کو آئینہ سے کچھ حیا نہیں
ردیف ہائے ہوز
جب وہ چلتے ہیں ایک شرارت سے
آئینہ ہاتھ میں وہ دیکھ رہے ہیں لیکر
ردیف الواو
ردیف یاے تحتانی
انکا مطلب ہے زیادہ ہو یقیں وعدہ کا
رباعیات
قصیدہ بہ تقریب جش سالگرہ مبارک نواب میر محبوب
قطعات تواریخ
AUTHORअबदुस्समद वासफ़ी
YEAR1898
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER मतबा फ़ख़्र-ए-निज़ामी
AUTHORअबदुस्समद वासफ़ी
YEAR1898
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER मतबा फ़ख़्र-ए-निज़ामी
سرورق
اللہ رے اثر حمد الٰہی کی رقم کا
ردیف الف
جب سے دل اپنا ہوا والہ وشیدا تیرا
تو جو کونین کا سردار ہوا
ہر وقت تڑپنا ہے اب کام مرے دل کا
کیا کیجئے بس میں دل شیدا نہیں رہتا
کرتا ہوں بار بار جو ذکر اضطراب کا
گو وہ نہیں خیال تو اس کا مکیں ہوا
یہ غضب ہے اے ستمگر کہ ہر اک کو مار کہنا
ہر دل میں غم عشق نہاں ہو نہیں سکتا
لوٹنا دل کا تجھے مد نظر تھا کہ نہ تھا
یاس ہوتی کبھی دل میں کبھی ارمان ہوتا
جلوۂ ہوش ربا رشک قمر دیکھ لیا
تمہیں قسم ہے تغافل نہ اس قدر کرنا
عشق میں دل نے کوئی کام ہی کرنے نہ دیا
تو تڑپ کر ہاے رسوا ہو گیا
آپ کے اعتبار نے مارا
ادھر گئے وہ ادھر دم مرا روانہ ہوا
کب وہ دل کو نگہ ناز سے مارا نہ گیا
مجھے یاد ہے ڈرتے جانا کسی کا
کوئی عاشق جہاں میں ہو کس کا
کب ارمان ترا دل سے اے یار نکلا
دوستی کا لطف اے بیداد گر جاتا رہا
کام یہ حسب مدعا نہ ہوا
نہ مجھ سے جیتے جی بیزار رہنا
دیر کس واسطے کی قتل اگر کرنا تھا
بعد مرنے کےکرے کیوں کوئی ماتم اپنا
میرے مرنے کا اسے غم ہو چکا
اس کو دل میں بھی جو رکھا نہ رہا
تمہاری چاہ سے حاصل نچاہوگے تو کیا ہوگا
طرز ناز و ادا کو چھوڑ دیا
غیر کا رشک عذاب شب ہجراں دیکھا
کبھی کچھ خوشی کچھ کبھی غم رہا
خدا کرے کہ برا ہو شکستہ پائی کا
شب ہجراں کا ڈر نہ جائیگا
ستم روزگار کو دیکھا
زندگی میں تو نہ آیا پس مردن آیا
ہوا کب وہ بت پر فن ہمارا
روبرو جب وہ بت آئینہ سیما ہوتا
رنج دل سے ترا نہیں جاتا
مرے گھر آؤگے اس طرح مہمان میں نہ سمجھا تھا
کر دیا لیتے ہی دل تو نے بت کافر خراب
ردیف البائے موحدہ
آئینہ پر تری نظر ہے اب
مجھ کو رہتا ہے شب فرقت میں کیا کیا اضطراب
ردیف الباے فارسی
شکل آئینہ کو دکھائیں آپ
ردیف التاے فوقانی
کب ان کے آگے قول ہمارا ہوا درست
کبھی خزاں کی کبھی ہے بہار کی صورت
ہوگا کبھی نصیب بھی مجھ کو وصال دوست
ردیف التاے ہندی
آج کر لیجے کوئی وصل کا پیماں جھٹ پٹ
ردیف الثاے مثلثلہ
دل ہوا اپنا داغدار عبث
کب میرے دل سے دور ہے تشویش فکر سوچ
ردیف الجیم عربی
ردیف الجیم فارسی
ایک حالت پر نہیں اس کا مزاج
ردیف الحاے مہملہ
ہوتی نہیں جو ہجر کی شب آشکار صبح
ردیف الخاے معجمہ
کس قدر ہے تری طبیعت شوخ
کرے کیا کوئی وصف شان محمد
وہ سنبھالیں تیغ کو کس واسطے خنجر کے بعد
ردیف الذال معجمہ
لگاؤں کیون نہ آنکھوں سے تری تحریر کا کاغذ
ہمیشہ ٹوٹ پڑتا ہے فلک الفت کے ماروں پر
ردیف الراے مہملہ
بے ترے ہم بسر کریں کیونکر
نہیں قابو مرا طبیعت پر
دل میں عشاق کے رہتے ہیں وہ کیا کیا ہوکر
ہم نے دیا تھا دل تجھے دلدار دیکھ کر
ردیف الزائے معجمہ
نہ ہو افسردہ اپنا دل داغدار ہر گز
ردیف السین مہملہ
حسرت دیدار اگر لے بھی گئی چلمن کے پاس
وہ کچھ ہوتے چلے نام خدا خوش
ان سے ہم کرتے ہیں اگر اخوت
ردیف الصاد مہملہ
ردیف الضاد معجمہ
انکار سے غرض نہیں پیماں سے کیا غرض
آشنا کو ہے آشنائی شرط
ردیف الطاے مہملہ
وصل میں بھی تو نہیں جاتا لحاظ
ردیف الظاے معجمہ
ہیں مرے دل میں لاکھوں ارمان جمع
ردیف العین مہملہ
مرے دل میں فقط خالی نہیں داغ
ردیف الغین معجمہ
ردیف الفا
خط تمہارا صاف ہے تحریر صاف
ردیف القاف
کہتا ہوں بات بات پہ میں ماجراے شوق
مرے دل میں ارمان سمائیں کہاں تک
ردیف الکاف فارسی
ردیف الکاف تازی
تو نے کیا ہے ذبح جو قاتل الگ الگ
ہر اک کو دے خدا بے مدعا دل
ردیف اللام
رنج سے فرقت کے جب گھبراے دل
ایسے جلے ہیں عشق میں سوز نہاں سے ہم
ردیف المیم
ردیف النون
کبھی وہ وعدہ کرتے ہیں کبھی انکار کرتے ہیں
زاہد جو وجد میں ہے تو صوفی ہے حال میں
پھر نجائے تری نگاہ کہیں
عاشقی میں خراب ہم بھی ہیں
اسیر رنج و مصیبت وہ کون ہے میں ہوں
تجھے ہم جب اے فتنہ گر دیکھتے ہیں
میں اپنے دل کی حقیقت کہوں تو کس سے کہوں
دل سے زیادہ انکا کوئی راز داں نہیں
آئینہ میں نگاہ کرتے ہیں
سیکڑوں دل کے طلبگار چلے آگے ہیں
مٹ چکے ہم لذت بیداد میں
دل میں رہتے ہیں کب
ترا جمال جو اے گلعذار دیکھتے ہیں
آنکھ اٹھا کر وہ دیکھتا ہی نہیں
ہو کے ہم عشق میں بے نام و نشان بیٹھے ہیں
رات دن اشکبار رہتے ہیں
اس بت کی طبیعت کو ہم خوب سمجھتے ہیں
شب غم کی بلا ہے اور میں ہوں
بھڑکا جو ان کا شعلۂ عارض حجاب میں
کہاں نصیب ہیں اب وصل گلعذار کے دن
رکھا جو ہم نے پاؤں تری جلوہ گاہ میں
ممکن نہیں کسی کا جو ایسا جمال ہو
ردیف الواؤ
اس طرح عزت میں ہے مجھ کو وطن کی آرزو
جب نہ ہو دل ہی تو پھر دل میں تمنا کیوں ہو
کیوں عرصہ گاہ حشر میں جھگڑا سوا نہ ہو
کوئی بے پردہ کیا دیکھے تمہارے روے روشن کو
کرو جو وعدہ تو پھر انتظار ہو کہ نہ ہو
آفتیں سیکڑوں ہیں عشق میں اک جاں کیساتھ
ردیف الہاے ہوز
میں کیا کہوں جو اے ستم ایجاد ہو گئی
ہے تری آنکھ بھی غضب کی آنکھ
ردیف الیاے تحتانی
یہ دل داغدار اور ہی ہے
ہیں دل میں ہمارے ترے ارمان کئی دن سے
دیکھ کر بے ساختہ ان کو محبت آگئی
جان بھی گر کوئی نثار کرے
بھرئے دم مرا نکلتا ہے
جاے کس طرح سے وحشت ترے دیوانوں کی
دل جو بے اختیار جاتا ہے
فرقت کی شب نہ آنکھ ہماری ذرا لگی
تیغ اس کی اگر رواں نکلی
یہاں کس نے سنی فریاد میری
جب وہ ظالم مکان سے اٹھتا ہے
رونق ترے چمن کی نہ اے باغباں گئی
نہ پوچھو مجھ سے اس کی شکل پرانوار کیسی ہے
کب دلمیں مرے اس کی محبت نہیں ہوتی
پھلے پھولے ترا باغ حکومت اے شہ آصف
خیال اس کا کہاں دل سے دور ہوتا ہے
دل لگایا اب تو جو عالم رہے
ہم نے بس تیری محبت دیکھ لی
وہ تو وعدے ہزار کرتا ہے
اس کو خموشی کی تاب دیکھئے کب تک رہے
رنگ بہار جہان دیکھئے کب تک رہے
افسردہ دل ہر ایک جو اس گلستاں میں ہے
لب پہ نالہ بھی ہے فغاں بھی ہے
کیوں نہ پچتائیں ہم وفا کرکے
گو شرم وحیا سے وہ مقابل تو نہیں ہے
ان کو نفرت وفا کے نام سے ہے
کہاں سے آئے ترے عشق میں قرار مجھے
کروں کیا سخت آفت ہو گئی ہے
بیقراری دل مضطر کی ہو کم تھوڑی سی
تم کو اک شیوۂ بیداد جفا آتا ہے
کیا کر گئی ہے چاہ بھی تاثیر کسی کی
مانوس مرا دل ہو اگر رنج ومحن سے
کون و مکاں سے ہم جو گئے بے خبر گئے
ساتھ اپنے رنج وغم لیجائیں گے
یوں چھپاے ہوئے جاتا ہے جو صورت کوئی
ہر اک اس پہ شیدا ہوا چاہتا ہے
جلوہ دیکھا جو خود نمائی کا
مل کر گئے وہ مجھ سے الٰہی ستم ہوا
دل ہے جو مئے عشق سے مستانہ کسی کا
جگر کو روکتے ہیں دل کو تھام لیتے ہیں
وہ دل ہے جس میں تیری آرزو ہو
جب ملاتا ہے تری مژگاں سے جوہر آئینہ
کھل گیا راز محبت آہ سے
کون سا شکوا کروں میں اس جفا کردار کا
اشعار متفرقات
ردیف تاے ہندی
خالی نہیں ہے اس سے ذرا بھی تو جسم زار
ردیف جیم عربی
نہیں رہنے کے کل ہم ہیں جہاں آج
ظلم سے ہات اے ستمگر کھینچ
ردیف جیم فارسی
ردیف حاے مہملہ
کب وہ رہتے ہیں دل و جان کی طرح
صبر و شکیب کرتے نہیں تفتہ جاں پسند
یہ دل لوٹ ہے عشق کے درد و غم پر
ردیف راے مہملہ
کیا ہے وہ چشم فتنہ زا گستاخ
ردیف خاے معجمہ
ردیف الدال
جان سے پیشتر گیا ہے دل
ردیف لام
وہاں بھی جو گھبراے وحشت سے ہم
ردیف المیم
ردیف النون
حیرت ہے ان کو آئینہ سے کچھ حیا نہیں
ردیف ہائے ہوز
جب وہ چلتے ہیں ایک شرارت سے
آئینہ ہاتھ میں وہ دیکھ رہے ہیں لیکر
ردیف الواو
ردیف یاے تحتانی
انکا مطلب ہے زیادہ ہو یقیں وعدہ کا
رباعیات
قصیدہ بہ تقریب جش سالگرہ مبارک نواب میر محبوب
قطعات تواریخ
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।